کہانی کی کہانی
یہ افسانہ ایک ایسے شخص کے بارے میں ہے جو اپنی بیٹی سے بہت محبت کرتا ہے۔ وہ شخص اپنی بیٹی کی شادی کی تاریخ طے کرنے اس کے سسرال جاتا ہے۔ شادی کی تاریخ طے کر وہ واپس ٹرین سے آرہا ہوتا ہے کہ اس ٹرین میں آگ لگ جاتی ہے۔ جب اسے ہوش آتا ہے تو وہ خود کو ایک ہسپتال میں پاتا ہے۔ سرکار کی طرف سے مہلوکین اور زخمیوں کے لیے معاوضہ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ معاوضے میں اتنی ہی رقم کا اعلان کیا گیا ہے جتنی اسکی بیٹی کے سسرال والوں نے جہیز میں مطالبہ کیا تھا۔
ریلوے اسٹیشن پر ایسی بھیڑ تھی جیسے آج شہر کی ساری خلقت کو سفر درپیش ہو۔
پلیٹ فارم پر بے شمار بوگیوں والی گاڑی آدمیوں عورتوں اور بچوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی اور انجن لگنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کے پاس واپسی کا ٹکٹ موجود تھا وہ متعلقہ بوگی میں سیٹ نمبر تلاش کر کے کھڑکی کے ساتھ بیٹھ گیا تھا اور حالانکہ ابھی رخصتی میں چار مہینے پڑے تھے۔ مگر وہ آنے والے اس لمحے کا تصور کر کے آبدیدہ ہو گیا۔
گاڑی میں سوار ہوتے ہی اس کا ذہن رواں ہو گیا اور بیس بائیس برس پہلے کا وہ دن یاد آنے لگا تھا جب اسے اسی شہر سے اس کی ولادت کی اطلاع ملی تھی۔ اس سے پہلے وہ بیٹے کی پیدائش کی خوشی کا ذائقہ چکھ چکا تھا مگر بیٹی کی پیدائش کی خبر میں ایک اور طرح کی خوشی اور عجیب سا احساس چھپا ہوا تھا جس کی صحیح نوعیت وہ نہ جانتا تھا۔ اسے لگتا جیسے وہ اچانک معزز اور مکمل ہو گیا ہو اس کے سر پر فضیلت کی دستاربندھ گئی یا جیسے اس پر بہت بڑی ذمہ داری کا بوجھ آ پڑا ہو۔ خوشی کے ساتھ ساتھ آزاد ی چھننے اور پابندی لگنے کا احساس۔
اسے یاد آیا وہ دن بھر اسی کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔ اس کا اصل نام تو جو بہت خوبصورت اور انوکھا ہوگا خوب سوچ سمجھ کر رکھنا ہوگا مگر تب تک اسے کس نام سے پکارا جائے۔ چندا، تارا، رانی۔ گڈی، چھوٹی، بے بی، نکی، بلی، مانو؟ اس نے کتنے ہی نام سوچے مگر کوئی فیصلہ نہ کر سکا۔ پتہ نہیں وہ کیسی ہوگی؟ کس پر گئی ہوگی؟ اسے پیغام براہ راست نہیں ملا تھا اس لئے وہ کچھ پوچھ اور جان نہ سکا تھا وہ کیسی تھی۔ اس کا بیٹا اس کی کاربن کاپی تھا مگر پتہ نہیں وہ اپنی تیکھے نقوش والی ماں پر گئی تھی یا اپنے گول مٹول سے بھائی پر۔ اس کا دل اسے دیکھنے کو بے تاب ہونے لگا۔ کاش وہ اسے فوراً! دیکھ سکتا مگر دفتر سے چھٹی نہیں مل رہی تھی۔ وہ بار بار اس کے چہرے کا تصور کرتا۔ اپنی اور بیوی کی صورتوں کو ملا کر ایک نئی طرح کی تیسری صورت تراشتا مگر زیادہ غور کرنے سے وہ تازہ تازہ تخلیق کیا ہوا چہرہ دھندلا سا جاتا اور کوئی واضح صورت ذہن میں محفوظ نہ رہ پاتی۔ پھر جب کئی روز بعد اس نے اسے لاہور جا کر دیکھا تھا تو پریشان ہو گیا تھا۔ غریب آدمی کے لئے ایسی بیٹی ایک بہت بڑی آزمائش تھی۔
اسے یاد آ رہا تھا کہ کچھ دنوں بعد وہ اپنی ماں کے ہمراہ اپنے گھر آ گئی تھی اور یہ جانے بغیر کہ وہ اپنے باپ کی شفیق گود میں ہے معصوم ہنسی کے پھول کھلانے لگی تھی۔ اس کی قلقاریوں سے اس کا دل اور گھر آباد ہو گئے۔ پھر آنگن میں ہر سو اس کی توتلی باتوں کے جگنو اور مسکراہٹوں کی تتلیاں اڑنے لگیں۔ پھر وہ گڑیوں سے کھیلنے اور ان کے بیاہ رچانے لگی اور وہ اس کے لئے طرح طرح کی گڑیاں کھلونے اور ملبوسات لاتا رہتا تھا اور جب وہ باہر سے تھک کر گھر آتا اور وہ ’’میلے ابو آ گئے۔‘‘ کا ورد کرتی، خوشی سے اچھلتی اس کی ٹانگوں سے چمٹ جاتی اس کے کندھوں پر چڑھ جاتی تو سارے دن کی تکان لمحہ بھرمیں دور ہو جاتی۔ زندگی کی ساری کلفتیں راحتوں میں تبدیل ہو جاتیں اور اس کا گھر محبت کے پھولوں سے مہکنے لگتا۔ کاش وقت رک جاتا اور زندگی اسی طرح بیت جاتی مگر وقت کبھی رکتا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ بڑی ہوتی گئی اور وہ ا س کے بچھڑنے اور گھر سے چلے جانے کے غم میں مبتلا رہنے لگا۔ اس کی بیوی بہت ہی گرہستن اور منتظم قسم کی عورت تھی۔ اس نے ابھی سے جب وہ میٹرک میں تھی اس کی رخصتی کی تیاری شروع کر دی تھی اور اسے طعنے دیتی اور یاد دلاتی رہتی تھی کہ اسے بیٹی کی کوئی فکر نہیں تھی۔ وہ اسے کیا بتاتا کہ اس کے بچھڑنے کے خیال سے اس کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ (ہائے او میریا ڈاہڈھیا ربا۔ کنھاں جمیاں کنھاں نے لے جانیاں)۔ مگر جب تک وہ سکول اور کالج جاتی رہی جدائی کے خیال کی ناگن جیسے پٹاری میں بند رہی۔ مگر جس روز وہ بی اے کا آخری پرچہ دے کر آئی وہ رات اس نے زہریلے کانٹوں پر گزاری تھی۔ اس نے اس کے سارے چھوٹے چھوٹے کام اپنے ذمے لے رکھے تھے۔ وہی اسے بتاتی اس کے کپڑے اب میلے ہو گئے ہیں اور اسے دھلائی کے لئے اتار دینا چاہئیں۔ وہ اسی کے مشورے پر عمل کرتا کہ اسے کون سے موقع پر کون سا لباس پہننا چاہئے۔ اس کی پسند کی چیزیں پکاتی، اسکے کپڑے دھوتی، استری کرتی، قمیض کا ٹوٹا ہوا بٹن لگاتی اور اس کی چیزوں اور کتابوں کو سنبھال کر رکھتی۔ اسے گھر میں جس چیز کی ضرور ت ہوتی وہ اسے آواز دیتا۔ اس کی بیوی بڑبڑاتی
’’کبھی خود بھی اٹھ کر کچھ کر لیا کرو۔‘‘
مگر دوسرے ہی لمحے نازو اس کی مطلوبہ چیز لئے سامنے کھڑ ی ہوتی۔ اس نے سچ مچ اسے کاہل اور نکما بنا دیا تھا۔ وہ اس کے بغیر اپنے گھر کا تصور کرتا تو اسے ہول آنے لگتا۔ ایسا لگتا جیسے اسے دیکھے بغیر صبح طلوع نہ ہوگی۔ اس کے ہاتھ کی روٹی کے بغیر بھوک نہ مٹےگی۔ اس کی آواز سنے بغیر چین نہ آئےگا۔ اوٹ پٹانگ باتیں سوچتا اور کرتا۔ ایک بار کہنے لگا،
’’جب تم بیاہ کر اپنے گھر چلی جاؤگی میں تمہارے گھرکے پاس ہی کرائے کا گھر لے لوں گا۔ اور دن بھر دروازے پر بیٹھا رہا کروں گا۔ کیا پتہ تمہیں کب ضرورت کی کوئی چیز منگانا پڑ جائے۔‘‘
اس نے تو یہ بات یوں ہی دل لگی کی خاطر کی تھی مگر وہ پہروں روتی رہی۔ ’’ابو مجھ سے اتنا پیار نہ کیا کرو۔ میں کیسے جیوں گی۔‘‘
اس کی بیوی اس کی اسے طعنے دیتی ’’شادی کا سارا خرچہ تو بیٹا کر رہا ہے تم صرف باتیں کئے جاؤ۔‘‘
یہ ٹھیک تھا کہ اس نے بہن کے جہیز کی تیاری میں خوب ہاتھ بٹایا بلکہ اپنی شادی پس پشت ڈال دی تھی مگر بیٹے کی کمائی میں اس کا بھی تو کچھ حصہ ہوگا۔ آخر اس کی پڑھائی بھی تو اسی کی آمدنی سے ہوئی تھی مگر وہ اسے نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتی تھی۔ کیا پتہ ساری بیویاں جب ان کے ہونہار بیٹے جوان ہو جائیں شوہروں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتی ہوں۔ اس نے تو اس کی شادی طے کرتے وقت بھی من مانی کی تھی ورنہ وہ ایسے لالچی لوگوں سے کبھی رشتہ نہ جوڑتا اور اب وہ جلد از جلد شادی کے فرض سے سبکدوش ہو جانا چاہتی تھی اور اسی نے ا سے شادی کی کوئی قریبی تاریخ مقرر کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ مگر اسے فتح محمد کا مطالبہ پورا کرنے کے لئے مزید چار ماہ کی مہلت مانگنا پڑ گئی۔ مگر وہ دل ہی دل میں ڈر رہا تھا وہ ناراض ہوگی اور اسے جلی کٹی سنانے کا موقع ہاتھ آ جائےگا۔ مگر اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ روپوں کا انتظام کر کے ہاری ہوئی بازی جیتنے کی ہر ممکن کوشش کرےگا۔ اسے ریلوے اسٹیشن کی چہل پہل میں فتح محمد کی وہ سرگو شی بار بار یاد آئی جو اسے صور پھونکے جانے کی طرح معلوم ہوئی تھی۔
’’ہم انتظار کریں گے۔‘‘
اس نے فتح محمد کے آگے سر جھکا دیا تھا کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا مگر اسے نہیں معلوم تھا وہ اس کا اتنا بڑا مطالبہ کیسے پورا کرےگا۔ اس کے چلے جانے کے کتنی دیر بعد تک وہ زمین میں گڑا رہا اور گھر کی بیچی جانے والی چیزوں کی فہرست بناتا رہا۔ جب انجن آ کر گاڑی سے لگا وہ بہت سی چیزیں بیچ چکا اور اب میزان کرنے میں مصروف تھا۔ زور کا دھکا لگنے سے منہ کے بل گرتے گرتے بچا۔ بعض دوسرے مسافر جو غفلت اور بے خیالی میں بیٹھے تھے سیٹوں سے نیچے گر گئے۔ مگر زیادہ تر مسافروں کو یہ دھکا خوشگوار معلوم ہوا اس کا مطلب تھا انتظار ختم ہو ا اور منزل کی طرف روانہ ہونے کا وقت قریب آ گیا۔
ہر مسافر کو منزل پر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے اور وہ اپنے سفر کا آغاز دعاؤں سے کرتا ہے۔ بعض دوراندیش اور ہوشیار آدمی اللہ سے اگلے پچھلے سارے گناہوں کی معافی مانگ لیتے اور آئندہ کے لئے توبہ بھی کر لیتے ہیں۔ کیا پتہ یہ آخری سفر ہو اور کوئی حادثہ ہو جائے اور موقع نہ ملے مگر اللہ کو پتہ ہوتا ہے۔ کس کس کی نیت میں کھوٹ ہے اور کن لوگوں نے منزل پر پہنچتے ہی سب کچھ بھلا دینا ہے مگر وہ رحیم اور کریم پھر بھی ڈھیل دیتا رہتا ہے۔
رات کا وقت تھا اور سخت سردی پڑ رہی تھی۔ کھڑکیوں کے ٹوٹے ہوئے شیشوں سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اندر آتے تو مسافر کپکپانے لگتے۔ مگر گاڑی ابھی روانگی کے اسٹیشن سے زیادہ دور نہیں گئی تھی کہ اس کے ڈبے میں آگ لگ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے شعلے اٹھنے لگے۔ رفتار زیادہ ہونے کی وجہ سے ہوا سے بھڑکتی آگ ایک ڈبے سے دوسرے کو لگتی چلی گئی۔ اور تھوڑی سی دیر میں پوری بوگی دھڑ دھڑ جلنے لگی۔ اب جہاں بڑے بڑے قومی سانحات پیش آنے کے اسباب کا کبھی پتہ نہ چل سکا ہو وہاں اس چھوٹے سے حادثے کی کیا حیثیت؟ اس لئے شاید ہی کبھی پتہ چل سکے کہ آگ کیسے لگی۔ باہر سے آئی یا اندر سے لگی جیسے کبھی کبھی گھر کو گھر کے چراغ سے لگ جاتی ہے۔ کیا معلوم کوئی چلم الٹ گئی۔ کسی نے سگریٹ بجھانے میں لاپرواہی کی۔ کسی نے سردی سے گھبرا کر موت کو گلے لگا لیا۔ کوئی سٹوو یا گیس سلنڈر پھٹ گیا یا کسی نے سامان یا سیٹ کے نیچے بم رکھ دیا تھا۔ ممکن ہے کسی مسافر کے سامان میں جلدی آگ پکڑنے والی کوئی چیز موجود ہو مگر یہ ضروری بھی نہیں۔ کیونکہ جب ایک بار آگ لگ جائے تو پھر ہر چیز اس کا ساتھ دیتی اور اس کا حصہ بنتی چلی جاتی ہے۔ لوہے جیسی سخت چیز بھی آگ کے آگے نرم پڑ جاتی ہے بلکہ آگ سے زیادہ جلانے والی چیز بن جاتی ہے۔
آگ لگنے سے ہر ڈبے میں قیامت مچ گئی۔ شور و غل، افراتفری اور نفسا نفسی۔ لوگ ایک دوسرے کو دھکیلتے اور کچلتے ہوئے کھڑکیوں دروازوں کی طرف لپکے۔ سردی اور رات کی وجہ سے زیادہ تر کھڑکیاں دروازے بند تھے جنہیں کھولنے کے لئے کتنوں کو جانوں کا نذرانہ دینا پڑا۔ دروازے تو پھر بھی کچھ لوگوں کو کچل اور دھکیل کر کھل گئے۔ مگر کھڑکیاں مشکل اور دیر سے کھلیں۔ جس نے بھی کھولنے کیلئے ہاتھ یا سر باہر نکالا اس کا ہاتھ یا سر دھڑ سے الگ ہو کر باہر ہی رہ گیا۔ جس کسی کو آگ ایک بار پکڑ لیتی وہ دوسروں کیلئے بم بن جاتا۔ مگر اس سے بچنے کا راستہ نہ ملتا۔ دھکے لگنے سے چیخیں مارتے لوگ اس کے اوپر آ گرتے اور خود بم بن جاتے۔ کچھ بچے قدموں کے نیچے آ کر کچلے گئے۔ بعض کو انکی ماؤں نے تب تک اپنے نیچے پناہ دیئے رکھی جب تک وہ خود لاشوں کے پہاڑ کے نیچے آ کر دب نہ گئیں یا چولھے کی جلتی لکڑی بن کر جلنے نہ لگیں۔ بعض عورتوں نے بچوں کو چلتی گاڑی سے باہر پھینکنے کی کوشش کی مگر شاید ہی کوئی سالم باہر آ سکا۔ زیادہ تر بچوں کے ٹکڑے ہی باہر گرے۔ جن لوگوں کو باہر دھکیلا یا پھینکا گیا یا جنہوں نے خود چھلانگیں لگائیں ان میں سے بھی بہت کم زندہ بچے۔ کیونکہ یہ پہاڑی علاقہ تھا۔ دوسرے گاڑی بہت تیز بھاگ رہی تھی۔ جو گرتا یا کودتا سخت زخمی ہو جاتا۔ بعض گاڑی کی لپیٹ میں آ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے اور اگر کوئی گاڑی کے نیچے آ کر کٹنے سے بچ بھی جاتا وہ زخمی ہو کر فوراً یا کچھ دیر بعد سردی سے ا کڑ کر مر جاتا۔ بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور کمزوروں میں سے اسکے سوا شاید ہی کوئی زندہ بچا ہو۔ زیادہ تر جل کر راکھ ہو گئے یا دوسروں کی لاشوں کے نیچے دب کر لاش بن گئے۔ اسے یاد ہے بھیڑ اسے روند رہی تھی جب کوئی سخت چیز اس پر گری اور وہ جل کریا دب کر مر نے سے بچ گیا۔ مگر ناقابلِ بیان حدت کی تاب نہ لا کر بےہوش ہو گیا۔
اسے ہو ش آیا تو کچھ دیر کے لئے وہ فیصلہ نہ کر سکا، زندہ ہے یا مر چکا اور اگلی یا پچھلی کون سی دنیا میں ہے۔ وہ دیکھ سکتا تھا نہ اپنے جسم کے کسی بھی حصے کو حرکت دے سکتا تھا۔ پتہ نہیں جسم تھا بھی یا نہیں؟ کیا پتہ اب وہ محض روح کی صورت باقی بچا ہو اور اس کا حساب کتاب ہونے والا ہو۔ پھر اسے کراہنے والوں کی ایسی باتیں سنائی دیں جیسے جہنم کہیں قریب ہی ہو اور گناہ گاروں کو عذاب دیا جا رہا ہو مگر پھر پچھلے جہان کے آدمیوں جیسی دو آوازیں سنائی دیں۔ وہ حادثے کی انکوائری کی باتیں کر رہے تھے۔ جس کا صاف مطلب تھا وہ مرا نہیں زندہ ہے۔ مگر شائد ہسپتال میں پڑا اور بہت سی نلکیوں، نالیوں اور پٹیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ پتہ نہیں اس کا جسم کس حالت میں ہے اور اس کا زندہ بچنا خوش نصیبی کی بات ہے یا بدنصیبی کی؟ ۔ اسے ہمیشہ سے اپاہجوں کی سی زندگی جینے سے جس میں آدمی دوسروں کا محتاج ہو بہت ڈر لگتا تھا۔ ایسے جینے کو وہ مرنے سے بدتر سمجھتا تھا۔ مگر کچھ اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ اس کے کون کون سے اعضا ساتھ ہیں اور کون سے کٹ گئے۔
اسے اپنے گھرکے لوگ یاد آئے۔ بیٹا جس کی شادی کی خوشی دیکھنے کا اسے بہت ارمان تھا مگر اس نے بہن کی خاطر اسے موخر کر دیا تھا۔ نازو جس کے بیاہ کی تاریخ لینے وہ گھر سے نکلا اور حادثے کا شکار ہو گیا تھا اور بیوی جو ہر وقت جھگڑا کرتی اور اسے نیچا دکھانے کی کوشش میں لگی رہتی تھی مگر جب کبھی وہ کہیں چلا جاتا تو کھانا پینا تک چھوڑ دیتی۔ اچانک اسے خیال آیا کہ اس کا سر سلامت ہے کیوں کہ وہ سوچ سکتا ہے اور یاد کر سکتا ہے مگر خدا جانے اس کا چہرہ سلامت ہے یا بگڑ چکا؟ ۔ مگر بگڑے ہوئے چہرے سے بھی کیا فرق پڑتا ہے۔ ہاتھوں اور پیروں کی سلامتی زیادہ ضروری ہے۔ مگر اسے معلوم نہ تھا وہ ہیں یا نہیں۔ مگر پھر باتیں کرتے ہوئے وہ دونوں آدمی جنہیں پہلے وہ منکر نکیر سمجھا تھا قریب آ گئے۔ وہ شاید ڈاکٹرز تھے اور مختلف زخمیوں کو دیکھتے ہوئے اس کے قریب آ رہے تھے۔ یقیناً ان کی گفتگو سے اندازہ ہو سکےگا کہ اس کی حالت کیسی ہے مگر وہ پاس ہی کے کسی مریض سے فارغ نہیں ہو پا رہے تھے۔
’’اچھا ہوا‘‘ ایک آواز آئی، ’’زیادہ سیریس مریضوں کو بڑے ہسپتال بھیج دیا گیا ورنہ بہت پرابلم ہو جاتی۔‘‘
’’ہاں‘‘ دوسری آواز نے جواب دیا، ’’یہاں تو اب اور خون کا انتظام بھی نہیں تھا۔‘‘
’’خون کا انتظام تو ہو سکتا ہے۔ ابھی صبح کے اخباروں اور نیوز بلیٹن سے ان کے وارثوں اور پبلک کو حادثے کا پتہ چل گیا ہو گا۔ تم دیکھنا اب تھوڑی دیر میں یہاں خون کے عطیات دینے والوں کی بھیڑ لگ جائے گی مگر یار عملہ کم پڑ رہا ہے۔‘‘
’’سنا ہے دوسرے ہسپتالوں سے کچھ سٹاف بلایا گیا ہے۔ شائد دوپہر تک کچھ لوگ پہنچ جائیں۔‘‘
’’یار پتہ نہیں چل سکا یہ حادثہ ہوا کیسے ہوا۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ پوری تین بوگیاں جل گئیں اور گارڈ ، ڈرائیور اور فائرمینوں کو پتہ ہی نہ چلا۔‘‘
’’نہیں یہ ڈرائیور کا بیان ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انجن کا اپنا شور اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ دوسرا کوئی شور یا چیخ سنائی نہیں دیتی۔ لیکن گارڈ کا بیان ہے کہ اسے پتہ تو چل گیا تھا مگر وہ جنگل میں گاڑی رکوا کر آگ تو نہیں بجھوا سکتا تھا۔ اس نے جلدی سے جلدی کسی قریبی اسٹیشن پر پہنچنا ضروری سمجھا۔‘‘
’’ایک عینی شاہد بتا رہا تھا گاڑی کی تیز رفتاری کی وجہ سے آگ پھیلتی چلی گئی۔‘‘
’’را ت کے وقت جلتی ہوئی بوگیوں والی گاڑی کا منظر کتنا عجیب اور خوفناک ہو گا۔‘‘
’’یہ بابا خوش نصیب ہے اتنے زخموں اور چوٹوں کے باوجود جان بچ گئی۔‘‘
وہ چونک پڑا۔ وہ اسی کا معائنہ کر رہے تھے۔ یقیناً انہوں نے اسے چھوکر بھی دیکھا ہو گا مگر اسے چھوئے جانے کا بالکل احساس نہیں ہوا تھا۔ یہ سوچ کر وہ دہل سا گیا کہ اس کا جسم بےحس یا سن ہو چکا ہے۔ کیا پتہ بالکل بیکار ہوچکا ہو
پھر انھوں نے کسی تیسرے کو جو آواز سے نرس معلوم ہوئی ہدایت کی کہ وہ اس بات کا خاص طور پر خیال رکھے کہ انجکشن کا اثر ختم ہونے اور ہوش میں آنے کے بعد مریض بے چینی کے عالم میں ہاتھ مارکر سانس کی نالی نہ ہٹا دے۔ اسے یہ جان کر تھوڑا سا اطمینان ہوا کہ کم از کم اس کا ایک ہاتھ ضرور موجود تھا۔
پھر وہ آگے بڑھ گئے مگر اسے ان کی آواز اب بھی سنائی دے رہی تھی۔ ان کی گفتگو سے اسے بہت سی باتوں کا پتہ چلا۔ معمولی زخمی ہونے والوں کو مرہم پٹی کر کے فارغ کر دیا گیا تھا۔ مرنے اور شدید زخمی ہونے والوں میں سے جن لوگوں کی شناخت ہو گئی تھی ان کے لواحقین کو اطلاع کر دی گئی تھی۔ بے شناخت لاشوں کو سرد خانے میں رکھوانے کا انتظام ہو رہا تھا اور حکومت کی طرف سے زخمی اور مرنے والوں کے معاوضے کا اعلان ہو چکا تھا۔ مگر یہ سوچ کر اس کے دل کو دھچکا سا لگا کہ اس معاوضے کی نسبت ایک اور چار کی تھی۔ اور یہ کیسا عجیب اتفاق تھا کہ مرنے کے معاوضے کی رقم فتح محمد کے مطالبے کے عین مطابق تھی۔ مگر قسمت نے یہاں بھی اس کا ساتھ نہیں دیا تھا۔
اچانک وہ کسی خیال سے چونک پڑا۔ اس نے ٹانگوں کو ہلانے جلانے کی کوشش کی مگر اسے پتہ نہ چل سکا وہ ساتھ تھیں یا نہیں۔ اس نے جسم کو حرکت دینے کی کوشش کی مگر وہ اب تک بےحس پڑا تھا۔ تاہم کچھ دیر کی کوشش کے بعد وہ دائیں ہاتھ میں تھوڑی سے جنبش پیدا کرنے اور آکسیجن کی نالی تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.