Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گھپ اندھیرے میں کالی بلی کی تلاش

محمود ظفر اقبال ہاشمی

گھپ اندھیرے میں کالی بلی کی تلاش

محمود ظفر اقبال ہاشمی

MORE BYمحمود ظفر اقبال ہاشمی

    جب سفر کا آغاز ہوا تو وہ مجھ سے کم از کم ایک فرلانگ آگے تھی۔ ہرنی کی طرح قلانچیں بھرتی، دشوار مسافتوں کو اپنے برق رفتار پیروں سے لپیٹے وہ کسی گردباد کی طرح کبھی ادھر ایستادہ ہوتی تو کبھی ادھر۔ اتنی ہی متحرک اور پرجوش جس طرح سیماب یا پھر کوئی خیال۔ بالکل میرے جیسا لباس اور میرے جتنا قد۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ ہی میرا اصل وجود تھی اور میں محض اس کا سایہ جو اس سے پیچھے رہ گیا تھا!

    ’’اجی سنیے۔۔۔ اگر ہم دونوں کی سمت ایک ہے تو ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔۔۔ کچھ آپ مجھے جانیں،کچھ میں آپ کو جاننے کی کوشش کرتا ہوں‘‘ میں بمشکل اس تک پہنچا تو اس نے مُڑ کر میری طرف پہلی بار دیکھا اور پھر گویا چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اس کا حسن دیکھ کر میرے ہوش و حواس طویل مراقبے میں چلے گئے!

    اس کا چہرہ کسی ایرانی قالین کی طرح تھا جس کی بنت چست، تانے بانے پیہم، مہارت نقاش درجۂ اتم، اولین ایام بہار کے سے منشوری رنگ، نظام کائنات کی طرح جامع و بےعیب تصمیم، چھوئے بغیر ہاتھ اور نظریں پھسل پھسل جانے والی ملائمت!

    اس پر پہلی نظر پڑتے ہوئے نجانے مجھے یہی خیال کیوں آیا کہ وہ صرف اور صرف میری تھی!

    ’’تم کون ہو، کیا ہو اور کیوں ہو؟’‘ میرے لبوں سے بےربط اور بےاختیار سا سوال شیر خوار بچوں کے منہ سے بے اختیار نکلنے والے لعاب کے سے انداز میں برآمد ہوا۔

    ’’میں؟ میں موسم کا پہلا گل ہوں۔۔۔ میرے بغیر چمن ریگزار رہتا ہے۔۔۔ میں ایک کشادہ، ہوا دار گھر کی پرانی دہلیز بھی ہوں اور اس کی مضبوط بنیاد بھی۔۔۔ میں ساحل کی ریت ہوں۔۔۔ میرے بغیر نہ ساحل کی کوئی شناخت ہے اور نہ سمندر کا کنارہ مزین۔۔۔ میں سگ ستارہ ہوں۔۔۔ میرے بغیر چاند کا پہلو نامکمل اور آسمان کی گود خالی ہوتی ہے!’‘ وہ اتراتے ہوئے ایک ادائے قاتلانہ کے ساتھ گویا ہوئی۔

    ’’مجھے ایساکیوں لگتا ہے جیسے تم سے صدیوں پرانی شناسائی ہے۔۔۔ جیسے تم میرے وجود کا جزو لانیفک ہو۔۔۔ جیسے تم اور میں کوئی دو نہیں۔۔۔مجھے لگتا ہے وہ تم ہی ہو جس کے متعلق میں نے کہیں لکھا تھا کہ اس کی ستواں ناک کی نوک ایک بار اپنی انگلی سے چھوکر میں نے آلپس کو سر کیا تھا۔۔۔ تمہیں دیکھ کر نجانے کیوں مجھے جنگل کے شاداب اور ان چھوئے پھول یاد آنے لگے ہیں!’‘

    میں کھوئے کھوئے انداز میں بے اختیار کہتا چلا گیا۔

    ’’تم درست سمجھے مگر یاد رکھو۔۔۔ جنگل سے جو پھول شہر آتے ہیں وہ جلد مرجھا جاتے ہیں۔۔۔ وہ اپنا رنگ، تازگی اور ہئیت کھونے میں جتنا بھی وقت لیں، دراصل وہ جنگل سے بچھڑتے ہی مر جاتے ہیں۔۔۔ اور ہاں یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے سب تیری نظر کا قصور ہے!’‘ اس کے چہرے پر شرماہٹ اور لہجے میں شرارت ابھرنے لگی۔

    ’’میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔ تمہارے بغیر یہ سفر عبث اور تمہاری سنگت کے بغیر یہ مسافت بے مصرف مشقت ہوگی۔۔۔ اس سفر میں میرا ساتھ دوگی؟’‘ میں مسلسل عالمِ تنویم میں تھا۔

    ’’تم نے غور نہیں کیا۔۔۔دراصل یہ سفر ہم نے ایک ساتھ ہی شروع کیا تھا۔۔۔ لیکن آغاز کچھ ایسا مسحور کن تھا کہ تم آسمان کی رنگت بدلنے کا عمل دیکھنے میں مگن رہ گئے اور میں صبح کاذب سے صبح صادق تک کا ٹرانزٹ وقت سے بہت پہلے طے کر گئی!’‘ اس کا انداز بےحد دلبرانہ تھا۔

    ’’تو پھر چلو دور تک ساتھ چلتے ہیں۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری منزل ایک۔۔۔‘‘

    ابھی یہ لفظ میرے منہ میں ہی تھے کہ اس نے بہت بےتکلفی سے میرا ہاتھ کچھ یوں مضبوطی کے ساتھ تھام لیا جیسے دسمبر میں شام ڈھلتے ہی سرمئی دھند منظروں اور درختوں سے لپٹ جاتی ہے۔

    ’’کبھی میرا ساتھ تو نہ چھوڑوگے؟’‘ جو مجھے کہنا تھا وہ اس نے کہہ دیا اور پھر اس نے خودِ سپردگی کے عالم میں اپنا سر میرے کاندھے کے کنارے یوں ٹکادیا جیسے شام ڈھلتے ہی دھوپ اور سائے تھک ہارکر اپنے آپ کو شفق کی جھولی میں ڈال دیا کرتے ہیں۔ اس کی ہتھیلی میں غضب گرمائش اور عجب ستائش تھی، پرضیا آگہی اور پرادا راگنی تھی، شستہ پیام اور ایک وارفتہ سلام تھا۔ جونہی ہماری ہتھیلیاں ایک دوسرے سے ملیں گویا ہمارے ہاتھوں کی لکیریں بھی باہم ہو گئیں اور کاتب اعلی نے ہماری قسمت کو بھی ایک ہی سانچے میں ڈھال دیا!

    مسافتیں ہمارے ہر اٹھتے ہوئے قدم پر قصۂ پارینہ بنتی چلی جا رہی تھیں۔ راستے کے اشجار، مناظر، طیور، گل اور ڈگر کے سب موڑ ہماری خوبصورت ہمراہی اور تال میل کو دیکھتے تھے اور ہماری نظر اتارنے کے لیے بار بار اپنی دونوں مٹھیاں بھینچ کر اپنی کنپٹیوں تک لے جاتے تھے۔ جب تک راستے میں ہمارے اوپر خوشگوار دھوپ سایہ کناں رہی سب کچھ پرثبات رہا۔ ہم دونوں بار بار ایک دوسرے کا چہرہ رنگیں نگاہوں سے دیکھتے تھے اور انگبیں لہجے سے اپنے رومانس کو تعمیر کر رہے تھے۔ دفعتاً موسم نے ایک توبہ شکن انگڑائی لی اور سیاہی مائل سرمئی بادلوں کا آنچل فلک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تن گیا، دیکھتے ہی دیکھتے ہوا سرکش ہونے لگی اور اشجار کی صفوں میں گھس کر انہیں حالت رکوع میں سرنگوں کرنے لگی، پھول اتنے سہمے کہ ان کے رنگ اڑنے لگے، کھیتوں میں لگی فصلوں کے بال کھل کر زمین کے شانوں پر اڑنے لگے اور اڑتے پرندے برستی ہوئی ہلکی ہلکی بارش میں ان ننھی منی بوندوں کی مانند ہو گئے جو اچانک تیز ہوا سے اپنا اعتماد اور سمت کھوکر ادھر ادھر فضا میں اندھوں کی طرح سر مارنے لگتی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے جونہی منظروں سے روشنی مٹھی سے ریت کی طرح سر کی اور ہوا کی برق رفتاری اپنی حدیں توڑ کر نکلی، میری ہتھیلی پر اس کی گرفت کچھ اور بڑھ گئی اور مجھے درشت موسم کی شدتوں سے بچانے کے لیے وہ ان کے آگے سینہ سپر ہوگئی۔ تیز ہوا سے گرد اس کی آنکھوں میں پڑتی رہی مگر میرے آگے اس نے ایسا مضبوط پشتہ باندھے رکھا کہ باد و باراں مجھ پر محض اپنی نصف قوت کے ساتھ ہی اثر کر سکی!

    موسم اور سفر کا تسلسل بظاہر بحال تو ہو گیا مگر میرے حصے کی موسمی کلفتیں اور صعوبتیں سہنے کی وجہ سے اس کی رفتار میں واضح کمی آ گئی۔ وہ میرا ہاتھ تھامے بار بار اپنی سرخ آنکھیں مسلتی ہوئی اب مجھ سے ذرا پیچھے تھی۔ اس کی باتیں اور ہوا دونوں تھم گئے تو پہلی بار میرا دھیان اس سے ہٹ کر موسموں کی تغیر پسندی اور زندگی کے عدم معتبری کے فلسفے پر مرکوز ہونے لگا۔ بار بار بےخیالی میں میری رفتار تیز ہو جاتی تو اس کے بازو کو زور کا جھٹکا لگتا۔ راستے میں سستانے کے لیے کچھ دیر کو رکے تو وہ میرے کاندھے سے سر ٹکائے کچھ دیر کے لیے سو گئی۔ اس کی آنکھیں کیا بند ہوئیں گویا میری خوابیدہ بصیرت بیدار ہو گئی۔ میں نے پہلی بار ورق گردانی کے لیے ایسی ضخیم کتاب کا انتخاب کیا جس میں گنجلک فلسفے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ کتاب پڑھنے کے بعد مجھ پر ایسی آگہی اتری کہ مجھے یقین ہونے لگا جیسے اب تک میری آنکھوں کے آگے کم علمی کا سیاہ پردہ تھا!

    ’’کیا میں واقعی کہیں ہوں؟ اگر ہوں تو کہیں نظر کیوں نہیں آتا۔۔۔ اور اگر نہیں ہوں تو چہار سو صرف میں ہی کیوں نظر آتا ہوں!‘‘

    'کیا میں واقعی جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا؟'

    'ہونے یا نہ ہونے کے سوال کا اصل جواب کیا ہے؟'

    ’’موسم کیوں بدلتے ہیں۔۔۔ ہر شے کی ترتیب کیوں متعین ہے۔۔۔ سبزہ و گل کیوں وجود میں آئے۔۔۔ سحر و شام میں فرق کیوں ہے۔۔۔ پہاڑ زمین کا حصہ ہیں تو اس کی سطح سے ارفع کیوں ہیں۔۔۔ گربادلوں کو برسنا ہی ہے تو برسنے سے پہلے سب پر برستے کیوں ہیں۔۔۔ ہوا کے نظر نہ آنے میں کیا حکمت پوشیدہ ہے۔۔۔ اور یہ جو میرا ہاتھ تھامے میرے ساتھ ساتھ چل رہی ہے یہ میرے لیے ناگزیر کیوں ہے!’‘

    اس جیسے ان گنت جملوں میں چھپے عمیق فلسفے کو سمجھتے سمجھتے مجھے اتنا عرصہ لگا اور اس قدر دقت ہوئی کہ میرے ذہن میں پلنے والے ابہام اور بےکلی نے ہمارے سفر کو غیر ہموار کر دیا۔ نتیجتاً میں بے خیالی میں پہلی بار اس سے ہاتھ چھڑا کر اس سے آگے نکل گیا کہ مجھے بھی خبر نہ ہوئی۔ حیرت اور صدمے سے گنگ وہ جان بوجھ کر وہیں تھم گئی جیسے دیکھنا چاہ رہی ہو کہ میں اس احساس کے ساتھ کتنی دور اس کے بغیر آگے جا سکتا ہوں کہ وہ پیچھے رہ گئی۔ جب مجھے احساس ہوا تو شرمندگی کا زرد مفلر اپنی گردن اور منہ پر لپیٹے، سر جھکائے اس کے پاس واپس آیا۔

    ’’یوں موسم کی ادا دیکھ کر یاد آیا۔۔۔ کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں۔۔۔ پہلے مجھے یقین نہیں تھا مگر اب مجھے لگنے لگا ہے کہ ازل سے معصوم اور تغیر ناپذیر خوبصورت زمین پر انسان سے زیادہ خرانٹ اور پارہ صفت مخلوق اور کوئی نہیں ہے!’‘

    کڑوے دکھ اور ترش شکوے کی نیلگوں کیفیت چہرے پر سجائے اور میرے زرد چہرے پر بےرنگ نظریں جمائے وہ گِلہ کر رہی تھی۔ مجھے اس کا پہلا شکوہ زہریلا طنز لگا سو میں چڑ سا گیا۔ اگرچہ میں نے ردعمل نہیں دیا مگر میرے اندر سے پہلی بار واشگاف آواز آئی۔۔۔

    ’’شکوہ شک کی اولین شاخ اور آخری شرح ہے۔۔۔اور شک مضبوط تعلق کے ہرے بھرے پیڑ کو آکاس بیل کی طرح زندہ نگل جاتا ہے۔۔۔ فلسفے سے عطا ہونے والے علم، ادراک اور آگہی نے میری بند آنکھ کھولی ہے اور مجھے پرواز اور رفتار عطا کی ہے۔۔۔ یہ میری موجودہ رفتار کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔۔۔ آگے بڑھنے کے لیے مجھے اب اس کی اتنی ضرورت بھی نہیں۔۔۔ میں نے اس سفر کے دوران خدا، کائنات، زندگی، انسان، کیفیات اور احساسات سمیت فلسفے کی اصل روح کو پا لیا ہے۔۔۔ آغاز سفر پر مجھے اس کی جتنی ضرورت تھی، اب اتنی نہیں۔۔۔ حیات میں اس سے کہیں اہم شے اب میرے ادراک اور بصیرت کا حصہ بن چکی۔۔۔ میری نظر سامنے کے منظروں سے پرے اور بادی النظر عناصر سے ماورا ہو چکی۔۔۔ جتنی اس کی ضرورت ہے وہ اس کا ہاتھ تھامے بغیر بھی مجھے باآسانی میسر رہےگی‘‘

    پھر وہی ہوا جو میں نے بہت جلد اخذ اور طے کر لیا تھا۔ کچھ زبردستی کے بے منطق مباحثوں اورسوچ سمجھ کر بڑھائے گئے مناظروں کے بعد میں نے اس سے ہمیشہ کے لیے ہاتھ چھڑوایا تو اس کی آنکھیں لبالب آنسوؤں سے بھر گئیں۔

    ’’ایک دوسرے کو ایک موقع اور دیتے ہیں۔۔۔ چلو کچھ دور اور ساتھ چلتے ہیں۔۔۔ اپنے تعلق کو پھر سے گِیلی مٹی میں ڈھال کر نئے سرے سے اسے چاک پر چڑھاتے ہیں۔۔۔ اسے نئے سانچے میں ڈھالتے ہیں۔۔۔ تم نے کیسے یہ فرض کر لیا ہے کہ ایک دوسرے کے بغیر بھی ہمارا کوئی وجود یا سانچہ ہو سکتا ہے!’‘ اس نے آخری بار مجھ سے التجا کی مگر میری رعونت کو نقطۂ عروج پر پا کر وہ شدید غصے میں آ گئی۔ اس نے بچھڑنے سے پہلے میرا ہاتھ جھٹک کر مجھے بد دعا دی۔

    ’’یہ بات ہے تو جاؤ میرے بنا آگے بڑھ جاؤ۔۔۔ مگر یاد رکھو کہ میرے بغیر تم ہمیشہ تنہا اور تہی دامن پھرو گے۔۔۔ مجھے قریہ قریہ تلاش بھی کرو گے تو میں تمہیں نہیں ملوں گی۔۔۔ مجھے سوچوگے بھی تو میرے خدوخال تمہارے منصۂ شہود پر نہیں اتریں گے۔۔۔ تم اپنی پہلی محبت اور اپنی اساس کے سگے نہیں تو کوئی تمہارا بھی کبھی سگا نہ ہوگا!’‘

    میں نے رعونت کے ساتھ اسے آخری بار دیکھا اور پھر میں فلسفیانہ افکار رکھنے والا ایک علامتی افسانہ نگار تو بہت آگے نکل گیا اور کہانی دور کہیں بہت پیچھے رہ گئی۔ ادبی نقاد میرے افسانے پڑھ کر اکثر ایک ہی تبصرہ کرتے ہیں کہ میں اپنی فلسفیانہ اور مشکل پہیلیوں جیسی علامتی تحریروں کی مدد سے گھپ اندھیرے میں ایک ایسی کالی بلی تلاش کرتا ہوں جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں!!!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے