گٹاری کے انڈے
منھ میں کوئی کیڑا یا کوئی ننھّا مکوڑا یا ٹڈا تھامے گٹاری اپنے گھونسلے میں گھس جاتی۔ گھونسلے کا دروازہ ایک گول سوراخ ہی تو تھا۔ اوپر کی منزل میں کونے والے غسل خانے کی چھت پر جہاں ٹین کی چادر کا سرا کاریگر نے باہر کو بڑھا رکھا تھا۔ بس وہیں اس ٹین کے نیچے دیوار کے آخری سرے میں یہ سوراخ تھا جو گٹاری کے گھونسلے کا دروازہ تھا۔۔۔نیچے رسوئی کے دروازے پر کھڑے کھڑے بدھ سنگھ گٹاری کو اپنے گھونسلے میں داخل ہوتے دیکھتا اور سوچتا کہ ماں کی محبت دنیا میں سب سے بڑی چیز ہے، دُنیا کی کوئی چیز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
جب گلی کی ماں آیا پر ڈانٹ ڈپٹ کرتی کہ آج اس نے گلی کو وقت پر کھانا کیوں نہیں کھلایا، بدھ سنگھ کی نگاہ میں گٹاری کی شخصیت ابھر کر اونچی اٹھ جاتی۔ جب کوئی خوفناک بات ہوتی گٹاری کا جوڑا رسوئی کے بغل والے پیڑ پر بیٹھ کر ایسی ایسی آوازیں نکالتا کہ بدھ سنگھ بڑی چوکسی سے ادھر ادھر دیکھتا۔۔۔وہ کہتا ’’گٹاری سے بڑا انسان کا دوسرا دوست نہیں ہو سکتا۔۔۔سانپ کو دیکھ کر سب سے پہلے گٹاری ہی شور کرتی ہے۔‘‘ اس مکان میں ہمیشہ نہیں تو کبھی کبھار سانپ نظر آ جاتا تھا۔ گٹاری کی چیخ پکار ہی سانپ کی موجودگی کا پتہ دے دیتی۔ اس وقت بدھ سنگھ ہاتھ میں لٹھ اٹھائے سانپ کی تلاش میں نکل پڑتا۔۔۔جب سے وہ اِس گھر میں آیا تھا چنار کے نیچے تین چار سانپ مار چکا تھا۔
بدھ سنگھ آنکھیں پھاڑ پھاڑکر دیکھتا۔ بات کرتے وقت یوں سامنے آتا جیسے مداری کے سامنے جمورا۔ سامنے والے شخص کا جائزہ لیتا اور پھر نپے تلے انداز میں اپنا فلسفہ بگھارنے لگتا۔۔۔ ’’ہاتھوں سے دی ہوئی گانٹھیں انسان کو منھ سے کھولنی پڑتی ہیں۔ ہمارے گورو مہاراج کا کہنا ہے کہ سوچ کر بولو، سوچ کر کام کرو‘‘ گھر والے اس سے خوش تھے کیونکہ اپنے کام کے علاوہ وہ دوسروں کا کام بھی بخوشی کر دیتا۔ فرش پر بکھری ہوئی کتابوں کو ٹھیک کر دیتا۔ سانپ کا ذکر آنے پر تو وہ غصہ میں آجاتا۔ کہتا ’’میں اس پر جھپٹ پڑوں گا، ایک ہی ڈنڈے سے اُس کی سری توڑ دوں گا۔‘‘ اس کی آواز میں اتنی گرم جوشی تھی کہ اس کی بات پر یقین کرنا پڑتا۔ ضروری اور غیرضروری بات میں وہ بہت فرق نہیں کر سکتا تھا۔ وہی گرمجوشی، وہی ہلچل پیدا کرنے والی آواز۔ جب وہ بات کرتا تو اس کے ابھرے ہوئے گالوں کی ہڈیاں ابھرتی نظر آتیں۔ اس وقت اوپر کھڑکی کے دروازے پر بیٹھا گٹاری کا جوڑا تیکھی سی آواز میں بولنے لگتا۔ بدھ سنگھ سوچتا کہ گٹاری اس کو داد دے رہی ہے۔
کوئی بدھ سنگھ سے بات کرے نہ کرے، کبھی کبھی وہ رسوئی کے برانڈے میں اونچی آواز میں خود ہی باتیں کرتا رہتا۔ ابھی گھر کی کسی بات پر تبصرہ کیا جا رہا ہے۔ ابھی ریڈیو پر سنی ہوئی کسی خبر کو نمک مرچ لگایا جا رہا ہے، بات کرتے وقت وہ ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگتا۔ اسے اس بات کا سب سے بڑا اطمینان ہے کہ گھر میں اس کا اعتبار ہے اور وہ اپنا کام ایمان داری سے کرتا ہے۔۔۔جتنے مہمان آتے، ان کے ساتھ بُدھ سنگھ کا سلوک ہمیشہ خوشگوار رہتا۔ بچوں سے اسے بے حد محبت تھی۔ گلی کی ماں اُس پر اس لیے بھی خوش تھی کہ گلی کا جتنا خیال وہ رکھتا ہے، آیا بھی نہیں رکھتی۔ چنار کی ٹہنی پر بیٹھ کر گٹاری اپنی زبان میں کچھ کہنے لگتی تو بدھ سنگھ پاس کھڑے ہوکر اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا۔ اسے محسوس ہوتا کہ گٹاری کہہ رہی ہے۔۔۔بدھ سنگھ! میں جانتی ہوں کہ تم اکیلے تین آدمیوں کا کام کرتے ہو، وہ دل ہی دل میں خوش ہوتا۔ بڑی معصومیت سے وہ گٹاری کی طرف دیکھتا۔ جیسے کہہ رہا ہو۔۔۔میں تو تمھارا بھی اتنا ہی نوکر ہوں گٹاری! جتنا گلی کی ماں کا!
بجلی کے تار پر لٹکتا ہوا کوا بھی بدھ سنگھ کو جانتا تھا۔ کم سے کم بدھ سنگھ کا یہی خیال تھا۔ کوے کی کائیں کائیں سے بدھ سنگھ کو پتہ چل جاتا کہ کوا بھوک سے چلا رہا ہے یا خوشی کا سر پھیر رہا ہے، کبھی یوں بھی ہوتا کہ کوا غصہ میں ہوتا۔ اس وقت چنار کے پیڑ پر بیٹھی گٹاری چلاّکر بدھ سنگھ سے شکایت کرتی۔۔۔بدھ سنگھ لاٹھی گھماکر کوے کو اڑا دیتا۔ کیونکہ بدھ سنگھ کو معلوم تھا کہ گٹاری اور کوے کا پرانا بیر چلا آتا ہے اور کوے کی موجودگی میں گٹاری کو یہ محسوس نہیں ہو سکتا کہ اس کا گھونسلا سلامت ہے۔ کبھی کبھی وہ سوچتا کہ کوے اور گٹاری کا بیر ختم کیوں نہیں ہو سکتا۔ کوے اور گٹاری کی موجودگی میں وہ اپنے دل سے باتیں کرتے ہوئے اسی موضوع پر سوچنے لگتا اور پھر جیسے کچن کی دیواروں کو سُنانے کے لیے اونچی آواز میں کہنے لگتا ’’گٹاری تو بہت معصوم پنچھی ہے۔ وہ بیچاری تو کوے کو کچھ نہیں کہہ سکتی۔ کوا ہی اس کے بچوں کا دشمن ہے، کم بخت کو کسی کا گھونسلا اجاڑنے میں نہ جانے کیا ملتا ہے! اپنے آپ کو گٹاری کی خدمت کے قابل بنانے کے لیے وہ کوئی کسر نہ اٹھا رکھتا۔ ساتھ ہی اس کی یہ خواہش نہ تھی کہ گٹاری اس کا شکریہ ادا کرے۔ کوّے پر اسے غصہ آنے لگتا۔ شیطان کو گٹاری پر ذرا رحم نہیں آتا۔ آخر گٹاری اس کا کیا بگاڑتی ہے؟‘‘
صبح جاگنے پر بدھ سنگھ کی نگاہ گٹاری کے گھونسلے پر پڑتی۔ گٹاری کو گھونسلے کے قریب بیٹھے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتا۔ اس کی سب سے بڑی دلچسپی تھی گلی کو مسکراتے اور مچل مچل کر باغیچہ کی روش پر اچھلتے کودتے دیکھنا، گلی کی ماں کے مُنھ سے ایک آدھ تعریف کا بول سن لینا، یا پھر کسی مہمان کے مُنھ سے زمانے کے حالات پر ہلکا پھلکا سا تبصرہ سن کر اس کے بارے میں رائے قائم کرنا۔ لیکن اس سے ہٹ کر اگر اس کی کوئی دلچسپی ہوسکتی تھی تو وہ تھا گٹاری کا گھونسلا۔۔۔جب بھی گٹاری انڈے دیتی بدھ سنگھ سوچتا کہ گٹاری کی نئی نسل شروع ہونے والی ہے۔ انڈوں سے بچے نکلنے کا اسے بےحد انتظار رہتا۔ ان دنوں وہ خاص طور پر گٹاری کے گھونسلے کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لیتا۔ اس کی نگاہ سیدھی گٹاری کے گھونسلے پر پہنچتی حالانکہ زمین پر کھڑے کھڑے یہ ناممکن تھا کہ کوٹھی کی اوپر کی منزل میں کونے والے غسل خانہ کی چھت پر ٹین کی چادر کے بڑھے ہوئے سِرے کے نیچے دیوار کے آخری سرے کے گول سوراخ کے اندر کی دنیا کے بارے میں کوئی بات دریافت کی جا سکے۔۔۔کھڑکی پر بیٹھی گٹاری کی آواز میں لوری کی آمیزش دیکھ کر بدھ سنگھ اندازہ لگا لیتا کہ گٹاری کے انڈوں سے بچے نکل آئے ہیں۔
گٹاری انسان کی سب سے بڑی دوست ہے۔۔۔! یہ بدھ سنگھ کا تکیہ کلام تھا کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ آیا سے بات کرتے وقت وہ عورت کو گٹاری سے تشبیہ دیتا۔ لیکن اس کے باوجود عورت کا صحیح تصور بدھ سنگھ کے ذہن کو کبھی نہ گدگداتا۔ اسی لیے تو اس نے کبھی بھول کر بھی بیاہ کی بات نہ سوچی تھی۔ اس کے ہاتھ کام کرتے کرتے بہت کُھردرے ہوگئے تھے۔ بیوی ہوتی تو کبھی اس کے ہاتھوں پر تیل ہی چپڑ دیا کرتی، لیکن اس نے تو قسم کھا رکھی تھی کہ بیاہ کے جھگڑے میں نہ پڑےگا۔۔۔بیوی کی غیرموجودگی کا تصور اسے کبھی تنگ نہ کرتا۔ آیا کے چوڑے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے وہ اکثر سوچتا کہ بڑھیا اپنے بیٹوں کی سعادت مندی حاصل نہ کر سکی۔ ورنہ اس عمر میں اسے آیا کا کام کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس نے ایسے باپ بھی دیکھے تھے جن کے بیٹے ان پر بھوکے ریچھوں کی طرح جھپٹتے تھے۔ ایسی مائیں بھی دیکھی تھیں جن کے بیٹے بیویوں کے غلام ہوکر اپنی ماؤں کو ایسی جلی کٹی سنا ڈالتے تھے کہ سُننے والے کو منھ میں اُنگلی دبا کر رہ جانا پڑتا تھا۔ ایسے بیٹے پیدا کرنے سے کیا حاصل۔ بس یہی سوچ کر اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اکیلا رہےگا۔۔۔دم کا دم، نہ دھوکا نہ غم۔۔۔یہی اس کا فلسفہ تھا۔ پھر بھی گٹاری کے لیے اس کی محبت امڈی پڑتی تھی۔
بدھ سنگھ کا چہرہ کبھی اداس نہ ہوتا۔ اس کی آواز میں کبھی تکان کا گمان نہ ہوتا۔۔۔یہ وہ خود بھی جانتا تھا کہ وہ دوسرے نوکروں سے کتنا مختلف ہے، ایک طرح سے وہ چوبیس گھنٹے کا نوکر تھا۔ نوکری میں ناغے کا تو سوال ہی نہ اٹھ سکتا تھا۔ گلی کی ماں کو کبھی اس پر جرمانہ کرنے کی نوبت نہ آتی تھی۔ بلکہ وہ تو اس بات کے انتظار میں رہتی کہ کبھی بدھ سنگھ بھی چھٹی مانگے۔ ’’کبھی تو چھی بھی منانی چاہیے۔‘‘ گلی کی ماں اس سے کہا کرتی ’’مہینے میں ایک بھی چُھٹی نہ منائے تو انسان کی زندگی میں گھن لگ جائے!‘‘ لیکن بدھ سنگھ تھا کہ اسے گھن کا ڈر نہ تھا۔
گلی کی ماں کی ساس بھی تو اسی کوٹھی میں رہتی تھی۔ صحیح معنوں میں بدھ سنگھ گلی کی ماں کی ساس کا نوکر تھا جنھیں ہر کوئی احترام سے بھابوجی کہہ کر پکارتا تھا۔ بھابوجی پر تو بدھ سنگھ جان دیتا تھا۔ جب بھابوجی کبھی بیمار پڑتیں تو بدھ سنگھ آدھی رات کو اٹھ اٹھ کر پوچھتا۔ ’’بھابوجی! کچھ چاہیے تو نہیں؟‘‘ بھابوجی اسے بیٹے سے بڑھ کر سمجھتی تھیں۔ اسی لیے بھی بدھ سنگھ کسی بات سے جھنجھلاکر تھوڑا ناراض بھی ہوجاتا تو بھابوجی برا نہ مانتیں۔ ان کا خیال تھا کہ بدھ سنگھ دِل کا سچا ہے۔ اس کی بات چیت کا کھردراپن بھابوجی کو ذرا بھی تو نہ برا لگتا۔ کیونکہ بدھ سنگھ نے اپنے منھ سے یہ بھی تو نہ کہا تھا کہ اس کی تنخواہ بڑھا دی جائے۔ گلی کی ماں بدھ سنگھ پر اس لیے بھی خوش تھی کہ جہاں وہ بھابوجی کا پورا خیال رکھتا ہے وہاں ضرورت پڑنے پر خاص خاص مہمانوں کے آنے پر وہ سب چیزیں تیار کر دیتا ہے جن پر کشمیری رسوئیے کا ہاتھ ٹھیک نہیں چلتا۔
بھابوجی کچھ پرانے خیالات کی تھیں۔ اس لیے وہ گلی کی ماں کے کچن سے الگ اپنی رسوئی بنوائی تھیں۔ بدھ سنگھ ان کا رسوئیا بھی تھا اور پرائیوٹ اسسٹنٹ بھی۔ کیونکہ وہ ہرکام میں بدھ سنگھ کی صلاح لیتیں۔ گلی کی ماں کے بارے میں ان کی رائے بہت اچھی تھی اکثر وہ کہا کرتی تھیں کہ اگر کوئی ان کی سگی بیٹی بھی ہوتی تو شاید ان کی اتنی سیوا نہ کرتی۔۔۔بھابوجی بھابوجی کہتے گلی کی ماں کی زبان سوکھتی تھی۔۔۔بھابوجی کو سب سے بڑی حیرت تو اس بات پر تھی کہ گلی کی ماں کا جنم اسی قوم میں ہوا جس کی اس دیس پر حکومت رہی۔ لیکن کس طرح ان کے بیٹے کے ساتھ انگلینڈ سے یہاں آنے پر اس نے اپنی طبیعت کو اس دیس کے مطابق ڈھال لیا تھا، کس طرح وہ یہاں کے تمدن میں رچ بس گئی تھی، یہ بات سچ مچ بہت بڑی تھی۔ اس دیس میں آنے کے بعد بھابوجی کے بہو بیٹے کو کچھ کم کشمکش کا سامنا کرنا نہیں پڑتا تھا۔ لیکن کیا مجال کہ بھابوجی نے اپنی بہو کے ماتھے پر تیوری دیکھی ہو۔
خیر اب تو ان کی زندگی ایک ڈھب پر آ گئی تھی۔ گلی کی ماں بچوں کے کالج میں پروفیسر تھی اور گلی کے پتاجی پھر سے وہ میگزین نکالنے کی فکر میں تھے۔ جس کے ذریعہ انھوں نے انگلینڈ سے لوٹنے پر اس دیس کی بہت بڑی خدمت انجام دی تھی اور جسے اقتصادی وجوہات کے باعث بند کر دینا پڑا تھا۔ بدھ سنگھ پر گلی کے پِتا جی بہت خوش تھے اور بھابوجی کے کمرے میں بیٹھ کر وہ اکثر کہا کرتے ’’دیکھ بدھ سنگھ! تیری بڑی برخورداری ہے کہ بھابوجی کا سارا کام اپنے ذمّہ لے رکھا ہے۔‘‘ اور بھابوجی کہتیں۔ ’’بیٹا! جیسے تم میرے بیٹے ہو ویسا ہی بدھ سنگھ بیٹا ہے۔ میری بس ایک ہی اچھا ہے کہ بُدھ سنگھ بیاہ کرالے۔ اس کی بھی ایک بیٹی ہو گلی جیسی!‘‘ گُلی کے پِتا جی کہتے۔ ’’واہ بھابوجی! ڈگری کراؤ بدھ سنگھ کی ڈھائی ہزار کی۔ اتنا تو بیچارے نے جوڑا بھی نہ ہوگا۔‘‘ بدھ سنگھ یہ سنتا تو کچن کی طرف چلا جاتا اور اس وقت اگر گٹاری کھڑکی سے بول اُٹھتی تو اُسے محسوس ہوتا کہ گٹاری پوچھ رہی ہے۔ ’’تم کب بیاہ کراؤگے، بدھ سنگھ؟‘‘ وہ کچن سے باغیچہ کی طرف چلا جاتا۔ جیسے بیاہ کی بات کو ان سنا کرنے کے لیے وہ بڑی سے بڑی جدوجہد کر سکتا ہو۔
وہ کئی بار رات کو دبے پاؤں بھابوجی کے کمرے میں جاتا اور سوتے میں ان کا گمبھیر چہرہ دیکھ کر اسے بڑی خوشی ہوتی۔ دبے پاؤں وہ اس کمرے سے چلا آتا۔ بھابوجی کا چہرہ دیر تک اس کی آنکھوں میں تیرتا رہتا۔ ان کی گہری اور ہمدرد آواز جیسے اس وقت اس کے کانوں میں برابر گونج رہی ہو۔ اسے خیال آتا کہ سوتے سے ایک لمحہ کے لیے جاگ کر بھابوجی اس سے یہی کہیں گی۔۔۔ ’’بدھ سنگھ! اب تو تمھیں بیاہ کرانے میں دیر نہ کرنی چاہیے۔‘‘ وہ جواب کے لیے تیار رہتا ’’نہیں بھابوجی! یہ نہیں ہو سکتا جس نے ہمیشہ کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنا ہو وہ بیاہ کرائے، میں تو آزاد ہوں!‘‘
کچن کے برانڈے میں کھڑے کھڑے کبھی کبھی بدھ سنگھ اپنے دل سے باتیں کرتے کرتے اونچی آواز میں کہنے لگتا۔ ’’گٹاری دو انڈے دیتی ہے ایک ساتھ، دو انڈے۔ بیس پچیس دن ان انڈوں کو سینا پڑتا ہے۔ آدھا دن گٹاری سیتی ہے، آدھا دن گٹارا سیتا ہے۔ لیکن عورت اور مرد کبھی اپنے کام بانٹ کر نہیں کرتے، اسی لیے تو بیاہ مصیبت بن جاتا ہے۔ نہیں بھابوجی نہیں۔۔۔بدھ سنگھ بیاہ نہیں کرائےگا۔ بدھ سنگھ اتنا بُدّھو نہیں ہے کہ اپنے پیروں میں ایک زنجیر ڈال لے۔ بھابوجی! پھر بدھ سنگھ آپ کی سیوا بھی نہیں کرسکےگا۔۔۔اسے بیاہ کرنے کو نہ کہنا بھابوجی!‘‘
گٹاری کی زرد چونچ بدھ سنگھ کو بہت پیاری لگتی تھی، گٹاری کے پیر بھی تو زرد تھے، ان کے بارے میں بدھ سنگھ مزے لے لے کر وہ قصّہ چھیڑ دیتا۔ ’’گٹاری کے پیر اپنے نہیں ہیں۔ یہ بہت پہلے کی بات ہے جب گٹاری کے پیر اپنے ہوتے تھے۔ وہ مور کے سامنے ناچنے لگی۔ مور نے خوش ہوکر کہا۔ ’’مانگ لے گٹاری جو تیری اچھا ہو۔‘‘ گٹاری نے مور سے کہا۔ ’’تم میرے ساتھ اپنے پیر بدل لو۔‘‘ مور نے سوچا بچن دیا ہے تو پورا کرنا چاہیے۔ بس جی مور نے اپنے پیر گٹاری کو دے دیے اور گٹاری کے پیر خود لے لیے۔ آج تک مور کو اس بات کا افسو س ہے۔ یہ سودا بڑے خسارے کا رہا۔ گٹاری تو مور کے پیر لے کر پہلے سے کہیں زیادہ سندر ہو گئی اور مور اب تک روتا ہے۔ جب بھی مور ناچتا ہے اپنے پیروں کو دیکھے بنا نہیں رہ سکتا۔ کہتا ہے۔ ’’میں اتنا سُندر ہوں لیکن میرے پیر کتنے بھونڈے ہیں۔‘‘ اور اگر اسے اوپر کھڑکی پر بیٹھی ہوئی گٹاری نظر آ جاتی تو وہ پکار کر کہتا۔ ’’تو بڑی چالاک نکلی۔ تو نے مور کے پیر اڑا لیے بات بات میں۔ واہ ری میری چلبلی گٹاری! واہ ری چھنال!‘‘ گٹاری کے پَر سیاہی مائل بھورے نہ ہوتے تو زرد چونچ اور زرد پیر اتنے خوبصورت نہ لگتے۔ یہ سوچ کر بدھ سنگھ ٹکٹکی باندھے گٹاری کی طرف دیکھتا رہتا۔
بھابوجی اکثر بدھ سنگھ کو اپنے آپ سے باتیں کرتے سنتیں اور سمجھاتیں۔ ’’اس طرح تو تیرا دماغ پھر جائےگا بدھ سنگھ، تو اپنے آپ سے باتیں نہ کیا کر۔‘‘ لیکن بدھ سنگھ کہتا۔ ’’میرے گورو مہاراج کا کہنا ہے، بھابوجی کہا اچھا اپنا ایسے ہی ہے جیسے کھیرے کا کھانا۔ جیسے کھیرے کو ایک سرے سے تھوڑا سا کاٹ کر اور اسی ٹکڑے کو باقی کھیرے پر اسی جگہ جہاں سے وہ کاٹا گیا ہے گھسا کر کھیرے کا کڑوا پانی نکال دیا جاتا ہے ایسے ہی آدمی کو ایکانت میں اپنے مَن سے باتیں کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ ایسا کرنے سے جینے کا کڑوا پانی ارتھات زہر نکالا جا سکتا ہے۔‘‘ بھابوجی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجاتیں۔ بدھ سنگھ یہ نہ سمجھ سکتا کہ بھابوجی کیوں ہنس رہی ہیں۔ تھوڑی دیر بعد بھابوجی دور سے بدھ سنگھ کو اپنے آپ سے باتیں کرتے سُنتیں۔ ’’گورو مہاراج کا کہنا ہے کہ کئی باتوں میں انسانوں سے پرندے اچھے ہیں اور کئی باتوں میں پرندوں میں بھی وہی بیماری پھیلی ہوئی ہے جو انسانوں میں ہے۔ اب کوئی کووّں سے پوچھے کہ وہ گٹاریوں کے پیچھے کیوں پڑے رہتے ہیں۔ تو وہ کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ کیا یہی اچھا ہو کہ کووں اور گٹاریوں کی دوستی ہو جائے۔۔۔یہ دوستی کیسے ہو اس کا اپائے گورو مہاراج کے پاس ضرور ہوگا۔‘‘
گلی کی ماں چائے کے میز پر اپنے خاوند سے بحث میں الجھ کر گرم ہو جاتی یا جب ایسے موقعوں پر گلی کے پتاجی کسی بات پر جھنجھلا اٹھتے تو بدھ سنگھ بھابوجی سے بات کرتے ہوئے کہتا۔ ’’گورو مہاراج کا کہنا ہے بھابوجی کہ کھارے کنوئیں کا پانی کبھی میٹھا نہیں ہو سکتا۔ چاہے کنوئیں میں من بھر کھانڈ ڈال دیں۔‘‘ بھابوجی کہتیں۔ ’’تو کہنا کیا چاہتا ہے، بدھ سنگھ؟‘‘ وہ بات کو ٹالتے ہوئے کہتا ’’بھابوجی میں پوچھتا ہوں کیا گٹاری اور گٹار میں بھی اَن بن رہتی ہوگی؟‘‘ بھابوجی ہنس کر کہتیں۔ ’’تو پاگل ہو جائےگا، بدھ سنگھ! جب دیکھو گٹاری کی بات۔ گٹاری تیرے دماغ میں بیٹھ گئی ہے۔ تجھے کیا ہو گیا ہے؟‘‘ اس کے جواب میں الٹی سیدھی ہانکتے ہوئے وہ کہتا ’’بھابوجی، سانپ کے بچے کبھی انسان کے دوست نہیں ہوسکتے چاہے انھیں من بھر دودھ پلایا جائے۔‘‘ بھابوجی حیرت سے بدھ سنگھ کی طرف دیکھتیں۔ بدھ سنگھ کی آواز سیٹی کی طرح گونجتی۔ بھابوجی سوچتیں کہ بدھ سنگھ میں ایک ہی کمی رہ گئی وہ پڑھا لکھا ہوتا تو بڑے بڑوں کے کان کترتا۔
جب سے بھابوجی نے چار پانچ مرتبہ بدھ سنگھ کو گٹاری کا ذکر کرنے سے ٹوک دیاتھا وہ ان کے سامنے گٹاری کا ذکر کرنے سے جھجکنے لگا تھا۔ وہ اوپر کھڑکی پر بیٹھی ہوئی گٹاری سے پکار کر کہنا چاہتا کہ اب اسے کہیں دوسری جگہ گھونسلا بنا لینا چاہیے۔ جب کوئی کسی کو دیکھنا تک گوارا نہ کرے تو اس شخص کو چاہیے کہ اس گھر سے الگ ہو جائے۔ بس گٹاری کو بھی اپنا گھونسلا بدل لینا چاہیے۔
لیکن گٹاری اپنا گھونسلا بدلنے کو تیار نہ ہوئی۔ گٹاری کی آواز اسے پیاری نہ لگے، بدھ سنگھ اس کے لیے بھی اپنے دل کو سمجھانے لگا۔ جب بھابوجی ناراض ہوتی ہیں تو انھیں ناراض کرنے سے کیا حاصل۔ گٹاری کی آواز میں کون سے لڈو رکھے ہیں؟ آخر کسی پرندے کی آواز انسان کے دماغ پر کیوں چھائی جائے؟ ویسے تو انسان اور پرندے بھائی بھائی ہیں۔ دونوں پر ایک ہی سورج چمکتا ہے۔ لیکن بھابوجی کی بات بھی ٹھیک ہے۔ ہر وقت ایک ہی بات کے پیچھے پڑے رہنے سے انسان پاگل پن کو دعوت دیتا ہے۔ ہر وقت گٹاری کی غمگین آواز کو دماغ پر دستک دینے کی اجازت کیوں دی جائے؟ انسان کا دماغ جتنا ہلکا رہے اتنا ہی فائدہ مند ہے۔ بدھ سنگھ نے فیصلہ کر لیا کہ بھابوجی کے کہنے کے مطابق چلےگا اور اپنے دماغ کو ہر خطرے سے بچا کر رکھےگا۔
اب گٹاری اوپر کھڑکی پر بیٹھی رہتی۔ بدھ سنگھ بھول کر بھی اس کی طرف نہ دیکھتا۔ گٹاری کی آواز سے اب اسے کوئی لگاؤ نہیں رہ گیا تھا۔ اب وہ اپنے آپ سے باتیں کرنے کی عادت بھی کم کر رہا تھا۔ کیونکہ بھابوجی کی صاف اور واضح رائے یہی تھی کہ ایسا کرتے رہنے سے بدھ سنگھ پاگل ہو جائےگا وہ پاگل نہیں ہونا چاہتا تھا۔
صبح کی چائے کی میز پر بیٹھے بیٹھے گلی کی ماں گھاس پر بیٹھی گٹاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گلی سے کہتی۔ ’’وہ رہی گٹاری، تیری بہن۔‘‘
گلی گٹاری کے پیچھے بھاگتی اور اسے پکڑنے کی کوشش کرتی۔ گٹاری ہاتھ نہ آتی، لیکن وہ بار بار چائے کی میز کے قریب آبیٹھتی اور اپنی مخصوص آواز میں بولتی۔ گلی کی ماں خوش ہوکر گلی کو گدگداتی۔ گلی دوبارہ گٹاری کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے دوڑتی۔ بچی کو اپنی کوشش میں ناکام پاکر گلی کی ماں کہتی۔ ’’بدھ سنگھ! گلی کی مدد کرو۔‘‘
’’ہم کیا مدد کرنے سکتا، بوبوجی؟‘‘ آیا ہنس کر کہتی۔
ایک دن گلی کے پتاجی نے بدھ سنگھ سے کہا ’’دیکھو بدھ سنگھ! ایک بار گٹاری کو پکڑکر گلی کے ہاتھ میں تھما دو۔ پھر چاہے گٹاری اڑ ہی جائے۔ گلی بہت للچاتی ہے۔ وہ ایک دو منٹ تک گٹاری کو چھو چھو کر دیکھ لےگی۔ پھر وہ خود ہی کہےگی ’’گٹاری کو چھوڑ دو بدھ سنگھ۔‘‘
بدھ سنگھ مالک کا حکم نہ ٹال سکا۔ وہ گٹاری کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن گٹاری اس کے ہاتھ نہ آئی۔ گلی کے پتاجی ہنس ہنس کر اسے بڑھاوا دیتے رہے۔ ’’پکڑو، پکڑو۔۔۔وہ گئی گٹاری۔‘‘
گلی کی ماں کو یہ کھیل پسند نہ آیا۔ ڈانٹ کر بولی۔ ’’رہنے دو، بدھ سنگھ! یہ ٹھیک نہیں۔‘‘
’’کیوں ٹھیک نہیں؟‘‘ گلی کے پتا جی کہہ اٹھے۔
’’اس میں بحث کی تو جگہ نہیں؟‘‘
’’میں کب کہتا ہوں کہ بحث کی جگہ ہے؟‘‘
’’گٹاری کو تنگ کرنے سے کیا فائدہ؟‘‘
’’تنگ کون کرتا ہے؟‘‘
’’تو یہ کیا ہے؟‘‘
’’یہ تو دوستی کی جا رہی ہے۔‘‘
بدھ سنگھ میز کے پاس آ گیا تھا۔ وہ حکم کے انتظار میں کھڑا رہا۔ گلی اٹھ کر گھاس پر لیٹ گئی تھی اور روئے جا رہی تھی۔ گلی کے پتاجی نے اسے اُٹھاکر سینے سے لگالیا۔ بولے ’’گٹاری ہاتھ نہیں آتی تو نہ سہی، بدھ سنگھ ایک کام کرو۔ بانس کا لمبا زینہ لگا کر گٹاری کے گھونسلے میں جھانک کر دیکھو۔ اگر گٹاری کے انڈوں سے بچّے نکل آئے ہوں تو گٹاری کا بچہ نکال لاؤ اور ایک منٹ کے لیے اسے گلی کے ہاتھ پر رکھ دو۔ وہ اتنے سے خوش ہوجائی گی۔ پھر تم گٹاری کے بچے کو واپس گھونسلے میں رکھ آنا۔‘‘
بدھ سنگھ لپک کر بانس کا زینہ اٹھا لایا اور اسے اوپر کی منزل کے کونے والے غسل خانہ کی دیوار سے لگاکر اوپر چڑھنے لگا۔ گلی کی ماں نے چلاکر کہا۔ ’’پہلے میرے پاس آؤ بدھ سنگھ!‘‘
بدھ سنگھ زینے سے اترکر گلی کی ماں کے پاس آکر کھڑا ہو گیا۔
گلی کی ماں نے آواز دی۔ ’’آیا‘‘
آیا دوڑ کر آئی۔ گلی کی ماں نے کہا۔ ’’گلی کو اندر لے جاؤ۔‘‘
گلی نے پتا جی کی گود سے آیا کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔ اتنے میں بھابوجی باہر آئیں، شور سن کر وہ گھبرا گئی تھیں۔ بولیں۔ ’’کیا جھگڑا ہے؟‘‘
’’جھگڑا کچھ نہیں، بھابوجی!‘‘ گلی کی ماں نے اپنے خیال کی تائید چاہتے ہوئے کہا۔ ’’بدھ سنگھ گٹاری کا بچّہ لانے جارہا ہے۔ میں کہتی ہوں گٹاری ناراض ہو جائےگی۔‘‘
’’ہاں، یہ تو ٹھیک ہے، گٹاری کا بچہ اٹھانے سے گٹاری تو ناراض ہوگی ہی۔‘‘ بھابوجی نے پلنگ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
بدھ سنگھ خاموش کھڑا تھا، وہ بہت پریشان تھا کہ کس کا حکم مانے، بھابوجی اور گلی کی ماں کا یا گلی کے پتاجی کا۔ اس نے تو گٹاری کا ذکر تک کرنا چھوڑ رکھا تھا اور تین چار روز سے اوپر کھڑکی میں بیٹھی گٹاری کی طرف دیکھنے تک کی کوشش نہ کی تھی۔ کیونکہ وہ پاگل پن کو دعوت نہیں دینا چاہتا تھا۔ وہ سیدھی اور ستھری زندگی گزارنے کا قائل تھا۔ وہ کسی طرح کی الجھن میں پڑنا نہیں چاہتا تھا۔ عورت کے لیے اس کے ذہن میں کوئی جگہ نہ کی تو یہ گٹاری کدھر کی جادوگرنی تھی۔ بھابوجی نے پہلے بتا دیا ہوتا تو وہ گٹاری سے آشنائی نہ بڑھاتا۔ خیراب تو اسے گٹاری کی آواز میں کسی طرح کی نغمگی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ اب گٹاری کی صورت اس کے تصوّر کو سہلانے کی اہلیت نہیں رکھتی تھی، اس کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اس کے سپنوں کو چھوتک نہیں سکتی تھی اور بھی تو پرندے تھے، بلبل تھی، مینا تھی گرڑ تھا اور وہ پہاڑی پرندہ بھی تھا جو بہار کے شروع میں پہاڑوں کی طرف جانے سے پہلے سری نگر کے باغوں میں چہکنے کے لیے آجاتا تھا، جس کی دم بہت لمبی اور خوبصورت ہوتی ہے، ایسے ہی اور بھی بہت سے پرندے تھے۔ ایک گٹاری ہی تو نہ تھی۔
کچھ لمحوں کے لیے چائے کی میز پر خاموشی رہی۔ گلی کے پتا جی نے کڑک کر کہا۔ ’’بدھ سنگھ! تم یہ کام نہیں کرسکتے تو مجھے دوسرا انتظام کرنا ہوگا۔‘‘
’’جی صاحب!‘‘ بدھ سنگھ چونک کر زینے کی طرف بڑھا۔
گلی کی ماں خاموش تھی۔ بھابوجی بھی کچھ نہ بولیں۔ بدھ سنگھ زینے پر چڑھ گیا۔ کچھ لمحوں کے بعد اس نے واپس آکر کہا۔ ’’جی صاحب! میں نے اچھی طرح دیکھ لیا ہے میرا پہلے بھی یہی خیال تھا۔ گٹاری کو انڈے دیے بیس دن ہی ہوئے ہیں۔ ابھی پانچ روز اور لگیں گے، پھر جاکر انڈوں سے دو ننھے منے بچے باہر نکلیں گے۔‘‘
’’اچھا تو پانچ دن اور انتظار کرتے ہیں۔‘‘ گلی کے پتاجی نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ ’’ہماری گلی اچھی لڑکی ہے۔ وہ گٹاری کے بچے سے ضرور دوستی کرےگی۔‘‘
بھابوجی کے چہرے پر اطمینان کی جھلک نظر آئی۔ گلی کی ماں نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ گلی کے پتا جی نے ان کی طرف دیکھا اور ہنس کر کہا۔ ’’ہم زبردستی کرنے کے قائل نہیں۔ پانچ دن بعد گٹاری کے انڈوں سے دو بچے باہر نکلیں گے، جب وہ دس روز کے ہو جائیں گے ہم گٹاری کے بچّے سے گلی کی ملاقات کرائیں گے۔‘‘
’’بہت اچھی بات ہے!‘‘ بھابوجی نے کہا۔
’’مجھے بھی اعتراض نہیں ہے۔‘‘ گلی کی ماں نے کالج میں پڑھنے والی کسی لڑکی کی درخواست قبول کرنے کے انداز میں کہا۔
گلی اپنے پتاجی کی گود سے اترکر آیا کی طرف بھاگ گئی۔
بدھ سنگھ نے پرانی عادت سے بے قابو ہوکر کہا۔ ’’جی صاحب! میرا حساب کبھی غلط نہیں ہوتا۔ گٹاری ہمیشہ دو ہی انڈے دیتی ہے، سال میں ایک بار۔ پورے پچیس دن وہ اپنے انڈے سیتی ہے۔ آدھا وقت گٹاری سیتی ہے اور آدھا وقت گٹار، یہ نہیں کہ اکیلی گٹاری پر ہی سارا بوجھ ڈال دیا جائے۔‘‘
’’ہاں ہاں، بدھ سنگھ! تمھارا حساب کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔‘‘ گلی کے پتاجی نے مذاق کرتے ہوئے کہا۔ ’’اس جھگڑے میں چائے ٹھنڈی ہو گئی۔ اب یہ چائے نہیں لسّی ہے۔ پھر سے چائے لاؤ۔ ایک دم گرم۔‘‘
دوبارہ چائے آئی تو گلی کی ماں بولی۔ ’’گٹاری نے کتنی اونچی جگہ گھونسلا بنایا ہے؟‘‘
’’اب ذرا گٹاری کو بیچ میں نہ لاؤ۔‘‘ گلی کے پتاجی بولے۔ ’’ورنہ چائے پھر ٹھنڈی ہو جائےگی۔‘‘
گلی کی ماں نے مسکراتے ہوئے چائے کا کپ تیار کرکے اپنے شوہر کے ہاتھ میں تھمایا۔ پھر اس نے اپنا کپ ہونٹوں سے لگانے کے بعد سنجیدگی سے کہا۔ ’’جس کمرے میں لڑکیوں کے کالج میں انگریزی پڑھاتی ہوں وہاں روشندان میں گٹاری نے گھونسلا بنایا تھا پچھلے سال۔ ایک دن میں لڑکیوں کو پڑھا رہی تھی۔ اچانک اوپر سے دونوں انڈے ایک لڑکی کے سر پر گرے اور ٹوٹ گئے۔ رطوبت سے بےچاری لڑکی کا چہرہ خراب ہوگ یا۔ سب لڑکیاں کھِلکھلا کر ہنس پڑیں۔ میری طبیعت پر بہت زبردست دھچکا لگا۔ میں اس دن پیرئڈ نہ لے سکی۔ اس لڑکی نے غسل خانہ میں جاکر اپنا چہرہ صاف کر لیا تھا اور باقی لڑکیاں سنجیدہ ہوکر پڑھنے کے لیے تیار تھیں۔ لیکن میرے دل پر جیسے پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔‘‘
’’تم بہت حساس ہو، یہ مجھے معلوم ہے۔‘‘
’’وہ واقعہ مجھے اب تک غمگین بنائے ہوئے ہے۔‘‘
’’اب یہ تو غلط بات ہے کہ ایک برس پہلے کے واقعہ پر آنسو بہائے جائیں۔‘‘
’’انڈا گرکر ٹوٹ گئے تو گٹاری کا جوڑا کمرے میں دیوانہ وار منڈلانے لگا تھا۔ ان کی چیخ پُکار کئی دن تک سُنائی دیتی رہی تھی۔ جیسے ان کے انڈے توڑنے کا گناہ ہم سے سرزد ہوا ہو۔‘‘
’’اب اس غم کو دفنا دینا ہی ٹھیک ہوگا۔‘‘
’’اس غم کا دھماکا سا ہوتا ہے میرے دماغ میں۔ اس وقت میں بےچین ہو جاتی ہوں۔‘‘
’’یہ تو وہی بات ہوئی جیسا کہ شاعر نے کہا ہے۔
’’سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے!‘‘
کچھ لمحوں کے لیے سکوت طاری ہو گیا۔ بدھ سنگھ بھابوجی کے پلنگ کے قریب کھڑا سہمی سہمی سی نگاہوں سے چائے کے میز کی طرف دیکھ رہا تھا۔ کاش وہ گلی کی ماں کو دلاسا دے کر کہہ سکتا کہ پچھلے غم بھول جاؤ، آنے والے غم کی فکر کرو، وہ حیران تھا کہ بھابوجی کیوں چپ بیٹھی ہیں، وہ کہنا چاہتا تھا کہ جب انسان بھی اپنی زندگی کا مالک نہیں رہا، پرندے اپنی زندگی کے مالک بننے کی اہلیت کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ زندگی ہے تو ایک نہ ایک غم لگا رہےگا، ایک نہ ایک ظلم، ایک نہ ایک نا انصافی، زندگی سپیرے کی بِین ہے نہ جادوگر کا تھیلا۔ زندگی ایک سڑک ہے جس پر پیدل چلنا ہوتا ہے۔ جیسا کہ گورو مہاراج نے کہا ہے، زندگی کا مطلب ہے چلتی کا نام گاڑی اور گورومہاراج کا یہ بھی تو کہنا ہے۔۔۔سوارتھ لاگ کریں سب پریتی۔ انسان نے کوئی چیز گم کر دی ہے۔ وہ چیز ہے انسانیت، گورو مہاراج کا کہنا ہے کہ انسانیت زیادہ دیر تک گم نہیں رہ سکتی۔ انسان صداقت کو ڈھونڈ رہا ہے، انصاف کو آواز دے رہا ہے، صداقت کسی دوسرے کی جیب کا سکہ نہیں ہے۔ انصاف کسی پہیلی کا نام نہیں ہے۔ صداقت کے بنا انسان سانس نہیں لے سکتا۔ انصاف کے بِنا ظلم اور لُوٹ کھسوٹ کی جڑ نہیں اکھڑ سکتی۔۔۔اور اسے محسوس ہوا کہ گلی کی ماں معمولی عورت نہیں ہے۔ جسے گٹاری کے برس بھر پہلے کے درد و غم کا تصور آج بھی غمگین بنائے ہوئے ہے۔
ایک ایک کرکے تین دِن گزر گئے۔ گلی کے پتاجی ہر روز صبح کی چائے پر بدھ سنگھ کو یاد دِلاتے کہ زینہ لگاکر گٹاری کے گھونسلے میں جھانک کر دیکھے۔ انڈوں سے بچّے نکل آئے یا نہیں۔
’’جی صاحب! میرا حساب غلط نہیں ہو سکتا ہے۔ گورو مہاراج کا پرتاپ ہے۔‘‘ بدھ سنگھ جواب دیتا۔ ’’بھگوان نے چاہا تو پانچویں دن گٹاری کے انڈوں سے بچّے باہر آجائیں گے اور پھر دس روز کی کوئی شرط نہیں دو تین دن بعد ہی گٹاری کے بچوں سے گلی کی دوستی کرائی جا سکتی ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے‘‘ گلی کے پتاجی کہہ اٹھتے!
گلی کی ماں خاموش رہتی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں بھابوجی سے تائید چاہتے ہوئے کہتی ’’میں کہتی ہوں کہ یہ خیال چھوڑ دیا جائے ایسی کیا مصیبت پڑی ہے کہ اتنی اونچائی سے گٹاری کے بچے نکال کر گلی کو دکھائے جائیں، تھوڑا وقت بیتنے پر گٹاری کے بچے خودبخود اتر کر چائے کے میز کے قریب پُھدکتے نظر آئیں گے۔‘‘
’’اب یوں روڑا مت اٹکاؤ ڈارلنگ! گلی کے پتاجی نے گردن کھجاتے ہوئے کہا۔ بدھ سنگھ گٹاری کے انڈوں سے بچے نکلنے کے بعد ان کا پورا خیال رکھا کرےگا۔ اپنے کام کے ساتھ وہ یہ کام بھی کرےگا۔ آخر گٹاری نے ہمارے گھر میں گھونسلا بنایا ہے تو ہم اسے غیر نہیں سمجھتے اس میں بھی وہی زندگی پَر تولتی ہے جو ہمارے اندر سانس لیتی ہے، کیوں یہ کچھ جھوٹ ہے؟‘‘
پانچواں اور چھٹا دن بھی گذر گیا یعنی بیس اور پانچ پچیسواں اور چھ اور بیس چھبیسواں دن۔ ابھی تک گٹاری کے انڈے اسی طرح پڑے تھے۔ ستائیسویں دن بدھ سنگھ نے کسی قدر شرمندہ ہوکر کہا۔ ’’گورو مہاراج کا کہنا جھوٹ تو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن انسان کا حساب غلط بھی ہو سکتا ہے۔۔۔گورو مہاراج کی لاج رہ جائے۔ اگر آج گٹاری کے انڈوں سے بچے نکل آئیں۔‘‘
گلی کی ماں کالج چلی گئی۔ گلی کے پتاجی کسی ملاقاتی سے گفتگو کر رہے تھے۔ بدھ سنگھ دوڑا دوڑا آیا۔ اس کے ہاتھ میں لٹھ تھا۔ بولا۔ ’’جی صاحب! ابھی ابھی سانپ ادھر سے نکل کر گیا ہے۔‘‘
گٹاری کا جوڑا رسوئی کے بغل والے پیڑ پر بیٹھا چیخ پکار کر رہا تھا۔ ان پرندوں پر کیا مصیبت آ گئی؟‘‘ ملاقاتی نے جھنجھلاکر کہا۔ ’’یہ کیسا نغمہ ہے؟ کتنے رومانٹک ہیں وہ لوگ جو پرندوں کی بولی میں نغمگی ڈھونڈا کرتے ہیں۔‘‘
’’یوں شاعروں پر نشتر زنی تو نہ کیجیے‘‘ گلی کے پتا جی ہنس کر بولے۔ ’’زندگی کا نغمہ خالی ایک سر سے نہیں بنتا۔ غم و الم بھی زندگی۔۔۔کے واضح اور ضروری سروں کو ترتیب دیتے ہیں، کچھ سر مسرت آگیں ہوتے ہیں تو کچھ غم انگیز۔ کچھ سر جانی پہچانی آواز کی داغ بیل ڈالتے ہیں تو کچھ سر اجنبی کی طرح دروازے پر دستک دیتے ہیں، مستقبل کے چہرے سے نقاب اُلٹنے والے سر ہمیشہ دوستانہ ہمدردی لیے رہتے ہیں۔ صبر و استقلال کے سر۔ زندگی کے بارے میں فرمائش پوری کرنے والے سر شیطنت پر طنز کسنے والے سر۔۔۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سنگیت کی ابتدا پرندوں کی بولیوں کی نقل اتارنے سے ہوئی۔ آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
’’اس کے بارے میں تو دو رائیں نہیں ہو سکتیں۔‘‘ ملاقاتی نے ہنس کر کہا،
گٹاریوں کا جوڑا چلا رہا تھا۔ جیسے ان پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔ بدھ سنگھ لٹھ اُٹھائے آیا۔ بولا۔ ’’گٹاریوں کا بدلہ میں نے لے لیا۔ آخر گورو مہاراج کے آشیرباد سے میں نے سانپ کی سری توڑ ڈالی۔ گورومہاراج کا کہنا ہے کہ جب سانپ سویرے جاگتا ہے وہ کہتا ہے کہ ہے بھگوان مجھے ایسے انسان کی شکل دِکھا جو مجھ پر ہاتھ اٹھائے تو میری سِری ضرور توڑ ڈالے تاکہ مجھے زخمی ہوکر ادھر ادھر نہ بھٹکنا پڑے۔ سِری ٹوٹنے سے مرنے پر سانپ دوسرے جنم میں انسان بنتا ہے۔‘‘
’’اسی لیے شاید کچھ انسان سانپوں کے بھائی ہوتے ہیں۔‘‘ ملاقاتی نے طنز کی۔
’’یہ سانپ گٹاریوں کے گھونسلے میں گھس کر ان کے انڈے کھا گیا۔‘‘ بدھ سنگھ بولا ’’گٹاریاں چلاتی رہ گئیں۔ چلیے وہ بھی نہ بچ سکا۔‘‘
گلی کی ماں کالج سے آئی تو گٹاریوں کی بے بسی کی کہانی سن کر افسوس سے ہاتھ ملتی رہ گئی۔ گٹاریوں کے دو انڈے پچھلے سال لڑکیوں کے کالج میں انگریزی کے پیرئڈ میں روشندان سے گر کر ٹوٹ گئے تھے، دو انڈے یہ تھے جنھیں آج سانپ کھا گیا تھا۔ ’’ہمارے گورومہاراج کا کہنا ہے کہ گٹاری پہلے عورت ہوتی تھی۔‘‘ بدھ سنگھ نے اپنی مخصوص آواز میں کہنا شروع کیا ’’گٹاری کی مصیبت اب بھی کچھ کم نہیں، وہ لاکھ گردن بلند کرے، لاکھ چہکنے کا جتن کرے، زندگی کا غم اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اس پر بھی گٹاری انڈے دینے سے باز نہیں آتی۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.