Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گلاب اور صلیب

عوض سعید

گلاب اور صلیب

عوض سعید

MORE BYعوض سعید

    آج بھی نکڑ سے لاؤڈ اسپیکر کی کریہہ آواز بد دستور آ رہی تھی اور وہ آواز کے اس جادو سے کچھ ایسا بے خبر بھی نہیں تھا، وہ جانتا تھا کہ آواز کے تصادم سے کبھی کلیاں کھِل اٹھتی ہیں اور کبھی آگ کے شعلے۔

    ’’یہ سب بکواس ہے۔‘‘ وہ جیسے منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔

    اس نے اپنے نوکر کو آواز دی ’’رحیم! رحیم!‘‘

    مگر اس کی آواز گھر کی دیواروں سے ٹکرا کر چپ ہو گئی، پھر اس نے نوکر کو پکارنے کی کوشش نہیں کی۔

    اب بازار کی دوکانوں کی پیشانیوں پر برقی قمقمے جگمگا کر اسے رات کی شروعات کا پتہ دے رہے تھے، اس نے ڈرائنگ روم کی کھلی ہوئی کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا۔ ’’میٹرو‘‘ کا بوڑھا بیرا ہاتھ میں چائے کی ٹرے سنبھالے رحیم کے ساتھ آہستہ آہستہ سڑک پار کر رہا تھا۔

    وہ رحیم کی سمجھ داری کا قائل ہو کر رہ گیا، وہ آواز کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔

    وہ اچانک کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا، کوئی خاص بات نہ ہوتے ہوئے بھی آج اس کا موڈ کچھ عجیب و غریب تھا، اسے اس بات کا شدید احساس تھا کہ گھر سے باہر نکلنے پراس کا دل کہیں بھی بہل نہ سکےگا۔

    اس کے ذہن میں خیال آیا کہ اشفاق کے ہاں جانا چاہیے، اشفاق جو اس کا یار تھا، مگر اس نے سوچا، اشفاق زندگی کے پیچ و خم میں کچھ ایسا الجھا ہوا رہتا ہے کہ کبھی کبھار یہ پتہ بھی نہیں چلتا کہ زندگی کے نکیلے تاروں پر وہ چل رہا ہے یا زندگی خود ان تاروں پر رقص کناں ہے۔

    اس نے بار میں داخل ہو کر کرسی سنبھالی بھی نہ تھی کہ اشفاق آ گیا۔

    ’’کیا پیو گے؟‘‘

    ’’بیئر۔‘‘

    ’’کیا بچوں کی طرح بئیر پیتے ہو۔‘‘

    ’’گرما میں لکر بیوقوف ہی پیتے ہیں۔‘‘

    ’’یہ کیوں نہیں کہتے کہ شراب پینے کی سکت نہیں ہے۔‘‘

    اس پر وہ بجائے خفا ہونے کے دھیرے سے کہا ’’بات کچھ ایسی ہے یار تم عیش کر سکتے ہو۔‘‘

    پہلے اس نے ادھر ادھر چوروں کی طرح دیکھا۔

    ’’کسے دیکھ رہے ہو‘‘ اس نے بے تابی سے پوچھا۔

    ’’منیجر کو‘‘ اشفاق نے دھیمے لہجے میں کہا۔

    ’’کیا اس کے بھی کچھ باقی ہیں؟‘‘

    ’’نہیں یار! تیرا ذہن تو ہمیشہ ادھر ہی جاتا ہے، میں بیرے کو دیکھ رہا ہوں‘‘۔ وہ جھلا اٹھا۔

    ’’بیرا تو سامنے والے ٹیبل کے پاس کھڑا ہے۔‘‘

    ’’بیرا‘‘ اس نے آواز دی۔

    ’’منا تو وہی سوامی ہے نہ جو کبھی۔۔۔‘‘

    ’’ہاں صاحب! وہاں آنا تو آپ نے چھوڑ ہی دیا ہے۔‘‘

    ’’اب وہاں کیا دھرا ہے! اچھا خاصا خالی گلاس تولا میری جان۔‘‘

    پھر ایک بار اس نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں بالکل اسی انداز میں جیسے ابھی کوئی شعبدہ دکھلانے والا ہو۔

    پھر اس نے دیکھا۔ اشفاق نے دھیرے سے جو سیال شے گلاس میں انڈیلی وہ اسکاچ نہیں ٹھرا تھا۔

    ’’عجیب آدمی ہو، بئیر پیو بئیر‘‘ اس نے اداس لہجے میں کہا۔

    مگر وہ ٹھرا اس انداز میں پیتا رہا جیسے وہسکی پی رہا ہو۔

    ’’خدا نے کرے کہ تم پر کبھی ایسا وقت آئے۔‘‘ اس نے ایک تلخ گھونٹ چڑھاتے ہوئے کہا۔

    یہ الفاظ اس آدمی نے کہے تھے جو کبھی جانی واکر، جان ہیگ اور کم سے کم بلیک نائٹ سے نیچے نہیں اترتا تھا اور جس نے۔۔۔ خیر! جانے دیجیے قصہ طولانی ہے۔

    ’’ارے کہاں چلے ٹھیرو بھی۔۔۔ ارے اشفاق، اشفاق کے بچے!‘‘

    اور پھر وہ شہر کی سلگتی ہوئی شاہراہوں پر تنہا بھٹکنے لگا، سڑک پر ایک نوجوان ہا کر چیخ رہا تھا۔ ’’مارٹن لوتھر کنگ پر کسی نے گولی چلا دی، لوتھر کنگ مارے گئے۔‘‘

    ’’گویا بدی نیکی پر غالب آ گئی، چلو چھٹی ہوئی۔‘‘

    چلتے چلتے ایک نوجوان نے کندھے اچکاتے ہوئے دوسرے نوجوان سے پوچھا :

    ’’یہ کنگ لوتھر کیسا آدمی تھا۔‘‘

    ’’کالا سیاہ فام تھا، تم چا ہو تو اسے نیگرو بھی کہہ سکتے ہو۔‘‘

    ’’میرے چاہنے نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے جب کہ وہ تھا ہی غالباً نیگرو۔‘‘

    ’’اس پر کس نے گولی چلائی؟‘‘

    ’’ایک گورے نے۔‘‘

    ’’اسے سچ کی قیمت ادا کرنی پڑی۔‘‘

    وہ رات دیر گئے جب گھر پہنچا تو اسے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ اشفاق اس کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا شراب پی رہا تھا۔

    ’’اچھا ہوا تم آ گئے، ابھی بوتل میں تھوڑی سی بچی ہے، یہ لو اسے چڑھا لو۔‘‘

    ’’اسکاچ ہے اسکاچ! اس نے پیگ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔‘‘

    ’’ابھی تھوڑی دیر پہلے کوئی اخبار والا چھوکرا چیخ رہا تھا کہ کوئی بڑا آدمی مر گیا ہے ؟‘‘

    ’’ہاں کنگ لوتھر کا قتل ہو گیا، کسی نے اس پر گولی چلا دی۔‘‘

    ’’یار! ہم بھی کس دور میں پیدا ہوئے! ایسا لگتا ہے جیسے ہم خود اپنی نعشوں کو آپ دفن کریں گے، پتہ نہیں مسیح کو ابھی کتنی بار صلیب پر چڑھنا ہوگا۔‘‘ اس کے آگے وہ کچھ کہہ نہ سکا۔

    وہ وہسکی کا پیگ اٹھا کر جب پینے لگا تو آج اسے پہلی بار یوں لگا جیسے وہ شراب نہیں خون پی رہا ہو۔

    ٭٭٭

    تیسرا ٹکٹ

    ’’یہ بچہ کس کا ہے؟ یہ بچہ کس کا ہے؟‘‘ ہجوم کو چیرتی ہوئی ایک بھاری بھرکم آواز نے اس کے قدم روک لیے، اس نے پلٹ کر اپنے بیوی کی طرف دیکھا،لیکن اس کا چہرہ رد عمل سے بالکل خالی تھا۔

    ہجوم جس تیزی سے بڑھتا جا رہا تھا اسی تیزی سے گھٹتا بھی جا رہا تھا، ایک زمانے کے بعد وہ اپنی بیوی کے ساتھ باہر نکلا تھا تھوڑی سی خوشیاں سمیٹنے کے لیے، ان دونوں نے ایک چھوٹا موٹا سا تفریحی پروگرام بنایا تھا کسی اچھے سے ہوٹل میں کھانا کھانا اور پکچر دیکھنا۔

    آدمی جب راستہ طے کرتا ہے تو کبھی کبھار اس کے پاؤں تلے کنکر آ جاتے ہیں جنھیں ٹھوکر لگا کر وہ آگے بڑھ جاتا ہے۔

    اس کی بیوی نے کنکھیوں سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں اطمینان کرتی ہوئی وہ قدموں کی ایک ایک چاپ کو گننے لگی لیکن وہ اندر ہی اندر جیسے کچھ سوچ رہی تھی۔

    ’’کھانا کہاں اور کس ہوٹل میں کھائیں گے ؟‘‘ اس کے شوہر نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا۔

    ’’کسی بھی ہوٹل میں۔‘‘

    بیوی کے اس نپے تلے جواب کے بعد اسے آگے کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوئی، وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے اطمینان سے سامنے والے ریستوران میں داخل ہوا۔

    ہوٹل میں کئی کیبن تھے اور بیشتر کیبن خالی تھے، کیبن سے پردہ اٹھا کر اس نے رومال سے کرسیوں کی گرد صاف کی اور اپنی بیوی کے سامنے مینو رکھ کر ایک سگریٹ سلگائی۔

    ’’آپ نے ہوٹل کا انتخاب کیا بھی تو۔۔۔‘‘

    ’’تم ہی نے تو کہا تھا نا کہ کسی بھی ریستوراں میں کھانا کھا لیں گے۔‘‘

    ’’کہا تو تھا مگر گھر سے نکلتے وقت ہمارے ذہن میں کسی اچھے ریستوراں کا خاکہ تھا۔‘‘

    ’’انسان کی سوچ لا محدود ہے اور خاکے تو مٹتے ہی رہتے ہیں۔‘‘

    ’’آپ مجھے بور کر رہے ہیں، یہ ہوٹل ہے؟ دیکھیے مینو پر بھی چائے کے دھبے ہیں؟‘‘

    ’’ہماری طرح کسی دل جلے نے مینو دیکھنے کے بعد اپنی حیثیت کو پہچان کر شاید اس پر چائے انڈیل دی ہو۔‘‘

    بات آگے بڑھنے سے پہلے دیو ہیکل ویٹر نے کیبن میں داخل ہو کر ایک دیوار سی کھڑی کر دی۔ اس کی بیوی نے پھر ایک بار اپنے شوہر کی طرف دیکھا لیکن وہ چپ چاپ بیٹھا تھا جیسے وہ ویٹر سے خائف ہو گیا ہو۔

    اسے تھوڑی دیر پہلے کا ایک واقعہ بےطرح ستا رہا تھا، ایک نامعلوم سی خلش، ایک بے نام سی چبھن اسے پریشان کیے ہوئے تھی۔ ہوا یوں تھا کہ اس کا ایک دوست جس سے اس نے مدتوں پہلے کچھ روپے ادھار لیے تھے جسے وہ عمداً بھولے ہوئے تھا آج اتفاقاً اس کے ہاں آ گیا تھا، اس کا دوست لمبی چوڑی باتیں کیے جا رہا تھا لیکن اس کی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ آگے کچھ کہنا چاہتا ہے اور اس ایک بات کو اگلنے کے لیے اسے سینکڑوں غیرضروری باتیں کرنی پڑ رہی ہیں۔ جب باتوں کا ذخیرہ ختم ہو گیا تو اس نے بجائے رخصت ہونے کے خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔

    اس کے دوست سے کہیں زیادہ آج وہ اضطراری کیفیت سے دوچار تھا، وہ چاہتا تھا کہ اس کا دوست کچھ کہے مگر وہ کچھ نہیں کہہ رہا تھا۔ پھر پتہ نہیں اس کی زبان پر تالا کس طرح کھل گیا۔ ’’مجھے کچھ روپوں کی ضرورت ہے، کل پر سوں لوٹا دوں گا۔‘‘

    وہ اطمینان سے اپنے ساتھی کا محاسبہ کرنے لگا، وہ اپنے دوست کا مقروض ہے، شاید اس لیے وہ اس بہانے پیسے لینا چاہتا ہے، وہ صاف صاف بھی تو کہہ سکتا تھا کہ یار تم میرے مقروض ہو، میں نے عین آڑے وقت میں کچھ روپے دیے تھے، اب تم میرے پیسے لوٹا دو، تم بھول گئے ہو لیکن میں نے اُسے نہیں بھلایا ہے۔

    ’’پیسے لینے والا اکثر بھول جاتا ہے لیکن جس آدمی کی جیب سے پیسے نکلتے ہیں وہ اس منظر کو کبھی نہیں بھول سکتا۔‘‘

    وہ اس طرح کی ساری باتیں اپنے دوست کی زبان سے سننا چاہتا تھا مگر معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا، اُس نے اپنا مدعا دہرایا بھی نہ تھا۔

    ’’یار کچھ عجیب کڑکی ہے، یقین جانو میرے ہاں صرف سوا روپیہ ہے، کل پرسوں تک تو تمھارے ہاں بھی کچھ روپے آ ہی جائیں گے، مناسب سمجھو تو ایک روپیہ ہی رکھ لو۔‘‘

    شاید اسے یہ تجویز پسند نہ آئی، اس لیے اس نے بدقت تمام کہا۔ ’’ایک روپیہ لے کر میں کیا کروں گا؟ رہنے دو شاید یہ پیسے تمھارے کسی کام آ جائیں۔‘‘

    ’’کام تو میرے بھی نہیں آئیں گے۔‘‘

    ’’تو پھر وہ روپیہ ہی لا دو۔‘‘

    دفعتاً کھڑکی سے ایک سایہ ابھرا اور وہ اندر چلا گیا۔ دو منٹ بعد جب وہ لوٹا تو اس کے ہاتھ میں ایک روپیہ بھی نہیں تھا اور وہ گھگھیاتے ہوئے اپنے دوست سے کہہ رہا تھا ’’اس روپے کو شاید جیب سے میری بیوی نے نکال لیا ہے، نہیں نہیں میں بھول رہا ہوں، گھر آتے ہی وہ روپیہ میں نے اسے دے دیا تھا شاید خرچ میں آ گیا ہو۔‘‘

    ’’عجیب کرب، بےچارگی، انتشار سے گزر رہے ہیں ہم لوگ اور گنوار پن کایہ عالم ہے کہ ہم جھوٹ بھی سلیقے سے نہیں کہہ سکتے۔ یہ کہہ کر وہ جیسے اس کے منہ پر طمانچہ مارکر چلا گیا۔‘‘

    ’’کیا سوچ رہے ہیں آپ، چائے ٹھنڈی ہو چکی ہے۔‘‘

    ’’جیسے وہ خواب سے چونکا۔ مگر وہ کھانا۔‘‘

    ’’کھانا وانا میں نے نہیں منگوایا۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’بس یوں ہی۔‘‘

    ’’کوئی دوسرا ہوٹل دیکھیں۔‘‘

    ’’دوسرا بھی ایسا ہی ہوگا۔‘‘

    ’’یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔‘‘

    ’’اب رہنے بھی دیجیے۔‘‘

    ہوٹل کے سارے کیبن لوگوں سے بھرے ہوئے تھے، صحن میں چند لوگ یا تو چائے کی چسکیاں لے رہے تھے یا سموسے کھا رہے تھے، کچھ لوگ آج کے مسائل پر فاضلانہ انداز میں باتیں کیے جا رہے تھے۔

    ’’تیسری جنگ چھڑ گئی تو کیا ہوگا؟‘‘

    ’’سب مر جائیں گے۔‘‘

    ’’تو کیا اب جی رہے ہیں؟‘‘

    ’’جی تو رہے ہیں اور ساتھ ساتھ سموسے بھی کھا رہے ہیں،آئے تو تھے کچھ اور ہی ارادے سے۔‘‘

    ’’سب لوگ ہنسنے لگے۔‘‘

    اس کی بیوی نے اپنے شوہر کو کھویا کھویا سا دیکھ کر طنز بھرے انداز میں کہا۔ ’’آپ کا سا ڈل آدمی میں نے شاید ہی دیکھا ہو، دیکھو ! لوگ باتیں بھی کر رہے ہیں اور آپ ہیں کہ بت بنے بیٹھے ہیں۔‘‘

    اس نے اپنی بیوی کے اس طنز کا کوئی جواب نہیں دیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اب وہ دونوں تیز تیز قدم ڈالتے پروگرام کے مطابق سنیما ہاؤس جا رہے تھے۔ شام کے ڈھلتے ہی بڑے بازار کی رونق میں اضافہ ہو گیا تھا، نئے نئے ماڈل کی موٹریں تیزی سے سڑک کے سینے پر دوڑ رہی تھیں اور لوگ باگ مختلف دوکانوں میں گھسے ہوئے شاپنگ کر رہے تھے، کچھ ایسے بھی تھے جو حسرت سے دوکان کے چمکتے ہوئے شیشوں میں اپنے عکس ہی کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے اور بعض سجی سجائی دوکانوں کی مختلف چیزوں کو الٹ پلٹ کر

    یوں ہی دیکھ رہے تھے جیسے وہ یہاں واقعی کچھ خریدنے ہی کے خیال سے آئے ہوں۔

    سنیما ہاؤس ابھی کافی دور تھا اور ہر بس اسٹاپ پر ایک لمبا سا کیو لگا ہوا تھا، کیونکہ الجھن سے بچنے کے لیے وہ پیدل ہی جا رہے تھے، وہ چاہتے تو ٹیکسی بھی لے سکتے تھے لیکن پتہ نہیں ان دونوں کو پیدل چلنے میں کس قسم کی لذت کا احساس ہو رہا تھا۔

    ’’لیکن بڑی سڑک پار کرنے کے بعد اب آپ کو ٹیکسی کا خیال آیا، یہ بات تو آپ کو پہلے ہی کہنی چاہیے تھی۔‘‘

    ’’میں اب تک یہی سمجھتا رہا کہ تم پیدل چلنے کے موڈ میں ہو۔‘‘

    ’’آپ کی شخصیت ہی کچھ عجیب سی ہے، وہ بات جو کسی کے ذہن میں نہیں آتی پتہ نہیں کس طرح آپ کے ذہن میں آ جاتی ہے؟‘‘

    ’’یہی تو میری انفرادیت ہے؟‘‘

    وہ اس کٹیلے جملے کو جیسے پی گیا۔

    اب وہ دونوں پھر چپ چاپ سڑک سے گزر رہے تھے۔

    ’’مجھے معاف کیجیے کبھی کبھی مجھ سے گستاخی ہو جاتی ہے اور آپ بھی چپ چاپ میری باتوں کو پی جاتے ہیں، آپ مجھے غلطی پر ٹوکتے بھی تو نہیں۔‘‘

    اب وہ سنیما کے احاطے میں داخل ہو چکے تھے، وہ پکچر جس کے ارادے سے وہ یہاں آئے تھے وہ کل ہی جا چکی تھی اور اس کی جگہ ایک دوسری نئی فلم کا بورڈ سنیما کے گیٹ پر لٹکا ہوا تھا۔ پکچر غالباً ابھی ابھی شروع ہوئی تھی، اس کی بیوی نے بکنگ ونڈو کے قریب پہنچ کر فرسٹ کلاس کے تین ٹکٹ خریدے۔

    یہ دو کے بجائے تم نے تین ٹکٹ کیوں خریدے ‘‘ اس کے شوہر نے حیرانی سے پوچھا۔‘‘

    ’’یہ تیسرا ٹکٹ میں نے منے کے لیے لیا ہے جو کبھی ہمارے ساتھ پکچر دیکھا کرتا تھا، کم از کم ہمیں یہ احساس تو رہے کہ وہ آج بھی ہماری ہر چھوٹی سی چھوٹی خوشی میں شامل ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر اس نے اپنے شوہر کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں کی خلاؤں میں عجیب سی اداسی تیر رہی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے