Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حالتے رفت

تسنیم منٹو

حالتے رفت

تسنیم منٹو

MORE BYتسنیم منٹو

    تسلسل کیوں ٹوٹتا ہے؟ عمارت کیوں ڈھے جاتی ہے؟ یقیناً تسلسل جس تار سے بندھا ہوتا ہے، بے عملی کے عمل سے، کسی جوڑ پر وہ تار زنگ آلود ہو جاتا ہے اور اگر عمارت ڈھے جاتی ہے تو بھی کسی کاریگر کے ہاتھ کی کجی یا ناقص میٹیریل کا استعمال عمارت کے وجود کو ختم کر دیتا ہے۔ میری عادت ہے کہ میں بات یا حالات کی تہ تک پہنچنا چاہتا ہوں اگرچہ اس کا نہ تو کچھ خاص فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی ضرورت تاہم میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ زمین جو اوپر سے بہت ہموار ہے اور چھونے سے اس کا لمس بہت خوشگوار ہے اس کے نیچے کیا ہے؟ یہ زمین نرم خو ہے یا تند خو؟ اس کے نیچے نرم کرنے والی نمی ہے یا شورا ہے؟

    مجھے اپنے دادا کا نام معلوم ہے۔ ایک ڈھلکے شملے والی پگڑی والا قبول صورت شخص جس کی قمیص کے اوپر کے دو بٹن کھلے ہیں لیکن اس شخص کی پگڑی کے ڈھلکے شملے کی وجہ سے کوئی اس تصویر کو ایک نظر دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا جب کہ اسی تصویر کے ساتھ ذرا ہٹ کر دیوار پر میرے بابا کی تصویر بھی ہے جس میں وہ اپنے اعلیٰ منصب کے لیے حلف اٹھا رہے ہیں۔ گھر میں آنے والے مہمان چلتے چلتے رک کر بابا کی اس تصویر کو دم بھر بغور دیکھتے ہیں اور مسکرا کر بشاشت سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اکثر یہ بھی میری نظروں کے سامنے ہوتا ہے کہ میری چھوٹی پھپھو ڈھلکے شملے والی تصویر کے پاس لحظہ بھر کو رکتی ہیں۔ ان کے چہرے پر ایک سایہ سا لہراتا ہے لیکن یہ تاثر کبھی کوئی حرف نہیں بنا پاتا کہ میں اس حرف کو پڑھ سکتا۔ لیکن میں یہ جاننے پر مصر ہوں کہ میرے پردادا کون تھے، ان پر زمانے نے کیا افتاد ڈالی کہ وہ ناپید ہو گئے، ان کی شناخت کس آشوب کی نذر ہوئی؟؟

    وجاہت گردن کو دونوں ہاتھوں کے پیالے کی گرفت میں سنبھالے، بابا، ماما کے بیڈ روم میں رکھے صوفے پر نیم دراز تھا اور شناخت کی الجھی گتھی اس کو پریشان کر رہی تھی۔ پہچان کے اس گم گشتہ سرے کے بارے میں وجاہت نے بابا سے بھی ایک بار پوچھا تھا۔ بابا نے غور سے اس کی جانب دیکھا تھا۔ وجاہت کو محسوس ہوا کہ بابا کی نگاہ میں وجاہت کے لیے ملامت اور ہلکے پن کا شائبہ تھا لیکن انھوں نے کہا تھا کہ سب کچھ موجود میں ہے، حاضر میں ہے۔ جو گزر گیا وہ بھی اور جو آنے والا ہے وہ بھی۔ سب موجود میں ضم ہوتا چلا جاتا ہے۔ موجود ہی ماضی بن جاتا ہے اور موجود ہی تمھارا کل ہے۔ کیا جو موجود ہے وہ تمھیں مطمئن نہیں کرتا؟

    وجاہت کی اس ذہنی کیفیت میں شدت کچھ اس وجہ سے بھی در آئی تھی کہ اس کے بابا کا روزمرہ کا معمول روز بروز سکٹرتا جا رہا تھا۔ اب وہ کچھ ڈھیلے ڈھالے رہنے لگے تھے۔ بابا کی زندگی دوستیوں، رفاقتوں، شناسائیوں، محبتوں اور رواداریوں کا لہلہاتا باغ تھی۔ خلقِ خدا سے بابا کے یہ رشتے بہت گہرے تھے لیکن اب بابا نے اس وسیع باغ کی ایک کیاری منتخب کر لی تھی کہ اس قدر وسیع باغ کو سینچنے کی سکت نہیں رہی تھی۔ زندگی بابا کے لیے ون ڈے کرکٹ میچ تھی۔ اس میچ کے وہ کپتان بھی تھے اور کھلاڑی بھی۔ زندگی بھر ان کی یہ کوشش رہی کہ گیم فیئر کھیلی جانی چاہیے۔

    لیٹے لیٹے وجاہت ہاتھ کی گھڑی پر نگاہ ڈالتا ہے اور پھر اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اپنے کمرے کی طرف جاتا ہے۔ واپس آتا ہے تو اس کے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے۔ کاغذ پر نظر جمائے، آہستہ آہستہ چلتا ہوا لاؤنج میں رکھے صوفے کے بائیں طرف آ کر رک جاتا ہے۔ صوفے کے دائیں جانب بابا آلتی پالتی مارے اخبار دیکھ رہے ہیں۔ یہ ان کے ناشتا کرنے کا وقت بھی ہے۔ وجاہت کو کھڑے دیکھ کر گردن گھماتے ہیں اور ابرو کے اشارے سے اس کے ہاتھ میں پکڑے کاغذ کے بارے میں پوچھتے ہیں؟ ’’یہ۔یہ۔ بابا عامر کے ای میل کا پرنٹ آؤٹ ہے۔‘‘ وجاہت کاغذ کو ہلاتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’بس یہی تکرار ہے کہ آ جاؤ۔ Ithaca بے حد خوب صورت مقام ہے اور ذہن و نظر کے لیے یہاں پر بڑا رومانس ہے۔ میدان خالی ہے کہ بچے اور ان کی اماں پاکستان گئے ہیں۔ بس میں اکیلا ہوں۔ خوب گپ لگے گی۔ جلدی سے آ جاؤ، وغیرہ وغیرہ۔‘‘

    ’’تو چلے جاؤ نا، کیا قباحت ہے؟ رکاوٹ کیا ہے؟ دوستوں سے مل بیٹھنے کے مواقع کبھی مت کھونا۔ جاؤ۔ ضرور جاؤ۔‘‘

    ’’لیکن باباآپ جو ان دنوں ٹھیک نِیں ہیں۔‘‘ وجاہت نے اپنی فکر مندی کا اظہار کیا۔

    ’’میرا اضمحلال وقت کی جفا ہے۔ وقت کی اکائی سے الگ ہو جانے کا عمل ہر ایک کے لیے معین ہے۔ اس توڑ پھوڑ سے آنکھ چرانے کی گنجایش نہیں ہوتی۔ ‘‘وہ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد پھر بولے ’’دیکھو! کچھ ایسا کرو، یعنی کوئی ایسی ائیر لائن تلاش کرو جو تمھیں استنبول میں چند گھنٹوں کا سٹاپ اوور دے دے تاکہ تم سلطان مسجد اور چرچ دیکھ سکو۔ میری بڑی تمنا تھی کہ میں، مہتاب اور تم اکٹھے استنبول دیکھتے۔ خیر ایک دو روز میں تم اپنی تیاری مکمل کر لو اور جاؤ۔ اگر دوست ہوں اور وہ محبت بھی کرتے ہوں تو اس سے بڑی خوش بختی کیا ہوگی؟‘‘

    وجاہت کو ٹرکش ائیر لائن سے استنبول میں کچھ عرصہ کا سٹاپ اوور مل گیا۔ وہ گھر سے رخصت ہونے لگے تو بابا نے انھیں اپنی پسند کی دو کتابیں دیں کہ اچھے ماحول میں اچھی کتاب زیادہ لطف دیتی ہے۔ ’’اور ہاں یہ بھی کتاب میں رکھ لو۔ کبھی فرصت میں آرام سے دیکھ لینا۔‘‘ بابا نے براؤن رنگ کا ایک لفافہ اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔

    وجاہت جہاز میں بیٹھا تو کچھ بے چین سا تھا اور جھنجلارہا تھا کہ نہ معلوم مجھے بابا نے کیوں اتنا مجبور کیا کہ آخر کار میں گھر سے چل ہی پڑا۔ اسے غصہ آ رہا تھا اور اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اپنے من، اپنے دھیان گیان کو گھر پر ہی بھول آیا ہے۔

    سفر تمام ہوا۔ استنبول اترا تو یوں محسوس ہوا کہ بابا قدم بہ قدم اس کے ساتھ چل رہے ہیں۔ کبھی ان کا بازو وجاہت کے بازو کے کلاوے میں ہے، کبھی وجاہت ان کے ہاتھ کا نرم و گداز لمس اپنے کندھوں پر محسوس کرتا ہے۔ ذہن کی ایسی بھول بھلیوں جیسی کیفیت میں گرفتار سلطان مسجد کی حدود میں داخل ہوتا ہے۔ وجاہت حسین نے کہیں قریب سے بابا کو آواز دی، ’’بابا! میں استنبول میں ٹرانزٹ میں ہوں، میرے پاس چند گھنٹے ہیں اور میں سلطان مسجد میں کھڑا اس کے دبیز ماحول کی پہنائیوں میں گم اور حیرت زدہ ہوں۔ عظیم الشان ہونے کے لیے قد آور ہونا ضروری ہے اور عالی شان ہونے کا تعلق ایسی وسعت سے ہے جو ایک نظر میں مکمل طور پر دیکھنے والے کے اندر نہ سما سکے۔ یہ دونوں صفات مسجد اور چرچ کی ساخت میں موجود ہیں۔ مسجد کے پہلو میں چرچ ایستادہ ہے۔ مسجد کے وجود میں پھیلاو اور وسعت ہے جب کہ چرچ کی ایستادگی اور تمکنت سے میں سرشار ہوں۔ تمام ماحول سحر زدہ ہے جب کہ میری نگاہ کوتاہ ہے اور میرا ذہن جیسے سکڑتا جا رہا ہے۔ محسوس ہوتا ہے جیسے میرے اندر اکتساب کی طاقت سلب ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

    یہ وقت شام ہے اور ساعت اذان بھی۔ چار سو ’’حَیَّ عَلَی الْفَلَاح‘‘ کی دعوت ہے۔ پورے ماحول پر ہلکے بادلوں جیسا سایہ ہے۔ ماحول کی یہ جادوگری مجھ پر حاوی ہے اور میں تقریباً اسی کیفیت میں مبتلا ہوں جس میں شاید ماما مبتلا تھیں جب ہم ہالینڈ میں پھولوں کی نمایش دیکھنے گئے تھے اور وہ وہاں پر قدرت اور انسان کی مفاہمت سے حسن کی تکمیل اور اظہار کو دیکھ کر اونچی آواز میں رو دی تھیں۔ میں مسجد کی سیڑھیوں پر پانو رکھتا ہوں کہ یکدم اذان کی گمبھیر اور گہری آواز کا سحر مجھے عجیب سے سہم اور اضطراب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ میں ساکت اور پتھر بنا سیڑھیوں پر کھڑا ہوں اور برسوں دور بابا کی اور اپنی جنم بھومی میں نکل جاتا ہوں۔

    بمشکل تین چار سال کا ہوں۔ ہمارے محلے میں ایک جامع مسجد ہے۔ ہر جمعہ کو میرے بابا اور میری دادی جی اس مسجد میں نماز کے لیے جاتے ہیں۔ میں سفید شلوار کرتا پہنے ہمیشہ بابا کی انگلی پکڑے ساتھ ہوتا ہوں۔ بابا مردانہ حصے میں چلے جاتے ہیں جب کہ دادی جی اور میں زنانہ حصے میں جو کہ چند سیڑھیاں چڑھ کر اوپر ہے۔ نماز و دعا کے بعد چندے کی اپیل ہوتی ہے اور میری دادی جی اپنے کلف لگے ململ کے دوپٹے کے پلو سے کچھ پیسے باندھ کر پلو کو نیچے لٹکا دیتی ہیں۔ نیچے کھڑا کارکن دوپٹے کی گرہ کھولتا ہے۔ اس کے لبوں سے جزاک اللہ نکلتا ہے اور پیسے صندوقچی میں ڈال دیتا ہے۔ میں ہر جمعہ کو یہ عمل دیکھتا ہوں۔ میں اسے کھیل شمار کرتا ہوں۔ میں ہر جمعہ کو اس کھیل کو پہلے روز والے انہماک سے دیکھتا ہوں۔

    وجاہت کی زندگی بابا کی شخصیت کے سحر سے سرتا پا مربوط تھی۔ اسے ایک واقعہ یاد آیا جو بابا کی گزری زندگی کا احاطہ کرتا تھا۔ اس واقعے کے بارے میں بابا کا ردعمل اس قدر منفرد تھا کہ وجاہت آج بھی اس پہلو پر اکثر غور کرتا لیکن گومگو میں مبتلا رہتا۔ بابا کے بیڈ سائیڈ کے ساتھ رکھے بک شیلف کی کتابوں کو وجاہت ترتیب سے رکھ رہا تھا۔ ایک موٹی کتاب کو اس نے کپڑے سے صاف کیا اور اس کے اوراق کو چٹکی میں لے کر چھوڑنے لگا تو ایک تصویر زمین پر گری۔ وجاہت نے جھک کر یہ تصویر اٹھا لی۔ یہ تصویر ایک خوبرو خاتون کی تھی۔ تصویر کے پچھلی جانب بابا کے دستخطوں کے ساتھ یہ شعر لکھا تھا:

    در نمازم خم ابروے تو چوں یاد آمد

    حالتے رفت کہ محراب بہ فریاد آمد

    وجاہت نے چور نگاہی سے بابا کی جانب دیکھا، سوالیہ نظروں سے تصویر بابا کو تھما دی اور ہلکی آواز میں چہرہ دوسری جانب موڑے موڑے استفسار کیا۔ ’’بابا! یہ کون ہیں؟‘‘۔ بابا نے تصویر کو لحظہ بھر دیکھا اور بے حد مضبوط لہجے میں بولے: ’’یہ تابندہ ہیں۔‘‘ وجاہت کو ماں کا خیال آیا اور ہمت کر کے سوال کر ڈالا۔ ’’بابا! یہ تو میری پیدایش سے بہت بعد کی تصویر ہے نا؟‘‘ بابا گویا ہوئے، ’’میں تمھارا استعجاب، استفہام اور اضطراب سمجھتا ہوں۔ یہ ماجرا مہتاب کے علم میں ہے۔ ہوتا ہے۔ ایسے ہوتا ہے۔ ایک نیا avenue آپ ہی آپ، آپ کی زندگی کے راستے میں کہیں سے آ نکلتا ہے۔ باہمی ستایش کا۔ باہمی فہمایش کا۔ اس میں جواں عمری کے بھرپور جذبوں کا ہونا ضروری نہیں۔ بس پہچان کا ایک رشتہ بندھ جاتا ہے۔ ایسے ہو جاتا ہے میرے بچے! یہ اتھل پتھل، یہ جل تھل ہوتا ہے۔‘‘ بابا نے گہری نظروں سے وجاہت کی جانب دیکھا۔ پھر دوبارہ گویا ہوئے: ’’ایسی کیفیت میں جسم گنگ ہوتا ہے۔ بس ذہن کا ذہن سے مکالمہ جاری رہتا ہے۔ یعنی وجود معدوم ہوتا ہے لیکن خیال لبالب ہوتا ہے۔ زندگی کے تمام موسموں میں محبت کی زرخیزی موجود رہتی ہے۔ بس من کی تال پر یہ دھن یہ گت آپ ہی آپ بجنے لگتی ہے لیکن یہ راستہ بہت مختصر مدت کا ہوتا ہے اور پھر آپ ہی آپ یہ روشن نشان وقت کے قدموں تلے دب جاتا ہے۔ مٹتا نہیں، ہرگز نہیں مٹتا۔ یاد رہتی ہے۔ آج بھی یاد ہے، وہ ادا، وہ ذہانت، وہ دانش، وہ صورت۔‘‘

    بابا نے وجاہت کو اعتراف سے بھر پور نگاہ اور مکمل اعتماد سے دیکھا۔ بہت ہلکا سا مسکرائے۔ بستر پر دراز ہوئے جیسے وہ اپنے اس ذہنی سفر سے تھک گئے ہوں۔ دائیں بازو کو آنکھوں پر رکھا اور قدرے بلند آواز سے تصویر پر لکھے شعر کو دہرایا:

    در نمازم خم ابروے تو چوں یاد آمد

    حالتے رفت کہ محراب بہ فریاد آمد

    حالتے رفت

    حالتے رفت

    بابا کے دائیں پانو کا انگوٹھا اور اس کے ساتھ کی لمبی انگلی باہم دست و گریباں تھے۔ وجاہت نے اپنے بابا کی تمام تر سچائی کو بڑے احترام سے دل میں سمیٹا، اسے قبول کیا، قدرے ششدر ضرور ہوا اور آہستہ سے کمرے سے نکل گیا۔

    سب مسافر جہاز میں بیٹھ چکے تھے۔ وجاہت نے سیفٹی بیلٹ باندھی کہ جہاز کی اڑان کے اعلانات ہو رہے تھے۔ اس وقت وہ یکسر بند ذہن کے نرغے میں تھا۔ کچھ دیر پہلے کی کیفیت سے خود کو آزاد نہیں کر پایا تھا۔ بابا اور ان کا آس پاس اس کے دماغ میں اس قدر رچ بس چکا تھا کہ تقریباً ہمہ اوست کا معاملہ بن گیا تھا۔

    ’’میں بہت چھوٹا تھا لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں بابا کے ذہن میں بیٹھ گیا تھا کہ وجاہت کو بکری کا دودھ پلایا جانا چاہیے‘‘۔ سہ پہر کے قریب بکریوں والا ہمارے محلے میں بکریوں کے ریوڑ کو ہانکتا ہوا گزرتا۔ بابا کے کانوں تک اس کی ہانک پہنچتی تو وہ لپک کر ملازم کو بلاتے کہ دودھ لے لو۔ ملازم نہ ہوتا تو جلدی سے خود ننگے پانو دروازے کی جانب چل دیتے۔ یہ ہر روز کا معمول تھا اورایک زمانے تک اس پر عمل ہوتا رہا۔ وجاہت مزید خود سے ہم کلام ہوا۔ ’’بابا! ہی کی سالگرہ کی بات ہے۔ میں نیا نیا یونیورسٹی گیا تھا اور میں نے اپنی نئی نئی دوستوں کو بھی مدعو کیا ہوا تھا۔ بیٹھتے وقت میری ایک دوست کو احساس ہوا کہ بابا اس کی پشت کے پیچھے ہیں تو وہ معذرت کرتے ہوئے اپنی جگہ سے تھوڑا سا کھسکنے لگی۔ بابا کھڑے ہو گئے میری دوست کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور کہا: ’’بیٹھو بیٹا بیٹھو، گل پشت ندارد (پھول کی پیٹھ نہیں ہوتی)‘‘ میری دوست کچھ حیران ہوئی۔ اسے بابا کی بات سمجھ نہیں آئی تھی لیکن جب سمجھی تو بےحد خوش ہوئی۔

    نیویارک کینیڈی ایئر پورٹ پر عمران موجود تھا۔ گھر پہنچے۔ عمران نے وجاہت کا سامان ٹھکانے سے رکھا۔ وجاہت گھر میں گھوما۔ اسے لکڑی سے بنا یہ چھوٹا سا گھر نرم اور گرم جوش لگا۔ اس نے عمران کو آواز دے کر کہا۔ ’’یار تمھاری بیوی بہت Creative ہے۔‘‘ ’’ہاں! وہ تو ہے‘‘۔ عمران کی آواز میں خوشی اور فخر تھا۔ عمران کافی کے مگ پکڑے وجاہت کو آواز دیتا ہوا مختصر سے لاؤنج میں آ گیا۔ اس نے ایک دوست کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ وجاہت بولا: ’’ڈی ۔سی بن گیا ہے، سرکاری جیپ پر دورے کرتا رہتا ہے۔‘‘ ’’اور اعجاز!‘‘۔ اس بےوقوف نے ایک تو شادی کر لی۔ اوپر سے بچہ بھی پیدا کر لیا۔ نوکری کوئی ڈھنگ کی ہے نہیں‘‘۔ ’’یہ تو کوئی اچھی خبر نہیں، تم کچھ اس کی مدد کرو نا، تمھیں پتا تو ہے کہ وہ تھوڑا لائی لگ ہے۔‘‘۔ ’’ہاں ہم اس کے لیے بہتر جاب تلاش کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘۔ ’’باقی حسیناؤں کا کیا حال ہے؟‘‘۔ ’’بس شادیوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ ایک بات بہت اچھی ہو گئی ہے کہ اب بہت سی لڑکیوں کو ٹرالیاں سجاکر اپنا بردکھوا نہیں کرنا پڑتا۔ کلاس فیلوز کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے، ملتے ملاتے انڈر سٹینڈنگ ہو جاتی ہے۔ والدین کو بھی سمجھ آ گئی ہے۔ وہ بھی کوئی رخنہ رکاوٹ نہیں ڈالتے اورمزے سے شادی ہو جاتی ہے۔‘‘۔ ’’اور ہاں وہ ’’گل پشت ندارد‘‘ کیا کر رہی ہے؟ تم اس میں دلچسپی رکھتے تھے نا؟‘‘ عمران نے اپنے گنجے ہوتے ہوئے بالوں کو انگلی سے مروڑتے ہوئے سوال کیا۔ ‘‘وہ! وہ بس ایسے ہی یار! کچھ نہیں! ہمارے ان کے ماحول میں بہت فرق تھا۔ ویسے بھی وہ لوگ کچھ اوپرے اوپرے سے لگے‘‘!!

    وجاہت کو پاکستان سے آئے آج چوتھا روز تھا۔ فون پر بابا، ماما سے مختصر سی بات ہو چکی تھی۔ عمران آج دو دن بعد یونیورسٹی گیا تھا۔ Ithaca میں تقریباً دن کے گیارہ کا عمل تھا۔ وجاہت کو یہ جگہ بہت بھائی۔ اس وقت وہ باہر لکڑی کے جنگلے پر دونوں ہاتھ ٹکائے پہاڑی پر بنے سحر انگیز شہر کا نظارہ کر رہا تھا۔ وہ بہت ہلکا پھلکا اور شگفتہ موڈ میں تھا۔ یکایک اس کا جی چاہا کہ وہ اس خوابناک قصبے کی ساری فضا میں کسی حد تک تو بابا کوبھی شامل کر لے۔ وہ گنگناتا ہوا گھر کے اندر گیا۔

    ’’میرے بابا! میری ماما آداب! بابا! بڑے افسوس کی بات ہے کہ میرے تمام سفر کے دوران آپ مستقل طور پر مداخلت کرتے رہے۔ خیر وہ تو واپس آکر میں آپ سے حساب بےباق کر لوں گا۔ اس وقت تو میرا دل یہ چاہ رہا ہے کہ میں Ithaca کی مسحور کن فضا کو آپ سے Share کروں۔ بابا! اتکہ نیویارک سٹی سے 300 میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ جہاز سے 25 منٹ اور سڑک سے ساڑھے چار گھنٹے کا سفر نیویارک سٹیٹ سے شمال کی جانب ہمیں اتکہ لے کر جاتا ہے (جہاں پر کارنیل یونی ورسٹی واقع ہے) یہی راستہ شمالی امریکا کی مشہور فنگرلیک سے ہوتا ہوا بتدریج نیاگرا فالز اور کینیڈا کے بارڈر پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ براستہ سڑک نیویارک سٹی سے چلنے کے بعد تقریباً تین گھنٹے تک یہ گمان نہیں ہوتا کہ ہم کس قدر بلندی کی جانب جا رہے ہیں۔ یہ عمارتوں اور مصنوعی روشنیوں کا شہر قطعی نہیں۔ باقی رہ گئے لوگ تو ان سے ملاقات ہوتی رہے گی۔‘‘ 17 اگست (میرے پہنچنے کے دوسرے دن) اتکہ کا موسم خوشگوار تھا۔ بل کہ تھوڑا خنک ہی تھا۔ دن کے وقت سورج میں نکلیں تو کچھ گرمی سی لگتی ہے، مگر شامیں بہت آرام دہ۔ وقفے وقفے سے بارش ہوتی ہے۔ پہلی بارش پر تو ایسا لگا کہ اب خزاں اور سردیوں کی آمد آمد ہے لیکن عمران نے کہاکہ یہ تو موسم کی ادا ہے ورنہ خزاں تو اپنے آنے کا اعلان کچھ اور ہی رنگ میں کرتی ہے۔ ستمبر کے آخر تک ہمارے چاروں طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔ ہرا بھرا گالف کورس، جنگل سبزے کا ڈھیر اور ہمارا سیب کا درخت پھلوں سے لدا پھندا۔ ستمبر کے خاتمے کے ساتھ ہی درختوں کے پتے آہستہ آہستہ رنگ بدلنا شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ زرد، کچھ زعفرانی، کچھ ساوے اور کچھ بالکل سرخ۔ بچے کھچے سبزے کے ساتھ مل کر آگ کے تمام رنگ پورے ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ کبھی اس طرح ان درختوں کے پاس کھڑے ہوں کہ سورج ان کے پیچھے غروب ہو رہا ہو تو اس کی کرنیں کس طرح ان رنگین پتوں والی پھلنگوں میں آگ لگاتی ہیں، اس کا اندازہ آپ بخوبی کر سکیں گے۔

    ایک سب آگ، ایک سب پانی ہے نا بابا؟ مگر بقول عمران یہ سب دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر اکتوبر کا سارا مہینا اپنے رنگ بکھیرنے بل کہ اپنارنگ جمانے کے بعد ایک سرد صبح آپ کو یہ تمام پتے انھی درختوں کے قدموں میں گرے نظر آئیں گے جیسے رات کے کسی پہر پیڑوں نے جھرجھری لی اور تمام رنگ زمیں بوس ہو گئے۔ یہ ایک اور ہی منظر ہے کہ حد نگاہ تک ٹنڈ منڈ درخت دہکتے رنگوں کی چادر پر اداس کھڑے ہیں۔ پھر پتے اڑنے شروع ہوتے ہیں۔ کچھ مشینوں کے ذریعے اور کچھ ہواؤں کے زور سے تیرے میرے دالانوں میں۔ مجھے یہ سب کچھ بتاتے ہوئے عمران کی آواز بھرا گئی تھی۔ میں نے حیران ہو کر اس کی جانب دیکھا تو اس نے بتایا کہ یار! میں جب بھی اپنی امی سے فون پر بات کرتا ہوں وہ مجھ سے بات نہیں کر سکتیں، رونا شروع کر دیتی ہیں۔ بس میں ڈھے جاتا ہوں۔ پر میں کیا کر سکتا ہوں؟ ہم سب رزق کے قیدی ہیں۔ کیا تیرے بابا ماما بھی تجھے اتنا ہی چاہتے ہیں؟ بابا! اب میں اپنے دوست کو کیا بتاؤں کہ میرے بابا ماما چاہت میں میرا کیا حشر کرتے ہیں۔ اچھا بابا یہ تو میں نے تھوڑا سا عمران کی وساطت سے آپ کی پہچان کے لیے لکھ دیا ہے۔ باقی بہت کچھ آ کر سناؤں گا۔ ماما کو بےحد پیار اور آداب۔ امید ہے ’’پدر سوختہ‘‘ منیر کافی ٹھیک بنارہا ہوگا۔ آپ کا وجاہت ‘‘

    وجاہت کو عمران کے پاس آئے دو ہفتے ہو چکے تھے۔ دونوں دوستوں نے کالج کے زمانے سے لے کر اب تک کی گزری تمام زندگی کھنگال ڈالی۔ لڑکپن کی بےوقوفیاں، ڈرامے، مباحثے، لڑکیوں کے تعاقب، کچے پکے رومانس اور ان کی ناکامیوں پر پچھتاوے، یہ سب دہرا کر کبھی دونوں بےوقوفوں کی طرح ہنستے اور کبھی دل گرفتہ ہوتے۔

    ایک دن پروگرام یہ تھا کہ دوپہر میں عمران یونیورسٹی سے آئےگا اور پھر دونوں جنگلوں اور پہاڑوں کی آوارہ گردی کو نکلیں گے اور ہرنوں کو سڑک کے آر پار جاتے آتے دیکھیں گے۔ اس علاقے میں محض جانوروں کی مٹر گشت کی وجہ سے گاڑیوں کی حد رفتار تیس میل فی گھنٹا تھی۔

    وجاہت نے پیتل کے بٹنوں والا جیکٹ اور دھاری دار گرے پینٹ پہنی۔ اس نے شیشے میں اپنے سراپے پر نگاہ ڈالی۔ ’’جوان رعنا! طفل خوش اندام‘‘ دور سے یہ آواز اس کے کانوں میں آئی ۔ اونچی قامت، پیچھے کی جانب بغیر مانگ کے سنوارے بال، صحت مند سرخی مائل سفید رنگ، ہلکی سی خمیدہ ناک اور بچپن میں کھیلے بلوریں بنٹوں جیسی آب دار آنکھیں۔ خود کوشیشے میں دیکھ کر وہ مسرور ہوا۔ اس نے گھڑی دیکھی۔ عمران سے طے شدہ وقت سے کچھ پہلے وہ تیار ہو چکا تھا۔ اسے یکایک خیال آیا کہ مصروفیت میں وہ بابا کی دی ہوئی کتابوں کو تو چھو ہی نہیں پایا اور ہاں بابا نے ایک لفافہ سا بھی تو دیا تھا۔ اس نے سوٹ کیس میں سے کتابیں نکالیں اور صوفے پر نیم دراز سا ہو کر بیٹھ گیا۔ لفافہ چاک کیا، تہ شدہ کاغذ کو کھولا، لکھا تھا:

    ’’میں سمجھتا ہوں کہ اپنے شعور اور لاشعور میں موجود، سانس لیتی واردات کو ہمیں، یعنی مجھے اور تمھیں کہ تم میرے دوست اور بیٹے ہو، سن لینا چاہیے کہ زندگی میں کچھ خلا ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ہمہ تن عاجزی اور نیک نیتی کے باوجود انسان انھیں پر نہیں کر سکتا۔ تمھیں شاید یاد ہو کہ تمھاری ساتویں سالگرہ کا دن تمھاری ماما کے ذہن سے محو ہو گیا تھا جب کہ تم سالگرہ کی صبح کو یہ امید رکھتے تھے کہ ماما حسب معمول تمھیں چومیں گی، پیار کریں گی، اپنے ساتھ لگائیں گی، تمھارے بالوں کو اپنی انگلیوں سے سنواریں گی اور پوچھیں گی کہ ’’جناب آج کس کی سالگرہ ہے؟ اور جواب میں تم لاڈ سے، زور سے بولوگے‘‘ ’’وجاہت کی‘‘ لیکن خدا معلوم اس سال ماہتاب یہ سب کیوں بھول گئی۔ تم دن بھر کھسیانے کھسیانے سے پھرتے رہے اور آخر دن ڈھلے تم نے خود ہی ماما سے پوچھا ’’ماما! آج کیا ہے؟ آپ کو کچھ معلوم ہے؟ نہیں تو، ’’مجھے تو نہیں معلوم‘‘ مامانے عام سے لہجے میں کہا تھا، ’’آپ بتاؤ‘‘۔ ’’ماما! ماما آج وجاہت حسین کی سالگرہ ہے۔ آج میرا ہیپی برتھ ڈے ہے ماما!‘‘ اور تم دکھ سے بلکتے ہوئے اپنی ماما سے لپٹ گئے تھے۔ماہتاب پر جیسے شرمساری کا گھڑوں پانی پڑ گیا اور وہ تیز بخار میں مبتلا ہو گئیں۔ میں بھی دنوں بوکھلایا بوکھلایا پھرا۔ یہ زخم آج بھی میرے اور تمھاری ماما کے دل پر جوں کا توں ہے۔ بعض باتیں نقش بر آب ثابت ہوتی ہیں لیکن یہ واقعہ ایسا ہے کہ۔ جیسے ایک کوزہ گر اپنے چاک پر بڑی احتیاط اور نفاست سے اپنے کام کی اپنے خیال کی تکمیل کر رہا ہے کہ سہواً انجانے میں کمال بے خبری میں اس کی انگلیاں یا انگوٹھے کی پور برتن کو چاک سے اتارنے میں چھو جاتی ہے۔ کوزہ گر بے خبر ہے لیکن ہلکا سا دباو برتن پر نقش ہو جاتا ہے۔ کوزہ گر اس حادثے سے اور اس کی سنگینی سے بےخبر اطمینان سے برتن کو تنور میں رکھنے کے لیے بڑی چابکدستی سے چاک سے اتارتا ہے اور بےحد احتیاط سے اسے تنور میں رکھ دیتا ہے اور زمین سے پیوست تنور کے بڑے سوراخ میں برتن کو پکا کرنے کے لیے ہیزم جھونکتا ہے لیکن انجانے میں لگی انگلی یا انگوٹھے کی پور کا دباو نمایاں ہو جاتا ہے۔ بعینہٖ تمھاری سالگرہ کا واقعہ آج بھی میرے اور تمھاری ماما کے ذہن کے پردوں پر ایک بڑے گناہ کی صورت میں مرتسم ہے۔

    وجاہت! جان بابا! میں خود پر گزری ایک واردات تمھیں سنانا پسند کروں گا۔ برسوں پہلے کی بات ہے۔ میرے مالی نے ایک گملے میں پھولوں کی پنیری لگائی۔ گملا یقیناً تنگ تھا اور بیج زیادہ لہٰذا مالی بہ طریق احسن اس پنیری کی بڑھوتری نہ کر پایا۔ میں جو خود کو باشعور و عاقل سمجھتا تھا اس مردِ عاجز و مسکین پر تند خو ہوا اور سمجھایا کہ تنگ گملے میں زیادہ پنیری نہیں پھلتی پھولتی۔ میری اس ترش روئی اور بد لحاظی سے وہ مسکین دکھی ہوا۔ منہ سے کچھ نہ بولا فقط ایک نگاہ مجھ پر ڈالی۔ اس نگاہ میں چیلنج تھا انتباہ تھا، بہت کچھ تھا۔ میں یہ سب سہ نہ پایا اور چہرہ دوسری جانب موڑ لیا۔ یہ کیفیت میں نے برسوں محسوس کی۔ خیر۔ پھر ایک کھلے گملے میں، میں نے خود پنیری لگائی لیکن پنیری میں بڑھوتری ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ ایک رات میں اس کو جالی سے ڈھانپنا بھول گیا۔ صبح صبح اس گملے کی تمام پنیری چڑیاں چگ گئیں۔ میں اپنی خواہش کے ناتمام رہ جانے پر ملول و رنجیدہ ہوا۔ میری اس کیفیت کو میرے ایک دوست نے دل سے محسوس کیا اور میری راہ نمائی کی اور میرے دل کو یوں شاد کیا کہ ایک پھلتی پھولتی پنیری والا گملا مجھے دے دیا۔ میں شاد کام ہوا۔ بامراد ہوا‘‘۔

    وجاہت کرسی سے اٹھا۔ سامنے والی دیوار پر لگے آئینے نے اس کے قدم پکڑ لیے۔ وجاہت نے اپنے سراپا پر نگاہ ڈالی۔ اسے اپنا آپ بےہنگم اور بےڈول نظر آیا۔ بلیو بلیزر اور دھاری دار پتلون سب میلا میلا اور ڈھیلا ڈھالا لگا۔ اسے اپنا سارا وجود بیگانہ لگا جیسے وہ کسی پارٹی میں جانے کے لیے لنڈے کے ان فٹ کپڑے پہن کر تیار ہوا ہو۔ وہ عجیب سی بےبسی اور گھبراہٹ میں باہر لپکا۔ کھلی فضا میں کھنکار کر اور لمبی لمبی سانسیں لے کر اس نے خود کو شانت کرنے کی کوشش کی۔ ان لمحوں میں ماما بابا اورگھر ذہنی طور پر اس کے لیے معدوم ہو چکے تھے۔ اسے لگا کہ وہ اپنے ذہن اور وجود کے ساتھ فضا میں معلق ہے۔ وہ کوربینی میں مبتلا ہو گیا ہے اور تمام فضا ایک دبیز اندھیرے کی زد میں ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ اس نے کتنا وقت کہاں پر گزارا۔ جب وہ واپس گھر میں داخل ہوا۔ عمران اس کے شدید انتظار میں تھا۔ وجاہت کو دیکھ کر پریشان ہوا اور پوچھا۔ ’’یار کیا بات ہے، یہ تمھارے چہرے پر ہوائیاں کیوں اڑ رہی ہیں۔ تم ٹھیک تو ہونا؟ کہاں گئے تھے؟ کوئی ایکسیڈنٹ تو نہیں ہوا؟‘‘ عمران ایک ہی سانس میں بہت سے سوال پوچھ گیا، ’’ایکسیڈنٹ ‘‘ وجاہت زیر لب بڑبڑایا۔ ’’وہ تو ہو چکا۔‘‘

    عمران کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ کیوں کہ وہ ایک دوسری الجھن سے پریشان تھا۔ ’’یار عمران تم مائینڈ نہ کرو تو میں گھر جانا چاہتا ہوں۔ بس ایک دم ہی کچھ اداس سا ہو گیا ہوں۔‘‘

    ’’ہاں ہاں۔ وہ تو ہے۔ وہ توکوئی بات نہیں۔یہ۔ یہ۔ تمھارے بہنوئی کی ای میل ہے۔‘‘ میرے ایڈریس پر تمھارے لیے بھیجی ہے۔ عمران نے پیچھے کیا ہوا بازو آگے کیا اور ایک کاغذ وجاہت کے ہاتھ میں تھما دیا۔ ’’میں تمھاری پیکنگ کرتا ہوں‘‘ عمران چوروں کی طرح وجاہت کے سامنے سے کھسک گیا۔

    ’’وجاہت سب مجھے منع کررہے ہیں کہ تمھیں اطلاع نہ دی جائے لیکن میں اپنا فرض سمجھتے ہوئے تمھیں مطلع کر رہا ہوں کہ آج ایک ہفتہ ہونے کو ہے کہ تمھارے بابا ’’کوما‘‘ میں ہیں۔ سب ڈاکٹر کھل کر کچھ نہیں بتا رہے کہ ریکوری کب ہوگی اور ہوگی تو کیا وہ نارمل ہوں گے؟ مسئلہ وہی ہے کہ وہ جو زندگی بھر ان کی انسانوں کے ہجوم سے راہ و رسم تھی وہ ذہنی طور پر اس ہجوم سے بچھڑ چکے ہیں۔ احساسِ تنہائی دیمک کی طرح ان کے ذہن سے چپک گیا ہے۔ تمھاری ماما بےحد مضطرب ہیں۔ رات کو ہاسپٹل میں ہوتی ہیں لیکن دن کو جب گھر پر ہوتی ہیں تو باہر سے آنے والے ہر شخص کو سوالیہ لیکن سہمے ہوئے انداز میں دیکھتی ہیں اور آنے والے کی نظروں کو خالی پا کر کسی نہ کسی کو فون کرنے لگ جاتی ہیں یا اخبارات الٹ پلٹ کرتی رہتی ہیں۔ یہ صورتِ حالات بہت المناک ہے۔ تم فوراً آ جاؤ۔ تمھارے آنے سے صورتِ حالات کی اذیت میں یقیناًبہتری ہوگی۔‘‘

    نیویارک سے وجاہت جب جہاز میں بیٹھا تو گویا وہ ایک لمبی اونگھ سے جاگا۔ اسے کچھ معلوم نہیں تھا کہ جہاز تک پہنچنے کا عمل کیوں کر اور کیسے مکمل ہوا۔ لیکن ایک دم سے اسے یوں محسوس ہوا جیسے بابا حسب معمول اس کے پا س آن بیٹھے ہیں۔ ان کے ہاتھ کا لمس اس کے دل کو چھو گیا۔ بابا دل جوئی کے انداز میں سرگوشی سے اس سے ہم کلام ہوئے۔ ’’وجاہت میرے بچے سنو غور سے سنو دھیان دو۔ واردات کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے لیکن مت بھولو کہ ہر واردات دل کی گلی میں سے ہو کر گزرتی ہے۔ یہ تمام وارداتیں یہ وقت کی سوغاتیں یہ ظالمانہ اتھل پتھل اپنی قبولیت کے لیے آپ کو بےبس کر دیتی ہیں۔ گزرتا وقت تمھارے قابو سے باہر ہوا جا رہا ہے۔ جانِ پدر! جو ہے اسے ویسا ہی سمیٹ لو۔ اس کیفیت اور اس اذیت سے خود کو بچالو۔ اس دم گھونٹنے والے حصار سے باہر نکل آؤ۔‘‘

    وہ وقت جس کے بیشتر موسم ہریاول اور سرمئی بادلوں کے سے تھے ایک بے کراں ریگستان میں ڈھل گیا تھا اور اس ریگستان میں وجاہت موجود وقت کے درمیان چک پھیریاں لے رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ وقت اور اس کے اپنے زمانے کی تمام شادابیوں پر ریت کی کر کری تہ جم گئی ہے۔

    ائیر ہوسٹس بیلٹ باندھنے اور دوسری حفاطتی تدابیر کو سبق کے انداز میں بتا رہی تھی اور چھ فٹ دو انچ کا وجاہت اپنی سیٹ پر ایک ڈھیر کی صورت میں بیٹھا تھا اور اس کی شیشے کے بنٹوں جیسی رنگت والی بند آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو اس کے رخساروں کو گیلا کر رہے تھے اور انھی بند آنکھوں کے اندر ہی اندر برسوں پہلے گزرا وقت اس سے نظریں دو چار کر رہا تھا کہ بابا مضمحل سے لیٹے ہیں۔ ایک پانو کا انگوٹھا اور بڑی انگلی باہم دست و گریباں ہیں اور وہ اپنے صاف لہجے میںیہ شعر پڑھ رہے ہیں:

    در نمازم خمِ ابروے تو چوں یاد آمد

    حالتے رفت کہ محراب بہ فریاد آمد

    حالتے رفت

    حالتے رفت

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے