Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گرھیں

MORE BYرابعہ الرباء

    تب میرا دل چاہا کہ میں اپنے بال کھول کر تمہاری گود میں سر رکھ لوں اور آنکھیں بند کرکے کسی ایسے نگر چلی جاؤں جہاں کچھ دیر کے لئے یہ بےتکی سماجی حد بندیاں نہ ہوں۔۔۔ جہاں مجھے چھو لینے سے میں ناپاک نہ ہوں بلکہ معطر ہو جاؤں اور میری خوشبو و رنگ سارے عالم میں پھیل جائے، میرے چھوئے جانے کی مہک ایک معراج ہو جائے۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔کہاں تھا ایسا۔۔۔ کہاں ہو سکتا تھا یہ سب۔۔۔اور کیونکر، تم تو خود اپنے بھی نہیں۔۔۔ہو۔

    ہمیں ملے عرصہ بھی کتنا ہوا تھا۔۔۔ ایک ماہ اور ایک ماہ میں دو ملاقاتیں۔۔۔ دو ملاقاتوں میں بےشمار باتیں کہ جن کے باعث ہم یوں ملے جیسے کسی تالے کی چابی کہیں اور سے اچانک مل جاتی ہے اور تالا کھل جاتا ہے۔ ہم یوں ہی دو جدا تالوں کی دو جدا چابیوں کی طرح ملے کہ جس میں کسی کا تالا کھو چکا تھا اور کسی کی چابی۔۔۔ لیکن پھر بھی تالا کھل گیا۔ فَٹ سے کھل گیا۔۔۔ اور سالوں کے مقید جذبے بہار کی پہلی ہوا سے ہی یوں کھلے کہ خوشبو اردگرد محسوس ہونے لگی اور ہمیں بھی کہیں کہیں کچھ دگرگوں ہونے کا خدشہ لاحق ہونے لگا۔۔۔ اگرچہ کچھ انہونی تو نہیں ہونی تھی مگر یہ ہونی انہونی سے برتر تھی۔ ہم دونوں جانتے تھے۔

    اگرچہ میں نے کسی آواز سے کوئی تصویر نہیں بنائی تھی مگر تم تصور سے حسین سراپا کے مالک تھے۔ نگاہوں میں کچھ موتی تھے اور عزت کی چادر۔۔۔ مگر میں تمہارے جسم سے تمہاری نگاہوں سے نگاہیں چرا لیتی تھی کہ کہیں کوئی خیانت نہ کر بیٹھوں اگرچہ تم چا ہتے تھے کہ مجھ سے یہ خطا سرزد ہو جائے۔

    مگر مجھے خود پہ بہت اختیار تھا۔۔۔ اپنے جذبوں پہ۔۔۔ اپنے بدن پہ۔۔۔ اپنے افعال پہ۔۔۔ اپنے اقوال پہ۔۔۔بس اگر بے اختیار تھا تو دل تھا۔۔۔ فقط اک دل۔۔۔!

    مگر پھر بھی میرا دل چاہا کہ اپنے بال کھول۔۔۔ جو میں نے فقط ایک کلپ کے حوالے اس لئے کئے تھے کہ کہیں تم دو آنکھوں کی طرح، دو ہاتھوں کی طرح، دو دلوں کا مطالبہ نہ کر بیٹھو۔۔۔!

    اگرچہ مجھے تمہارا یہ مطالبہ شاید قبول بھی ہوتا اگر میری زندگی میں بھی کچھ خودساختہ اصول نہ ہوتے۔ بس ایسا ہی نہ ہوا۔ میں نے زندگی کے اصولوں کی دیوار جذبوں کی زمین پہ کھڑی کرکے انہیں خود ہی زمین دوز کر دیا تھا۔ پھر بھی اس لمحے میرا من کیا کہ میں یہ عمارت مسمار کر دوں اور بہانہ کر دوں کہ زلزلہ آیا تھا۔۔۔ یا تم پہ تہمت لگا دوں۔۔۔ فقط اس لئے کہ تم میں سرتاپا وہ سب تھا جو میری چاہت تھی۔۔۔ وہ سب جو مجھے غلام بنا سکتا تھا۔۔۔ مرید بنا سکتا تھا۔۔۔ سوائے تمہاری نوکری کے۔۔۔ جو مجھے نہیں بھاتی تھی کہ ہر وقت فوجیوں کی طرح حالت جنگ میں رہو۔۔۔ مجھے تو اطمینان چاہئے تھا۔۔۔ سکون درکار تھا۔۔۔ گوشہ تنہائی کی طلب تھی کہ جس میں میں پوری طرح، خوشبو کی طرح بکھر سکوں، پانی کی طرح بہہ سکوں۔۔۔ ہواؤں کی مانند چاروں اور مدھم سفر کر سکوں اور ہر شے کو دھیرے دھیرے اپنی لپیٹ میں لے کر لپیٹ لوں۔۔۔ دھیرے دھیرے سرایت کر لوں اور چاہت کا ایک پورا گلستان بسا دوں۔۔۔ جس میں آواز کا کوئی دخل نہ ہو۔۔۔ اور ساز کہیں اندر ہی بجتے رہیں۔۔۔ تمہیں تمہاری ہوش نہ ہو اور وقت بھی تھما رہے۔۔۔!

    میری اک نگاہ نے ہی تمہاری جسمانی ساخت سے تمہارے فطری تغیر کی خبر دے دی تھی۔۔۔ وہ تغیر کہ جو بہت خوش نصیبنیوں کو میسر آتا ہے۔۔۔ تمہاری آنکھوں نے تمہارے دل کی کھڑکی بھی کھول دی تھی۔۔۔ تمہاری سانسوں کے گردابوں سے، سینے میں ہونے والے تغیر نے تمہارے اندر کے پردے چاک کر دئیے تھے۔۔۔مجھے یوں لگا تمہارے سارے جذبے میرے سامنے بےلباس ہو گئے ہیں۔ لیکن نہیں میں نے ان کو اپنی ست رنگی چنری اوڑھا دی۔۔۔ مجھے بہتر یہی لگا کیونکہ آدم دانا کھا چکا تھا۔۔۔ اب لباس لازم تھا۔۔۔ ضروری تھا۔۔۔ کیونکہ ہم میں لباس کا رشتہ نہیں تھا جو بےلباسی کے لئے اخلاقی شرط ہے۔

    پھر بھی میرا من مچلا کہ میرے پیر چوم لئے جائیں۔۔۔ اگر ایسا ہو جاتا تو میں بے حال تمہاری آغوش میں آ گرتی۔۔۔ اور تم پہ مدہوشی طاری ہو جاتی۔۔۔ لیکن میں اک اخلاقی قیدی سانسوں سے اپنے سچے جذبوں کو بھی تم پہ عیاں نہ کر سکی۔۔۔ یہی میری وفاکی معراج تھی کہ میں نے قید میں بھی پیروی یوسف سے دامن نہ چھڑایا۔ اک لمحے کو یہ سب ہو بھی جاتا تو کیا ہوتا۔۔۔ شاید کچھ بھی نہ ہوتا۔۔۔ شاید کچھ ہو بھی جاتا مگر یہ لازم ہے کہ یوسف، یوسف نہ رہتا۔۔۔!

    مجھے یقین ہے کہ تم ہر نشیب و فراز پہ روانی سے آسانی کے ساتھ سفر کر سکتے ہو۔ مگر اب شاید دیر ہو چکی تھی۔۔۔ اور اس زمین کی میخ نے اپنے رستے میں شگاف ڈال کر اپنا رستہ خود ہی بند کر دیا تھا۔۔۔ اس بات کا احساس تب ہوا جب یہ معلوم ہوا کہ تم کتنے آس پاس ہوتے ہوئے کتنے دور تھے۔۔۔ ہاتھوں میں ہوتے ہوئے نگاہوں سے اوجھل تھے۔

    سب اعترافوں اور سچائیوں کے باوجود پیر چوم لئے جانے کی خواہش پھر بھی بہت تڑپاتی ہے، بہت ستاتی ہے۔ بڑا بےقرار رکھتی ہے اور بےتاب کرتی ہے۔۔۔ اور ان لبوں سے چومے جانے کی حسرت کہ جس کے جسم کا ایک حسین فطری تغیر اسے دوسرے سے ممتاز کرتا ہے جو خوش نصیبنیوں کو ہی میسر آتا ہے۔

    تمہیں ان ہاتھوں کی تمنا تھی اور ان ہاتھوں کو تمہارے سینے کے قلزم پہ کتھک کی آرزو تھی۔۔۔ تمہیں ان لبوں کی خواہش تھی اور ان لبوں کو تمہارے گالوں کو جھلسا دینے کا شوق تھا۔۔۔ تم ان آنکھوں میں اترنے کے خواہاں تھے اور آنکھوں کو تمہارے بدن کی گردش کی چاہ تھی۔۔۔ تمہارے پاس راتوں کی محبت کے خواب تھے۔۔۔ اور یہاں خواب میں بھی محبت پر پابندی تھی۔۔۔!

    زندگی کی ان تمام سچائیوں کے باوجود بے اختیاری کا ایک بےاختیار سفر مسلسل ہوئے چلا جا رہا تھا۔۔۔ بے منزل سفر۔۔۔ گردوغبار، طلاطم خیزی۔۔۔ اور یوں جیسے حالات بھی پانی و ہواؤں کی طرح اپنا رستہ خود بناتے ہی چلے جا رہے ہیں۔۔۔!

    یوں کہ جیسے پہاڑوں پہ چڑھنا کچھ دشوار نہ رہا ہو۔۔۔ اور سمندر میں رستہ خود ہی بنتا چلا جائے۔ قدم اٹھانا نہ پڑے۔۔۔ بلکہ قدم خود ہی پڑتے چلے جائیں۔۔۔ نگاہیں حیرت سے جامد ہوں اور سوچ کے پَر کاٹ دئیے جائیں۔۔۔!

    یہ سب کچھ خود بخود ہوئے ہی چلا جا رہا تھا اور تم تھے کہ روکتے بھی نہ تھے۔ کہیں تم نے ’نا‘ نہیں کہا۔۔۔کہیں تم نے آگے بڑھنے سے کسی طور نہ روکا۔ میں نے جو روکا تو تم نے بڑھ کر ہاتھ یوں تھام لیا جیسے پھول خوشبو کا تھاما کرتے ہیں کہ ہاتھ چھوٹ بھی جائے تو مہک نہ جائے۔

    شاید ہم دونوں ہی ایک دوسرے پہ ظلم کر رہے تھے بغیر کسی ندامت کے۔۔۔!

    مگر پھر بھی کچھ گرھیں میرے اندر لگے چلی جا رہی تھیں۔۔۔ اک بوجھ سا تھا ،جس کے تلے میں خود بخود دبے چلی جا رہی تھی۔ مگر پھر بھی نجانے کیوں بڑھے بھی چلی جا رہی تھی۔۔۔!

    یہ سب غلط تھا میں جانتی تھی۔۔۔ مگر ایک سچ تھا جو میں مانتی تھی اور تم بھی معترف تھے۔ اس سچ کا ایک جوڑا تھا۔ یہ سچ ہماری طرح تنہا نہیں تھا۔ ہم اس سچ کے جوڑے کو بھی شاید اپنی طرح تنہا کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ یا پھر ہم اس جوڑے کو جوڑا ہی قبول نہیں کر رہے تھے۔ کہیں کسی سچ کا انکار بہرحال ہم دونوں اپنے درمیانی سچ کے بیچ قبول ہی نہیں کر پا رہے تھے۔۔۔ ہم دونوں شاید خودغرض بھی نہیں تھے لیکن ان لمحوں میں خودغرضی ہمیں اپنی لپیٹ میں لئے چلے جا رہی تھی۔

    تب ہی تو میرا من مچلا کے تمہارے لمس سے بدن میں پھول کھلیں اور میں گلستان و بہارستان کو شکست دے دوں اور میری زلفوں سے اُٹھتی مہک تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لے اور تم بےاختیار میرے پیروں کو چوم کر مجھے ایک برف کا مجسمہ بنا دو کہ ایک موم کی گڑیا۔۔۔!

    پھر ایک دن وہ بھی آیا کہ میری تمہاری تمناؤں نے مل کر آخرکار ایک چھوٹا سا تاج محل بنانے کی ٹھان لی۔۔۔ اور سوچ لیاکہ سب کے ہاتھ اس کی تعمیر کے بعد کاٹ دیں گے۔۔۔ لیکن یہ بھول گئے کہ ہاتھ کاٹ دینے کے باوجود دل و دماغ تو قائم رہتے ہیں۔۔۔!

    دعاؤں، صداؤں، آہوں، تمناؤں کے رستے تو نہیں رُکتے۔۔۔ رنگوں اور خوشبوؤں کو تو قید نہیں کیا جا سکتا۔ ضوفشانی کی تاب و شوکت کا مقابلہ تو نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ ہم دونوں یہ سب بھول گئے۔

    تب کسی عروسی خلوت خانے میں تم نے میرا ہاتھ تھام لیا اور روشنیاں گل کر دیں۔۔۔ تم نے میرے ہاتھ چومے اور ان ہاتھوں کو دھیرے سے اپنے سینے پہ رکھ لیا۔۔۔ مجھے کاندھوں سے پکڑ کر اس عروسی بستر پہ بٹھایا۔۔۔ پھر تم نے اپنی سرخ ٹائی سیدھے ہاتھ کی انگلی سے ڈھیلی کی۔۔۔اور اسے اتار کر میری گود میں دھیرے سے رکھ دیا۔۔۔اپنی سفیدشرٹ کے بٹن کھولے۔۔۔ اور اتار کر صوفے پر رکھ دی۔۔۔سکن فٹ اتاری اور شرٹ کے اوپر رکھی۔۔۔ اور تمہارے ہاتھ بیلٹ تک گئے۔۔۔ ہی تھے کہ تمہارے بدن کی مہک نے میرے تن من سے ہوتے ہوئے میرے اندر کی کھڑکیوں تک کا سفر شروع کر دیا۔۔۔ اور اندر کسی تیز جھونکے سے میری آنکھوں میں گرد پڑ گئی۔

    میں بےاختیار اٹھی تو تمہاری ٹائی قالین پہ بیڈ کے قدموں میں گر پڑی۔ میں نے ٹائی اٹھانے کی کوشش کی تو میرا دوپٹہ اس کے اوپر آ گرا۔ اتنے میں تم نے مجھے کاندھوں سے پکڑ کر اٹھایا اور میری جھکی آنکھوں سے درخواست کرنے لگے کہ اب اُٹھ جائیں۔ مگر پلکوں کی چلمن نے پردہ کر لیا اور میں نے اپنے ہونٹ تمہارے سینے پہ رکھے تو تمہاری سانسوں کے تغیر نے مجھے معطر کیا کہ تم بھی مضطرب ہو گئے۔ تمہارے ہاتھوں کی گرفت جو ذرا ڈھیلی پڑی تو میں نے مڑکر صوفے سے تمہاری سکن فٹ اٹھائی اور تمہیں پہنا دی پھر تمہاری شرٹ اٹھائی اور زیب تن کروائی بٹن بند کرتے کرتے میری آنکھوں کی شبنم نے گال بھگو دئیے مگر تم مجھے حیرت سے دیکھتے رہے۔۔۔!

    پھر میں نے جھک کر تمہاری ٹائی اٹھائی اور تمہیں ٹائی لگائی ڈبل ناٹ کے ساتھ۔۔۔ اپنا دوپٹہ پلنگ کے قدموں سے اٹھا کر کاندھے کے حوالے کیا۔۔۔ تمہاری گاڑی کی چابی میز سے اٹھائی۔ تمہارا ہاتھ تھاما اور اس خلوت کدے سے باہر نکل آئی۔۔۔!

    مگر یہ سب بھی خود بخود ہوئے چلا جا رہا تھا جیسے پہلے بھی حالات خود بخود بنے ہی چلے جا رہے تھے۔۔۔!

    میں نے گاڑی سٹارٹ کی تمہارے لئے دروازہ کھولا۔ اپنے گالوں کی نمی کو خشک کیا اور ہم وہاں سے باہر نکل گئے۔

    کچھ لمحوں میں ہم ایک کشادہ سڑک کے سینے پہ تھے۔ جس کے دونوں اور کے درخت بتا رہے تھے کہ آدھا دن سفر ہو چکا ہے۔۔۔ موسم بھی ابر آلودگی کی طرف سفر کر رہا تھا۔۔۔ میں نے تم سے پوچھا کہ ایک کہانی سناؤں۔۔۔ تم دھیرے سے بولے ’’ہاں سناؤ۔‘‘

    جب تم یہاں نہیں تھے اس ملک میں ناں، تو انہی درختوں پہ چڑیا چڑے نے ایک آشیانہ بنایا تھا۔ طوفانوں کا موسم آیا تو ایک دن تیز آندھی چلی بہت تیز۔۔۔ تو دونوں اس آشیانے کو بچانے کی کوشش کرنے لگے۔ چڑیا کسی تدبیر کے لئے آشیانے سے جدا ہو کر ادھر ادھر تنکے تلاشنے لگی۔۔۔ تو کوئی دوسری چڑیا طوفان سے پناہ کے لئے آشیانے میں آ بیٹھی۔ چڑا اس کی طرف فطرتاً مائل ہو گیا۔ دونوں کو پَل بھر کے لئے اچھا لگا۔ ہوا اور تیز ہو گئی۔ تو انڈوں سے نکلے بچے جن کی ابھی پوری طرح سے آنکھیں بھی نہیں کھلی تھیں چوں چوں۔۔۔چوں چوں کرنے لگے۔۔۔!

    تم یہ سنتے رہے اور مجھ کو حیرت سے دیکھتے رہے۔ تب میں نے اچانک ایک موڑ پر گاڑی روکی۔۔۔گاڑی سے اتری۔۔۔ اپنا پرس اٹھایا۔ تمہیں دوسری طرف آکر گاڑی کی چابی دی۔۔۔!

    تم میری اور دیکھتے رہے۔۔۔تمہاری آنکھوں میں سوال تھے۔۔۔!

    اچانک ژالہ باری ہونے لگی ۔میں آگے بڑھ گئی۔

    میرے اندر کی گرھیں اچانک کھل گئیں مگر میرے بدن پر گرھیں لگنے لگیں۔۔۔ اور ژالہ باری میں بھی تیزی آ گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے