Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گلیڈی ایٹر

کنور سین

گلیڈی ایٹر

کنور سین

MORE BYکنور سین

    کہانی کی کہانی

    پورانک کتھاؤں سے نکلے ایک ایسے ہیرو کی کہانی، جو مہابھارت کے یدھ میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ مگر ہو نہیں پاتا۔ اس کے بعد بھی وہ کئی یدھوں کا گواہ ہوتا ہے اور انہیں میں سے ایک یدھ میں اسے وہ لڑکی ملتی ہے جس سے اسے محبت ہو جاتی ہے۔ مسلسل یدھوں کو دیکھنے کی وجہ سے اسے بہتے، تازہ لہو کو دیکھنے کی ایسی عادت پڑ جاتی ہے، جو اس کی موت کے ساتھ ہی ختم ہوتی ہے۔

    چتا بھڑبھڑاتی رہی۔

    کومیلا اسے دیکھتے ہوئے پتہ نہیں کیا سوچنے لگی۔

    رات کو اور بھی گھنا ہوتے دیکھ کر بولی،

    لوگ کب کے لوٹ گیے۔ تم بھی جاؤ۔ مجھے پتہ نہیں کب تک رکنا پڑے۔۔۔

    وہ دور تک ہو آئی،

    یہ کہتا تھاچتا ٹھنڈی ہونے تک پاس بیٹھی رہنا۔

    کومیلا رات کی آتما میں جھانکنے کے لیے بے چین ہو اٹھی۔

    عجیب آدمی تھا۔ میرا اس کا ملاپ بھی عجیب ڈھنگ سے ہوا۔ میں جانتی تھی۔ شاید یہ بھی جانتا تھا۔ اس کی آخری خواہش اور بھی عجیب تھی۔

    تم بتاؤ اس کی راکھ ذرہ ذرہ بکھیر دینے سے سمسیا حل ہو جائےگی؟

    شمشان۔۔۔ کالا بھجنگ شمشان ہنکار اٹھا۔

    کومیلا کی پرچھائیں کایا کو دیکھتے ہوئے میں سننے لگا۔

    اس میں بیٹھا کوئی عجیب ڈیزائن بننے لگا،

    جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا یہ شمشان سے زیادہ بھیانک لگتا تھا۔

    چٹخنی چنگاریاں شعلوں کا روپ دھارن کرنے لگیں۔

    کومیلا بولتی چلی گئی،

    یہ پریشان رہتا۔۔۔ لوگ جانے کس سمے اور کون سے استھان کی بات کرتے ہیں!

    زندگی کی گہماگہمی میں بھی یہ اکثر چونک پڑتا،

    مجھے سب یاد ہے کچھ بھی دھندھلا نہیں پڑا۔

    کورو کشیتر کی بات جانے دو۔

    اس مہایدھ میں میرے ساتھ عجیب بات ہوئی۔

    میں وہاں جانا بھی نہیں چاہتا تھا۔ میں تو اپنی پریوگ شالہ میں قدرت کے ساتھ جوجھ رہا تھا۔ اس کے سینے میں جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پہاڑ، پاتال اور سمندر کا بھید جاننے میں لگا تھا۔ آکاش میری نظروں کو بھانپ رہا تھا اور۔۔۔ تبھی میرے کانوں میں رَن بھیری گونجنے لگی۔ میں اپنے کو بھول گیا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں اٹھ کھڑا ہوا۔

    یہ پچھتانے لگتا،

    تم وشواس کرو میں کسی یدھ میں اپنی مرضی سے نہیں گیا۔ کوئی دوسرا مجھے کھینچ لے گیا۔۔۔ یہ بوکھلا جاتا۔۔۔ تم نہیں جانتیں آدمی بیٹھے بیٹھے کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔۔۔

    یہ اپنی کہانی کی اور لوٹ آتا،

    میرے پاس شکتی تھی۔ برسوں کی تپسیا سے پراپت کی ہوئی شکتی۔ کچھ بھی کر سکنے کی شکتی۔

    اچھا ہوا اس یگ کی نیتی کرشن طے کر رہا تھا۔ ورنہ۔۔۔

    مجھے یدھ بھومی میں اترتے دیکھ کرشن اداس ہو گیا۔ وہ مجھے جانتا تھا۔ میری شکتی کو پہچانتا تھا۔ اسے پتہ تھا میں اس کا ساتھ دوں گا جو ہار ہوگا۔ کوروؤں کی ہار نشچت تھی، لیکن میں ان کے ساتھ ہو جاتا تو۔۔۔

    کرشن پانڈوؤں کی ہار سے زیادہ سرشٹی کے پورن وناش سے ڈر گیا۔

    جس دن میں کورو کشیتر پہنچا اسی شام وہ سادھو کے بھیس میں میرے پاس آیا۔ اس نے بھکشا میں میرا سر مانگ لیا۔

    لیکن میں یدھ دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس میں حصہ لینا۔۔۔! میں تلملایا۔

    تم یدھ دیکھوگے۔ اس میں حصہ نہیں لوگے۔ کرشن کی مسکان نردئی تھی۔ اس نے میری منڈی درخت سے لٹکا دی۔

    کتھا سنانے کے بعد یہ سٹ پٹانے لگتا،

    سوال یہ نہیں کہ میں نے یدھ میں حصہ نہیں لیا سوال اور ہے۔۔۔

    کومیلا نے ایک بار پھر کالے شمشان کی لہو میں ڈوبی جیبھ کو دھیان سے دیکھا،

    یہ پتہ نہیں مجھے کیا کچھ بتاتا رہتا۔ اتنا کچھ یاد رکھنا آسان نہیں۔ پھر بھی مجھے یاد ہے۔۔۔ قصہ وسطی دور میں وسط ایشیا کا۔۔۔

    یہ تڑپ اٹھتا،

    میں نے سدا ایک ہی نظارہ دیکھا۔۔۔ تلوار سان پر، تیر کمان پر۔۔۔

    گھوڑے کی ہنہناہٹ اور ہاتھی کی چنگھاڑ۔

    لشکر ہمیشہ کوچ کرتا رہا۔

    ان دنوں بڑا اندھیرا تھا۔ سب کچھ لٹ چکا تھا۔ تہذیب و تمدن کی پرچھائیں تک باقی نہ رہی تھی۔ میرے ہاتھ میں بیل کی راس اور کندھے پر کدال تھی۔ پاؤں کے نیچے پتھریلی دھرتی۔

    میں دن رات بھومی کی بنجر کوکھ کو اپجاؤ بنانے میں لگا رہتا۔ آشا تھی ہر یالی پھوٹےگی اور میرا مقدر جاگ پڑےگا۔ اس سے پہلے میں نے پتہ نہیں کہاں کہاں کی خاک چھانی۔ آدمی دانہ پانی کی تلاش میں جانور اور پرندے سے بھی زیادہ لمبا سفر طے کرتا ہے۔

    اس سے پہلے کہ میں بھومی کو مسکراتے ہوئے دیکھوں ایک دن میرے کان کھڑے ہو گیے۔

    دور نقارے پر چوٹ پڑنے لگی۔ میرے دل کی دھڑکن جیسی آواز۔

    میں سچ کہتا ہوں میں نہیں چاہتا تھا۔ لیکن میں نے کدال زمین پر رکھ دی۔ بیل کی راس چھوڑ دی۔ بیل کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ رمبھانے لگا۔ لیٹی ہوئی کدال کھڑی ہو گئی۔ اس کا دستہ میرے دائیں ہاتھ کو چومنے لگا۔ بھومی بھی آہیں بھرنے لگی۔

    کدال، بیل اور بھومی سے موہ کے ہوتے ہوئے بھی میں نقارے کی آواز کی اور کھنچتا چلا گیا۔

    وسط ایشیا کا میدان جس پر اندھا یگ گدھ کے پروں کی طرح چھایا ہوا تھا۔

    دھول اور شور۔ تلوار کی کڑکڑاہٹ اور تیر کی سنسناہٹ۔

    کوئی تھا جو نقارے پر چوٹ لگاکر مجھے کھینچ لے گیا۔ وہ کون تھا میں نہیں جانتا۔ وہ بول رہا تھا،

    لشکر کوچ کرےگا۔ تلوار اور ڈھال ہمارا نشان ہے اور نشانہ۔۔۔ ریگستان کے پرلے سرے پر پہاڑ کے اس پار کی ہریالی ہماری منتظر ہے۔ وہاں اناج، پانی، دولت ہے اور عورت بھی۔

    لوٹ کا مال بانٹنے کا ترازو ہر ایک کی اپنی ڈھال۔ ڈھال بھراناج، سونا، عورت جو بھی۔۔۔ تلوار میان سے باہر رہے۔ سروں کو کاٹتی۔ لہو چاٹتی۔

    مجھے یاد ہےایک بار میں لشکر سے بچھڑ گیا۔ بھٹک کر جنگل میں پہنچ گیا۔ عجیب نظارہ تھا۔ جنگل میں جھاڑی کے نیچے سانپ اور نیولا چین سے بیٹھے مسکرا رہے تھے۔

    تھوڑی دیر میں دوسرے درندے آنے لگے۔ چھاؤں میں بیٹھ کر ایک دوسرے کے سر سہلانے لگے۔

    نہ بھیڑ بھیڑیئے کو دیکھ کر سہمی، نہ بھیڑیا بھیڑ کو دیکھ کر غرایا۔ سچ کہتا ہوں چوہا شیر کی پیٹھ پر بیٹھ کر آیا۔ میں جھاڑی کی اور بڑھا کہ اس کا پتہ توڑوں۔ اسے چباکر اپنے بکھرے وجود کو جوڑوں۔ لیکن یہ میری قسمت میں نہ تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب غائب ہو گیا۔ نہ جھاڑی رہی نہ درندے۔

    اس دن میں جھاڑی کی تلاش میں لگ گیا۔

    کومیلا رکی۔ وہ چتا کی آنچ ناپنے لگی!

    یہ کم نہیں ہوئی۔

    میں نے کہا نا، تم جاؤ۔ مجھے پتہ نہیں کب تک یہاں بیٹھنا پڑے۔

    مجھے جوں کا توں بیٹھے دیکھ کر وہ پھر اس کی کہانی سنانے لگی،

    یہ سچ کہتا تھا۔

    میں بھی جھوٹ نہیں بولتی۔

    اس کا اور میرا ملاپ بڑا عجیب تھا۔

    یدھ چل رہا تھا۔ بستی آگ میں گھری ہوئی تھی۔

    یہ دھوئیں کو پار کرکے اور آگ کو چیر کر ہمارے گھر میں آدھمکا۔ اسے دیکھ کر گھر کے لوگ لرز اٹھے۔ میں مسکراتی رہی۔

    میری ماں، باپ اور بھائی کی ہتیا کر کے یہ میری اور بڑھا۔ میں نے مسکرانا بند نہ کیا۔

    اس نے سنگین کی نوک میری چھاتی پر رکھ دی۔ میں پھر بھی مسکراتی رہی۔

    دوسرے ہی پل اس کی آنکھوں کی سرخی پگھلنے لگی۔ جبڑے ڈھیلے پڑنے لگے۔ ہاتھ بھی۔۔۔

    بندوق ایک طرف پھینک کر یہ میری طرف لپکا۔۔۔ جھاڑی۔۔۔ میری جھاڑی اس نے مجھے باہوں میں بھر لیا۔

    صبح ہوئی تو اس نے دیکھا یہ میری گود میں سر رکھے لیٹا ہوا ہے۔ میں اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی ہوں۔ میری چھاتیوں پر اس کے ہونٹوں کے نشان ہیں اور میرے ہونٹوں پر ان کی مٹھاس۔ رات بھر دودھ اور شہد جو چوستا رہا۔

    اس دن اس نے مجھے پہلی بار بتایا،

    مجھے شروع سے بگل اور نقارے کی آواز کھینچتی رہی۔ میں نے کبھی ادھر جانے کی نہیں سوچی۔ پتہ نہیں کون مجھے اس طرف کا رخ کرنے کو اکسانے لگتا۔ دھند بن کر مجھ پر چھانے لگتا۔ میں نہ چاہتا لیکن میں رک نہ پاتا۔

    یہ میری طرف دیکھ کر ہمک اٹھا،

    میری آنکھوں میں جمی وحشت دیکھ کر ہر کسی کا کلیجہ دہل اٹھتا۔ لیکن تم۔۔۔!

    تم کون؟ تم کون؟ یہ پوچھتا رہا۔ میں مسکراتی رہی۔ اپنی دانست میں اس کے اندھیرے من میں جوت جلاتی رہی۔۔۔ اسے پر کرتی کا نیا روپ دکھاتی رہی۔

    اب فوج لٹیروں کا بے ہنگم ٹولہ نہ تھی۔

    اب اس کا قانون تھا اور قاعدہ بھی۔

    ہر فوجی کی اپنی رجمنٹ تھی۔ اس کا نشان تھا۔ سرکار کی دی ہوئی وردی تھی اور سرکار کی طرف سے مقررہ تنخواہ۔ کوئی فوج میں بھرتی ہو سکتا تھا اسے اپنی مرضی سے چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ بھگوڑے پر مقدمہ چلایا جاتا اور وہ سخت سزا پاتا۔

    اس نے پروا نہیں کی۔ یہ میرے ساتھ بھاگ نکلا۔ ندی نالوں کو پار کر کے اس نگری میں آ پہنچا۔

    دوسرے سال ہمارے لڑکا پیدا ہوا۔ یہ خوشی سے ناچ اٹھا!

    اسے تلوار سے بچائیں گے اور بگل کی آواز سے دور لے جائیں گے۔

    لیکن دوسرے ہی پل یہ اداس ہو گیا!

    سوال نقارے یا بگل کا نہیں۔ سوال اور ہے۔

    یہ اپنے سر کو جھٹکنے لگا جیسے وچاروں کی چھان پھٹک کرنے لگا۔

    میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ میں نے کبھی نہیں چاہا پھر بھی میں۔۔۔ میں کس کو دوش دوں؟

    کومیلا نے ایک بار پھر چتا کی آگ کی طرف ہاتھ بڑھایا،

    اس کی آنچ کم نہیں ہوئی۔

    خیر!

    ایک دن یہ کام سے لوٹا تو گھبرایا ہوا تھا،

    مجھے لگتا ہے جھاڑی سوکھنے لگی۔

    اس کی بات سن کر میں چکرائی۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ ان میں سرخی ابھرنے لگی تھی۔

    یہ چیخ اٹھا،

    میرے کانوں میں پھر نقارہ گونجنے لگا۔

    لشکر کے کوچ کرنے کی آ واز آنے لگی۔

    لگتا ہے مجھے تلوار بلانے لگی۔

    میں کیا کروں!

    کچھ گوشت کا ذائقہ اور گرم لہو کا سواد میرا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ شاید یہ میرا وہم ہے۔ کوئی اور وجہ بھی تو۔۔۔

    یہ اپنے بچے کی طرف اداس نظروں سے دیکھنے لگا۔

    اس دن میں مسکرا نہ سکی۔

    اس دن سے اس کی حالت خراب ہونے لگی۔ رات دن کراہتا، چیختا چنگھاڑتا رہتا۔ کونے میں پڑی بندوق کی طرف ہاتھ بڑھاتا اور آنے والے یدھ کی خبر سناتا۔

    ایک دن یہ مٹھیاں بھینچنے اور دانت کٹکٹانے لگا!

    مجھے بتاؤ آج کل گلیڈی ایٹر کا تماشا ہوتا ہے یا نہیں۔

    میں حیرت سے اسے تکنے لگی تو یہ ہنس پڑا۔

    میں جھوٹ نہیں کہتا۔ گلیڈی ایٹر کا کرم میں نے اپنی مرضی سے نہیں نبھایا۔ وہ تو میں پکڑا گیا اور سدھایا گیا۔ لیکن سوال صرف میرے پکڑے جانے کا یا سدھائے جانے کا نہیں سوال اور بھی ہے۔

    یہ اپنے کو کھوجتے کھوجتے گلیڈی ایٹر کی کہانی سنانے لگا،

    پرانی بات ہے یونانی غلاموں کی تجارت کرتے، کئی ایک گلیڈی ایٹر اکھاڑے چلاتے۔ جوان، تندرست اور توانا غلام خرید لاتے۔ انہیں خوب پالتے۔ فولاد میں ڈھالتے۔ داؤ پیچ بتاتے۔ چھری چلانا سکھاتے۔

    پٹھے تیار ہو جاتے تو شہر میں منادی کرائی جاتی۔ بادشاہ ملکہ اور امیروں کبیروں تک خاص دوت کے ہاتھ خبر بھجوائی جاتی۔ تماشے پر ٹکٹ لگایا جاتا۔

    لوگ اکھاڑے کے گرد بیٹھ جاتے تو غلاموں کی جوڑی چھوڑی جاتی۔ دونوں کے ہاتھوں میں خنجر۔۔۔ دونوں ایک دوسرے پر پل پڑنے کو تیار۔

    یہاں پہنچ کریہ لمبی سانس لیتا،

    میں قسم کھاتا ہوں بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ کبھی نہ چاہتے لیکن وہ نہ ٹلتے۔

    اکھاڑہ خون سے لال ہو جاتا۔ غلام ایک دوسرے کی تکا بوٹی اڑاتے۔ تماشائیوں کا دل بہلاتے۔ اکثر وہ گوشت کے ٹکڑے امیر زادیوں کے ہاتھ میں تھماتے۔ شہزادیاں اور ملکہ گوشت کے لوتھڑوں کو دباتی رہتیں، مسکراتی رہتیں۔

    آخر ایک غلام دوسرے کو گراکر اس کی چھاتی پر چڑھ بیٹھتا اور اپنا خنجر اس کے دل پر رکھ دیتا۔ اس وقت بادشاہ اپنی جگہ سے اٹھتا۔ اکھاڑے میں آتا۔ نیچے پڑے غلام کے سینے میں خنجر کو آہستہ آہستہ اترتے ہوئے دیکھتا اور خوشی سے تالیاں بجاتا۔ غلام کا تڑپنا اسے بہت بھاتا۔

    کہانی سناتے سناتے یہ چیخ اٹھتا،

    مجھے اکھاڑے میں لے چلو۔ مجھے اکھاڑے میں لے چلو۔۔۔

    کومیلا نے چتا کی اور دیکھ کر آہ بھری،

    اس کے پاگل پن کو بڑھتے دیکھ کر میں نے ترکیب سوچی۔ میں اسے مرغوں، مینڈھوں اور سانڈوں کی لڑائی دکھانے لے جانے لگی۔ اس کی کچے گوشت کی بھوک اور گرم لہو کی پیاس بجھانے کا اور کوئی طریقہ نہ تھا۔

    یہ بڑے شوق سے دیکھتا رہتا۔

    اکھاڑے کے کنارے بیٹھا قہقہے لگاتا۔ سیٹی بجاتا۔ لہولہان جانوروں کو دیکھ کر خوشی سے پھولا نہ سماتا۔ لیکن گھر آتے ہی اداس ہو جاتا۔

    کل یہ بہت اداس تھا۔

    اس نے اکھاڑے میں جانے سے انکار کر دیا،

    جانوروں کے خون سے طبیعت اکتانے لگی۔ مجھے پرانی بو بلانے لگی۔

    شام ہوتے ہی یہ کلبلانے لگا۔ ایک ہی رٹ لگانے لگا،

    سچ بتاؤ داتاورن میں بارود کی بو ہے یا نہیں۔

    میں نے کوئی جواب نہ دیا۔

    یہ اور بھی اداس ہو گیا،

    آج فیصلہ ہو جائے۔

    یا میں یا مجھ میں چھپا۔۔۔

    یہ چونک پڑا۔

    تمہیں ملٹری بینڈ کی دھن سنائی نہیں دیتی؟

    وہ مجھے بلا رہے ہیں۔ مجھے بھی پیٹ اور پیٹھ پر بم باندھنے ہیں۔

    مجھے جانے دو۔ مجھے جانے دو۔ اپنا کرم نبھانے دو۔

    اس کی حالت دیکھ کر میں بلبلائی،

    تم نے مجھے گلیڈی ایٹر کی دکھ بھری کتھا سنائی۔ اب تم۔۔۔

    میری بات سن کر یہ کانپ اٹھا۔۔۔

    تم ٹھیک کہتی ہو۔ میں نے فیصلہ کر لیا۔

    وعدہ کرو چتا ٹھنڈی ہونے تک اس کے پاس بیٹھوگی اور۔۔۔

    صبح ہونے سے ذرا پہلے یہ دھیرے دھیرے کونے کی اور چلنے لگا، وہاں پڑی اپنی بندوق پر نظریں جمائے۔

    میں نے اسے نہیں روکا۔

    اس نے بندوق اٹھائی۔ اس کو اچھی طرح پرکھا۔ زنگ اتار کر اس میں گولی ٹکائی۔

    یہ نچلے کمرے میں جانے کے لیے سیڑھیاں اترنے لگا۔۔۔

    میں نے اسے نہیں روکا۔

    میں پلنگ پر سوتے اپنے بیٹے کو دیکھتی رہی۔

    کومیلا چونک اٹھی،

    بولنا چھوڑ کر وہ تیسری بار چتا کی آنچ ناپنے لگی،

    یہ کم نہیں ہوئی۔ یہ بالکل کم نہیں ہوئی۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے