Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گھر کا نہ گھاٹ کا

ریحان علوی

گھر کا نہ گھاٹ کا

ریحان علوی

MORE BYریحان علوی

    (ایک سچی کہانی جسے فسانے کا روپ دیا گیا)

    کمرے میں گھپ اندھیرا تھا مگر رام لعل کی آنکھوں میں سویرا جاگ رہا تھا۔رام لعل کا گزرا کل جو نجانے کب سے کنڈلی مارے بیٹھا تھا، آج پھر سر اٹھا کر پھنکارنے مارنے لگا تھا۔ ایک لمحے کو اس کا دل چاہا کہ دیوار پر لگے بجلی کے بٹن پر ہاتھ مار کر کمرے کا اندھیرا دور کر دے، مگر باہر دیا جلانے سے اندر کا اندھیرا کب دور ہونے والا تھا، صرف یاد ہی تو کرنا تھا، ایک پردے پر فلم ہی تو چلانی تھی۔ یہ سوچ کر رام لعل نے ہاتھ میں پکڑی اپنی عینک پھر تکیے کے نیچے رکھ دی، یادوں کے در کھلنے لگے، جیسے گیتا کے ورق الٹ رہے ہوں۔

    وہی گیتا جسے رام لعل نے اردو میں پڑھا تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے سرحد پارہندوستان میں رہنے والے اس کے بچپن کے دوست شاکر نے قرآن کو ہندی میں پڑھ کر سمجھا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب رام لعل بخش کے کھوکھرا پار اور اس کے دوست شاکر چانڈیو کے مونا بائی کے درمیان کوئی لکیر نہیں کھنچی تھی۔ حیدر آباد سندھ سے جودھپور جانے والی ریل مونا بائی اور کھوکر۱پار کے چھوٹے سے اسٹیشنوں پر بھی رکتی تھی۔

    دونوں شہروں کے بیچ ان دونوں کا مشترکہ سکول تھا۔ شاکر کا گاؤں اس کے سکول سے چار پانچ میل دور تھا اور رام لعل کا دو تین میل سے بھی کم۔ دونوں کا بچپن سکول کے احاطے سے لے کر کھیل کے میدان تک ساتھ ساتھ ہی گزرا تھا۔ استاد، کھیت کھلیان، کھیل، شوق اور ان سب سے بڑھ کر دوست اور دوستیاں سب مشترک تھیں۔ ان دونوں کی پکی دوستی پانچویں جماعت سے اس وقت ہوئی جب دونوں کی کلاس کا سیکشن بھی ایک ہو گیا تھا۔ رام لعل اکثر پیدل ہی سکول آتا مگر اس کے لیے اسے کافی صبح گھرسے نکلتا پڑتا۔ کبھی کبھی بابو ٹریکٹر پر کھیتوں کو جا رہا ہوتا تو اس کو سکول پہنچا دیتا۔ ٹریکٹر پر بیٹھ کر رام لعل خود کو دائیں بائیں جاتے راہ گیروں سے برتر سمجھتا۔ شاکر کے پاس ایک پرانی سائیکل تھی، جس کی چین اکثر اترتے چڑھتے پیڈل میں پھنس جاتی۔ اس کی پتلون پر اکثر چین کی گریس کے کالے دھبے گہرے ہلکے نظر آتے، مگر وہ اپنی اس خستہ حال سائیکل پر بھی خوش ہو کر سوار ہوتا، اس کو اپنی سائیکل بڑی پیاری تھی۔ اس کے بغیر وہ شاید سکول جانے کا خواب ہی دیکھتا رہ جاتا۔ رام لعل کے ماضی کے کواڑ دھیرے دھیرے کھل رہے تھے۔

    ایک دن اچانک دونوں دوستوں کو پتہ چلا کہ ان کے گاؤں الگ الگ ملکوں نے بانٹ لیے ہیں۔ ان سے پوچھے بغیر، دو الگ الگ دھرم والوں کے دو الگ الگ ملک، ادِھر ہم اُدھر تم۔ شاکر چانڈیو کا گاؤں ہندوستان میں چلا گیا اور رام لعل بخش کا پاکستان میں۔ ’’کیسی الٹی گنگا بہائی ان نیتاؤں نے! ارے جہاں رام لعل رہتا ہے، اسے ہندوستان میں کر دیتے اور ہمارے گاؤں کو پاکستان میں ڈال دیتے۔‘‘

    شاکر کا ابّا کوستے ہوئے کہتا۔

    ’’کاگج (کاغذ) پر لکیر ہی تو مارنا تھی۔ تھوڑی سی گھما کر مار دیتے۔ نہ ہم مرتے نہ وہ، اب کیا ہووت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔ اب ہم دونوں اپنے اپنے گھر تو بدلنے سے رہے۔‘‘

    ویسے رام لعل اور شاکر کو بھی یہ خیال آیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں سے کہہ کر اپنے اپنے گھروں کا وٹا سٹا کر لیں۔ ’’کیا، گھروں کا وٹا سٹا؟ وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ ابا نے منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے پوچھا۔ ’’ہم رام لعل کا پاکستان کا گھر لے لیں، وہ ہمارے اس ہندوستان والے گھر میں آ جائیں۔‘‘

    ’’ابے گھاس کھا گیا ہے؟ ہم اپنے پرکھوں کی ہڈیاں یہاں چھوڑ کر کیوں جائیں اور اس کے گھر والے کاہے کو دربدر ہوویں، ایک لکیر کے کھنچ جانے سے ہم سب بھی جناح اور گاندھی میں بٹ جائیں۔ کیا ہم ہی ہندی اردو کی چکّی میں پسنے کے لیے رہ گئے ہیں۔ابے ہم اس پاٹ کا گیہوں کیوں بنیں؟‘‘

    لکیر کھنچ گئی، اب بغیر ویزے کے ادھر سے اُدھر جانا غیرقانونی ہو گیا تھا۔ راجستھان کا مونا باؤ اور سندھ کا کھوکراپار الگ ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے درمیان میں باڑھ بھی لگ گئی۔ دونوں طرف فوجی نظر آنے لگے۔ سال بہ سال سختیاں بڑھتی گئی تھیں۔ پارٹیشن سے برسوں پہلے سندھ میل احمدآباد سے کھوکھرا پار سے ہوتی کراچی تک جاتی۔پارٹیشن کے بعد تھر ایکسپریس چلتی رہی مگر پینسٹھ (65ء) کی جنگ کے بعد کراچی سے جودھپور جانے والی ریل’’تھر ایکسپریس ‘‘ بھی بند ہو گئی، یہی ٹرین کبھی کھوکھرا پار اور مونا باؤسے بھی گزرتی تھی مگر اب آٹھ، دس میل کی مسافت، نصف صدی کی جدائی بن گئی تھی۔

    ’’ابا یہاں مجھے کوئی ملازمت نہیں ملنے والی، میرا تو اپنا نام بدلنے کو دل کرتا ہے۔

    پتہ ہے انٹرویو لینے والا افسر کیا پوچھ رہا تھا؟‘‘

    ’’کیا تیرا دھرم پوچھ لیا اس نیـ؟‘‘

    ’’وہ کیوں دھرم پوچھے گا، اس کے لیے تومیرا نام کافی ہے۔ کریم حسین چانڈیوـ‘‘

    ’’اچھا پھر کیا پوچھ لیا جو تو اتنی گرمی کھا رہا ہے۔‘‘

    شاکر نے بیٹے کی آنکھوں میں بے بسی نفرت اور غصہ سب کچھ ہی پڑھ لیا تھا۔

    ’’پوچھ رہا تھا گائے کا گوشت کھاتے ہو؟‘‘

    ’’پھر تو نے کیا کہا؟‘‘

    ’’جھوٹ بولنا پڑا۔ کہہ دیا سبزی خور ہوں، ویجی ٹیرین، یہ کیسا سیکولر بھارت ہے جہاں تعلیم اور قابلیت کے بجائے مذہب اور ذات پات کا انٹرویو لیا جاتا ہے؟ صابر چاچا کتنا سمجھدار تھا۔ بنگلہ دیش بننے کی خبر آنے کے دو مہینے بعد ہی بوریا بستر سمیٹ کر پاکستان چلا گیا۔ سنا ہے جیکب آباد میں بڑی دکان کر لی ہے اس نے۔ دونوں بیٹے کسی بینک میں لگ گئے ہیں۔ تھر کے پار ہی تو جیکب آباد ہے، ہم بھی وہیں چلتے ہیں۔ تھرپار کر میں آپ کا بچپن کا دوست رام لعل بھی مل جائے گا۔ ادھر اپنی مرضی سے رہیں گے۔ یہاں تو روز بلوائی نیا ہنگامہ کرتے رہتے ہیں۔‘‘

    ’’پرسوں چرچ میں توڑ پھوڑ ہوئی، کسی نے افواہ اڑادی تھی کہ کرسچین لڑکے کی ہندو لڑکی سے چرچ میں شادی ہو رہی ہے، بس کٹرّپنتی جمع ہوگئے تھے۔ کچھ مہینے پہلے مسجد کے مینار پر ہنگامہ ہو گیا تھا۔ جب سے نئی مسجد بنی ہے روز نئے نئے فتنے سر اٹھاتے ہیں، اس بار مینار کو توڑنے کی کوشش پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ سنا ہے گرمیوں میں مسجد کے مینار کا سایہ لمبا ہوتے ہوتے پاس بنے مندر پر پڑنے لگتا ہے۔ بس اسی پر بلوہ ہورہا تھا۔ پولیس بھی آگئی تھی۔‘‘

    کریم نے دروازے کی کنڈی لگاتے ہوئے کہا۔

    ’’چل چل، تو ایک بار کام سے لگ جائے گا تو پھر تجھے یہ سب چھوٹی چھوٹی باتیں اتنی بڑی نہیں لگیں گی، یہ سب تو ہر جگہ ہو رہا ہے۔ پاکستان گیا ہوتا تو شاید کسی بم دھماکے میں مارا جاتا یا اندھی گولی کا نشانہ بن جاتا، اغوا کر لیا جاتا۔ وہاں کون سا چین ہے؟ وہاں بھی آپا دھاپی مچی ہوئی ہے۔ اب اس عمر میں کیا پرکھوں کی زمین چھوڑیں گے؟ چھوڑنا ہوتی تو بٹوارے کے وقت ہی چھوڑ دیتے۔ رام لعل سے ہی اپنا گھر بدل لیتے۔‘‘

    شاکر نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوتے سوچا۔

    رات گہری ہوتی جا رہی تھی۔ دور کسی کتے کی بھونکنے کی آواز سناٹے کو توڑ کر فضا کو خوفزدہ کر رہی تھی۔ خود سر ہوا کے جھکڑ کھجور کے تناور درختوں کو حواس باختہ کر رہے تھے، کچھ دنوں سے سردی اوربڑھ گئی تھی۔ گرمی کی طرح صحرا کی سردی بھی مار کے رکھ دیتی ہے۔ـکریم نے باپ کی آنکھوں میں طلب دیکھ کر چلم میں گرم انگارے بھرے اور اس کا حقہ اس کے سرہانے رکھ دیا۔ شاکر بیٹے کی فرمانبرداری پر دل ہی دل میں خوش ہونے لگامگر دوسرے ہی لمحے اسے اپنے گریجویٹ مگر بیروزگار جوان بیٹے کے روز بروز بڑھتے باغیانہ خیالات سے خوف آنے لگا تھا۔ وہ آنے والے کل کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اچانک دروازے کی دستک اسے گھر کے آنگن میں واپس گھسیٹ لائی۔

    ’’کون ہے؟‘‘

    شاکر نے چندھیائی آنکھوں سے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا مگر شاید اس کی کمزور آواز آنگن سے آگے تک نہیں پہنچی تھی۔ دروازے پر دوبارہ دستک ہو رہی تھی۔

    ’’کرمو! دیکھ بیٹا اتنی رات گئے کون آ گیا ہے۔‘‘

    کریم بڑبڑاتا ہوا کمرے سے نکل کر دروازہ کھولنے بڑھا۔

    ’’ذرا دیکھ بھال کے، کوئی مندر مسجد والا ہو تو جواب سوال نہ کرنا، ہمیں دونوں سے کچھ نہیں لینا دینا۔‘‘

    باپ کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی کریم دروازہ کھول کرجا چکا تھا۔ باہر سے لوگوں کی باتیں کرنے کی آواز آ رہی تھی۔

    ’’کون ہے کرمو؟ بیٹا سردی بہت ہے۔۔۔ اندر آ جا۔ زیادہ بک بک نہ کر، آ جا بیٹا، اندر آ جا۔‘‘ شاکربولے جا رہا تھا۔

    کریم اندر واپس آیا تو اکیلا نہیں تھا۔ شاکر نے چندھیائی آنکھوں سے اندر آنے والے اجنبی سائے کو پہچاننے کی ناکام کوشش کی۔

    ’’کون ہے بیٹا؟‘‘

    ’’ابا، تیرا سرحد پار والا رام لعل بخش مطلب رام چاچا۔‘‘

    رام لعل! شاکر کے دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگیں۔ یادوں کی آندھیاں۔

    ’’مگر، وہ یہاں کیسے۔۔۔ کس طرح آیا۔‘‘ اس کے ساتھ اس کی دھبو (بیٹی) بھی ہے۔ ’’ارے بلاؤ بلاؤ، رام لعل، رام لعل، کہاں ہے؟‘‘

    شاکرنے لیمپ جلا دیا۔کمرے کے ساتھ ساتھ یادوں کا ہر دریچہ بھی روشن ہو گیا۔ بچپن کے دونوں دوست نصف صدی بعد مل رہے تھے۔ ایک دوسرے کے آنسو پونچھ کر اپنی اپنی بپتا سنا رہے تھے، گلے شکوے، سکول کی یادیں، محلے کی گلیاں، کھیل، ٹریکٹر کی سواری اور پھر ریل۔

    ’’ہاں، ریل سے تھرپارکر سے لاہور آیا۔ یہاں سے امرتسر کے راستے سے ہوتا ہوا بھوپال گیا، رشتہ داروں سے ملا۔ ایک سال سے ادھر ہی تھا، اب واپس جانا ہے۔‘‘

    رام لعل کے چہرے پر اداسی کے ساتھ فکر مندی جھلک رہی تھی۔

    ’’رام لعل! تُو ایک سال سے اِدھر ہے اور مجھے ملنے اب آیا ہے۔ بڑا کھٹور نکلا۔‘‘

    ’’اگر میں پاکستان جاتا تو سب سے پہلے تجھ سے ملنے آتا، ہاں مگر یہاں بھوپال میں تیرے رشتے دار ہیں، ظاہر ہے ان کے پاس ٹھاٹھ سے رہ رہا ہوگا۔ اس چھوٹے سے قصبے میں بچپن کے بھولے بسرے ہم جماعت کا نمبر تو سال بعد ہی آنا تھا۔‘‘

    ’’چاچا! تمھیں سال بھر کا ویزہ کیسے مل گیا؟ پاکستانیوں کو تو ویزہ ملنا ویسے بھی مشکل ہوتا ہے۔‘‘

    کریم نے اُن دونوں کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔

    ’’ویزہ تو تین مہینے کا ہی ملا تھامگر!‘‘

    رام لعل کی بات ادھوری رہ گئی۔

    ’’اچھا اچھا! ویزہ بڑھوا لیا ہوگا، اور ہاں تیرا نام بھی تو۔۔۔ اس لیے تین تین مہینے کا ویزہ بڑھوانے میں تمھیں تو اتنی مشکل نہیں پڑی ہوگی۔ میری بات کا غلط مطلب مت لینا، مگر نام سے بھی تو۔‘‘

    کریم نے باپ کی گھورتی آنکھ کی طرف دیکھ کر بات بدلتے ہوئے کہا۔

    ’’میرا مطلب ہے فرق تو پڑتا ہے‘‘، کریم نے آہستہ سے کہا۔

    کریم کی بات سن کر رام لعل کو چپ سی لگ گئی۔

    ’’ارے اس پاگل کرمو کی باتوں سے من میلا نہ کرنا، یہ تو نرا احمق ہے۔ پڑھا لکھا جاہل۔ جا کرمو، کچھ کھانے پینے کا انتظام کر، یہاں مہمان بھوکے بیٹھے ہیں اور تجھے ویزے کی ٹوہ لینے کے علاوہ کچھ اور نہیں سوجھا۔‘‘

    شاکر نے بیٹے کو جھڑکتے ہوے کہا۔

    ’’دیکھ ہماری بٹیا بھی تھکی ہوئی ہے۔ اسے تو کسی نے پوچھا ہی نہیں، گھر میں کوئی عورت نہیں ہے ناں اس لیے۔ کریم کی ماں دو سال پہلے گزر گئی اور تُو، تو بالکل میری بیٹی جیسی لگتی ہے، کیا نام ہے ہماری بٹیا کا؟‘‘

    ’’کرن‘‘، لڑکی نے سہمی ہوئی نظروں سے شاکر کی طرف دیکھتے ہوئے دھیرے سے جواب دیا۔

    ’’کرن!پڑھتی ہو؟‘‘

    ’’ہاں تیرھویں جماعت میں تھی، میرا مطلب ہے ہوں۔‘‘

    وہ سب باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں کریم سندھی بریانی لے کر آ گیا۔

    ’’نکڑ والا ہوٹل تو بند ہو گیا تھا، مارکیٹ تک جانا پڑا، اس لیے ذرا دیر ہو گئی۔‘‘

    کریم نے اچٹتی سی نظر کرن پر ڈالتے ہوئے کہا، مگر کھانے کے دوران میں وہ کرن کو بغور دیکھ رہا تھا، دبلی پتلی، سہمی سہمی سی لڑکی تھی، چہرے کے نقوش تیکھے اور رنگت سانولی سی، ہلکے بھورے بال شانوں سے کچھ نیچے تک آ رہے تھے، چوڑی پیشانی اور کھڑا ناک نقشہ، بڑی بڑی کالی آنکھیں اور چھوٹا سا دہانہ، اس نے ہلکے نیلے رنگ کی شلوار قمیض پر نارنجی رنگ کی اجرک اوڑھ رکھی تھی۔

    ’’کیا ہوا کریم۔ کھانا نہیں کھا رہا؟‘‘

    باپ کی آواز پر کریم ایک دم بوکھلا سا گیا۔

    ’’ابا پہلے مہمان۔۔۔، تو ہی تو کہتا ہے مہمان برکت ہوتے ہیں اور پھر چاچا تو تیرے، میرا مطلب ہے ہمارے خاص مہمان ہیں۔ یعنی خاص برکت۔‘‘

    ’’رام لعل۔۔۔ تم تھک گئے ہو گے، ورنہ میرا تو من کرتا ہے ساری رات تجھ سے باتیں کرکے گزار دوں۔ محلے کی باتیں، بچپن کی باتیں اور سکول ہم جماعتوں اور استادوں کی باتیں۔‘‘

    شاکر نے جوشیلی آواز میں کہا۔

    ’’تمھیں استاد نبی بخش یاد ہیں؟‘‘

    رام لعل اسے پھر کلاس میں گھسیٹ لایا۔

    ’’ہاں وہی جو ٹوٹی کمانی کی عینک پہنا کرتے تھے۔ شاید ریاضی پڑھاتے تھے اور پٹائی بھی خوب کرتے تھے۔‘‘

    شاکر نے ہنستے ہوئے کہا۔

    ’’میں نے کمرہ ٹھیک کر دیا ہے، بستر پر کمبل بھی رکھ دیا ہے۔ آپ لوگ وہیں سو جائیے گا۔‘‘

    کریم نے شاکر کی چلم اٹھاتے ہوئے کہا۔

    ’’کرن بیٹا! تم آرام کرو۔ ہم دونوں دوست تو ابھی گپیں لڑائیں گے۔‘‘

    رام لعل نے کرن کی آنکھوں میں نیند دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’نہیں، باپو جب آپ سونے جائیں گے، تب ہی میں بھی جاؤں گی۔‘‘

    کرن نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔

    ’’ارے بیٹا! یہاں ڈرنے والی کوئی بات نہیں۔ یہ تو سب سے محفوظ گھر ہے، میرے یار شاکر کا گھر۔‘‘

    رام لعل نے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔

    ’’اور ویسے بھی اب کم از کم ایک دو ہفتے تو رکنا ہی پڑ ے گا۔ اپنے گھر میں تکلف کرکے خود کو مشکل میں مت ڈالنا۔ کریم تو صبح سے ٹیوشن پڑھانے نکل جائے گا اور میری دکان اب دو ہفتے بند ہی رہے گی۔‘‘

    شاکر نے ہنستے ہوئے کہا۔

    ’’نہیں نہیں، تم دکان بند کرکے اپنا نقصان مت کرنا۔ ویسے بھی ہم ایک ہفتے میں چلے جائیں گے۔‘‘

    رام لعل نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوے کہا۔

    ’’ارے بھائی رشتے داروں کے پاس سال بھر گزار لیا اور بچپن کے بچھڑے یار کے پاس صرف ایک ہفتہ؟‘‘

    کرن صوفے پر بیٹھے بیٹھے سو چکی تھی، کریم اپنے کمرے میں جا چکا تھا، شاکر اور رام لعل کا دل ابھی بھی باتوں سے بھرا نہیں تھا۔

    ’’تم جو یہ سال بھر رشتے داروں کے پاس رہنے کا طعنہ دیتے ہو ناں۔‘‘ رام لعل رکتے رکتے بولا۔

    ’’کرن کرن۔‘‘

    رام لعل نے بات آگے بڑھانے سے پہلے کرسی پر گردن لگائے سوتی کرن کو آواز دی۔ کرن کو گہری نیند میں دیکھ کر اسے اطمینان سا ہوا اور اس نے پھر اپنی بات آگے بڑھا دی۔

    ’’سچ بات تو یہ ہے کہ میں اپنے قصبے سے ہندوستان اس خیال سے آیا تھا کہ اب واپس نہیں جاؤں گا۔ قانونی طور پر ہم صرف تین مہینے کے ویزے پر آئے تھے مگر ہمارا یہاں سے واپس جانے کا ارادہ نہیں تھا۔ ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر یہیں بسنے کے ارادے سے آئے تھے۔‘‘

    ’’کیوں کیا ہوا تھا؟ مجھے پوری بات بتا۔ ایسا کیا ہوا تھا کہ تونے اپنی اس زمین کو اب چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا جو تونے بٹوارے کے خون خرابے کے وقت بھی نہیں چھوڑی تھی۔ کیاملک بٹنے کے پچاس سال بعدتیرے اندر کا ہندو جاگ گیاتھا؟‘‘

    شاکر نے طعنہ دیا۔

    ’’میں تجھے ایسا لگتا ہوں؟‘‘

    رام لعل نے افسردہ لہجے میں پوچھا۔

    ’’تو پھر کیا ہوا؟ اور جب تو ادھر آ ہی گیا تھا تو پھر اب ایک سال بعد واپس کیوں جا رہا ہے، یہاں تیرے سب رشتے دارہیں۔ لڑکی کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ اس کی شادی بھی یہیں تیری اپنی ذات برادری میں ہو جائے گی۔‘‘

    شاکر نے مشورہ دیا۔

    ’’ہاں یہی سب سوچ کر میں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں بسنے کا سوچا تھا۔ یہ میری پہلی ہجرت تھی، تب پتہ چلا کہ گھر، زمین اور اپنوں کو چھوڑنے کا درد کیا ہوتا ہے؟ بٹوارے کے وقت لوگ اپنی بپتا ایک دوسرے کو سنا کر دل ہلکا کر لیتے تھے۔۔۔ سب ایک ہی کشتی کے سوار تھے اور جب میری بپتا سنانے کا وقت آیا تو کوئی سننے والا ہی نہیں۔‘‘

    ’’کیوں وہاں قصبے میں ایسا کیا ہو گیا تھا؟‘‘

    ’’بس وہاں پچھلے کچھ سالوں سے ایک چھوٹی سی اقلیت کو دوسری اقلیت پر ایسا غلبہ ملا کہ زندگی اجیرن ہو گئی۔ دکان کا نام تو بہت سالوں پہلے ہی لعل اسٹور سے بدل کر گرین اسٹور کر دیا تھا۔ پھر بھی پچھلے دو سال میں دو بار دکان کو آگ لگ گئی۔ اکثر بھتے کی پرچیاں بھی ملتیں جن پر لکھا ہوتا کہ یا تو مسلمان ہو جاؤ یا جزیہ دو۔ ہر دو چار مہینے بعد گھر کی دیوار پر رنگ و روغن کروانا تو عام سی بات ہو گئی تھی۔‘‘

    ’’وہ کیوں؟‘‘

    ’’بس دیوار پر ہر ہفتے، مہینے، ’’ہندو بنیے بھارت جاؤ‘‘، ’’کافروں کا ٹھکانہ جہنم یا بھارت‘‘، ’’پاک زمین کو نا پاک لوگوں سے پاک کرو‘‘، ’’خود جاؤ گے یا۔۔۔!‘‘ جیسے نعرے لکھے ہوتے تھے۔ زیادہ تر پرانے محلے دار تو پہلے ہی جا چکے تھے۔ دائیں بائیں کے برادری والے پڑوسی بھی تنگ آ کر یا تو کراچی چلے گئے یا بھارت میں پناہ لینے آ گئے۔ کچھ کینیڈا، امریکہ نکل گئے۔ خود میری بڑی بہن کا خاندان آسٹریلیا چلا گیا۔‘‘

    ’’جب کبھی سرحد پر گولہ باری کی خبریں آتیں یا بھارت سے مسلمانوں پر کسی زیادتی کی شہ سرخی لگتی تو دکان کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ بھی ہو جاتا، سب ایسے نہیں تھے مگر کٹر لوگوں کا چھوٹا سا گروہ شرپسندی پر اترا ہوا تھا، حالانکہ تھر کے علاقے کی ساری برادریوں کے بھائی چارے کی مثالیں دی جاتی تھیں۔۔۔ عید، محرّم، دیوالی، ہولی، سارے تہوار سب مل کے مناتے تھے۔ اُدھر دو نوں ملکوں کی جنگیں بھی اس بھائی چارے کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔ جہاں محبت ہوتی ہے وہاں پھول کھلتے ہیں۔ جب ہی تو تھَر دنیا کے گِنے چُنے صحراؤں میں سے ایک ہے، جہاں کے کچھ علاقوں میں انا ج بھی اگتا ہے مگر اب بہت کچھ بدل گیا ہے۔‘‘

    ’’تو کیا کوئی بھی تمھاری مدد کو نہیں آیا؟‘‘

    ’’کچھ نے ساتھ بھی دیا، مدد بھی کی، کئی بار جان کو خطرے میں ڈال کر ہماری حفاظت بھی کی، مگر انتہا پسندی کے ریلے کے آگے وہ بھی کب تک ڈٹے رہتے؟ کچھ محلے داروں نے ہی ہمیں بھارت ہجرت کر جانے کا مشورہ دیا تھا۔ کئی ہندو خاندان، گھر چھوڑ کر جا چکے تھے۔ ان کو بھارت کی شہریت ملنے کی خبریں بھی ملتی رہتی تھیں۔ ڈر ڈر کر رہنے سے بہتر ہے تم لوگ بھارت چلے جاؤ۔ جوان لڑکی کا ساتھ ہے۔ تم لوگ وہاں زیادہ محفوظ رہو گے۔ محلہ کی مریم بی بی نے مجھے مشورہ دیا تھا۔ عقل ماؤف ہوئی جا رہی تھی۔ گھر، محلہ اور اپنی مٹی ماں کو چھوڑنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ گھرچھوڑنے کے اس سانحے میں دل پر قیامت گزر گئی۔ بٹوارے کے زمانے کے زخم پھر سے ہرے ہو گئے تھے۔ آخر کار اس سفر کے لیے زادِ راہ باندھ کر بستی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘

    ’’ان حالات میں تو شاید تم نے ٹھیک ہی کیا۔‘‘ شاکرنے ایک لمبی سانس بھرتے ہوئے کہا۔

    ’’ہاں! یہی سب سوچتے ہوئے میں اپنے رشتے داروں کا پتہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے بھوپال پہنچ گیا، کرن کی وجہ سے بھی فکر تھی، رشتے داروں نے ہم دونوں کو سینے سے لگا لیا۔ ہمارے زخموں پر پھاہے رکھے مگر ہمارے زخم بھرتے بھرتے خود ان کو زخم لگنے لگے تھے۔‘‘

    ’’کس طرح کے زخم؟‘‘ شاکرکے لہجے میں حیرت تھی۔

    ’’ہم نے جو کچھ خواب دیکھے تھے، ایک ایک کرکے سب ٹوٹنا شروع ہو گئے تھے۔ ہم نے مہاجر کی حیثیت سے یہاں آ کر شہریت کی درخواست داخل کی مگر درخواست دینے کے سارے عمل نے ہی خوابوں کو چکنا چور کرنا شروع کر دیا۔‘‘

    ’’تو کیا تجھے شہریت دینے سے منع کر دیا سرکار نے؟‘‘

    ’’نہیں، اس کی نوبت ہی نہیں آئی، میں نے خود ہی عرضی واپس لے لی۔‘‘

    ’’مگر کیوں؟‘‘

    شکور کے سوال کا رام لعل نے کوئی جواب نہیں دیا۔

    ’’یہاں تو پھر بھی تیرے اپنے ہیں، تیرے رشتے دار ہیں، میرا مطلب ہے پاکستان جا کر تو کیا کرے گا؟‘‘

    ’’ہاں میرے اپنے ہی رشتے دار ہیں، مگر بس گھر کی چار دیواری تک۔ گھر سے باہر میں اور میری بیٹی اجنبیوں کی طرح ہیں، سب ہم پر شک کرتے ہیں، ہم پاکستانی ہندو ہیں۔ ہم پاکستان کے جاسوس ہو سکتے ہیں، ہم دوسرے ہندوستانیوں کی نوکریوں پر قبضہ کر سکتے ہیں، ہم کو اردو لکھنا آتی ہے، جو یہاں کے بہت سے مسلمانوں کو بھی لکھنا نہیں آتی۔ ہماری پیدائش کے خانے میں پاکستان لکھا ہے، یہاں ہم ہندو نہیں پاکستانی سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہندو، ہندوستان میں پاکستانی، ہم تو نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔‘‘

    رام لعل کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے جیسے برسوں کے بند ٹوٹ گئے ہوں۔

    ’’تم نے یہ باتیں دوسروں سے سنی ہیں یا؟‘‘

    شاکر نے رام لعل کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔

    ’’نہیں شاکر یہ سب خود مجھ پر گزری ہے۔‘‘

    رام لعل نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔

    ’’ایک دن گھر سے باہر نکلا توراہ گیر گھور کر دیکھنے لگے اور دیکھتے دیکھتے میرے ارد گرد ایک ہجوم جمع ہوگیا۔سب مجھے گھور گھور کر ایسے دیکھ رہے تھے جیسے میں کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہوں۔‘‘

    ’’مگر تم تو شکل سے ہندوستانی ہی لگتے ہو۔‘‘

    شاکر نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’ہاں! مگر شاید صرف شکل سے، حلیے سے نہیں۔ میں اس دن بے خیالی میں شلوار قمیض پہن کر باہرنکل آیا تھا، بازار میں کچھ اوباش پیچھے لگ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہجوم بن گیا۔ ان میں سے ایک لڑکے نے میرا گریبان پکڑتے ہوئے پوچھا، کیا پاکستان سے آئے ہو یا کشمیری ہو؟‘‘

    ’’نہیں میں تو ہندو۔۔۔‘‘

    ’’میری بات سنے بغیر ہی چار پانچ اوباشوں نے مجھے دھکے دینا شروع کر دیے۔‘‘

    ’’پاکستانی جاسوس دکھائی پڑتا ہے۔‘‘

    ’’مسلّی ہے شاید؟‘‘

    ’’نہیں نہیں، میں رام لعل ہوں۔‘‘

    ’’ابے چل، رام لعل کی اولاد۔‘‘

    مجمع میں سے ایک سادھو نما شخص حقارت سے بولا۔

    ’’کیسا بے غیرت مسلی ہے؟ جان پر بنی دیکھی تو نام بدل لیا۔‘‘

    دو تین بدمعاشوں نے میرے سر پر چپت مارتے ہوئے کہا۔

    اتنے میں دو آدمیوں نے دھکا دے کر بد معاش لڑکوں کو ہٹایا۔

    ’’ارے کم بختو! تیرے باپ کے برابر ہے، کیوں اس کو تماشا بنا رکھا ہے۔‘‘

    ’’ابے تجھے بڑا ترس آرہا ہے اس بڈھے بہروپیے پر۔‘‘

    ایک بد معاش نما لڑکے نے ہاتھ نچاتے ہوئے کہا۔

    اتنے میں میرے کچھ رشتے دار بھی مجمع دیکھ کر ادھر آ نکلے۔میرے بھتیجے نے مجمع چیرتے ہوئے آگے آکرلڑکوں کے نرغے سے مجھے باہر نکالا۔

    ’’ارے یہ ہمارا چاچا ہے، چاچا رام لعل۔‘‘

    مجمع تتر بتر ہونا شروع ہو گیا۔

    ’’تو یہ شلوار قمیض پہن کر کیوں گھوم رہا ہے اور پاکستانیوں جیسی زبان بھی بول رہا ہے چچا گالب (غالب) کا سالا۔‘‘

    دور ہٹتے مجمعے میں سے ایک دوسرے آدمی نے جاتے جاتے آواز لگائی۔

    ’’آج تو بچ گیا ہے، دوبارہ کہیں بازار میں نظر آئے تو اس کی مسلمانی دیکھ لینا۔ سارا پول کھل جائے گا۔‘‘

    گنجے سر والے بھکشو نما شخص کی بات پر آس پاس کھڑے اوباش نوجوان کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔

    ’’ابے ہٹ۔ زیادہ بکواس کی تو منہ توڑ دوں گا۔‘‘

    بھتیجے کی کڑک دار آواز سن کر بچے کھچے لڑکے بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ میرا بھتیجا مجھے اپنے گھر لے آیا۔

    ’’چاچا! تم ہمارے رشتے دار سہی مگر تمھارا رہن سہن بول چال اور حلیہ یہاں والوں سے بہت فرق ہے۔‘‘

    ’’تو کیا مجھے یہاں کوئی کام بھی نہیں دے گا؟‘‘

    میرا سوال سن کر بھتیجا خاموش ہو گیا

    ’’کیا بات ہے، تو چپ کیوں ہو گیا؟‘‘

    ’’چاچا! یہاں کام کا کال پڑا ہوا ہے۔ دوسری ریاست سے کام کی تلاش میں آنے والوں کو بھی لوگ بھگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے مقامی آدمی کا کام پر حق ہے پھر باہر والے کا نمبر آئے گا۔ دوسرے دیہات اور دوسرے شہر کے لوگوں کو یہاں لوگ اس لیے پسند نہیں کرتے کہ وہ کم اجرت پر ان کا حق مار لیتے ہیں۔ تم تو پاکستان سے آئے ہو، خود سوچو روزگار کے کال کے زمانے میں باہر والے کو کام دے کر کون خطرہ مول لے گا۔‘‘

    ’’مگر میں تو تم ہی لوگوں میں سے ہوں، ہندوستان کا ہندو۔‘‘

    ’’نہیں تم پاکستانی ہو، پاکستانی۔ تم پاکستان میں پیداہوئے، وہیں پلے بڑھے، وہیں تعلیم پائی، وہیں کی بولی لکھتے اور بولتے ہو اور وہیں کا لباس پہنتے ہو۔ پھر تم کو کوئی ہندوستانی کیسے مان لے؟‘‘

    ’’مگر میں نے تو بھارتی شہریت کی درخواست دے رکھی ہے۔ سرکار نے قانون بنا دیا ہے۔ جان و مال کے خوف سے آنے والے ہندو مہاجروں کو بھارتی شہریت دی جا رہی ہے، ہماری حفاظت کی جائے گی، ہماری مدد کی جائے گی۔ویسے بھی ہم ہندو برہمن ہیں۔‘‘

    میری آواز اونچی ہو گئی تھی۔

    ’’چاچا! ہندوستان میں پہلے ہی بہت ساری اونچی نیچی ذاتیں ہیں۔‘‘

    ’’میری بات شاید کڑوی لگے مگر سچ یہ ہے کہ تم لاکھ خود کو برہمن کہولیکن تم، پاکستان سے آنے والے ہندو یہاں ایک نئی اچھوت ذات بنتے جارہے ہو۔ پاکستانی ہندو۔‘‘

    آگے بو لنے سے پہلے اس نے میری طرف ترس کھاتی نظروں سے دیکھا۔

    ’’چاچا، کیا تم یہاں کا اخبار پڑھتے ہو؟‘‘

    ’’بیٹا مجھے ہندی ٹھیک سے پڑھنا نہیں آتی، نہ میری بیٹی کوہندی آتی ہے۔‘‘

    بھتیجے نے میری طرف کچھ اس طرح دیکھا جیسے مجھ کو نرا احمق اور بے وقوف سمجھ رہا ہو۔

    ’’چاچا! معاف کرنا، تم بہت بھولے ہو، تم لوگوں کو یہاں کی زبان تک نہیں آتی اور خواب دیکھ رہے ہو یہاں بسنے کے، میری مانو تو پاکستان ہی واپس چلے جاؤ جس طرح کے چھوٹے موٹے واقعات وہاں تمھارے ساتھ ہوئے ہوں گے، اس سے زیادہ برا سلوک یہاں تمھارے ساتھ ہو سکتا ہے۔ بلکہ پولیس کے ہتھے چڑھ گئے تو پاکستانی جاسوس بنا کر ہمیشہ کے لیے لاک اَپ میں ڈال دے گی۔ ہم سب۔۔۔ میرا مطلب ہے سارے رشتہ دار بھی مشکل میں آ جائیں گے۔کچھ دنوں میں ویزہ بھی ختم ہو جائے گا پھر غیر قانونی پناہ گزین بن جاؤ گے، اپنے ساتھ سب جاننے والوں کو بھی تھانے کچہری کے چکر لگواؤ گے۔‘‘

    بھتیجے کی باتیں سن سن کر میں اندر ہی اندر ٹوٹ رہا تھا۔ کیاکچھ سوچ کر دھرتی ماتا کو چھوڑ کر نکلا تھا۔

    ’’لیکن اب تو پاکستان جا کر کیا کرے گا، گھر بار سب تو ختم کرکے آیا ہے۔‘‘ شاکر نے رام لعل کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

    ’’مکان تو ایک محلے دار کو دے آیا تھا، وہ اچھا بندہ تھا، پڑوسی تھا۔ ہم دونوں کا بہت خیال رکھتا تھا۔‘‘، رام لعل نے بے چارگی سے جوا ب دیا۔

    صبح ہونے کے قریب تھی۔ دور کہیں سے مندر کی گھنٹی کی آواز آ رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں مسجد سے اذان کی آواز نے دونوں دوستوں کی باتوں کو چپ کی چادر اڑھا دی۔ کرن صوفے پر ہی سو گئی تھی۔

    ’’جا، جا کر آرام کر لے۔ کریم جب ٹیوشن پڑھانے نکلے گا تو اٹھا لے گا۔ کرن کو بھی لے جا، بے آرامی سے سو رہی ہے۔آ، میں تجھے کمرے کارستہ دکھا دوں۔‘‘

    شاکرنے بستر سے اٹھتے ہوئے کہا۔

    کچھ روز بعد رام لعل اور کرن کو واپس لوٹ جانا تھا۔ رام لعل اپنی جوان بیٹی کی فکر میں گھلا جا رہا تھا۔ واپس جا کر پھر سے زندگی شروع کرنا تھی۔ ہر ایک کو بتانا تھا کہ وہ دونوں ایک سال تک کہاں رہے۔

    ’’ہم دونوں بھارت نہیں نیپال گئے تھے۔ سب کو ادھریہی بتانا ہے۔‘‘

    رام لعل نے کرن کو سمجھاتے ہوئے کہا۔

    ’’بھارت کا نام سُن کر تو رہی سہی دوستیاں بھی خطرے میں پڑ جائیں گی۔‘‘

    ’’مگر ابا میں وہاں نہیں رہ سکتی۔ واسطہ تجھے تیرے رام کا، مجھے وہاں مت لے جا، مجھے وہاں بہت ڈر لگتا ہے۔‘‘

    وہ باپ کے سینے سے لگ کر بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگی۔

    ’’ارے میں کون سی اپنی خوشی سے ادھر جا رہا ہوں۔ ویسے بھی ہم کراچی چلے جائیں گے۔ وہاں تیری ماسی اور ماسا ڑھو (خالو) بھی تو ہیں۔ میں نے سارا پروگرام بنا لیا ہے تو چنتا نہ کر، تو میری دھیو (بیٹی) ہے کوئی بوجھ تھوڑی ہے؟‘‘

    رام لعل نے بیٹی کا سر چومتے ہوئے کہا۔

    ’’مگر وہ ملاّ قادر‘‘ کرن نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا۔

    ’’مت لے اس نا ہنجار کا نام۔‘‘

    رام لعل کی آواز میں خوف کے ساتھ غصّہ نمایاں تھا۔

    دروازے کی دستک نے رام لعل کو آگے بولنے کا موقع نہیں دیا۔ کرن نے بھی جلدی جلدی دونوں ہتھیلیوں سے آنسو پونچھ ڈالے۔

    ’’کون ہے؟‘‘

    ’’جی رام چاچا میں ہوں کریم، ابا بول رہے ہیں کھانا کھا لیں اور مٹھائی بھی۔‘‘

    ’’اچھا اچھا! بس ابھی آیا۔‘‘

    رام لعل نے کرن کے ماتھے پر بوسہ دے کر اسے خود سے الگ کیا۔

    ’’چل دھیو چل، کچھ کھا لے۔‘‘

    رام لعل نے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے کہا۔

    ’’آجا رام لعل، کھانا کھا لے اور منہ بھی میٹھا کر لے، کریم کو کام مل گیا ہے۔‘‘

    شاکر کے چہرے پر خوشی کھلی ہوئی تھی۔

    ’’ہماری بٹیا کو بھی تو بلاؤ۔‘‘

    ’’کریم، ذرا کرن کو آواز دے۔‘‘ باپ کی آواز سن کر سوچ میں غرق کریم چونک پڑا۔

    ’’کیا ہوا کریم ملازمت ملنے پر خوش ہونے کے بجائے منہ لٹکائے کیوں بیٹھا ہے؟‘‘

    رام لعل کی بات پورے ہونے سے پہلے کرن اجرک سے خود کو ڈھانپتی ہوئے آ گئی۔ اس کا چہرہ لٹھے کی طرح سفید ہو رہا تھا، چہرہ آنسوؤں سے دُھل کر اس سفید موتیے کے پھول کی طرح لگ رہا تھا، جس کو کسی نے کھارے نمکین پانی سے دھو دیا ہو۔ وہ سمٹ کر اسی طرح کونے میں بیٹھ گئی جیسے آس پاس سے ڈری ہوئی ہو۔ رام لعل اور شاکر پھر اپنے گاؤں کے سکول کے صحن میں پہنچ گئے تھے۔ ان کی باتیں اور یادیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ کھانا کھاتے کھاتے بھی ان دونوں کو گاؤں کے کسی محلے دار یا سکول کے کسی استاد کی کہانی یاد آ گئی تھی، وہ دونوں اپنی ہی باتوں میں لگے ہوئے تھے۔

    کریم چور نظروں سے بار بار کرن کے سپاٹ چہرے کی طر ف دیکھ رہا تھا، جو ہاتھ سے نوالہ بنائے سوتی جاگتی ساکت بیٹھی تھی۔ اس نے شاید ایک لقمہ بھی نہیں کھایاتھا۔ کریم نے آہستہ سے کھنکھارتے ہوئے جگ سے پانی انڈیلا اور گلاس کرن کے آگے رکھ دیا۔ وہ ایک دم سے چونک پڑی جیسے کسی ڈراؤنے خواب سے جاگ پڑی ہو۔ رام لعل اور شاکر باتوں میں مصروف تھے۔

    ’’کھانا نہیں کھاؤ گی تو کراچی تک کیسے جاؤ گی؟ بھوک سے نڈھال ہو کر گر پڑو گی۔‘‘

    کریم نے کرن کی طرف دیکھے بغیر اس طرح کہا کہ سوائے کرن کے کسی تک اس کی آواز نہیں پہنچی۔ کریم کے سوال پر کرن نے پہلی بار آنکھ اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔ کریم کو اس کی سہمی آنکھوں میں خوف اور ڈر کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آیا۔

    دوسرے دن کریم گھر لوٹا تو کرن کو باہر صحن میں کرسی پر سوتے پایا۔ اندر کمرے سے رام لعل اور شکور کی باتوں کی آواز آرہی تھی۔کریم نے غور سے کرن کے چہرے کودیکھا۔اس کی مخروطی سی ناک پر پسینے کے باریک باریک قطرے لرز رہے تھے۔اوپر کے ہونٹوں کی نازک سی محراب کے اوپر ننھا سا تل سوئی کی نوک کی مانندسانسوں کے ساتھ کپکپا رہا تھا۔ گالوں پر بنتے بھنور دونوں کنپٹیوں کے ریشے جیسے سنہری روئیں چھورہے تھے۔بند آنکھوں کوغلافی پپوٹوں نے ڈھانک رکھا رکھا۔محرابی کانوں میں انگور کے خوشے جیسے بندے ادھر ادھر جھول رہے تھے اس تمام صناعی کے باوجود اس کے چہرے پہ شگفتگی اور شادابی کے بجائے افسردگی کے سائے چھائے ہوئے تھے۔ اچانک کرن نے آنکھیں کھول دیں مگر کریم کو سامنے کھڑادیکھ کر ہڑبڑا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ کریم نے گھبرا کر اس کے چہرے سے نظریں ہٹالیں اورکھسیاتے ہوئے کہا،’’تجھے پتہ ہے مجھے کام مل گیا ہے؟‘‘

    اس کی بات پر کرن نے کسی ردّعمل کا اظہار نہیں کیا۔

    ’’مجھے معلوم ہے تم گونگی نہیں ہو۔‘‘

    کریم نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’اور یہ مُلاّ قادر کون ہے؟‘‘

    زور کا چھناکا ہوا، کرن کے کانپتے ہاتھوں سے شیشے کا بھرا گلاس فرش پر اس زور سے گرا کہ ایک لمحے کو کریم بھی گھبرا گیا۔

    ’’ارے کرمو، دیکھنا ذرا، کیا بلی رسوئی میں گھس آئی ہے؟‘‘

    ’’ہاں ابا! گلاس گرا دیا ہے کم بخت نے مگر باقی سب ٹھیک ہے تم لوگ باتیں کرو، میں نے اسے بھگا دیا ہے۔‘‘

    کریم نے جلدی سے جواب دیا اور فرش پر پڑے شیشوں کو برش سے دھکیل کر کیاری میں ڈالنے لگا۔

    ’’کیا بات ہے۔۔۔ مُلاّ قادر کے نا م پر تمھارے چہرے پر ہوائیاں کیوں اڑنے لگتی ہیں۔ صاف صاف بتاتی کیوں نہیں کہ ملا قادر کون ہے؟‘‘

    کریم نے اس بار ذرا سختی سے پوچھا۔

    ’’وہ، وہ!‘‘

    کرن کی آواز جیسے گھٹی جا رہی تھی۔

    ’’تو کیا تم میری اور باپو کی باتیں سن رہے تھے؟‘‘

    ’’سن نہیں رہا تھا، کھانے کے لیے بلانے آیا تھا تو کان میں آواز پڑ گئی۔‘‘

    کریم نے کھسیا تے ہوئے صفائی پیش کی۔

    ’’ملا قادر۔۔۔ وہ میرا۔ میرا مطلب ہے میرا اس سے نکاح ہو گیا تھا۔‘‘

    ’’نکاح؟‘‘

    کریم ایک دم سناٹے میں آ گیا۔

    ’’ہاں زبردستی کا نکاح۔‘‘

    ’’مگر، زبردستی کا نکاح بھی کوئی نکاح ہوتا ہے اور وہ بھی ہندو کا مسلمان سے؟‘‘

    ’’ہاں! میں نے بھی پنجایت میں یہی کہا تھا مگرسارے برادری والوں نے یہی کہا کہ اب تو مسلّی ہے اور ملا قادر تیرا شوہر، تجھے ہندو بھی قبول نہیں کرے گا، اس لیے بہتر ہے تو ملا قادر کے ساتھ ہی چلی جا۔‘‘

    ’’مگر یہ سب شروع کیسے ہوا؟‘‘

    ’’بس میں کالج جاتی تھی تو کچھ لڑکے میرے پیچھے لگ جاتے تھے، کالج بدل لیا مگر وہ ادھر بھی آ گئے۔ کئی ہفتے کالج جانا بندکردیا تو ایک دن ملا قادر اور دو لڑکے گھر آ گئے۔ ابا کام پر گیا ہو ا تھا۔ میں نے دروازہ کھولا تو تینوں اندر گُھس آئے اور مجھے ٹیکسی میں بٹھا کر لے گئے اور پھر دو دن بعد ملا قادر سے میرا نکاح ہو گیا۔ ابا عدالت تک گیا، مگر ملا قادر کے ساتھ آنے والے لڑکوں نے گواہی دی کہ میں نے ملا قادر سے محبت کی شادی کی ہے اور اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لیا ہے اور اب باپ اور برادری کے ڈر سے مُکر رہی ہوں۔جعلی دستخط شدہ نکاح نامہ بھی پیش کر دیا گیا۔‘‘

    ’’اسی کو شوہرمان لے۔عدالت میں کچھ نہ بولنا ورنہ تیرے باپو کی زندگی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔‘‘

    ملا قاد ر کے ایک آدمی نے عدالت میں میرے پاس سے گزرتے ہوئے سرگوشی کی۔

    ’’تیری کسی نے نہیں سنی؟‘‘

    کریم نے اس کی بات کاٹی۔

    ’’بہت سے لوگوں نے سنی، مگر ان سننے والوں کی بھی کسی نے نہیں سنی۔‘‘

    ’’ابا کے بچپن کے دوست باقر چاچا نے میرا کیس لڑا اور ملا قادر سے اس شرط پر میری علیحدگی ہوئی کہ میں اب مسلمان رہوں گی اور اگر میں نے اب ہندو دھرم اپنایا تو میں مرتد ہو جاؤں گی یعنی دین سے پھرنے والی، جس کی سزا موت ہے۔‘‘

    ’’تو کیا تم مسلمان ہو گئیں؟‘‘ کریم نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’کیا اس طرح کوئی مسلمان ہو سکتا ہے؟‘‘

    کرن نے کریم کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔

    ’’نہیں۔۔۔ اس طرح تو نہیں۔ جب تک خود کوئی اپنی مرضی سے۔۔۔‘‘

    کریم نے مردہ سی آواز میں بولتے ہوئے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ اچانک باہرسے شورو غل کی آوازیں آنے لگیں اور اب دروازہ پیٹنے کی آواز آرہی تھی۔

    ’’ارے کرمو!‘‘ اندر سے شاکر نے کریم کو آواز دی۔ ’’دیکھ کون آیا ہے اور اگر مندر مسجد والے ہوں تو‘‘ تُو تُو میں میں’’نہ کرنا۔ ہمیں ان سے کچھ نہیں لینا دینا۔‘‘

    ابا کی نصیحتیں جاری تھیں۔ کریم دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ باہر سے زور زور سے باتوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کرن کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ اس نے دورازے کی جھری سے آنکھ لگا کر باہر دیکھا۔ دو تین لڑکے اور ایک سوامی جیسے حلیے کا آدمی کریم کو گھیرے کھڑے تھے، مگر یہ کیا! کرن کو جیسے جھٹکا سا لگا۔ ملا قادر اور اس کے آدمی یہاں بھی آگئے۔ وہ بد حواس ہوکراندر بھاگی۔ اس کی سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی، رام لعل اور شاکر بھی برآمدے میں آ گئے تھے۔

    ’’کیا ہوا کرن، یہ تیری کیا حالت ہو رہی ہے؟‘‘

    ’’وہ، وہ! مُلاّ قادر۔۔۔‘‘

    اس نے باہر کے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

    ’’پاگل ہو گئی ہے۔ وہ یہاں کیسے آسکتا ہے؟‘‘

    ’’ابا میں دین سے نہیں پھری ہوں، میں مرتد نہیں ہوں۔ مجھے قتل نہ کریں۔ ان لوگوں سے کہہ دو مجھے جان سے نہ ماریں، میں مسلمان ہوں، میں مسلمان ہوں۔‘‘

    وہ ہذیانی انداز میں بولی جارہی تھی۔ رام لعل کرن کو چمکارتا ہوا اندر لے گیا، اتنی دیر میں کریم لوٹ آیا۔

    ’’کون لوگ تھے اوراتنی زور زور سے کیا باتیں کر رہے تھے؟‘‘

    شاکر جو کرن کی و حشت زدہ حالت دیکھ کر پہلے ہی پریشانی میں تھا، بیٹے کے ماتھے پر پسینہ دیکھ کر خوفزدہ سا ہو گیا۔

    کچھ کہنے سے پہلے کریم نے اطمینان کر لیا کہ رام لعل اور کرن اندر چلے گئے ہیں۔ ’’ارے کچھ بتا تو، کون لوگ تھے۔‘‘ شاکر حواس باختہ ہو رہا تھا۔

    ’’ارے وہی کٹرپنتھی مسٹنڈے تھے۔ ایک بہروپیا سوامی بھی ساتھ تھا۔ پوچھ رہے تھے کہ ہم نے سنا ہے تمھارے گھر میں کچھ پاکستانی جاسوس آ گئے ہیں۔‘‘

    ’’پھر، پھر تو نے کیا کہا؟‘‘

    ’’میں نے ساری بات سچ سچ بتا دی۔ بتا دیا کہ ہندو مہمان ہیں۔ تمھارے بچپن کے دوست رام چاچا اور جو بٹوارے میں بچھڑ گئے تھے، ملنے آئے ہیں۔‘‘

    دوسرے دن جب شاکر کا پڑوسی دوست چندر شاکر سے ملنے آیا تو کریم ابھی کام سے واپس نہیں آیا تھا۔ کرن اور رام لعل اندر کے کمرے میں سو رہے تھے۔

    ’’میں نے سنا ہے تمھارے گھر مہمان آئے ہوئے ہیں؟‘‘ چندر نے سرگوشی کے انداز میں پوچھا۔

    ’’ہاں ہاں میرا بچپن کا یار رام لعل۔‘‘

    شاکر نے اپنی وہی کہانی سنانی شروع کر دی، بغیر سوچے سمجھے، جذبات کی روانی میں یہ بھی نہ سوچا کہ چندرا س کی بات سُن بھی رہا ہے یا نہیں۔

    ’’اوہ! یہ تو بڑی اچھی بات ہے کہ تمھارے بچپن کے بچھڑے دوست سے اتنی مدت بعد ملاقات ہو گئی ہے، مگر سوامی جی تو کچھ اور ہی کہہ رہے تھے۔‘‘

    ’’سوامی جی؟ کیا بتا رہے تھے وہ؟‘‘

    ’’سنا ہے تمھارے دوست کے ساتھ اس کی جوان لڑکی بھی ہے۔‘‘

    ’’میرا مطلب ہے بلکہ مجھے معلوم ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ مجھے خود حیرت ہو رہی تھی بلکہ یقین نہیں آ رہا تھا۔‘‘

    ’’کیا بات ہے چندر صاف صاف بتا، کیا ہے تیرے من میں؟‘‘

    ’’ارے میرا من تو صاف ہے مگر لوگوں کا منہ کون بند کرے گا؟ بس ایسی ہی خبر گرم ہے کہ کسی لڑکی وغیرہ کا چکر ہے۔ میرا مطلب ہے کہ ظاہر ہے جھوٹ ہی ہے مگر تمھارا جوان بیٹا بھی تو ہے۔ پہلے تو ایسی کوئی بات نہیں ہوتی تھی مگر تمھیں معلوم ہے ناں کہ آج کل ذرا دوسری ہی ہوا چلی ہوئی ہے۔ اب اگر یہ خبر پھیل جائے کہ مسلمان لڑکا اور ہندو لڑکی۔ میرا مطلب ہے پچھلے ہی دنوں چرم پنتھی (مذہبی انتہا پسند) لوگوں نے چرچ پر ہلہ بول دیا تھا۔ افواہ اڑ گئی تھی کہ عیسائی لڑکا ہندو لڑکی کو عیسائی بنا کر چرچ میں شادی کر رہا ہے۔‘‘

    چندر آنکھ ملائے بغیر بولے جا رہا تھا۔

    ’’مگر یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ تو میرا بٹوارے سے پہلے کا دوست رام لعل اور اس کی بیٹی پاکستان میں چرم پنتھی (انتہا پسند) لوگوں کے ہاتھوں تنگ آ کر یہاں آ گئے ہیں۔ انھیں تو حکومت یہاں کی شہریت دے رہی ہے، پھر رام لعل تو میرا بچپن کا دوست ہے۔‘‘

    شاکر نے جلدی جلدی ساری بات چندر کو بتانا چاہی۔

    ’’یہ تو میں بھی مانتا ہوں کہ وہ تیرا بچپن کا دوست ہے، مگر آج کل کے یہ جوان چھورے چھوریاں (لڑکے لڑکیاں) دھرم دین کہاں دیکھتے ہیں؟ بس ماتا پتا ہی مصیبت میں پڑ جاتے ہیں اور ویسے بھی دوستی کو رشتے داری میں بدلنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے، مگر یہ سب میں نہیں کہہ رہا، محلے دار پڑوسی ہی کانا پھوسی کرتے رہتے ہیں۔ بس اڑتے اڑاتے میرے بھی کان میں بھی پڑ گئی۔ میں نے سوچا تم تو مہمان داری میں لگے ہوگے، پتہ نہیں تمھیں خبر بھی ہے یا نہیں؟ ایسا نہ ہو کچھ اونچ نیچ ہو جائے اور تم بعد میں شکایت کرو کہ کسی محلے دار نے اشارۃً بھی ذکر نہیں کیا۔‘‘

    چندر نے لمبی سانس بھرتے ہوئے کہا۔

    چندر کب اٹھ کر چلا گیا شاکر کو پتہ ہی نہیں چلا۔ مگر اس کی باتیں شاکر کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھی۔

    ’’آج کل دوسری ہی ہوا چلی ہوئی ہے۔ اب اگر کہیں یہ خبر پھیل جائے کہ مسلمان لڑکا اور ہندو لڑکی۔‘‘

    کریم کے واپس آتے آتے شاکر کی حالت غیر ہو چکی تھی۔

    ’’ہم لوگ کچھ دنوں کے لیے تیری پھوپھو کی طرف چلے جاتے ہیں۔ پھوپھی بھی تو اکیلی ہے۔ مہمانوں کے لیے ماحول بدل جائے گا۔ کرن بھی وہاں اکیلا محسوس نہیں کرے گی اور تیری فیکٹری وہ بھی ادھر سے قریب ہے، تجھے بھی آسانی ہو جائے گی۔ جب رام لعل لوگ واپس لوٹ جائیں گے پھر ہم واپس آ جائیں گے۔‘‘

    شاکر نے کریم کے آگے اپنا ارادہ ظاہر کر دیا۔

    ’’ابا سچ سچ بتا کیا بات ہے؟ کیا تُو اس رات سوامی اور اس کے مسٹنڈوں کی باتوں سے ڈر گیا ہے۔ ہم نے تو ملک تقسیم ہوتے وقت گھر نہیں چھوڑا، پھر اب کیوں؟‘‘

    ’’ارے بیٹا غلط نہ سمجھ، ہمیشہ کے لیے تھوڑی گھر چھوڑنے کو کہہ رہا ہوں۔ بس ایک ہفتے میں واپس آ جائیں گے۔ جب سے پھوپھا دبئی گیا ہے تیری پھوپھی بھی اکیلی ہو گئی ہے، اس کو بھی دوسرا ہٹ ہو جائے گی۔‘‘

    ’’ابا تجھے معلوم ہے پھوپھو کا حال، وہ بہت مذہبی ہو چکی ہے۔ وہ اپنے گھر میں تیرے ہندو مہمانوں کو کبھی برداشت نہیں کرے گی۔‘‘

    کریم نے تولیے سے منہ پونچھتے ہوئے کہا۔

    ’’مگر بیٹا میں اسے سمجھا لُوں گا، صرف ایک ہفتے کی بات ہے اور پھر تجھے چرچ کے ہنگامے کا تو پتہ ہی ہے۔‘‘

    ’’چرچ کا ہنگامہ؟ تمھیں اس کا خیال کیسے آ گیا اس وقت؟‘‘

    آخر شاکر سے رہا نہیں گیا اور چندر کی کہی ساری باتیں اس نے کریم کے سامنے دہرا دیں۔ آخر کریم کو باپ کی ضد کے آگے ہار ماننا پڑی۔ وہ سب پھوپھو کے گھر آ گئے، پھوپھو بھائی اور بھتیجے کو دیکھ کر تو بہت خوش ہوئی مگر رام لعل اور کرن کو منہ نہیں لگایا۔ چھٹی کے دن پھوپھو گھر کی چابی ابا کو دے کر اپنی سسرال والوں کے پاس چلی گئی۔کریم کام پر گیا ہوا تھا اور کرن کمرے میں سو رہی تھی رام لعل شاکر کو کرن کی ساری بپتا بھی سنا چکا تھا۔ شاکر صحن میں رام لعل کے سامنے بظاہر چپ چاپ بیٹھا تھ مگر اس کا دل بول رہا تھا۔اگر خدا نے طرح طرح کی مخلوق بنائی ہے تو انسان نے بھی طرح طرح کے خدا بنا کر حساب چکا لیا ہے۔دونوں طرف کے انتہا پسنداپنے کرتوتوں سے یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ ان سی جیسی مخلوق بنانے والے سے تو کمہار اچھااور اس طرح وہ خود اپنے اپنے خداؤں اور اوتاروں کی توہین کررہے ہیں۔

    ’’شاکر! میں تم سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ رام لعل کی آواز شاکر کی سوچوں کے بیچ کنکر بن کر بھنور بنانے لگی۔

    ’’مجھے معلوم ہے اب مجھے میرا مطلب ہے ہمیں پاکستان جانا ہے، مگر میں کرن کی وجہ سے پریشان ہوں، نہ جانے اس کا کیا بنے گا؟‘‘

    ’’ہاں میں بھی اسی کی وجہ سے فکر مند ہوں، میرا بس چلے تو اب تم دونوں کو یہاں سے کہیں جانے نہ دوں۔‘‘ شاکر نے اداسی سے کہا۔

    ’’پتہ نہیں جو بات میں کرنے جا رہا ہوں، وہ مجھے کرنا بھی چاہیے یا نہیں مگر۔۔۔‘‘

    رام لعل نے بات ادھوری چھوڑ دی۔

    ’’کیا بات ہے رام لعل، صاف صاف بات کرو۔‘‘

    ’’بس یہی سوچ رہا تھا کہ اب کرن کو میری اپنی برادری میں کون قبول کرے گا۔ زبردستی ہی سہی مگروہ ایک مسلمان کے نکاح میں رہ چکی ہے، کوئی ہندو تو اب ہر گز اس سے بیاہ نہیں کرے گا۔ ایک مسلمان کے نکاح میں رہی لڑکی کو کوئی ہندو کیوں قبول کرے گا، اگر وہ ہندو رہتی ہے تو مسلمان اس کو مرتد کہیں گے اور اگر مسلمان ہوتی ہے تو طلاق شدہ ہندو لڑکی کو کوئی دوسرا مسلمان کیسے قبول کرے گا؟‘‘

    ’’مگر وہ تو زبردستی کا نکاح تھا۔ ایسا نکاح کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘‘

    شاکر نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔

    ’’مجھے اب اپنی فکر نہیں، میری باقی زندگی کسی نہ کسی طرح گزر جائے گی مگر کرن کو برباد ہوتے، گھٹ گھٹ کر مرتے نہیں دیکھ سکتا۔ اگر کسی مسلمان ہی سے اس کا بیاہ کرنا ہے تو!‘‘

    رام لعل کہتے کہتے رک گیا۔

    ’’پاکستان میں نہ سہی مگر یہاں کوئی نہ کوئی ضرور اس کو قبول کر لے گا۔ میں یہاں اس کے لیے کوئی لڑکا خود ڈھونڈ دو ں گا۔‘‘

    شاکر نے کھوکھلے سے لہجے میں کہا۔

    ’’یہاں کا کوئی شخص پاکستانی لڑکی سے بیاہ نہیں کرے گا جب کہ اسے معلوم ہو کہ زبردستی ہی سہی مگر کرن ایک مسلمان کے نکاح میں بھی رہ چکی ہے۔‘‘

    ’’کسی کو بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے اور پھر ہندو سے اس کی شادی نہیں کرے گاتو کیا کسی مسلمان سے کرے گا؟‘‘ شاکر نے غصے سے پوچھا۔

    ’’ہاں اگر اب جب کہ وہ مسلمان کے نکاح میں رہ چکی ہے اور اس کا ہندو رہنا بھی مشکل ہے تو کیوں نہ اُسے کوئی اچھا مسلمان ہی اپنا لے۔ یہاں کا مسلمان جس پر بھروسا کیا جا سکے۔‘‘

    ’’وہ بہت خوفزدہ ہے، اسے مضبوط سہارا چاہیے۔ میں نے کریم کی آنکھوں میں کرن کے لیے ہمدردی سے بڑھ کر ایک جذبہ دیکھا ہے۔‘‘

    رام لعل نے رکتے رکتے کہا۔

    ’’بس، بس رام لعل، تیری میری دوستی اپنی جگہ، مگر اب ایسی کسی بات کو دوبارہ زبان سے مت نکالنا۔‘‘

    شاکر کا لب و لہجہ اچانک بدل گیا

    ’’اور پھر کریم کو کیا پڑی ہے کہ کرن کو زبردستی مسلمان کرکے اس سے شادی کرے۔ مرضی کے بغیر کوئی کسی کا مذہب نہیں بدل سکتا۔ بس صرف جان بچانے کی خاطریا اچھی زندگی اور مضبوط سہاروں کی خاطر مذہب بدلنے کو دل سے مذہب بدلنا نہیں کہتے۔ یہاں میرے کریم کی ساری زندگی اس طعنے اور خوف میں گزرے گی کہ اس نے ایک ہندو لڑکی کو زبردستی مسلمان کرکے نکاح کر لیا ہے، پھر پاکستانی ملا قادر اور بھارتی کریم چانڈیو میں کیا فرق رہ جائے گا؟‘‘ شاکر کی آواز اونچی ہو گئی تھی۔

    کرن کمرے کی دیوار سے لگی صحن کے دوسرے طرف ان دونوں کی آواز صاف سن سکتی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور سارا وجود سنسنا رہا تھا۔

    ’’لیکن ہم ایک بار کریم اور کرن سے پوچھ کر دیکھ لیں، اگر ان کی مرضی ہو تو؟‘‘

    رام لعل نے بجھی ہوئی آواز میں کہا۔

    ’’رام لعل، میرا خیال ہے ہمیں اپنی دوستی کو امتحان میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ اب خوامخواہ اپنا اور میرا وقت ضائع نہ کرو۔ یہاں کے کٹرپنتھی، اگرپنتھی، ادی وادھی، چرم پنتھی اور اگروادھی اور ادھر پاکستان کے قدامت پسند، انتہا پسند، تشدد پسند سب ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، دونوں کی ذہنیت اور سوچ میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں طرف کے انتہا پسند اور اگرپنتھی ہر ایک کو اپنی اپنی بنائی ہوئی جنت میں طاقت کے زور سے لے جانا چاہتے ہیں اور جو ان کی بات نہ مانے انھیں اس دنیا ہی میں دوزخ یا نرک میں پہنچا دیتے ہیں۔ دونوں طرف کے یہ انتہا پسند نہ ہمیں جینے دیں گے نہ تمھیں۔‘‘

    رام لعل، جو اب تک سر جھکائے خاموشی سے شاکر کی باتیں سن رہا تھا، اس نے سر اٹھا کر اپنے بچپن کے دوست شاکر حسین چانڈیو کی طرف کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح دیکھا۔ شاکر دور کہیں خلاؤں میں گھور رہا تھا۔ دونوں کے پاس کہنے سننے کے لیے کچھ باقی ہی نہیں بچا تھا، فضا میں پُرہول سناٹا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے