Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گرمی (Syphilis)

انور قمر

گرمی (Syphilis)

انور قمر

MORE BYانور قمر

    ایک بے ضرر سی پھنسی چند روز میں گھاؤ کی شکل اختیار کرچکی تھی اور وہ گھاؤ اب ایک رستے ناسور میں تبدیل ہوچکا تھا۔ ایک کیکڑا نما ناسور کہ جس کے بیچ میں ذرا سا شگاف تھا اور اس شگاف کے اطراف کی جلد سخت ہوچکی تھی اور سرخ بھی!

    بھاری پیروں سے وہ پیشاب خانے کے باہرآیا۔ قینچی مارکہ سگریٹ جیب سے نکال کر منھ سے لگائی۔ پھر ماچس نکالی۔ ماچس خالی تھی۔

    ’’اس کی ماں۔۔۔‘‘ اس نے ڈبیہ داہنی طرف اچھال دی۔

    باپٹی روڈ کے ناکے پر واقع بیڑی والے کی دکان پر رک کر جوٹ کی سلگتی رسی سے اس نے سگریٹ سلگایا اور وہیں کھڑے کھڑے دو کش لیے۔ بھاری پیروں سے وہ آگے بڑھا اور بائیں طرف شکلاجی اسٹریٹ میں مڑگیا۔ سڑک کے بائیں طرف داؤد باغ تھا اور دائیں طرف تھے ویشیاؤں کے کٹہرے۔ چھوٹا سا داخلی دروازہ، اندر اونچا پلنگ، پلنگ پرمیلے چیکٹ گدے، گدوں پر گہرے رنگ کی چادر۔ آڑی ٹیڑھی صورتوں کی عورتیں، تنگ بلاؤز اور گھیردار لہنگا پہنے، راہ گیروں کو تاکتی اسے نظر آئیں۔

    ’’ان کی ماں۔۔۔ مادر۔۔۔ نے میری زندگی تباہ کرکے رکھ دی۔‘‘

    آخ۔۔۔ خ کی آواز بہت کھنچی۔ پھر اس نے بہت سا بلغم ان کی طرف تھوک دیا۔

    ’’اس بھڑوے کو دیکھو۔‘‘ ایک نے ہاتھ لہراکر اس کی طرف اشارہ کیا، ’’حرام کے جنے کا ہم نے کچھ کھایا ہو جیسے!‘‘

    دوسری نے مسکراکر اس کی حرکت نظرانداز کی اور پیشہ ورانہ انداز میں ربر کے گتے کی طرح گردن اوپر نیچے ہلانے اور لہنگا بھی اچکانے لگی۔

    وہ خوں خوار نظروں سے انھیں گھورتا آگے بڑھ گیا۔

    ’’آجا میری برباد محبت کے سہارے، ہے کون جو بگڑی ہوئی تقدیر سنوارے۔‘‘ نور جہاں بہ آواز بلند فریاد کر رہی تھی۔ سائیکل کی دوکان پر پہیے کے گھیرے کی گولائی ٹھونک ٹھونک کر درست کی جارہی تھی۔ پسینے میں تر ایک بوڑھا کبابی کچے قیمے کی ٹکیاں ہتھیلی پر جما جما کر کڑکڑاتے تیل میں چھوڑ رہا تھا او رٹکیاں پلوں میں بھوری مائل ہوتی جارہی تھیں۔

    اپریل کا مہینہ۔۔۔ دوپہر کا وقت۔۔۔ بمبئی کی گرمی۔۔۔ پسینے کی پتلی سی دھار اسے اپنی پیٹھ پربہتی محسوس ہوئی۔ کسمساکر جلد سے چپکی ہوئی نائیلون کی قمیص اس نے الگ کی۔ دفعتاً اسے اپنے جسم کے اس مخصوص عضو پر بیٹھے سنگین پیٹھ والے کیکڑے کا پھر خیال آیا۔۔۔ آخر مجھے کب اس کیکڑے کی مہلک گرفت سے نجات ملے گی؟

    وہ تو ایک بے ضرر سی پھنسی تھی۔ چند روز میں اس نے ایک گھاؤ کی شکل اختیار کرلی اور پھر وہ گھاؤ ایک رستے ناسور میں بدل گیا۔۔۔ اُف! کتنا بدبودار فاسد مادہ خارج ہوتا ہے اس سے! کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے جسم کی تمام قوت قطرہ قطرہ ہوکر اس راہ سے بہہ نکلے۔

    اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔۔۔ سرکا پسینہ گردن پر سے گزرتا ریڑھ کی ہڈی پر ٹھنڈا ٹھنڈا پھر سے بہنے لگا۔۔۔ اس کے ہاتھ پاؤں شل ہوگئے اور جسم بالکل بے وزن سامحسوس ہونے لگا۔

    اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی راہ کیوں کر طے کر رہا ہے۔۔۔ خیراتی اسپتال کی راہ۔۔۔ اس کے لاشعور میں اس اسپتال کا سنگین اور بے حس وارڈ سیکڑوں کراہیں لیے موجود تھا۔۔۔ لمبی قطار۔۔۔ لمبوترے چہرے۔۔۔ لمبوتری ناک۔۔۔ لمبوترے دانت، لمبے ناخنوں اور لمبی بیماریوں کے ساتھی مریض۔۔۔ پندرہ لاکھ پوٹنسی(POTENCY) کی تیل آمیز پینی سلین پام۔۔۔

    ’’سالے انجکشن کا ہے کو لیتا ہے۔۔۔ یہ ملّم لے جا۔۔۔ اور لگا اس پر۔۔۔ جلدی اچھا ہوجائے گا۔۔۔ دیکھتا نئی ہے۔۔۔ کتنی جاڑی سوئی مارتا ہے وہ کھڑوس ڈاکٹر؟‘‘

    ’’آ۔۔۔ آہ۔۔۔‘‘ ایک دبی دبی سی چیخ انجکشن لیتے ہوئے مریض کے منھ سے نکلی۔ ڈاکٹر نے ابھی ابھی اس کے بازو میں سوئی گھونپی تھی۔

    اسماعیل لرز کر رہ گیا۔۔۔ ایک روپے کا نوٹ اپنے مخاطب کو تھماکر وہ اس انجکشن کی سربہ مہر شیشی گھر لے آیا۔

    رات میں کھانا کھانے کے بعد وہ پاٹ اٹھائے جب انہی بھاری پیروں سے پاخانے کی اور چلاتو اُس کے پاجامے کی جیب میں وہ شیشی جھول رہی تھی۔۔۔ آٹھ دس کمرے چھوڑ کر چالی کی لڑکیاں ایک دوسرے کی چونچ میں چونچ دیے بیٹھی تھیں۔۔۔ جب وہ ان کے قریب سے گزرا تو وہ کھلکھلاکر ہنس دیں۔۔۔ اس ہنسی کے ساتھ ساتھ ان کے جسموں سے اٹھتی ہوئی کچے آموں کی خوشبو بھی اس کی حسوں سے ٹکرائی۔۔۔ اس کے ذہن کے کسی حصے پر کہکشاں سی گری۔۔۔ اچانک اس کے دامن میں ابھار پیدا ہوگیا۔۔۔ اس کا جی چاہا کہ چالی کی یہ نیم تاریک راہ لمبی اور لمبی ہوتی چلی جائے۔۔۔ اور جہاں یہ ختم ہو، وہاں ہو کھلا میدان۔۔۔ اور آسمان پر ہوں ستارے اور اس کی گود میں ہوں آم کی یہ پٹاریاں۔

    پہلی دوسری اور پھر تیسری شیشی کا مرہم وہ اپنے زخم پر مسلسل لگاتا رہااور آٹھ دن تک اس کا چمتکار دیکھنے کا منتظر رہا لیکن جو زہر خون میں حل ہوکر اس درخت کی جڑوں میں پرورش پانے والے جرثوموں کو فناکرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا، وہ کیوں کر اس کی شاخ کے زخم پر ایک اکسیر مرہم کا کام کرسکتاتھا۔ وہ قطعی بے اثر ثابت ہوا۔

    اس نے جیب سے دوسری قینچی نکالی۔ ایک بیڑی کی دوکان پر جلتی چمنی میں کانپتی انگلیوں سے تھامی ہوئی کترن ڈبوئی اور پھر اس کی مدد سے اپنا سگریٹ سلگالیا۔

    لمبا کش۔۔۔ جس کے سرور سے اس کی آنکھیں بند ہوگئیں۔

    سڑک پر اطراف کی تمام گلیوں اور محلوں کا کوڑا ڈھیر تھا۔۔۔ بدجانوروں سے مشابہت رکھنے والے بچے اس ڈھیر کو کرید رہے تھے۔۔۔ وہ اوبڑ کھابڑ فٹ پاتھ پر چلنے لگا۔

    ایسی ہی ایک دوپہر تھی جب وہ گھر سے بیگن کا بھرتہ، ماش کی پھریری دال اور تہاری کھاکر لوٹ رہا تھا۔ اس کی نظر ایک ٹیکسی ڈرائیور پر پڑی کہ جو سڑک کے ایک جانب کھڑی اپنی ٹیکسی میں بیٹھا تھااور ایک کسے بدن کی سانولی سلونی عورت سے اشاروں ہی اشاروں میں باتیں کیے جارہا تھا۔۔۔ وہ بھی دانتوں میں پلو لیے اس سے کوئی گمبھیر معاہدہ کر رہی تھی۔

    اس کے کانوں کی لویں گرم ہوگئیں۔۔۔ جلدی سے اس نے اپنی قمیص کا دامن کھینچ کر پتلون سے باہر کرلیا۔

    پھر تو کارخانے کو آتے جاتے وہ اس سانولی سلونی کسے بدن کی عورت کو تاکاکرتا۔۔۔

    اور ایک دن صبح سویرے کہ جب وہ ڈیوٹی کو جارہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ وہ اپنے بالوں سے پانی جھٹک رہی ہے اور اس کی بغل میں دو موٹے موٹے سفید کبوتر دبے ہیں۔۔۔ ایک لمحہ کے لیے وہ وہیں رک گیا۔۔۔ اسی لمحہ اس کا تصور اسے اس عورت کے پاس لے گیا اور جاتے ہی اس نے ان کبوتروں کو اپنی دونوں مٹھیوں میں بھر لیا۔۔۔ اس کے کانوں میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں۔۔۔ آنکھوں کے سامنے مخملی اندھیرا سا چھا گیا۔۔۔ سرخ، ہرے، پیلے، سنہری رنگ اس اندھیرے میں ایک دوسرے سے لپٹنے لگے۔۔۔

    وہ اپنے خیالوں میں کھوئی بالوں سے پانی جھٹک رہی تھی کہ اچانک اسے محسوس ہوا کہ کسی کی نظریں اس کی بغلوں میں پیوست ہوئی جارہی ہیں۔۔۔ تیزی سے الگنی سے توال کھینچ کر، اس نے اپنے سینے پر ڈال لیا۔۔۔ اور پھر وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر مسکرائی۔

    پھر تو وہ کبوتر وہاں سے اڑے اور اس کے سرپر ایک ہم رو کی طرح پرواز کرنے لگے۔ کبھی وہ اسے کسی عمارت پر بیٹھے نظر آتے، تو کبھی کسی دکان پر۔۔۔ کبھی اس نے انہیں کسی راہ گیر کے سرپر بیٹھا دیکھا تو کبھی کسی موٹر کے مڈگارڈ پر۔۔۔ پریشان تو وہ اس وقت ہوا کہ جب وہ کبوتر اسے اپنے کارخانے میں مستری کی میز پر بھی بیٹھے نظر آئے۔

    بے بس ہوکر اس نے چھٹی لینے ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔ اسے یقین ہوچکا تھا کہ وہ آج کام پر قطعی دھیان نہیں دے سکتا، اس لیے اپنی بہن کی نسبت طے کیے جانے کے موقعے پر موجود رہنے کا بہانہ بناکر اس نے چھٹی لے لی اور سینٹرل اسٹیشن کے ایک ویران پلیٹ فارم پر بچھے بنچ پر جابیٹھا۔

    وہ کبوتر اب پلیٹ فارم پر اترآئے تھے۔۔۔ کبھی وہ اڑ کر چھت پر جابیٹھتے تو کبھی ریل کی پٹری پر! دو موٹے موٹے سفید کبوتر!

    نہیں یہ بدکاری مجھ سے نہیں ہوگی۔۔۔ وہ رنڈی ہے۔ بری عورت ہے۔۔۔ لیکن کتنی خوب صورت ہے وہ۔۔۔ اور اس کا جسم۔۔۔ اُف۔۔۔ اور وہ کبوتر۔۔۔ بڑے بڑے سفید کبوتر۔۔۔ نہیں نہیں یہ گناہ ہے۔۔۔ برے لوگ ہی ان کے پاس جاتے ہیں۔ لیکن وہ کتنے پیار سے مجھے دیکھ کر مسکرائی تھی اور وہ کبوتر۔۔۔؟ ایسے کبوتر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔۔۔ ایسے کبوتر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔۔۔ ایسے کبوتر۔۔۔

    ایک دُم دار ستارہ فلک کے کسی حصہ سے ابھر کر اس کے سامنے آیا۔۔۔ آں۔۔۔ ہآں۔۔۔ قدسیہ خالہ۔۔۔ جھولے پرہم بچوں کے بیچ بیٹھا کرتی تھیں۔۔۔ ان کے بازو ہمارے شانوں پر ہوتے تھے۔۔۔ اور جب کبھی کوئی بات انہیں لطف دے جاتی تو ایک پھلجڑی سی چھوٹتی ان کے منہ سے! اور پھر وہ ہمیں کس کر اپنے سینے سے لگالیتیں۔۔۔ کبوتر دب جاتے۔۔۔ اور ہمیں ان کا گداز اور گرم لمس کتنا اچھا لگتا۔ ایک مرتبہ تو وہ میرے خواب میں بھی آئیں تھیں۔۔۔ ایک راجکماری کے روپ میں۔ تو کیا میں اسے ان کا بدل سمجھوں؟ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ قدسیہ خالہ۔۔۔ اس سے بڑھ کر اور کون ساگناہ ہوسکتا ہے؟

    ایک خالی ریل گاڑی دوپلیٹ فارم چھوڑ تیسرے کے احاطے میں دبے قدموں داخل ہوئی۔ اسماعیل کو اس رات کی بات یاد آئی۔

    وہ بستر پر آنکھیں بند کیے دراز تھا اور اس کے والد کہہ رہے تھے، ’’کوشش میں ہوں، کسی اچھے علاقے میں کوئی جگہ مل جائے۔ یہاں تو چاروں طرف رنڈیوں کے کوٹھے ہیں۔ راہ چلنا دشوار ہے۔۔۔ قدم قدم پر بھڑوے راستہ روکتے ہیں۔۔۔ اب اسماعیل جوان ہوچکا ہے۔۔۔ پتہ نہیں کب قدم بہک جائے اس کا!‘‘

    اس کی ماں نے انہیں پان پیش کرتے ہوئے کہا، ’’نہیں جی، اتنی فکر مت کیجیے۔۔۔ اسماعیل بہت سمجھ دار ہے۔ وہ کبھی کوئی غلط کام نہیں کرے گا۔‘‘

    تو کیا یہ کوئی غلط کام ہے؟ چوری، دھوکہ بازی، بے ایمانی جیسا؟ لیکن اس آتش فشاں کا لاوا جو کھول کھول اٹھتا ہے؟ آخر کب تک میں اسے اپنے ہاتھوں کی راہ بہاتارہوں؟ اپنے مخرج سے نکل کر کبھی تو یہ سمندر میں گرے! کب۔۔۔ کب۔۔۔ وہ کبوتر۔۔۔ وہ سفید کبوتر۔۔۔ بغیر کوئی فیصلہ کیے وہ وہاں سے رخصت ہوا۔ اس وقت اسٹیشن کے گھڑیال میں ایک بج رہا تھا۔

    گھر پہنچ کر اس نے کھانا کھایا اور طبیعت میں گرانی کی وجہ ماں کو بتاکر بستر پر لیٹ گیا۔۔۔ وہ کبوتر اس کے کان میں غٹرغوں کرتے رہے اور مستی میں آکر رقص بھی کرتے رہے۔

    کوئی چھ بجے اس کی آنکھ کھلی۔ اس کا انگ انگ ٹوٹ رہا تھا۔ اس نے ماں سے نہانے کاپانی گرم کرنے کی درخواست کی اور خود دیوار سے ٹیک لگائے بستر پر بیٹھا رہا۔۔۔ چال میں چہل پہل تھی۔۔۔ وہ لڑکیاں ٹھٹھامار کر ہنس رہی تھیں۔۔۔ جب کوئی اس کے کمرے کے سامنے سے گزرتی تو ایک نظر اندر بھی ڈال دیتی۔۔۔ اور وہ سوچتا اس آم کی پٹاری سے کتنی مہک اٹھ رہی ہے۔

    نہاتے ہوئے اس نے اپنے آپ پر بہت قابو رکھا۔ ان لمحوں میں کبوتروں کو مٹھی میں بھینچ لینے کی خواہش بڑی شدید تھی لیکن اس کی ہزار ’ہاں‘ پر آج صرف ایک ’نہیں‘بھاری تھی۔۔۔ ایک گھنے بالوں والا ہاتھ بار بار اس کی طرف بڑھتا اور یہ اپنی پوری قوت صرف کرکے اس ہاتھ کارخ موڑدیتا۔

    نہادھوکر سر میں تیل ٹپکاکر جب وہ آئینے کے سامنے کھڑا بال بنانے لگاتو اسے اپنے چہرے پر خلاف معمول بڑی تمازت اور تازگی نظر آئی۔ وہ دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ آج اس نے اس ریچھ کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا بلکہ اس کاپنجہ مروڑ کر شکست دے دی۔

    لیکن۔۔۔ نہ جانے کس سمت سے وہ سفید کبوتر کمرے میں آدھمکے اور آئینہ کے اوپری سرے پر جابیٹھے۔۔۔ اس کاچہرہ سرخ ہوگیا۔۔۔ کانوں کی لوؤں سے خون ٹپکنے لگا۔۔۔ ہاتھ کانپنے لگے۔ جسم اینٹھنے لگا۔۔۔

    ’’نہیں نہیں۔۔۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔

    میں انہیں مات نہیں دے سکتا۔۔۔ میں ان کے سامنے اپنے آپ کو بے حد پست ہمت اور حوصلہ شکن پاتاہوں۔

    ماں کی پروسی ہوئی چائے پی کر وہ گھر سے باہر نکلا۔۔۔ مکان کی چھتوں اور کارخانوں کی چمنیوں کے درمیان میں کھڑے ناریل کے درخت پر اس کی نظر پڑی۔۔۔ درخت ہوا میں ڈول رہاتھا۔۔۔ اور اس پر وہ کبوتر بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔

    ’’اللہ اکبر!‘‘ جوں ہی اذان ہوئی، ان کبوتروں نے قلانچ ماری اور دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے اوجھل ہوگئے۔۔۔ کہاں چلے گئے؟ کہاں چلے گئے؟

    ان کے جانے سے اسے بہت خوشی ہوئی، مانو سر کابوجھ ہلکا ہوگیا۔۔۔ سینے پر سے بھاری پتھر اٹھ گیا۔۔۔ اس نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ عبادت اور بندگی سے مجھ میں یقین کی قوت اور ایمان کی گرمی ازسرنو پیدا ہو، جس کی بدولت میں ان نفس پرور پرندوں سے نبرد آزمائی کرسکوں۔ اس کے قدم مسجد کی طرف اٹھ گئے۔۔۔

    وضو کرکے بڑے خضوع و خشوع سے وہ نماز ادا کرنے لگا۔۔۔ فرض کی ادائیگی کے دوران میں خالق کائنات سے اپناناتہ جوڑتے ہوئے وہ اپنے آپ کو کمتر اورذلیل محسوس کرنے لگا۔۔۔ اس عظیم المرتبت، عظیم القدر، عظیم الشان ہستی کے آگے اس نے اپنے آپ کو بے مایہ، بے کس، بے وقعت اور شرمسار پایا۔ ان تین رکعت نماز کی ادائیگی کے بعد اسے اپنے قلب میں بے پناہ سکون محسوس ہوا۔ جس کی راحت کے زیر اثر دعاکرتے ہوئے اس کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔

    کچھ دیر رک کر اس نے دورکعت سنت پڑھی۔

    اور

    جب وہ آخری دورکعت نفل پڑھنے بیٹھا تو وہ کبوتر سجدہ گاہ سے نمودار ہوئے اور ممبر پر جابیٹھے۔۔۔

    انہیں دیکھتے ہی اس کے اعضا شل ہوگئے اور جسم بے وزن محسوس ہونے لگا۔۔۔

    جب مسجد سے اس کے قدم باہر نکلے تو اس کارخ اپنے مکان کی طرف نہیں تھا۔۔۔

    اس بات کو گزرے ہوئے دو مہینے بیت چکے تھے۔۔۔

    آج اسماعیل اسی راستے خیراتی اسپتال کو جارہا تھا۔۔۔ اور دوکبوتر بہت بلندی پر اس کے سر پر پرواز کر رہے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے