Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غصے کی نئی فصل

اسد محمد خاں

غصے کی نئی فصل

اسد محمد خاں

MORE BYاسد محمد خاں

    کہانی کی کہانی

    شیر شاہ سوری کے سلطنت کے ایک باشندے کی کہانی جس کا تعلق شیر شاہ کے ہی گاؤں سے ہے۔ ایک دن وہ شخص شیر شاہ سے ملنے جانے کا ارادہ کرتا ہے اور بطور نذرانہ گاؤں کی مٹی ایک سفید کپڑے میں باندھ لیتا ہے۔ دار السلطنت پہنچ کر وہ جس سرائے میں ٹھہرتا ہے، وہاں رات میں اس کا سامنا ایک عجیب و غریب واقعہ سے ہوتا ہے جس سے وہ اس قدر بدگمان ہوتا ہے کہ وہ بادشاہ سے ملے بغیر واپس آ جاتا ہے۔

    حافظ شکراللہ خان اپنی بات اجمالاً ہی کہنا پسند کرتا تھا۔ حافظ شکراللہ خان اچھا خاصا صاحب علم اور کم گو آدمی تھا، شاید اسی لیے اپنی بات اجمالاً کہنا پسند کرتا تھا، چنانچہ اسے تفصیلات سے اور وقت ضائع کرنے سے الجھن ہوتی تھی۔

    گٹھے ہوئے ورزشی بدن کا یہ پڑھا لکھا روہیلہ آس پاس کے دیہات میں غصہ ور مشہور تھا۔ شاید اسی لیے پیٹھ پیچھے اسے حافظ گینڈا کہا جاتا تھا۔ یہ بات حافظ شکراللہ خان کے علم میں تھی کہ اسے حافظ گینڈا کہا جاتا ہے مگر وہ ایک نوع کے حلم و درگزر سے کام لیتا تھا۔ اس نے اب تک صرف ان لوگوں کو زدوکوب کیا تھا جنہوں نے توہین کے ارادے سے اور عمداً اسے اس کے منہ پر حافظ گینڈا کہا تھا۔ نادانستہ گینڈا کہنے والوں، بچوں اور ہم چشموں کی بے تکلفانہ بےادبی کو وہ منہ پھیر کر ٹال دیا کرتا تھا۔

    حافظ شکراللہ خان گینڈے میں ایک عجیب بات اور بھی تھی۔ وہ لادین لوگوں اور دوسرے مذہبوں مسلکوں والوں سے بھی خندہ پیشانی سے پیش آتا تھا۔ کہتا تھا بھل منسی میں کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ وہ ہمارا کیا لیتے ہیں جو ہم سے متفق نہیں، وہ بے چارے تو ویسے ہی نقصان میں ہیں۔ دیہات میں بسے ہوئے کسی بھی ملاں کا یہ رویہ عامۃ المسلمین کو حیران کر دینے کے لیے کافی ہونا چاہیے تھا، مگر لوگ حیران نہیں ہوتے تھے۔۔۔ انہیں حافظ شکراللہ خان کا مزاج معلوم تھا۔

    حافظ شکراللہ خان، کوہِ سلیمان کے دامن میں دریائے گوئل کے کنارے آباد ایک گاؤں روہری میں رہتا تھا۔ اس نے اپنے بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ روہری گاؤں صاحب السیف سلطان عادل، شیر شاہ سوری کے بزرگوں کا آبائی وطن ہے۔ شیرشاہ کے دادا ابراہیم خان سوری اپنے نو عمر بیٹے میاں حسن خان کے ساتھ روہری سے چلے تھے تو پھر لوٹ کر نہیں آئے تھے۔ ابراہیم خان نے پنجاب کے شہر نارنول میں اور میاں حسن خان سوری نے سہسرام، بہار، میں انتقال کیا تھا۔ سب کی طرح حافظ شکراللہ خان بھی سمجھتا تھا کہ جب باپ اور دادا نہیں آئے تو اب سلطان شیر شاہ اس بھولے بسرے گاؤں میں کیا آئیں گے۔

    اس طرح استدلال کر کے حافظ شکراللہ خان نے طے کیا کہ اگر پہاڑ میری طرف نہیں آتا تو لاؤ میں ہی پہاڑ کی طرف چلوں۔ پس شکراللہ خان گینڈے نے گھر والوں سے مشورے کے بعد دارالخلافہ جانے کا ارادہ کر لیا اور تیاریاں شروع کر دیں۔ شکراللہ خان نے ملک پنجاب و ملتان سے آگے سرہند، بہار، بنگالہ، مالوہ اور خاندیش کے نظم و نسق اور خوش حالی کے قصے اور عالموں، دانش مندوں کا احوال سنا تھا۔ اس نے روہری گاؤں کے فرزند جلیل فرید خان شیر شاہ کے قصے سنے تھے جس نے قلیل مدت میں سات آٹھ سو کوس لمبی شاہ راہ بنوائی تھی، زمینوں کا انصرام درست کیا تھا، ہند کے شورش زدہ علاقوں میں امن قائم کیا تھا اور اپنی تلوار اور تدبر سے فتنہ انگیزیوں اور شرارتوں کا خاتمہ کرکے خلقت کے لیے خدا کی زمین رہنے لائق بنا دی تھی۔

    شکراللہ خان گینڈا ایک بار یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ ایک بار سلطانِ عادل شیر شاہ کو بھی دیکھنا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نےاللہ کا نام لیا، گھوڑے پر زین کسی، گاڑھے کی ایک چادر میں وہ کتابیں باندھیں جن سے زیادہ دن جدا نہیں رہا جا سکتا تھا اور شیرشاہ سے ملنے چل پڑا۔ حافظ شکراللہ نے اپنے بڑوں سے سیکھا تھا اور سرکاروں درباروں سے ہوکر آنے والوں سے سن رکھا تھا، کہ لوگ کسی تاج دار کی خدمت میں پیش ہوں تو انہیں نذر گزارنی ہوتی ہے، کوئی ایسا تحفہ دینا ہوتا ہے جو پیش کرنے والے اور قبول کرنے والے دونوں کے لیے قیمتی ہو۔ حافظ نے بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا تھا کہ حضرتِ والا جاہ، سلطان ہند کے لیے اسے کیا سوغات لے جانی چاہیے۔

    شکراللہ خان اپنے گاؤں کے اس ٹبے پر گیا تھا جہاں بزرگ بتلاتے تھے کہ کبھی سوریوں کا حجرہ اور باڑا تھا۔ اس نے تین مرتبہ کھوبے بھر بھر کے اس ٹبے کی مٹی اٹھائی تھی اور زربفت کے ایک پارچے میں، جو اسے کسی لشکری نے جزدان بنانے کی غرض سے دیا تھا، یہ مٹی باندھ لی تھی۔ زربفت کے پارچے میں بندھی یہ مٹی اور اپنی پسندیدہ کتابیں اٹھائے حافظ لشکراللہ خان پہلے اپنی پھوپھی کے گھر حسن ابدال پہنچا۔ حسن ابدال میں سات روز ٹھہر کے بافندوں کی ایک جماعت کے ساتھ وہ لاہور آ گیا۔ لاہور خوش اوقات بے فکرے لوگوں کا شہر تھا اور شکراللہ کم آمیز، خاموش طبع آدمی۔ وہ پانچ روز بافندوں کے ڈیرے پر پڑا سفر کی تھکن دور کرتا رہا، شہر کی چمن بندی اور بھیڑ بھڑکا دیکھنے بھی نہ نکلا۔ چھٹے روز رسد لے جانے والے بنجاروں کی بیل گاڑیوں کے ساتھ ہو لیا اور گھوڑے کو تھکائے بغیر دارالخلافے کی منزلیں سر کرنے لگا۔

    حافظ شکراللہ خان روہری سے کچھ رقم لے کر چلا تھا۔ حسن ابدال میں محبت کی ماری پھوپھی نے مٹھی بھر چاندی کے سکے حافظ کے کیسے میں ڈال دیے تھے اور لاہور تک جن بافندوں کے ساتھ آیا تھا وہ بھلے لوگ تھے، حافظ کو راہ میں کچھ خرچ ہی نہ کرنے دیتے تھے، کہتے تھے ہمارے لیے یہ سعادت کی بات ہے کہ ایک عالم و فاضل ملاں ہم سفر ہے۔ چنانچہ دارالخلافہ جاتے ہوئے شکراللہ خان کے پاس اچھی خاصی رقم موجود تھی۔ راستے بھر بنجارے اس کوشش میں لگے رہے کہ اس رقم میں سے کچھ ہتھیا لیں مگر حافظ گینڈے نےموقع ہی نہ دیا۔ بنجارے اس کے علم و فضل سے تو کیا مرعوب ہوتے، گینڈے نے اپنے گٹھے ہوئے بدن اور اپنی تلوار سے انہیں قابو کیا اور بالآخر رسد کے اس قافلے سے بچھڑ جانے ہی میں عافیت سمجھی۔

    لاہور بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ دارالخلافہ ابھی کچھ فاصلے پر تھا۔ سرکاری سرایوں میں بھیڑ بڑھتی جا رہی تھی۔ پیسے کی بچت بے شک تھی مگر حافظ ہجوم سے گھبراتا تھا۔ جیسے جیسے دار الخلافہ نزدیک آ رہا تھا، سڑک کے آس پاس بستیوں کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی۔ ان بستیوں میں مساجد بھی تھیں اور نج کی سرائیں، مہمان خانے بھی۔ حافظ شکراللہ خان نے سوچا، مسجدوں کے منتظمین تو خوش ہوکر اسے ٹھہرا لیں گے۔ پھر خیال آیا کہ پیش اماموں، مؤذنوں کی روٹی میں حصہ بٹانے کی بجائے کیوں نہ رقم خرچ کر کے کسی نجی سرائے میں ٹھہر جاؤں۔ منزل دو منزل سر کر کے شہر پہنچ جاؤں گا۔ پھر ضرورت پڑی تو کوئی نوکری کرلوں گا۔ دارالخلافوں میں ہزار کام ہوتے ہیں۔ تو اس طرح نجی مہمان خانوں، سرایوں میں رکتا ٹھہرتا، حافظ شکراللہ خان دار الخلافے پہنچ گیا۔

    شہر کی وہ سرائے جہاں حافظ نے ٹھہرنے کا ارادہ کیا تھا، کتب خانے کے نزدیک تھی۔ شکراللہ خان نے سوچا، شہر گھومنے سے بھی کیا ملےگا؟ شہر سبھی ایک سے ہوتے ہیں۔ مجھے یہاں چند ہی روز تو رہنا ہے۔ یہ دن سرکاری کتب خانے میں لگا دوں گا۔ کتابیں دیکھنے، اپنے مطلب کی چیزیں نقل کرنے سے اچھی سیر اور کیا ہوگی! وہ سرائے کے منتظم سے ملا، سرائے میں ٹھہرنے کا کرایہ، کھانے پینے کا خرچ معلوم کیا۔ سہولتوں کے اعتبار سے کرایہ زیادہ نہ تھا۔ کھانے پینے پر بھی وہی خرچ آ رہا تھا جتنا بڑے شہروں میں اچھی سرایوں میں ہوتا ہے۔ بس ایک مشکل تھی، سرائے میں کوئی سموچا کمرہ، کوٹھری خالی نہ تھی۔ سرائے کے منتظم نے کہا، ’’چاہو تو چار بستروں والے کمرے میں ایک بستر آپ لے سکتے ہو۔‘‘

    حافظ بولا، ’’اے بھائی! جو ہجوم کے ساتھ ہی رہنا ہوتا تو مفت کی سرکاری سرائیں کیا بری تھیں؟‘‘ سرائے کا منتظم کتابوں کا پشتارہ دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ یہ روہیلہ ملاں رات بھر چراغ جلا کر کتابیں پڑھےگا یا چلہ کھینچے گا، یہاں اس کا گزارہ مشکل ہے۔ اس نے حافظ شکراللہ کو قریب کی ایک سرائے کا پتا بتلا دیا۔ کہنے لگا، ’’آپ فاضل عالم آدمی ہو۔ وہاں کمرہ کوٹھری خالی ملےگی اور اپنے مطلب کے لوگ بھی مل جائیں گے۔‘‘

    ’’اپنے مطلب کے لوگ‘‘ منتظم نے مسکراکر کہا تھا۔ اس وقت یہ بات حافظ گینڈے کی سمجھ میں نہ آسکی، تاہم اس نے زیادہ غور نہ کیا۔ وہ راسیں تھامے گھوڑے کو چلاتا ہوا دوسری سرائے میں پہنچا تو خوش ہو گیا۔ یہاں ایک پورا کمرہ خالی تھا، جگہ صاف ستھری اور کم خرچ تھی اور دوسری جگہوں کے مقابلے میں شور شرابا بھی بہت کم، سمجھو نہ ہونے کے برابر تھا۔

    حافظ نے سرائے کے اصطبل میں اپنا گھوڑا باندھا۔ کمرے میں کتابوں کا بقچہ، رزبفت کی پوٹلی، ہتھیار اور دوسرا سامان رکھا، کاغذ قلم دان سنبھالا اور کتب خانے کی راہ لی۔ حافظ گینڈا سخت کوش پہاڑی آدمی، کھانے پینے میں شہریوں کی طرح تکلف کیا کرتا۔ کتب خانے میں دن گزارنا تھا، چار چھ مٹھی بھنے ہوئے چنے فرغل کی جیب میں ڈالے اور جم کے بیٹھ گیا۔ دوپہر بعد حافظ شکراللہ ظہر کی نماز کے لیے اٹھا، کتب خانے کے چھوٹے باغیچے میں ترنج کے ایک ہرے بھرے پھل دار درخت کے سائے میں فرض پڑھے، مٹھی بھر چنے چبائے، پانی پیا۔ کتب خانے کی سیڑھیوں کے پاس دھوپ میں ایک پھیری والا آن بیٹھا۔ وہ کوئلے کی انگیٹھی سے برتن باندھے، بہنگی سی بنائے، راستوں، بازاروں میں عربی قہوہ بیچتا پھرتا تھا۔

    سکون کی جگہ دیکھ کر اب جو سستانے بیٹھا تو شکراللہ خان کو اس تھکے ماندے کی بیٹھک بھلی لگی۔ قہوے کی طلب نہ تھی مگر حافظ نے اس سے قہوہ خریدا اور پاس ہی سیڑھیوں پر بیٹھ کر پینے لگا۔ قہوہ اچھا تھا۔ حافظ شکراللہ خان جیسے کھل اٹھا۔ دو تین فنجان قہوے کے اور خرید کیے۔ دام دے کر اٹھنے ہی کو تھا کہ دیکھا کتب خانے کے دروازے سے ایک نوعمر آدمی برآمد ہوا ہے۔ وہ ادھر ہی آ رہا تھا۔ نووارد نے حافظ کو کتابوں کے درمیان بیٹھے دیکھا ہوگا، سلام کر کے بولا، ’’فاضل! کچھ دیر بیٹھیے۔ ایک فنجان میری طرف سے پی لیجیے۔‘‘

    نوجوان نے اہل زبان کی رواں فارسی میں بات کی تھی۔ گینڈے نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور بیٹھ گیا۔ ’’ٹھیک ہے، ایک فنجان اور سہی!‘‘ اس نے قہوہ لیا، نووارد کو اپنا نام بتایا، اس کا نام پوچھا۔ آنے والا اصفہان سے آیا تھا۔ وہ اپنا نام فے روز بتاتا تھا۔ دونوں ہلکی پھلکی باتیں کرتے رہے۔ فے روز منطق اور تواریخ کی تعلیم لے رہا تھا اور شہر جون پور کے کسی فاضل کی شاگردی کی نیت سے گھر سے نکلا تھا۔ قہوہ ختم کر کے دونوں سیڑھیاں چڑھتے پھر کتب خانے میں جا بیٹھے۔ حافظ شکراللہ مغرب تک کتب خانے کے فراخ دریچے سے لگا بیٹھا پڑھتا رہا۔ اذان سے کچھ دیر پہلے وہ اٹھا اور کتب خانے سے نکل گیا۔ دور گوشے میں کتابوں کے چھوٹے سے انبار کے پاس بیٹھا فے روز اصفہانی کاغذ پھیلائے کچھ نقل کر رہا تھا۔

    شکراللہ خان کا یہ پہلا دن بھرپور گزرا تھا۔ عشا سے قبل سرائے میں کھانا کھا کے اس نے بازار کا ایک چکر لگایا۔ شہر کے مرکزی علاقے میں افغانوں کے نو تعمیر مدرسے سے ملی ہوئی چھوٹی سی مسجد تھی۔ حافظ نے وہاں عشا کی نماز پڑھی۔ پھر کچھ بھٹکتا، پوچھتا پاچھتا وہ اپنی سرائے میں لوٹ آیا۔ تھکا ماندہ تھا۔ فوراً ہی سو گیا۔

    خدا معلوم حافظ گینڈے نے ایک پہر نیند لی ہوگی یا دوپہر، جو اسے آدھے جاگتے آدھے سوتے میں لگا کہ جیسے ایک آدم خور غول بیابانی چیختا بلبلاتا اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ وہ بھاگا، جان بچانا چاہتا ہے مگر زمین نے جیسے اس کے پاؤں پکڑ لیے ہیں۔ بدن کی پوری طاقت سے وہ خود کو آزاد کرنا چاہتا تھا۔ پہلے پہل اسے کامیابی نہ ہوئی۔ غول بیابانی بپھرے ہوئے اونٹوں کے گلے کی طرح بلبلاتا، تعزیر سہتے جانداروں کی طرح پکارتا، بین کرتا، اس کے بالکل پیچھے۔ سمجھو دو قدم کے فاصلے تک آ گیا۔ آدم خور اپنے پنجے بڑھا کر حافظ شکراللہ کو چھو سکتے تھے اور کسی ایک نے تو اپنا نوکیلا پنجہ بڑھا کر اس کی پشت پر خراشیں بھی ڈال دیں۔۔۔ تس پہ شکراللہ خان نے ایک دبی ہوئی چیخ ماری اور جاگ پڑا۔ وہ بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔

    معاذ اللہ! یہ کیسا خواب تھا، حافظ نے سوچا۔ مگر یہ سراسر خواب نہیں تھا، کچھ حقیقت بھی تھی۔ کس لیے کہ چیخ پکار اور غیظ کی آوازوں سےکمرہ جیسے بھرا ہوا لگتا تھا۔ حافظ کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ خدا پناہ میں رکھے! یہ کیسی آوازیں ہیں؟ یہاں، اس کمرے میں، یہ کیسی بلائیں آ گھسی ہیں؟ اس نےاٹھ کر چراغ کی لو بڑھائی۔ تکیے کے نیچے ہاتھ پہنچا کر اپنا پیش قبض نکالا، نیفے میں اڑس لیا۔ کمرے میں کوئی اور نہ تھا، بس یہ رونگٹے کھڑے کرنے والی آوازیں گرد و پیش سے، اوپر سے، حد یہ کہ فرش تک سے چلی آ رہی تھیں۔

    حافظ گینڈے نے بدن کو دلائی میں اچھی طرح لپیٹا، چراغ اٹھایا اور نیام کی ہوئی تلوار لیے کمرے سے باہر آ گیا۔ سوچ رہا تھا کہ کہیں سرائے پر رہزنوں نےتو حملہ نہیں کر دیا۔ مگر یہ بھرا پرا شہر تھا اور شہر بھی کون سا۔۔۔ دارالخلافہ۔ شیر شاہ کی عمل داری میں ڈاکوؤں لٹیروں کی یہ ہمت کہاں ہوسکتی تھی کہ بستیوں پر یوں چڑھ دوڑیں۔ رہزنوں کی تو اس وقت بن آتی ہے جب حکمراں کم زور یا بددیانت ہوں۔ شیر شاہ نہ تو کم زور سلطان تھا نہ بددیانت حکمراں۔ حافظ شکراللہ خان نے سوچا، شاید سرائے میں آگ لگی ہے اور لوگ جانیں بچا کر بھاگتے ہیں، مگر اس نے برآمدے میں نکل کر دیکھا، وہ صحن کی طرف بھی گیا، اسے کہیں سے جلنے کی بو نہ آئی۔ برآمدے میں اس نے دیکھا، ہر کمرے میں روشنی ہو رہی تھی مگر مسافر، مکین کوئی نہ تھا۔ صحن میں الاؤ جلتا تھا پر الاؤ کے پاس بیٹھنے والا کوئی نہ تھا۔ نہ سائیس، خادم، چوکیدار، جریب بردار، نہ کوئی مکیں، نہ مسافر۔ دور دور تک کسی کا پتا نہ تھا۔

    پھر حافظ کو سرائے کی چھت پرمشعلوں کی روشنی نظر آئی۔ آوازیں چھت ہی سے اٹھ رہی تھیں۔ اس نے چھت پر جانے کا زینہ تلاش کیا اور چراغ اور تلوار اٹھائے دھڑ دھڑاتا ہوا اوپر پہنچ گیا۔ وہاں حافظ شکراللہ خان گینڈے نے عجیب منظر دیکھا۔ اس نےدیکھا کہ سرائے کی چھت پر طرح طرح کے چراغوں، مشعلوں، دیوں، شمعوں، روشن ہانڈیوں سے جیسے رات میں بھی دن کا سماں ہے اور چالیس سے پچاس کی تعداد میں عورت مرد دائرہ بنائے بیٹھے ہیں اور حلق سے غیظ و غضب کی آوازیں نکالتے ہیں۔ کبھی تو ایسا لگتا تھا جیسے اب اٹھیں گے اور ایک دوسرے کو پھاڑ کھائیں گے۔ مگر اس طیش، اتنے غضب کے باوجود کوئی بھی اپنی جگہ سے ہلتا تک نہیں، دوسرے پر حملہ نہیں کرتا۔ بس اپنے سامنے بیٹھے مرد یا عورت کو غصے کی آوازیں کر کے آنکھیں نکال نکال کے دانت نکوستے ہوئے دہلائے جاتا ہے۔ حافظ گینڈے نے چراغ نیچے رکھ دیا۔ تلوار اپنے بدن کی اوٹ میں کر لی اور حیرت میں ڈوبا ان لوگوں کو چیخ پکار کرتے دیکھتا رہا۔

    اس نے ان میں بہت سوں کو پہچانا۔ سرائے کا مالک، جو دن میں اپنی پشت اور کہنیاں تکیوں سے ٹکائے بیٹھا ادھ کھلی آنکھوں سے مہمانوں کو آتے جاتے دیکھتا رہا تھا، وہاں موجود تھا۔ منتظم، جو ہر مہمان کو اپنا مالک بلکہ مرشد سمجھتا تھا اور ہر ایک کے آگے بچھا جاتا تھا، اس وقت وہاں جما بیٹھا تھا۔ مطبخ کے ملازم، جو سارا دن پکانے اور چکھنے میں گزار دیتے تھے اور کھا کھا کے وزنی ہوگئے تھے، وہ سبھی بیٹھے تھے۔ کئی خدمت گار، اصطبل کے خادم اور سائیس اور سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ کہ سرائے میں ٹھہرے ہوئے مسافر بھی جو اپنے لباس اور آسودہ حال طمانیت بھرے چہروں کی وجہ سے الگ پہچانے جاتے تھے، اس حلقے میں موجود تھے۔ حیرت پہ حیرت یہ تھی کہ مہمان بھی سب کی طرح چہرے مسخ کیے، دانت نکالے، آنکھیں پھاڑے اپنے سامنے والے کو دیکھتے ہوئے بلبلا رہے تھے۔

    ’’یہ میں کن لوگوں میں آ گیا؟‘‘ شکراللہ خان نے سوچا، ’’یا یہ کوئی خواب ہے؟‘‘ مگر یہ خواب نہیں تھا۔ وہ سبھی لوگ جنہیں حافظ شکراللہ نے دن کے وقت معقول طریق پر آتے جاتے، اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے دیکھا تھا، اس وقت نصف شب گزار کر وحشت زدہ ہو رہے تھے۔ ’’کیا یہ کسی قسم کے جنون میں مبتلا ہیں؟‘‘

    کیا یہ لوگ بیک وقت کسی دورے سے گزر رہے ہیں؟ کوئی خفیہ جماعت محفل کرتی ہے؟ یا کوئی شیطانی گروہ اپنی بھیانک رسمیں ادا کر رہا ہے؟ ابھی حافظ گینڈا یہاں سے ہٹنے اور کمرے میں اپنے سامان کے پاس لوٹنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ ایک شخص حلقے سے اٹھا اور منہ پر اس طرح ہاتھ پھیرتا کہ جیسے نیند سے ابھی بیدار ہوا ہو، حافظ کی طرف آیا۔ حافظ نے دیکھتے ہی اسے پہچان لیا۔ یہ سائیس تھا جس کے سپرد اس نے اپنا گھوڑا کیا تھا۔ سائیس کے بعد ایک ادھیڑ عمر کی عورت، جو اپنے چہرے کے نقوش اور اپنی کھال کی رنگت سے کسی سرد ملک سے آئی لگتی تھی، حلقہ چھوڑ کر اٹھی اور چہرے پر ہاتھ پھیرتی حافظ کی طرف آئی۔ سائیس اور عورت نے نرمی سے حافظ کا ایک ایک ہاتھ تھام لیا اور اسے حلقے کی طرف کھینچنا چاہا۔ عورت کی نظر حافظ کی تلوار پر پڑی تو اس نے چیختی آواز میں کہا، ’’توبہ! تم ہتھیار کیوں لائے ہو؟ یہ حلقہ غیظ کا حلقہ ہے۔ تلوار کا یہاں کیا کام؟ اسےرکھ دو۔۔۔ ہمارے ساتھ آؤ۔‘‘

    شکراللہ خان نے سختی کے ساتھ عورت کی گرفت سے ہاتھ چھڑا لیا۔ سائیس نے اب تک نرمی سے اس کا ہاتھ تھام رکھا تھا، اب جو حافظ نے عورت کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑایا تو سائیس نے سختی کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے حافظ کی کلائی پکڑ لی اور اسے حلقے کی طرف کھینچنے لگا، ’’آؤ! آؤ آغا۔۔۔ اور دیر نہ کرو۔ تمہیں تو پہلے ہی دیر ہو چکی ہے۔‘‘

    ’’یہ میں کس وبال میں پھنس گیا ہوں؟‘‘حافظ گینڈے نے غصے سے جھٹکا دے کر سائیس کی گرفت سے کلائی چھڑائی اور ہاتھ اٹھا کر دور ہو جانے کا اشارہ کیا۔ پھر اس نے چراغ اٹھایا اور تیز تیز قدم لیتا زینے کی طرف چلا۔

    ہاتھ چھڑا کر جاتے ہوئے اسے سبھی نے دیکھا، اس لیے پورے حلقے نےبہت ہی غضب ناک آواز میں اپنی ناپسندیدگی ظاہر کی۔ سیڑھیاں اترتے ہوئے شکراللہ خان کو یوں لگا جیسے وہ تمام چالیس پچاس وحشی جھپٹتے ہوئے پیچھے آئیں گے اور اسے پھاڑ کھائیں گے۔ حافظ گینڈے نے اتنا بھیانک غصہ، یا آوازوں سے غصے کا ایسا وحشی اظہار، کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ دلائی لپیٹے، کسی بھی پرتشدد واقعے کا سامنا کرنے کو تیار، ایک ایک قدم اترنے لگا۔ کیا خبر کب چراغ رکھ کر اسے تلوار کھینچ لینی پڑے۔ بالآخر اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ سب وحشت زدہ سرائے والے اور مسافر چھت پر اپنے حلقے ہی میں بیٹھے غصے کے جھاگ اڑاتے اور بھیانک آوازیں نکالتے رہے، سیڑھیاں اتر کر کوئی نہ آیا۔

    صحن میں آکر حافظ نےعافیت کا سانس لیا۔ وہ برآمدے میں پہنچا۔ اس نے سرائے کے منصرم کا حجرہ دیکھا، پھر قطار میں بنے مہمانوں کے کمرے دیکھے۔ سب دروازے کھلے تھے، سب کمرے خالی تھے۔ شکراللہ خان آہستہ آہستہ چلتا ہوا اپنے کمرے میں آیا اور چراغ گیر پر چراغ رکھ کر بستر پر بیٹھ گیا۔

    تو یہ بات تھی جو پہلی سرائے کے منتظم نے کہنا چاہی تھی۔ کہتا تھا تمہارے اپنے مطلب کے لوگ ملیں گے۔ اس گیدی نےمجھے وحشت زدہ مجنون سمجھ کر ادھر ہنکا دیا۔ شکراللہ خان گینڈے کو اتنا غصہ آیا کہ اگر دن کا وقت ہوتا تو وہ فی الفور اس پہلی سرائے کے منصرم کو جا پکڑتا اور سواری کے چابک سے اتنا دھنکتا کہ گیدی کو تاعمر یاد رہتا، مگر حالات کا تقاضا یہ تھا کہ غصے پر فی الحال قابو پا لیا جائے، غور و فکر کیا جائے۔

    ’’میں کسی بے آباد و یرانے میں نہیں، بستی میں ہوں اور بستی بھی کیسی، ایک گنجائش سے زیادہ آباد شہر، جو شیر شاہی مملکت کے قلب میں واقع ہے، اس کا دارالخلافہ ہے۔ یہاں دیوانِ شرطہ اور دیوانِ قانون موجود ہیں۔ سڑکوں پر سے طلایہ بھی گزرتی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ میں خود کوئی کارروائی کروں؟ میں تو ان مجنونوں کے خلاف، جو خلقت کی نیند میں خلل انداز ہو رہے ہیں، شکایت درج کراؤں گا اور ابھی اسی وقت درج کراؤں گا تاکہ میری نیند خراب ہوئی سو ہوئی، دوسرے بندگان خدا تو سکون سے اپنی نیند پوری کر لیں۔‘‘

    حافظ گینڈے نے باہر جانے کے ارادے سےکپڑے پہننا شروع کیے۔ ابھی وہ پوری طرح تیار بھی نہ ہوا تھا کہ چھت سے آتی غیظ و غضب کی آوازیں یک لخت بند ہوگئیں۔ حافظ نے دروازہ کھول کر دیکھا، صحن میں روشنیاں اور سائے حرکت کر رہے تھے۔ پھر اکا دکا مہمان برآمدے سے گزرنا شروع ہوئے۔ایک خوب صورت بچہ اپنی ماں کا ہاتھ تھامے گزر رہا تھا۔ حافظ متوجہ ہوا تو بچے نے مسکرا کر دیکھا۔ عورت نے بچے کو مسکراتے ہوئے پاکر حافظ شکراللہ خان کی طرف نظر کی۔ پھر بچے کے تتبع میں وہ خود بھی مسکرانے لگی۔

    چیزیں لحظہ لحظ بدلنا شروع ہوگئی تھیں۔ پہلے بچہ مسکرایا تھا، پھر اس کی ماں مسکرائی تھی، پھر اس نےگاتی گنگناتی آواز میں حافظ گینڈے کو سلام کیا تھا، ’’سلام علیک فاضل! خیر باشد؟‘‘ حافظ کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ مسکراتی ہوئی اس وجیہ و با وقار عورت سے کیا کہے۔ اس نےآہستہ سے کہا، ’’بحمد اللہ۔۔۔ سب عافیت۔‘‘ عورت بچے کا ہاتھ تھامے، اس کی طرف مسکرا کر دیکھتی اور اپنی بڑی بڑی روشن آنکھیں جھپکاتی ہوئی گزر گئی۔ سرائے کا ایک خادم برتن اٹھائے حافظ کے کھلے دروازے کے سامنے سے گزرا۔ اب وہ بھی مسکرا رہا تھا۔ اس نے سر کے اشارے سے حافظ شکراللہ کو سلام کیا اور گزر گیا۔

    خادم کے دفع ہوتے ہی وہ مسکراتے ہوئے مسافروں کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ادھیڑ عمر کی وہی عورت برآمدے میں آئی جس نے چھت پر حافظ کو روکنا چاہا تھا۔ وہ دروازے کے سامنے سے گزری تو بہت شفقت، بڑی اپنائیت سے صاحب سلامت کرتی، حافظ کو زیر لب دعا دیتی گزر گئی۔

    ’’یا خدا! یہ کیا ماجرا ہے؟ یہ سب لوگ جواب میری طرف مسکرا مسکرا کر دیکھ رہے ہیں، مجھے سلام کرتے اور دعا دیتے ہیں، کچھ ہی دیر پہلے میرے لیے۔۔۔ اور ایک دوسرے کے لیے بھی۔۔۔ دشمنوں سے بدتر تھے۔ کینےاور کدورت اور حد درجہ طیش اور غضب ناکی سے دیکھتے تھے اور خوں خوار درندوں کی طرح دہاڑتے گرجتے تھے اور اب دیکھو کیسی اپنائیت اور مہرومحبت سے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے، ایک دوسرے سے چھوٹی چھوٹی مہربانیاں اور صلہ رحمی کرتے اپنے اپنے کمروں کی طرف جا رہے ہیں۔‘‘

    مطبخ کا ایک فربہ اندام خادم برآمدے سے گزرتا ہوا ٹھٹکا، پھر ادب کے ساتھ حافظ شکراللہ کی طرف بڑھا اور بولا، ’’غلام نے تازہ یخنی تیار کی ہے۔ آغا کا حکم ہو تو پیش کروں؟ انشاء اللہ پسند کیجیےگا۔‘‘ حافظ گینڈے نے بےمہری سے اس مسخرے کی طرف دیکھا، ’’لو بھلا گیدی یخنی کو پوچھتا ہے! آدھی رات کو بدنصیبوں نے سوتے سے جگا دیا اور اب یہ شخص یخنی سے میری تواضع کرنا چاہتا ہے۔ دھت! ‘‘ حافظ نے بستر سے اٹھ کر اس مسخرے فربہ اندام باورچی کے چوڑے چکلے چہرے پر کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔ مگر سرائے کے اس آخری اہل کار کا تپاک دیکھ کر حافظ شکراللہ خان گینڈے کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا۔ اس نے پھر کپڑے تبدیل کیے اور سونے کی کوشش کی اور بوالعجبی! اسے نیند بھی آ گئی۔

    صبح خادموں، منصرموں کا رویہ ایسا ہی پر تپاک کاروباری تھا۔ دن نکلنے پر انہوں نے خبر دی تھی کہ گرم پانی رکھ دیا گیا ہے، آغا حمام کر لیں۔ پھر لوزیات اور شربت اور غذائیں اور قہوہ جس تواضع اور کثرت سے پیش کیا گیا وہ بھی غیرمتوقع نہیں تھا۔ مسافروں، مہمانوں نے باہم وہی تپاک برقرار رکھا تھا۔ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ آدھی رات کے وقت یہ سب لوگ آوازوں سےاور اپنی چلت پھرت اور دھمکیوں سے ایک دوسرے کی جان کے گاہک بنے ہوئے تھے۔

    حافظ کو دیر ہو گئی تھی۔ آج بعد نماز عصر اسے مسند عالی برمازید کور کی روبکاری میں پیش ہوکر عرضی گزارنی تھی کہ وہ دربار عام میں سلطان ہند حضرت شیر شاہ سوری کی کورنش سلامی کو حاضر ہونا چاہتا ہے، کیوں کہ وہ نہ صرف سلطان کی رعایا میں سے ہے بلکہ ان کے جدی گاؤں روہری کا باشندہ بھی ہے۔ کتب خانے میں بیٹھنے کے لیے اس کے پاس دوپہر تک کا وقت پڑا تھا۔ حافظ شکراللہ خان کاغذوں کا پلندا اور قلم دان بغل میں مار، کتب خانے روانہ ہوا۔

    پچھلے دن کی طرح وہ اسی دریچے کے برابر جا بیٹھا۔ اس نے اپنے مطلب کی کتابیں نکلواکر مطالعے میں گم ہو جانا چاہا، مگر آج کا دن پچھلے دن جیسا نہ تھا۔ رہ رہ کر شکراللہ کو رات کا شور و غل یاد آ رہا تھا۔ اسے وہ دہشت اور بےچینی یاد آئی جو چھت سے اترتے ہوئے اس نے سیڑھیوں پر محسوس کی تھی۔ اپنا قلم دان اور کاغذ چھوڑکر حافظ شکراللہ خان باہر باغ میں جاکر ٹہلنے لگا۔ کھلی ہوا میں یکسوئی بحال ہوئی تو اندر جانے کا قصد کیا۔ دیکھا، گزشتہ دن کا ملاقاتی فے روز کتب خانے کی طرف آ رہا ہے۔ شکراللہ خان سلام کلام کے لیے ٹھہر گیا۔ فے روز اصفہانی پوچھنے لگا، ’’فاضل! آج غور و فکر میں ہو؟ کیا مطالعے کو طبیعت نہیں کرتی؟‘‘ حافظ نے ٹالنے کو کچھ کہہ دیا۔ فے روز بولا، ’’تھکے ہوئے ہو؟ کیا رات اچھی طرح سو نہ سکے؟‘‘

    حافظ گینڈے نے پھر ٹال دیا لیکن فے روز کے استفسار پر رات والی پریشان کن کیفیت اسے یاد آگئی۔ حافظ نے سوچا، چند روز اس شہر میں اور رہنا ہے، فے روز سے کسی معقول سرائے کا پتا پوچھ لیتا ہوں۔ پوچھنے پر اصفہانی نوجوان نے کئی سرایوں کے پتے نشان بتائے، ان کے کرائے اور سہولتوں کی تفصیل بیان کی۔ شکراللہ خان کے لیے ان میں سے کوئی بھی مناسب نہ تھی، کسی کا کرایہ زیادہ تھا، کوئی سرائے کتب خانے سے دور تھی اور بعضی پرشور منڈیوں بازاروں کے بیچوں بیچ تھیں۔ فے روز جاننا چاہتا تھا کہ اس وقت جہاں حافظ ٹھہرا ہوا ہے، وہاں کیا مشکل پیش آئی ہے جو وہ سرائے بدلنے کے درپے ہے۔ حافظ شکراللہ خان کو مجبوراً ساری بات بتانی پڑی۔

    فے روز اصفہانی پوری کہانی سن کر بجائے ہمدردی جتانے کے ہنس پڑا۔ کیا بوالعجبی ہے! حافظ گینڈے پر جو گزری تھی وہی شہر میں پہلے روز فے روز کو بھی پیش آئی تھی۔ کہنے لگا، ’’مگر فاضل! قدرت مجھ پر مہربان تھی۔ مجھے سرشام ہی علم ہو گیا تھا کہ یہ مردوزیوں کی سرائے ہے۔ میں تو اپنا سامان اٹھا کر رات سے پہلے ہی نکل آیا تھا۔‘‘

    حافظ شکراللہ خان مردوزی نام کی کسی جماعت سے واقف نہ تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس نے پہلی بار یہ نام سنا تھا۔ پوچھنے پر اصفہانی نے بتایا کہ صدیوں کی تعلیمات مدنیت کا بگاڑ اس فرقہ مردوزیاں کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ کہنے لگا، ’’یہ تو نہیں معلوم کہ ان کا معلم کون ہے اور مرکز کہاں ہے، بس اتنا جانتا ہوں کہ صاحبانِ شوکت اسے اپنے مقاصد کے حصول میں مفید اور فیض رساں پاتے ہیں، سودار الخلافوں میں یہ مسلک خوب پھل پھول رہا ہے۔ صاحبان ثروت کی دیکھا دیکھی کم حیثیت لوگ بلکہ اب تو شاگرد پیشہ بھی اس جماعت میں داخل ہوتے جاتے ہیں۔‘‘

    شکراللہ خان گینڈا اس فرقے کی عمومی فکر سمجھنا چاہتا تھا، تو اصفہانی نے بیان کیا کہ مردوزی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ آدمی کا مزاج محبت اور غصے اور عقیدت اور نفرت سے مل کر تشکیل پاتا ہے، مگر اپنی تہذیب اور تعلیم اور تمدنی تقاضوں سے مجبور ہو کے انسان اپنا غصہ اور اپنی نفرت ظاہر نہیں ہونے دیتا، جس سے فتور واقع ہوتا ہے اور نفرت مزاج کی سطح سے نیچے جا کر سڑنے لگتی ہے۔ پھر یہ آدمی کے اندر ہی پلتی بڑھتی ہے۔ آدمی سمجھتا ہے کہ وہ غصے سے پاک ہو چکا اور اس کے مزاج کی ساخت غصے اور نفرت کے بغیر ممکن ہو گئی۔

    مردوزی کہتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا۔ غصہ آدمی میں ساری زندگی موجود، مگر پوشیدہ رہتا ہے، تاہم اگر دن کے خاتمے پر اسے ظاہر ہونے، یعنی خارج ہونے کا موقع دیا جائے تو ایک دن ایسا آئےگا کہ آدمی غصے اور نفرت سے پوری طرح خالی ہو جائےگا۔ مردوزی اس کیفیت کو تکمیل کا نام دیتے ہیں۔

    اس لیے، فے روز کہنے لگا، ’’اسی تکمیل کو پانے کے لیے، مردوزی فرقے کا ہر فرد رات کو حلقے میں بیٹھتا ہے اور چیخ پکار کر کے اپنی دن بھر کی کمائی ہوئی نفرت اور دن بھر کا پالا ہوا غصہ خارج کر دیتا ہے اور باقی رات اور اگلے تمام دن کے لیے ایک مہذب، مکمل، مہر و محبت سے بھرا ہوا انسان بن جاتا ہے۔‘‘ فے روز اصفہانی نے ضمناً یہ بھی اطلاع دی کہ سلطان شیر شاہ کا وزیر دربار، امیر برمازید کور مردوزی ہے۔

    ’’انا للہ و انا الیہ راجعون۔‘‘ شکراللہ خان نے جو تفاصیل سے بیزار ہو جایا کرتا تھا، فے روز کا طولانی بیان سن کر کہا، ’’انا للہ و انا الیہ راجعون! تو ان قرم ساقوں نے غصے اور نفرت جیسے قیمتی انسانی جوہروں کو ضائع کرنے کی سبیل بھی آخر نکال ہی لی۔‘‘

    اور یہاں حافظ شکراللہ خان گینڈے کے ناتمام سفر کی روداد ختم ہوتی ہے۔ یہ واضح رہے کہ حافظ شکراللہ خان گینڈا اپنی بات اجمالاً ہی کہنا پسند کرتا تھا۔ وہ صاحب علم اور کم گو آدمی تھا، شاید اسی لیے تفاصیل سے حذر کرتا اور وقت ضائع کرنے سے الجھتا تھا۔ اس نے آدمی میں موجود غصے کے اس طرح بالالتزام ضائع کیے جانے پر کوئی نوحہ نہیں لکھا، اگرچہ گاؤں لوٹنے سے پہلے کاغذ کے ایک پرزے پر وزیر دربار، مسند عالی، امیر برمازید کور کے نام چند سطور اس انداز کی لکھیں کہ انہیں یہاں نقل نہیں کیا جا سکتا۔

    رخصت ہوتے ہوئے کتب خانے کی سیڑھیوں پر حافظ شکراللہ خان گینڈے نے زربفت کا وہ پارچہ فے روز اصفہانی کو تحفے میں پیش کر دیا جس پارچے میں روہری، کوہ سلیمان سے مٹی باندھ کر لائی گئی تھی۔ سوریوں کے باڑے کی مٹی حافظ شکراللہ نے برف جیسے سفید پھولوں کے اس تختے میں جھاڑدی جو سیڑھیوں سے شروع ہوکر کتب خانےکے احاطے کی دیوار تک پہاڑی چشمے کی طرح جھاگ اڑاتا چلا گیا تھا۔

    اگلی صبح جب فے روز اصفہانی کتب خانے کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا تو اچانک پھولوں کے تختے پر اس کی نظر پڑی۔ جیسے ایک جسمانی ضرب نے اسے کھڑے سے سیڑھیوں ہی پر بٹھا دیا۔ کل تک جس تختے میں برف کی طرح سفید پھول کھلے تھے آج اس میں انگارہ سے لال گلاب دہک رہے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے