کہانی کی کہانی
تقسیم کے بعد ہندوستان میں اپنے شہر واپس آئے ایک شخص کی کہانی۔ اسٹیشن پر اتر کر وہ دیکھتا ہے تو اسے شہر پہلے جیسا ہی جانا پہچانا لگتا ہے۔ وہ ایک رکشا میں بیٹھتا ہے اور اسے بغیر پتہ بتائے چلنے کے لیے کہتا ہے۔ وہ رکشہ والے کو جس طرف چلنے کے لیئے کہتا ہے، رکشہ والا اسی جانب چل دیتا ہے۔ مگر ہر راستہ گھوم کر ایک صاف چٹیل میدان میں جا ملتا ہے۔ آخر میں جب وہ رکشہ والے سے اپنی بستی کے بارے میں پوچھتا ہے تو وہ اسے بتاتا ہے کہ اس بستی کو توڑ کر ہی یہ میدان بنایا گیا ہے۔
ٹرین کسی ویران علاقے سے گزر رہی تھی۔ کمپارٹمنٹ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ اس کا اسٹیشن قریب آرہاتھا۔
کسی نے اس کے اندر اس کے پھیپھڑے کو بے دردی کے ساتھ اپنی گرفت میں لے لیا۔
’’بدبخت تیراکوئی اسٹیشن ہے۔۔۔؟‘‘
دبائو بڑھتا گیا۔ اس کی سانس اکھڑنے لگی۔ آس پاس بیٹھے ہوئے مسافروں نے اسے حیرت و استعجاب سے دیکھا اور اس مغالطے میں مبتلا ہو گئے کہ اسے قلب کا دورہ پڑنے والا ہے۔ اس نے دھیرے دھیرے اپنی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے سوچا کہ سچ مچ اس کا اور اس کے جیسے کروڑوں لوگوں کا اس بھری پری دنیا میں کہیں کوئی اسٹیشن نہیں۔
پورے سفر میں دوافراد کے متعلق وہ شدت سے سوچتارہا تھا۔ ایک وہ جس سے اس کا خون کا رشتہ تھا۔۔۔ اس کا باپ۔۔۔ اور دوسرا وہ جس سے کسی طرح کا کوئی رشتہ نہ ہوتے ہوئے بھی ایک عجیب سانا معلوم تعلق تھا۔ جس کے ادھ کھلے کہڑے ہونٹ کا ذائقہ اب بھی اس کی شریانوں میں سنسنی کی لہر دوڑا دیتا تھا اور جس کے سانولے سلونے وجود کے تصور کی گرمی بھی خود اس کے وجود کو موم کی طرح پگھلا کر رکھ دیتی تھی۔ یہ لوگ ملاقات ہونے پر کسی طرح چونک جائیں گے۔ پہلے تو حواس باختہ ہو جائیں گے پھر جب ان کے اوسان بحال ہوں گے تو سوچیں گے کہ آن واحد میں انہیں فرط ِانبساط کی کیسی بیش بہا دولت مل گئی۔
انہیں سرپرائز دینے کے خیال سے بغیر کسی اطلاع اور خبر کے وہ اس سفر پر روانہ ہو گیا تھا۔ گاڑی پلیٹ فارم پررکی تو وہ اتر گیا۔ باہر گھپ اندھیرا تھا۔ ہر شے پر ایک عجیب پراسرار سی گم شدگی کی کیفیت طاری تھی۔ اس نے ایک راہ گیر سے بغیر کسی ارادے کے پوچھ دیا۔
’’کیوں بھئی۔۔۔ لائٹ کب سے آف ہے۔۔۔؟‘‘
’’کیا کہاجائے بابو جی۔۔۔ جب سے ہڑے شہر میں بجلی کی سپلائی بڑھ گئی ہے، یہاں کا کوٹا کاٹ دیا گیا ہے۔۔۔‘‘
’’بہت دیر دیر کے لیے روشنی غائب رہتی ہے۔۔۔ اور آس پاس جو گاؤں ہیں، ان کا توحال پوچھوہی مت۔۔۔ بجلی کی لائن ہوتے ہوئے بھی سب ایک کرن کو ترستے ہیں۔۔۔ کہیں کوئی پیداوار ہی نہیں ہوئی۔۔۔!‘‘
بڑے شہروں کو سڑی ہوئی گالیاں دیتے ہوئے اس نے قدم بڑھائے۔ رات زیادہ نہیں ہوئی تھی لیکن دبیز تاریکی کی وجہ سے ڈھلی ہوئی رات کا گمان ہوتا تھا۔ پلیٹ فارم کے باہر رکشے قطار میں کھڑے تھے۔ سب کے سب اپنی طرف توجہ کھینچنے کے لیے طرح طرح سے اپنے اپنے رکشوں کی گھنٹیاں بجارہے تھے۔ اور منہ سے مختلف سروں کی آوازیں نکال رہے تھے۔ اچانک پورا ماحول ان کے شور سے متحرک ہو گیا تھا۔ اسے لگا کہ کوئی پرندہ عرصہ دراز کے بعد صعوبتوں بھرے سفر سے نجات حاصل کرکے اپنے گھونسلے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ وہ خود کو بہت ہلکا ہلکا محسوس کررہا تھا۔ اس نے ایک زور دار انگڑائی لی اور تکان کی گرد کو اپنے وجود سے جھاڑ دیا۔ قلی نے ایک رکشے پر اس کا سامان رکھا، رکشے والے نے اندھیرے میں اسے گھور کر دیکھا۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی طرح جل رہی تھیں۔ زیادہ دیر وہ ان آنکھوں کی تاب نہ لاسکا اور سیٹ میں دھنس گیا۔
’’کہاں چلنا ہے بابو جی۔۔۔؟‘‘
’’بس چلنا ہے۔۔۔ باہر کا آدمی نہیں ہوں۔۔۔ اسی مٹی کا یہ جسم ہے۔۔۔ چلو۔۔۔ میں۔۔۔ تمہیں راستہ بتاتا چلوں گا۔۔۔ بس فی الحال سیدھ میں آگے بڑھتے چلو۔۔۔ مگر جلد ی جلدی نہیں، دھیرے دھیرے۔۔۔ ایک مدت کے بعد یہ سب دیکھنا مقدرہوا ہے توراستے کے سارے مناظر کو جذب کرنا چاہتا ہوں۔۔۔‘‘
وہ راستے کی سمتوں کے متعلق ہدایتیں دیتا ہوا اطراف کے سارے نیم تاریک جلوئوں کو اپنے اندر سمیٹتا جارہا تھا۔
’’دیکھتے ہو بدبخت۔۔۔ سب کچھ بدل گیا ہے۔۔۔ تم اپنے ٹھکانے پر پہنچ بھی نہیں سکو گے۔۔۔ مجھے تو سب کچھ بہت اجنبی اور ڈرائونا لگ رہا ہے۔۔۔ اب تک میں تمہیں ڈسٹرب کررہا تھا۔۔۔ اب تم میری جان کو آرہے ہو۔۔۔‘‘
اس نے اپنے اندر کے آدمی کی بکواس کی طرف دھیان نہیں دیا اوررکشا والے سے پوچھا۔
’’بھائی رکشا واے یہ وہی شہر ہے نا۔۔۔؟‘‘
’’کون سا۔۔۔؟‘‘
’’وہی اپناشہر۔۔۔!‘‘
بڑی تیزی سے اس کے اندر کسی نے اپنے پلپلے ہاتھ بڑھاتے ہوئے پھر جیسے اس کے پھیپھڑے کوا پنی مٹھی میں لے لیا۔
’’بد بخت تیرا کوئی شہر ہے۔۔۔؟‘‘
اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ جسم کا سارا خون چہرے پر سمٹ آیا۔ اس کی سانسیں تیز تیز چلنے لگیں۔ نقاہت کے عالم میں وہ رکشا کی سیٹ پر نیم درازہوگیا۔ اس کاپاؤں رکشا والے کے پاؤں سے ٹکرایا۔ اس نے گردن گھمائی۔
’’بابوجی۔۔۔ آپ کی طبیعت خراب معلوم ہوتی ہے۔۔۔ آپ کہیں تو اسپتال کا رخ کروں؟‘‘
وہ آنکھیں پھاڑے ہوئے بڑی بے بسی سے رکشے والے کو دیکھتا رہا۔ اسے جیسے سکتا لگ گیا تھا۔ چاہتے ہوئے بھی منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ رکشے والے نے رکشا روک دیا اور اترک ر اسے جھنجھوڑنے لگا۔
’’بابو صاحب۔۔۔ بابو صاحب۔۔۔!‘‘
’’ٹھیک ہوں بھیا رکشے والے۔۔۔ کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے۔۔۔ بات یہ ہے بھائی کہ میں صدمے کو برداشت نہیں کر پاتا۔۔۔ اور میں کر بھی لوں۔۔۔ لیکن وہ جو ایک کتا میرے اندر بیٹھا ہے۔۔۔ وہ حرامی پن سے باز نہیں آتا۔۔۔ موقع ملتے ہی کچوکے لگاتا ہے۔۔۔‘‘
’’کون کتا۔۔۔؟‘‘
’’جانے دو بھائی۔۔۔ جانے دو۔۔۔ کوئی نہیں۔۔۔ ایسے ی وہ میرے لیے مصیبت بنا رہتا ہے۔۔۔ کچھ برا لگ گیا تو جانے کیسے عذاب میں مبتلا کردے گا۔۔۔‘‘
(میں تمہارے لیے۔۔۔ یا تم میرے لیے مصیبت بنے ہوئے ہو۔۔۔ مجھے کتا سمجھنے والے کتے۔۔۔)
رکشے والے نے رکشا چلاتے ہوئے گردن گھمائی۔
’’آپ اکیلے ہیں بابوجی۔۔۔ تو بات کس سے کررہے ہیں۔۔۔؟‘‘
’’بھائی رکشے والے۔۔۔ تم پریشان نہ ہو۔۔۔ میں بیمار آدمی ہوں۔۔۔ میرے وجود میں کچھ سانپ، کچھ کتے اورکچھ خنزیر اپنا ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں۔۔۔ جب جب ان کاحملہ ہوتا ہے بڑبڑانے لگتا ہوں۔۔۔‘‘ رکشا والے نے اسے بہت گھوورکردیکھا۔
’’اب بتائیے بابوجی الٹے ہاتھ یا سیدھے ہاتھ؟‘‘
’’الٹے ہاٹھ۔۔۔!‘‘ اس نے جواب دیا اورپھر اندر والے کی طرف سے دھیان ہٹاتا ہوا عہد گزشتہ کو یاد کرنے لگا۔ اس کے ابا کتنے ضدی اور رجعت پسند ہیں۔ ہوم سکنس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ اس نے کتنا کہاکہ وہ تو اپنی تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو چکے ہیں، اسی کے ساتھ چل کررہیں لیکن وہ مانتے ہی نہیں۔ اپنی زمین، اپنی ڈیوڑھی چھوڑ کر جانا ہی نہیں چاہتے۔ بار بار سمجھانے پر بھی انہوں نے یہی کہا کہ وہ اپنی روایتوں سے کٹنا نہیں چاہتے۔ ان کے مدفن میں ہی نئی زندگی کی کونپلیں پھوٹتی ہیں اور جو اپنی جڑوں سے کٹ جاتے ہیں، وہ پروان نہیں چڑھتے۔۔۔ اب انہیں کیسے سمجھایا جائے کہ روایتیں زمین میں نہیں بلکہ دل و دماغ اور روح میں اگتی ہیں۔۔۔ سینہ بہ سینہ سفر کرتی ہیں۔۔۔ گھر اور جائیداد روایتوں کا مدفن ہی نہیں، نئی روایتوں کا مذبح بھی ہیں۔
جس دن یہ باتیں اس نے کھل کر کہیں، با با نے اس سے ناطہ توڑ لیا۔
’’بدخلف۔۔۔ مجھے پڑھاتا ہے۔۔۔ جاہل۔۔۔‘‘
’’اب کدھر چلوں بابو جی۔۔۔؟‘‘
اس کا دھیان بٹ گیا۔
’’بس۔۔۔ بس۔۔۔ ذرا دھیرے کرو۔۔۔ رکو۔۔۔ یہیں اترنا ہے۔۔۔!‘‘
حیرت سے اس نے ادھر ادھر دیکھا کافی غور کرنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ وہ غلط جگہ پر آگیا ہے۔ جہاں پر بابا کا گھر سمجھ کر اس نے رکشا کو روک لیا تھا، وہاں تو دور دور تک چٹیل میدان تھا۔ اس سے ضرور کوئی غلطی ہو گئی۔ گھر پہنچنے کی مسرت پر قابو نہ پاتے ہوئے وہ اپنا محلہ آتے ہی ہڑبڑا کر رکشا سے اتر گیا تھا۔ لیکن اب اسے احساس ہوا کہ راستوں اور سمتوں کے متعلق رکشے والے کو ہدایت دیتے ہوئے اس سے سہو ہو گیا ہے۔ وہ رکشا پربیٹھ گیا۔
’’یار رکشے والے۔۔۔ گاڑی گھما لو۔۔۔ بھائی اتنے زمانے کے بعد اپنے علاقے میں آیا ہوں۔۔۔ پھر روشنی بھی نہیں ہے۔۔۔ اندھیرے میں راستے کا مجھے صحیح اندازا نہ ہوا۔۔۔ اب چلو۔۔۔ پوری احتیاط سے ہدایت دوں گا۔۔۔‘‘
’’بابو جی آپ محلے کا نام تو بتائیے!‘‘
یار نام میں کیا رکھا ہے۔۔۔ میں تو ساتھ ہوں۔۔۔ اس سے زیادہ شرم کی کیا بات ہوگی کہ باپ دادا کی حویلی تک میں خود اپنی رہنمائی نہ کرسکوں۔۔۔ ہاں رکشا کو سیدھے ہاتھ موڑ لو۔۔۔ اب الٹے۔۔۔ اب سیدھے۔۔۔ پھر دیکھو۔۔۔ آگے جو چوراہا ہے۔ اس سے نکلتی ہوئی سب سے پتلی شاہراہ کی طرف۔۔۔‘‘
اس بار اس نے بالکل نئے راستوں سے رکشے والے کی رہنمائی کی۔ اندھیرے میں منزل مقصود پر پہنچتے ہی جھٹکے کے ساتھ رکشے سے اترا تو دیکھا کہ اس کے مطلوبہ علاقے کی جگہ چٹیل میدان تھا۔
’’اف ف پھر غلطی ہوگئی۔۔۔ رکشا گھمائو بھائی۔۔۔‘‘
ا س نے پھر راستے بدلے۔ تاریکی میں اس بار دوسرے راستوں کا انتخاب کرتے ہوئے آگے بڑھا اور اس بار بھی سفر نے اسی چٹیل میدان پر دم توڑا۔ جھنجھلاتے ہوئے چوتھی مرتبہ وہ پھر نئے راستوں سے آگے بڑھا اور پھر وہی چٹیل میدان۔ اس نے سوچا ضرور کوئی گڑ بڑ ہے لیکن اس کے علاقے کے سامنے اور اڑوس پڑوس کے جو علاقے تھے، وہ تو اپنی جگہ قائم تھے اور اس کے علاقے کی پہچان اور حوالہ بن رہے تھے۔ صرف اس کا علاقہ۔۔۔ اس کا گھر اپنی جگہ سے غائب تھا۔۔۔
وہ سامنے ہی رام انکل کا مکان ہے۔۔۔ اس طرف گیتا چاچی ہیں۔۔۔ ادھر شنکر چاچا۔۔۔ سبھوں کے مکان تو اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔۔۔ اس کے اندر جذبوں کا ابال برداشت سے باہر ہورہا تھا۔۔۔ جی چاہا جا کر رام انکل کے سینے سے لپٹ جائے۔۔۔ گیتا چاچی کو سلام کرکے آشیر واد لے۔۔۔ کتنا خوش ہوں گی وہ۔۔۔ مجھے دیکھ کر۔۔۔ اور شکنتلا تو اب کافی بڑی ہو گئی ہوگی۔
شاید شادی کرکے اپنے سسرال جا بسی ہو۔۔۔ اس زمانے میں زیر لب شرمائی شرمائی یوں مسکراتی تھی جیسے جوانی کے سربستہ رازوں کے متعلق سب کچھ سمجھتی ہو۔۔۔ اب تو بال بچوں والی ہو گئی ہو گی۔۔۔ ممکن ہے اب تک شادی نہ ہوئی ہو۔۔۔ چلو، انہیں لوگوں سے پوچھ لوں۔۔۔ میرا گھر کہاں ہے۔۔۔ نا۔۔۔ شہر میں مکانوں کی بھیڑ میں ان کی انفرادی شناخت مشکل ہے۔۔۔ بھلا ان ہمدرد پڑوسیوں کے گھروں کے سلامت ہوتے ہوئے اپنا گھر کہاں غائب ہو سکتاہے۔۔۔ میں بھول کر رہا ہوں۔۔۔ اندھیرے میں حافظہ میرا ساتھ نہیں دے پا رہا ہے۔۔۔ اندھیرے میں۔۔۔ ہر طرف اندھیرا ہی تو ہے۔۔۔ گہر اندھیرا۔۔۔ اسی اندھیرے میں ہم سب کو گم بھی ہو جانا ہے۔۔۔ رام انکل، گیتا چاچی، شنکر چاچا، شکنتلا، بابا، یہ رکشا والا۔۔۔ سب کے سب اندھیرے کی خوراک بن جائیں گے۔۔۔
’’بابو جی۔۔۔! آپ کہاں کھو گئے۔۔۔؟‘‘
’’ہاں!‘‘ وہ چونکا۔
’’میں اپنے گھر کے جغرافیہ پر غور کر رہا تھا کہ کہیں سے اس کا صحیح سراغ ملے۔‘‘
اس نے ان گنت بار راستے بدلے اور ہر بار اس تاریکی میں چٹیل سنگلاخ میدان کی نحوست سے دوچار ہوا۔ اس نے سوچا، کیا اس شہر کے سارے راستے اسی چٹیل میدان تک پہنچتے ہیں۔۔۔ میرا گھر اور میرا علاقہ آخر کہاں ہے۔۔۔؟
اس کے اندر کلبلاہٹ ہوئی اور کسی نے پھر اس کے پھیپھڑے پر دبائو تیز کر دیا۔
’’بدبخت تیرا گھر اور تیرا علاقہ ہے۔۔۔؟‘‘
اسے جیسے سکتہ لگ گیا۔ چہرہ سرخ ہوگیا۔ رکشے والے نے اسے جھنجھوڑا تواس کا سکوٹ ٹوٹا۔
سچ مچ میرا کوئی گھر اور میرا کوئی علاقہ کہاں ہے۔۔۔؟
’’اس بار مسجد والے راستے سے چلو۔۔۔؟‘‘
نتیجہ پھر وہی چٹیل میدان۔ مندر والا راستہ بھی چٹیل میدان ہی تک پہنچا۔ یہاں تک کہ چرچ اور گوردوارے کے راستے بھی اسے چٹیل میدان کے علاوہ اور کہیں نہیں پہنچا سکے۔
’’کیوں، کیا ہوا رکشے والے؟‘‘
رکشا والا اس کے سوال سے بے خبر اندھا دھند رکشا چلائے جارہا تھا اور باربارپیچھے مڑ کر دیکھ رہاتھا۔
’’تم اتنا تیز کیوں چل رہے ہو رکشے والے اور پیچھے مڑ کر کیوں دیکھ رہے ہو۔۔۔؟‘‘
اس نے رکشے والے کی پیٹھ پرہاتھ رکھ دیا۔ رکشے والے نے جھٹکے سے بریک لیا اور خوف زدہ آنکھوں سے پیچھے کی طرف دیکھنے لگا۔
’’کیا بات ہے رکشے والے؟‘‘ اس نے بڑی ہمدردی کے لہجے میں کہا۔ حالانکہ اس کس سراسیمگی کو دیکھ کر وہ خود بھی خوف میں مبتلا ہو گیا تھا۔
’’نہیں معلوم کیوں بابوجی۔۔۔ کبھی کبھی مجھے ایسا لگتاہے کہ ان گنت بھاری بھر کم بوٹ گھوڑوں کی ٹاپوں کی طرح سرپٹ دوڑتے ہوئے میرے رکشے کا پیچھا کر رہے ہیں۔۔۔ مجھے روندنے کے لیے میرے تعاقب میں ہیں۔۔۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ یہ تمہارا وہم ہے۔۔۔ یہاں سے وہاں تک پوری سڑک پر سناٹا بھائیں بھائیں کررہاہے۔۔۔ لگاتار رکشا چلاتے رہنے کی وجہ سے تمہیں ایسا گمان ہورہاہے۔۔۔‘‘
’’ہوسکتاہے بابوجی۔۔۔ ہو سکتا ہے۔۔۔‘‘ رکشا والا پسینہ پونچھنے لگا۔
اتنی طویل مسافت اور اس کی پراگندہ باتوں سے رکشاوالا اوب چکا تھا۔ اس نے کہا کہ اب اس میں آگے بڑھنے کی طاقت نہیں ہے۔ بھاری بھرکم بوٹ اس کے تعاقب میں ہیں او ر بہتر ہو اگر وہ اس کی اجرت اداکرکے اسے چھٹکارا دے۔
’’تم تھکے نہیں ہو۔۔۔ بلکہ ڈر گئے ہو۔۔۔ میں بھی دیکھوں کدھر سے آتی ہے وہ بوٹوں کی چاپ۔۔۔‘‘
اس نے رکشے والے کو سیٹ پربیٹھا دیا اورخود اگلی سیٹ پرسوار ہو کر رکشا چلانے لگا۔ نت نئے راستوں سے ہوتا ہوا اس بار بھی وہ اسی چٹیل میدان کے نزدیک پہنچا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھارکشاوالا سسکتا ہوا زاروقطار رو رہا تھا۔
’’رکشے والے تم روکیوں رہے ہو۔۔۔؟‘‘ وہ اس کی بغل میں آکر بیٹھ گیا۔ رکشاوالا اور زور زور سے رونے لگا۔ روتے ہوئے بڑی مشکلوں سے وہ بس اتنا ہی کہہ سکا۔
’’تم جس علاقے، جس بستی کوڈھونڈ رہے ہو، اسے عرصہ پہلے بلڈوزروں نے چٹیل میدان میں تبدیل کر دیا۔۔۔ میں بھی ہفتوں اسی طرح پورے شہر میں دیوانہ وار پاگلوں کی طرح چکر کاٹتا ہوا بار بار اسی چٹیل میدان تک پہنچتا تھا۔۔۔ بلڈوزروں نے سب کچھ اجاڑ دیا۔۔۔ بھری پری بستی کو ملبے میں تبدیل کیااور پھر چٹیل میدان بنا دیا۔۔۔ میری دکان، میرا گھر اور تمام اہل و عیال زندہ درگور ہوگئے۔۔۔ بیٹے میں نے تو صبرکرلیا تھا لیکن آج باربار اس چٹیل میدان کو دیکھ کر پرانے زخم ہرے ہو گئے۔‘‘
’’بابوجی۔۔۔ بابوجی۔۔۔ تم سن رہے ہو۔۔۔؟‘‘
اس بار رکشے والے کے باربار جھنجھوڑنے پربھی بابو جی کا سکوت نہیں ٹوٹا۔
دور آسمان میں ایک چھوٹا سا طائر اپنی پوری طاقت سے اپنے گھونسلے کی طرف پروازکررہا تھا۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.