Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گمشدہ گلو

جیم عباسی

گمشدہ گلو

جیم عباسی

MORE BYجیم عباسی

    گاؤں ڈِگھڑی کی بہت ساری کہانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے، مگر یہ دوسری کہانیوں سے زرا مختلف ہے۔ اس میں ابھی آپ کہاں ہیں؟ اور اس میں فرق ہے۔ فرق کیا ہے؟ ابھی طے نہیں کیا جا سکتا کہ کہانی فرق واضح کرنے میں کامیاب ہو پائے، یا ممکن ہے نہ کر پائے، لیکن یہ طے ہے کہ اس کا دار و مدار کہانی پر ہے۔

    گاؤں، نام ڈگھڑی، انگریزوں کی کھدائی کردہ نہر کے کنارے اس جگہ آباد تھا، جہاں نہر اور گاؤں کو ریلوے لائن کا پہاڑ سا ٹریک دونوں کو یکجا روک کے اس کا خاتمہ کر تا تھا۔ اس بلند ٹریک کے اس پار ایک ویرانی کی ابتدا ہوتی تھی اور اس ویرانی کی انتہا؟ اس بارے میں ڈگھڑی والے جانتے ہوں گے۔ کوئی زیادہ متفکر نہیں ہوتا تھا۔ یہ نہر انگریز دور کے متروک منصوبوں میں سے ایک تھی۔ مشہور یہ تھا کہ انگریز عملدار چاولوں کی کاشت والے علاقوں تک آب رسانی کے لیے نہر کھودتے کھودتے جب یہاں پہنچے تو ریلوے لائن کے نیچے پل بنانے کے بجاے نہر کو ادھورا چھوڑ کے چلے گئے۔ تب سے یہ ڈیڑھ دو سو فٹ چوڑائی اور پانچ سے آٹھ ہاتھ گہرائی رکھنے والی نہر، زردی مائل گدلے پانی سے بھری رہتی تھی۔ اگر اس کی لمبائی دیکھیں تو یہ میلوں میل پیچ و خم لیتی چلی جاتی۔ یہ نامکمل نہر اپنے کنارے پر موجود درجنوں گاؤوں اور اطراف میں آباد کلر چڑھی زمینوں کا زائد اور مستعمل گدلا پانی اپنے اندر سمیٹتی جاتی تھی، جو کیچڑ بھری کالی نالیاں اس میں انڈیلتی رہتی تھیں۔ اس کی ہیئت اس طرح سمجھی جا سکتی ہے، اگر آسمان پر اڑتے ہوے پرندے کی آنکھ سے دیکھیں تو یہ سیاہی مائل رنگت والی جونک دکھائی دے، جو کلر زدہ زمین کا زہر پی پی کر فربہ ہو چکی ہے۔

    ڈگھڑی اس جونک نما نہر کے دائیں کنارے، جنوب کی طرف آباد آخری گاؤں تھا، جو دوسرے گاؤں سے الگ سا تھا۔ یہ گاؤں نہر کے کنارے کنارے لمبائی میں تھا، اور اس کی حدود نہر کے آخر میں جا کر ریل کی پٹڑی پر دم توڑتی تھیں۔ گاؤں بھر کی چوڑائی تو متروک نہر جتنی ہوگی۔ شرقاً و جنوباً بنے گھروں کے درمیان ایک پندرہ یا بیس فٹ گلی نما راستہ تھا۔ باقی لمبائی پاؤ میل سے کچھ کم۔ اسی لمبائی کی وجہ سے سندھی زبان میں اس کو ’’ڈگھڑی‘‘ یعنی تھوڑی سی زیادہ لمبائی والا کہا جاتا تھا، لیکن نام کے علاوہ کچھ اور بھی تھا جس کی وجہ سے علاقے میں بسنے والا ہر مرد و زن اس کی شناخت رکھتا تھا۔ اگر کوئی اس ’’کچھ اور‘‘ کو معلوم کرنا چاہے تو شاید ہی کامیاب ٹھیرے۔ کیونکہ وہ کہنے سنے سے متعلق ہی نہ تھا۔ بس یہ ہر ایک جانتا تھا اور کسی کے بتائے بغیر جان لیتا تھا۔ بس یوں جانیے، اس کا تذکرہ کرنا ایک ایسی دیوار کے پار جانا تھا جہاں ہر کوئی جان بوجھ کے جانے سے احتراز کرتا تھا۔ وہ کسی ضرورت کے سوا تو ڈگھڑی کا نام تک زبان پر لانے سے گریزاں رہتے اور یہ غیر اختیاری ہوتا۔ کبھی کبھار کوئی راہرو ڈگھڑی کا راستہ پوچھتا تو ہاتھ سے اشارہ کر کے راہ دکھا دیتے، اور جب ایسا موقع ہوتا، راہ دکھانے والے حیرت سے مسافر کو ڈگھڑی جاتے دیکھتے رہتے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتے کہ کیوں؟ انھیں تو کوئی پرندہ بھی ڈگھڑی کی طرف اڑتا بمشکل ہی نظر آتا تھا، تو یہ کیوں؟ اور پھر یہ سوچتے، یا پتا نہیں نہ سوچتے، اس طرف کو جاتے مہمان بھی ابھی پیدا نہیں ہوے ہیں۔ ہاں شاید اس راہرو کا نلکا یا شاید کنواں میٹھا پانی چھوڑ گیا ہوگا۔ اور یہ بات کہیں رہ تو نہیں گئی کہ ڈگھڑی کے رہنے والوں میں سے اکثر نلکے لگانے اور کنویں کھودنے کا کام کیا کرتے تھے؟ بس یہی ہوا ہوگا کہ ناگاہ وقت میں نلکا پانی چھوڑجائے تو بندے بشر کو مجبوری پڑ ہی جاتی ہے۔ نہیں تو باقی وقت ریل کی پٹڑی کے ساتھ ڈگھڑی کو جاتا ڈھائی میل کا پتلا، تیلی سی جسامت والا راستہ سارا سارا دن خالی ہوتا، سواے اس وقت کے جب سویرے صبح نلکے لگانے کے کاریگر اور ان کے ہم قصبہ مدد گار گاؤں چھوڑ کے روزی روٹی ڈھونڈنے شہر جاتے۔ قصبوں آبادیوں سے دور، اس راستے پر چلتے ہوے ڈگھڑی کے باسیوں کا انداز دوسرے لوگوں سے الگ نظر آتا تھا۔ قطار میں خاموشی سے سر جھکائے چلتے جانا۔ یوں جیسے چیونٹے آپس میں جڑے چلے جارہے ہوں۔ ایک اور تفاوت صبح و شام میں تھا۔ شام میں جب واپس ڈگھڑی جاتے نظر آتے تو دیکھنے والا محسوس کرتا، ان کے بازو ان کے بدن سے الگ پیچھے پیچھے لڑھکتے جا رہے ہوں۔ شہر میں یہ تانگا اسٹینڈ کے برابر بنے اس چھپر کے نیچے دکھتے جس میں گھوڑوں کے پانی کی بڑی ناند رکھی ہوئی تھی۔ کیا کاریگر، کیا مدد گار، اپنے اپنے اوزار رکھے اکڑوں بیٹھا تنکے سے سامنے زمین کو کریدتا رہتا، اور یہ کام ایسی محویت سے ہوتا جیسے ان پر مقدس ذمے داری ڈال دی گئی ہو۔ جب کبھی کوئی نلکے یا کنویں کا کام کروانے آیا ہوا چھپر کے آگے کھڑا ہوکر آواز دیتا تو ان میں سے کوئی ایک چپکے سے اوزار سنبھالتا، اس کے پیچھے چل نکلتا۔ یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ آنے والے کی آواز بھی سمجھنا ضروری ہوتا تھا کہ نہیں۔ جب ان میں سے کوئی اٹھ کر چلا جاتا تو باقی اسی شغل میں مصروف رہتے۔ سر اٹھا کر دیکھنے کا تکلف تک نہ کیا جاتا۔

    یہ کہانی جو ڈگھڑی کی دوسری کہانیوں سے زرا مختلف ہے، اس کی ابتدا منگلوار کی اس صبحِ کاذب سے ہوتی ہے جب سردی کا راج ختم ہونے میں ابھی چند روز باقی تھے اور متروک نہر کے سبزی مائل گدلے پانی، قصبے کی ویران گلی، مٹی کے بنے کوٹھوں، جھاڑ کانٹوں سے بنی چار دیواریوں پر دھند کا ڈیرہ تھا۔ اس وقت گاؤں کے مغربی گھروں کے آخری کچے کوٹھے کے اندر جلتی لالٹین کی روشنی میں گلو کی ماں بچہ جن کر مر گئی۔ ڈگھڑی کی دائی صاحباں مائی نے ناڑ کاٹا، گلو کی ماں کی آنکھیں بند کیں، اور اس کے سر اور جبڑے کو پٹی باندھنے کے بعد بچہ اٹھا کر کوٹھے سے باہر اکڑوں بیٹھے گلو کے باپ کو تھمایا اور لاش کو نہلانے دھلانے، پلٹ کر کوٹھے میں چلی گئی۔ جب سورج کی کرنیں دھند کو مات دے کر زمین پر اتریں تو اس وقت تک لاش قبر میں ڈالے جانے کے لیے تیار تھی۔ ڈگھڑی کے باسی لاش اٹھا کر قبرستان کی اور چلنے لگے۔ عین اس وقت ریلوے لائن سے ایک ریل گاڑی دھڑدھڑاتی گزری۔ متروک نہر کے کنارے کی مٹی کے ساتھ کچے کوٹھے بھی لرزش میں آنے لگے۔ ویسے تو گاؤں بھر اس ریل گاڑی کی وجہ ہی سے حرکت پاتا تھا، مگر آج گاؤں کے لوگ لاش اٹھائے حرکت میں تھے۔ اس لیے ریل گاڑی کی آمد کا وقت جان ہی نہیں پائے تھے اور روز کے معمول کے مطابق گلی میں دیوار کے ساتھ ساتھ چلنے کے بجاے، لاش اٹھائے راستے کے بیچوں بیچ چلے جا رہے تھے۔ آج سب کے سر جھکے ہونے کے بجاے سیدھ میں سامنے کے قبرستان کو جاتے راستے کی سمت اٹھے ہوے تھے۔ پندرہ سالہ گلو کو جنازے کے ہمراہ چلتے یہ سوچ آئی، تین دن چاول پکیں گے اور لوگ ان کے کچے کوٹھے کے باہر صحن میں بیری کے درخت کے نیچے چٹائیوں پر بیٹھے رہیں گے۔ گلو کے چہرے کے عضلات زرا سے پھیلے اور لمحے کے لمحے میں پھر سکڑگئے۔ اس نے اپنی سوچ کو جھٹک کے قبرستان کی اور نظریں جمالیں۔ سوچ نے پھر نقب لگائی۔ گاؤں میں موت کے سوا کسی چیز کا علم کب ہوتا ہے۔ شادی کا تب معلوم پڑتا ہے جب کسی کو بچہ پیدا ہو جائے، پھر پتا چلتا ہے، پچھلے رجب میں ان کی شادی ہوگئی تھی۔ اب کی بار اس نے نچلے لب کو کاٹا۔ اتنے زور سے کہ دماغ جھنجھنا اٹھا۔ اس نے پھر نظریں قبرستان کی سمت گاڑدیں۔ اب قبروں کے سوا کوئی خیال قریب نہ آیا۔ ماں کو دفنانے کے دسویں روز جب گلو نے دوپہر کی روٹی کھانے کے لیے اپنے کچے کوٹھے میں قدم رکھا تو صاحباں مائی اسے اپنے باپ کے ساتھ بیٹھی نظر آئی۔ بچہ، زچہ کے مرنے کے دن سے اب تک، اسی کی گود میں تھا۔ گلو کی آمد محسوس کر کے کچے کوٹھے کا سکوت اور بڑھ گیا۔ گلو نے کونے میں رکھی ہوئی رکابی سے روٹی اٹھائی اور جھاؤں کی پتلی لکڑیوں سے بنی ٹوکری میں سے ایک پیاز اٹھا کر زمین پر رکھا، اس کی اوپری سطح کو مکا مار کر کھولا اور اس کی پرتوں میں نمک مرچ ڈال کر چپڑ چپڑ کھانا کھانا شروع کر دیا۔ کھانا ختم کر کے وہ بوری کی بنی چٹائی پہ سر کے نیچے بازو دے کر، صاحباں مائی اور اپنے باپ کی طرف کروٹ لے کر لیٹ گیا۔ اس کی نگاہوں کے سامنے صاحباں مائی اور اس کے باپ کے لب ہلے جا تے تھے۔ چند ساعتوں میں اس نے دیکھا، اس کا باپ اچک کر کھڑا ہوگیا۔ باپ کی اس پھرتی سے گلو نا آشنا تھا۔ وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ کچھ دیر میں صاحباں مائی اس کے اکڑوں بیٹھے باپ کے سر پر اپنی کمر پہ ہاتھ ٹکائے کھڑی نظر آئی۔ گلو کے خیال نے کوئی راستہ نہ پایا۔

    دو دن بعد رات کے دوسرے پہر کی تاریکی میں گلو نے اپنی منگ کو اپنے گھر میں سرخ جوڑا پہنے دیکھا۔ وہ جلتی لالٹین کی روشنی میں صاحباں مائی، اس کے باپ، اس کے منگ کے باپ اور ماں کے ساتھ کچے کوٹھے میں اندر جا رہی تھی۔ گلو نلکا چلاتا، اوک میں پانی پیتا، اسے دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر میں اس نے صاحباں مائی کو اپنی منگ کے ماں باپ کے ساتھ گھر سے باہر جاتے دیکھا۔ گلو کی سوچ نے راہ پا لی۔ اچھا ہوا انھوں نے اسے نہیں دیکھا ورنہ منگ کا باپ ضرور برا سا منھ بناتا۔ پر میں تو سامنے کھڑا تھا، لالٹین کی روشنی میں۔ اس نے کیسے نہ دیکھا ہوگا؟ نہیں۔ نہیں دیکھا ہوگا، ورنہ صاحباں مائی اس کے سر پر ہمیشہ کی طرح ہاتھ نہ گھماتی۔ گلو کی سوچ کہیں فرار ہوگئی۔ مطمئن ہو کر وہ کچے کوٹھے میں سونے چلا، مگر دروازہ اندر سے بند تھا۔ گلو اس رات بیری کے نیچے پڑی چٹائی پر سوگیا، اور بھلا کون سی زیادہ سردی تھی جو نیند نہ آئے۔

    اگلی صبح گلو نے اپنی منگ کو دیکھا، وہ کھڑی ہو کر جھاڑو کر تے وقت ذرا لڑکھڑا رہی تھی۔ جھاڑو کے بعد روٹی پکا کر اس نے گلو کے باپ کے ساتھ کھانا شروع کیا۔ بچہ اس کے قریب لیٹا تھا جسے بڑے بڑے نوالے اٹھاتے وہ دوسرے ہاتھ سے تھپک رہی تھی۔ کھانا کھا کر گلو کی منگ نے بچے کو اندر کوٹھے میں سلایا اور گلو کی روٹی لے آئی۔ پر بیری کے نیچے گلوتو تھا ہی نہیں۔ دوسری دوپہر گلو کا باپ گلی میں دیوار کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا، گلو کو ڈھونڈنے کی غرض سے نکلا۔ تب ڈگھڑی کے اکلوتے چرواہے ذاکو غریبڑے نے اس کو بتادیا کہ گونگا گلو، دُپہر سے کچھ پہلے قبرستان کے راستے پر تھا۔ یہ سن کر گلو کے باپ کے چہرے کے عضلات زرا سے پھیلے اور پھر اپنے آپ سکڑگئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے