گڈو
میں نے دروازے پر پڑے تالے میں چابی گھمائی۔ تالا ہلکی سی جنبش سے کھل گیا۔ لوہے کے دروازے کو میں نے اندر کی طرف دھکیلا۔ دروازہ کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ کھلتا چلا گیا۔ اندر قدم رکھا تو دیکھا کہ سامنے ایک تنگ سی تقریباً چار فٹ چوڑی گلی ہے۔ فرش سیمنٹ کا اور جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا ہے، جس کی وجہ سے فرش پر نامعلوم دنیا کا نقشہ سا بن گیا تھا۔ گلی کی بائیں سمت میں وہ کمرا تھا جسے میں نے آج ہی کرائے پر لیا تھا۔ کمرے کا دروازہ بھڑا ہوا تھا۔ میں نے اسے دھکیلا، اندر جھانکا، کمرہ گرد و غبار سے اٹا پڑا تھا۔ شاید کئی ماہ سے کوئی کرایہ دار آکر نہیں ٹھہرا تھا۔ میں نے دیوار پر لگے سوئچ کو دبایا۔ کمرا روشن ہو گیا۔ بغیر پلاستر کی دیواروں کے بلاکوں کی چنائی پر ہی سفیدی پھیر دی گئی تھی۔ چھت پر ٹین کی چادریں پڑی ہوئی تھیں جس کے درمیان لوہے کے شہتیر سے پرانا سا پنکھا لٹکا ہوا تھا۔
سفری بیگ جسے میں نے اب تک کندھے پر لٹکایا ہوا تھا ایک طرف رکھ دیا۔ اس میں میرے چند جوڑے کپڑے اورکچھ ضروری چیزیں تھیں۔ میرا کل اثاثہ یہی کچھ تھا۔
باہر نکل کر میں نے گلی کاجائزہ لیا۔ گلی کے آخری سرے پر باتھ روم تھا۔ اس سے ذرا فاصلے پر سیمنٹ کا ایک سلیب دیوار میں نصب تھا جس کے قریب گیس کا کنکشن موجود تھا۔ آس پاس کی دیوار پر دھوئیں کے نشانات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ جگہ کچن کے طور پر استعمال ہوتی ہوگی۔ میں ابھی جائزہ لے رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے کسی کی آواز سنائی دی۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو گلی میں کمرے کے بالکل سامنے والی دیوار میں ایک کھڑکی نما دروازہ یا دروازہ نما کھڑکی جو کہ فرش سے دو فٹ اونچی تھی کھلی ہوئی تھی۔ جس پر میری اب تک نگاہ نہیں گئی تھی۔ وہاں سے وہ بوڑھی خاتون سر نکالے کھڑی ہوئی تھیں جنہوں نے یہ کمرا مجھے کرائے پر دیا تھا۔ اب وہ سر ہاتھ پیروں کے ساتھ گلی میں آ چکی تھیں۔
’’کمرا پسند آیا تمہیں؟‘‘
میرا جواب سنے بغیر بولیں۔
’’بہت دنوں سے بند پڑا ہوا ہے۔ مٹی دھول بھی جمی ہوئی ہوگی۔ تم کچھ نہ کرنا میں گڈو سے صفائی کروائے دیتی ہوں۔ بس تم اپنا سامان لے آؤ‘‘۔
’’میرا کچھ سامان نہیں ہے یہ ایک بیگ ہے اور بس میں ہوں‘‘ بڑھیا خاصی سمجھ دار تھیں۔ فوراً بولیں۔
’’لیٹنے بیٹھنے کے لیے چارپائی تو لو گے ہی۔ اب مت لینا۔ میرے پاس ایک چارپائی پڑی ہوئی ہے۔ بازار سے آدھی قیمت دے دینا۔ سمجھ گئے نا؟‘‘
’’جی سمجھ گیا‘‘۔ میں نے ہنس کر کہا۔
’’اورہاں کھانا کہاں کھایا کروگے۔ یا خود پکاؤگے؟‘‘
’’اس کا بھی خالہ تم ہی کچھ بندوبست کر دو‘‘۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’اب تم نے مجھے خالہ کہہ دیا تو پھر خالہ ہی بن کر دکھاؤں گی چلو اب کھانے کی ذمہ داری بھی میری رہی۔ جو مرضی آئے دے دینا۔ اچھا میں گڈو کو بھیجتی ہوں‘‘
’’جب تک یہاں صفائی ہو، میں بازار سے کچھ چیزیں خرید لاتا ہوں‘‘
میں یہ کہتے ہوئے دروازے سے باہر نکل گیا۔ ان دنوں تو یہ شہر میرے لیے اجنبی تھا۔ مجھے گاؤں سے آئے چند روز ہی ہوئے تھے۔ گاؤں میں ہمارا ایک چھوٹا سا گھر تھا، جس میں ابا اور اماں کے علاوہ دو چھوٹی بہنیں اور بانو تھے۔ بانو میرے چچا کی بیٹی تھی، جو کہ مجھ سے ایک سال چھوٹی تھی۔ چچی کے انتقال کے بعد چچا نے بانو کو ہمارے ہاں چھوڑ دیا تھا۔ چچا دن رات روٹی روزی کے لیے سفر میں رہتے تھے۔ ان کا ایک جگہ ٹھکانہ نہیں تھا۔ آج کراچی میں تو دوسرے دن کسی اور شہر میں۔ جب دو چار دن بعد گھر واپس لوٹتے تو پتہ چلتا کہ پشاور تک ہو آئے ہیں۔ اسی بناء پر بانو گزشتہ دو سال سے ہمارے گھر میں رہ رہی تھی۔
یوں بھی بانو کو اسی گھر میں آنا تھا، کیونکہ ابا نے بچپن ہی میں بانو کو میرے لیے مانگ لیا تھا۔
گھر آنے کے بعد شروع میں وہ مجھ سے چھپی چھپی رہتی، مجھ سے پردہ کرتی میں جیسے ہی گھر میں قدم رکھتا ایک سایہ تیزی کے ساتھ کبھی باورچی خانے سے کبھی دالان سے تو کبھی صحن میں لگے ہوئے پانی کے ہینڈ پمپ کے پاس سے اٹھ کر بھاگتا اور کمرے میں جا چھپتا۔ چند ہفتوں بعد اماں کے کہنے پر بانو میں یہ تبدیلی آئی کہ اس نے بھاگنا چھوڑ دیا البتہ اب وہ دوپٹے کا لمبا سا گھونگھٹ نکال لیتی اور میں مسکرا کر رہ جاتا۔
اسی سال مون سون کے موسم میں طوفانی بارشوں کی وجہ سے ہمارا گاؤں اور آس پاس کے تمام علاقے زیر آب آ گئے۔ چند دنوں بعد پانی تو ندی نالوں میں چلا گیا لیکن میں سخت بیمار ہو گیا۔ جسم سردی سے کانپتا اور رہ رہ کر بخار چڑھتا اور اترتا۔ ان دنوں میرا زمیندار کے ہاں جانا بھی بند ہو گیا۔ بس گھر میں ہی پڑا رہتا۔ تب ایک دن بانو مجھے دوا دینے آئی۔ اس نے اپنا چہرہ دوپٹے میں چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ لیکن دوا پلاتے ہوئے جب میری آنکھیں اس کی آنکھوں سے ملیں تو شرم و حیا کی سرخی اس کے چہرے پر اور دوا حلق میں اترنے کے بجائے کرتے کے گریبان میں پھیل گئی۔ میری ہنسی چھوٹ گئی اور وہ بھی مسکرانے لگی۔ اس رات کھانے پر بانو بھی موجود تھی اور میں بھی۔ اس سے پہلے اگر میں دستر خوان پر موجود ہوتا تو بانو موجود نہ ہوتی تھی۔ اس رات میرے سارے جسم میں بانو کی محبت کی گرمی ایسی چڑھی کہ بخار اتر گیا۔
بازار سے ضروری چیزیں خرید کر جب میں واپس آیا تو کمرے کی صفائی ہوچکی تھی۔ ایک طرف جھولا سی چارپائی بھی پڑی ہوئی تھی۔ میں نے چارپائی کو خوب اچھی طرح کس کسا کر ٹھیک کیا اور پھر اس پر لیٹ کر چھت کو تکنے لگا۔ مجھے گاؤں یاد آ رہا تھا، بانو یاد آرہی تھی، اس کے بدن کا لمس یاد آ رہا تھا، جب میں نے بانو کا ہاتھ پکڑکر اپنے سے قریب کر لیا تھا۔بانو نے خود کو مجھ سے چھڑانے کی کوشش کی لیکن میرے بازوؤں کو وہ ذرا بھی ہلا نہ سکی۔ گھبراہٹ اور شرم کی ملی جلی کیفیت اس کے چہرے پر عیاں تھی۔ وہ کسمسانے لگی۔ میرے بازوؤں نے اس کی کمر کے گرد حصار باندھ رکھا تھا۔ بانو نے گھبراہٹ کے عالم میں دروازے کی طرف دیکھا لیکن دور تک صحن میں کوئی نہیں تھا۔ بانو نے اپنا بدن ڈھیلا چھوڑ دیا۔ میں نے فاتحانہ انداز میں مسکرا کر اسے دیکھا۔ اس کا چہرہ شرم و حیا سے سرخ ہو رہا تھا۔ جب میں نے محسوس کیا کہ اب وہ خود کو مجھ سے چھڑانے کی جدوجہد نہیں کر رہی ہے تو میں نے اس کی کمر سے اپنے ہاتھوں کو ہٹایا لیکن اچانک جیسے ہی اس نے میرے ہاتھوں کی گرفت کو ڈھیلا محسوس کیا وہ ایک ہی زقند میں کمرے سے باہر بھاگ گئی۔
میری آنکھیں چھت میں گردش کرتے پنکھے پر لگی ہوئی تھیں، لیکن میرا دل، دماغ اور جسم بانو کے جسم کی حرارت سے معمور تھا۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں اور پھر تصور میں بانو کو دیکھنے لگا۔ قریب۔۔۔اور قریب۔۔۔اور پھر اتنا قریب کہ سانسوں کی ڈوریں آپس میں الجھی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔
گول چہرہ، رنگ دودھ کی طرح صاف لیکن گالوں پر سرخ ایسی جیسے کوئی بچہ سفید چمکتے ہوئے کاغذ پر سرخ رنگ کی پینسل سے کہیں ہلکا اور کہیں گہرا رنگ بھر دے۔ بانو کے چہرے پر سب سے نمایاں آنکھیں تھیں۔ لیکن جب وہ پتلی سی ڈوری کی طرح آنکھوں میں کاجل لگا لیتی تو وہ اور زیادہ نمایاں ہو جاتیں۔
میں اپنے تصور میں بانو کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک دروازے پر ہونے والی دستک نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھول کر دیکھا تو سامنے دروازے پر کوئی اپنا چہرہ چھپائے کھانے کی ٹرے ہاتھ سے آگے بڑھائے ہوئے تھا۔ میں نے فوراً اٹھ کر کھانے کی ٹرے کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
’’کچھ کم پڑے تو آواز دے کر لے لیجیےگا‘‘۔
دروازے کے ادھ کھلے پٹ کی اوٹ سے آواز سن کر مجھے ایسا لگا جیسے جلترنگ بج اٹھے ہوں۔ باریک کھنکتی شیریں آواز والا ہاتھ دروازے نما کھڑکی کی اوٹ میں چلا گیا اور پھر اس نے کھڑکی بند کر دی۔ مجھے لگا کہ شاید یہ وہی گڈو ہوگی جس کا ذکر خالہ نے کیا تھا۔
مجھے روز صبح کا ناشتہ اور رات کا کھانا اسی طرح دروازے کی اوٹ سے دیا جاتا اور کچھ کم پڑے تو آواز دے کر لے لیجیےگا کا جملہ کھنکتی ہوئی آواز میں مجھے روز سننے کو ملتا۔ کچھ دنوں بعد سے میرے تجسّس میں اضافہ ہونے لگا۔ میں اس آواز والی لڑکی کا چہرہ دیکھنا چاہتا تھا۔ مجھے رہ رہ کر یہ خیال آتا تھا کہ جس کی آواز اتنی دلنشین ہے اس کا چہرہ کتنا خوبصورت ہوگا۔
کبھی کبھار کھانے کی ٹرے خالہ بھی لے آیا کرتی تھیں۔ جب وہ آتیں تومیرے پاس ہی بیٹھ جاتیں اور گاؤں اور گھر والوں کے متعلق پوچھتیں۔ میں نے سب لوگوں کے بارے میں انہیں بتا دیا تھا سوائے بانو کے۔ بانو کے بارے میں بتانے سے میں نے کیوں گریز کیا، یہ مجھے خود بھی معلوم نہیں تھا۔ خالہ نے بھی اپنے متعلق مجھے بہت کچھ بتایا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ جس طرح میرے بارے میں انہیں سب کچھ معلوم نہیں تھا، اسی طرح میں بھی ان کے بارے میں سب کچھ نہیں جانتا تھا۔ شاید ہم ایک دوسرے سے صرف مطلب کی باتیں کرتے تھے۔
میری گڈو کو دیکھنے کی خواہش روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔ ایک دفعہ مجھے یاد آیا کہ گاؤں میں بانو بھی مجھ سے کچھ ایسے ہی پردہ کرتی تھی اور پھر ایک دن میری بیماری کی وجہ سے بانو کو میرے سامنے آنے پر مجبور ہونا پڑ گیا تھا۔ یہ خیال آتے ہی میرے ذہن میں بجلی سی کوندی۔ دوسرے دن میں بیمار بن کر پڑ گیا۔ صبح ہی سے میں کھڑکی نما دروازے کے کھلنے کا انتظار کرنے لگا۔ ناشتہ مجھے صبح آٹھ سوا آٹھ بجے مل جایا کرتا تھا۔ جبکہ ابھی تو صرف سات بجے تھے۔ میں بستر پر چھت کی طرف کو کھلنا تھا۔ کھڑکی کھلی اور معمول کی آواز آئی۔
’’ناشتہ لے لیجیے‘‘
’’مجھ سے اٹھا نہیں جا رہا ہے میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ آپ ناشتہ خود یہاں رکھ دیں‘‘
میں نے اپنی آواز میں بیماروں جیسی نکاہت پیدا کرتے ہوئے کہا اور پھر میں حیران رہ گیا۔ میں نے دیکھا، کھڑکی کی چوکھٹ سے پہلے دایاں پیر اندر آیا اور پھر بایاں اور اس کے بعد گڈو جھک کر کھڑکی سے نمودار ہوئی۔
گڈو کوئی لڑکی نہیں تھی، بلکہ اس کا چہرہ دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ کم از کم تیس سے پینتیس برس کے درمیانی عمر کی رہی ہوگی۔ چہرے پر عمر کی پختگی کے آثار نمایاں تھے۔ گڈو نے مجھ سے پردہ کرنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ میں حیران تھا کہ اتنے دنوں تک دروازے کے پٹ کی آڑسے صرف ہاتھ بڑھا کر ٹرے تھما دینے کا مقصد کیا تھا۔ میں نے کن انکھیوں سے اس کے سراپا کا جائزہ لیا۔ سڈول جسم، درمیانہ قد، سیاہ آنکھیں، سیاہ بال جنہیں رنگ برنگے چٹیلے سے باندھ رکھا تھا۔ چہرہ دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ آج سے پندرہ برس پہلے یقیناً گڈو خوبصورت رہی ہوگی۔
گڈو کے جانے کے بعد میں سوچ میں پڑ گیا کہ اس عمر میں تو لڑکیاں سسرال میں کئی بچوں کو کھلارہی ہوتی ہیں۔ جبکہ گڈو اپنی ماں کے گھر میں اب تک کنواری بیٹھی ہے۔ پھر میں نے خود کو تسلی دے لی۔ ایسے منظر تو اب ہر گھر میں نظر آتے ہیں۔ کہیں رشتے نہیں ملتے تو کہیں رشتے تو ہوتے ہیں لیکن بیٹی کی شادی کے لیے بڑی رقم نہیں ہوتی اور کہیں بہتر سے بہتر کی تلاش میں انتظار کرتے کرتے بوڑھی ہو جاتی ہیں اور یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ اس عمر میں بھی وہ گڈو ہی کہلاتی ہے۔ شاید پینتیس سال کی عمر میں گڈو کہنے کا مقصد یہ ہو کہ ان لڑکیوں کو یہ احساس نہ ہونے دیا جائے کہ وہ آہستہ آہستہ بوڑھی ہو رہی ہیں۔
بیماری کے بہانے سے یہ تبدیلی آئی کہ اب گڈو نے بلا جھجھک میرے سامنے آنا شروع کر دیا۔ شروع شروع میں وہ صرف کھانا دے جایا کرتی تھی لیکن آہستہ آہستہ وہ میرے سامنے ہی میرے کمرے کی صفائی بھی کر دیا کرتی۔
اب میرے اور اس کے درمیان بات چیت بھی ہو جایا کرتی، میں محسوس کیا کرتا کہ اس کی آنکھوں میں بہت سارے سوالات پوشیدہ ہیں جن کا اب تک اسے جواب مل جانا چاہیے تھا۔ کبھی کبھی یوں لگتا جیسے وہ کچھ اور کہنا چاہتی ہے، لیکن بات اس کے ہونٹوں تک آتے آتے رک جاتی۔ ایسے موقع پر وہ گھبرا جاتی اور بات کا رخ کسی اور طرف کرنے کی کوشش کرتی۔ میں فوراً محسوس کر لیتا لیکن میں کیا کر سکتا تھا کیونکہ شاید ان ان کہے سوالوں کے جوابات میرے پاس بھی نہیں تھے۔
ایک دفعہ میں نے اپنی اور اس کی عمر کے فرق کو سامنے رکھتے ہوئے اسے باجی کہہ دیا تو اس نے مجھے گھور کر دیکھا اور فوراً کہا۔
’’مجھے باجی کہلوانا اچھا نہیں لگتا۔ میرا نام تبسم ہے سب مجھے گڈو کہتے ہیں۔ اگر تمہیں گڈو کہنا اچھا نہیں لگتا تو پھر مجھے تبسم کہہ لیا کرو‘‘۔
میں نے ہنس کر کہا۔ ’’نہیں پھر گڈو ہی صحیح ہے‘‘۔
اس دن کے بعد سے میں ذرا بے تکلف سا ہو گیا۔ مہینے میں ایک بار میں گاؤں کا چکر لگا لیا کرتا تھا۔ میں جب بھی گاؤں سے واپس آتا تو اماں میرے سامان میں کچھ نہ کچھ اضافہ کر دیا کرتی تھیں۔ کبھی اصلی گھی، تو کبھی ڈھیر سا مکھن اور کبھی خالص شہد۔ یہ ساری چیزیں میں خالہ کو دے دیا کرتا۔ وہ خوشی خوشی اسے قبول کر لیا کرتیں۔ لیکن جب میں اس بار گاؤں گیا تو اماں نے چلتے ہوئے میرے سامان میں ایک گرم لحاف کا اصافہ کر دیا اور کہا کہ تیرے لیے خاص طور سے بانو نے بنایا ہے۔ یہ سن کر مجھے بانو پر بےحد پیار آیا کہ وہ میرا کتنا خیال رکھتی ہے۔ کراچی آتے ہی مجھے احساس ہوا کہ اماں نے بہت اچھے موقع پر لحاف دیا ہے، کیونکہ موسم میں خنکی بڑھنے لگی تھی۔
ایک رات میں لحاف اوڑھے سوتے میں بانو کے خواب دیکھ رہا تھا۔ حسین سرسبز و شاداب باغات کا میلوں تک پھیلا ہوا ایک سلسلہ جس میں ہزاروں طرح کے خوبصورت رنگین اور خوشبوؤں سے مہکتے پھول چاروں طرف کھلے ہوئے ہیں۔ فضا میں سرور سا چھایا ہوا ہے۔ خواب میں بانو میرے ساتھ ساتھ تھی لیکن پھر مجھے ایسا لگا جیسے حقیقت میں بھی بانو میرے قریب آ گئی ہو۔ مجھے ہوش کہاں تھا۔۔۔میں تو خواب سرشاری کے عالم میں جنت نظیر وادی میں سیر کر رہا تھا، جہاں دور دور تک تناور سایہ دار درخت ایستادہ تھے، جن میں موسم اوربن موسم دونوں طرح کے پھول بہار دکھا رہے تھے۔ ان کے بوجھ سے ڈالیاں نیچے کو جھکی جا رہی تھیں۔ کہیں کہیں درختوں کے جھنڈ قطاروں کی شکل میں تھے جن کے درمیان شفاف ٹھنڈے پانی کی نہر بہہ رہی تھی۔ ٹھنڈے پانی کی نہر میں بانو اور میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ جیسے حقیقت میں بھی بانو میرے پیروں سے اپنے پیر ٹکرا رہی ہو۔ خواب میں مجھ پر سرور سا چھایا ہوا تھا، جبکہ حقیقت میں میرے جسم میں آگ سی بھرتی جا رہی تھی۔ بانو کے قہقہے فضا میں گونج رہے تھے۔ آخرکار میں نے بانو کو پکڑ لیا اور پھر اپنی بانہوں میں جکڑتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانکا جہاں محبت کی گرمی سے تپتے ہوئے سرخ سرخ ڈورے تیر رہے تھے۔ فضا میں قہقہے بند ہوگئے تھے۔ اب صرف دو انسانوں کے گرم سانسوں کی باہم و مدغم آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ یکایک دور دور تک پھیلا ہوا جنت کا حسین نظارہ تپتے ہوئے ریگستان میں تبدیل ہو گیا۔ میں اور بانو دونوں کہیں گم ہو چکے تھے۔ خواب بکھر گیا۔ لحاف جسے میں نے سر تک اوڑھ رکھا تھا؟ اب میرے پیروں سے بھی نیچے پڑا ہوا تھا اور میں بے سدھ سو رہا تھا۔
صبح میری آنکھ کھلی تو مجھ سے اٹھا نہیں جا رہا تھا۔یوں لگ رہا تھا کہ جیسے کسی نے مجھ کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہو۔ میں نے چارپائی پر پہلو بدلنے کی کوشش کی تو اچانک محسوس ہوا کہ چارپائی پر میں اکیلا نہیں ہوں۔
یہ احساس ہوتے ہی میں ایک سرعت کے ساتھ اٹھا اور دیکھا۔ میرے پہلو میں گڈو تھی۔ میں چارپائی سے اتنی تیزی سے الگ ہوا کہ جیسے مجھے کسی نے ڈنک مار دیا ہو۔ میں گم سم تھا۔ ابھی میرے حواس بحال بھی نہیں ہوئے تھے کہ مجھے پیچھے سے کسی کی غصیلی آواز سنائی دی۔ میں نے تیزی سے گھوم کر دیکھا۔ یہ خالہ تھیں۔
’’تو نے آخر اپنی اصلیت دکھا دی۔ میری بچی کی زندگی برباد کر دی۔ مجھے تجھ پر پہلے ہی شک تھا۔ لیکن میں نے تجھے شریف ماں باپ کا بچہ جان کر جگہ دی۔ تجھے اپنے ہاتھوں سے پکا کر کھلایا اور تو اتنا نیچ اور گھٹیا نکلا۔ ہائے۔۔۔ہائے‘‘۔
یہ کہتے ہوئے خالہ نے اپنا سر پیٹنا شروع کر دیا اسی اثناء میں گڈو کی بھی آنکھ کھل گئی۔ وہ تیزی سے اپنے کپڑے درست کرتے ہوئے اٹھی اور کھڑکی نما دروازے سے مکان کے دوسرے حصے میں بھاگ گئی۔ میرے اوسان کچھ کچھ بحال ہو رہے تھے۔ میں نے اپنے اندر اعتماد پیدا کرتے ہوئے کہا۔
’’دیکھیے۔۔۔میں نے۔۔۔کچھ۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔کیا ہے‘‘۔
’’میری گڈو کو برباد کر دیا اور کہہ رہا ہے کچھ بھی نہیں کیا۔ بس۔۔۔اب ایک ہی راستہ ہے‘‘
خالہ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔
’’تجھے گڈو سے شادی کرنا ہوگی‘‘
’’یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟‘‘
’’میں سولہ آنے ٹھیک کہہ رہی ہوں‘‘
یہ کہتے ہوئے خالہ کمرے سے باہر نکل گئیں اور میں چارپائی پر ڈھیر ہو گیا۔ میں دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے بیٹھا سوچ رہا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ مجھے یہاں سے فوراً بھاگ جانا چاہیے۔ یہ خیال آتے ہی میں نے تیزی سے اپنی ضروری چیزیں اور کپڑے بیگ میں رکھے اور چپلیں پیروں میں ڈال کر کمرے سے نکل گیا۔ لیکن جوں ہی میں نے بیرونی دروازے کو کھولنے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ دروازہ باہر سے بند ہے۔ بھاگنے کا راستہ خالہ نے بند کردیا تھا۔ میں نے دیواروں کا جائزہ لیا۔ وہ میرے قد سے خاصی اونچی تھیں۔ ان دیواروں پر چڑھنا یوں بھی دشوار تھا کیوں کہ دیواروں کے اوپر شیشوں کے ٹکڑے بھی پیوست تھے۔ میری گھبراہٹ میں اضافہ ہونے لگا۔ میں واپس کمرے میں آکر بیٹھ گیا۔ طرح طرح کے خیالات اور وسوسے میرے ذہن میں گردش کرنے لگے تھے۔
گڈو سے شادی کا تصور کرتے ہی میرے اندر جھرجھری سی پیدا ہو گئی۔ وہ مجھ سے عمر میں بہت بڑی تھی۔ میری اس سے شادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ یوں بھی میں بانو سے پیار کرتا تھا۔ میری اور بانو کی شادی میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی اور اگر خدانخواستہ کوئی رکاوٹ ہوتی بھی تو گڈو بانو کا بدل نہیں تھی۔ مجھے بیٹھے ہوئے کئی گھنٹے ہو چلے تھے۔ دھوپ کی ہلکی سی جھلک سامنے والی دیوار پر موجود تھی۔ جس کا مطلب شام ہو چلی تھی۔
اچانک دروازہ نما کھڑکی کھلنے کی آواز آئی۔ دونوں پٹ کھل گئے تومیں نے دیکھا کہ سامنے گڈو کھڑی ہے۔ اس نے بھی مجھے دیکھا اور چلتی ہوئی آئی اور کہنے لگی۔
’’جب سے مجھے طلاق ہوئی ہے اس کے بعد پچھلے پانچ چھ سالوں سے میری ماں کو ایک ہی فکر کھائے جا رہی ہے کہ خواہ کسی طرح بھی ہو بس میری شادی ہو جائے‘‘
’’کیا پہلے تمہاری شادی ہو چکی ہے؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں ہوئی تھی۔ چار سال تک جب بچے نہیں ہوئے تو بہت سے ڈاکٹروں کو دکھلایا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی خرابی نہیں ہے۔ لیکن میری ساس نہیں مانی۔ اس نے مجھے طلاق دلواکر اپنے بیٹے کی دوسری شادی کر دی۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ پچھلے پانچ سال سے اس کی دوسری بیوی سے بھی کوئی بچہ نہیں ہوا‘‘۔
میں نے پوچھا۔
’’تمہاری دوسری شادی نہیں ہوئی؟‘‘
گڈو نے جواب دیا۔
’’جہاں ہزاروں کنواری لڑکیاں شادی کے انتظار میں بیٹھی ہوں، وہاں مجھ جیسے طلاق یافتہ کو کہاں سے کوئی بیاہنے آئےگا‘‘۔
یہ کہتے ہوئے گڈو کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ آنسوؤں کو اپنے دوپٹے سے پونچھتے ہوئے کہا۔
’’تم جلدی سے اپنا سامان لو اور یہاں سے چلے جاؤ۔ ابھی اماں بازار گئی ہوئی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ شاید کسی کو تالوں میں بند کرکے مجھ سے شادی کے لیے رضامند کر لیں گی۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ اگر میری شادی تم سے ہوگئی تو پھر بانو کا کیا ہوگا‘‘۔
میں بیگ اٹھاتے ہوئے ایک دم چونکا اور بولا۔
’’بانو کو تم کیسے جانتی ہو؟‘‘
’’کیوں کیا میں نہیں جان سکتی؟‘‘ گڈو نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’لیکن میں نے اس کے بارے میں یہا ں پر کسی کو کچھ نہیں بتایا‘‘۔ میں نے حیرت سے کہا۔
گڈو میرا ہاتھ پکڑ کر دروازے نما کھڑکی سے دوسری طرف کے صحن میں لے آئی اور بولی۔
’’وہاں تالہ پڑا ہوا ہے، تم یہاں سے نکل جاؤ اور پھر کبھی مت آنا‘‘۔
میں نے دروازے کی دہلیز پر رک کر اس سے پوچھا۔
’’ٹھیک ہے، لیکن مجھے بتاؤ کہ تم بانو کو کیسے جانتی ہو؟‘‘
گڈو نے حسرت سے کہا۔
’’رات کو تم میرے پاس نہیں بلکہ ہر لمحہ بانو کے پاس تھے‘‘ یہ کہتے ہوئے گڈو نے دروازہ بند کر لیا۔
(۱۹۹۶ء)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.