Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غلام

MORE BYجی اے کلکرنی

    اُن تنگ وتاریک گلیوں سے گزرتے ہوئے مسافرکو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی مردہ جانور کی سڑی گلی آنت میں سے آگے کو سرکتا جا رہا ہے۔ چلتے چلتے اس کے پاؤں شل ہو گئے تھے۔ اس نے ایک ایک راستہ ایک ایک گلی چھان ڈالی تھی، جیسے کوئی الجھے ہوئے دھاگوں کو ایک ایک کرکے الگ کرتاہے لیکن اس قدر گھومنے بھٹکنے کے باوجود اسے ایمرا کا ٹھکانہ نہیں ملا تھا۔ اگر وہ کسی سے کچھ پوچھنا چاہتا تو ٹخنوں تک ڈھیلا ڈھالا لباس پہنے کالے کلوٹے لوگ نہایت انکساری کے ساتھ ادب سے کمر تک جھک جاتے لیکن جوں ہی وہ ایمرا کا نام لیتا وہ چراغ پا ہو جاتے اور نفرت سے زمین پر تھوک کر ایک طرف کو اشارہ کر دیتے۔

    ایک ایک کرکے ساری گلیاں ختم ہو گئیں اور اب مسافر محلے کے آخری سرے تک آ گیا تھا۔ آگے پستہ قدخاردار جھاڑیوں کے علاوہ حد نظر تک تپتا ہوا ریگستان اور بالکل آخر میں جھلستے افق کے سوا کچھ نہیں تھا۔ محلے میں بھٹکتے وقت دراڑوں کی مانند نظر آنے والی تنگ گلیوں میں اب اندھیرا پھیلنے لگا تھا اور کسی مردے کی اکڑی ہوئی انگلیوں کی طرح گنجلک دکھائی دینے والے مکانوں میں بمشکل روشنی پہنچ پا رہی تھی۔ البتہ ان گلیوں سے آگے اندھیرے کے لئے بالشت بھر جگہ کی بھی گنجائش نہیں تھی۔ جہاں سورج کی تیز روشنی کے علاوہ چمکتی دہکتی ریت کے ذروں کا لامتناہی سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ اچانک کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

    مسافر چونک کر تیزی سے پلٹا۔ اسے یوں چونکتے ہوئے دیکھ کر کوئی ہذیانی ہنسی دیکھا وہاں فصیل کے آخری سرے پر ایک مکان نظر آ رہا تھا۔ جہاں بغیر کواڑوں کے دروازے کے پا س ایک مضبوط ہاتھ پیروں والا شخص کمر پر دونوں ہاتھ رکھے کھڑا اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی پشت پر مکان میں اندھیرا تھا لیکن باہر اس قدر تپتی دھوپ کے باوجود اندر جلتا ہوا ایک دھند لا فانوس اسے یہاں سے بھی نظر آ رہا تھا۔

    مسافر کو امید کی کرن نظر آئی۔ وہ اس مکان کی طرف بڑھا۔ اس کے پیچھے وہ کبڑا بھی اچھلتا کودتا آ رہا تھا۔ وہ رہ رہ کر لجلجے انداز میں اس طرح ہنسنے لگتا جیسے اس کی ہلچل سے اس کی ڈھیلی ڈھالی ہڈیاں کھنکنے لگی ہوں۔ مسافر جوں ہی ا س مکان کے قریب پہنچا دروازے کے پاس کھڑے شخص نے سپاٹ لہجے میں اس سے دریافت کیا۔

    ’’تم ایمرا سے ملنا چاہتے ہو؟‘‘

    مسافر نے قدرے حیرت سے اثبات میں گردن ہلائی اور بولا، ’’تم کیسے جانتے ہو؟‘‘

    اس کے سوا ل کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ شخص ہاتھ کے اشارے سے اسے اندر آنے کی دعوت دیتا ہوا بولا، ’’اندر آؤ۔ میراہی نام ایمرا ہے۔‘‘

    مسافر لمحے بھر کو ٹھٹکا کہ اندر جائے نہ جائے۔ ایمرا کا چہرہ ایسا لگتا تھا جیسے کالے سفید چمڑے کے ٹکڑوں کو جوڑ کر بنایا گیا ہے۔ اسی ایمرا کے لئے وہ سیکروں میل کا فاصلہ طے کرکے آیا تھا۔ اس کی جھجک غائب ہو گئی اور وہ جلدی سے اندر داخل ہو گیا۔ اندر غالیچے پر بیٹھ جانے کے بعد مسافر کو اپنے ارد گرد کا منظر زیادہ صاف طور پر دکھائی دینے لگا۔

    اندر اندھیرا تو تھا مگر وہاں لٹکے ہوئے جالی دار فانوسوں کی روشنی کے سبب اتنا دبیز نہیں تھا جتنا باہر سے معلوم ہو رہا تھا۔ البتہ کمرے کا دوسرا حصہ بالکل کسی گپھا کی مانند دکھائی دے رہا تھا۔ وہاں دو آدمی بے حس وحرکت بیٹھے ہوئے تھے جو اس اندھیرے کا ہی حصہ معلوم ہو رہے تھے۔ ان کے تہ کئے ہوئے زانوں پر چوڑے پھل کا ایک ایک تیغہ رکھا ہوا تھا۔ رے ہ رہ کر فانوسوں کی روشنی ان تیغوں کی دھار پر ایک روشن لکیر کی مانند سرکتی جاتی تھی۔ ایمرا اندر آیا اور دیوار کے ساتھ بنے ایک لمبے چبوترے پر بیٹھ گیا۔ کبڑا بھی کیکڑے کی مانند اوپر چڑھا اور بالکل فانوس کے قریب جاکر بیٹھ گیا۔ وہاں سفید کپڑے کی کچھ کترنیں پڑی تھیں۔ کبڑے نے ان میں سے ایک کترن اٹھائی اور رنگین کھریے سے جلدی جلدی اس پر کچھ لکھنے لگا۔

    ’’تم کہاں سے آئے ہو؟ ایمرا سے تمہیں کیا کام ہے؟‘‘ ایمرا نے پوچھا۔ نظر اٹھاکر دیکھے بغیر کبڑا کھر کھراتی آواز میں ہنسا اور بولا، ’’المکتوب مکتوب جو لکھا جا چکا ہے وہ لکھا جا چکا۔‘‘

    المکتوب مکتوب مسافر نے اپنے سفر کے دوران سیکڑوں بار یہ الفاظ سنے تھے۔ بستی اور محلوں میں ہر جگہ یہی ایک جملہ گشت کرتا اور کسی رٹے ہوئے سبق کی طرح دہرایا جاتا۔ المکتوب مکتوب جو لکھا جا چکا ہے وہ لکھا جا چکا۔ بن غازی کا اونٹ بازار ہو یا الحق کا وسیع میدان جہاں صدیوں سے ہاتھی دانت اور کھجور لے جانے والے کارواں باہم ملتے آئے تھے یا پھر کورفیور، جہاں حبشی غلاموں کا بازار لگا کرتا تھا۔ ہر جگہ کوئی نہ کوئی منھ لٹکا کر، ہاتھ جھٹکتا یا دیدے گھماتا اور پھر یہ الفاظ سنائی دیتے، المکتوب مکتوبعین کارواں کے کوچ کے وقت اگر کوئی اونٹنی بچہ جنے، یا اچھی خاصی نقد رقم دے کر خریدا ہوا پہاڑ جیسا غلام اچانک چکراکر گرے اور کسی مچھر کی مانند دم توڑدے، یا پانچ فٹ لمبا نایاب ہاتھی دانت اونٹنی کے بھڑکنے کی وجہ سے گر کر ٹوٹ جائے، یا عین ریگستان میں اچانک وحشی بدو حملہ کر دیں، ایسے مواقع پر ان ناگہانی آفات سے گھبرایا ہوا شخص یہی ایک جملہ دہراکر سب کچھ چپ چاپ برداشت کر لیتا۔

    المکتوب مکتوب۔۔۔

    ’’اس کی جانب دھیان مت دو، اس کے الفاظ ریت پر اڑتے خالی ہوا کے جھونکوں کی مانند ہیں۔‘‘ ایمرا نے مسافر سے کہا۔ ویسے بھی مسافر کا کبڑے کی طرف دھیان نہیں تھا۔ مکان کے اندر اندھیرا تھا گر می اور ٹھنڈک کے سبب یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی قوی الجثہ جانور کے کھلے جبڑے میں داخل ہو گئے ہیں۔ اس نے آرام سے پیر پھیلائے اور بولا،

    ’’میں سیکڑوں میل کی مسافت طے کرکے یہاں تک پہنچا ہوں۔ میرا وطن یہاں سے ہزاروں کوس دور ہے۔ اس کی تہذیب بہت پرانی ہے۔ جب لوگ پتھروں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے تھے تب ہم نے ان سے سبک مورتیاں بنائیں اور ان پر حرف کندہ کئے۔ جب دوسرے انسان صرف شکار کو گھیرنے کے لئے اپنی آواز سے چیخنے اور چلانے کا کام لیتے تھے ہمارے نغمہ نگاروں نے گرجتے سمندروں کے گیت گائے اور حسن کی تعریف میں نظمیں کہیں۔ وہاں کے آسمان کا رنگ پگھلے ہوئے نیلم کی مانند ہے اور یہاں کے کسی گھر میں جب سورج کی کرنیں داخل ہوتی ہیں تو وہ دھول مٹی کے ذروں سے پاک ہوتی ہیں۔‘‘

    میرے دیش میں سنگ مرمر کے ستونوں والے بے شمار مندر ہیں۔ وہاں کی جھیلوں میں راج ہنس تیرتے ہیں اور وہاں کی عورتیں اس قدر نازک ہوتی ہیں کہ جب وہ مدھر سنگیت پر رقص کرتی ہیں تو ان کے تلوؤں کے نیچے کمل کے پھولوں کی ایک ایک پنکھڑی سلامت رہتی ہے۔ لیکن میں نے خوب سیاحت کی ہے۔ برفانی سمندر میں وھیل مچھلی کا جسم چیرا ہے۔ کتا گاڑی میں بیٹھ کر پرندوں کا شکار کرنے والے بونوں کے دیش میں اجگر کے ٹکڑے کھاکر اپنی بھوک مٹائی ہے۔ میرے قدم ایک جگہ ٹکتے ہی نہیں۔‘‘

    ’’لیکن، اس سے تمہیں کیا ملا؟‘‘ ایمرا پوچھ رہا تھا، ’’اپنے پرستان جیسے وطن کو چھوڑ کر اس ویران ریگستان میں کیوں آئے ہو؟‘‘

    مسافر نے اپنے کندھے اچکاتے ہوئے کہا، ’’یوں سمجھو، جیسے کوئی بچہ جنم سے اپنے ہاتھ پاؤں کی چھ انگلیوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ میں بھی کچھ ویسا ہی ہوں۔ ہر دم آگے اور آگے جانے کی خواہش مجھے ہمیشہ اکساتی رہتی ہے۔ کوئی غیب سے مجھے اشارہ کرتا رہتا ہے کہ آگے بڑھ، بڑھتا جامیرے پیروں تلے کبھی کائی نہیں جمتی۔ ایسی صورت میں پانے اور کھونے کا حساب رکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بس تلوار کی دھار پر چلتے ہوئے اس پر اتر جانے کی تڑپ اصل چیز ہوتی ہے۔ اس انمول خوشی کو پانے کے لئے بے شمار صعوبتیں جھیلنی پڑتی ہیں۔ بعض اوقات جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے مگر اس میں نئی بات کچھ نہیں۔ یہ سب ہوتا رہتا ہے۔ تلوار کی دھار کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ انسان کا انت ہے مگر سیاحت کی اس مجنونانہ چاہت کا کوئی انت نہیں۔ ہو سکتا ہے یہ میرا دیوانہ پن ہو۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ تم دیوانے نہیں بہت سوں سے سیانے ہو۔ ‘‘ ایمرا گردن ہلاتا ہوا بولا، ’’میں تو سانپ کے سامنے دانستہ انگلی نچانے والے مداری کو بھی سیانا ہی سمجھتا ہوں۔ مگر میرا معاملہ ذرا دوسرا ہے۔ اپنی کوٹھری کی کھڑکی سے صبح شام گذرتے کاروانوں کو دیکھتے رہنا ہی میرا مشغلہ ہے۔ اس محلے کو چھوڑ کر میں زندگی میں کبھی باہر نہیں گیا اور پرایا آسمان میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ لیکن ایک کارواں کی طرح مسلسل سفر میں رہنے والے کئی سیاحوں سے میں مل چکا ہوں۔ لیکن خاص ایمرا سے ہی تمہیں کیا کام ہے؟ اس کا ہنوز تم نے جواب نہیں دیا؟‘‘

    ’’مجھے جس قسم کا غلام درکار ہے اسے ایمرا ہی مہیا کر سکتا ہے۔ ‘‘ مسافر بولا۔

    ’’العیدن کے سفر کے لئے کوئی غلام بیچنے کو تیار نہیں ہوتا۔ کیوں کہ وہاں جانے کا مطلب ریگستان میں اپنی ہڈیا ں دفنانے جیسا ہی ہے۔ اس کے علاوہ سب جانتے ہیں کہ العیدن میں جو بھی غلام داخل ہوتا ہے اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ وہاں کی پرانی ریت ہے۔ اسی لئے تو اس بستی سے آگے کے سفر کے لئے مجھے کوئی کارواں بھی نہیں ملا۔‘‘

    ’’مگر تم العیدن کیوں جانا چاہتے ہو؟‘‘

    مسافر لمحے بھر کو گومگو کی کیفیت میں مبتلا رہا لیکن چہرے کے تاثر سے کچھ ظاہر کئے بغیر اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا، ’’مجھے العیدن کے سدی کے پاس جانا ہے۔ اس کے علاقے سے اعمان نام کی ندی نکلتی ہے۔ مجھے اس ندی کے منبع کی تلاش ہے۔‘‘ مسافر یہ بات کہہ رہا تھا مگر اس کے تصور میں وہاں پائے جانے والے شتر مرغ کے انڈوں کی جسامت والے ہیرے چمک رہے تھے۔ ایمرا ہنس دیا۔ اس کے سفید دانت اس کے سیاہ چہرے پر روشنی کی ایک لکیر کی طرح چمکے۔ وہ کہہ رہا تھا، ’’تمہارے دیش کے بیشتر لوگ اس منبع کو کھوجنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ہے نا؟‘‘

    مسافر تھوڑی دیر تک چپ رہا سامنے تیغ لئے دو زانو بیٹھے ہوئے دوونوں افراد دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ اسے حیرت ہوئی کہ ان کے جانے کا اسے احساس تک نہیں ہو سکا۔ کبڑا ہنسا اس کی ہنسی ایسی تھی جیسے کوئی بوسیدہ کپڑا پھاڑ رہا ہو۔ پھر اس نے کپڑے کی ایک کترن ایمرا کو دکھائی۔ ایمرا خالی نظروں سے اس کپڑے کو چند لمحے دیکھتا رہا پھر اسے کبڑے کو واپس لوٹا دیا۔ کبڑا کسی مکڑے کی طرح چبوترے سے نیچے اترا اور وہ کپڑا مسافر کو دکھانے لگا۔

    مسافر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کپڑے پر ہو بہو اس کی تصویر بنی ہوئی تھی ایک آنکھ کا نیچے کو سرکار ہوا ڈھیلا گردن پر نیزے کے زخم کا نشان، یہاں تک کہ بائیں پنجے کی ٹوٹی ہوئی تین انگلیاں، تصویر میں سب کچھ واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن اب اسے حیرت کے ساتھ گھبراہٹ بھی ہونے لگی تھی۔ وہ کپڑے پر سے نظریں ہٹاکر خوامخواہ سامنے دیکھنے لگا۔ اسے محسوس ہوا وہاں کا اندھیرا خاصا نظر فریب ہے۔ کیونکہ اندھیرے میں بےحرکت بیٹھے ہوئے وہ دونوں افراد کہیں نہیں گئے تھے۔ وہ وہاں اسی طرح بت بنے بیٹھے تھے اور ان کے زانوں پر رکھی ہوئی تیغ کی دھار اسی طرح چمکیلی لکیر کی مانند نظر آ رہی تھی۔

    ’’لگاتار ریگستان کو دیکھنے والی آنکھیں پرچھائیوں کے کھیل کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہیں۔‘‘ اس نے بےچینی سے کہا۔ کبڑے نے وہ کپڑا اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیا اور اس کے چیتھڑے کر دئے۔ وہ دوبارہ فانوس کے نیچے جاکر بیٹھ گیا۔ اس نے کپڑے کا ایک اور بڑا ٹکڑا اٹھایا اور دوبارہ اس پر جھک گیا۔

    ’’تمہیں جیسا غلام درکار ہے۔ ویسا ایک غلام میرے پاس ہے۔ وہ سات برس پہلے میرے قبضے میں آیا تھا۔ غلام کہاں سے آتے ہیں؟ ہم کبھی اس کی تفتیش نہیں کرتے۔ ویسے اس سے پوچھنے کا کوئی مطلب بھی نہیں تھا۔ کیونکہ کسی نے اس کی زبان ہی کاٹ دی تھی۔ وہ بھوک پیاس کی پرواہ کئے بغیر چار دن کی مسافت طے کر سکتا ہے۔ اسے کسی غیبی طاقت سے آندھی کی آمدکا پہلے ہی اندازہ ہو جاتا ہے لیکن ایک بات دھیان میں رکھو موقع ملنے پر وہ اپنی ماں کا کلیجہ چیرنے میں بھی پس و پیش نہیں کرےگا۔‘‘

    مسافر کے چہرے پر اطمینان کی جھلک نمودار ہوئی۔ اس نے اشرفیوں کی تھیلی باہر نکالی۔ تبھی ایمرانے ہاتھ اٹھاکر اسے روکتے ہوئے کہا، ’’اس کی قیمت سکوں میں طے نہیں ہو سکتی۔ وہ کوئی مشکیزہ ڈھونڈنے والا بہشتی یار بوڑ ہانکنے والا گڈر یا نہیں۔ جب وہ آیا تھا تو اس کی ہتھیلیاں اونچے گھرانے کے کسی فرد کے جیسی ملائم تھیں۔ کھانا کھانے سے قبل اس نے اپنی انگلیاں پانی میں ڈبوئی تھیں۔ وہ رات کو اس طرح نہیں سوتا تھا جیسے کھجور کا بوریا دیوار پر ڈال دیا گیا ہو بلکہ دیوار سے پشت لگاکر بیٹھے بیٹھے یوں سویا تھا جیسے کوئی رئیس زادہ نیم دراز مسہری پر استراحت کرتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ تم اسے العیدن لے جانا چاہتے ہو۔ وہاں اسے قتل کر دیا جائےگا۔ لہٰذا اب وہ صرف غلام ہی نہیں بلکہ ایسا غلام ہے جس کی قربانی دی جانے والی ہے۔ ایسے غلام کی قیمت عام غلام سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے مجھے اس کے بدلے میں وہ سرخ ہیرا چاہئے جو تم نے اپنے کمر بند میں باندھ رکھا ہے۔‘‘

    مسافر ایسے چونکا جیسے کسی نے اس پر حملہ کر دیا ہو۔ اس نے بوکھلا کر پوچھا، ’’تمہیں کیسے علم ہوا کہ میرے پاس سرخ یرا ہے؟ میں اسے سدی کو سوغات کے طور پر دینا چاہتا ہوں۔‘‘

    ایمرا دوبارہ ہنسا، ’’تمہارے دونوں سفید اونٹوں پر جو سامان لداہے۔ اس کی ساری تفصیل مجھے معلوم ہے۔ العیدن میں ہیر ے کے تحفے کی کوئی اہمیت نہیں۔ وہاں کے گڈریے اونٹوں اور بھیڑوں کے ریوڑ لوٹنے کے لئے مٹھی کے برابر بڑے ہیرے پتھروں کی طرح پھینکتے ہیں اور تم وہاں کے سدی کو یہ انگور جتنا حقیر ہیرا تحفے میں دوگے؟ ارے اسے چاہئے ہاتھی دانت سچا ہاتھی دانت پانی میں گھس کر پینے سے حرم میں ہزار چاند مسکراتے ہیں۔ ‘‘ ایمرا نے ہنستے ہوئے ہاتھ بڑھا کر ایک طاق سے ہاتھی دانت کی ایک چھوٹی سی صندوقچی باہر نکالی اور مسافر کو دکھائی۔ صندوقچی مستطیل نما تھی اور اس کے چاروں طرف اونٹوں کے کاروانوں کی تصویریں کندہ تھیں۔ اوپر کے حصے میں ایک سانپ سورج کو نکل رہا تھا۔ سانپ کا جبڑا اس طرح پھیلا ہوا تھاکہ وہ آسانی سے سورج کو نکل سکتا تھا۔

    ’’یہ صرف کوئی مستطیل نما شئے ہے یا کوئی صندوقچی ہے۔‘‘ مسافر نے اسے اوپر نیچے دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’وہ چھوٹی صندوقچی ہی ہے۔ اسے کھولا بھی جا سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس میں کوئی قیمتی تحفہ بھی رکھ کر تمہیں دے سکتا ہوں۔ سدی کے لئے اپنی کسی خاص سوغات کے طور پر۔‘‘

    مسافر نے ہاتھ آگے بڑھایا مگر ایمرا نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور اس صندوقچی کو دوبارہ طاق پر رکھ دیا۔

    ’’یہ تمہیں اس وقت نہیں ملےگی۔ جب تمہارے اونٹ بستی کے باہر نکل جائیں گے اس وقت یہ تمہارے حوالے کی جائےگی۔ تحفہ جانے والے کو دیا جاتا ہے۔ تم تو ابھی ہمارے درمیان موجود ہو۔‘‘

    مسافر نے کمر بند سے ہیرا نکلا اور اسے جوں ہی ہتھیلی پر رکھا ایسا لگا جیسے کوئی سرخ آنکھ روشن ہو گئی ہو۔ ایمرا نے ہیرا لے لیا اور اپنے ڈھیلے ڈھالے جبے کے نیچے کہیں سرکا دیا۔ ’’تم العیدن جا رہے ہو۔ ایک ندی کا منبع تلاش کرنے کے لئے۔‘‘

    ایمرا تمسخرانہ ہنسی ہنستا ہوا بولا، ’’اس لئے تمہاری معلومات کے لئے کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ وہاں بھیڑوں کے سروں کے برابر بڑے ہیرے ادھر ادھر گڈھوں میں پڑے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک ٹکڑا بھی باہر لے جاتا ہوا پایا گیا تو اس کی آنکھیں پھوڑ دی جاتی ہیں۔ خیر تمہیں اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ تم تو ایک ندی کا منبع تلاش کرنے جا رہے ہو۔ ہے نا؟‘‘

    ’’دیکھا جائےگا۔ ‘‘ مسافر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ڈھٹائی سے بولا، ’’ہمارے ملک کا کوئی شخص آج تک العیدن نہیں گیا۔ اس لئے ہیروں سے قطع نظر اگر میں العیدن جاتا ہوں تو کیا یہ کم فخر کی بات ہے کہ جواب تک کسی نے نہیں دیکھا وہ میں دیکھ سکوں گا۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔ جب تم یہاں سے لوٹو اور یہی الفاظ میرے سامنے دہراؤ تو یہ حقیر ایمرا تمہارا قائل ہو جائےگا۔‘‘

    ایمرا نے جھک کر سلام کیا۔ ہاتھ لہرایا اور غلام کو لانے کے لئے اندر کی طرف مڑ گیا۔ اندرون خانہ ایک بھاری دروازے کے کھلنے کی آواز کے ساتھ لوہے کی بیڑیوں کے فرش پر رگڑنے کی جھنکار بھی سنائی دی۔ مسافر ایک بار پھر اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا کیونکہ تیغ بردار دونوں حبشی ایک بار پھر نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے لیکن یہ احساس بھی صرف لمحہ بھر قائم رہا کیونکہ دوسرے ہی لمحے وہ دونوں اسی جگہ اسی طرح بیٹھنے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ خاموش بے حس وحرکت۔۔۔ کسی کے حکم کے منتظر سے۔

    ایمرا غلام کو لئے باہر آیا۔ غلام کے بدن پر چابک کے نشان تھے جواب دھند لے پڑ گئے تھے اور اس کے سینے پر داغنے کا نشان تھا۔ جس کی شکل بلال کی سی تھی لیکن غلام کا چہرہ بے جان تھا۔ جیسے ابھی اس میں خون اور جان ڈالنا باقی ہو۔

    ’’ہاں ایک بات۔۔۔‘‘ ایمرا پوچھ رہا تھا، ’’تمیں غلام کو برتنے کاتجربہ تو ہے نا؟‘‘

    اس سوال کو سنتے ہی مسافر کو جیسے تن بدن میں چنگاریاں سی بھر گئیں۔ اس نے تیزی اپنی چھاتی کے بٹن کھول دئے اس کے سینے پر ایک موٹا چمکیلا نشان تھا۔ چاقو سے لمبا گہرا زخم لگانے کے بعد اس میں روزانہ خشک مٹی بھرتے رہیں تو موٹی رسی کی مانند ایسا ابھرا ہوا نشان بن جاتا ہے۔ اتنا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی اس ناقابل برداشت تکلیف کو یاد کرکے مسافر کانپ اٹھا۔ اس نے اپنے بایاں پنجہ ایمرا کو دکھایا جس کی تین انگلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔

    ’’غلام سے کیسا سلوک کیا جاتا ہے اس کا مجھے خوب تجربہ ہے۔ میں خود ایک خانہ بدوش جماعت کا غلام رہا ہوں۔‘‘ اس نے نہایت تلخی سے کہا، ’’اس کے علاوہ میرے ساتھ میرا ایک رفیق بھی ہے۔ ایک بار اس نے ایک بلبلاتے اونٹ کی گردن اپنی بغل میں دباکر اسے زمین بوس کر دیا تھا۔ لہٰذا اس بابت تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘

    اتنے میں کبڑا درمیان میں پھر کھلکھلاکر ہنسا اور اپنے باقی ماندہ دوچار دانتوں کی نمائش کرتا ہوا بولا’’بعض اوقات انسان اپنے مستقبل کو حال میں بدلتے دیکھ سکتا ہے لیکن حال کو ماضی میں بدلتے ہوئے دیکھنے کے لئے وہ زندہ نہیں رہتا۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ ایک بار پھر وہی مکروہ ہنسی ہنسا اور دوبارہ لکیریں کھینچنے میں مشغول ہو گیا۔

    ’’اس طرف دھیان مت دو۔‘‘ ایمرا گردن سے اشارہ کرتا ہوا بولا، ’’ جس رات وہ پیدا ہوا تھا آسمان سے چاند ندارد تھا اور یہ کہ پیداہوتے ہی اس پر اوٹ کا پیر پڑ گیا تھا۔ خیر! میں یہ کہہ رہا تھا اس غلام کو ہمیشہ ’ترانی‘ طریقے سے باندھ کر رکھنا تاکہ وہ چل پھر تو سکے گا کھاپی بھی سکتا ہے مگر بھاگ نہیں سکتا اور رسی کے سرے پر ایک چھوٹی سی گھنٹی ضرور باندھنا تاکہ اس کی حرکات و سکنات کا تمہیں علم ہوتا رہے۔‘‘

    مسافر جوں ہی جانے کے لئے اٹھا۔ غلام بھی کسی خودکار کھلونے کی طرح اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ مسافر کو ایک بات کا بڑا اطمینان تھا کہ اس کی کمر میں جو مورکی گردن جیسا اودے رنگ کا ہیرا ہے اس سے ایمرا لا علم ہے۔ وہ دوبارہ آنتوں کے گچھوں کے اندر سے سرکتا ہوا اپنے ڈیرے پر آ گیا۔ اس کا ساتھی بے تابی سے اس کی راہ دیکھ رہا تھا۔ ابھی سورج غروب ہونے میں تھوڑا وقت باقی تھا لیکن تمازت کم ہونے لگی تھی۔ اگر فوراً کوچ کریں تو چار پانچ گھنٹے کی مسافت آسانی سے طے کی جا سکتی تھی۔

    اس کے ساتھی نے اونٹوں کو تیار کیا اور بچا کھچا سامان غلام کے سرپر لاد کروہ لوگ نکل پڑے۔ تبھی اسے کبڑا آتا دکھائی دیا۔ اس کی داڑھی پنکھے کی طرح ہل رہی تھی اور اس کا کوبڑ پکھال کی مانند نیچے اوپر ہو رہا تھا۔ اس نے ہاتھی دانت کی صندوقچی مسافر کو پیش کی۔ اسے جھک کر آداب کرتے ہوئے وہ نصف کے قریب بالو میں دھنس گیا لیکن اس وقت بھی اس کی سماعت کوچھیلتی ہنسی برابر سنائی دے رہی تھی۔ جیسے خشک بیج ہوا کہ جھونکوں سے ہل رہے ہوں۔

    آخر اس تپتی، بےرحم، سنسناتی ریت میں ان کا سفر شروع ہوا۔ غلام کی گھنٹی کی کھن کھن ایک خاص لے میں سنائی دے رہی تھی۔ جیسے زندگی کا ایک ایک پل پگھل پگھل کر ٹپک رہا ہو۔ اونٹوں کے قدم ریگستان ناپ رہے تھے۔ سورج طلوع ہوا، پھر غروب ہوا۔ ریگستان کی صاف شفاف گنبدنما راتیں چاندنی میں کھلیں اور مٹ گئیں لیکن ان کے ارد گرد شدید پیاس کا دائرہ تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ چھاگلوں کاپانی کم ہوتے ہی پیاس کی شدت میں اضافہ ہو گیا اور ایسا لگنے لگا لو کی گرمی لہو میں آگ بھر رہی ہے۔

    مسافر کے ساتھی کی چال میں اب ایک ڈھیلا پن آ گیا تھااور وہ چلتے ہوئے لڑکھڑانے لگا تھا۔ اس کے ننگے ہاتھوں کی جلد کسی خشک درخت کی چھال کی مانند کھردری ہو گئی تھی اور آنکھیں اس طرح پھیل گئی تھیں جیسے انہیں چاروں طرف سے کھینچا گیا ہو۔ اس کی زبان سیسے کی مانند سخت ہو گئی تھی اور وہ کیا کہہ رہا ہے یہ سمجھنے کے لئے مسافر کو اس کے قریب جاکر کان لگاتا پڑتا تھا۔ آس پاس کا علاقہ ایک دم سپاٹ تھا اور دور تک دائرے میں اس طرح پھیلا تھا کہ لگتا تھا اس کے آگے زمین کی حد ختم ہو جائےگی اور وہ لوگ وہاں پہنچنے کے بعد سیدھے نیچے گر جائیں گے۔

    وہ تو ایسے علاقے میں بھی سفر کر چکا تھا جس کی شور آمیز مٹی اگر جسم کی معمولی خراش کو بھی چھو جائے تو کلیجے کو چیر دینے والی اذیت کا احساس ہوتا تھا۔ وہاں کبھی کبھار آسمان میں کوئی گدھ سیاہ دھبے کی مانند خوفناک پنکھوں کے ساتھ اڑتا ہوا آکر تیزی سے غوطہ لگاتا تو اس کی سرسراہٹ صاف سنائی دیتی۔ بلکہ اس کی خونخوار، زرد، نکیلی، چونچ بھی دکھائی دے جاتی لیکن یہ کیسا علاقہ تھا کہ جہاں کوئی چوپایہ یا پرندہ تو درکنار ایک پتنگا تک دکھائی نہیں دیتا۔ مسافر نے سوچا اس دنیا میں ایسا منحوس علاقہ دوسرا نہیں ہو سکتا کہ جہاں گدھ تک آنے سے کتراتے ہوں۔

    اتنے میں اس کا رفیق اپنا توازن قائم رکھنے کی کوشش میں ڈولتا ہوا ایک طرف اشارہ کرکے چلایا، ’’وہ دیکھو، نارنگیوں والا ٹیلہ۔ وہاں ایک بہت بڑا تالاب بھی ہے۔‘‘

    مسافر پر تشویش نگاہوں سے کچھ دیر تک اس کی طرف دیکھتا رہا کیونکہ نارنگیوں والا ٹیلہ تو ہزاروں میل دور ان کے وطن میں تھا لیکن اس کے ساتھی نے جس طرف اشارہ کیا تھا وہاں ملگجا، سرخی مائل کوئی ڈھیر نظر تو آ رہا تھا۔ لہٰذا مسافر بھی اپنے رفیق کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد اسے محسوس ہوا ٹیلے جیسا نظر آنے والا ڈھیر اب سکڑسمٹ کو چھوٹا ہو گیا ہے۔ دراصل وہاں کوئی ٹیلہ نہیں تھا وہ سراب تھا وہاں اونٹوں کے دوچار پنجر پڑے ہوئے تھے اور گرد آلود خشک جھاڑیوں کا ایک جھنڈ ہوا سے اڑتا ہوا آکر ان میں اٹک گیا تھا۔ ان پنجروں کو دیکھتے ہی اس کا ساتھی کچھ عجیب سے الفاظ نکالنے لگا جن کے کوئی معنی نہیں تھے اس نے ریت، اون اور وہاں پڑی صاف اور خشک ہڈیوں سے ایک بیٹھے ہوئے اونٹ کا پتلا تیار کیا۔

    مسافر خاموشی سے یہ سب دیکھتا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا اس پاگل پن میں وقت ضائع نہ ہوتا تو اب تک چار پانچ کوس کا فاصلہ آرام سے طے کر لیا گیا ہوتا۔ مگر یہ بات وہ اپنے ساتھی سے کہنے کی جرأت نہ کر سکا۔ اس کا ساتھی تو اب ادھیر سے ادھریوں اچھل کود رہا تھا جیسے اس پر کوئی آسیب آ گیا ہو۔ اچانک وہ خوشی سے چلایا ساتھ ہی جھک کر ریت کے ڈھیر سے کسی چیز کو کھینچ کر باہر نکالا۔ مسافر نے گھبرا کر ادھر دیکھا۔ وہ انسانی ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ تھا۔ پاگلوں طرح ہنستے ہوئے اس کے ساتھی نے اس آدھے مودے ڈھانچے کو اونٹ کے پتلے پر بٹھا دیا اور کودتا پھاندتا اس کے گرد گھوم گھوم کر اپنے اس کارنامے کا جائزہ لینے لگا۔

    ’’پیارے! ہمارے واپس آئے تک یوں ہی بیٹھے رہنا۔ کہیں مت جانا۔‘‘ وہ اپنی موٹی کھردری آواز میں اس پنجر کو تاکید کر رہا تھا۔ مسافر اس کے قریب آیا اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے واپس چلنے کا اشارہ کیا۔ وہ لوگ واپسی کے لئے مڑے۔ ساتھی کی ہیجانی کیفیت ختم ہو چکی تھی۔ اس لئے مسافرنے اس کے لڑکھڑاتے بھاری جسم کو سہارا دے رکھا تھا۔ اس نے غلام کی مدد سے جوں توں اسے اونٹ پر بٹھایا اور اس کے ساتھ ریت میں پاؤں گھسیٹتا ہوا آگے بڑھا۔ وہ ہڈیوں کے پنجر اس کے ذہن پر اب تک چھائے ہوئے تھے۔ وہ سوچ رہا تھا ہڈیوں کا وہ انبار کہیں اس کے مستقبل کا اشارہ تو نہیں۔ اسے کبڑے کے الفاظ یاد آئے اور وہ کانپ کر رہ گیا۔

    اب اس کے رفیق کی گردن سینے پر ڈھلک گئی تھی اور اس کا سارا جسم ڈھیلا پڑ گیا تھا۔ اس کے منہ سے اب بھی بے معنی الفاظ نکل رہے تھے۔ مسافر رک کر ان الفاظ کو سننے کی کوشش کرنے لگا لیکن ان بھاری ’مبہم الفاظ کو سمجھنا کیچڑ کے ڈھیر میں کنکر تلاش کرنے جیساہی تھا۔ آخر اس کا ساتھی خود نیچے جھک آیا۔ اس کی حیرت زدہ بےجان آنکھوں میں ایک چمک نظر آئی اور وہ سرگوشی کے سے انداز میں کہہ رہا تھا، ’’تم پیچھے مڑکر مت دیکھنا لیکن وہ متواتر ہمارا تعاقب کر رہا ہے۔‘‘

    مسافر نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا لیکن چاروں طرف حد نظر تک کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا سوائے ایک افقی دائرے کے جو گلے کے پھندے کی مانند ایک گول لکیر سی بنا رہا تھا۔

    ’’کون آ رہا ہے؟ کون تعاقب کر رہا ہے‘‘ ا س نے قدرے سے غصے سے پوچھا۔

    ’’وہ سفید پویش ایک سفید اونٹ پر سوار ہے۔‘‘ رفیق اونٹ پر سنبھل کر بیٹھتا ہوا بولا، ’’اس کے ہاتھ میں ایک سرخ رنگ کا لمبا سا نیزہ بھی ہے۔‘‘

    مسافر نے اسے دلاسہ دیا اور اس کی ڈھارس بندھانے کے لئے اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ اب اس کے پاؤں میں بھی چھالے پڑ گئے تھے۔ جن میں ریت کے ذرے بری طرح کھٹک ہے تھے۔ افق میں دور تک کہیں ایک انگشت برابر ابھار نظر نہیں آ رہا تھا۔ اونٹوں کے پیروں کے بال جھڑ گئے تھے۔ ان کے جبڑوں کی کھال جھلس گئی تھی۔ ہونٹ لٹک گئے تھے۔ جن سے دانت جھانک رہے تھے۔ ایک لمحے کو اس نے یہ بھی سوچا اگر اس وقت زرد چونچ والا گدھ آ جاتا تو اس جسم کو اس کے حوالے کرکے نجات پایا جا سکتا تھا۔

    ’’وہ آ رہا ہے۔ وہ دیکھو اس نے نیز ہ پھینکا۔‘‘ ساتھی اچانک اس طرح چلایا جیسے اس کے اندر کچھ ڈھے رہا ہو اور ساتھ ہی اونٹ پر سے لڑھک کر زمین پر گڑ پڑا۔ اس کے یوں اچانک چیخنے سے اونٹ بھڑک گیا اور اس کے جسم پر کودنے لگا۔ غلام نے رسی کھینچ کر اونٹ کو قابو میں کیا اور اس کے نرم نتھنوں پر رسی کی گانٹھوں سے ضربیں لگائیں۔ نتھنوں سے خون نکلنے لگا۔ اونٹ پرسکون ہو گیا مگر اب اس کے نتھنوں سے ہچکیوں جیسی آوازیں آ رہی تھیں۔ مسافر گھٹنے ٹیک کر اپنے ساتھی پر جھکا مگر اب ا س کے جسم تو گوشت پوست کی لگدی بن گیا تھا۔ البتہ اس تپتی دھوپ میں جب کہ پلکیں اٹھانا بھی محال ہو رہا تھا اس کی کھلی آنکھیں پلک جھپکائے بغیر سورج پر جمی ہوئی تھیں۔

    مسافر کے پیروں کی تو گویا جان ہی نکل گئی۔ اس نے بوکھلا کر آس پاس نظر دوڑ آئی۔ قریب ہی ریت کا ایک تو دہ نظر آ رہا تھا جس کا سایہ ایک گڑھے پر کسی بڑے توے کی مانند پڑ رہا تھا۔ مسافر اپنا جسم گھسیٹتا ہوا وہاں تک پہنچا اور اس تودے کی چھاؤں میں شکاری کتوں سے گھرے چوپائے کی طرح ڈری ڈری مگر چوکس نظروں سے دیکھتا ہوا پڑا رہا۔ گھنٹی کی رستی ہوئی ٹن ٹن کی آواز لمحے بھر کو رکی۔ غلام نے اپنے سرکا بوجھ ایک طرف رکھا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے ریت میں گڑھا بنایا اور ساتھی کے مردہ جسم کو اس میں ڈھکیل دیا۔ اس پر بالو ڈالتے ہی ساتھی کا گویا ہر شئے سے رشتہ ختم ہو گیا۔

    غلام نے دوبارہ سامان اٹھا لیا۔ مگر مسافر یہ سب خالی نگاہوں سے دیکھتا ہوا پڑا رہا۔ اس کے ذہن میں یادوں کی کتنی ہی پر چھائیاں لہرائیں اور مٹ گئیں۔ جب ذہن کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوا تو اسے لگا جو ہوا ٹھیک ہوا۔ اب رات بے رات چھاگل سے پانی چرائے جانے کا خطرہ تو نہیں رہا۔ اس سفلانہ خیال سے اسے قدرے سکون ملا اور اس نے گرم اور بےلذت پانی کے دوچار قطرے اپنے خشک خلق میں ٹپکائے۔ غلام نے اندازہ لگا لیا کہ آج کا سفر ختم ہو چکا ہے۔ ٹیلوں کے سائے طویل ہونے لگے اور ریگستان سرخی مائل ہو گیا تھا۔ تھوڑے فاصلے پر غلام نے اونٹوں کے گھٹنوں کو موڑ کر انہیں نیچے بٹھایا اور پیٹی پٹاروں کو نیم دائرے کی شکل میں رکھنے کے بعد ایک تودے کے قریب خیمہ نصب کیا اور سائے کی طرح اونٹ کے پاس بیٹھ کر گویا کسی کا انتظار کرنے لگا۔

    مسافر لڑکھڑاتے قدمو ں کے ساتھ خیمے میں داخل ہوا اور چھاگل کو اپنے سینے سے لگاکر لیٹ گیا۔ جب غلام اونٹ کے آس پاس گھوم رہا تھا۔ خیمہ نصب کر رہا تھا اس وقت اسے نہ جانے کیوں کسی شئے کی کمی کا احساس ہو رہا تھا لیکن وہ کیا شئے تھی اس کا وہ قطعی اندازہ نہیں لگا پا رہا تھا۔ غلام کی رسی کو اس نے مضبوطی سے اپنی کلائی میں لپیٹ لیا اور ٹٹول کر یہ بھی دیکھ لیا کہ کمر میں پیش قبض محفوظ ہے یا نہیں۔

    اب اس کے پپوٹے دھیرے دھیرے بوجھل ہونے لگے اور جلد ہی نگاہوں سے ریگستان اوجھل ہو گیا۔ نیلی جھیل میں کمل کھل گئے۔ آسمان میں سرخ چونچ والا سفید ہنس نظر آیا۔ دیوی کی قربان گاہ میں بلی چڑھائے گئے کبوتروں کو گردنوں سے خون کی دھار پھوٹ پڑی اور خشک ہونٹ جھل مل کر تے ٹھنڈے پانی کے خوش گوار لمس سے تر ہو گئے۔ ندی پر دھیمی رفتار سے ایک کشتنی تیرتی ہوئی گزری جس پر ملاح اپنی مدھر آواز میں گا رہا تھا، ’’اے گہرے پانیوں والے سرخ سمندر، میرا تمام سفر تجھ سے عبارت ہے مگر افسوس تو اپنے سینے پر میرے قدموں کا ایک نقش بھی سلامت نہیں رکھتا۔‘‘ صبح ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے اس کی آنکھ کھل گئی اور اسی وقت اسے اندازہ ہوگیا کہ کوئی غیرمعمولی حادثہ ہوا ہے۔

    اس نے کلائی میں بندھی ڈوری کو جھٹکا دیا۔ ڈوری آسانی سے اس کے قدموں میں آ گری۔ اس نے گھبراکر پانی کی چھاگل کو ٹٹولا وہ خالی ہو چکی تھی۔ اس نے دھند لکے میں کچھ ٹٹولنے کی کوشش کی۔ کوئی شئے زمین پر گری اور گھنٹی کی کراہ سنائی دی۔ اس آواز کو سنتے ہی مسافر کے ذہن میں بجلی ی کوند گئی۔ کل اسے جس شئے کی کمی محسوس ہو رہی تھی اصل میں وہ یہی گھنٹی تھی۔ غلام متواتر کام تو کر رہا تھا مگر اس کی حرکات و سکنات کے ساتھ گھنٹی کی ٹن ٹن سنائی نہیں دے رہی تھی۔ مسافر بے تحاشا دوڑتا ہوا خیمے سے باہر نکلا۔ سامان کے پاس ہی رسی کے ٹکڑے پڑے تھے۔ دونوں سفید اونٹوں کے پیٹ چیر دئے گئے تھے اور ان کی آلائشوں کے سبب ارد گرد کی سفید ریت سبزی مائل ہو گئی تھی۔ اس نے اپناکمر بند ٹٹولا۔ ہاتھی دانت کی صندوقچی غائب تھی اور غلام جو سائے کی طرح ہر دم ساتھ رہتا تھا اب وہاں موجود نہیں تھا۔

    مسافر اس ناگہانی حادثہ کو برداشت نہ کر سکا اور چکراکر زمین پر بیٹھ گیا۔ مگر رفتہ رفتہ جذبہ انتقام کی شدت اور غصے کی زیادتی سے اس کا جسم کانپنے لگا۔ وہ دانت پیستا ہوا بڑبڑایا، ’’یاد رکھ! میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا، اگر تو پاتال میں بھی چھپ جائے تو تجھے باہر کھینچ کر تیری آنتیں کتوں کے آگے ڈال دوں گا۔‘‘ وہ پاؤں گھسیٹتا چلنے لگا۔ دن چڑھنے تک تو اسے کچھ پتا نہیں چلا مگر جوں ہی سورج عمود کی طرف بڑھنے لگا آنکھوں میں چنگاریاں سی بھرنے لگیں۔ زبان خشک ہو گئی۔ پاؤں ڈگمگانے لگے اور قدموں کے نیچے بالو کھسکنے لگی۔ تبھی اسے خاردار جھاڑیوں کا ایک جھنڈ دکھائی دیا اور وہ خوشی سے پاگل ہو گیا۔

    اس نے سوچا ان کے سائے میں رات گزاری جا سکتی ہے۔ وہ وہیں ان جھاڑیوں کے نیچے نیم بےہوشی کی حالت میں دراز ہو گیا۔ پتا نہیں رات کا کون سا پہر تھا کہ اس کا ہاتھ کسی ٹھنڈی شئے سے چھو گیا۔ وہ چونک کر اٹھ بیٹھا۔ جیسے بچھونے ڈنگ مار دیا ہو۔ جھاڑی پر شبنم کا بوندیں اکٹھا ہو گئی تھیں۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے اپنے انگر کھے کو ادھیڑ دیا اور اسے جھاڑیو ں پر بچھاکر اس میں شبنم کو جذب کرنے لگا۔ بعد میں اسے نچوڑ کر گھونٹ بھر میلا گدلا پانی اپنے سلگتے ہونٹوں سے حلق میں انڈیلا اور نڈھال ہوکر زمین پر گرپڑا۔

    صبح اس میں تھوڑی سکت تھی۔ لیکن اسے یقین ہو گیا کہ آج کی رات گزارنا مشکل ہے۔ البتہ اس کا خوف اب کم ہو گیا تھا۔ فضا خاکستری رنگ کے غبار سے بھر گئی تھی اور افق کا کنارا یوں لگ رہا تھا جیسے اس کا ایک ٹکڑا کٹ کر جھڑ گیا ہو۔ مسافر گردن جھکائے لڑکھڑاتا جھومتا چل رہا تھا جیسے کوئی نادیدہ دیوار اسے پیچھے کی طرف دھکیل رہی ہو۔ لیکن بہت جلد وہ نڈھال ہوکر کسی مزاحمت کے بغیر ریت پر اوندھے منھ گر پڑا۔ تھوڑی دیر تک اسی طرح پڑا رہا۔

    پھر دھیرے دھیرے گردن اٹھائی اور جب سامنے نگاہ ڈالی تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ ملگجے رنگ کے غبار کا پردہ چاک ہو گیا تھا اور سامنے ایک ٹیلہ نظر آ رہا تھا جیسے ریگستان میں سرخ ناگ پھنی اگی ہو، ٹیلے پر سرخ مٹی کی ایک چوڑی فصیل کھڑی تھی اور فصیل پر چھوٹے بڑے کئی برج بھی نظر آ رہے تھے۔ ہر برج میں ایک جھروکا دکھائی دے رہا تھا اور ہر جھروکے میں نیلے لباس میں ملبوس ایک ایک انسانی پیکر دکھائی دے رہا تھا جن کے چہرے سیاہ نقاب سے ڈھکے ہوئے تھے۔

    چلچلاتی دھوپ میں ہ سرخ فیصل اور اس پر بنے برج کسی عفریت کے ہولناک پنجے کی مانند دکھائی دے رہے تھے جس کی کھال ادھڑ گئی ہو۔ مسافر نے العیدن کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا اسے یقین ہو گیا کہ اس کی منزل آ گئی ہے۔ اس کا دل طمانیت سے بھر گیا اور اس کا تناؤ بھی ختم ہو گیا۔ اس نے اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا اور کچھ دیر اسی طرح بے حس و حرکت پڑا رہا۔

    العیدن کی فصیل تک پہنچتے پہنچتے اس کا جسم تھکن سے چور چور ہو گیا۔ ریت میں رینگ کر آگے بڑھتے ہوئے اسے ایسی تکلیف ہو رہی تھی جیسے اس کے جسم کا ایک ایک عضو ادھیڑا جا رہا ہو۔ فصیل کا عالی شان پھاٹک کھلا تھا لیکن وہاں تک پہنچنے کے لئے سیڑھیاں بنی تھی۔ پھاٹک کی دونوں جانب نیلے لباس والے انسانی پیکر ساکت کھڑے تھے۔ البتہ سیاہ نقاب کے سوراخوں سے ان کی تیز نگاہیں جھانکتی ہوئی صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ کراہتا ہوا ایک ایک سیڑھی چڑھنے لگا مگر نیلے ہیولوں میں ذرہ برابر جنبش نہیں ہوئی۔ نہ ہی ان میں سے کسی نے اسے سہارا دینے کی کوشش کی۔

    مسافر زینے پر چڑھ کر اوپر آیا۔ پھاٹک پار کرکے اندر داخل ہوتے ہی سامنے دور فاصلے تک ایک بالا خانہ دکھائی دیا لیکن نگاہ ا س کے آخری سرے تک پہنچنے سے قاصر تھی کیونکہ درمیان میں سبزی مائل نیلے پانی کا طویل حوض تھا۔ پانی پر نظر پڑتے ہی گویا اس کی جان اس کی آنکھوں میں کھنچ آئی اور وہ کسی تھکے ماندے چوپایے کی طرح بے تحاشا دوڑتا ہوا جاکر اپنے آپ کو پانی کے حوالے کر دیا۔ کچھ دیر بعد جب اس کا تپتا ہوا بدن قدرے ٹھنڈا ہوا وہ باہر آیا اور پاس والے چبوترے پر بیٹھ کر چاروں طرف ایک چوکس نگاہ ڈالی۔ حوض کے دونوں طرف ویسا ہی ڈھیلا ڈھالا نیلا لباس پہنے ہوئے لوگوں کو ہجوم اسے خاموشی سے گھور رہا تھا۔

    سامنے چھوٹی سیڑھیوں والے چبوترے پر ایک چمکدار تخت بچھا تھا جس پر ایک شخص نیلا لباس زیب تن کئے شاہانہ تمکنت کے ساتھ جلوہ نشین تھا۔ ا س کا چہرہ بھی سیاہ نقاب سے ڈھکا ہوا تھا مگر اس کے سر پر شتر مرغ کے پروں کا شاندار تاج تھا۔ تخت کے قریب ہی اپنے دونوں ہاتھ بغل میں دبائے ایک بوڑھا شخص ایستادہ تھا۔ اس پوری بھیڑ میں صرف وہی بوڑھا ایسا تھا جس کے چہرے پر نقاب نہیں تھا۔ ا س کا سربالوں سے یکسر عاری تھا جس کی وجہ سے وہ کچھ زیادہ ہی قوی الجثہ اور پر رعب معلوم ہو رہا تھا۔ اس کا لباس بھی دوسروں سے مختلف گہرے سرخ رنگ کا تھا اور اس کی سیاہ رنگ کی پیٹی میں بائیں طرف ایک چمک دار کٹار لٹک رہی تھی۔

    وہ جوں ہی حوض سے نکل کر چبوترے پر آکر بیٹھا چاروں طرف گہرا سناٹا چھا گیا۔ مسافر سے ڈھٹائی سے ارد گرد نگاہ ڈالی اور گویا ہوا، ’’میں شہنشاہ العیدن کے حضور میں آداب بجا لاتا ہوں۔ نیز جناب والا سے فراخدلانہ سلوک کی توقع کرتا ہوں لیکن سب سے پہلے مجھے اپنے ایک معاملے میں انصاف درکار ہے۔ میرا غلام آپ کی سلطنت میں آیا ہے۔ میں نے اسے کھانا، کپڑا اور سہارا دیا مگر اس نے میرے ساتھ غداری کی۔ اس نے میرے اونٹوں کو بے دردی سے ہلاک کیا اور میری سوغاتوں کو چرا لیا۔ کیا العیدن کی مقدس سرزمین ایسے محسن کش کو پناہ دینے کی روادار ہو سکتی ہے؟‘‘

    اس کی فریاد سے نیلے لباس والے انسانوں کی ا س بھیڑ میں کسی قسم کی کوئی ہلچل نہیں ہوئی۔ لیکن سرخ لباس والا بوڑھا دو قدم آگے بڑھا۔ اس کے ہاتھ اب بھی اسی طرح اس کی بغل میں دبے تھے اس نے مسافر پر نظر یں گزار کر کہا، ’’تمہارا غلام یہاں موجود ہے۔ تم انصاف کی دہائی دے رہے ہو مگر تم نے اس سے غلاموں جیسا برتاؤ کیا تھا۔‘‘

    جواب دینے سے پہلے مسافر نے لمحے بھر کو توقف کیا۔ پھر نہایت تحمل سے بولا، ’’میں بھی کبھی ایک غلام تھا۔ غلامی کے زمانے میں جو سلوک میرے ساتھ کیا گیا ویسا ہی سلوک میں نے اس کے ساتھ کیا۔ ‘‘

    ’’یہاں الفاظ کی کرتب بازی دکھانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ جنہوں نے تمہارے ساتھ جو سلوک کیا تھا اگر وہ تمہارے ہاتھ لگ جائیں تب بے شک تم بھی ان کے ساتھ وہی سلوک کرنا مگر ہمارے سامنے اسے دوہرانے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘ بوڑھا کرخت لہجے میں بولا۔

    ’’دشمنی کا سکہ اپنے علاقے میں ہی چلتا ہے۔ اس کا استعمال دوسرے علاقے میں ناجائز ٹھہرتا ہے۔ بتاؤ! تم نے اپنے غلام کے کاندھے پر گرم سلاخ رکھی تھی یا نہیں؟‘‘

    ’’رکھی تھی۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے اس کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔‘‘

    ’’تم نے اسے پینے کے لئے نمک کا پانی دیا تھا؟‘‘

    ’’دیا تھا۔ اس سے پیاس بڑھ جاتی ہے اور پانی پانے کے لئے غلام زیادہ کام کرتا ہے۔‘‘

    ’’تم نے اسے کھانے کے لئے اونٹ کا سڑا ہوا گوشت دیا تھا؟‘‘

    ’’ہاں، دیا تھا۔ سڑا ہوا گوشت کھانے سے بدن میں آگ سی لگ جاتی ہے۔ ہاتھ پاؤں میں بجلیاں بھر جاتی ہیں اور آدمی پاگلوں کی سی پھرتی کے ساتھ کام میں جٹ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے تو ایک بار میرے غلام نے پانچ دن کا سفر دو دن میں طے کیا تھا۔‘‘

    اس پر بوڑھا کچھ نہیں بولا مگر اس کے چہرے سے ناگواری ٹپک رہی تھی۔ مسافر ایک قدم آگے بڑھا اور بولا، ’’میں پھر کہتا ہوں میں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ کسی فعل کو جرم ثابت کرنے کے لئے اس علاقے کے سماجی اور معاشرتی پس منظر کی روایت درکار ہوتی ہے۔ میں تو ان ساری باتوں کو بہت پیچھے چھوڑ آیا تھا اس بے کنار، بےرحم ریگستان میں جہاں ہر حال میں زندہ رہنا ہی زندگی کا سب سے بڑا مقصد تھا۔ وہاں ہم دونوں کے سوا کوئی نہیں تھا۔ لہٰذا وہاں میں نے جو کچھ کیا وہی میرا اصول تھا اور جو کچھ کہا وہی میرا قانون آخر آپ مجھ پر کس ضابطے کے تحت مقدمہ قائم کرنا چاہتے ہیں؟ اپنے ملک کے دستور کے مطابق یا میرے ملک کے آئین کے مطابق؟ کیونکہ اس بابت دونوں ملکوں کا قانون خاموش ہے۔ ندیوں اور جھلیوں کے ملک کا قانون ریگستانی علاقے میں لاگو نہیں ہوتا اور ریگستان کا قانون سمندر میں نہیں چلتا۔ میں نے جو کچھ کیا اس کا جواز پیش کرنے کا اختیار بھی صرف مجھے ہے۔ لہٰذا میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ میں بےقصور ہوں۔ ’’

    بوڑھا اسے گھورتا ہوا بولا، ‘‘ یہ صحیح ہے کہ تم روایتوں کے چنگل سے بھاگ کر ریگستان میں آئے ہو۔ جس علاقے میں تم دونوں تھے وہاں کسی ملک کا قانون نافذ نہیں ہوتا۔ وہاں اپنے اصولوں پر عمل کرنے کا اختیار جس طرح تمہیں حاصل تھا اسی طرح تمہارے غلام کو بھی تھا۔ لہٰذا اس نے بھی وہی کیا جو اسے کرنا چاہئے۔ اس نے تمہارے اونٹ ہلاک کئے اور غلامی سے نجات حاصل کی۔ تم دونوں کے اختیارات یکساں تھے۔ فرق یہی ہے کہ تم ناکام ہو گئے اور وہ کامیاب ہو گیا۔ اس حالت میں اگر تم غلام ہوتے تو تم بھی وہی کرتے جو اس نے کیا۔ جب تمہارے غلام نے کوئی جرم ہی نہیں کیا تو پھر تم کس کے خلاف انصاف کے طلبگار ہو۔‘‘

    مسافر بوڑھے کی بات سن کر بری طرح سٹپٹا گیا۔ اسے فوراً کوئی جواب سجھائی نہیں دیا۔ وہ قدرے سنبھلا پھر چیخ کر بولا۔ ’’میں اس غلام کو العیدن کے شہنشاہ کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے لایا تھا اور العیدن کی روایت کے مطابق یہاں آنے والے ہر غلام کا سر قلم کر دیا جاتا ہے۔ کیا آپ کو اپنے ملک کی روایت کا بھی پاس نہیں؟‘‘

    ’’ہماری روایت کیا ہے؟‘‘ اور اس کی پاسداری کیسے کی جاتی ہے؟ یہ ہمیں یاد دلانے کی ضرورت نہیں۔‘‘ بوڑھا ایک ہاتھ کٹار کے قبضے پر رکھتا ہوا بولا۔ ’’العیدن اس وقت وجود میں آیا تھا جب پہلا آفتاب طلوع ہوا اور آخری چاند کے غروب ہونے تک اس کی روشنی قائم رہےگی۔‘‘

    اس کا اشارہ پاتے ہی تخت کے پیچھے سے دوسیاہ ہیولے برآمد ہوئے اور سیڑھیوں سے نیچے اتر کر خاموشی سے مسافر کے دونوں طرف کھڑے ہو گئے۔ ان کے ہاتھوں میں چوڑے پھلوں کی دو تیغیں تھیں۔ جو روشنی میں برق پاروں کی مانند چمک رہی تھیں۔ مسافر نے گھبرا کر ان کی طرف دیکھا۔ ان کے چہروں میں اسے اپنا انجام صاف دکھائی دے رہا تھا۔

    اتنے میں جگمگ کرتے تخت پر بیٹھا ہوا سدی اٹھا اور زینے طے کرتا ہوا نیچے آیا اور مسافر کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس نے آہستگی سے اپنا تاج اتار کر ایک طرف رکھا جسم کو ہلکی سی جنبش دیتے ہی اس کا ڈھیلا ڈھالا نیلا لباس سر ک کر اس قدموں میں ڈھیر ہو گیا۔ پھر جوں ہی اس نے اپنا سیاہ نقاب الٹا مسافر حیرت اور بےیقینی کے ساتھ اسے دیکھتا رہ گیا۔ اس کے سامنے اس کا غلام کھڑا تھا۔ اس کے پیچھے سرخ لباس والا بوڑھا بھی کچھ سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا۔ بوڑھا کہہ رہا تھا،

    ’’یہ العیدن کا حکمراں ہے۔ سات برس پہلے جب شکار کے لئے گیا تھا دھوکے سے غلام بنالیا گیا۔ اس کی غیرموجودگی میں ہم نے اس کے ایک برس کے بچے کو وارث بنایا اور اس کے نام پر حکومت کا کاروبار چلاتے رہے۔ اب وہ واپس آ گیا ہے اور اس کا حق اسے مل گیا ہے۔‘‘

    بوڑھے نے اشارہ کیا اور تیغ برداروں میں سے ایک نے اپنے اجگر جیسے ہاتھ سے مسافر کو پکڑا اور اسے گھٹنوں کے بل جھکنے پر مجبور کرتے ہوئے اس کی گردن چبوترے پر ٹکا دی۔ مسافر کی ساری کوششیں رائیگاں جا چکی تھیں۔ اس نے انتہائی مایوسی کے ساتھ اپنے آپ کو حالات کے حوالے کر دیا۔ اس نے ندی کا منبع تلاش کرنے کی کوشش کی تھی مگر حالات اسے اپنی زندگی کے دہانے تک لے آئے تھے۔ اس کی اپنی زندگی جو آلیو کے درختوں کے باغ میں ایک چھوٹے سے گھر سے شروع ہوئی تھی۔ کسی کا کہا ہوا ایک قول اسے یاد آیا۔ پانسے پھینکنا ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے مگر بازی پر ہمارا اختیار نہیں ہوتا اور اسی وقت اس کے ابلتے لہو میں وہ جملہ گونجا ’المکتوب۔ مکتوب اس نے نگاہ اٹھاکر غلام کی طرف دیکھا۔

    غلام کے ہاتھ میں ہاتھی دانت کی وہ صندوقچی تھی۔ اس آخری گھڑی میں بھی مسافر کے دل میں ایک تجسس جاگا۔ اس نے اضطراری طور پر کہا ’’اس صندوقچی میں کیسی سوغات تھی؟ میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ اسے میری آخری خواہش سمجھو۔‘‘ غلام نے اطمینان سے سورج کو سانپ کے منہ میں ڈھکیل دیا اور چٹ کی آواز کے ساتھ صندوقچی کا ڈھکن کھل گیا۔ اس نے صندوقچی مسافر کی طرف بڑھائی۔ مسافر نے دیکھا کہ صندوقچی میں کپڑے کی ایک کترن تہہ کی ہوئی رکھی ہے۔

    اس نے کپڑے کی تہہ کھولی اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کپڑے پر جو منظر مصور کیا گیا تھا وہ ہو بہو آس پاس کے موجودہ منظر سے ملتا جلتا ہے۔ سرخ دیوار کے پاس نیلگوں لباس والے افراد کا ہجوم تھا اور غلام اپنا نیلا لباس اتارے کھڑا تھا۔ لیکن چبوترہ خون سے لت پت تھا اور نیچے دھڑ، ہاتھ پاؤں، پنجے وغیرہ اعضا بکھرے پڑے تھے۔ ان میں سے ایک پنجے کی تین انگلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ تصویر کے نیچے کچھ لکھا تھا لیکن حروف دھندلا گئے تھے۔ مسافرنے اسے اپنے گیلے لباس پر رگڑ ا اور دوبارہ دیکھا حروف واضح ہو گئے تھے۔ اسے کسی نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ لکھا تھا،

    ’’بعض اوقات انسان اپنے مستقبل کو حال میں بدلتے ہوئے دیکھ سکتا ہے لیکن حال کو ماضی میں بدلتے ہوئے دیکھنے کے لئے وہ زندہ نہیں رہتا۔‘‘

    وہ ہونقوں کی طرح پتہ نہیں کتنی ہی دیر تک اس تصویر کو دیکھتا رہا تبھی اسے اپنے کاندھے پر دوبارہ فولادی ہاتھ کا دباؤ محسوس ہوا۔ وہ کپڑے کو تہہ کرنے لگا۔ لیکن اچانک اس کے ہاتھ رک گئے اور دوبارہ اس تصویر کو ایک نئی حیرت کے ساتھ دیکھنے لگا۔ تصویر کا زاویہ بدل گیا تھا۔ سرخ دیوار، نیلا لباس پہنے نقاب پوش، فرش پر بکھرے انسانی اعضاء، سب کچھ ویسا ہی تھا لیکن اب غلام سیڑھی سے نیچے لڑھک رہا تھا کیونکہ پیچھے کھڑے سرخ لباس والے بوڑھے نے اپنی تیز کٹار اس کی پیٹھ میں گھونپ دی تھی۔ اسے لگا اس کا جسم ایک مدفن ہے۔ جس میں لاتعداد کیڑے مکوڑے کلبلا رہے ہیں۔ اس نے خشک ہوتے کپڑے کے ٹکڑے کو جلدی جلدی تہہ کیا اور اسے غلام کی طرف بڑھا دیا۔ غلام نے اسے دوبارہ صندوقچی میں رکھ دیا اور منتظر سا کھڑا رہا۔

    مسافر نے چبوترے پر اپنی گردن رکھ دی لیکن اس سے رہا نہیں گیا۔ اس نے گردن اٹھاکر غلام کی طرف دیکھا اور یکایک زور زور سے ہنسنے لگا۔ اس کے ہنسنے کی آواز اس وقت کبڑے کی ہنسی سے ملتی جلتی تھی۔ کٹی پھٹی، مغلوب۔ مگر پیش آگاہ۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے