غلام بخش
وہ غلام ملک میں پیدا ہوا۔ اس لئے باپ نے اس کا نام ہی غلام بخش رکھ دیا۔
مجھے یقین ہے، مرنے سے پہلے وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتا تھا۔ کچھ بتانا چاہتا تھا۔ لیکن اس سے پہلے ہی وہ مر گیا۔۔۔ وہ بوڑھا تھا۔۔۔ قبر میں پیر لٹکائے بیٹھا تھا۔۔۔ اسے مرنا تھا اور وہ مر گیا۔۔۔ ممکن ہے اس کے مرنے کا یہی اندازہ لگایا جائے اور ایک بے حد معمولی سا آدمی، جس کے آگے پیچھے کوئی نہیں، اس کے بارے میں زیادہ سوچنے یا غور کرنے کی فکر ہی کس کو ہے۔۔۔ وہ جیے یا مرے، کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ جیا بھی تو بیکار اور مر گیا تو مر گیا۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ جہاں وہ کام کرتا تھا وہاں بھی اس کے بارے میں یہی رائے تھی۔۔۔ اور اس لئے جب میں نے کتابوں کے سیکشن کے انچارج شری واستو کو بہت زیادہ کریدا تو، فائل بند کر کے اور میز پر ایک طرف رکھ کر وہ غور سے میری طرف دیکھنے لگے۔
’’ہاں بھائی ہاں۔۔۔ وہ مرگیا۔۔۔ لیکن وہ زندہ کب تھا۔۔۔؟‘‘
*
مجھے لگتا ہے، میں نے کہانی غلط جگہ سے شروع کر دی۔ لیکن اتنا طے ہے کہ اپنے آخری وقت میں وہ مجھے کچھ دکھانا یا بتانا چاہتا تھا اور چونکہ دکھانا یا بتانا چاہتا تھا۔ اس لئے اس کی موت میرے لئے معنی رکھتی ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اپنے وجود میں برسوں کی پراسرار خاموشی رکھ کر، چپ چپ، خود سے باتیں کرنے والا غلام بخش کچھ کہنے کے لئے منہ کھولے۔۔۔ اور کچھ بتانے سے قبل ہی ہمیشہ کی نیند سو جائے۔۔۔ اس کے اندر اگر ’’یہ بہت کچھ‘‘ بھرا نہ ہوتا تو سچ کہوں، مجھے بھی اس کے مرنے کا اتنا غم نہ ہوتا۔۔۔ اس مشینی دور میں آنکھیں کھولی ہیں نا۔۔۔؟ اتنا تو اثر ہونا ہی چاہئے۔۔۔ قدم قدم پر موت، حادثے۔۔۔ موت کب، کیسے نکل کر اچانک سامنے آ کر دبوچ لے گی، کون کہہ سکتا ہے۔ اچانک کسی بھی لمحے آکر چونکا دےگی۔۔۔ لو آ گئی۔۔۔ اب بولو۔۔۔؟ مرنے کے واقعات اور حادثات کی یورش نے پتھر جیسا بے حس بنا دیا ہے مجھے۔۔۔ لیکن اس کے باوجود غلام بخش کی موت کو میرا دل عام واقعہ یا حادثہ ماننے کو قطعی تیار نہیں۔
جی ہاں صاحب، آپ مانیں چاہے نا مانیں، وہ واقعی بہت اہم تھا ہمارے لئے اور یقین جانئے صاحب، وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے زیادہ پُر اسرار آدمی تھا۔۔۔ فرق صرف اتنا تھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ چونکہ پاگل اور خبطی تھا، اس لئے وہ بول بول کر، چیخ چلا کر، اپنی حرکتوں سے اپنی باتیں کہہ ڈالتا تھا اور یہ بوڑھا خبطی۔۔۔ اسے تو دین دنیا سے کوئی مطلب ہی نہیں تھا۔ ہمیشہ خود سے باتیں کرنے والا۔ بڑ بڑ کرنے والا، کبھی من ہی من میں ہنسنے لگتا۔ کوئی آتا تو گیٹ کھولتا۔ اس کی طرف دیکھتا۔ لیکن خود سے باتیں کرنا جاری رہتا۔ ایسا بھی ہوتا کہ گیٹ سے اندر آنے والے اجنبی نے اس سے کچھ پوچھا ہوتا لیکن جواب دینے کے عمل میں بھی اس کی وہی بڑبڑاہٹ جاری رہتی۔ اجنبی کی کھسیاہٹ کو دائیں طرف کرسی پر بیٹھنے والے شری واستو جی دور کرتے۔
’’ادھر آ جائیے۔ وہ کچھ بھی نہیں بتا سکےگا۔‘‘ اس تیز جملے پر بھی یہ نہیں ہوتا کہ غلام بخش چونک کر شری واستو یا اجنبی کی طرف دیکھتا۔۔۔ جی بالکل نہیں۔ وہ اپنی دنیا میں مگن رہتا۔ من ہی من بڑبڑاتا ہوا۔ پہلی بار لگا تھا، جیسے اس کے اندر قصے کہانیوں کا عجیب و غریب سنسار ہو۔۔۔ ایسا سنسار جسے مجھے فوراً لپک لینا چاہئے۔ اچک لینا چاہئے۔ سچ کہوں تو پہلی بار میں ہی غلام بخش کی طرف متوجہ ہوا تھا۔۔۔ پھر آپ یقین نہیں مانیں گے، میں صرف اور صرف اسی کے لئے آتا رہا۔ برابر۔ ہر دو چار دن کے بعد۔ چاہے کام ہو یا نہ ہو، شری واستو کی سامنے والی کرسی پر بیٹھ جاتا اور اس کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیتا رہتا۔ گرمیوں کے موسم میں اسے مکھیاں بھی تنگ کرتیں۔ مگر جیسے اسے کسی بات کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ کہاں بیٹھتی ہیں۔ کہاں تنگ کرتی ہیں۔ وہ تو اپنی داستانوں میں اتنا الجھایا کھویا ہوتا کہ ان بیکار کی باتوں یا مکھیاں ’’ہکانے ‘‘ کے لئے اس کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔
ٹھہریئے۔ ابھی بھی بہت سی باتیں رہ گئی ہیں جو ضروری ہیں اور میں نے ابھی تک جن کی وضاحت نہیں کی ہے اور وضاحت کے بغیر بوڑھے غلام بخش کو سمجھنا آسان بھی نہیں ہے۔ یہاں یہ بات ضروری ہے کہ بوڑھے غلام بخش سے اپنی ہمدردی یا خود غرضی کی بھی وضاحت کرتا چلوں، تو اس لمبی تمہید کے لئے معذرت۔۔۔! اب میں اصل واقعے پر آتا ہوں، لیکن اس سے پہلے مختصر سا اپنا تعارف بھی کرانا ضروری ہے۔
*
میں یعنی اظہر بائجان، ایک معمولی سا ا دیب ہوں، ۔۔۔ یہ بائجان کہاں ہے؟ کیا ہے؟ مجھے خود نہیں پتہ، مگر جب مستقبل کو گولی مار کر، لکھنے اور وہ بھی اردو میں لکھنے کا جنون سوار ہوا تو اپنے اچھے بھلے نام اظہر کلیم سے کلیم کو علیحدہ کر کے بائجان جوڑ لیا۔۔۔ گو کہ اس کے معنی کچھ نہیں، لیکن یہ نام چونکانے کے لئے کافی ہے اور اس سے خاصا انوکھے پن کا بھی گمان ہوتا ہے۔ لیکن یہاں میں اپنے نام کے انوکھے پن کی تفصیل سنانے نہیں بیٹھا ہوں۔ جیسا کہ ظاہر ہو گیا، میں لکھتا ہوں اور مجھے لکھنے کا جنون کی حد تک شوق ہے۔ یہاں ایک چھوٹی سی بات کی وضاحت اور بھی کرتا چلوں کہ ہر نئی چیز، ہر نئی بات کو انوکھے انداز میں لکھنے میں مجھے بڑا مزا ملتا ہے، لیکن آپ بہتر جانتے ہیں کہ فقط لکھنے سے، وہ بھی اردو میں لکھنے سے مستقبل کے گیسو نہیں سنوارے جا سکتے اور یہاں تو دھن تھی کہ بس لکھنے کو ہی ذریعہ معاش بنانا ہے۔۔۔ تو میں اظہر بائجان، یعنی ایک چھوٹے سے قصبہ نما شہر کا باشندہ، چھلانگ لگا کر، راجدھانی کی چوڑی چکلی سڑکوں پر آ کر ایک دم سے بھوت بن گیا۔
’’جی ہاں۔ بھوت۔۔۔‘‘
بھوتوں کی مختلف دنیائیں ہیں، پتہ نہیں آپ کو سابقہ پڑا ہے یا نہیں۔۔۔ لیکن زندگی کے کئی معاملوں میں حقیقت چھپاتے ہوئے ہم بھوت بن جاتے ہیں۔۔۔ اور ایسے میں بھوت بنے رہنا ہی اچھا لگتا ہے۔۔۔ جیسے خواہش ہوتی ہے کوئی آپ کو پہچانے نہیں۔ جانے نہیں۔ جی ہاں جناب، ایسی بھی خواہش ہوتی ہے اور خاص کر ادب میں۔۔۔ روزی روٹی کے لئے آپ کو فرضی ناموں، گھوسٹ (بھوت) ناموں سے بھی کبھی کبھی رائٹنگ کرنی پڑتی ہے اور سچ مچ کا بھوت بن جانا پڑتا ہے۔ تو میں ایسا ہی بھوت بن گیا تھا۔ دلّی کی چوڑی چکلی سڑکوں نے آوارہ نڈھال قدموں کو راستہ بھی دکھایا تو رائیل پبلشنگ ہاؤس کا۔ جو کتابوں کا ایک بڑا نامی گرامی ادارہ تھا اور جہاں فرضی ناموں سے لکھنے والوں کا ایک پورا ٹیبل موجود تھا۔ جب راجدھانی میں گنے چنے پریس ہوا کرتے تھے، یہ تب کا ہے۔۔۔
وقت کے ساتھ اس پبلشنگ ہاؤس کا رنگ، ڈھنگ اور انداز سب کچھ بدل چکا تھا۔ اب اس کے مالک تھے، مسٹر نوین۔۔۔ جن کی عمر زیادہ سے زیادہ چالیس برس ہو گی۔ لیکن جو دیکھنے میں اس سے کہیں زیادہ کم اور خوبصورت لگتے تھے۔ پہلے ہی دن، مجھے کہنے دیجئے، فرسٹریشن کی اپنی ایک الگ کڑوی دنیا ہوتی ہے۔۔۔ جب دنیا کا تصور مردہ آرزوؤں اور کسی چڑچڑی چڑیل بڑھیا کے بدصورت خوابوں کی طرح بے رونق اور بدمزہ ہو جاتا ہے۔۔۔ خزاں رسیدہ موسم کی کسی تپتی دوپہر میں، میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں بھوت بن جاؤں گا اور میرے قدم خود بخود نوین پبلشنگ ہاؤس کا بورڈ دیکھ کر رک گئے تھے۔ چھوٹی چھوٹی کئی سیڑھیاں چڑھنے کے بعد آٹومیٹک دروازہ آتا ہے۔۔۔ دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی پہلی ملاقات غلام بخش سے ہوتی ہے۔ جو اسٹول پر بیٹھا بیٹھا خود سے باتیں کرتا رہتا ہے۔۔۔ اندر تو داخل ہو گیا لیکن اب کہاں جاؤں؟ اسٹول پر بیٹھا ہوا آدمی تو نظر اٹھا کر اپنی دنیا کی بڑبڑاہٹ میں گم ہو گیا تھا۔
میں نے اس کا جائزہ لیا۔ گہرا سانولا رنگ، جس پر اب جھریوں کا جال بچھنے لگا تھا، آنکھوں کے پاس گال پر بڑا سا مسّہ۔ آنکھیں چھوٹی مگر ان میں بچوں جیسی چمک، بال چھوٹے چھوٹے مگر ’’اجھڑائے ‘‘ سے۔۔۔ اجلے رنگ کے پینٹ شرٹ (جو گندہ ہو گیا تھا اور شاید اس کا یونیفارم بھی تھا) میں ملبوس۔۔۔ توند بالکل باہر نکلی ہوئی۔۔۔ پورے چہرے پر بس آنکھیں ہی ایسی تھیں جو اس کے وجود کو چھوٹے سے ننھے منّے بچے میں تبدیل کر رہی تھیں۔ میں نے غلام بخش کی باتوں پر کان لگایا مگر اڑم، دھڑم، نم، نوں۔ جو زیادہ تر اس کے سانسوں کی تکرار تھی، سے زیادہ کچھ سمجھ نہ سکا۔ مگر سانسوں کے آدھے ادھورے بٹوارے کے درمیان اس کی بے تکی بڑبڑاہٹ جاری تھی۔
اسٹول سے آگے بڑھنے کے بعد دائیں طرف شریواستو کا کمرہ ہے۔ جو پبلشنگ ہاؤس میں بک انچارج ہیں۔ ان کے پڑوس میں رضیہ بین کی میز ہے۔ رضیہ کو کوئی رضیہ بہن نہیں کہتا۔ رضیہ بین ہی کہتا ہے۔ دھیرے دھیرے جب میں اظہر بائجان، وہاں کا مستقل گھوسٹ رائٹر بن گیا اور یہاں کے لوگوں سے تعلقات کے دائرے بڑھنے لگے تو غلام بخش کے بارے میں کئی انوکھی کہانیاں معلوم ہوئیں۔۔۔ معلوم ہوا کہ اس اسٹول پر بیٹھے بوڑھے بھوت کے بارے میں جاننے کا تجسس صرف مجھے ہی نہیں، بلکہ سب کو تھا۔ لیکن غلام بخش کی زندگی کا سب سے مختلف پہلو وہ تھا جس کی داستان مجھے یہاں کے مالک مسٹر نوین نے سنائی۔
لیکن صاحبان۔ ذرا ٹھہریئے۔ اس داستان کو شروع کرنے سے پہلے میں ایک چھوٹا سا واقعہ بتا دوں۔ ہوا یوں کہ جیسا میں نے شروع میں بتایا ہے، کہ جب بھی میں نوین پبلشنگ ہاؤس جانا، کوشش کرتا کہ نظریں بچا کر زیادہ سے زیادہ غلام بخش کا جائزہ لیتا رہوں۔ جیسا کہ میں نے بعد میں جاتا کہ اس بوڑھے بھوت کو کھانے پینے سے کوئی زیادہ مطلب نہیں ہے۔ بھوک لگی تو باہر سے کچھ بھی لا کر کھا لیا۔ چینا بادام، بھونجا، گول گپے۔ زیادہ تر ایسی ہی چیزیں اسے پسند ہیں۔ خود میں نے جب بھی دیکھا۔ ایک چھوٹا سا ٹھونگا لے کر کچھ اسی طرح کی چیز چباتے یا کھاتے دیکھا۔ ہاں پیسے نہیں ہوتے تو چپ چاپ نوین صاحب کے پاس آکر ٹھہر جاتا۔ ایسے میں بھی اس کی بے ڈھب سانسوں والی بےتکی آواز زور مار رہی ہوتی۔ نوین صاحب سمجھ جاتے کہ بھوک لگی ہے۔ وہ کچھ پیسے ہاتھ میں تھما دیتے۔ وہ چپ چاپ باہر نکلتا۔ کوئی کھانے پینے کی چیز لیتا۔ پھر اسٹول پر کسی فرمانبردار بچے کی طرح بیٹھ جاتا۔ جیسے اسکول کے بچے کو اسکول اور اسکول سے گھر کا راستہ معلوم ہوتا ہے، وہی حال غلام بخش کا دفتر کے ساتھ تھا۔ وہ کہاں رہتا تھا، کی مزید تفصیل تو بعد میں بتائیں گے لیکن اسے معلوم تھا کہ اتنے بجے دفتر پہنچنا ہے۔ چابی سے دروازہ کھولنا ہے اور اسٹول نکال کر بیٹھ جانا ہے۔ دروازہ کھولنے کے آدھے گھنٹے بعد ہی سوئپر آتا تھا۔ ہاں شروع میں مجھے اس بات کا احساس ضرور تھا کہ اس بےضرر آدمی کو بھلا نوین صاحب نے کیونکر رکھا ہے؟ مگر اس کا اندازہ مجھے بعد میں ہوا۔ ہاں تو واقعہ یوں تھا کہ ہمیشہ کی طرح ایک دن گیٹ کھول کر اندر داخل ہوتے ہی میں غلام بخش کے پاس ٹھہرا تو اس کی تیوریاں کچھ چڑھی ہوئی دیکھیں۔ مگر اس کی خود کلامی، بڑبڑاہٹ جاری تھی اور بہت دھیان دینے پر بہت کوشش کے باوجود، اس کے آدھے ادھورے لفظوں میں مجھے ایک ملک کا نام سنائی دیا اور میں ایک دم سے چونک پڑا۔۔۔
’’پا۔۔۔ کستا۔۔۔ ن۔۔۔‘‘
میں نے پھر غور کیا۔ میری طرف اچٹتی سی نگاہ ڈال کر وہ پھر اپنی خود کلامی میں مصروف تھا۔ میں نے جب شریواستو کو اپنی اس نئی دریافت کا بیورہ دیا تو وہ چونکا نہیں۔ بلکہ مذاق اڑاتا ہوا بولا۔۔۔
’’بائجان صاحب۔ آپ نے کوئی تیر نہیں مارا۔ سالا پاکستان سے محبت کرتا ہے، غدار ہے۔ کون نہیں جانتا۔ پھر اس نے پراسرار انداز میں بتایا۔ یہ سالا پاگل دکھتا ہے۔ کچھ پوچھئے تو عجب عجب کرتا رہے گا جیسے کچھ جانتا نہیں، کسی سے کوئی مطلب نہیں۔ لیکن ذرا اس کے سامنے پاکستان کا نام لے کر دیکھئے۔۔۔ کیسے سن لیتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔۔۔‘‘
’’اچھا۔۔۔‘‘ یہ میرے لئے حیرانی کی بات تھی۔
اور اس سے پہلے کہ میں نوین صاحب والا واقعہ بیان کروں، میں آپ کو بتادوں کہ شری واستو جی کی بات مان کر میں نے وہ تجربہ بھی کیا اور یقین جانیے۔ اس کی آنکھوں میں پہلی بار بچے جیسی چمک اور خوشی کا رنگ نظر آیا۔
’’پاکستان۔۔۔‘‘
’’تم پاکستان میں رہتے ہو۔۔۔؟‘‘
’’تمہارا پاکستان میں کوئی اب بھی رہتا ہے۔۔۔؟‘‘
’’پاکستان جانا چاہتے ہو۔۔۔؟‘‘
’’پاکستان تمہیں بے انتہا پسند ہے۔۔۔؟‘‘
وہ خود سے اڑم بڑم کرتا، میری طرف دیکھ کر بچوں کی طرح مسکرائے جا رہا تھا۔ بس کوئی جواب نہیں۔ اس کی بڑبڑاہٹ جاری تھی اور اس سے پہلے کہ میں اپنے طور پر غلام بخش کے بارے میں کوئی نظریہ قائم کروں نوین صاحب نے مجھے ایک بالکل نئی دنیا میں پہنچا دیا تھا۔
*
تب آزادی نہیں ملی تھی۔ نوجوانو ں میں گاندھی جی اور آزادی کا جوش ضرورت سے کچھ زیادہ ہی تھا۔ چرخہ کاتنے والے گاندھی جی کی تصویر غلام بخش کے اندر ہی اندر بس گئی تھی۔ سودیسی آندولن کا نعرہ ہو یا انگریزو بھارت چھوڑو۔۔۔ غلام بخش کے نوجوان ہاتھ بھی فرنگیوں کے خلاف اٹھ گئے۔ یہ پڑھائی کی عمر تھی۔۔۔ غلام بخش کا باپ کریم بخش تھا جو مولا حویلی تاج بخش کے پاس رہتا تھا۔ یہ جگہ پرانی دلی کے علاقے میں تھی۔ آج یہ جگہ چتلی قبر اور بلی ماران کی نئی نئی دکانوں اور عمارتوں کے بیچ کہاں گم ہو گئی۔ اسے کھوجنا مؤرخ کا کام ہے۔ کریم بخش کچھ زیادہ پڑھے لکھے تو نہیں تھے۔ ہاں تھوڑی بہت عربی فارسی آتی تھی۔ اردو کے استاد تھے۔۔۔ بچوں کو پڑھا کر گزارا کرتے تھے اور مولا حویلی تاج بخش محلے میں تین کمروں کا چھوٹا سا مکان تھا۔ جو باپ دادا پردادا کے وقت سے چلا آ رہا تھا۔ کریم بخش کے تین لڑکے تھے۔ منجھلا تھا غلام بخش، بڑا مولا بخش اور چھوٹا ظہور بخش۔۔۔ اس وقت تک پاکستان نہیں بنا تھا لیکن قائد اعظم کا بہت شور تھا۔ کریم بخش بھی اس وقت کے زیادہ تر مسلمانوں کی طرح مسلم لیگ کے اہم ممبر تھے اور قائد اعظم کے حق میں تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا اپنا الگ ملک ہو۔۔۔ غلام بخش اس وقت نوجوان تھا۔ عمر 19-20 ہوگی۔۔۔ پتہ نہیں کیوں اسے ابا کی بات معقول نہیں لگتی تھی۔ گاندھی جی کی بات تو سمجھ میں آتی تھی کہ سب مل جل کر رہو۔۔۔ ملک کا بٹوارہ ہو جائے۔ ہندو مسلم دو حصوں میں بٹ جائیں۔ اسے کب گوارہ تھا۔ کریم بخش نے ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ کا نعرہ تو لگایا لیکن پاکستان کو بنتے ہوئے نہیں دیکھ سکے۔۔۔ کہتے ہیں ایک بار وہ کسی جلوس کے ساتھ نعرے لگاتے جا رہے تھے کہ برٹش سرکار نے گولی چلوا دی۔۔۔ مرنے والوں میں غلام بخش کا باپ بھی شامل تھا۔
فرنگی حکومت سے غلام بخش کی نفرت اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ ایک بار اسے معلوم ہوا کہ قریبی گیسٹ ہاؤس میں وائسرائے کی سواری رکتی ہے۔ اس وقت بہت سے ہندو مسلمان بم بنانا جان چکے تھے۔ غلام بخش نے خود اپنے ہاتھوں سے بم بنایا اور ایک بم وائسرائے کے کمرے کی طرف اچھال کر جو بھاگا تو ’’بم پولیس‘‘ میں جا کر دم لیا۔ اندھیرے کا وقت تھا۔ شہر فرنگی جوتوں کی دہشت سے گھرا ہوا تھا۔ یہ جگہ ریلوے کراسنگ کے پاس تھی۔ جہاں بڑے بڑے بے حیا کے درخت تھے اور چاروں طرف موت پاخانے کی تیز بدبو۔۔۔ کہتے ہیں فرنگی گولی کے ڈر سے غلام بخش اسی گو موت یعنی ’’بم پولیس‘‘ میں ہفتوں پڑا رہا۔ اسے یہ بھی خوف تھا کہ پولیس اس کی تلاش میں ہو گی اور صبح اس جگہ میدان کرنے والوں کی ٹولی آ جائےگی۔ جیسے تیسے پورے ایک ہفتہ تک وہ اس بم پولیس میں ادھر ادھر چھپتا رہا۔
یہ اسی زمانے کی بات ہے جب انگریزوں نے ’’ڈیوائڈ اینڈ رول‘‘ فارمولے کے تحت ہندو مسلمانوں کو آپس میں لڑا دیا تھا اور ملک میں چاروں طرف ہندو مسلمان کٹ کٹ کر گرنے مرنے لگے تھے۔ پھر جب پاکستان بنا تو عدم تحفظ کے احساس سے دو چار مسلمانوں نے پاکستان جانے میں ہی بھلائی سمجھی۔ غلام بخش کا علاقہ بھی دہشت کی لپیٹ میں تھا۔ پاکستان چلنے کا اعلان ہوا تو بڑے بھائی مولا بخش نے غلام بخش کو بھی چلنے کے لئے کہا۔ غلام بخش راضی نہیں ہوا تو اس نے سمجھایا۔
’’مکان کا موہ چھوڑو۔ پرانی دلی کا حشر بھی برا ہونے کو ہے۔ وہاں چل کر کسی اچھے سے مکان پر تالا لگا دیں گے۔‘‘
غلام بخش پھر بھی چلنے کو راضی نہیں تھا۔ بڑے بھائی نے بڑی مشکل سے دونوں بھائیوں کو راضی کیا۔ اس وقت تک مولا بخش کی بیوی آ چکی تھی اور اس کا ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا۔
*
لاہور تو آ گئے پر مکان کا ملنا اب بھی نہیں ہوا تھا۔ مکان ڈھونڈھا بھی تو غلام بخش نے۔۔۔ اور بڑی مشکل سے دوڑ بھاگ کے بعد ایک بہتر سا مکان نظر آیا۔ بھائیوں کو خبر کی۔ بھائی آئے۔ خوش ہوئے۔ قاعدے سے اس مکان پر تو غلام بخش کا ہی حق ہونا چاہئے تھا۔ مگر مولا بخش کی بیوی نے ایسا ہونے نہیں دیا۔۔۔ مکان بڑا ضرور تھا لیکن نصیبن چاہتی تھی کہ یہ مکان اس کے حصے میں رہے۔۔۔ سو اس نے اپنے میاں کو پڑھانا شروع کیا کہ اگر یہ بھائی زیادہ دن تک یہاں ٹکے رہے تو یہاں بھی بٹوارے جیسی صورت حال پیدا ہو جائےگی اور جو یہاں بھی اس مکان کے تین حصے لگ گئے تو سوچو بچے گا کیا۔۔۔ دونوں بھائی تو کنوارے ہیں۔ کچھ بھی نہیں جائے گا۔ لیکن اس کی تو گھر گرہستی ہے۔ اس لئے سوچنا بھی اسی کا کام ہے۔ مولا بخش نے دماغ لگایا تو بیوی کا شک صحیح لگا۔ بھائی کی نیت سے تو غلام بخش واقف ہو ہی چلا تھا۔ لیکن جب بھائی نے سیدھے طور پر مکان سے نکل جانے کو کہا تو اسے بھی تاؤ آ گیا۔ غصّے میں بولا۔ جاؤ نہیں نکلتا۔۔۔ میرا مکان ہے۔ دخل بھی میرا ہے۔ پہلے میں نے دیکھا تھا۔۔۔ کہتے ہیں یہی وقت تھا جب پاگل پن کا ہلکا ہلکا دورہ غلام بخش کو پڑا تھا۔ بھائی سے ان بن ہو جانے کے بعد وہ
بیٹھا بیٹھا بڑبڑاتا رہتا۔
’’لے کے رہیں گے پاکستان
پاکستان میں ایک مکان
ایک مکان میں ایک دکان۔۔۔
لے کے رہیں گے۔۔۔ پا۔۔۔ کس۔۔۔ تا۔۔۔ ن۔۔۔‘‘
کہتے ہیں بھیا اور بھابی سے دل ٹوٹنے کے بعد ادھر ادھر مکان کی تلاش میں بھٹکتا رہا۔ کراچی سے لاہور، لاہور سے کراچی۔۔۔ بہت دنوں تک انار کلی میں بھی پھیری لگائی۔ دل نہیں لگا تو پرانے مکان کی تلاش میں ہندوستان واپس آ گیا اور پھر اس پر جیسے ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔۔۔ جس مکان کو ’’نٹھلا‘‘ اور لا وارث چھوڑ کر بھاگا تھا۔ وہاں کسی دوسرے کا قبضہ ہو گیا تھا۔ بیچارے ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کو تو یہ سوچ کر پریشانی ہوتی تھی کہ اس کا گھر پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔۔۔ لیکن اس سے بھی بُری حالت بیچارے غلام بخش کی تھی۔ اپنا گھر، اپنا دوار۔ وہ یہاں سے بھی گیا۔ وہاں سے بھی۔ بہت دنوں تک مولا حویلی تاج بخش کے اپنے گھر کے سامنے ڈیرہ ڈال کر وہ یہی گاتا پھرتا۔۔۔
’’لے کے رہیں گے پاکستان
پاکستان میں ایک مکان
ایک مکان میں ایک دکان‘‘
کوئی پوچھتا۔۔۔ ’’کیوں میاں۔ پاکستان تو مل گیا، اب وہاں مکان کب لے رہے ہو اور مکان میں دکان کب بنوا رہے ہو۔۔۔؟‘‘
غلام بخش گندی سی گالی بکتا۔۔۔ اسی بھڑوے نے ہتھیا لی۔ ورنہ دیکھا تو میں نے تھا۔
*
’’لیکن یہ سب باتیں؟‘‘ میں نے نوین صاحب کی طرف دیکھا۔۔۔ ’’آپ کیسے جانتے ہیں؟‘‘
نوین صاحب نے میری طرف دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھری۔۔۔ بھائی، اس وقت تقسیم کا اثر سب کے دل و دماغ پر تھا۔ ہندو مسلم دنگوں نے تھوڑا بہت نقصان سب کو ہی پہنچایا تھا۔۔۔ اور دلی تو دل کھول کر لٹی برباد ہوئی تھی۔ اس لئے جب یہ وقت کا مارا روزی روٹی کو ترستا، پاپا کے پاس پہنچا اور پاپا نے اس کی کہانی سنی تو فوراً رکھ لیا۔۔۔ اب مدت گزر گئی۔ مرنے سے پہلے پاپا نے مجھ سے بھی کہا تھا۔۔۔ غلام بخش کو نکالنا مت۔ بے ضرر انسان ہے۔ باہر اسٹول پر پڑا پڑا چوکیداری ہی تو کرتا رہتا ہے۔ نہ کسی سے لڑتا جھگڑتا ہے۔ اس لئے میں نے بھی رہنے دیا۔
نوین بھائی نے میری آنکھوں میں جھانکا۔۔۔ دراصل اس کی بڑبڑاہٹ تو ادھر پانچ ایک برسوں میں شروع ہوئی۔ مکان نہیں ملا تو کھوجتے کھوجتے اس کی ملاقات رحمان درزی سے ہوئی۔ جن کی آنکھوں کی بینائی کمزور پڑ گئی تھی اور جواب سینے پرونے کا کام کرنے کے لائق بھی نہیں تھے۔ غلام بخش انہیں رحمان چاچا کہتا تھا۔ رحمان کے پاس اپنا ایک ٹوٹا پھوٹا سا مکان تھا۔ رحمان کریم بخش کے پکے یاروں میں تھا اور ایک نمبر کا مسلم لیگی۔ سو رحمان نے اسے اپنے پاس ہی رکھ لیا۔ کچھ دنوں کے بعد ہی رحمان مر گیا اور یہ مکان بھی ایک طرح سے غلام بخش کا ہی ہو گیا۔ اب تو اس مکان کی قیمت بھی کافی ہو گئی ہو گی۔ پاپا برابر کہتے رہے۔ مکان بیچ دو۔ اچھے پیسے مل جائیں گے۔ مگر غلام بخش کو پیسے کوڑی سے مطلب ہی نہیں تھا۔
*
مجھے معاف کیجئے میں جہاں سے چلا تھا۔ پھر وہیں لوٹ رہا ہوں۔۔۔ آخر اس پرانی ہو چکی داستان میں ایسا کیا ہے۔ میں جسے لکھنے کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں۔۔۔ تقسیم، ہجرت، فساد، کچھ کہانیاں تو وقت کی زنبیل میں کب کی دفن ہو گئیں۔۔۔ پھر اس پرانی پڑ گئی راکھ کو کرید نے سے فائدہ۔۔۔؟ لیکن صاحب، راکھ کے اسی ڈھیر کو کریدا جاتا ہے جہاں سے کچھ ملنے کی توقع ہوتی ہے۔
نوین بھائی نے آگے بتایا۔ ان دنوں ہندوستان پاکستان میں جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ ہر طرف جنگ کے تذکرے تھے۔ اس وقت پاپا دفتر میں ہی بیٹھے تھے۔ اچانک اسٹول پر بیٹھے بیٹھے غلام بخش لپکتا ہوا پاپا کے پاس آیا۔۔۔ پہلے تو وہ سمجھے کہ پیسوں کے لئے آیا ہوگا۔ جیب میں ہاتھ ڈالا ہی تھا کہ غلام بخش نے روک لیا۔ نئیں جی پیسے نہیں چاہئیں۔
’’پھر۔۔۔‘‘
’’میں کیا کروں جی۔۔۔؟‘‘
پاپا نے اس کی طرف حیرت سے دیکھا۔ غلام بخش نے سوالیہ آنکھوں سے پاپا کی آنکھوں میں جھانکا۔۔۔ یہ جنگ ہو رہی ہے جی۔ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ میرا مکان تو ہندوستان میں بھی چھن گیا۔ پاکستان میں بھی۔۔۔ یہ آفس والے چھیڑتے ہیں جی۔ کہ ہندوستان، پاکستان پر بم گرائےگا۔ اچھا گرائےگا جی۔ مان لیا۔ پھر مجھے کیا کرنا چاہئے اور اگر پاکستان ہندوستان پر بم گراتا ہے جی، تو مجھے کیا کرنا چاہئے۔
پاپا نے زور سے ڈانٹا۔ ’’تم جا کر چپ چاپ اسٹول پر بیٹھ رہو اور کسی کی مت سنو۔‘‘
’’اچھا جی۔۔۔‘‘
وہ اسٹول پر جا کر بیٹھ گیا۔
میں دھیرے سے مسکرایا۔۔۔ ’’دراصل وہ طے نہیں کر پا رہا تھا کہ اسے کہاں کے لئے ایماندار ہونا چاہئے اور یہی اس کی زندگی کا سب سے اہم پہلو ہے۔‘‘
نوین بھائی ہنسے۔۔۔ پھر تو پاکستان کے نام پر وہ دفتر والوں کا مذاق بن گیا۔ کوئی پاکستانی کہتا۔ کوئی کہتا، پہلے تو صرف مکان ہی چھنا ہے۔ اس بار جاؤ گے تو کھدیڑ دیئے جاؤ گے۔ ہندو پاک کے درمیان کرکٹ کا میچ چلتا تو وہ کھسکتا ہوا ٹرانزسٹر کے قریب آ جاتا۔ پھر پوچھتا۔ پاکستان کے کئے رن ہوئے جی۔ پاکستان جیتےگا نا جی۔ ایسا باؤلا ہو گیا تھا۔
نوین بھائی نے ٹھہر کر کہا۔ شری واستو کی میز کے پاس تم نے نجمہ بین کو دیکھا ہو گا۔ پتہ نہیں کیا بات تھی۔ نجمہ کو بہت مانتا تھا۔ جب شروع شروع آئی تھی۔ تب سے جو بھی کھانے کی چیز خریدتا، نجمہ کے پاس لے کر پہنچ جاتا۔۔۔ جب آفس والوں نے نجمہ کو چڑانا شروع کیا تب ایک بار نجمہ نے اس کا ٹھونگا پھینک دیا تھا۔۔۔ تب سے ایسا ناراض ہوا کہ نجمہ کو دیکھتا بھی نہیں۔ تم کیا جانو۔ اس کے اندر کتنا غصہ ہے۔۔۔ اتنا غصہ جسے وہ اپنی مستقل بڑبڑاہٹ میں تھوڑا تھوڑا کر کے نکالتا رہتا ہے۔
’’چائے پئیں گے آپ؟‘‘
نوین بھائی نے میری طرف دیکھا۔ بس جو معلوم تھا بتا دیا۔ ہاں ایک چھوٹی سی بات اور رہ گئی۔ آخر وقت میں اس نے پاپا کو بہت تنگ کیا۔ جب تب کہتا، پاکستان بھیج دو۔ جب پاپا کی ارتھی اٹھی تب بھی وہ آنگن میں ایک طرف بیٹھ کر وہی پرانا گیت الاپ رہا تھا۔
’’لے کے رہیں گے پاکستان
پاکستان میں ایک مکان
ایک مکان میں ایک دکان‘‘
میں خود اسے پکڑ کر کنارے لے گیا اور سمجھایا۔۔۔ ’’چپ ہو جاؤ غلام بخش۔ پاکستان میں مکان بنوانے والا نہیں رہا۔ پاپا مر گئے ہیں۔ چپ ہو جاؤ۔‘‘ پھر یوں ہوا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ بلک بلک کر۔ پہلی اور آخری بار۔۔۔ پھر میں نے اسے کبھی روتے ہوئے نہیں پایا۔ پتہ نہیں کم بخت کے اندر کتنی داستانیں بھری ہیں۔ اسٹول پر بیٹھا بیٹھا بڑبڑاتا رہتا ہے۔
*
غلام بخش کی کہانی اتنی ہی تھی جتنی میں سنا چکا۔ بیچ کے واقعات میں کچھ نہیں۔ سوائے اس کے کہ وہ اسٹول پر بیٹھا بیٹھا بڑبڑاتا رہتا تھا اور میری خواہش تھی کہ اس کی بڑبڑاہٹ میں کسی معنی خیز جملے کو دریافت کرسکوں۔۔۔ لیکن یہ میری بیوقوفی تھی۔ وہاں صرف سانسوں کے تھپیڑے تھے۔ جنہیں سمجھنا آسان نہ تھا۔ ہاں اب جو میں بتانا چاہتا ہوں۔ وہ بہت اہم ہے۔۔۔ جیسے یہ کہ مرنے سے کچھ دن قبل وہ ٹھیک ہو گیا تھا اور یہ ماننے کو کوئی بھی تیار نہیں کہ وہ کھوسٹ غلام بخش جو مرنے سے کئی عرصہ پہلے ہی مر چکا تھا۔۔۔ مجھے کچھ بتانا بھی چاہتا ہوگا۔۔۔ اور سچ کہوں تو اس کے اس طرح اچانک مرنے سے مجھے دھکا پہنچا تھا۔۔۔ اور وہ جن حالات میں مرا، مجھے یقین ہے وہ اپنے زندہ ہونے کی کوئی تو شہادت پیش کرنا چاہتا ہو گا اور اسی لئے میں کہتا ہوں کہ مرنے سے قبل وہ مجھے کچھ بتانا چاہتا تھا۔۔۔ جیسے ایک ٹائر میں اگر بہت زیادہ ہوا بھر دیجئے تو وہ پھٹ سکتا ہے۔ لیکن تھوڑی سی ہوا چارج کر دیجئے، تو اس کے پھٹنے کا خوف نہیں رہتا۔۔۔ غلام بخش اپنے اندر سے تھوڑی بھی داستان نکال دیتا تو وہ بچ جاتا اور میرا زور اسی بات پر ہے کہ وہ اپنی داستان باہر نکالنے کے لئے تیار تھا۔
’’تمہارا یقین ہے وہ تمہیں کچھ بتانا چاہتا تھا؟‘‘ نوین بھائی چونک کر بولے۔
’’ہاں۔۔۔ اس نے مجھے گھر چلنے کو کہا تھا۔‘‘
’’تم اس کے گھر گئے تھے؟‘‘
میں اظہر بائجان، میں نے ٹھنڈی چائے منہ کے اندر انڈیلی۔۔۔ نوین بھائی کو غور سے دیکھا۔ پھر کہا۔۔۔ اب جو بتانے جا رہا ہوں۔ ممکن ہے آپ کو یقین نہ آئے اور آپ سن کر حیرت کریں۔۔۔ تو سن لیجئے۔ مرنے سے پہلے میں واقعی اس کے گھر گیا تھا۔۔۔ میں ایک لمحے کو رکا۔ آپ کے پاپا ٹھیک کہتے تھے۔ وہ مکان جس جگہ ہے، اب اچھے داموں پر فروخت ہو گا۔ لیکن اب اس جگہ پر رحمان درزی کے بھائی بھتیجوں کا قبضہ ہو گیا۔ میں سب معلوم کر کے آیا ہوں۔ دراصل مجھے تجسس اس کے سامان کا تھا۔ کم بخت کے پاس یادگار کے طور پر کچھ تو ہوگا۔
’’پھر کیا ملا۔۔۔؟‘‘
میں نے ان تجسس مزید بڑھایا۔۔۔ ’’آپ کو تعجب ہوگا۔ غلام بخش اپنے اس گھر میں مجھے نہیں ملا۔۔۔ بلکہ اپنے پرانے والے گھر میں۔۔۔‘‘
میں نے ٹھہر کر کہا۔ ’’اچھا یہ بتایئے۔ مرنے سے 6-7روز قبل کیا وہ دفتر آ رہا تھا؟‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘
’’آپ نے تلاش کیا؟‘‘
’’ہاں، ہم نے پیون بھیجا تھا۔ اس کے گھر۔ وہ نہیں ملا تھا۔‘‘
’’غلام بخش جیسا ایک بوڑھا آدمی وہاں نہیں ملا، کیا یہ تشویش کی بات نہیں تھی۔‘‘
’’تھی لیکن میں کیا کرتا۔‘‘
’’اب مجھ سے سنئے۔ وہ وہاں ملتا بھی کیسے۔ وہ تو اپنے پرانے گھر گیا تھا۔ جی ہاں اسی گھر میں جو مولا حویلی تاج بخش میں، کسی زمانے میں تھا اور جہاں آج کسی دوسرے کا قبضہ ہے۔‘‘
نوین بھائی مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ’’لیکن تم وہاں تک کیسے پہنچ گئے؟‘‘
میں نے ایک بوجھل سانس لی۔۔۔ مجھے معلوم تھا۔ وہ وہیں مل سکتا ہے۔ چتلی قبر اور بلیماران کے علاقے میں وہ جگہ تلاش کرنے میں مجھے زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ اب وہاں بالکل نئی عمارت ہے۔۔۔ عمارت کے مکین نے بتایا کہ ایک پاگل نما شخص آیا تھا۔ جو گھر اور گھر کے کمروں کی طرف اشارہ کر کے پتہ نہیں کیا کہہ رہا تھا۔ لیکن کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ ان لوگوں نے اسے نکالنے کی بہت کوشش کی۔ لیکن۔۔۔ لیکن وہ گیا نہیں۔ دھنی مار کر باہر ہی جم گیا۔ ڈرانے دھمکانے پر بھی نہیں گیا۔ باہر برآمدے میں ہی سو گیا۔۔۔ جانتے ہیں ایسا کیوں ہوا۔۔۔ میں نے نوین صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔۔۔ ممکن ہے اچانک اسے خیال آیا ہو۔ کیا اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی وہ اپنے مکان کو اپنا مکان نہیں کہہ سکتا۔ بس۔ اس طویل دشمنی کی آخری جنگ لڑنے وہ اپنے اس مکان میں گیا تھا۔
’’اس کے پاس سے کچھ برآمد ہوا؟‘‘
’’وہی بتانے جا رہا ہوں میں نے ٹھنڈی سانس چھوڑی۔۔۔ اس کے پاس تھا ہی کیا؟ جو ملتا۔ زندگی بھر کی کمائی بس ایک جھولا۔ کچھ پرانے کاغذ پتر، جس کی لکھائی اتنی دھندلی پڑ گئی تھی کہ کوئی مورخ ہی پڑھ سکتا تھا۔ ہاں کچھ چوڑیاں تھیں۔ ان چوڑیوں سے یاد آیا نجمہ بین سے اس کی والہانہ محبت کے پیچھے کوئی جذبہ کہانی کی شکل میں ضرور رہا ہوگا، جو اس کی موت کے ساتھ ہی راز، رہ گیا۔ بہر کیف اب میں جس چیز کی طرف آ رہا ہوں وہ یقیناً آپ کو بھی چونکا دےگی۔
نوین بھائی نے کرسی پر۔۔۔ کروٹ بدلی۔۔۔
میں نے ان کے تجسس کا زیادہ امتحان لئے بغیر کہا۔ وہ چیز تھی ویزا۔ پاکستان جانے کا ویزا۔ جس پر حال فی الحال کی تاریخ پڑی تھی۔ آپ کہتے ہیں وہ ہوش و حواس کھو چکا تھا۔ مدتوں پہلے ہی مر چکا تھا۔ لیکن کیا مرنے سے پہلے وہ پاکستان جانے کا خواہش مند تھا۔ لیکن۔ کیوں؟ دراصل۔۔۔
نوین بھائی مضحکہ خیز ہنسی ہنسے۔ ’’ہو سکتا ہے وہ آدھی موت یہاں مر چکا ہو اور آدھی موت کے لئے۔‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘ میرا لہجے اچانک تھوڑا سخت ہو گیا۔ یہیں پر آپ چوٹ کھا گئے نوین بھائی اور یہی غلام بخش کی کہانی کی سب سے سنسنی خیز اور آخری کڑی ہے۔ اب جو میں بتانے جا رہا ہوں وہ بہت معمولی مگر بہت اہم ہے۔
میں نے ان کی آنکھوں میں جھانکا۔۔۔ ’’یاد رکھئے، اس کہانی کا سب سے اہم حصہ غلام بخش کے آخری ایام ہیں۔ آخری وقت میں یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوا تھا کہ یہ مکان کیا اتنے برسوں بعد بھی اس کا نہیں ہے؟ اس نے اپنے اس موروثی گھر کے لئے کوشش کی۔۔۔ ظاہر ہے گھر نہیں مل سکا۔۔۔ اس نے پاکستان جانے کا ارادہ کر لیا۔۔۔ ویزا تک بنوا لیا۔۔۔ حقیقت یہی ہے کہ اس نے فوقیت اپنے مکان کو دی۔ وہ پاکستان گیا نہیں۔ کیونکہ یہ تلخ حقیقت اسے معلوم ہو گئی تھی کہ اب یہی اس کا گھر ہے اور اسے اسی گھر کے لئے کوشش کرنی ہے اور۔۔۔‘‘
میں اظہر بائجان، میں نے گھوم کر نوین صاحب کی طرف دیکھا۔۔۔ جو سکتے کے عالم میں میری طرف دیکھ رہے تھے اور میری ہر بات کے ساتھ ان کے چہرے پر بل بھی پڑنے لگے تھے۔ میں توقف سے مسکرایا اور یہ رہی سب سے معمولی، سب سے اہم بات۔۔۔ مرتے وقت اس نے اپنے ہونے کی آخری کیل ٹھونک دی۔
’’مطلب؟‘‘ نوین بھائی نے کرسی پر پہلو بدلا۔
میں دھیرے سے مسکرایا۔۔۔ ’’مرا بھی کم بخت تو اپنے اسی باپ دادا والے پرانے گھر میں۔۔۔ ایسا کیوں کر ہوا۔ اس کا مطلب بتا سکتے ہیں آپ؟‘‘
میں نے غور کیا۔ نوین بھائی کے چہرے کا مانس ذرا سا کھنچ گیا تھا۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.