Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غروب ہوتی صبح

منشایاد

غروب ہوتی صبح

منشایاد

MORE BYمنشایاد

    عجیب دروغ بھری صبح طلوع ہوئی ہے کہ پتہ ہی نہیں چل رہا وہ جاگ گیا ہے یا ابھی تک سو رہا ہے۔ اگر وہ سو رہا ہے تو سامنے والی خالی کھڑکی اسے کیسے نظر آ رہی ہے اور اگر وہ جاگ رہا ہے تو اسے اپنے خراٹوں کی آواز کیسے سنائی دے رہی ہے۔ ان خراٹوں کے ساتھ ساتھ اسے ان شارکوں کا شور بھی سنائی دے رہا ہے جو اسے نظر تو نہیں آ رہیں مگر خالی کھڑکی کے چھجے پر بیٹھی عجیب و غریب آوازیں نکال کر آپس میں اظہار محبت کر رہی ہیں یا شاید لڑ جھگڑ رہی ہیں۔ اچانک اس کا پاؤں پھسل جاتا ہے اور وہ گہرے پانی میں غوطے کھانے لگتا ہے عجیب کیفیت ہے، وہ سوچتا ہے کہ وہ ڈوب بھی رہا ہے اور خود کو ڈوبتے ہوئے دیکھ بھی رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے وہ ڈوب گیا تب بھی کچھ نہ کچھ بچ جائےگا۔ اسی لمحے آپس میں لڑتی جھگڑتی یا شاید چہلیں کرتی شارکوں میں سے ایک ایسی عجیب و غریب آواز نکالتی ہے جیسے ہنس رہی ہو۔ دوسری آہستہ سے کچھ کہتی ہے۔ پھر پہلی زور سے چلاتی ہے۔

    ’’جھوٹ، جھوٹ، جھوٹ۔‘‘

    اس کے بعد دونوں میں سے کوئی جیسی بھی آواز نکالتی اور کچھ بھی کہتی ہے، دوسری زور زور سے چلانے لگتی ہے۔ ’’جھوٹ، جھوٹ، جھوٹ۔‘‘

    پڑوس سے خوشی کے گیتوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ جواب میں شارکیں کورس میں جواب دیتی ہیں۔

    ’’مکر مکر مکر، دھوکا دھوکا دھوکا‘‘

    شاید اب اس کا ذہن کچھ بیدار ہو گیا ہے کہ خراٹوں کی آواز سنائی نہیں دے رہی اسے یاد آتا ہے رات وہ دیرتک اپنے پسندیدہ گیتوں کا کیسٹ لگا کر سنتا رہا تھا، وہ ہاتھ بڑھا کر ٹیپ ریکارڈر کا بٹن دباتا ہے

    ’’الفت کی نئی منزل کو چلا‘‘

    مگر جونہی گیت ختم ہوتا ہے ایک شارک کی آواز سنائی دیتی ہے۔’’جھوٹ، جھوٹ، جھوٹ۔‘‘

    دوسری کہتی ہے ’’دھوکا دھوکا دھوکا‘‘

    اس کے بعد وہ جو بھی گیت سنتا ہے۔ دونوں شارکیں یا ان میں سے کوئی ایک جھوٹ جھوٹ اور دھوکا دھوکا کی گردان کرنے لگتی ہے۔

    وہ ٹیپ ریکارڈ بند کر دیتا ہے اور ریڈیو سے خبریں سنتا ہے۔ شارکیں اب بھی باز نہیں آتیں۔ وہ لیٹے لیٹے پاؤں کی ٹھوکر سے کھڑکی کا پٹ بند کر دیتا ہے۔ پٹ کے زور سے بند ہونے کی آواز سن کر شارکیں اڑ جاتی ہیں۔ اب ہنسنے کی اس کی باری ہے۔

    تکئے کے نیچے ہاتھ ڈال کر سگریٹ کا پیکٹ نکالتا ہے۔ سگریٹ منہ میں لے کر سلگانے لگتا ہے مگر پھر اسے یاد آتا ہے کہ آج چھٹی کا دن ہے اور باؤ جی ابھی تک گھر پر ہوں گے۔ سگریٹ کی خوشبو سے انہیں فوراً پتہ چل جائےگا کہ اس نے پھر سے سموکنگ شروع کر دی ہے۔ کیا مصیبت ہے وہ جھنجھلا کر سوچتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے سگریٹ بھی نہیں پی سکتا۔ گردن کے پیچھے دونوں ہاتھ باندھ کر لیٹ جاتا ہے اور دن بھر میں پیش آنے والے متوقع واقعات اور اپنی مصروفیت کا جائزہ لیتا ہے۔ ابھی جب وہ نیچے جائےگا۔ اسے بیکری سے انڈے اور ڈبل روٹی لانے کو کہا جائے گا پھر اسے سبزی یا گوشت کی دکان پر بھیج دیا جائے گا۔ مگر شاید آج نہیں کہ سب کا دوپہر کا کھانا پڑوس والوں کے ہاں ہے۔ البتہ جب وہ ناشتہ کر رہا ہو گا تو ہر ایک کو اپنے اپنے کام یاد آنے لگیں گے۔ فلاں کے ہاں سے سلے ہوئے کپڑے لا دو، فلاں کے گھر یہ پیغام دے آؤ۔ فلاں کو چھوڑ آؤ، فلاں کو لے آؤ۔ وہ موٹروں، تانگوں، بسوں، رکشاؤں اور ٹریفک کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے سائیکل سواروں سے بچتا بچاتا، بڑی مشکل سے ایک مہم سے واپس آئےگا تو اسے کسی دوسری مہم پر روانہ کر دیا جائےگا۔ اسے آج پہلی بارا حساس ہو رہا ہے کہ وہ یہ مہمیں سر کرتے کرتے اکتا چکا ہے اسے لگتا ہے جیسے وہ ان سب کا بیٹا، بھائی، دیور اور چچا نہیں زرخرید غلام ہے، باؤ جی تو پھر باپ ہیں انہوں نے اسے پیدا کیا ہے۔ اگرچہ کچھ احسان نہیں کیا۔ مگر حد یہ ہے کہ ان کے دوستوں کے دوست بھی اس پر حق رکھتے ہیں اور جب اور جہاں چاہتے ہیں اسے بیگار میں پکڑ کر بھیج دیتے ہیں، وہ جیب خرچ سے بچا کر چند لیٹر پٹرول موٹر سائیکل میں ڈلواتا ہے کہ کہیں گھوم آئے مگر اسے بھابی کا سندیسہ لے کر ان کے میکے جانا پڑ جاتا ہے اور جب وہ ان کے میکے جاتا ہے تو بھابی کی بھابی اسے اپنی بھابی کے ہاں کسی کام سے روانہ کر دیتی ہے اور تو اور منی اور پپو بھی اس پر حکم چلا لیتے ہیں۔ چچا ہمیں سیر کرا دو۔ ہمیں چڑیا گھر لے چلو، ہمیں آئس کریم کھلا دو۔

    اس کی زندگی بھی کیا زندگی ہے۔ وہ دکھ سے سوچتا ہے۔ گھر ہو یا دفتر ہر جگہ اس کے بہت سے آقا موجود ہیں جو اسے اپنا غلام سمجھ کر احکامات جاری کرتے رہتے ہیں اور جیسے اس کی اپنی کوئی پسند یا مرضی نہ ہو۔اس کی اپنی کوئی شخصیت نہ ہو۔ہر کوئی اس پر اپنی پسند اور مرضی ٹھونسنا چاہتا ہے۔ گھر میں جو پکا ہے وہ کھانا پڑتا ہے جو دوسرے چاہیں وہ کرنا پڑتا ہے۔ دفتر کے جیسے بھی ضابطے ہوں یا ان میں کیسی بھی ترامیم ہوتی رہتی ہوں اسے موسٹ اوبیڈینٹ سرونٹ بن کر ان کی تعمیل کرنا پڑتی ہے۔ تو کیا وہ اوروں کے احکامات بجا لانے اور ان کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے پیدا ہوا ہے؟ خود اس کا اپنے اوپر کوئی حق نہیں ! اسے کسی بات کا اختیار نہیں! افسوس اس نے آج سے پہلے کبھی اس پر غور نہیں کیا کہ کسی کو اس کے جذبات و محسوسات جاننے کی پروا ہ نہیں۔ لیکن وہ ایسا نہیں ہونے دےگا۔ وہ انہیں بتائے گا کہ اس کی اپنی آزاد اور خودمختار شخصیت ہے اور کسی کو اس کی آزادی سلب کرنے کا کوئی حق نہیں۔ وہ چونکتا ہے منی اخبار لے کر اندر آتی ہے اور تپائی پر رکھ کر چلی جاتی ہے وہ اخبار اٹھا کر شہ سرخی پڑھتا ہے۔ شاید شارکیں کہیں پڑوس کے کسی چھجے پر جا بیٹھی ہیں دور سے ان کی آواز سنائی دیتی ہے۔

    ’’جھوٹ، جھوٹ، جھوٹ۔‘‘

    وہ اخبار اٹھا کر ایک طرف رکھ دیتا ہے اور سگریٹ سلگا کر پینے لگتا ہے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے اسے ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے اس نے اپنی آزادی اور خود مختاری کا اعلان کر دیا ہو اپنے بہت سے آقاؤں کے خلاف بغاوت کا علم بلند کر دیا ہو اسی لمحے سامنے کے مکان کے چھجے پر ایک موٹا تازہ کوا آ بیٹھتا ہے اور بلند آواز سے کہتا ہے ’’دروغ‘‘

    وہ اٹھ کر کھڑکی کا دوسرا پٹ بھی بند کر دیتا ہے۔ پٹ بند ہونے کی آواز سے کوا اڑ جاتا ہے لیکن اسے لگتا ہے جیسے وہ چھجے سے اڑ کر اس کے اندر کی کسی منڈیر پر آ بیٹھا ہو اور اس کی ہر بات اور سوچ پر دروغ دروغ کی رٹ لگا کر پانی پھیرنے لگا ہو۔

    تب بھابی اندر آتی ہیں اور ایک نظر اسے دیکھ کر کمرے میں بکھری چیزوں کو ٹھیک کرنے لگتی ہیں، وہ اخبار میں پناہ لیتا ہے۔ وہ کہتی ہیں۔ ’’اچھا ہوا تم جلدی اٹھ گئے، ناشتہ کر کے مجھے آپا کے ہاں سے کپڑے لا دو انہوں نے ٹانک دئیے ہوں گے؟‘‘

    اس کا جی چاہتا ہے وہ ان سے پوچھے کہ کپڑے کس کے ہیں ؟ لیکن پھر اسے خیال آتا ہے کہ جب اسے لا کر دینے ہی نہیں ہیں تو اسے اس سے کیا غرض کہ کپڑے بھابی کے اپنے ہیں یا انہوں نے پڑوس والوں کے لئے بنائے ہیں۔

    ’’بھابی آپ کسی اور سے منگوا لیجئے مجھے ایک ضروری کام سے کہیں جانا ہے۔‘‘

    ’’ایسا کون سا ضروری کام آ پڑا ہے تجھے آج کے دن؟‘‘

    ’’کیوں آج کیا کوئی انوکھا دن ہے؟‘‘

    وہ اس کی طرف غور سے دیکھتی ہیں تو اسے شک گزرتا ہے کہیں اس کی آواز بھرّا تو نہیں گئی تھی!؟

    ’’آج۔۔ تمہیں پتہ تو ہے بھیا۔ آج کیا ہے۔ پڑوس میں تمہاری ضرورت ہوگی۔‘‘

    ’’میری کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔‘‘

    ’’پڑوسیوں کے بڑے حقوق ہوتے ہیں۔ محلے داری ہے آخر‘‘

    ’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘ وہ رکھائی سے کہتا ہے۔ ’’آج مجھے فراغت نہیں‘‘

    بھابھی کچھ دیر خاموش رہتی ہیں پھر کہتی ہیں:

    ’’تم مرد لوگ بہت بے حوصلہ ہوتے ہو اور خود غرض بھی۔‘‘

    ’’کیا مطلب؟‘‘

    ’’ذرا سی تکلیف برداشت نہیں کر سکتے۔ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہو اور بےچاری عورت۔‘‘

    ’’پتہ نہیں آپ کیا کہہ رہی ہیں؟‘‘

    ’’میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ رات تمہارے بھائی جان کے سر میں درد تھا۔ ساری رات خود سوئے نہ مجھے سونے دیا۔ حالانکہ جب کبھی رات کو مجھے پتے کا شدید درد بھی ہوتا ہے میں محض اس لئے ہائے وائے نہیں کرتی کہ ان کی نیند خراب نہ ہو۔‘‘

    ’’آپ بھائی جان کا غصہ مجھ پر اتار رہی ہیں ! کیسے ہیں وہ؟‘‘

    ’’اب مزے سے سو رہے ہیں مجھے سر درد میں مبتلا کر کے۔‘‘

    ’’اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا جواب دے۔ لیکن اس خیال سے کہ بات بڑھ نہ جائے وہ نرم لہجے میں کہتا ہے۔‘‘

    ’’میں جلد واپس آ جاؤں گا۔‘‘

    ’’اچھا چلو نہا دھو کر ناشتہ کر لو۔‘‘

    ’’میں ناشتہ بھی وہیں کروں گا۔ مجھے جلدی ہے۔‘‘

    ’’اچھا جیسے تمہاری مرضی۔۔ مگر موٹر سائیکل نہ لے جانا۔ تمہارے بھائی جان کو ضرورت ہوگی۔‘‘

    ’’جی اچھا۔‘‘

    وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے آتا ہے منہ ہاتھ دھو کر کپڑے بدلتا اور باہر جانے لگتا ہے اس کی والدہ کہتی ہیں :

    ’’جلدی آ جانا بیٹے۔ بہت سے کام ہیں۔‘‘

    ’’کام کام کام‘‘ وہ زیر لب بڑبڑاتا ہے اور تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل جاتا ہے گلی میں ابھی سے بہت شور اور بھاگ دوڑ شروع ہو گئی ہے۔ شامیانے لگ رہے ہیں۔ قناتیں تانی جا رہی ہیں۔ پیاز چھیلے جا رہے ہیں اور اینٹیں جوڑ کر بڑے بڑے چولہے بنائے جا رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے ابھی کوئی اسے آواز دے کر بلا لےگا۔ وہ جلد از جلد ان آشنا لوگوں اور آوازوں سے دور چلا جانا چاہتا ہے۔

    تھوڑی دور جا کر گلی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے وہ پہلے دائیں جانب کو قدم بڑھاتا ہے پھر کچھ سوچ کر بائیں جانب کو مڑ جاتا ہے۔ ابھی دکانیں نہیں کھلیں۔ ویسے بھی آج چھٹی کا دن ہے صرف دودھ دہی، بیکری، قصاب اور حجاموں کی دکانیں کھلی ہیں۔ دینو حلوائی کی دکان پر نہاری اور حلوہ پوری خریدنے والوں کا ہجوم ہے۔ اس کا جی نہاری کھانے کو چاہتا ہے مگر وہ جلد از جلد اپنی آزادی میں مخل ہونے والے جان پہچان کے لوگوں سے دور نکل جانا چاہتا ہے۔

    سڑک پر پہنچ کر اپنی طرف والے بس اسٹاپ پر کھڑا ہو جاتا ہے مگر پھر یہ دیکھ کر کہ دوسری جانب والی بس پہلے آ گئی ہے۔ وہ سڑک پار کر کے جلدی سے بس پر سوار ہو جاتا ہے۔ بس کنڈیکٹر ٹکٹ کے لئے کہتا ہے تو فوری طور پر اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس جگہ کا ٹکٹ خریدے لیکن ساتھ والا مسافر ریلوے سٹیشن تک کا ٹکٹ مانگ کر اس کی مشکل آسان کر دیتا ہے۔

    ریلوے اسٹیشن کے سامنے فٹ پاتھ پر چلتے ایک میلا کچیلا لڑکا جس کے جسم پر صرف ایک قمیص ہے۔ اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے۔

    ’’کیوں مانگتے ہو؟‘‘

    ’’بھوکا ہوں۔‘‘

    ’’کیوں بھوکے ہو؟‘‘

    ’’میرے ماں باپ نہیں ہیں۔‘‘

    ’’اچھا ہے نہیں ہیں۔‘‘ وہ کہتا ہے۔ ’’اگر ہوتے تو تم اپنی مرضی سے بھیک بھی نہیں مانگ سکتے تھے‘‘

    وہ لڑکے کو کچھ پیسے دیتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے۔

    ریلوے اسٹیشن پر بہت رونق ہے۔ لوگ آ رہے ہیں جا رہے ہیں۔ انکوائری سے معلومات حاصل کر رہے ہیں۔ قلیوں کو پیسے دے رہے ہیں۔ عزیزواقارب سے گلے مل رہے ہیں۔ وہ مختلف گاڑیوں کے اوقات اور کرائے نامے پڑھنے لگتا ہے اس کا جی چاہتا ہے کسی اپ ٹرین میں بیٹھ کر چچا کے ہاں چلا جائے۔ لیکن پھر اس خوف سے کہ اس کے پاس اپنی چچا زاد کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں، وہ ارادہ بدل لیتا ہے۔ پھر اسے خیال آتا ہے کہ کسی ڈاؤن ٹرین کے ذریعے ماموں کے ہاں چلا جائے۔ مگر پھر اسے ممانی کی تیوری کے بل یاد آ جاتے ہیں اور وہ کچھ بھی فیصلہ نہیں کر پاتا۔ پلیٹ فارم ٹکٹ خرید کر پلیٹ فارم پر آ جاتا ہے اور ایک پورا چکر لگاتا ہے پھر چائے کے اسٹال پر کھڑے ہو کر ناشتہ کرتا ہے۔ ناشتے سے فارغ ہو کر ایک بنچ پر آ بیٹھتا ہے اور گاڑی کا انتظار کرنے لگتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد گاڑی آ جاتی ہے۔ وہ ہجوم سے ہٹ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور چڑھنے اور اترنے والوں کو خالی نظروں سے دیکھتا رہتا ہے پھر جب گاڑی چلی جاتی اور پلیٹ فارم خالی ہو جاتا ہے تو وہ دوبارہ اسی بنچ پر آ بیٹھتا ہے اور دوسری گاڑی کا انتظار کرنے لگتا ہے۔ اچانک اس کے ذہن میں سوچ کا ایک چیونٹا کلبلاتا ہے کہ جب اسے معلوم ہی نہیں کہ اسے کہاں جانا ہے تو وہ ایک گاڑی کے چلے جانے کے بعد دوسری اور پھر تیسری گاڑی کا انتظار کیوں کر رہا ہے۔ وہ اٹھ کر ریلوے اسٹیشن سے باہر آتا ہے۔ چوک پر پہنچ کر کچھ دیر سوچتا ہے۔ پھر بڑے بازار کی طرف چل دیتا ہے۔

    تھوڑی دور جا کر اسے اپنا ایک دوست مل جاتا ہے علیک سلیک کے بعد وہ اس سے ضروری کام کا بہانہ کر کے جلد جلد رخصت ہوتا ہے۔ اور کھلی اور بند دکانوں کے آگے سے گزرتا بڑے چوک پر آ جاتا ہے۔ یہاں پرانی کتابوں کے اسٹال ہیں وہ ایک اسٹال پر رک کر کتابوں کی ورق گردانی کرتا ہے۔ پھر دو رویہ سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر چلنے لگتا ہے۔

    چڑیا گھر کا بورڈ دیکھ کر رک جاتا ہے پھر ٹکٹ خرید کر چڑیا گھر میں داخل ہو جاتا ہے۔ چڑیا گھر میں جانوروں اور پرندوں کو کٹہروں اور پنجروں میں بند دیکھ کر اس کا دم سا گھٹنے لگتا ہے وہ جلد از جلد اس ماحول سے نکل جانا چاہتا ہے کہ شیر کے دھاڑنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ شیر کی آواز سن کر چاروں طرف سے تماشائی اس کے کٹہرے کے سامنے جمع ہونے لگتے ہیں۔ کیا دیکھتا ہے کہ شیر فرش پر بیٹھا تماشائیوں کے ہجوم اور قید کی ایک جیسی زندگی سے اکتا کر زور زور سے دھاڑ رہا ہے وہ تماشائیوں سے جس قدر بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔ اتنے ہی زیادہ تماشائی جمع ہو جاتے ہیں پھر ایک عجیب واقعہ پیش آتا ہے۔ شیرنی اپنی جگہ سے اٹھتی ہے اور اس کے قریب آ کر اپنا سر اس کے سر سے رگڑتی ہے جیسے دلاسہ دے رہی ہو اور شیر کی آواز رفتہ رفتہ تھم جاتی ہے۔ اسے بھابی کی بات یاد آتی ہے کہ تم مرد لوگ بہت بے حوصلہ ہوتے ہو۔ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہو اس کا جی چاہتا ہے تمام پنجروں کے پٹ کھول کر چڑیا گھروں کے سبھی جانوروں اور پرندوں کو آزاد کر دے مگر پھر اسے کمزور جانوروں کا خیال آتا ہے جو کٹہروں سے نکلتے ہی طاقتور درندوں پرندوں کا لقمہ بن جائیں گے۔ وہ آگے بڑھتا اور ہرنیوں کو ریلنگوں اور خاردار تاروں سے گھرے جنگلے میں بے فکری سے ٹہلتے دیکھ کر سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ وہ جنگل کی نسبت یہاں کس قدر محفوظ ہیں۔ کسی چیتے کی گھات کا ڈر نہ کسی شکاری کی بندوق کا خوف، تو کیا کمزوروں کی بقا صرف قید اور غلامی میں ہے۔ وہ آزادی کا ایک دن بھی چین اور اطمینان سے نہیں گزار سکتے؟ وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا اور جھنجھلا کر باہر نکل آتا ہے۔

    دوپہر ڈھلنے لگی ہے اور اسے بھوک ستا رہی ہے۔ وہ ایک چھوٹے سے ہوٹل میں داخل ہو کر کھانا کھاتا ہے۔ پھر سگریٹ کے کش لگاتا ہوا باہر آتا اور سڑک کے کنارے ایک اونچی دیوار پر چڑھ کر بیٹھ جاتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا سگریٹ سلگاتا اور گزرنے والی گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں پڑھنے لگتا ہے۔

    اچانک اسے خیال آتا ہے کہ وہ حساب لگا کر دیکھے ایک گھنٹے میں مختلف اقسام اور ماڈلوں کی کتنی گاڑیاں وہاں سے گزرتی ہیں۔ اس سے چوبیس گھنٹوں میں وہاں سے گزرنے والی گاڑیوں کا اوسط نکالنے میں آسانی رہے گی۔ پھر وہ ایک ماہ اور پھر ایک سال کا اوسط نکالتا ہے۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اب ان اعداد و شمار کا کیا کرے؟

    دیوار پر چڑھ کر بیٹھے بیٹھے اور گاڑیوں کی تعداد گنتے گنتے سہ پہر ہو جاتی ہے، درختوں کے سائے لمبے ہو جاتے اور گرمی کی شدت میں کمی آ جاتی ہے۔ وہ ایک طرف کو سایہ دار درختوں کے نیچے چلتا رہتا ہے اور شہر کی سب سے بڑی سیر گاہ میں داخل ہوتا ہے۔ سیر گاہ میں خوش لباس لوگ اور خوبصورت بچے ہر طرف دکھائی دیتے ہیں۔ اسے بچے اچھے لگتے ہیں۔ وہ انہیں دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ مصنوعی آبشاروں سے گرتا پانی اور چاروں طرف کھلے ہوئے رنگ برنگ خوشنما پھول دیکھ کر اس کے اندر کی گھٹن کم ہونے لگتی ہے۔ اسی لمحے ایک خوبصورت عورت اس کے قریب سے گزرتی ہے اور اسے میٹھی نظروں سے دیکھتی ہے۔ اس کا دل دھک دھک کرنے لگتا ہے۔ یقیناً وہ بھی اس کی طرح تنہا اور ویران ہوگی اور اس نے بھی انہی دنوں اپنی آزادی اور خود مختاری کا اعلان کیا ہوگا۔ مگر پھر اسے مصنوعی جھیل کی طرف پرواز کرتے پرندوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔

    ’’مکر مکر مکر‘‘

    ’’جھوٹ، جھوٹ، جھوٹ۔‘‘

    ’’ریا۔ ریا۔ ریا‘‘

    ’’دروغ۔ دروغ۔ دروغ۔‘‘

    اس کے اندر درد کی ٹیسیں جاگتی ہیں۔ وہ پھولوں اور بچوں کی طرف توجہ دینا چاہتا ہے۔ مگر درد کی ٹیسیں پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ وہ تھکے ہوئے پاؤں اٹھاتا مین گیٹ کی طرف چل دیتا ہے۔

    اس کی جیب میں کرایہ موجود ہے لیکن وہ پیدل چلتا ہے۔ سڑکوں بازاروں اور گلیوں میں گھومتا مکانوں پر لگی نیم پلیٹوں اور دکانوں کے سائن بورڈ پڑھتا چلتا رہتا ہے۔ پھر اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب اور کیسے وہ دروغ بھرے دن کے غروب ہونے پر اپنے گھر کی گلی میں داخل ہو گیا۔ لمحہ بھر کے لیے ٹھٹکتا ہے پھر آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر چلنے لگتا ہے۔ گلی میں آوارہ کتے جگہ جگہ ہڈیاں چچوڑ رہے ہیں۔ شامیانے اور قناتیں ہٹائی جاچکی ہیں اور اس کے گھر کے سامنے والے چھجے پر کوئی پرندہ موجود نہیں ہے۔ وہ تھکا ہارا نڈھال سا گھر میں داخل ہوتا ہے تو سب لوگ اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔

    ’’کہاں تھے تم؟‘‘ والدہ پوچھتی ہیں۔

    ’’سارا دن کہاں غائب رہے؟‘‘ بہن کہتی ہے۔

    ’’ایسا کون سا ضروری کام آ پڑا تھا؟‘‘ بھائی گرجتا ہے۔

    باؤ جی غصے میں کمرے سے باہر آتے ہیں اور کہتے ہیں۔

    ’’صبح کے گئے ہوئے تم پورا دن ضائع کر کے اب آر ہے ہو تمہیں شرم آنی چاہیے۔‘‘

    ’’شرم کس بات کی باؤ جی۔‘‘ وہ غصے سے کہتا ہے۔ ’’کیا مجھے اپنی زندگی کا ایک دن بھی اپنی مرضی سے گزارنے یا ضائع کرنے کا اختیار نہیں‘‘

    بھابی قریب آتی ہیں اور چڑیا گھر کی شیرنی کی طرح اس کے سر کے ساتھ اپنا سر جوڑ کر کہتی ہیں۔ ’’تم تو مرد ہو دل بڑا کرو بھیا۔۔ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائےگا۔‘‘

    ’’اب کیا رہ گیا ہے جو ٹھیک ہو جائےگا۔‘‘

    وہ ضبط کرنے کی بہت کوشش کرتا ہے مگر کئی دنوں کا روکا ہوا رونا ضبط کے سارے بندھن توڑ دیتا ہے۔ گھر کے لوگ سہم جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں ان پوچھے سوالوں کا جواب تلاش کرنے لگتے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے