غلام دین
کہانی کی کہانی
کبھی کبھی انسان کا عرصہ حیات اس قدر تنگ ہو جاتا ہے کہ وہ محض زندہ رہنے کو ہی کامیابی سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس کہانی میں مصنف نے الگزنڈر سولز نتسن کے ناول آئیون ڈینسوچ کی زندگی میں ایک دن کے کردار آئیون کے مماثل ایک کردار تخلیق کیا ہے۔ آئیون کی قیدخانہ کی زندگی اور غلام دین کی زندگی میں بیک وقت بے شمار مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ زندگی کے انتشار، محرومیوں، مجبوریوں اور خوشیوں کے معاملہ میں تقریباً دونوں کردار یکساں ہیں۔ آئیون جس دن کھانے میں دو پیالے پاتا ہے، تمباکو خرید لیتا ہے، بیمار نہیں ہوتا اور معمولی پیسے کما لیتا ہے اس دن وہ مطئن ہو کر سوتا ہے، اسی طرح اس کہانی کا کردار بھی جس دن کھانے کے بعد چائے پا جاتا ہے، گھر جانے کے لئے نو کےےے بجائے آٹھ بجے والی بس مل جاتی ہے اور بیوی سے جھگڑا نہیں ہوتا اس دن کو وہ مکمل دن سمجھتا ہے اور مطمئن ہو کر سو جاتا ہے۔
پانچ بجے کے قریب،
کمرے کے قدموں میں بچھی سنسان اور تاریک سڑک کی خاموشی میں،
کمیٹی کے ٹرک کی گھرر گھرر نے،
ذبح ہوتے ہوئے بکرے کے نرخرے میں سے نکلتی،
نہ ہونے کی آوازوں کی طرح،
اس کے بدن کو خبر کی،
موت کا عارضی تجربہ ختم ہوا۔
گندگی کے انباروں کو ٹرک میں منتقل کرتے وقت مزدور بو میں سانس لیتے ہوئے عورتوں اور مردوں کے درمیانی حصوں کا ذکر کر رہے تھے۔ ان کی آوازیں رکے ہوئے ٹرک مگر چلے ہوئے انجن کی گھرر گھرر میں مدغم ہو کر اس کے کانوں پر دستک دینے لگیں۔ موت کا عارضی تجربہ ختم ہوا۔ پھر صبح کی خنک ہوا، بیلچوں سے اتھل پتھل کی جانے والی غلاظت کی بو اس کے نتھنوں کے اندر لے آئی۔ اس نے بچاؤ کی خاطر منہ کے راستے ایک طویل سانس لیا۔۔۔ پھر ایک اور۔۔۔ پھر ایک اور۔۔۔ مگر کب تک؟
جب ہر سو بدبو کا راج ہو جائے تو انسان کب تک صرف منہ کے راستے سانس لے کر اس سے فرار حاصل کر سکتا ہے؟ بالآخر اس نے اپنی ناک سے اس ہلکی بدبودار ہوا کو اپنے پھیپھڑوں میں کھینچا اور پورے ماحول کا ایک حصہ بن گیا۔۔۔ کم از کم ایک اور دن کے لیے۔ اس نے بستر پر پڑے پڑے اپنے دونوں پاؤں بلند کر دیے۔ یوں رضائی تھیٹر کے کسی سکڑے ہوئے پردے کی طرح انگلیوں پر سے لٹکی جسے اس نے ایک جھٹکے سے اپنی ٹانگوں کے نیچے سمیٹ لیا۔ اسی طور اس نے اپنے ہاتھ فضا میں بلند کرکے رضائی کو اپنے سر کے نیچے دبا لیا اور پھر روئی کے اس حصار میں مکمل طور پر محفوظ ہوکر آنکھیں جھپکانے لگا۔ شاید میں ایک جائنٹ ہوں جسے للی پٹینز نے جکڑ رکھا ہے۔
ہاہا۔ مگر میرے دائیں پاؤں کا انگوٹھا بقیہ جسم کی نسبت سرد کیوں ہے؟ انگوٹھے پر نیم خنک ہوا دھیرے دھیرے سرسراتی محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے محظوظ ہوتے ہوئے انگوٹھے کو ہلکا سا خم دیا۔۔۔ ہا۔ رضائی کے سوراخ میں پھنس گیا ہے، بلکہ اس وقت یقیناً باہر جھانک رہا ہے۔ عجیب سا لگ رہا ہوگا رضائی کی سطح پر اگا ہوا ایک انگوٹھا جیسے پھولدار غلاف کے بیچوں بیچ ایک کھمب اگ آیا ہو۔ مگر کھمب تو شاید سفید ہوتے ہیں اور اس کی رنگت۔۔۔ بہرحال ایک کالا کھمب سہی۔ اس کا جی چاہا کہ وہ اس منظر کو دیکھے مگر اس کے لیے اسے روئی کے حصار سے باہر جھانکنا پڑتا اور یوں رضائی کے اندر سٹور کی ہوئی حدت فرار ہو جاتی۔ چنانچہ وہ چپکا پڑا رہا۔۔۔ مگر باہر صبح ہو چکی تھی۔
’’حسب معمول اس صبح بھی ایک ہتھوڑے سے شفاف کوارٹرز کے قریب لٹکتی ہوئی سلاخ کو قیدیوں کو جگانے کے لیے پیٹا گیا۔ کھڑکی کے شیشوں میں سے جن پر کہرے کی ایک دبیز تہ جمی ہوئی تھی، گاہے بگاہے یہ آواز سرایت کرنےلگی اور پھر یکلخت بند ہو گئی۔ باہر غضب کی سردی تھی اور کیمپ کا محافظ زیادہ دیر تک الارم بجانے میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ جب آئیون ڈینسوچ بیدار ہوا تو باہر ہر شے تاریکی میں لپٹی ہوئی تھی مگر صبح ہمیشہ کی طرح اس کے سر پر کھڑی تھی۔‘‘
اگرچہ باہر صبح ہو چکی تھی مگر وہ چپکا پڑا رہا۔۔۔ اسے معلوم تھا کہ اسے اٹھا دیا جائے گا یعنی کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہونے کو تھا۔
دس۔۔۔! ہاں شاید وہ نہا رہی ہوگی۔۔۔ پتہ نہیں اس میں کیا مصلحت ہے کہ یہ عورتیں بعد میں نہاتی ضرور ہیں۔۔۔ آخر کیوں؟ کیا اسے آج ضرورت تھی۔۔۔؟ پچھلی شب۔۔۔ ہو سکتا ہے کچھ ہوا ہو۔۔۔ ذہن پر کوئی نقش باقی نہ تھا۔۔۔ جسم پر بھی نہیں؟
نہیں!
نَو۔۔۔! گھڑوں میں تازہ پانی۔
آٹھ۔۔۔! پچھلی رات کے گندے برتنوں کی صفائی ہو رہی ہوگی۔
سات۔۔۔! آٹا گوندھنا۔۔۔ اب اس عمل میں بھی شاید جنسی تلذذ کا ایک جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ تازہ آٹا جس پر پانی کے گرنے سے وہی مہک اٹھتی ہے جو ایک گرم ہوتے ہوئے بدن میں سے پھوٹتی ہے اور کیوں نہیں۔ دھرتی پر جنم لینے والی اور اس میں سے پھوٹنے والی اشیاء کا منبع تو ایک ہی تھانا!
چھ۔۔۔! بچوں کو دودھ پلانا۔ کسی بھی دودھ دینے والے جانور کا۔
پانچ۔۔۔! اب شاید ہمسائی سے بات چیت بلکہ گزارش۔۔۔ چینی کا ایک پیالہ ادھار جب تک اگلا راشن نہ مل جائے۔
چار۔۔۔! منہ کی پھکنی گیلی لکڑیوں کو سلگاتی ہوئی۔
تین۔۔۔! توے پر بکھرا سفید آٹا اب آہستہ آہستہ حدت سے بھورا ہو رہا ہے۔
دو۔۔۔! اب پتہ نہیں کیا کر رہی ہوگی؟
ایک! اب بھی پتہ نہیں۔۔۔
زیرو۔۔۔! اب!
اسی لمحے رضائی اس کے بدن پر سے ایک جنازے کی طرح اٹھی اور پھر قدموں میں ڈھیر کر دی گئی۔ ’’غضب! غضب! غضب۔۔۔! دوپہر ہونے کو آئی۔ جن کو بال بچوں کی فکر ہوتی ہے، وہ منھ اندھیرے اپنے کاروباری ٹھکانوں کی جانب چل دیتے ہیں۔ تم جیسے نکمے۔۔۔‘‘
’ردبرو‘ اس پر جھکی ہوئی آنکھیں غصے سے ابل رہی تھیں۔
’’اسی لمحے اس کا کمبل اور جیکٹ ایک جھٹکے سے کسی نے اتار پھینکے۔ آئیون نے اپنا کوٹ چہرے سے اتارا اور جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے قیدخانے کا محافظ تاتاری کھڑا تھا، ’ایس۔ آٹھ سو چون۔‘ تاتاری نے اس کی سیاہ جیکٹ پر سلی ہوئی سفید پٹی پر سے نمبر پڑھتے ہوئے غصے سے کہا، ’تین دن کی مشقت۔‘ اگر آئیون کو کسی ایسے جرم کی سزا ملتی جو اس سے سرزد ہوا تھا تو اسے بالکل دکھ نہ ہوتا۔ اسے تو اس بات سے تکلیف پہنچی تھی کہ وہ تو ہمیشہ بقیہ قیدیوں سے بہت پہلے بیدار ہو جایا کرتا تھا۔ لیکن اسے معلوم تھا کہ محافظ تاتاری کے ساتھ بحث میں الجھنا بالکل فضول تھا۔‘‘
بستر پر سے ٹانگیں سمیٹتے ہی اس کے سامنے ناشتے کی ٹرے دھکیل دی گئی۔ اس نے گردن جھکائی اور زنگ آلود ٹرے کو گھورنے لگا۔ وہ اب کمرے میں بالکل اکیلا تھا۔ اگلے دس منٹ کے لیے آزاد تھا۔ خالی الذہن ہو کر بیٹھ سکتا تھا۔ فضول قسم کی سوچوں میں گم ہو سکتا تھا، کچھ بھی کر سکتا تھا، ہاں کچھ بھی۔۔۔ لوگ کہتے ہیں مجسم محبت بنے رہو۔ اپنے ساتھی انسانوں کے سروں پر محبت کا پانی انڈیلتے رہو تاکہ ان کے جسموں کے درخت سرسبز رہیں۔ مگر یارو! یہ کیوں نہیں ہو سکتا کہ کبھی کبھار خدا کا کوئی نیک بندہ تمہارے سر پر بھی ایک آ دھ بالٹی ڈال دے۔۔۔۔ ہاہا۔ سر کے بال چٹخ رہے ہوں، دماغ میں دراڑیں پڑ جائیں تو بھی لگے رہو، محبت کا پانی انڈیلنے۔ سراسر یک طرفہ کاروائی۔ جی نہیں شکریہ اور ہاں سنو پانی بھی تو پیاسا ہو سکتا ہے بالآخر؟ یا نہیں! اور یہ نفسیات والے بھی خوب تجربے کرتے ہیں کہ جو جی میں آئے بول دو اور وہ ان الٹے پلٹے الفاظ کی مدد سے آپ کی شخصیت کے بخیے ادھیڑ۔۔۔ بخیے نہیں، میرا خیال ہے ٹانکے تروپے۔۔۔۔ ہاہا۔۔۔ تروپے ادھیڑنا۔۔۔ مثلا! میں کیا کہوں گا یعنی الٹ پلٹ الفاظ۔۔۔
شروع ہو جاؤں۔۔۔؟ ہو جاؤ۔۔۔ لو پھر۔۔۔ دو آ نہ۔۔۔ چار آنہ۔۔۔ قید خانہ۔۔۔ کمرہ۔۔۔ کمرہ۔۔۔ لنگور۔۔۔ لڑکی۔۔۔ بلکہ ننگی۔۔۔ چپ۔۔۔ کوئی سن تو سکتا نہیں۔۔۔ تو پھر ننگی لڑکی۔۔۔ بکرے کی ران۔۔۔ وہ گولی مارو۔۔۔ آج کا دن کیسا ہوگا۔ کیا مطلب آج کا دن؟ ایک مرتبہ میں نے ڈائری خریدی۔ ایک سال بعد جب اسے پڑھا تو معلوم ہوا کہ جیسے یکم جنوری کو جو کچھ ہوا اس کی مہر بنوا لی گئی اور بقیہ تین سو چوسٹھ صفحوں پر وہی ثبت کر دی گئی۔ ہوگا کیا؟ وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا اور آئے گا آنے والا، بکواس مت کرو گدھے کے بچے۔۔۔ ہاہاہا۔
’’ہنس کیوں رہے ہو؟‘‘
’’جی کچھ نہیں۔‘‘
’’تمہارا خیال ہے میں احمق ہوں؟ کیوں ہنس رہے ہو؟‘‘
’’یقین کرو بس ایسے ہی۔۔۔ پتہ نہیں۔‘‘
’’نکمے لوگوں کے دماغ چل جاتے ہیں؟ چلو اب نکلو بھی گھر سے۔‘‘
’’ناشتے میں اگر کوئی خوبی ہوتی بھی تو بس یہی کہ خوب گرم ہوتا تھا لیکن آج آئیون کا حصہ ٹھنڈا ہو چکا تھا پھر بھی اس نے اسے نہایت انہماک اور آہستگی سے کھایا۔۔۔ نیند کے علاوہ تین لمحے ایسے ہوتے ہیں جب ایک قیدی صرف اپنے آپ کے لیے زندہ ہوتا ہے۔ صبح ناشتے پر۔۔۔ دس منٹ! دوپہر کے کھانے پر۔۔۔ پانچ منٹ اور رات کے کھانے پر۔۔۔ پانچ منٹ! سب سے تلخ وہ لمحہ ہوتا ہے جب تم صبح سویرے مشقت کے لیے باہر جاتے ہو۔۔۔ تاریکی کی جانب۔۔۔ بھوکے پیٹ۔۔۔ شدید سردی میں! تم گنگ ہو جاتے ہو، کسی سے گفتگو کرنے کی خواہش تک باقی نہیں رہتی۔‘‘
سٹیشن کو بس یہیں سے جاتی ہے؟ ایک آواز نے پوچھا۔ اس نے بھنچے ہوئے جبڑے علیحدہ کرنے کا جتن کیا مگر شاید روٹی کی بجائے اس نے ناشتے پر ایرل ڈائٹ چبایا تھا۔ بھنچے رہے۔ اس نے بے دھیانی سے سر ہلا دیا۔ عمودی اور افقی خطوط کے درمیان کہیں۔ بس سٹاپ پر کھڑے تمام لوگ اسی کا چہرہ لیے ہوئے تھے۔
ایک تیز رفتار کار میں سے ایک ہاتھ بلند ہوا۔ کوئی جاننے والا تھا۔ کون؟ پتہ نہیں۔ روزانہ اسی وقت وہ ہاتھ بلند ہو کر غائب ہو جاتا۔ چہرہ دیکھنے کی نوبت ہی نہ آتی۔
’’ایک آگ تاپتے ہوئے شخص سےآپ کس طرح توقع کر سکتے ہیں کہ وہ سردی میں ٹھٹھرنے والے ایک شخص کے خیالات کو سمجھ لے۔۔۔ ایک قیدی کے خیالات، وہ بھی آزاد نہیں ہوتے، ایک ہی شے کی جانب بار بار پلٹتے ہیں۔ صرف ایک ہی آئیڈیا ذہن میں سرسراتا ہے۔ کیا محافظ میرے گدے میں سلی ہوئی روٹی برآمد کر لےگا؟ کیا اگر میں آج جھوٹ موٹ بیمار ہو جاؤں تو وہ مان لیں گے؟‘‘
مختصر دکان کا دروازہ کھولا تو سیلے فرش پر چوہوں کی مینگنیں چپکی ہوئی تھیں۔ اس نے ناک کو چٹکی میں دبایا اور منہ کے راستے سانس لیتے ہوئے جھاڑو سے فرش صاف کرنے لگا۔ اب گرد بھی اٹھ رہی تھی۔ منہ کھلا رہے تو حلق میں داخل ہوتی ہے۔ ناک سےسانس لینے میں وہی قباحت کہ بو آتی ہے۔ پسند کیجیےخواتین و حضرات! بویا گرد؟ اور اگر آپ دونوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سانس لینا مکمل طور پر بند کر دیجیے۔ نروان اور شانتی۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ مگر اسے فی الحال نروان نہیں چاہیے تھا۔ بو زیادہ ہوتی تو منہ کھل جاتا، گرد کاغبار حلق میں اترتا تو ناک پچک جاتی۔ صفائی سےفارغ ہوکر اس نے مختلف ڈبوں، پیکٹوں اور بوتلوں کو جھاڑن سے اچھی طرح جھاڑا اور پھر اپنے بوسیدہ گدے پر بیٹھ گیا۔
’’بھائی چار آنےکی میٹھی گولیاں۔‘‘ پہلا گاہک۔
’’مسٹر بلیڈوں کا ایک پیکٹ۔‘‘ شاید وہ پہلا گاہک ہی تھا جسے اس نے بلیڈوں کا پیکٹ دیا تھا کیونکہ اسے وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ نزدیکی مسجد سے اذان کی آواز آ رہی تھی۔ اس نے بازار کی جانب پیٹھ کر کے کھانے کی پوٹلی کھول لی۔
’’آئیون نے آسمان کی جانب دیکھا اور حیرت سے اس کا منہ کھل گیا۔ سورج دوپہر کے کھانے کی جگہ پہنچ چکا تھا۔۔۔ جب تم کام میں جٹے ہوئے ہو تو وقت کس طرح پرواز کرتا ہے؟ تم کوئی لفظ کہنے کے لیے لب کھولو تو اس سے بھی پہلے دن گزر جاتا ہے۔ صرف دن۔۔۔ لیکن سال وہ کبھی نہیں گزرتے۔ ان کا ایک لمحہ بھی نہیں گزرتا۔‘‘
لیبرانسپکٹر اس کی پیش کردہ بوتل اندر کھینچ کر بولا، ’’تم ہفتہ وار تعطیل کس روز کرتے ہو؟‘‘
’’تعطیل؟ جناب اگر کوئی فوتیدگی وغیرہ ہو جائے تب کر لیتا ہوں ورنہ تو نوبت ہی نہیں آتی۔‘‘
’’لیبر قانون نمبر فلاں کے تحت ایک چالان۔۔۔ ملازموں کو ہفتے میں ایک چھٹی دینا لازمی ہے۔‘‘
’’مگر جناب میرا تو کوئی ملازم نہیں۔۔۔ میں خود۔۔۔‘‘
’’چھت سے لگا ہوا یہ پنکھا جھول رہا ہے۔ کسی وقت بھی گر کر دکان میں کام کرنے والو ں کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ دوسرا چالان۔‘‘
’’لیکن جناب میں تو خود۔۔۔‘‘
’’کیا تم سمجھتے ہو کہ حکومت تمہاری بہبود کی ذمہ دار نہیں ہے۔‘‘ انسپکٹر حقارت سے بولا، ’’قوانین تمہاری بہتری کے لیے ہی نافذ کیے جاتے ہیں۔۔۔ اور انہی قوانین کے تحت اس دکان کا فرنیچر یعنی یہ کرسی جس پر میں بیٹھا ہوا ہوں بے حد بوسیدہ ہے، لرز رہی ہے۔۔ تیسرا چالان۔‘‘
اس کا بایاں بازو ایک بھک منگے کی طرح انسپکٹر کی جانب اٹھا ہوا تھا اور بایاں گلے میں پڑے دس کے نوٹ پر رکھا کانپ رہا تھا۔ بس تھوڑی سی ہمت، ذرا سی جرأت، یہ نوٹ ہتھیلی میں سمیٹ کر انسپکٹر کی طرف بڑھا دو۔ وہ رجسٹر بند کر کے چلا جائے گا۔ غلطی اسی کی تھی۔ نیا انسپکٹر آیا تو بازار میں ایک دکاندار نے اس کے نائب کی حیثیت اختیار کر لی اور بقیہ دکانداروں کو کہہ دیا کہ بیس روپے مہینہ ادا کرتے رہو، صاحب شریف آدمی ہے تنگ نہیں کرےگا۔ مگر اس نے انکار کر دیا تھا۔ مجھ پر قوانین کا اطلاق کیونکر ہو سکتا ہے، میں اکیلا اس دکان کو چلاتا ہوں۔ بھلا میں خود۔۔۔ بہرحال اب اس کے سامنے بیٹھا انسپکٹر صفحے کے صفحے سیاہ کیے جا رہا تھا۔ اس کی ہتھیلی بدستور نوٹ پر جمی ہوئی تھی۔۔۔ بس تھوڑی سی جرأت کا مظاہرہ۔۔۔ مگر یہ جرأت آئے کہاں سے؟ گلے سے لے کر دوفٹ پرے انسپکٹر کے ہاتھ تک ایک ایسی خلیج حائل تھی جسے وہ کبھی عبور نہ کر سکا۔۔۔ بھلا لوگ اتنی آسانی سے نارمل رہ کر مسکراتے ہوئے یہ فعل کیسے سرانجام دے لیتے ہیں۔۔۔
اس لمحے جب ایک طرف نوٹ ہوتا ہے اور دوسری جانب ہاتھ۔۔۔ کس طرح اس نوٹ کو وہ خلیج عبور کرائی جاتی ہے۔ دل کی دھڑکن بند نہیں ہوجاتی؟ بند ہتھیلی پھول کر غبارہ تو نہیں بن جاتی؟ سرپر سینگ تو نہیں اگ آتے؟ دانت ہونٹوں کو چھید کر چمکنے تو نہیں لگتے؟ آخر کیا ہوتا ہے۔ اسے معلوم نہ تھا۔ وہ ڈرپوک اور نکما تھا۔ کئی لوگوں کی ہتھیلیاں مقناطیس ہوتی ہیں، ادھر ہاتھ بڑھایا، ادھر نوٹ چمٹ گیا اور دوسری ہتھیلی کے روبرو آتے ہی نوٹ ہوا میں تیر کر اس ہاتھ سے جا لگا۔ مگر اس کا ہاتھ۔۔۔ نوٹ پر پڑا پڑا ٹھنڈا ہوتا گیا اور انسپکٹر چالان لکھتا رہا۔
’’پیسہ تو بہت آسانی سے بنایا جا سکتا ہے اور بہت تیزی سے اور یوں کتنے ستم کی بات ہے کہ تم اپنے ساتھیوں سے، اپنے دوستوں سے اس معاملے میں بہت پیچھے رہ جاؤ۔۔۔ بس اس کے لیے انسان کو لوگوں کے ساتھ گھل مل کر، دوستی سے رہنا پڑتا ہے۔ جاننا پڑتا ہے کہ ایک آدھ ہتھیلی پر مکھن کیسے لگایا جائے۔ اگرچہ آئیون نے اس زمین کو چالیس برس تک روندا تھا، اگرچہ اس کے آدھے دانت گر چکے تھےاور سر بالکل گنجا ہو چلا تھا مگر اس نے آج تک رشوت نہ لی تھی، نہ دی تھی اور نہ ہی ایسا کرنا وہ سیکھ سکا تھا۔ اس قیدخانے میں بھی نہیں۔‘‘
’’بھائی صاحب کیا وقت ہوا ہے؟‘‘ ہانپتے ہوئے پوچھا۔ بھائی صاحب نے کیا تمہارے پاس گھڑی نہیں ہے، نظروں سے اسے دیکھا اور ’’دس منٹ۔ آٹھ بجنے میں۔‘‘
’’آٹھ بجے کی بس چاہیے۔ آٹھ بجے کی بس درکار ہے۔ دے دے بابا آٹھ بجے کی بس۔‘‘
’’کسی قیدی نے آج تک کوئی کلاک یا گھڑی نہیں دیکھی تھی۔ آخر اسے ان کی کیا ضرورت ہو سکتی تھی۔ اسے تو صرف یہ جاننے کی ضرورت تھی کہ کیا چھٹی کا الارم آج جلد بج جائے گا؟ کھانے میں کتنی دیر ہے؟ اور پھر سونے کے لیے کب حکم ملےگا؟‘‘
’’بھائی صاحب کیا وقت ہوا ہے؟‘‘ مزید ہانپتے ہوئے پوچھا۔ ان بھائی صاحب نے بھی اسے، کیا تمہارے پاس گھڑی نہیں ہے، نظروں سے دیکھا اور’’پانچ منٹ آٹھ بجنے میں۔‘‘
آٹھ بجے کی بس چاہیے۔ آٹھ بجے ایک۔ آٹھ بجے دو۔ دے بابا آٹھ بجے کی بس۔ ورنہ دوسری بس نو بجے آئے گی اور نو بجے والی بس دس بجے گھر پہنچائےگی اور دس بجے۔۔۔ کھیل ختم، وہ سو چکی ہوگی۔ خوابیدہ بلا کو کون جگائے! خود ہی کھانا گرم کرنا پڑےگا اور بعد میں برتن بھی صاف کرنے ہوں گے۔ ہاں اس کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے۔ وہ ان آنکھوں سے فرار حاصل کر کے چپاتی سے کٹورے کو اس طرح صاف کر دیتا ہے کہ دھندلی چکنائی کی ایک تہ کے علاوہ کٹورا لشکارے مارنے لگتا ہے۔ ایک کٹورا سالن اور تین چپاتیاں۔ پیٹ تو نہیں بھرتا ان سے، جب تک کہ کٹورے کو چاٹا نہ جائے اور ظاہر ہے یہ فعل اس کے سامنے تو نہیں سرانجام دیا جا سکتا۔۔۔ آٹھ بجےکی بس۔۔۔ آٹھ بجے۔۔۔ اس کے پاؤں جو پہلے ہی تیزی سےحرکت میں تھے، اب باقاعدہ دوڑنے لگے۔ سارا دن دکان پر بیٹھک کرنے کے بعد اب اس کی کمر میں شدید درد ہو رہا تھا۔ گندی نالی میں بہتے ہوئے پانی پر سے وہ اس تیزی سے گزرا جیسے تیر جانا چاہتا ہو۔۔۔ ورنہ پھٹے ہوئے تلوے کے اندر پانی گھس کر گدگدی کرےگا۔ مگر آٹھ بجے کی بس۔۔۔ شاباش بھاگو۔۔۔ تم اسے پکڑ لوگے۔
’’دنیا میں ایسے لوفر بھی موجود ہیں جو اپنی مرضی سے کسی سٹیڈیم میں دوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان شیطانوں، کمبختوں کو چاہیے کہ وہ سارا دن مشقت کرنے کے بعد دوڑ کے دیکھیں۔ دکھتی ہوئی کمر کےساتھ، بھیگی جرابوں اور پھٹے ہوئے بوٹوں کے ساتھ اور۔۔۔ شدید سردی میں۔‘‘
بس کے دروازے بند تھے۔ ڈرائیور اور کنڈکٹر اگلی نشستوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے جیسے دوسری جانب ایک پراسرار طلسم زدہ وادی ہو جس میں داخل ہو کر وہ اپنے تمام تر دکھوں سے نجات حاصل کر لیں گے۔ یہ بس انہیں گھر کی بجائے کہیں اور لے جائےگی۔ باقی مسافر بند دروازے پر ہتھیلیاں جمائے ہانپ رہے تھے تاکہ اس کے کھلتے ہی، اس سم سم کے وا ہوتے ہی وہ چھلانگیں لگا سکیں۔۔۔ ان کی حیات کا ایک ہی مسئلہ تھا۔ اس دروازے میں سےاندر داخل ہونا۔۔۔ وہ بھی سر نیوڑھا کر اس ہجوم میں گھس گیا، نیچے ہی نیچے، ہاتھ پھیلائے، تا آنکہ اس نے بس کی باڈی کا لمس محسوس کیا اور پھر ساکت ہو گیا۔
’’محافظوں نے دروازے نہ کھولے۔ ان کو اپنے آپ پر اعتبار نہ تھا۔ انہوں نے قیدیوں کو دروازوں کے پیچھے دھکیل دیا مگر قیدی سب کے سب دروازوں کے ساتھ ہونقوں کی طرح چمٹے رہے کہ شاید اس طور جلد باہر نکلا جا سکے۔ چھٹکارا ہو جائے۔‘‘
اس نے دونوں ہاتھ اور ٹانگیں اٹھاکر رضائی کو اپنے اوپر تان لیا، جیسے کوئی جادوئی قالین فضا میں معلق ہو۔ ’’ہلکی ہو گئی ہے۔‘‘ اس نے ایک جھٹکے سے بازو اور ٹانگیں سمیٹ لیں اور رضائی دھپ سے اس پر آگری۔ ’’کم از کم دو سیر مزید روئی اس میں کھپائی جائے تب سردیاں گزریں گی۔‘‘ اس نے پاؤں کا انگوٹھا چلا کر صبح والے سوراخ کو تلاش کیا مگر ناکام رہا۔
کمرے کی تمام کھڑیاں اور دروازے بند تھے۔ چھ جسموں سے خارج ہونے والی حدت بے حد آسودگی دینے والی تھی۔ وہ اندھیرے میں پڑا چھت کو گھورتا رہا۔ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ بغیر کسی تغیر و تبدل کے ایک ہی ڈگر پر، کنوئیں کے بیل کی طرح۔۔۔ پہلے پہل تو یہ احساس اتنا شدید تھا کہ وہ پوری پوری رات وحشت میں آنکھیں جھپکاتا گزار دیتا۔ مگر اب تو خواہش بلکہ خواہشوں کی فصل کا نام و نشان نہ تھا۔ حیاتی کا کھیت تیز اور نوکیلی دب سے بھرا پڑا تھا۔ کہتے ہیں ایک ہی شخص کو باقاعدگی سے دیکھتے رہو تو اس کے چہرے۔۔۔
’’آئیون چھت کو خاموشی سے گھور رہا تھا۔ اب تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ آزادی کا خواہاں ہے بھی یا نہیں۔ پہلے پہل تو یہ خواہش بےحد شدید تھی۔ ہر شب وہ بستر پر لیٹ کر اپنی قید کے دن گنتا کتنے گزر گئے؟ کتنے باقی ہیں اور پھر وہ گنتی سے اکتا گیا۔۔۔ ایک شب اس پر یک دم منکشف ہوا کہ اس جیسے انسان کو تو کبھی بھی گھر نہیں جانے دیا جاتا۔ وہ ہمیشہ جلاوطن ہی رہتا ہے اور پھر کیا اس کی زندگی اس گھر میں اس قید خانے سے کسی طور بہتر بھی ہوگی یا نہیں۔۔۔ کون کہہ سکتا ہے؟ اس کی قید میں تین ہزار چھ سو ترپن روز باقی تھے۔ پہلا الارم بجنے سے آخری الارم بجنے تک۔ قید میں تین روز کا اضافہ لیپ سالوں کی وجہ آئیون مطمئن ہو کر سو گیا۔ اس روز وہ بےحد خوش قسمت رہا تھا۔ انہوں نے اسے کوٹھری میں نہیں ڈالا تھا۔ اسے کھانے کے لیے ایک کے بجائے دو پیالے ملے تھے۔ اس نے ایک دیوار کی تعمیر کی تھی اور پوری طرح لطف اندوز ہوا تھا۔ اس نے کیمپ میں لوہے کا ایک ٹکڑا سمگل کر لیا تھا۔ اس نے قیدیوں کے چھوٹے موٹے کام کر کے کچھ پیسے بنا لیے تھے۔ اس نے تھوڑا سا تمباکو خریدا تھا اور وہ بیمار نہیں ہوا تھا۔ اس کا دن مکمل ہو گیا تھا۔‘‘
وہ کیا کہاوت ہے کہ ایک شخص کے پاس جوتے نہیں تھے اور پھر اس نے ایک اپاہج شخص کو دیکھا اور پھر پتہ نہیں کیا ہوا۔۔۔ شکر کرو رب کا، قانع رہو، اپنے حالات سے سمجھوتہ کرلو، کہاوتوں والے بزرگ یہی کہتے ہیں۔ میں اب بھی بہت سوں سے بہتر ہوں۔۔۔ کتنوں سے۔۔۔؟ مجھے کیا پتہ۔ بس بہتر ہوں۔۔۔ سو جاؤ۔۔۔ وہ مطمئن ہو کر سو گیا۔ اس روز وہ بےحد خوش قسمت رہا۔ بیوی کے ساتھ کوئی خوفناک قسم کا جھگڑا نہیں ہوا تھا۔ اس دکاندار نے بعد میں اپنے طور پر انسپکٹر کو بیس روپے دے کر اس کے تمام چالان کٹوا دیے تھے۔ کھانے کے بعد اسے ایک پیالہ چائے بھی ملی تھی۔ وہ نو بجے کی بجائے آٹھ بجے والی بس پر سوار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ تم اس کی کن کن نعمتوں کا شکر ادا کرو گے! اس کا دن مکمل ہوگیا تھا۔ وہ مطمئن ہو کر سو گیا۔
حاشیہ
(۱) تمام حوالے الگزنڈر سولزنتسن کے ناول ’’آئیون ڈینسوچ کی زندگی میں ایک دن‘‘ سے لیے گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.