Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گومڑ

عبدالصمد

گومڑ

عبدالصمد

MORE BYعبدالصمد

    کہانی کی کہانی

    ’’ایک ایسے شخص کی کہانی، جسے اس بات کا وہم ہو جاتا ہے کہ اس کے سر میں گومڑ نکل آیا ہے۔ وہ اسے چھپانے کے لیے ٹوپی پہننا شروع کر دیتا ہے۔ ٹوپی کو لے کر اس کے دوست اس کا مذاق بھی اڑاتے ہیں لیکن وہ کسی کی پروا نہیں کرتا۔ گومڑ کی وجہ سے جب وہ کافی زیادہ پریشان ہو جاتا ہے تو وہ ایک ماہر نفسیات کے پاس جاتا ہے اور اس سے علاج کراتا ہے۔ علاج کے بعد جب وہ اپنے ایک دوست سے ملتا ہے تو اس کا دوست کہتا ہے کہ تمہارے سر میں گومڑ سا نکل آیا ہے۔‘‘

    اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کے سر پر کوئی گومڑ سا نکل آیا ہے۔ اس کا ہاتھ غیرارادی طور پر اپنے سر کے اوپر چلا گیا لیکن سہلانے اور ٹٹولنے کے بعد اس کے ہاتھ نے بتلایا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ اس کا جی بہت چاہا کہ اس پر یقین کرے۔ رہ رہ کے اسے لگ رہا تھا کہ ضرور اس کے سر پر کوئی گومڑ نکلا ہے۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو بار ی باری سر پر بھینچ کر انہیں یقین دلانے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن ہاتھ تھے کہ اپنی جگہ پر اڑے ہوئے تھے۔ تھک ہار کر اس نے اپنے ہاتھوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا لیکن اپنے آپ کو جھٹلانے کی کوشش میں سخت ناکام رہا۔

    گومڑ کا احساس ہونے کے بعد اس کا کسی کام میں جی نہیں لگا۔ لیکن بکھرے ہوئے دانوں کو چننا بھی ضروری تھا۔ سو اس نے اس کا علاج یہ نکالا کہ بڑی سی فَر کی ایک ٹوپی خرید لی۔ مگر لوگوں کو بھی کہاں چین تھا، دیکھتے ہی سوال داغنے لگے۔

    ’’کیوں یار۔۔۔ یہ اچانک اتنی بڑی ٹوپی۔۔۔ ابھی تو سردی بھی نہیں آئی۔‘‘

    ’’بس یونہی۔۔۔ خالی خالی سر کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔‘‘

    ’’رہی، یعنی قبل سے میں کچھ تھا۔‘‘

    ’’یار اپنے سر سے میرا مقابلہ کیوں کرتے ہو، تمہارے سر میں اگر کچھ نہیں تو اس کا مطلب۔۔۔‘‘

    ’’خواہ مخواہ کی باتیں کیوں کرو، سچ سچ بتاؤ، بات کیا ہے۔۔۔؟‘‘

    وہ گھبرا گیا، کہیں اس کی چوری نہ پکڑی جائے۔ ایسے میں اپنے آپ پر قابو پانا بھی بہت ضروری تھا۔

    ’’سچ بتا رہا ہوں۔ سر واقعی خالی لگ رہا تھا، ٹوپی پہن لی ہے تو لگ رہا ہے کہ۔۔۔‘‘

    ’’لیکن فر کی ٹوپی۔۔۔ کوئی ہلکی پھلکی ٹوپی پہن لی ہوتی۔۔۔‘‘

    ’’بس یونہی۔‘‘

    اس وقت تو بات ختم ہو گئی لیکن اسے محسوس ہوا کہ ٹوپی پہننا بھی گومڑ نکلنے سے کچھ کم نہیں ہے۔

    اسے لوگوں کے سوالوں کا سامنا تو کرنا ہی پڑےگا۔ وہ دیر تک سوچ میں رہا کہ کیا کیا جائے۔ گومڑ کو برداشت کرے یا ٹوپی پہنے۔ اس نے کمرہ بند کر کے گھنٹوں اپنے آپ کو ٹوپی کے بغیر رکھا اور تب اس نتیجے پر پہنچا کہ ٹوپی بہرکیف گومڑ سے زیادہ بہتر ہے۔ سوالوں کا سامنا تو اسے دونوں صورتوں میں کرنا ہوگا، لیکن ٹوپی نہیں رہنے پر اس کے ہاتھ بار بار سر کا طواف کرتے رہیں گے اور پھر اسے لوگوں کے مذاق اور تضحیک کا سامنا بھی کرنا پڑےگا۔ ٹوپی کے ذریعہ فوری طور پر اس نے درپیش مسئلے کا حل ڈھونڈ لیا تھا لیکن گومڑ کا احساس اس کے اندر مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا تھا۔ اگرچہ ٹوپی کی آڑ میں اس نے گومڑ کو لوگوں سے چھپانے کی پوری کوشش کی تھی۔ پھر بھی جب وہ باہر نکلتا تو اس کا یہ احساس شدید ہو جاتا۔ اسے محسوس ہوتا جیسے ہر آدمی اس کے سر کی طرف غور سے دیکھ رہا ہے اور پتہ نہیں کب کون سا سوال کر ڈالے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کا یہ سوال ٹوپی کو چھوتے ہوئے گومڑ تک پہنچ جائے اور پھر۔۔۔

    یہاں تک آتے آتے اس کے انداز میں خاصی تبدتیلی آجاتی اور وہ ہر غور کرتے ہوئے آدمی کی نگاہوں سے فوراً باہر نکل جانا چاہتا۔ دفتر میں، بازار میں، ہوٹل میں، دوستوں کے حلقے میں جب بھی وہ باتوں میں حصہ لیتا تو یہ ڈر ہر دم اس پر سوار رہتا کہ کہیں کوئی گومڑ کی بات نہ چھیڑ دے۔ اب جب کہ گومڑ کا احساس اس کے اندر جڑ پکڑ ہی چکا تھا تو وہ بھی اسے ایک راز کی طرح پوشیدہ رکھنا چاہتا تھا۔ وہ گومڑ کو ایک ذلیل چیز کیوں سمجھے ہوئے تھا۔ یہ بات خود اس کی سمجھ سے باہر تھی۔ البتہ جب اسے گومڑ کا احساس ہوا تو اس کے بچپن کے وہ بڑے میاں یاد آ گئے جو اس کی گلی میں کھٹی میٹھی گولیاں بیچتے تھے۔ ان کی پیٹھ پر ایک بڑا سا کوبڑ نکلا ہوا تھا، جس کے سبب وہ جھک کر چلتے۔ بچے ان کے کوبڑ پر بڑا ہنستے۔ بڑے میاں ان کی ہنسی کا برا نہیں مانتے، کیونکہ ان کی گولیاں خوب بکتیں اور وہ خوش خوش گلی سے واپس جاتے۔ شاید کوبڑ ان کا بزنس سیکرٹ تھا۔ بڑے میاں کے کوبڑ پر ہنسنے والوں میں وہ بھی شامل رہا تھا لیکن جب اماں نے انہیں سمجھایا کہ کسی کی کمزوری پر ہنسنے اور مذاق اڑانے سے اللہ میاں ناراض ہوتے ہیں تو اس نے ہنسنے سے توبہ کر لی۔

    اب بڑے میاں پر اسے ترس آنے لگا۔ وہ اپنے دوستوں کو بھی ہنسنے سے منع کرتا۔ اس کے سبب گلی کے لڑکوں سے اس کی کئی بر مار پیٹ اور جھڑپ بھی ہوئی۔ دو ایک بار بڑے میاں نے بھی اسے جھگڑنے سے منع کیا۔ وہ اپنے آپ پر ہنسنے ہی سے خوش تھے اور خوش نہیں رہتے تو کرتے بھی کیا، وہ تو خوش رہنے کے لئے مجبور تھے۔۔۔ وہ بڑے میاں کی طرح مجبور نہیں رہنا چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کچھ لوگ اس کا مذاق اڑائیں گے تو کچھ لوگ ترس کھائیں گے اور یہ دونوں حالتیں کسی قیمت پر اسے منظور نہیں تھیں۔

    حساس تو وہ قبل ہی سے بہت تھا لیکن گومڑ نے اس میں مزید شدت پیدا کر دی تھی۔ وہ اپنے گومڑ کو ہر حال میں دنیا سے چھپانا چاہتا تھا۔ جب لوگ اس سے ٹوپی کے بارے میں سوال کرتے تو وہ کبھی اس طریقے سے انہیں مطمئن رہنے کی کوشش کرتا کہ بات ٹوپی سے آگے نہیں بڑھے۔ اسے ہر دم یہ ڈر لگا رہتا کہ کہیں کوئی اس کے گومڑ تک نہ پہنچ جائے۔ اس کے سبب اس نے ہوٹلوں، بازاروں اور دوستوں کے حلقے میں جانا بھی کم کر دیا، بس ضرورت کی حد تک ہی۔ خالی وقتوں میں کمرے میں بند گومڑ کے احساس سے تڑپتا رہتا۔

    اس کا گومڑ بھی کچھ عجیب شے تھا۔ ہاتھوں پر یقین نہیں کرنے کے باوجود انہیں ہاتھوں سے گومڑ کی تصدیق کرانے کی بے شمار کوشش کر چکا تھا۔ ہاتھوں کو بھی ضد تھی کہ جو وہ چاہتا، اس پر کبھی تیار نہیں ہوتے اور کرتے بھی وہی جو ان کا جی چاہتا۔ وہ سینکڑوں زاویے سے آئینے میں اپنی صورت دیکھ دیکھ کر اس بات کی بھرپور کوشش کر چکا تھا کہ اس کی آنکھیں بھی اس کے گومڑ کو دیکھ لیں۔ اس کی آنکھیں اب کچھ اور ہی رنگ اختیار کر چکی تھیں، وہ اسے کسی طرح بھی اس کے گومڑ کو نہیں دکھا سکیں۔ اس کا احساس اتنا شدید تھا کہ وہ ہمیشہ اس کی آنکھ، ہاتھ اور اس کے وجود پر حاوی آ جاتا اور پھر وہی کچھ ہوتا جو اس کا احساس چاہتا۔ اکثر اس کا بھی جی چاہا کہ ہاتھوں اور آنکھوں کی طرح وہ بھی گومڑ پر یقین نہیں کرے۔ کچھ دیر وہ اس حالت میں رہا بھی لیکن احساس کی بے چینی اسے پھر گومڑ کی طرف واپس لے آئی۔

    گومڑ نے اس کی شخصیت، مزاج اور صحت پر بھی خاصا اثر ڈالا۔ سماجی زندگی بہت محدود ہو گئی۔ اس نے کئی رنگوں اور ڈیزائنوں کی ٹوپیاں خرید لیں اور اس کی مناسبت سے لباس بنوا لئے۔ ٹوپی بس وہ اسی وقت اتارتا جب اپنے کمرے میں بند ہوتا اور کمرے کی کھڑکیاں اور روشن دان تک بند رہتے۔ کئی بار موسم کے لحاظ سے دوستوں نے اسے ٹوپی اتارنے کو کہا بھی لیکن وہ بڑی خوبصورتی سے ٹال گیا۔ اس پر ایک آدھ نے کہا کہ لگتا ہے تو اچانک گنجے ہوگئے ہو۔ تبھی تو ٹوپی نہیں اتارتے۔ اس نے فوراً جواب دیا۔

    ’’ارے نہیں یار، اب عادت کچھ ایسی پڑ گئی ہے کہ ٹوپی اتارنے کے تصور سے ہی ننگے ہونے کا احساس ہونے لگتا ہے۔‘‘

    ایک دو بار بے تکلف دوستوں نے اس کی ٹوپی اچکنے کی کوشش بھی کی، لیکن کمال ہوشیاری سے اپنے آپ کو بچالے گیا۔ وہ خاص محتاط رہنے لگا اور بےتکلف دوستو ں سے دور ہی بھاگنے لگا۔ اگر کبھی ان کے بیچ پھنس بھی جاتا تو ان کی دسترس سے دور بیٹھتا۔

    کافی عرصہ تک جب وہ اپنے گومڑ پر قابو نہیں پاسکا تو اس نے فیصلہ کیا کہ اب ڈاکٹر سے رجوع کئے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔ اس نے دیر تک اپنے گومڑ کو چھپائے رکھا تھا اور بڑے بڑے جتن سے اس راز کی حفاظت کی تھی لیکن اب اس کا بوجھ اس کے لئے ناقابل برداشت ہو رہا تھا۔ اس نے ایک موٹی فیس دے کر ایک بڑے ڈاکٹر سے وقت طے کیا۔ ڈاکٹر نے تنہائی میں اسے وقت دیا، اس کے سر کا بغور معائنہ کیا۔ کئی طرح کی مشینوں سے تیز تیز روشنی میں اس کا جائزہ لیا اور اپنا فیصلہ یوں سنایا۔

    ’’آپ کے سر میں کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘

    ڈاکٹر کی بات سن کر وہ حیر زدہ ہو گیا۔

    ’’کیا کہہ رہے ہیں آپ ڈاکٹر صاحب؟‘‘

    ’’میں سچ کہہ رہا ہوں، آپ بالکل صحت مند ہیں۔‘‘

    ’’کمال کرتے ہیں ڈاکٹر صاحب آپ بھی۔ میں گومڑ کی تکلیف سے مر رہا ہوں اور آپ کہتے ہیں کہ۔۔۔‘‘

    ’’میں پھر کہوں گا کہ یہ محض آپ کا وہم ہے اور وہم کا میرے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔‘‘

    ’’ایک بار تو اور دیکھ لیجئے پلیز۔‘‘

    ’’دیکھئے میرا وقت بہت قیمتی ہے اور میں فضول باتوں میں۔۔۔‘‘

    ڈاکٹر کے ہاں سے وہ بہت مایوس لوٹا۔ ڈاکٹر کی بات کا اس کے پاس کیا علاج تھا۔ ظاہر ہے ڈاکٹر کے پاس وہ علاج کے لئے گیا تھا، مذاق کرنے نہیں اور ڈاکٹرنے اس کے گومڑ کو وہم قرار دیا۔ ڈاکٹر کا رویہ اس پر بڑا اثر انداز ہوا۔ بھلا جس بات پر وہ اتنے عرصے سے یقین کرتا آ رہا تھا، جس پر اس کی ساری محنت لگی ہوئی تھی، وہ ڈاکٹر کے محض ایک جملے سے کیسے ختم ہو سکتی تھی۔ ڈاکٹر کے رویے کے خلاف اس نے داخلی طور پر جو احتجاج کیا تو اس کوشش میں بیمار پڑ گیا۔ کئی روز گھر پر چپ چاپ اور بند بند رہنے کے بعد جب وہ دفتر پہنچا تو اس کا کسی کام میں جی نہیں لگا لیکن کام تو بغیر جی کے بھی کرنا تھا۔ جب اس کے کام میں کوئی چمک پید ا نہیں ہو سکی تو اس کے افسرا اعلیٰ نے اسے بلایا۔

    ’’کیوں مسٹر۔۔۔ کچھ دنوں سے آپ کے کام میں وہ بات نہیں ہے۔‘‘

    ’’بات یہ ہے سر کہ کئی دنوں سے میں بیمار ہوں اور۔۔۔‘‘

    ’’کیا بیمار ہیں آپ۔۔۔؟‘‘

    وہ بوکھلا گیا، اس سوال کا تو اس کے پاس کوئی جواب ہی نہیں تھا اور اگر تھا بھی تو وہ کوئی سوال کا جواب نہیں تھا۔

    ’’یہ تو میں آپ کو نہیں بتا سکوں گا سر، بس بیمار بیمار سا محسوس کرتا ہوں۔‘‘

    ’’دیکھئے آپ بیمار ویمار کچھ نہیں ہیں، آپ اچھے خاصے دکھائی دے رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو وہم ہو گیا ہے۔ آپ اس وہم کو دور کیجئے۔‘‘

    ’’سر ڈاکٹر بھی کہتا ہے۔ لیکن میں کیسے مان لوں کہ یہ محض وہم ہے، مجھے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ۔۔۔‘‘

    افسر ِ اعلیٰ چیخ اٹھا۔

    ’’مجھے محسوس ہوتا ہے کہ۔۔۔ نہیں سر، معاف کیجئےگا، میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکوں گا۔‘‘

    ’’آپ کو بتانا ہوگا، تبھی تو آپ کا علاج ہو سکتا ہے۔‘‘

    ’’میں کچھ جانتا ہی نہیں تو آپ کو کیا بتاؤں۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے، کچھ بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن کا کوئی نام نہیں ہوتا، جنہیں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ پَر ان کا علاج ہو سکتا ہے۔ میرے ایک دوست مشہور ماہر نفسیات ہیں، میں انہیں فون کر دیتا ہوں، آپ ان سے جاکر ملئے۔

    ’’سر، میں آپ کی مہربانیوں کا۔۔۔‘‘

    ’’کوئی بات نہیں، یہ تو میرا فرض ہے۔ میں جانتا ہوں کہ دفتر میں سب سے اچھا کام آپ کا ہوتا ہے۔ میں بورڈ کے سامنے آپ کی تعریف کر چکا ہوں۔ اب اگر آپ اچھا ریزلٹ نہیں دیں گے تو خود سوچئے، میری کتنی سبکی ہوگی۔‘‘

    افسر اعلیٰ کے احسانوں سے چور وہ ماہر نفسیات کے ہاں پہنچا، جس کی افسر اعلیٰ سے فون پر باتیں ہو چکی تھیں۔

    ماہر نفسیات نے گھنٹوں اس کا معائنہ کیا، کئی طرح سے سوالات کئے اور دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا، پھر بولا۔

    ’’ہاں صاحب، گومڑ تو آپ کے سر میں ہے، لیکن یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، اس کاعلاج ہو جائےگا۔‘‘

    اس نے کچھ ورزشیں بتائیں، سر پر مالش کے لئے ایک روغن دیا اور سوچ و فکر سے توبہ کرنے کو کہا۔

    ماہر ِنفسیات کے منھ سے گومڑ کی بات سن کر اسے بڑا سکون ہوا۔ وہ اس راز کو یوں تو اپنی ذات تک ہی محدود رکھنا چاہتا تھا اور اس میں کامیاب بھی ہوا تھا لیکن ماہر نفسیات نے کچھ یوں ہمدردی سے گفتگو کی اور باتوں میں اسے اس طرح الجھایا کہ اس سے یہ راز اگلتے ہی بنی۔

    ماہرِ نفسیات کی باتوں پر اس نے پابندی سے عمل کرنا شروع کیا۔ ورزش اور مالش سے کچھ ہی دنوں کے اندر اسے محسوس ہوا کہ اس کا گومڑ اب بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔ اسے بہت خوشی ہوئی اور اس کا جی چاہا کی ٹوپی پھینک کر ننگے سر وہ کھلی فضا کا خوب لطف لے۔ پھر اسے خیال آیا کہ جب تک گومڑ اچھی طرح ٹھیک نہیں ہو جاتا، اسے ٹوپی نہیں اتارنی چاہئے۔ ماہر نفسیات کی ہدایت کے مطابق وہ پندرہ روز کے بعد پھر اس کے یہاں پہنچا۔ ماہر نفسیات نے ہر طرح کا معائنہ کر کے فیصلہ صادر کر دیا۔

    ’’اب آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ آپ کے گومڑ کا اب نام و نشان بھی نہیں ہے۔‘‘

    اس روز اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ اس روز برسوں کا ایک ایسا بوجھ اس پر سے اتر گیا تھا جس سے وہ گھٹ گھٹ کر جی رہا تھا۔ وہ تو لگ بھت ختم ہی ہو چکا تھا لیکن افسر اعلیٰ اور ماہر نفسیات کی مہربانی تھی اور خود اس کی ہمت کہ وہ پھر جی اٹھا تھا۔ خوب بن ٹھن کے اور تیار ہوکر اس نے باہر نکلنے کی ٹھانی۔

    سب سے پہلے وہ حجام کے یہاں گیا تاکہ بال قرینے سے بنوالے۔ ٹوپی نے اس کے بالوں کی شکل ہی بگاڑ ڈالی تھی۔ گومڑ کے سبب وہ انہیں ہاتھ بھی نہیں لگاتا تھا۔ حجام سے گومڑ کے نہیں ہونے کی تصدیق بھی ہو جاتی۔ حجام نے سکون کے ساتھ اس کے بال بنا دیے اور گومڑ کا نام تک نہیں لیا۔ اس سے اس کے اندر مزید اعتماد پیدا ہوا۔ وہ ٹوپی کے بغیر باہر نکل سکتا تھا۔

    خوش خوش، نئے کپڑے پہنے، ٹوپی کے بغیر وہ باہر نکلا تو فوراً ہی دفتر کے ایک ساتھی سے ملاقات ہو گئی۔

    ’’بہت خوش دکھائی دے رہے ہو، بات کیا ہے؟‘‘

    ’’بس یونہی، بیمار تھا نا۔ اچھا ہو گیا۔ چلو کسی ریسٹورانت میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔‘‘

    ’’واہ، یہ تو بہت اچھا پروگرام ہے، لیکن یہ تمارے سر کو کیا ہوا۔۔۔؟‘‘

    ’’کیا۔۔۔؟‘‘

    وہ بوکھلا گیا۔ کلیجہ اچک کر حلق میں آتا محسوس ہوا۔

    ’’کچھ گومڑ سا۔۔۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے