ہم تمام بہن بھائیوں کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ وہ ہمارا باپ نہیں ہے۔ تو پھر، کون ہے؟ یہ ایک راز تھا اور ہم حقیقت سے ناواقف تھے۔ کچھ عرصہ پہلے وہ ہمارے گھر میں باپ کی حیثیت سے رہ رہا تھا۔ ہماری ماں اسی کے کمرے میں سویا کرتی تھی۔ موروثی جائیداد بھی اسی کے قبضے میں تھی۔ رسموں کو انجام دیتے وقت اور سماجی تقریبوں میں وہی پیش پیش رہتا۔ ہم چاروں بھائیوں کی بیویوں سے ٹھٹھا مذاق کرتا۔ ہر ماہ باقاعدگی سے، ہمیں اپنی اپنی تنخواہ کے لفافے اس کے سپرد کردینے ہوتے تھے، جن میں سے بڑی معموی سی رقم وہ ہمیں جیب خرچ کے لیے دیا کرتا تھا۔ گھر کا تمام خرچ وہ خود ہی چلاتا، ہمیں گھر کے کام کاج میں دخل دینے کا کوئی حق نہ تھا۔ کنبے کی ساری ذمہ داری اس نے اپنے سر لے رکھی تھی۔
لیکن وہ کیا بات تھی کہ جس نے ہمارے دل میں شک کے کانٹے چبھودیے تھے، جن کے زخموں سے اٹھتی ہوئی ہر ٹیس ہمیں بار بار وہ ناخوشگوار بات یاد دلایا کرتی تھی کہ وہ ہمارا باپ نہیں ہے۔ وہ ہمارا باپ نہیں ہے، تو پھر کون ہے؟ یہ ایک راز تھا، اور ہم حقیقت سے ناواقف تھے۔
دراصل میانے قد، درمیانے ہاڑ، سانولے رنگ اور بیضوی چہرے کا کوئی بھی شخص ہمارے باپ کی جون بدل سکتا تھا۔ جون بدلنے میں مزید سہولت یہ تھی کہ ہمارے باپ کے چہرے پر گھنی داڑھی تھی۔ وہ ڈھیلی ڈھالی ہندوستانی پوشاک پہننے کا عادی تھا۔ ساتھ ہی چکاچوند سے بچنے کے لیے وہ سیاہ چشمہ لگایا کرتا تھا۔ چوں کہ اس حلیے میں افشا کا کم اور اخفا کا زیادہ امکان تھا، اس لیے کوئی بھی شخص اس کاحلیہ اختیار کرسکتا تھا۔ ہوا بھی یہی تھا۔ ایک پراسرار شخص ہمارے باپ کا مرتبہ حاصل کر بیٹھا تھا۔
سال بھر پہلے کی بات ہے کہ ہم نے اپنے معالج کے مشورے پر اپنے باپ کو شہر کے سب سے بڑے اسپتال میں داخل کیا تھا۔ ستر برس کے آدمی کو اس گنجان آباد شہر میں جو بھی طبعی عارضے لاحق ہوسکتے تھے، خوش قسمتی سے کسی ایک سے بھی دوچار نہ تھا۔ جو تھا تو بس یہی کہ ہمارا باپ برون کائی ٹس BRONCHITIS کا شکار تھا۔
نومبر کے مہینے میں اس شہر میں ہلکی ہلکی ٹھنڈی پڑنے لگتی ہے۔ ہمارا باپ صرف تہمد پہن کر سونے کا عادی تھا۔ پہلے تو اس ٹھنڈ سے اس کا سینہ جکڑ گیا۔ پھر وقفے وقفے سے اس پر کھانسی کے دورے پڑنے لگے۔ ایسے دورے کہ ہر بار یوں محسوس ہوا کہ کوئی آسیب، اس کا سینہ پھاڑ کر، باہر نکلنے پر آمادہ ہے۔ اور بخار ایسا چڑھا کہ تپش پیما کے قالب میں نہ سماتا تھا۔
اسپتال میں دوسرے روز اس کے مرض پر قابو پالیا گیا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ اب وہ بڑی راحت محسوس کر رہا ہے۔ بخار میں کمی آچکی ہے۔ کھانسی کے دورے بھی اب اسے کم کم پڑتے ہیں۔
اسے اسپتال میں داخل ہوئے تقریباً ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ ہم روزانہ اس کی مزاج پرسی کو جایا کرتے تھے۔ ایک روز جب ہم اسپتال پہنچے تو ہم نے اپنے باپ کے کمرے میں ایک اجنبی کو لیٹا ہوا پایا۔ ایک نرس کمرے میں موجود تھی اور مریض کے چارٹ میں اندراج کرکے ابھی ابھی فارغ ہوئی تھی۔ ہم نے اس نرس سے پوچھا، ’’سسٹر! یہ کون صاحب ہیں، جو ہمارے باپ کی جگہ پر لیٹے ہوئے ہیں؟‘‘
’’یہ شہر کے بڑے معزز آدمی ہیں۔ ان کا نام۔۔۔‘‘
اس شخص میں بنا کوئی دلچسپی لیے ہم نے پوچھا، ’’مگر۔۔۔ ہمارے بابا کہاں ہیں؟‘‘
’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ جنرل وارڈ میں موجود ہیں۔‘‘
’’جنرل وارڈ۔۔۔! یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟‘‘
’’جی، میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ وہ جنرل وارڈ ہی میں ہیں۔ انہیں کے شدید اصرار پر ہم نے انہیں یہاں سے منتقل کیا ہے۔‘‘
یہ کہتے کہتے اس نے معائنے کا سامان بٹورا۔ اور جب وہ کمرے سے جانے لگی تو بولی، ’’آپ کے بابا اکثر مجھ سے کمرے کا ریٹ اور دیگر اخراجات کی تفصیل معلوم کیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ عمر کی جس منزل میں ہیں، وہاں انہیں ایسی راحتوں کی چنداں ضروت نہیں۔ حتی الامکان انہیں فضول خرچیوں اور سماجی چونچولوں سے بچنا چاہیے۔‘‘
نرس نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ آج ان کا جنرل وارڈ میں منتقل ہونے کا اصرار اتنا بڑھا کہ انہوں نے اسپتال کے ڈین DEAN کو فون پر دھمکی دی کہ اگر انہیں اس کمرے سے جنرل وارڈ میں منتقل نہ کیاگیا تو، وہ عملے کی نظر بچاکر اسپتال سے فرار ہوجائیں گے۔
اس بات کو ہمارا ذہن تسلیم کرنے سے قاصر تھا۔ کیوں کہ ہمارا باپ عمدہ رہائش، عمدہ غذا، عمدہ سواری، حتی کہ عمدہ علاج پر یقین رکھتا تھا۔ اس کے برعکس اپنے آپ کو پرائیویٹ روم سے جنرل وارڈ میں منتقل کروانے میں کیا مصلحت تھی؟ ہم اس مصلحت سے ناواقف تھے۔
جنرل وارڈ کے داخلی دروازے پر پہنچ کر ہم ٹھٹک گئے۔ وارڈ میں بیسیوں مریض اسپتال کی یونیفارم پہنے ہوئے تقریباً یکساں آسن میں بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ چند اپنی پشت تکیہ سے ٹکائے نیم دراز تھے۔ اکثر اپنے اپنے ملاقاتیوں سے باتوں میں مشغول تھے۔ ایک وارڈ بوائے دواؤں کی ٹرالی لیے وہاں سے گزر رہا تھا۔ ہم نے اسے روکا، پھر اسے اپنے باپ کا نام بتاکر معلوم کیا کہ کیا وہ ہماری رہنمائی اس تک کرسکتا ہے۔ وارڈ بوائے نے وارڈ کے آخری سرے پر ایک میز کے پیچھے بیٹھی ہوئی نرس کی جانب اشارہ کیا، پھر ہمیں اس نرس سے رجوع کرنے کا مشورہ دے کر چلا گیا۔
پل بھر کے لیے ہمیں محسوس ہوا کہ ہم نے اپنے باپ کو اس مجمع میں کھو دیا ہے۔
کیا یہ محض اندیشہ تھا؟ کیا حقیقت اس کے برعکس تھی؟
چالیس پچاس قدم چل کر ہم نرس کے پاس پہنچ گئے۔ جب ہم نے اپنے باپ کی تمام تفصیل اسے کہہ سنائی تو اس نے یہ کہہ کر ہماری ڈھارس بندھائی کہ ہمارا باپ اسی وارڈ میں ہے اور وہ اس سے واقف ہے۔ پھر وہ ہماری رہنمائی کرتی ہوئی وارڈ کے اتری کونے میں رکھے ہوئے بیڈ تک آئی۔ اس بیڈ پر ہم نے اپنے باپ کو لیٹا ہوا پایا۔ اس کے نتھنوں سے آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا اور کلائی میں گلوکوز کی سوئی گڑی ہوئی تھی۔
اپنے باپ کو اس عالم میں دیکھ کر ہم مضطرب ہو اٹھے۔
’’سسٹر! یہ کیا؟ کل تک تو یہ بھلے چنگے تھے ڈاکٹر آج انہیں ڈسچارج کرنے والے تھے۔‘‘
نرس نے بتایا، ’’دوپہر میں جوں ہی یہ اس وارڈ میں منتقل ہوئے توں ہی ان کی صحت کا توازن بگڑ گیا۔ ان پر کھانسی کا ایسا دورہ پڑا کہ یہ جان کنی کے عالم میں مبتلا ہوگئے۔ میں نے ریذیڈنٹ ڈاکٹر RESIDENT DOCTOR کو فوراً طلب کیا۔ وہ دوڑے دوڑے آئے، ان کی مکمل جانچ کی، دو انجکشن لگائے، ایک دو دوائیاں بدلیں۔ ہم انہیں کی ہدایت پر آپ کے بابا کو آکسیجن اور گلوکوز دے رہے ہیں۔‘‘
ہمارے باپ کی آنکھیں بند تھیں۔ اس کے ہونٹ یوں کھلے تھے گویا وہ ہم سے کچھ کہنا چاہتا ہو۔ ہم نے اپنے اپنے کان قریب کردیے۔ چند مہمل سے الفاظ اس کے منہ سے ضرور نکلے لیکن ہم ان کا مفہوم سمجھنے سے قاصر رہے۔ اس امید پر کہ شاید وہ اپنی بات دہرائے، ہم اس کے سرہانے بدستور بیٹھے رہے۔ لیکن ہمارے باپ نے نہ تو دوبارہ آنکھیں کھولیں اور نہ ہی اپنے لبوں کو جنبش دی۔ بس نیم بے ہوشی کے عالم میں پڑا رہا۔ جب ملاقات کا وقت ختم ہوا، تب ہم تمام بہن بھائی گھر کو روانہ ہوئے۔
آج ہم تمام واقعات پر ازسرنو غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ گھر سے اسپتال پہنچتے پہنچتے یا اس پرائیویٹ روم میں قیام کے دوران میں ہمارے باپ کی جگہ اس کے ہم زاد نے لے لی تھی۔
اس شام گھر پہنچ کر ہم تمام بہن بھائی اسی نکتے پر تبادلہ خیال کرتے رہے کہ ہمارا باپ آخر جنرل وارڈ میں کیوں منتقل ہوا۔ ساتھ ہی اس کی حرکات و سکنات سے ہمیں جس اجنبیت کا پراسرار احساس ہونے لگا تھا، آخر اس کی کیا وجہ ہے۔
دوروز بعد ڈاکٹر نے ہمارے باپ کو اسپتال سے ڈسچارج DISCHARGE کردیا۔ ہم اسے گھر لے آئے۔
آٹھ دس دنوں میں ہم تمام بہن بھائیوں اور گھر کے دیگر افراد نے باپ کے عادات و اطوار میں حیرت انگیز تبدیلی دیکھی۔ باپ کے رویے میں زمین و آسمان کا فرق آچکا تھا۔ مذہبی رسموں اور سماجی تقریبوں میں پیش پیش رہنے والا شخص اب گوشہ نشین ہوچکا تھا۔ وہ دن رات اپنے کمرے میں ہی پڑا رہتا۔ کسی ضروری حاجت ہی کے تحت باہر آتا۔ ہماری ماں کو بھی اس نے اپنے کمرے میں آنے سے منع کردیا تھا۔ اس دوران میں حسب معمول ہمیں تنخواہیں بھی ملیں۔ خلافِ توقع تنخواہ کے لفافے اس نے ہم سے طلب نہ کیے۔ لگتا تھا کہ دنیا داری سے اس کا جی اچاٹ ہوچکا ہے۔ دنیاوی امور سے، وہ ہرممکن طریقے سے کنارہ کش ہوجانا چاہتا تھا۔ ایک دن تمام جائیداد اور دیگر املاک اس نے ہمارے نام لکھ دیں۔ اس کے باوجود ہمارا شبہ رفع نہ ہوا۔
ہم اکثر سرجوڑ کر بیٹھتے اور اسی کے متعلق سوچا کرتے تھے۔ یوں بھی ہوتا کہ جب بھی ہمیں اپنے کاموں سے فرصت ملتی، اس کی شبیہ ہمارے ذہن میں گھوم جاتی۔ اس کی بوالعجب شخصیت ہمیں ہانٹ کرنے لگتی۔ ہم کسی صورت میں یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ وہ ہمارا حقیقی باپ ہے۔ وہ ہمارا حقیقی باپ نہیں ہے؟ تو پھر کون ہے؟ یہ ایک راز تھا۔ اور ہم حقیقت سے ناواقف تھے۔
ایک روز ہم بہن بھائیوں نے طے کیا کہ ہم اپنے باپ کا بلڈ ٹیسٹ BLOOD TEST کروائیں اور معلوم کریں کہ آیا اس کا بلڈ گروپ اور ہمارے باپ کا بلڈ گروپ یکساں ہے بھی یا نہیں۔ بلڈ سیمپل BLOOD SAMPLE لینے کے لیے ہم نے پیتھے لوجسٹ PATHALOGIST کو گھر پر ہی بلا لیا۔ لیکن یہ اپنا خون دینے پر آمادہ نہ ہوا۔ ہم نے اسے کئی واسطے دیے اسے باور کرانے کی کوشش کی کہ فیملی ڈاکٹر ہی کی ہدایت پر اس کا بلڈ ٹیسٹ کروایا جارہا ہے جو اس کے مرض کی شناخت کے لیے ضروری ہے۔ بجائے اپنا بلڈ سیمپل BLOOD SAMPLE دینے کے وہ بار بار یہی کہتا،
’’تم لوگوں کو مجھ پر شبہ ہے۔ تم سدا میری ٹوہ میں رہتے ہو۔ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے میری اصلیت جاننے کی کوشش کرتے ہو۔ اپنا سب کچھ تو تمہیں دے چکا۔ مکان کے اس کونے میں پڑا رہتا ہوں۔ تم سے کچھ بھی تو طلب نہیں کرتا۔ اس کے باوجود تم مجھے آزار پہنچانا چاہتے ہو۔ اگر مجھ سے اتنے ہی بیزار ہوچکے ہو تو مجھے کسی ویرانے میں چھوڑ آؤ۔ چیل کوؤں کی خوراک بن جاؤں گا۔‘‘
اس کی منت سماجت سے ہم بہن بھائیوں کا دل نہ پسیجا۔ اصلیت کا پتہ چلانے کے جنون میں ہم بہن بھائیوں نے اس کے ہاتھ پاؤں جکڑدیے۔ جوں ہی ڈاکٹر نے سرنج اس کی رگ میں کھبوئی، اس کے شریر میں تشنج سا پیدا ہوگیا۔ پھر اس نے ایک گہری سسکی لی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
اگلے روز پیتھے لوجسٹ نے رپورٹ ہمارے حوالے کردی۔ ہمارے باپ کا بلڈ گروپ او پوزیٹیو (O+VE) تھا، اس کا بھی وہی نکلا۔ ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ یہ بڑا کامن بلڈ گروپ ہے۔ اکثر لوگوں کا یہی بلڈ گروپ ہوتا ہے۔ کسی کی پیدائشی اصلیت جاننے کا یہ کوئی جنیوئن GENUINE ٹیسٹ نہیں ہے۔ ہمیں اپنی اسکیم کی ناکامی کا بے حد افسوس ہوا۔
دن بیتتے چلے گئے لیکن ہم بہن بھائی اس کے متعلق اپنے شکوک دلوں سے رفع نہ کرسکے۔ کوئی لمحہ ایسا نہ گزرتا کہ اس نشتر کی چبھن ہم اپنے جگر میں محسوس نہ کرپاتے ہوں۔ ہم ہر دم یہی سوچا کرتے کہ وہ ہمارا حقیقی باپ نہیں ہے۔۔۔ تو پھر کون ہے؟ یہ ایک راز تھا اور ہم حقیقت سے ناواقف تھے۔
ذہن پر مسلسل تناؤ رہنے کی وجہ سے اس کے تعلق سے ہمارے رویے میں برہمی جھلکنے لگی۔ ایسی برہمی کہ جسے ہر ہوش مند محسوس کرسکتاتھا۔ تو پھر وہ کیوں نہ محسوس کرتا۔ ہم اپنی جھنجھلاہٹ اور ناراضگی کے اظہار میں کوئی پس و پیش نہ کرتے بلکہ بعض بعض موقعوں پر بلا کسی رورِعایت کے اپنے رویے کو جارحانہ بنالیا کرتے تھے۔ اس سے گفتگو کرتے ہوئے ہم اپنا لہجہ درست اور آواز بلند رکھا کرتے تھے۔
ہم بہن بھائیوں میں سے ایک دور کی کوڑی لایا۔ اس کی تجویز یہ تھی کہ اس کی بتیسی اپنے FAMILY DENTIST فیملی ڈینٹسٹ کو دکھلائی جائے۔ ہمارے باپ نے اسی دندان ساز سے اپنی بتیسی چند ماہ قبل بنوائی تھی۔ ہمارے بھائی کا کہنا تھا کہ دندان ساز اپنے مخصوص گاہکوں کے دانتوں کے سانچے عموماً جلدی نہیں توڑتے، بلکہ سال دوسال تک انہیں محفوظ رکھتے ہیں۔
دندان ساز کو جب ہم نے اپنے منصوبے سے واقف کرایا تو بدقت تمام وہ ہماراساتھ دینے پر راضی ہوا۔ اول تو اسے بیسیوں غلیظ اور متعفن سانچوں اور بتیسیوں میں سے ہمارے باپ کی بتیسی کا سانچہ تلاش کرنا تھا۔ دوم یہ کہ رات گئے اسے ہمارے گھر آکر بتیسی کی جانچ کرنی تھی۔ دوروزبعد اس نے ٹیلیفون پر اطلاع دی کہ تلاش بسیار کے بعد اس نے ہمارے باپ کی بتیسی کا سانچہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ اگلے روز اس نے ہمارے یہاں آنے کا پروگرام بنایا۔
ہمارا باپ رات میں جلد سونے کاعادی تھا۔ اس کے باوجود رات دیر گئے، ہم چوری چھپے، اس کے کمرے میں داخل ہوئے۔ وہ حسب معمول صرف تہمد پہنے مسہری پر سو رہا تھا۔ اس کے سرہانے ایک تپائی رکھی ہوئی تھی، تپائی پر بلوری پیالہ رکھا ہوا تھا، جو پانی سے بھرا ہوا تھا اور پیالے کی تہہ میں اس کی بتیسی رکھی ہوئی تھی۔ ہم وہ پیالہ اس کے کمرے سے اٹھالائے۔
دندان ساز نے وہ بتیسی ہمارے باپ کے سانچے پر رکھ دی۔ وہ ایک دوسرے میں یوں پیوست ہوگئے، گویا ایک جان دو قالب ہوں۔ دندان ساز نے محدب شیشے کی مدد سے انہیں ہر ہر زاویے سے پرکھا پھر بولا، ’’گوشے سے گوشہ ملا ہوا ہے۔ کہیں کوئی خلا نظر نہیں آتا۔ یہ بتیسی یقیناً اسی سانچے پر تیار کی گئی ہے۔ چوں کہ یہ سانچہ آپ کے باپ کا ہے، اس لیے یہ بتیسی یقیناً آپ کے باپ ہی کی ہے۔‘‘
دندان ساز کے رخصت ہوجانے کے بعد، ہم تمام بہن بھائی انتہائی خاموشی کے عالم میں پائیں باغ میں آکر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر کے بعد چائے آگئی۔ سب نے چسکیاں لے لے کر چائے پی۔ کوئی کچھ نہ بولا۔ میں نے محسوس کیا کہ بہ ظاہر ہر کوئی مطمئن سانظر آرہا ہے، لیکن اندرونی طو رپر دکھی ہے۔ جھجکتے ہوئے میں نے اپنے احساسات کا اظہار کردیا۔
’’آپ سب کو کوئی غم کھائے جارہاہے۔‘‘
’’غم۔۔۔؟ کیسا غم۔۔۔؟ ہمیں کوئی غم نہیں۔‘‘ وہ یک زبان ہوکر بولے۔ میں نے کہا، ’’قدرت کرے کہ آپ ہر تشویش سے آزاد ہوں، کسی قسم کا کوئی غم نہ ہو۔ لیکن وہ کون سا اشارہ ہے کہ جو اس کی موجودگی کا پتا دیتا ہے۔‘‘
بڑی دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ گویا سب اپنے اپنے دلوں کو ٹٹول ٹٹول کر جواب برآمد کرنے میں کوشاں ہوں۔ میں نے کہا، ’’کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنے باپ سے علیحدگی اور بے گانگی کادکھ بھوگ رہے ہوں۔ ان کی جھکی ہوئی گردنوں میں ذرا سی جنبش ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے ویرانی ٹپک رہی تھی۔
جانے کب ہمارا باپ برآمدے کو پار کرتا پائیں باغ کا افقی حصہ طے کرتا، ہمارے قریب آکھڑا ہوا۔ اس کی غیرمتوقع آمد نے ہمیں بوکھلا دیا۔ دوسرے ہی لمحے ہم مستعد ہوکر بیٹھ گئے۔ اس نے کہنا شروع کیا، ’’تمہاری پریشانی کا باعث میں نہیں ہوں۔ میں تو وہی ہوں۔ تمہارا باپ۔ اعتقاد تمہارا اٹھ چکا ہے مجھ پر سے۔ بھلامیں کیا کرسکتا ہوں۔ یہ بپتا، یہ حیرانی، یہ وسوسے تمہارے اپنے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ بہتر ہے کہ تم اپنے آپ کو قصوروار ٹھہراؤ۔ مجھے الزام نہ دو۔‘‘
ہم تمام بہن بھائیوں نے یک زبان ہو کر کہا، ’’بوڑھے چپ ہوجا۔ زیادہ نہ بول۔ تو ہوتا کون ہے ہمیں اس سن میں عقیدے اور ایمان کا درس دینے والا۔ آخر تیری بساط ہی کیا ہے۔ تو تو بہروپیا ہے۔ سوانگ بھرکر تو آج ہمیں جل دے رہا ہے، تو دیے چلا جا۔‘‘
یہ کہتے کہتے ہماری آواز کافی بلند ہوگئی۔
’’پر یاد رکھ، جس روز بھی ہماراحقیقی باپ ہمارے ہاتھ لگا اس روز ٹھوکریں مار مار کر ہم تجھے اس چوکھٹ سے باہر کردیں گے۔‘‘
یہ سن کر وہ کپکپانے لگا۔ پھر اس نے دونوں ہاتھ اپنے جسم کے گرد یوں لپیٹ لیے، گویا اس کا بدن ننگا ہو اور ہم اس کے ننگے بدن کو قمچیوں سے سوت رہے ہوں۔
’’چل ہٹ پرے۔‘‘
ہماری ڈانٹ سن کر وہ سہم کر ایک قدم پیچھے ہٹا۔ پھر گردن جھکائے ہوئے، ڈگمگاتے قدموں سے مکان کے ا ندر چلا گیا۔
اس واقعے کے بعد ہمارے اور اس کے درمیان برابر فاصلہ قائم ہوتا گیا۔ اس کے باوجود ہم اس کے وجود سے غافل نہ تھے۔ ہمارے دوستوں میں ایک صحافی بھی تھا۔ ایک روز اپنے اخبار کے تعلق سے قارئین کی رائے معلوم کرتا ہوا وہ ہمارے یہاں بھی آپہنچا۔ باتوں باتوں میں ہم نے اپنے باپ کی نسبت شبہے کا اظہار کردیا۔ خلاف توقع، اس معاملے میں اس نے ایسی دلچسپی دکھائی کہ اگلے ہی دن اس نے ہمارے باپ سے ملاقات کی ٹھان لی۔ اس نے ہمیں بتایا کہ وہ اس کاانٹرویو لے گا۔ تاریخ پیدائش، مقام پیدائش، مدرسہ، اسکول اور کالج کی تفصیل اس سے معلوم کرلے گا۔ پھر پہلی ملازمت سے لے کر آخری ملازمت کے متعلق اس سے سوال پوچھے گا۔ اس کے مشاغل معلوم کرے گا۔ ہمارے دوست کو یقین تھا کہ کسی نہ کسی گوشے سے حقیقت خود بخود ابھر کر ہمارے سامنے چلی آئے گی۔
ہمارا باپ اس انٹرویو کے لیے آمادہ نہ ہوا۔ دادی کے بڑے اصرار پر اس نے ہمارے صحافی دوست سے چند منٹ گفتگو کی۔ اس نے اپنی زندگی کے بارے میں سب کچھ وہی بتایا کہ جس کا علم ہم پہلے سے رکھتے تھے۔ نہ کم نہ زیادہ۔ البتہ رواداری میں وہ یہ ضرور کہہ گیا کہ چوں کہ اس کا بچپن بڑی عسرت میں بسر ہواتھا، اس لیے غیرشعوری طور پر وہ جزرس واقع ہوا ہے۔
اس نے بتایا کہ اسکول میں یونیفارم کے طور پر پہننے کے لیے اسے کینوس CANVAS کے جوتے مشکل سے نصیب ہوتے تھے۔ اپنے گھسے پٹے جوتے اسے اس حد تک پہننے پڑتے تھے کہ ان کے کھلے ہوئے تلوں سے اس کے پنجے جھانکنے لگتے تھے۔ ان جھانکتے ہوئے پنجوں کو اوروں کی نگاہوں سے چھپانے کے لیے اسے اپنی انگلیوں کو سختی سے بار بار بھینچنا پڑتا تھا۔
اگر وہ جزرس تھا، دیکھ بھال کر خرچ کرتا تھا، فضول خرچی سے پرہیز کرتا تھا تو اس کا یہ وصف ہمیں حال ہی میں کیوں معلوم ہوا۔ ہم تو بچپن سے دیکھتے آرہے ہیں کہ یہ ہاتھ کاکھلا تھا۔ آرام و آسائش کے تمام لوازمات اس نے مہیا کر رکھے تھے۔ عید تہوار کا کوئی موقع بغیر جشن منائے ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا۔ عزیز و اقارب کی تواضع میں فیاضی سے خرچ کرتا۔ کفایت شعاری کا دھیان اس کے من میں کب آیا؟ اس وقت جب پرلوک سدھارنے کا سمے آیا۔ اور یہ جو لوگوں سے بیزار ہوکر ایک گوشے میں جابیٹھا ہے، آخر اس میں کیا تک ہے۔ نہ اچھا کھاتا ہے، نہ اچھا پہنتا ہے۔ نہ کہیں جاتا ہے اور نہ کسی کو اپنے قریب آنے دیتا ہے۔ یہ طور تو ہمارے باپ کے ہرگز نہ تھے۔ وہ بڑے خوش اخلاق، خوش گفتار۔ زندہ دل اور محفلوں کی جان تھے۔ ان سے جو بھی ایک بار ملتا، دوبارہ ملنے کا خواہش مند ہوتا۔ لیکن یہ محرم کی پیدائش رونی صورت انسان ہمارا باپ کیوں کر ہوسکتا ہے۔
یہی باتیں ہم نے ایک روز اپنے بزرگ دوست کے گوش گزار کردیں۔ ہندی فلسفے سے متعلق ان کا مطالعہ خاصا وسیع تھا۔ وہ آواگون پر یقین رکھتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ انسان اچھے کرموں سے اپنی آتما کو رفعت و شان عطا کرتا ہے۔
انہوں نے فرمایا، ’’مجھے لگتا ہے کہ تمہارے پتا کے شریر میں کسی بھرشٹ یوگی کی آتما ہے۔‘‘
’’بھرشٹ یوگی کی آتما؟‘‘ ہم نے یک زبان ہوکر کہا۔ پھر قدرے توقف کے بعد پوچھا، ’’باؤجی! بھرشٹ یوگی کسے کہتے ہیں؟‘‘
انہوں نے فرمایا، ’’منشیہ دنیاداری سے بیزار ہوکر یوگی بن جاتا ہے۔ وہ اپنے من کو آجلہ سے ہٹاکر آخرت پر لگاتا ہے۔ اسے یوگ اور مسلسل یوگ کرنا پڑتا ہے۔ ریاض اور تپ کے سہارے وہ اپنے نفس پر قابو پانے میں لگ جاتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ تپسیا کرتے کرتے یوگی کا من ان دنیاوی خواہشات کی جانب پھر مڑ جاتا ہے کہ جن کی تکمیل کا خیال اس کے من میں کسی کم سن بالک کی طرح مچلا کرتا تھا۔ اگر یوگی ایسے شدید جذبے پر قابو پالے تو کیا کہنے اور اگر اسے رام کرنے میں ناکام رہے تو یوگی کو اپنا یوگ تیاگ دینا پڑتا ہے۔ اس کے بعد خدانخواستہ یوگی کے جیون کا انت ہوجائے، تو وہ یوگی، بھرشٹ یوگی کہلاتا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئے۔ قدرے توقف کے بعد فرمایا، ’’تمہارے پتا کے شریر میں بھی کسی بھرشٹ یوگی کی آتما نے پرویش کیا تھا۔ ان کے ابتدائی جیون میں وہ اپنی تمام ناآسودہ خواہشات کی تکمیل کرتی رہی اور جب سیر ہوچکی تو اس نے تمہارے پتا کو دوبارہ یوگی کا جیون اختیار کرلینے پر آمادہ کرلیا۔‘‘
کچھ دیر کمرے میں خاموشی رہی۔ باؤجی کی باتوں میں ان کے دھارمک عقیدے کا عمل دخل تھا۔ آواگون پر یقین رکھنے والے شخص کے لیے ان کے تجزیے میں معقولیت بھی تھی اور دلائل بھی تھے۔ ابھی ہم کفر و ایمان کی کشمکش سے دوچار تھے کہ باؤجی نے سکوت پھر توڑا،
’’ان باتوں سے بھی تمہاری تسلی نہ ہوئی ہو تب بھی میری تم سے یہی پرارتھنا ہے کہ تم ان کے سادھارن جیون اور ان کی خلوت پسندی کو نامناسب ارتھ نہ پہناؤ۔ اسے دوسرے رخ سے یوں سمجھو کہ اب وہ بانِ پرست ہوگئے ہیں۔ انہوں نے ایک عرصے تک خانہ داری کی زندگی گزاری۔ پھر اسے اپنی مرضی سے ترک کردیا۔ ہمارے عقیدے کے مطابق وہ گرہست آشرم سے بانِ پرست آشرم میں داخل ہوچکے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ کچھ عرصے کے بعد وہ سنیاس لے لیں گے۔ اور جس دن سے ان کے سنیاسی جیون کا آغاز ہوگا، اسی دن سے وہ محض تمہارے کنبے کے فرد نہیں رہیں گے، بلکہ وہ بنی نوع انسان سے جاملیں گے۔ جز کل میں مل کر فنا ہوجائے گا۔‘‘
باؤجی کی باتوں سے ہمارے دلوں میں اس کی نسبت پیدا ہوئے شکوک رفع نہ ہوئے، نہ ہی ان کے دور ہونے کا امکان نظر آیا۔ البتہ باؤجی کے دلائل نے ہمیں اپنے باپ کی مشکوک شخصیت کے لیے ایک نیا تناظر عطا کیا۔ ہمیں کم از کم اس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ اس بیگانے شخص کی جانب سے ہمیں کسی زیاں یا آزار کے پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہے۔ مزید یہ کہ ہم شعوری طور پر اس سے بے تعلقی اور بے اعتنائی برت رہے تھے۔ لیکن وہ قطعی طور پر ہم سے نہ تو کوئی تعلق رکھتا تھا، نہ کوئی لگاؤ۔۔۔ اس نے اپنی تمام کائنات سمیٹ کر اپنے حجرے میں لے لی تھی، جس کے باہر اس کی دانست میں ایک بے معنی ساخلا تھا۔
رفتہ رفتہ ہم اس کے عادی ہوگئے۔ ہمارے رویے میں وہ پہلے کی سی شدت نہ رہی۔ ہم اس سے برہم بھی نہ ہوتے تھے اور نہ اسے درشت و حقارت آمیز الفاظ سے مخاطب کرتے۔ البتہ برف کی ایک پتلی سی چادر ہم نے اپنے اور اس کے درمیان ضرور تان دی تھی۔ اس کے علاوہ اس کی حرکات و سکنات کو اپنے شہبات کی اسکرین پر جانچنے کا مشغلہ ہم بدستور جاری رکھے ہوئے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.