Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گوتم کی سرزمین

صدیقہ بیگم

گوتم کی سرزمین

صدیقہ بیگم

MORE BYصدیقہ بیگم

    سورج ڈوبے ہوئے کافی دیر ہوچکی تھی۔ یوں تو چاندنی رات تھی مگر بادلوں کی وجہ سے چاندنی پھیکی پڑچکی تھی اور اس بڑھتی ہوئی سیاہی کامقابلہ اس کے بس کی بات نہ تھی۔۔۔ پھر سیاہی اور اندھیرا تو ایک بات، یہ سناٹا تو اس کی روح کو اور کھائے جارہا تھا۔ سڑکیں سنسان ہوچکی تھیں۔ یوں اس کا گھر شہر کے بیچوبیچ میں تھا اور پہلے وہ اس ہماہمی سے اتنا گھبراچکی تھی کہ اس کی خواہش یہی تھی کہ کسی طرح یہ گھر یہاں سے اٹھ کر شہر سے باہر جاپہنچے۔۔۔ آبادی سے دور پہنچ جائے جہاں ہر طرف خاموشی ہو۔۔۔ مگر آج تو یہی خاموشی، یہی سناٹا اس کے کچوکے لگا رہاتھا۔ اور جب دیر تک اس کے کچھ سمجھ میں نہ آیا تو اس نے اپنے چھوٹے سے بچے ہی کے تھپڑ لگایا اور وہ اک دم چیخ اٹھا مگر پھر فوراً سہم گیا اور دوبارہ وہی خاموشی، وہی جان لیوا سناٹا۔۔۔ اس نے ناامید ہوکر درختوں کی طرف دیکھا پتے ہی کھڑکیں تو کچھ اطمینان ہو، مگر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ بھی سہمے ہوئے کھڑے ہیں اور وہ دروازے کی طرف بڑھی۔ اس نے دروازہ کھول کر باہر سڑک پر نظر دوڑائی مگر وہ سڑک۔۔۔ جس پر کہ دھیمی دھیمی روشنی پڑ رہی تھی اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے چاقو سے اس کو ذبح کرڈالا ہو۔ او روہ بھی یوں ہی بے جان لاش کی طرح پڑی تھی۔ اس کا خون منجمد ہوگیا تھا۔ او روہ مردہ لاش یوں ہی پڑی رہی۔ اچانک ایک آواز نے اس کو چونکا دیا۔ اور اس نے دیکھا کہ ایک جیپ کار اس لاش پر سے گزر گئی۔ لاش بے حس پڑی رہی۔ فضا میں دھول اڑ رہی تھی اور اس کے دیکھتے دیکھتے وہ دھول پھر لاش پر بیٹھ گئی۔ اس کا دل ابھی تک دھک دھک کر رہا تھا۔ نہ جانے یہ موٹر اس طرح کیوں گزر گئی۔ خیالات اس کے دماغ میں امڈتے مگر پھر فوراً ہی اس نے دروازہ بند کردیا۔ دھڑ سے ایک آواز آئی مگر چھوٹا بچہ اپنی ماں کی اس حرکت کو بالکل ہی نہ سمجھ سکا۔ وہ اسے برابر گھورتا رہا۔ نہ جانے کیوں پھر اس کو یہ خیال آیا کہ اس نے زندگی کی کتنی شامیں اس کی نذر کیں۔ اس نے کتنا وقت یہیں کھڑے کھڑے گزارا جب اس متحرک جسم کا وجود بھی اس کے جسم میں نہ تھا۔ جب زندگی میں سناٹا تو کیا؟ طوفان بھی تھا، اس نے دروازہ کھولا مگر اندھیرے میں اس کو کچھ بھی تو پتہ نہ چلا۔ نہ جانے وہ زمین پر کیا دیکھنا چاہتی تھی اور پھر اچانک وہ گھبراگئی جیسے فضا میں کوئی آواز لہرائی۔۔۔ نرم اور رسیلی آواز۔۔۔ ’’انجم‘‘۔

    وہ اس آواز کو دوبارہ سننا چاہتی تھی وہ آواز جو فضا میں گونج رہی تھی ’’انجم‘‘۔۔۔ دروازہ تو کھلا ہوا تھا کہیں امی نے تو نہیں بلایا نماز پڑھ چکی ہوں گی، ناراض ہوں گی۔۔۔ اور پھر اس کے ذہن میں ہلچل مچ گئی۔

    ’’گھر کی چارپائی پر تو کیلیں جڑی ہیں کیلیں۔‘‘

    اس نے امی کو کبھی یہ بھی محسوس نہ ہونے دیا کہ وہ کسی کا انتظار کرتی ہے۔ نہ جانے اتنی سی بات اگر امی کو معلوم بھی ہو جاتی تو وہ کیا کرلیتیں، شاید وہ اور خوش ہوہی جاتیں۔ مگر اس نے ہمیشہ اس راز کو اپنے سینے کے دریچوں میں بند رکھا۔

    ’’ہوں۔۔۔ آئی امی ننھے کو بہلا رہی تھی۔۔۔‘‘ مگر اس نے آہستہ سے ننھے کے چٹکی لگائی۔ مگر آج اس نے طے کر لیا تھا ہرگز نہ روئے گا خواہ وہ کچھ کرڈالے۔

    اس کی شادی کو دوسال ہوچکے تھے یوں تو وہ نسیم اس کااپنا ہوچکا تھا لیکن یہ احساس پھر بھی اس کے دل میں اندر ہی اندر چٹکی لیتا تھا کہ جیسے وہ اب بھی کسی اور کا ہے۔ وہ دروازے کی اوٹ میں اس طرح کھڑی رہتی کہ پہلی نظر اس کی ہی پڑے۔۔۔ اب تو خیر ننھے کا بہانہ تھا اور امی بھی یہی سمجھتی تھیں۔۔۔ مگر وہ تو شادی کے بعد ہی سے پاگلوں کی طرح اس کاانتظار کرتی۔ جب بازار کاشور رات کو سوتے تک رہتا تھا۔ وہ اس کا یوں ہی انتظار کرتی رہتی تھی۔ انتظار تو امی بھی کرتیں۔ مگر اس میں فرق یہی تھاکہ وہ باربار ان کا ذکر کرتیں اور طرح طرح کے جملے اس کے دماغ میں گونجتے۔۔۔ جب فصا میں سناٹے کی حکومت تھی، ان کا بیشتر وقت جائے نماز پر گزرتا۔ وہ ذات باری کے سامنے گڑگڑاکر دعائیں مانگتیں۔

    ’’میرا بیٹا ساتھ خیر کے گھرلوٹے۔‘‘

    اور انجم جھنجھلا سی جاتی جیسے ساری دنیا میں بس ان کا ہی تو بیٹا ہے۔ جیسے بس یہی تو انتظار کرسکتی ہیں اور اسے انتظار کرنا ہی نہیں آتا۔۔۔

    ’’جابیٹی کھانا کھالے۔‘‘

    اس کا کتناجی چاہا کہ آج امی سوجائیں مگر وہ کہاں سونے والی تھیں۔ وہ اگر سوجاتیں تو ان کے ساتھ بیٹھ کر ایک دن کھالیتی وہ بھوکی نہ تھی اس کو ایسا محسوس ہوتا تھاجیسے محض ایک دن ساتھ کھانا کھانے میں اس کی روحانی بھوک ختم ہوجائے گی۔ وہ یہی چاہتی تھی کہ امی سوجائیں۔

    ’’امی تم سوجاؤ میں انہیں کھانا کھلادوں گی‘‘

    مگر توبہ کرو۔ امی سونے والی نہ تھیں وہ تو چارپائی پر اس وقت تک قدم نہ رکھتیں جب تک نسیم اپنے بستر پر خراٹے نہ لینے لگے۔

    اور اس طرح زندگی شور کے دنوں سے سناٹے کی راتوں میں داخل ہوچکی تھی۔ یہ سناٹا کب تک رہے گا وہ اس نئی زندگی سے گھبرا چکی تھی۔ اس کی نظر دوبارہ مردہ لاش پر پڑی جس پر کوئی چھری کا وار کرکے چل دیا تھا اور وہ لاش جس کا خون منجمد ہوگیا تھا جس کے ماتھے پر گرد اٹی ہوئی تھی۔۔۔ چند دنوں سے عجیب حال ہے اس کے سامنے ماضی اور حال بالکل اس لاش کی طرح پڑے ہوئے تھے۔ ’’غلامی۔۔۔ اور۔۔۔ آزاد۔۔۔ شور، طوفان اور آندھی۔۔۔ پھر۔۔۔ خاموشی، موت اور سناٹا۔۔۔‘‘

    وہ ماضی جب زندگی میں شور و شر تھا۔ جب غلامی تھی جب نسیم جلسوں اور جلوسوں میں پھرتا تھا۔ جب ہندوستان کی آزادی کے لیے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھا۔ اس کے کھدر کے کپڑے وہ لباس جو آزادی کی تحریک کا دوسرانام بن چکا تھا۔ جو اس کا نشان سمجھا جاتا تھا اور اس لباس میں اس نے حسین جسم کو چھپا رکھا تھا۔۔۔ انجم سیاست کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہ سمجھ سکتی تھی اور اس کو فخر تھا کہ وہ نسیم کی بیوی ہے۔ اس کو یاد ہے کہ پچھلے سال جب کسی والینٹر لڑکی نے اس سے پوچھا:

    ’’کیا آپ دیش سیوا کے لیے کچھ نہیں کرسکتیں؟‘‘

    ’’کیوں نہیں؟‘‘ اس نے اپنا سینہ تان کر کہا۔

    ’’مگر اس طرح گھر میں خاموشی سے پڑے رہ کرتو آپ کچھ نہیں کرسکتیں اس کے لیے آپ کو باہر نکلنا ہوگا۔‘‘

    اس پر تو وہ لاجواب سی ہوگئی۔

    انجم کو ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کی ہتک کردی۔ جیسے کسی نے اس کے منہ پر تھپڑ ماردیا۔ جس کا نشان مٹ گیا مگر احساس باقی تھا۔ جیسے کسی نے راہ چلتے چلتے لاش پر ٹھوکر لگادی۔ اور اس نے فوراً گویا سنبھال لیا۔ اس کے سینے کا زیر و بم بتا رہا تھا کہ وہ بھرپور وار کرنے کے لیے تیار ہے۔

    ’’بہن میں نے کیا کیا۔۔۔ دیش کے لیے۔۔۔ سنو میں نے اپنا سہاگ دیا ہے تم نے اپنے آپ کو پیش کیا۔۔۔ اپنے کو کون نہیں پیش کرسکتا۔ اپنی قربانی کون نہیں دے سکتا۔ تم نے لڑکی ہو کر دیکھا ہے بیوی ہو کر نہیں۔۔۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی اور مسکراتی چلی گئی۔۔۔ انجم نے فاتحانہ انداز سے دیکھا۔ امی بھی پڑوس میں گئی ہوئی تھیں ورنہ شاید اتنی آزادی سے نہ کہہ سکتی۔۔۔ وہ لڑکی جاچکی تھی اور انجم اطمینان کا سانس لے رہی تھی۔ اس نے ٹھیک ہی تو کہا۔۔۔ اس نے ہرادیاآخر کو اپنا سا منہ لے کر رہ گئی نا۔۔۔ اور اس کے دل میں یہ بھی خواہش پیدا ہوئی تھی کہ نسیم آجائے تو وہ اپنی جیت کا قصہ سنائے مگر وہ اس سے کس طرح کہہ سکے گی کہ وہ نسیم سے کتنی محبت کرتی ہے۔ محبت زندگی کی بڑی حقیقت ہے۔

    اور اس طرح غلامی کے دن نسیم نے جیل میں کاٹے۔۔۔ انجم کی آنکھوں میں پچھلے دنوں وہ چھ ماہ کس طرح چھ ہزار سال کی طرح کٹے اس کو ایسا محسوس ہوا۔ جیسے کسی نے اس کے جسم سے جان چھین لی۔ اس نے اپنی کاپی میں ایک ایک کرکے چھ ماہ کی تاریخیں لکھ ڈالی تھیں۔ پھر روز وہ ایک دن کاٹتی تھی۔ دن میں بار بارگنتی تھی کہ کتنے دن اور باقی ہیں۔ وہ پھر گنتی شاید اس نے غلط گنا ہو۔ مگر ایک دن بھی کم نہ ہوتا اور نسیم جیل میں اپنا سارا وقت کتابوں کی نذر کرتا۔ وہ صبح سے شام تک پڑھتا، اس کی جیل کی زندگی امن و سکون میں گزر رہی تھی اور انجم گویا سزا بھگت رہی تھی۔ بالآخر چھ ماہ گزر گئے اور آخری روز اس کو ایسا معلوم ہوا جیسے وہ جاگ رہی ہے، وہ آج ہی تو زندگی میں پہلی بار مسکرائے گی، جیسے مسلسل کئی راتوں کے بعد سورج نکلنے والا ہے، خوشی اس کے سینے میں کروٹ لے رہی تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے ننھے کا وجود اس کے جسم میں حرکت کیا کرتا تھا۔۔۔ جیسے مسلسل اندھیری راتوں کے بعد ماہ نو نکلتا ہے۔

    پھر پولیس کی لاٹھی کی چوٹ۔۔۔ اس نے رات دن ایک کردیے۔ صبح سے شام تک اس کے پاس بیٹھی رہتی، موت کے منہ سے چھڑاکر لاؤں گی، میں موت سے جنگ کروں گی۔ ابھی قوم ہی کونہیں مجھے بھی تمہاری ضرورت ہے۔۔۔ وہ نسیم کو اچھا کرکے ہی رہے گی۔

    اس طرح غلامی کے دن ختم ہوئے، آزادی مل گئی۔ ہندوستان آزاد ہوگیا۔ ملک دوٹکڑوں میں بٹ گیا۔ پاکستان اور ہندوستان میں۔۔۔ اور اسی روز اس نے اپنے گھر میں چراغاں کیا۔ اس نے بھی قومی پرچم لہرائے۔ اس نے ہندوستان کے نقشے پر عقیدت کے پھول چڑھائے۔ اور دوآنسو اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑے جن میں ہندوستان کا ماضی نہیں اس کی زندگی کے دوسال جھلک رہے تھے۔ مگر وہ آج اس کی آنکھوں میں چمک رہا تھا۔ اس نے دروازہ کے باہر دیکھا تو موٹر دوڑ رہی تھی جلوس گزر رہے تھے۔ بازار کا شور بڑھ رہا تھا۔ زندگی خوشی میں دیوانی ہو رہی تھی۔ وہ سڑک دوڑ رہی تھی اور آزادی کو گویا اس نے دیکھ ہی تو لیا تھا۔ مگر جس نسیم کو اس نے افسردہ دیکھا تو ملول ہوکر کہا۔

    ’’میرے نسیم تم اداس ہو! کیا میں بھی اداس ہوجاؤں؟ کیا اتنے دن بعد بھی ہم کو مسکرانا نہ چاہیے۔‘‘

    اور نسیم نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں انجم تم اداس مت ہو تم مسکراؤ مگر آج مجھے شہید یاد آگئے۔ وہ نامور شہید جنھوں نے آج کے دن کے لیے اپنی جانیں دیں جن کے نام تاریخ میں سنہرے حرفوں سے لکھے جائیں گے اور وہ بے نام شہید جن کے نام تاریخ نہ گنوا سکے گی، وہ جنھوں نے نوے سال تک اپنی جانیں دیں جو ان گنت ہیں۔

    تھوڑی دیر کے لیے وہ بھی اداس ہوگئی۔۔۔ مگر پھر دوسرے لمحے مسکراہٹ اس کے ہونٹوں سے پھوٹنے لگی۔ شہیدوں کی یادگاریں بازاروں میں نصب کرنے والے پتھر! انسانی دلوں کے احساسات سے تم ہمیشہ بے حس رہوگے۔

    پھر آزادی مل گئی۔ نسیم بھی خوش تھا۔ وہ دن ختم ہوگیا اس لیے کہ دوسرے دن آئیں جن میں غربت دور ہو، افلاس ختم ہو، قحط اور بیماریاں دنیا سے دور بسیں اور زندگی کی خوشیاں مستقل ہوجائیں۔

    لیکن وہ دن زندہ جاوید نہ ہوسکا اور انجم نے سنا کہ آزادی کے بعد انسان انسان نہ رہ سکا وہ ہندو اور مسلمان ہوگیا۔ وہ چھرے باز اور خونخوار ہوگیا۔۔۔ وہ شیر اور بھیڑیا ہوگیا، یہ شیر کے رہنے کی جگہ نہیں۔ یہاں بھیڑیا نہیں رہ سکتا۔۔۔ یہ مسلمان کی بستی ہے یہاں ہندو نہیں رہ سکتا۔

    اس طرح سارے پنجاب میں آگ لگ گئی۔ وہ بھڑک گئی اس کے شعلوں نے دلی کو بھی اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔ انجم نے یہ سب کچھ سنا۔۔۔ نسیم کا زیادہ تر وقت پھر کانگریس کے دفتر میں گزرنے لگا۔

    اس نے کہا، ’’انجم انسانیت خطرے میں ہے، ہمارا حال ہی نہیں بلکہ ہمارا مستقبل بھی خطرے میں ہے۔۔۔ ہمارا ننھا خطرے میں ہے۔‘‘

    انجم کی آنکھیں پُرنم ہوگئیں۔ نسیم! تم جاؤ میں ننھے کو اپنی آغوش میں آرام سے رکھوں گی اس کی فکر مت کرو۔‘‘

    پھر تو وہ روزرات کو دیر سے آنے لگا۔ شہر میں سنسنی پھیل گئی۔ روز یہ خبر آنے لگی کہ مسلمان پاکستان جارہے ہیں۔ ہندو، ہندوستان آرہے ہیں۔ بڑے بڑے رہنما، عوام کو دھوکا دے کر بھاگنے لگے۔ برسوں کی پالی ہوئی قومیت کاجنازہ نکل رہا تھا۔ محمد علی اور گاندھی کے لاشے نکل رہے تھے۔۔۔ ترنگے کی دھجیاں اڑ رہی تھیں۔ سارا شہر ہی نہیں سارا ہندوستان اس کے دھوئیں سے گھٹ رہا تھا۔ وہ دھواں جو پنجاب اور دلی کی آگ سے اٹھ رہاتھا۔

    ہندوستان۔۔۔ ہندوؤں کا

    پاکستان۔۔۔ مسلمانوں کا

    انسان۔۔۔ کسی کانہیں

    لاکھوں کی تعداد میں انسان اپنے آبائی وطنوں کو چھوڑ کر آنے لگے، انجم نے سب کچھ سنا۔ اس نے سنا کہ پاکستان سے لاکھوں ہندو اپنے گھر بار چھوڑ کر چلے آئے۔ اس نے سنا کہ کس طرح ننگی عورتوں کی پریڈ کرائی گئی۔ کس طرح ان کی چھاتیاں کاٹی گئیں، بچے بلکتے رہے اور ماں سسکتی رہ گئی۔ پھر کس طرح پولیس اور فوج نے پناہ گزینوں کی پوری ٹرین کو نیست و نابود کردیا۔۔۔ بہیمیت انسانیت پر ہنس رہی تھی۔ عورتوں کی عزت۔۔۔ لڑکیوں کی عزت۔۔۔ عصمت سربازار لوٹی جارہی تھی، بالکل اسی طرح جیسے چوکیدار ڈاکو گھروں کو لوٹتے ہیں۔

    انجم کانپ گئی۔ ننھا اس کے ہاتھوں سے چھوٹاجارہا تھا۔ اس کو ذرا بھی تو خیال نہ آیا کہ جب برسوں کی پالی ہوئی تہذیب مٹی میں مل گئی تو پھر چند ماہ کاننھا۔۔۔

    انجم کی آنکھوں کے سامنے وہ قافلے گردش کر رہے تھے۔۔۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے قافلے جب وہ گھروں سے صرف اپنی جانوں کو لے کر نکل پڑے۔۔۔ اس کے جی میں تو آیاکہ کوئی بم۔۔۔ اٹم بم گرے اور انسانوں کی یہ نسل ختم ہوجائے۔ آخر انسان کس حسرت پر جیے، کس امید پر زندہ رہے۔۔۔ تہذیب و تمدن کے تمام عناصر ختم ہوچکے ہیں۔ انسان جانوروں سے بھی بدتر ہوگیا ہے۔۔۔ وہ بھیڑوں اور بکریوں کے گلے کی طرح اپنے آبائی شہروں سے نکل پڑا ہے۔ جہاں اس کے آباواجداد کی ہڈیاں بھی اس کو آواز دیں تو وہ واپس نہ آئے گا۔ وہ انسانوں کے قافلے بناکر بھیڑ بکریوں کے گلے کی طرح بڑھ رہا ہے۔ نامعلوم منزل کی طرف۔۔۔ وہ روٹی کے ٹکڑے کے لیے نہیں۔۔۔ وہ زندگی کی نعمتوں کو گھر کے اندر دفن کرکے زندگی کی بڑی سے بڑی قدروں کو ڈھونڈنے کے لیے نکلا ہے۔ وہ سکون کی تلاش میں پیٹ چھوڑ کر نکلا ہے۔ انجم کوانسانوں سے نفرت سی ہونے لگی۔ اُف یہ کتے ہیں۔ انسان نہیں۔ یہ موت سے بھاگتے ہیں۔ نہ جانے کیوں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ کیا اب بھی ان کو دنیا سے کچھ امیدیں وابستہ ہیں۔

    انجم کا جسم پھٹا جارہا تھا، جیسے اچانک کسی نے اس کو دھکا دے دیا اور وہ اس شور وشرکی دنیا میں واپس آگئی۔ وہ قافلہ جارہاتھا مگر سڑک پر بدستور سناٹا تھا۔ مردہ لاش بے حس پڑی تھی۔ کاش اسے وہاں سے کوئی اٹھاکر لے جاتا۔

    ’’اری لونڈیا کہاں گئی۔ جاکھانا کھالے۔ نہ جانے کیا ہوکر رہے گا بھلی ہوئی یہ آزادی بھی۔‘‘ آخری فقرہ سن کر وہ چونک پڑی اس نے اپنے قدم آہستہ آہستہ آگے بڑھائے۔

    ’’کیا ہے امی؟ میں ابھی کھانا نہیں کھاؤں گی۔‘‘

    کچھ ہو وہ آج نسیم کے ساتھ کھانا ضرور کھائے گی، نہ جانے کیا ہوکل تک وہ زندہ بھی رہے یا نہیں۔ حالانکہ اس شہر میں کوئی حادثہ نہیں ہوا تھا۔ مگر پھر بھی ایک خوفناک سناٹا ہر طرف چھایا ہوا تھا۔ آج دو ہزار پنجابی اس شہر میں آگئے۔ اس شہر میں کیا تو وہ تو سارے ہندوستان میں پھیل رہے تھے۔ اور ایک لمحہ کے لیے تو اس کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جیسے سارا ہندوستان پنجاب ہوجائے گا۔

    وہ کھڑے کھڑے ایک طرف کو سمٹ گئی، جیسے وہ شعلے پھیلتے پھیلتے اس کے گھر کے قریب آگئے تھے، اس نے گھبراکر ننھے کو چارپائی پر ڈال دیا۔

    ’’بیٹا! اس سے اچھے تو وہی دن تھے جب انگریز راج تھا۔ چین سے رہتے تھے۔‘‘

    انجم کوآج نہ جانے کیوں امی پر غصہ نہیں آیا اور آیا بھی تو اس کے آثار اس کے چہرے پر نہ تھے۔ وہ لاجواب سی ہو رہی تھی۔ ورنہ اتنی سی بات ایک جھگڑے کے لیے کافی تھی۔ اس نے امی کو کتنا سمجھانا چاہا نسیم کی قربانیو ں کا واسطہ دیا۔ اس کی جیل کی زندگی کی تکلیف کا احساس دلایا اور تب کہیں امی نے غلامی سے بیزاری کااظہار کیا۔ مگر آج پھر ان کا بوڑھا دماغ تجربوں کے سہارے چل رہا تھا۔ اور انجم کچھ نہ بولی۔

    ’’امی۔۔۔ ابھی تک نہیں آئے کتنی دیر ہوگئی۔ چاند بھی مدھم پڑگیا۔ نہ جانے کوئی حادثہ۔۔۔‘‘

    اس کے جی میں تو آیا اپنا منہ پیٹ ڈالے۔۔۔ ’’بدشگون۔۔۔‘‘ پھر فوراً ہی تو اسے آہٹ سنائی دی جو اب پیروں کی چاپ میں بدل گئی اور پھر وہی مانوس آواز۔ خون اس کی شربانوں میں دوڑنے لگا۔ دوبارہ آواز آئی او روہ دیوانہ وار دوڑی۔۔۔ اس کا پاؤں دوپٹہ سے الجھ گیا۔ اس نے اسے بھی پھینک دیا۔ دوپٹہ اور بھی دیر کرتاہے۔ کتنی دیر سے وہ کھڑے ہوں گے۔۔۔ آن کی آن میں وہ دروازہ پر پہنچ گئی۔ دروازہ کھولا مگر وہاں بھی کوئی نہ تھا۔ ہلکی ہلکی چاندنی تھی۔۔۔ سڑک ساکن پڑی تھی اور پھر اس کو دکھائی دیا جیسے منجمد خون پھر بہنے لگا۔۔۔ فضا میں خون کی بدبو پھیل گئی۔ اور پھر وہی مسلسل اور موت پرور خاموشی۔۔۔ اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے زندگی پناہ لینے چلی گئی ہے۔ جیسے وہ سہمی سہمی کسی جھروکے سے اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے جھانک رہی ہے۔ اس کے کان ہرنی کی طرح اس آواز کی جستجو میں محو ہوگئے۔ اس کے وہ کان جو اکثر آپ ہی آپ گونجتے ہیں۔ پھر ان آنکھوں کے سامنے کوئی تصویر پھر جاتی ہے اور یہی وہ کان ہیں جن کی مدد سے وہ تنہائی میں بھی باتیں کرتی ہے، وہ باتیں جو نسیم سے یوں نہیں کہتی۔۔۔ کتنا ہی سوچتی ہے کہ آج جی کھول کر باتیں کروں گی۔ محبت کے نغموں کی جھنکاریں سناؤں گی۔۔۔ اپنے بربط کے ان تاروں کو چھیڑوں گی مگر پھر وہ کچھ نہ کہہ سکی اس کے الفاظ اس کی آنکھوں میں سمٹ کر آجاتے۔ نغموں کی جھنکاریں بے زبا ن ہوتی ہے۔

    ’’انجم۔۔۔ پھر وہی مانوس آواز۔۔۔ وہی بزم اور گداز آواز جو فضا میں گونج رہی تھی۔ انجم چونک پڑی۔۔۔ اب وہ آگئے یہ سناٹا اور خاموشی اوربے حس لاش۔۔۔ جس کاخون منجمد ہوگیا تھا جو دوڑتے دوڑے تڑپتی ہوئی گرپڑی تھی۔ جس کے سینے پر موٹریں چل رہی تھیں۔۔۔ وہ دوڑتی ہوئی دروازہ پر پہنچ گئی۔ دروازہ کھولا مگروہاں پرمکمل خاموشی۔ وہ کانپ اٹھی، جیسے وہ لاش پر سے پڑی چیخ رہی تھی۔

    ’’انجم۔۔۔ انجم‘‘

    ’’نسیم ابھی نہیں آیا‘‘ اس نے یونہی سوچا۔ ’’اب وہ کبھی نہ آئے گا۔۔۔‘‘ مگر پھر فوراً اس کو اپنے واہمہ پر غصہ آیا۔۔۔ کیوں نہیں آئے گا؟ وہ ضرور آئے گا۔ ان کے جسم میں سنسنی پھیل گئی او رپھر تمام ہڈیاں ایک دوسرے سے پیوست ہوگئیں۔۔۔ وہ ضرور آئے گا۔ وہ اسے تنہا نہیں چھوڑسکتا۔

    دروازہ کھلا رہا۔ پھر ایک سایہ زمین کے سینے پر لہرایا اس کو خیال آیا کہ جیسے یہ سایہ نہیں بلکہ بے جان لاش تھی۔ جس کا خون منجمد ہوگیا تھا مگر اس وقت وہ متحرک تھی۔ وہ بولناچاہتی تھی۔

    ’’کوئی ہے؟‘‘ سائے نے آواز دی۔

    ’’کون ہے؟‘‘ وہ سہمی ہوئی بڑھی۔

    ’’یہ نسیم صاحب کا گھر ہے؟‘‘ سائے نے پوچھا۔

    اس کو آپ ہی آپ ایسا محسوس ہواجیسے اس کے جسم میں دو وجود ایک دوسرے سے بحث کر رہے ہیں۔

    ’’نسیم زندہ ہے۔‘‘

    ’’نسیم مرچکا ہے۔‘‘

    ’’نسیم کو کسی نے ماردیا۔ شہر میں فساد ہوگیا ہے۔۔۔ ہندومسلم۔۔۔ مسلمانوں کی زندگی محفوظ نہیں۔۔۔ آپ لوگوں کو یہ گھر چھوڑناہوگا۔‘‘

    ’’یہ گھر۔۔۔‘‘ اس کے جسم میں جیسے جان نہیں رہ گئی تھی۔ وہ کانپ رہی تھی۔ اگر دروازہ نہ پکڑ لیتی تو شاید گرپڑتی۔ اس کے پاؤں اس جگہ سے بیزار ہوچکے تھے۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔۔۔ بے جان لاش تو نہیں واہمہ تو نہیں، نسیم کبھی مر نہیں سکتا۔۔۔

    ’’بہن اس گھر کو جلد چھوڑو‘‘ سارے شہر میں آگ لگ رہی ہے۔ زندگی، ناموس، عزت، سب کچھ خطرے میں ہے۔ میں دفتر سے آپ کو اطلاع دینے آیا ہوں۔ میں نسیم کا دوست کمل ہوں۔‘‘

    ’’کمل‘‘۔۔۔ اس کو یقین ہوگیا۔۔۔ امی ہائے امی۔‘‘

    ضبط کے تمام بند ٹوٹ چکے تھے۔ وہ چیخ رہی تھی اور پھر امی کی آواز نے ان چیخوں میں معنی بھی پہنادیے تھے۔

    کمل نے دونوں کو چلنے کے لیے کہا۔۔۔ یونہی چلنے کو۔۔۔ نہ جانے کیا ہو؟ شہر میں فساد کی آگ پھیل چکی ہے جس کی چنگاریوں نے اس گھر کو بھی جھلس کر رکھ دیا۔

    عقل اور دل میں بھی بحث نہ ہوسکی اور وہ تالا لگاکر چل نکلے۔ امی نے اپنی جائے نماز بھی چھوڑدی تھی۔ انجم دروازہ کی اس اوٹ کو بھی بھول چکی تھی جہاں اس نے زندگی کی کتنی شامیں نذر کردی تھیں۔۔۔ انھوں نے چلتے وقت اجداد کے اس گھر کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھا جہاں ان کی روحیں رقص کر رہی تھیں۔۔۔ جس کی ویرانی پر وہ ماتم کناں تھیں۔۔۔ جہاں پر نسیم کے بچپن کی غوں غاں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ وہ گھر بھی خاموش تھا وہ بھی انہیں واپس نہیں بلا رہا تھا۔

    وہ لڑکھڑاتے ہوئے چلے جارہے تھے۔ ایک رہبراوردوراہ رو۔۔۔ آنسوؤں کے قطرے انجم اور امی کے چہروں پر منجمد ہو رہے تھے۔ وہ چیخ نہیں رہی تھیں مگر ان کے دماغ چٹک رہے تھے۔ ان کے دلوں میں طوفان آرہاتھا۔ اور امی کا پیر کسی لاش سے ٹکرا یا۔ ’’میرا نسیم‘‘ مگر وہ مردہ لاش یونہی پڑی رہی۔ اس کے ماتھے پر دھول اٹی ہوئی تھی، خون بالکل منجمد ہوگیا تھا۔

    ’’میرا بیٹا۔‘‘

    ’’نہیں ماں آگے چلو کسی اور کی لاش ہے۔‘‘ کمل نے کہا۔

    اور امی کی آنکھوں کے آنسو اور بھی خشک ہوگئے۔ انجم کے آنسو بھی تھم چکے تھے۔ راستے میں کتنی لاشیں ملیں۔ وہ شرنارتھیوں کے کیمپ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ان کو محسوس ہو رہاتھا کہ جیسے وہ انسان نہیں ہیں۔ وہ بھوکوں اور بے سروسامانوں کو اپنے گھر میں پناہ دے کر ثواب لوٹنے والی نہیں ہیں۔ وہ خود دوسروں کے شرنوں میں پناہ ڈھونڈنے آئی ہیں۔ ان کی خیراتیں بیکار ثابت ہوئی تھیں۔ آج وہ خود ایک فقیر تھے۔ ایک کنگال۔۔۔ برسوں کی پالی ہوئی تہذیب کے چھلکے اترچکے تھے۔

    ’’جلد چلیے شہر کی حالت کتنی خراب ہوگئی ہے، یہ لاشیں دیکھ رہی ہیں۔ اب ہم کو جلد کیمپ پہنچنا ہے۔ اور ان کے قدم تیزی سے بڑھ رہے تھے۔

    بہت دورسے اندھیرے میں انھوں نے دیکھا کہ کچھ آدمی چلے آرہے ہیں۔ مسلح۔۔۔ کمل ٹھٹھک گیا۔ اس کے قدم لڑکھڑائے اور وہ لوگ آپہنچے۔

    ’’ٹھہرجاؤ۔۔۔ رکو، تم کون ہو؟‘‘

    ’’میں انسان۔۔۔ نہیں ہندو ہوں ہندو۔‘‘

    ’’اور یہ مسلمان عورتیں تمہاری ماں او ربیویاں ہیں جو انہیں لے جارہے ہو۔‘‘ بھیڑ میں سے کسی نے للکارا۔

    ’’جلدی بتاؤ انہیں بچاکر لے جاناچاہتے ہو۔ انہیں ہمارے حوالے کردو۔‘‘

    ’’نہیں یہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔‘‘ کمل نے بڑے جوش سے کہا۔

    ’’مارڈالو دیکھتے کیا ہو۔ غدار ہے غدار۔‘‘

    فضامیں ایک دھماکا ہوا اور کمل کی بے جان لاش سڑک پر پڑی تھی۔ اس پر خون کی بوندیں بھی نہ ابھریں۔ اس پر دھول بھی نہ پڑسکی پھر دونوں جوان ان کی زندہ لاش پر ٹوٹ پڑے۔

    فضا میں پھر ایک اور دھماکا ہوا۔ امی کی لاش بھی گرپڑی۔ جائے نماز چیتھڑے چیتھڑے اڑگئی تھی۔۔۔ ایک ننگی عورت وہاں کھڑی تھی جس کے جسم پر کپڑے کاایک تار بھی نہ تھا۔

    ’’انجم۔۔۔‘‘ اس کے کانوں میں اس بار نہ گونج سکا۔ وہ نسیم کو بھی بھول چکی تھی، اپنے محسن کی لاش پر بھی نہ روسکی۔ وہ امی کی لاش پر بھی ایک نظر نہ ڈال سکی۔ اس کو صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ ننگی تھی۔ اس کا بچہ اس کی گود سے چھین لیا گیا تھا۔ مستقبل خطرے ہی میں نہیں بلکہ موت کی گہری نیند سو رہا تھا اور وہ ننگی تھی۔ اس کی چھاتیوں کا دودھ بھی خشک ہوچکا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں میں محبت مرچکی تھی۔ اگر کوئی چیز باقی تھی تو نفرت۔۔۔ انسانوں سے نفرت، وہ انجم جس نے دروازہ سے باہر قدم نہ نکالے تھے۔ جس کی نظریں بھی آنچل سے باہر نہ سرک سکی تھیں آج اس کو یہ درندے پھٹی پھٹی نظروں سے گھور رہے تھے۔۔۔ وہ تیسرے دھماکے کاانتظار کر رہی تھی کیونکہ وہ اسے بہیمیت سے نجات دلاسکتا تھا۔ اس کی یہ خواہش نہ تھی کہ کوئی اس کی جان بچائے کوئی اس کو پناہ دے وہ تو صرف ایک آواز کی منتظر تھی۔ مگر دیر تک وہ آواز سنائی نہ دی۔ ایک چیخ کے ساتھ وہ گرپڑی۔ اتنی نگاہوں کی وہ تاب نہ لاسکی۔

    ذرا سی دیر میں وہ زندہ لاش وہاں سے اٹھالی گئی تھی۔

    ’’ننھا۔۔۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا او رپھر فضا میں یہ آواز گونج بھی نہ سکی، وہ دیکھتی ہی رہ گئی۔ گولی کے دوتڑاخے فضا میں گونج رہے تھے۔ اور تیسری کی جگہ درندگی اور وحشت تھی۔

    انسان خدا کی تخلیق نہیں۔ وہ آدم اور حوا کی اولاد نہیں۔۔۔ وہ مسیح اور محمدؐ۔۔۔ نانک اور گوتم کا منکر ہے۔ وہ درندوں سے پیدا ہوا ہے۔ وہ انسانیت کی طرف نہیں بلکہ درندگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ نقطہ کے گردگھوم رہا ہے جس نے اس کو انسانیت کے حلقہ میں پہنچایا ہے۔ اب وہ حلقہ پھر غائب ہوگیا ہے صرف نقطہ باقی رہ گیا ہے۔

    بھیڑ چھٹ چکی تھی۔۔۔ لاشیں ہیں لاشیں۔۔۔ اورہرطرف ہی سناٹا۔۔۔ وہی جان لیوا سکوت اور موت پرور خاموشی۔۔۔ بے جان لاشیں جن کا خون منجمد ہوگیا تھا۔۔۔ اور سڑک بھی چلتے چلتے رک گئی تھی، جیسے کسی نے اس پر بھی حملہ کردیا تھا۔۔۔ انسانوں کی لاشیں آنکھیں پھاڑے پھاڑے خدائے بزرگ و برتر سے کچھ پوچھنا چاہتی تھیں مگر وہ بھی خوف سے کہیں چھپ گیا تھا۔ مندروں کے ناقوس اور مسجدوں کی اذانیں بھی فضا کے سناٹے اور خوف میں گھل گئی تھیں۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے