گرم ہوا
“یہ کیسی دیوارہے جو میرے بچوں کے بیچ حائل ہے۔ یہ کیسا بٹوارہ ہے جس نے بھائی کو بھائی سے اور ماں کو بیٹے سے جدا کر دیا ہے۔“
برسہا برس نے گزر جانے کے بعد بھی دادی اماں اس کرب سے چھٹکارا نہیں پا سکی تھیں۔ بٹوارے کے بعد جب منجھلے اور چھوٹے چچا نے یہاں سے جانے کا قصد کیا تو دادی اماں کو بھی ساتھ چلنے کے لیے زور دیا لیکن وہ کسی قیمت پر بھی جانے کے لیے رضا مند نہ ہوئیں۔ کہنے لگیں۔
”یہی ہمارا آبائی وطن ہے ۔یہیں ہماری جڑیں ہیں۔ اس سر زمین پر سالہا سال ہمارے بزرگوں نے راج کیا ہے۔ یہاں ہماری عظمتوں کی نشانیاں ہیں۔ یہاں کے ذرے ذرے سے مجھے پیار ہے۔ ان ہواؤں، ان فضاؤں میں میرے اپنوں کی خوشبو رچی بسی ہے۔ یہاں کے در و دیوار سے ہماری بہت ساری خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ اس جنت نشاں وطن کو چھوڑ نا کیا وطن سے غداری نہیں؟ جو وطن کو چھوڑ جاتے ہیں انھیں خدا کی ذات پر یقین نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں دوسری جگہ انھیں سکون ملےگا، تحفظ ملےگا اور عزت و توقیر ملےگی۔ وہ یہ نہیں سوچتے جو ہماری قسمت میں لکھ دیا گیا ہے وہ تو ہو کر ہی رہنا ہے۔ چاہے ہم دنیا کے کسی حصّے میں بھی چلے جائیں۔ نابا بانا! بے نام ونشاں بن کر مجھے در در کی ٹھو کریں نہیں کھانی۔”
یہ ان کا حتمی فیصلہ تھا۔ ان کے ارادے میں ایک عزم، ایک استقلال تھا۔ ابا کو بھی دادی اماں کے خیالات سے اتفاق تھا۔ وہ کہتے۔
”جہاں پیدا ہوئے ہیں وہیں جینا، وہیں مرنا ہے۔“
وہ حیران تھے۔
”یہ کیسی گرم ہوا چلی جس نے جڑ ہیاکھاڑ دی۔ ایک بھگڈر سی مچی ہے۔ جیسے انسان انسان نہ رہ کر بھیڑ بکری بن چکا ہے۔” دادی اماں نے کہا۔
”بھیڑ بکری بھی اپنے کھونٹے پرشیربن کر رہتے ہیں۔“
“اور اگر کھونٹا ہی کمزور ہو جائے؟“
چھوٹے چچا کب خاموش رہنے والے تھے۔
”تو اسے مضبوط کرنا ہے نہ کہاکھاڑ پھینکنا ہے؟“
دادی اماں دلیل پر دلیل دیئے جا رہی تھیں۔
لیکن ان کے بیٹوں پر تو جانے کی دھن سوار تھی سوکوئی بات ان کے ارادے کو متزلزل نہ کر سکی۔ وہ دادی اماں کو جدائی کے کرب میں مبتلا کر گئے۔ بیٹوں کی جدائی کو انھوں نے دل سے ایسا لگایا کہ بالکل گم صم ہوکر رہ گئیں ورنہ اپنے وقت کی وہ ایک زندہ دل خاتون تھیں۔ خوش مزاج خوش اخلاق اور خوش گفتار تھیں۔ امی بتاتی ہیں کہ اپنے بچپن سے لے کر جوانی تک کے بے شمار رنگین اور سنگین قصے وہ مزہ لے لے کر سناتیں اور اب تو جب بھی بات کر تیں تو صرف ان کی، جوان سے دور ہو گئے تھے۔ اوروہ جوگئے تو پھر ادھر کا رخ نہ کیا۔ انھیں قدم جمانے اور اپنی حیثیت بنانے میں سالوں سال بیت گئے۔
اس زمانے میں انٹرنیٹ عام نہ تھا بلکہ شاید تھا ہی نہیں۔ ٹیلی فون اور ٹیلی گرام بھی لوگ خال خال ہی استعمال کرتے تھے۔ ہاں ہر ماہ وہ خط لکھوانا نہ بھولتیں اور ہر بار تقریباً ایک ہی جیسا مضمون رہتا۔
”عزیز از جان بیٹے خوش رہو!
کیسے ہو؟ میری جان تو تم سب میں اٹکی رہتی ہے۔ تم یہاںسے گئے کیا کہ میرے دل کے دو ٹکرے ہو گئے۔ اب میرا حال کیا پوچھتے ہو بس تم سب سے ملنے کی آس میں جیے جا رہی ہوں۔ میں تمھارے پاس جا نہیں سکتی کہ ان بوڑھی ہڈیوں میں اتنی دور دراز کا سفر طے کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ ہو سکے تم ہی آنے کی کوشش کرو۔ اب میرے چل چلاؤ کا وقت آ گیا ہے۔ مرنے سے پہلے ایک آخری بار تم لوگوں کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ اب زیادہ جینے کی تمنا بھی نہیں کہ زمانے کیا اٹھاپٹک نے اندر توڑ پھوڑ سی مچا دی ہے۔ دل کی عجیب کیفیت ہے ۔سننے میں آتاہے کہ وہاں اس سے بھی برے حالات ہیں۔ خدا تم لوگوںکو اپنے امان میں رکھے۔( آمین)
ہر خط دعا سلام پر اختتام پذیر ہوتا۔
خط بھیجنے کے دوسرے ہی دن سے جواب کا انتظار شروع ہو جاتا۔ یہ سلسلہ سالوں سے چل رہا تھا۔ یہاں تک کہ لڑائی چھڑ گئی لیکن دادی امّاں یہ پوچھنا نہ بھولیتیں۔
“بیٹا! تیرے چچا کا کوئی خط وط آیا ہے؟“
”دادی اماں! میں نے آپ کو کتنی بار سمجھا یا ہے کہ لڑائی چھڑ گئی ہے۔ اب خط و کتابت، ٹیلی فون، ٹیلی گرام سب کچھ بند ہو گیا ہے۔ بلکہ ریڈیو پر وہاں کی خبریں سننے پر بھی روک لگادی گئی ہے۔“
”یہ کیسا ظلم ہے؟ خود لڑیں بھڑیں لیکن یہ اپنے پرایوں کی خیر خیریت سننے پر کیوں روک لگادی ہے؟“
”یہی قانون ہے دادی اماں۔“
”بھاڑ میںجائے یہ قانون۔“ پھر تھوڑے وقفے کے بعد پوچھا۔
”یہ لڑائی کتنے دن چلےگی بیٹی؟“ ان کی آواز کرب میں ڈوبی تھی۔
“لڑائی کی کوئی انتہا ہے دادی اماں! یہ تو چلتی ہی رہےگی۔ جب جب کوئی مسئلہ کھڑا ہوگا۔“
”اف! اب ملک کتنے حصوں میں تقسیم ہوگا اور دل کے کتنے ٹکرے ہوں گے؟“
ان کے چہرے پر فکر کی واضح لکریں تھیں جیسے انھیں کوئی الہام ہوا ہو۔ ان کی سمجھ میںنہیں آ رہا تھا کہ کس کے حق میں دعا کریں۔ ان کے دل کا ایک ٹکرا وہاں تھا تو دوسرا یہاں۔ کوئی جیتے کوئی ہارے اس سے انھیں کوئی مطلب نہ تھا۔ وہ تو یہ دعا کر رہی تھیں کہ راستہ کھل جائے اور بچےان سے آن ملیں۔
اب دادی اماں صبح شام ریڈیو کے سامنے خبریں سننے کے لیے بیٹھ جاتیں۔ ہاتھوں میں تسبیح ہوتی۔ لب ہلتے رہتے اور آنکھوں کے کٹورے اس طرح لبالب بھر جاتے جیسے اب چھلکے کہ تب۔ وہ مجسم دعا بنی رہتیں۔ ایک صبح ریڈیو کے سامنے وہ بے حس و حرکت پڑی ہوئی پائی گئیں۔
شاید انھوں نے جنگ بندی کا اعلان سن لیا تھا اور اتنی بڑی خوشی سہہ نہ سکی تھیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.