گردش دوراں
باتوں باتوں میں امی کہنے لگیں بڑے بھائی نواب نے چھوٹے بھائی آصف یعنی نجمہ کے والد کو آبائی مکان میں کوئی حصہ نہیں دیا۔ رات کے کھانے میں ٹیبل پر اچانک ہی کوئی بات نکل آئی تھی۔ امی بتا رہی تھیں کہ بڑے بھائی نے ابا کی بیماری میں کافی روپیہ خرچ کیا تھا لیکن جب مکان کے بٹوارے کا وقت آیا تب اس نے یہ شرط رکھ دی کہ ابا کی بیماری میں میری جو خطیر رقم خرچ ہوئی ہے اس میں سے آدھے پیسے مجھے واپس کرو تب تم اس مکان میں آدھے حصے کے حق دار ہو سکو گے۔ میں نے اس کی آگاہی تمہیں پہلے سے ہی کرا رکھی ہے۔ پیسے نہ دینے کی صورت میں مکان میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
حصہ بخرہ لگنے کے بعد مکان کے چھوٹے سے ٹکڑے کی قیمت اتنی بھی نہیں ٹھہری کہ آصف کو اس میں سے کچھ مل پاتا۔ آصف اپنے باپ دادا کا پشتینی گھر کسی بھی حالت میں چھوڑنے کو تیار نہیں تھا لیکن اسے زبردستی وہاں سے نکال دیا گیا۔ کہتے کہتے امی کی آنکھیں بھر آئیں چند لمحے کو ماحول پر سکوت طاری رہا۔ یہ سنتے ہی میرے دل کی حالت اس شہر خموشاں کی طرح ہو گئی جن کی آبادیاں اپنی چھتوں پر اوندھی پڑی ہوں جسے تیز و تند آندھیوں نے تلپٹ کر دیا ہو۔ پھر امی نے اپنا چشمہ اتار کر ٹیبل پر رکھ دیا اور ساڑی کے پلو سے آنسو پوچھتے ہوئے کہنے لگیں بڑے بھائی نواب نے غنڈوں کو بلا کر زبردستی ایک کرائے کے مکان میں سارا سامان منتقل کرا دیا اور اہل خانہ کو باہر نکال کر آصف کو وہیں روتا بلکتا چھوڑ دیا اور مکان میں تالا لگا کر چلتا بنا۔
اس سے آگے کی کہانی کا امی جان کو کوئی خاص علم نہ تھا ہاں چند برسوں میں کبھی ایک دو بار نجمہ کے گھر امی کا آنا جانا ہوا پھر اچانک ہی وہ لوگ بغیر کسی کو بتائے رحمت نگر سے ابدال چک منتقل ہو گئے۔ نجمہ کے بارے میں پوچھنے پر امی نے لاعلمی کا اظہار کیا، پھر یک دم ہی انہیں کچھ یاد آیا چشمہ لگاتے ہوئے کہنے لگیں، ہاں ایک ملاقات میں نجمہ کی والدہ نے انہیں بتایا تھا کہ اس کی شادی کی بات کہیں چل رہی ہے۔ اس کے والد آصف کے گوشت کی دکان حکومت کی جانب سے لائسنس دوبارہ نہ ملنے سے بند ہو گئی اور نجمہ میٹرک سے آگے تعلیم حاصل نہ کر سکی۔ وقت کی بے رحم گردش اور ظلم و جور کی آندھیوں نے ان کے آشیانے اور دکان دونوں اجاڑ دیے، غربت و افلاس نے ان کے گھر ڈیرہ ڈال لیا۔
امی میرے اور نجمہ کی شادی کے تعلق سے ذات پات کی کہنہ دیواروں اور معاشرے کی بدبودار ریت پر خفت و ہزیمت کا بوجھ لیے ہوئے کسی پرانی یاد میں کھو گئیں۔ نجمہ کے والد کا میرے رشتہ سے انکار اور اس جرأت پر گھر سے نکال باہر کرنے اور سخت تنبیہ کرتے ہوئے کرخت لہجہ استعمال کرنے کی شرمندگی و ندامت کی کہانی انہیں آج بھی خوب اچھی طرح یاد تھی، جسے وہاں پر دہرانے میں شاید کوئی مصلحت مانع رہی ہوگی اس لیے وہ خاموش ہو گئیں۔ گزری ہوئی باتوں کو یاد کر کے وہ چند لمحے کو ملول سی ہو گئیں اور چپ چاپ باورچی خانے سے سالن لانے چلی گئیں۔
ہم نجمہ کے مکان میں کرائے پر کئی برسوں سے رہ رہے تھے جس میں دو بھائیوں کا حصہ تھا لیکن کان پکڑ کر نکال باہر کیے جانے کے بعد اسی سے متصل پیچھے کی گلی میں دو کمرے کا ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لے کر وہیں رہنے لگے۔ اب میرے اور نجمہ کے مکان کا رخ متضاد سمت میں تھا جہاں نزدیکی کے باوجود مشرق و مغرب کا فاصلہ تھا۔ بیچ میں ایک گہری خندق کھدی ہوئی تھی جسے پھلانگنا انتہائی مشکل تھا۔ اب ہم دونوں کے بیچ ایک بیکراں سمندر کی مانند دوری تھی جسے پار کرنا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اس مختصر سی مدت میں ہم دونوں اتفاقاً کبھی دور سے ہی ایک دوسرے کو دیکھا کیے نہ کبھی بات کر سکے نہ ہی کبھی دوبارہ ملنا نصیب ہوا۔
والد صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آبائی گاؤں میں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی۔ میں دو سال قبل ہی ٹریننگ کے سلسلے میں دہلی آ گیا تھا۔ چند برسوں دہلی میں رہنے کے بعد ایک کمپنی میں میرا انتخاب ہو گیا اور میں کویت چلا گیا اور یوں زندگی کی ساری ہی پرانی یادیں پرت در پرت دھندلی ہوتی ہوئی وقت کے گرد و غبار سے اٹی پڑی ذات برادری کی ظالمانہ روش اور سونے چاندی کے گٹر خانے کی نذر ہوکر محبت کا کفن اوڑھے ہوئے زیر زمین مدفون ہو گئیں۔
دل کے نہاں خانے میں جو یادیں دفن ہو کر ایک بوسیدہ مرقد میں گل سڑ رہی تھیں جہاں کریدنے سے راکھ کے ہونے کا امکان بھی موجود نہ تھا جس کے باقیات کو مٹی نے کھا کر ہضم کر لیا ہوگا؟ جو کنواں سوکھ گیا تھا جس کے سوتے خشک ہو چکے تھے امی کی باتوں سے باد تند کی طرح ایک پتھریلی اور خشک زمین پر اچانک ہی برس پڑیں۔ اولے پڑنے لگے اور آندھیوں نے ایسا سماع باندھا کہ نجمہ کی بھولی بسری یادیں یکجا ہو کر بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں کے اندر سے اژدہوں کی طرح زبان نکالے لپک لپک کر مجھے ڈسنے لگیں۔
اس رات اتنی بارش ہوئی کہ ندی نالے جل تھل ہو گئے۔ سیلاب کا پانی دل کے راستے آنکھوں میں اتر آیا اور پرانی یادوں نے دامن کو آنسوؤں سے تر کر دیا۔ اب دل کو ذرہ برابر سکون حاصل نہ تھا۔ آٹھ دس برس کے اس طویل وقفے نے زندگی کی ساری ہی قدروں کو اب تک تہہ و بالا کر دیا ہوگا؟ انہیں سوچوں میں گم کسی وقت نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ دوسری صبح رخت سفر باندھا اور امی سے بہانہ بنا کر نجمہ سے ملنے کی آرزو لیے ہوئے گھر سے نکل پڑا۔
دہلی سے رانچی کا یہ طویل سفر ٹرین سے تقریباً بارہ تیرہ گھنٹے کا تھا۔ گمان غالب تھا کہ نجمہ بال بچوں والی ہو گئی ہوگی؟ اس کے بچے کسی اچھے اسکول میں پڑھ رہے ہوں گے؟ اس نے اب اپنا ذاتی مکان خرید لیا ہوگا؟ وہ اپنے شوہر کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہوگی؟ پتہ نہیں اس سے ملنا مناسب رہے گا بھی یا نہیں؟ لیکن اگلے ہی لمحے دل نے یہ تسلی کرا دی کہ پوچھنے پر کہہ دوں گا یہاں کچھ ضروری کام سے آیا تھا سوچا آپ سب سے ملتا چلوں، یہ سوچ کر قدرے اطمینان حاصل ہوا۔ خیالات کا ایک تانتا بندھا ہوا تھا جو زنگ آلود زنجیر کی ایک ایک کڑی کی مانند ایک دوسرے میں پیوست آپس میں مضبوطی سے بندھے اور جکڑے ہوئے یکے بعد دیگرے ذہن کے مخدوش زینے سے اتر کر دل کے اندر سمائے چلے جا رہے تھے۔
مجھے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بھولی بسری یادوں کی چمک نمودار ہوگی بھی یا نہیں؟ میری محبت کی کوئی رمق اس کے دماغ میں اب تک شاید ہی کہیں موجود ہو؟ اس کے دل میں اب تک میرے پیار کی کوئی شمع روشن ہوگی یا کسی مزار پر ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی مانند بے رحم ہواؤں کی زد میں آکر ہمیشہ کے لیے بجھ گئے ہوں گے؟ میں انہیں سوچوں میں گم تھا کہ نیند آ گئی اور اگلی صبح ہم رانچی کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے۔
نجمہ اپنا پہلا کرائے کا گھر اور وہ محلہ جہاں ہم دونوں پاس پاس رہتے تھے جہاں ہم نے بچپن اور جوانی کے کچھ پل ساتھ ساتھ گزارے تھے اب چھوڑ چکی تھی۔ اسکول کی کچھ یادیں اب بھی وجدان میں کسی جونک کی طرح چمٹی پڑی تھیں، لیکن زیست کی بار معاشرے کی دو دھاری تلوار اور سماجی رسم و رواج کی بے رحم یلغار نے اسے قدرے دھمیلا کر دیا تھا۔
میں کسی کی رہنمائی میں بڑی مشکلوں سے بھٹکتے کھوجتے نجمہ کے گھر ابدال چک پہنچا۔ اس شخص نے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہی آصف کا گھر ہے، لیکن ان کے فوت ہوئے زمانہ گزر گیا۔ بھائی کے ظلم و ستم نے انھیں نڈھال کر دیا تھا مکان سے نکالے جانے اور کاروبار کے ختم ہونے سے مفلسی و تنگ دستی نے انہیں وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا۔ ایک بیماری کی چپیٹ میں آکر بے بضاعتی و بے مائیگی کی زندگی گزارتے ہوئے وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
ابدال چک کی ایک تنگ و تاریک گلی میں دو کوٹھری کا ایک بوسیدہ سا کھپریل نما مکان تھا۔ دروازے پر دستک دیتے ہی ایک ادھیڑ عمر کی عورت باہر آئی۔ الجھے الجھے سے بال اڑی اڑی سی رنگت مجھے پہچانتے دیر نہ لگی یہ نجمہ تھی۔ اس کا وہ حسین مکھڑا اب کالا پڑ چکا تھا۔ معلوم ہوتا تھا جیسے دھوپ کی تپش نے اس کے چہرے کو شدید گرمیوں میں جھلسا دیا ہو۔ اس کی جوانی کی رعنائیوں کو غموں کی حدت نے نچوڑ لیا تھا۔ اس کا وہ مرمری حسن اور رنگ و روپ اب جھریوں کی آماج گاہ بن چکا تھا۔ چہرے پر شادابی و چمک دمک کا کوئی شائبہ باقی نہ رہا تھا۔ غربت و افلاس نے اس کی قبا چاک کر دی تھی۔ اس کے چہرے مہرے کی وہ پہلی سی خوبصورتی اور رونق غائب ہو چکی تھی۔ اس نے حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے فورآ ہی پہچان لیا، خوشی سے چہک کر میرا خیر مقدم کیا اور ایک تر و تازہ پھول کی طرح کھل اٹھی۔ اس نے تیز قدموں سے چلتے ہوئے اور ایک خوش الحان بلبل کی طرح چہکتے ہوئے اماں کو آواز لگائی اور جھنجھوڑتے ہوئے بولی، اماں اماں اٹھو دیکھو مامی کا بیٹا اصغر آیا ہے۔ وہ سب میری امی کو مامی کہہ کر ہی پکارتی تھیں۔
مکان کیا تھا ایک کھنڈر نما کافی پرانا گھر تھا۔ صدر دروازے کی چوکھٹ ایک چوتھائی زمین میں دھنس گئی تھی۔ اندر کے دروازے کا پلہ ایک طرف کو جھول رہا تھا۔ کھڑکیوں کے پلے لٹک گئے تھے۔ در و دیوار سے پلاسٹر جھڑ رہے تھے جس کا رنگ و روغن پوری طرح سے اتر چکا تھا۔ فرش میں جگہ جگہ دراڑیں صاف نظر آ رہی تھیں کہیں کہیں زمین بھی دھنسی ہوئی تھی۔ دیوار پر چھوٹے بڑے شگاف صاف دکھائی پڑ رہے تھے۔ چھپر کے سوراخ سے سورج کی شعائیں کئی جگہوں سے اندر آ رہی تھیں۔ ایک شکستہ پلنگ پر ایک پھٹا پرانا بستر بچھا ہوا تھا جس پر نجمہ کی بوڑھی ماں بیمار پڑی ہوئی محو خواب تھی جسے رہ رہ کر کھانسی کے دورے پڑ رہے تھے۔
نجمہ نے اماں کو سہارا دے کر اٹھایا۔ اب ان کی یادداشت پہلے جیسی نہیں رہی تھی، لیکن نجمہ کے بتانے پر وہ فوراً سمجھ گئیں۔ پھر مجھے قریب بلا کر میری بلائیں لی اور ڈھیر ساری دعائیں دیتی ہوئی کہنے لگیں کیسے کیسے ہم سب غریبوں کی یاد تمہیں آئی؟ کیا اتنے دنوں میں ہندوستان ایک دو بار بھی نہیں آئے؟ کیا ہم سب سے ملنے کا دل تمہیں نہیں کرتا تھا؟ پھر گھر میں سب کا حال احوال دریافت کیا۔ ان کی اتنی سی باتوں سے دل بالکل ہلکا سا ہو گیا اور فی الفور ہی طبیعت کی ساری کثافت دور ہو گئی۔
نجمہ کی اجڑی ہوئی غم زدہ و بے رونق سی زندگی دیکھ کر میری آنکھیں لبالب آنسوؤں سے بھری پڑی تھی اور دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ پتہ نہیں کیا معاملہ ہے؟ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ایسا کیا ہوا ہوگا جو ایک حسین و جمیل لڑکی جوانی سے بڑھاپے کی طرف چند برسوں میں اتنی تیزی سے واپس آئی؟ میں محو حیرت قدرے تعجب سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا نظریں بار بار اسی پر جاکر رک جاتی تھیں۔ دل کی کیفیت اس سمندر کی مانند تھی جس کا جوار ساحل پر آکر بار بار ٹکراتا رہا لیکن میرے صبر کی دیوار کو چھلانگنے کی ہمت نہ جٹا پایا۔
اس نے ایک پلاسٹک کی پرانی کرسی جس کا ایک پایہ متزلزل تھا میری جانب کھسکاتے ہوئے جلدی سے صاف کیا اور ایک چادر کی تہہ لگا کر اس پر بچھا دی۔ آرام سے سنبھل کر بیٹھئے گا کہتے ہوئے کرسی کو دیوار سے لگا دیا گیا۔ پھر وہ جلدی جلدی چائے بنا کر لے آئی تب تک میں اس کی اماں سے گزرے دنوں کی بہت سی باتیں کرتا رہا۔ باہر ایک چھوٹے بچے کو آواز دے کر بسکٹ کی ایک پیکٹ اور کچھ نمکین منگایا اور سامنے ایک چھوٹے سے ٹیبل پر رکھتے ہوئے اماں کی چارپائی کے کونے پر خاموشی سے بیٹھ گئی پھر میری والدین بھائی بہن اور بیوی بچوں کی خیریت دریافت کرنے لگی۔ بیچ بیچ میں اس کی اماں بھی گھر کی خیر و عافیت پوچھتی رہیں۔
میں نے قدرے توقف کے بعد اس کی جانب دیکھتے ہوئے اور بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا یہ بچہ تمہارا ہے؟ کاہے کا بچہ؟ اس بدنصیب کی شادی اب تک نہیں ہوئی۔ ماں نے بیچ میں ٹوکتے ہوئے کہا اور اپنے افسردہ چہرے پر ہاتھ پھیرا اور ساڑی کا پلو درست کیا۔ کھانسی کی دھونکنی پھر اٹھی نجمہ نے راکھ سے بھری ہنڈیا ماں کے منھ کے قریب لگایا انھوں نے زور سے کھنکار کر گلا صاف کیا پھر اپنے دونوں پیر چارپائی سے نیچے لٹکا دیے۔ دونوں ہاتھوں سے چارپائی کی لکڑی کا سہارا لے کر ایک لمبی سانس لی اور سرد آہ بھری اور سر جھکا کر اکڑوں بیٹھ گئیں۔
ایک چمکتی ہوئی تیز و تند بجلی برق رفتاری سے چھپر کے اندر سے ہوتی ہوئی دل و دماغ کو چیرتی ہوئی کرسی کی متزلزل پایہ پر آ کر ٹک گئی۔ میں یک لخت جھکا اور دائیں جانب دھڑام سے گر پڑا۔ نجمہ نے جلدی سے راکھ کی ہنڈیا زمین پر پٹکی اور مجھے سنبھالتے ہوئے کہنے لگی میں نے کہا تھا سنبھل کر بیٹھئے گا، کہیں چوٹ تو نہیں لگی؟
میرے دماغ کے کسی گوشے میں پرانی یادیں پگھل رہی تھیں اور دل کے اندر میری محبت کسی نامراد شئے کی مانند تیزی سے تحلیل ہو رہی تھی۔ تھوڑے وقفے کے بعد اس کی اماں نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا تم لوگوں کے جانے کے بعد اس نے پڑھائی چھوڑ دی، کھانے کے لالے پڑ گئے تھے، پڑھائی کیا خاک کرتی؟ اس کے باپ کا کاروبار حکومت کی تنگ نظری اور اپنوں کی بے اعتنائی سے ختم ہو گیا۔ بھائی کی کم ظرفی و ستم ظریفی نے گھر سے نکلنے پر مجبور کیا۔ اس کے باپ کو گزرے زمانہ ہوا تمہیں تو پتہ ہی ہوگا؟ اس نے شادی کرنے سے منع کر دیا کہنے لگی میں اب تمہاری خدمت کروں گی اور تمہارے ساتھ ہی رہوں گی ورنہ میرے بعد تمہارا خیال کون رکھے گا؟ کچھ لولے لنگڑے رشتے بھی آئے، لیکن اس وقت تک اس فقیر کے پاس لینے دینے کے لیے کچھ بھی باقی نہ بچا تھا۔ بڑی مشکلوں سے مانگ چانگ کر گھر چل رہا تھا، کون اس بدقسمت سے یونہی بغیر لیے دیے نکاح کرتا؟ اس کے باپ کی ضد اور معاشرے کے لعنتی و لالچی دیمکوں نے اس کی زندگی کی ساری خوشیاں چاٹ لیں۔ کہتے کہتے کھانسی پھر اٹھی نجمہ نے پانی کا گلاس بڑھایا، پانی پی کر وہ دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں۔
میرے دل میں معآ ہی ایک خیال پیدا ہوا کہ میں اس کی والدہ سے کہوں کہ میں آج اسی وقت نجمہ سے نکاح کر کے اسے لے جاوں گا ممکن ہو تو آپ بھی ساتھ چلیں۔ لیکن اب یہ فیصلہ لینا شاید ان کے لیے پہلے سے زیادہ دشوار تھا پھر بھی میں نے ڈرتے ڈرتے ہمت جٹا کر کہہ ڈالا۔ نجمہ یہ سن کر باورچی خانے کو چلی گئی۔ اماں کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں لگ گئیں۔ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہنے لگیں اب یہ ناممکن میں سے ہے معاشرے میں مزید ذلت و رسوائی کا سبب بنے گا لوگ کیا کہیں گے؟ اب یہ پہلے والی نجمہ نہ رہی اب یہ ایک ویران گھر ہے جہاں کوئی دیا باتی نہیں، جس میں کسی بشر کا گزر نہیں، اب یہ ایک کھنڈر نما حویلی ہے جس کے در و دیوار خستہ حال ہیں۔ اب اس کی عمر پینتیس ہونے کو آئی تمہاری شادی ہو چکی ہے تمہارے بچے بھی ہیں کیوں دوسرے کی زندگی پر جاکر بار بنے۔ اس کی یہی قسمت تھی تقدیر کے لکھے کو کون مٹا سکتا ہے۔
دعا ہے جہاں رہو خوش رہو، ہاں کبھی کبھی ہمیں یاد کر لینا اور فرصت ملے تو ملنے ضرور آ جانا۔ میری زندگی بھی اب چند دنوں کی مہمان ہے یہ کہتے ہوئے خالی نظروں سے مجھے دیکھنے لگیں پھر اپنا دونوں پیر بستر پر پسارا اور أف کی ایک مبہم سی صدا کے ساتھ بالکل خاموش ہو گئیں۔ کھانسی پھر اٹھی نجمہ بھاگی ہوئی باورچی خانے سے آئی پیٹھ تھپتھپایا سر میں تیل کی مالش کی اور ہم دونوں نے انھیں سہارا دے کر بستر پر آرام سے لٹا دیا۔ معمولی سے وقفے میں خراٹے کی آوازوں نے ساری اداسیوں اور خاموشیوں کو نگل لیا۔ مایوسی و ناامیدی نے زندگی کی پرانی تلخیوں کو بھلا دیا تھا۔
میں تھوڑی دیر یونہی خاموش بیٹھا رہا نجمہ بھی میرے سامنے بت بنی کھڑی رہی وہ بچہ بھی کونے لگ کر کھڑا تھا پھر ایک لفافے میں کچھ رقم اور اپنا موبائیل نمبر لکھ کر نجمہ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے بڑی سرعت سے اس کے گھر سے نکل آیا وہ روکتی رہی التجائیں کرتی رہی لیکن اب میرا دل پھٹا جاتا تھا آنکھیں رونے کو بیتاب تھیں دل کے اندر برداشت کی قوت اب بالکل باقی نہ رہی تھی غم و اندوہ اور رنج و الم کے تھپیڑے اب اور تیزی سے بار بار ساحل سے ٹکرا رہے تھے جسے سنبھالنا اب میرے بس میں نہ تھا۔ وہ پیچھے پیچھے دروازے پر الوداع کہنے آئی اور پتھر کی مورت بنی غمگین چہرہ لیے ہوئے اپنی پھٹی پھٹی نم آلود آنکھوں اور کھوئی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھتی رہی۔ تاحد نظر غبار ہی غبار تھا سورج مغرب کی جانب لڑھک کر زرد پڑ چکا تھا۔ میں نے جاتے جاتے اسے مڑ کر کئی بار دیکھا، پھر جلد ملیں گے کہتا ہوا اور روتا ہوا اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.