Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہاتھی کی پونچھ

ویکوم محمد بشیر

ہاتھی کی پونچھ

ویکوم محمد بشیر

MORE BYویکوم محمد بشیر

    یہ ایک چوری کی کہانی ہے۔ ایک بہت بڑا ہاتھی تھا جس نے دو مہاوتوں کو اپنے پیروں تلے روندکر مار ڈالا تھا۔ اسی ہاتھی کی دم سے ایک بال چرانا تھا اور اس طرح چرانا تھا کہ کوئی دیکھنے نہ پائے۔ نہ ابا، نہ اماں اور نہ ہی مہاوت۔ مجھے اس کی دم سے ایک بال، صرف ایک عدد بال حاصل کرنا تھا۔ وہاں صرف ایک نہیں تین ہاتھی تھے۔ میں اس بڑے ہاتھی کی دم کا بال چاہتا تھا، اپنے لیے نہیں بلکہ رادھامنی کے لیے۔ رادھامنی اکسائز انسپکٹر کی بیٹی تھی اور میری ہم جماعت۔ اس نے مجھے کتاب میں رکھنے کے لیے مور کا ایک پر دیا تھا۔ ارے ہاں، اس زمانے میں میری ایک عرفیت تھی۔ ہاتھی کی پونچھ۔ میرے دوست مجھ سے پوچھا کرتے تھے، ’’ہاتھی کی پونچھ، کہا ں جارہے ہو؟‘‘ یا پھر ’’ہاتھی کی پونچھ کا سوال غلط ہو گیا، اسے صفر ملا!‘‘ دراصل میں ہاتھی کی ’’دم‘‘ کو عموماً ہاتھی کی پونچھ کہا کرتا تھا۔

    ’’ہاتھی کی پونچھ!‘‘

    یہ واقعہ برسوں پرانا ہے۔ میں آٹھ یا نو برس کا تھا۔ میرا بھائی عبدالقادر مجھ سے ایک سال چھوٹا تھا۔ وہ خاندان بھر کا دلارا تھا۔ میں درگاہوں اور مزاروں پر مانگی اور مانی ہوئی بےشمار مرادوں اور منتوں کے بعد پیدا ہوا تھا مگر اس سب کے باوجود میں بہت دنوں تک گھر والوں کا دلارا نہ رہ سکا۔ عبدالقادر کی ایک ٹانگ خراب تھی، اس لیے ہر ایک کی ہمدردیاں اسی کے ساتھ تھیں۔ ہر شرارت کا جواب مجھ سے طلب ہوتاتھا۔ ناکردہ گناہوں کی بھی سزا مجھ کو ملتی تھی۔ میں بذات خود ہٹا کٹا اور مضبوط تھا۔ میں پیر نے، ڈائیو لگانے اور درخت پر چڑھنے میں ماہر تھا۔ سیٹی بھی بہت بڑھیا بجاتا تھا، دو بلکہ صرف ایک انگلی منھ میں ڈال کرمیں زور دار سیٹیاں بجاسکتا تھا۔ عبدالقادر ان عظیم فنون سے واقف نہیں تھا۔ یہ کمالات اس میں نہیں تھے۔ ہاں وہ پڑھائی میں مجھ سے کچھ بہتر تھا۔ وہ مجھے ’’ہاتھی کی پونچھ‘‘ کہہ کر پکارتا تھا۔

    اس زمانے میں چلتے پھرتے ہماری نظروں کے سامنے سب سے پہلے ہاتھی آیا کرتے تھے۔ میرے والد عمارتی لکڑی کے تاجر تھے۔ کدایاتْھر کے جنگلات سے درخت کٹواکر لٹھوں سے بنے ہوئے بیڑوں میں لدواکر لکڑی دریاکے ذریعہ لائی جاتی تھی۔ ان لٹھوں کو گھر کے احاطے میں جمع کرانے کا کام ہاتھیوں سے لیا جاتا تھا۔ ہاتھیوں کو ناریل اور کھجور کے پتے کھلوانے کی ذمہ داری میری تھی۔ اس کامطلب یہ تھا کہ میں وہاں کھڑا ہوکر دیکھتا تھا کہ ہاتھیوں کو خوراک سلیقے سے مل رہی ہے یانہیں۔۔۔ جیسے ہاتھیوں کامالک میں ہی تھا! مٹی کے بڑے بڑے ڈھیلوں کو ہاتھیوں کے پیٹ پر مار کر توڑنا انتہائی دلچسپ کھیل تھا۔ مگرمیں بہرحال اس کھیل کو کھیلنے کی اپنی خواہش پر قابو رکھتا تھا۔ ہاں، اپنے دوستوں کو ہاتھی کے پیٹ پر مٹی کے بڑے بڑے ڈھیلے پھینکتے ہوئے دیکھتا ضرور تھا۔ ایک دفعہ میں نے الو دامو کو اس کھیل کی اجازت دے دی۔ اس نے ہاتھی کے پیٹ پر مٹی کا ایک بڑا سا ڈھیلا مارا اور اس کے بدلے میں مجھے ایک چھوٹا سا پکاہوا آم دیا۔

    الو دامو عمر میں میرے برابر ہی تھا۔ ہم دونوں نے ایک ہی کلاس میں پڑھا تھا۔ الو دامو کی آنکھیں گول اور باہر نکلی ہوئی تھیں۔ اس کا پورا نام دامودرن تھا۔ اس کے والد سنکرن کٹی میرے والد کے منیجر تھے۔ سنکرن کٹی کی ماں ننگیلی ہمارے یہاں کھانا پکاتی تھی اور میری اماں کی سکریٹری تھی۔ ایک بار الو دامو نے مجھے ’’ہاتھی کی پونچھ‘‘ کہہ کر پکارا۔ اس بات پر ننگیلی اسے پکڑنے کے لیے سارے گھر میں اس کے پیچھے بھاگتی رہی۔ پھر میں نے اسے پکڑا اور اس وقت تک پکڑے رہا جب تک کہ ننگیلی نے اچھی طرح اس کی پٹائی نہیں کر لی۔

    ’’پھر تم الو دامو کیوں کہتے ہو؟‘‘ اس نے کہا۔

    ’’آج کے بعد نہیں کہوں گا۔‘‘

    ’’اچھا مجھے ایک پکا کیلا دو نہیں تو میں مہاوت سے کہہ دوں گا کہ تم نے ہاتھی کو ڈھیلا مارا تھا۔‘‘

    ’’میں نے مارا تھا کہ تم نے؟‘‘

    ’’مجھ سے ایک پکا آم لے کر اجازت تو تم نے دی تھی۔‘‘

    میں نے گھر سے کچھ کیلے چرائے، ایک کیلا الو دامو کو دیا، ایک عبدالقادر کو، ایک میں نے خود کھایا۔ باقی کیلے میں نے مہاوتوں کو دے دیے۔

    میں مہاوتوں کا تقریباً ہر وقت کا ساتھی تھا۔ میں ان کی ضرورتوں کا خیال رکھتا تھا۔ یہ سب کے سب ہندو تھے۔ ان دیو پیکر درندوں کی دیکھ بھال کرنے اور انہیں اپنا مطیع وفرمانبردار بنا لینے والے یہ لوگ فوق البشر اور دنیا کے سپرمین تھے۔ میں ان کی عزت نہیں پوجا کرتا تھا۔ بڑے ہوکر مہاوت بننا میری آرزو تھی۔ ان کے حکم کا جادوئی لفظ ’’سیتیانا‘‘ جو ناک سے نکلتا تھا، ہاتھیوں کوان کی مرضی کے مطابق حرکت کرنے پر مجبور کر دیتا تھا۔ میں نے اس لفظ کو ناک سے نکالنا سیکھا، اگرچہ اس میں ابھی کچھ کچھ گونج ہوتی تھی۔۔۔ ’’سیتیانا۔۔۔‘‘ میں نے دھات کے بنے ہوئے آنکس کو چمکانا بھی سیکھ لیا جس سے مہاوت بڑے بڑے کان پکڑ کر ہاتھیوں کو کھینچتے تھے۔ میں ان کی لاٹھیوں کی دھول بھی صاف کرتا تھا اور گھر کے برآمدے میں رکھے ہوئے ان کے بڑے بڑے نیزوں کو بھی کسی کوہاتھ نہیں لگانے دیتا تھا۔ مہاوتوں سے میرے تعلقات بہت اچھے تھے۔ میں گھر سے پان، چھالیہ اور بڑھیا تمباکو لےکر جاکر ان مہاوتوں کو دیا کرتا جس سے یہ اپنے پان بناتے۔ میں ان کی باتوں کو استعجاب اور کسی قدر عقیدت کے ساتھ سنتا۔ واہ، مہاوت ہونا بھی۔۔۔!

    کیا دن تھے وہ اور کتنے مختلف تھے۔ ان دنوں تو سورج بھی زیادہ چمکدار نکلتا تھا، چاندنی زیادہ سحر انگیز ہوتی تھی، پھولوں میں رنگت زیادہ تھی، ان کی خوشبو میں تیزی اور مٹھاس ہوتی تھی، چڑیوں کی چہکار میں نغمگی تھی، دریا کا پانی زیادہ صاف اور شفاف تھا، دریا کی مچھلیوں میں مزہ زیادہ تھا۔ اوہو ہوہو! ہم کس طرح چڑیوں اور پھولوں کے بیچ اچھلتے کودتے پھرتے تھے۔ ہم آٹھ برس والے دنیا کی جان تھے، روح تھے۔ یہ دنیا ہمارے گرد چکر کاٹتی تھی، ہم اپنے سے بڑوں کو فرسودہ و درماندہ جان کر نظرانداز کرتے تھے۔ ہم سے چھوٹے ’’بچے‘‘ تھے اورہم سے بڑے بےکار اور قدیم۔ ہم سولہ برس کے لڑکوں کو آدمی گردانتے تھے۔ لیکن ایک بات تھی۔۔۔ ہم بڑی عمر کا احترام ضرور کرتے تھے۔

    ان دنوں وقت کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ہاتھ کی گھڑیاں کمیاب تھیں۔ جیبی گھڑیوں کا رواج زیادہ تھا۔ میرے والد کے پاس ایک بڑی بھاری، چمکدار جیبی گھڑی تھی۔ والد اس سے وقت ایسے بتاتے تھے جیسے انہیں جادو آتا ہو۔ لوگوں کا ان سے وقت پوچھنا ان کو بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ بڑے فخر اور ایک مخصوص تبسم کے ساتھ اپنی گھڑی والی جیب سے گھڑی نکالتے۔ گھڑی نکالنے کے فوراً ہی بعد وقت بتا دینا ناممکن تھا۔ اسے پہلے ایک طرف سے کھولنا پڑتا تھا۔ اسے احتیاط سے کھولنے کے بعد والد وقت بتاتے۔۔۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ ہوتا کیسے ہے! وقت جوابدی ہے، لامتناہی ہے، گھڑی نام کی مشین میں کیوں قید کیا گیا ہے، کس نے کیا ہے؟ ہمیں کوئی اندازہ نہیں تھا۔ بڑے لوگ اس کے بارے میں بہت سی باتیں بتاتے تھے۔ ہم ان کی سنتے تھے مگر یقین نہیں کرتے تھے۔ ہم ان کی سبکی یا نافرمانی نہیں کر سکتے تھے اس لئے خاموش رہتے تھے۔ وقت کے سلسلے میں ہماری رہنمائی سورج کرتا تھا۔ سورج ہی ہماری گھڑی تھا۔ ہم اپنے سایوں کو ناپ کر وقت کا حساب لگاتے تھے۔

    اگرچہ ہمارے پاس جیبی گھڑیاں نہیں تھیں مگر گھڑی والی جیبیں ضرور تھیں، ہماری قمیصوں کے اندر سلی ہوئی۔ عبدالقادر اور میرے پاس ایسی جیبوں والی قمیصیں تھیں۔ ہمارے پاس ٹوپیاں بھی تھیں۔ ہم ملیا زلم اسکول میں پڑھنے بھیجے گئے تھے۔ انگریزی اسکول میں جانے کے لیے کوٹ اور ٹوپی پہننا ہوتا تھا۔ انگریزی اسکول پانچ چھ میل دور تھا۔ انگریزی اسکول کے طالب علم کوٹ پہنے، ہیٹ لگائے اور انگریزی بولتے ہوئے بڑی شان سے اسکول جاتے تھے اور ہم انہیں حیرت بھری نظروں سے دیکھتے رہتے تھے۔ عبدالقادر اور میں نے عربی پڑھی۔ ہم بھی انگریزی پڑھیں گے۔ والد نے وعدہ کیا ہے، جب ہم ملیالم اسکول میں چوتھی جماعت پاس کر لیں گے تو ہمارا داخلہ انگریزی اسکول میں کرایا جائے گا۔ ہمیں شوق اور محنت سے پڑھنے کو کہا گیا تھا۔ ہمارے ’’سار‘‘ (Sir) پڈوسری نرائن پلے نے ہمیں شوق اور دلچسپی سے پڑھایا۔ کبھی کبھی وہ ہمیں مارتے بھی تھے مگراس کے باوجودوہ ہم کو اچھے لگتے تھے۔ ہم ان کی عزت کرتے تھے۔ اس زمانے میں ہڑتالیں نہیں ہوتی تھیں۔ نہ تو طالب علم اسٹرائیک کرتے تھے اور نہ استاد۔ ہمیں نظم وضبط کی پابندی کرنا ہوتی تھی، خلاف ورزی پر سزا ملتی تھی۔ نافرمانبرداری اور حکم عدولی پر سزا مارکی ہوتی تھی۔ اگر اسے کافی نہ سمجھا جاتا تو پھر طالب علم کو بنچ پر کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ دوسرا قدم یہ ہوتا تھا کہ لڑکے کو کمرے سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور اسے کمرے کے باہر کھڑا رہنا ہوتا تھا۔ مجھے کئی مرتبہ یہ سزائیں ملیں۔ بنچ پر کھڑے ہونے کی بھی اور کمرے سے باہر کھڑے ہونے کی بھی۔

    اس زمانے میں ہمیں ایک مضمون ’’وفاداری‘‘ بھی پڑھایا جاتا تھا۔ ریاست پر راجہ کی حکومت تھی، ہمارے پیارے حکمران، مہاراجہ آف ٹراونکور کی۔ ایک اور مہاراجہ بھی تھے، مہاراجہ کو چین۔ مجھے یاد نہیں کہ اس زمانے میں ہم نے ملابار کا نام سنا تھا یا نہیں۔ اس وقت کیرالہ بھی نہیں تھا۔ ٹراونکور، کوچین اور ملابار ملیالم بولنے والے علاقے تھے۔ ملابار پر ایک گورنر راج کرتا تھا۔ یہ گورنر بہت دور دراز کے جزیرے کے بادشاہ کا نمائندہ تھا۔ وہ بادشاہ ہندوستان کابھی بادشاہ تھا۔ یہ باتیں اس وقت مجھے معلوم نہیں تھیں۔ میں صرف اتنی بات جانتا تھا کہ مجھے مہاراجہ کا وفادار رہنا چاہیے جسے ظل الہی سمجھا جاتا تھا۔ مہاراجہ کا لفظ بھی عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ وہ پیارا حکمران تھا، عالی مرتبت، قابل پرستش۔ ہم اللہ سے دعا کرتے تھے کہ وہ ریاست پر مہاراجہ کی حکومت اس وقت تک رکھے جب تک سورج اور چاند ہیں تاابد۔ تمام اسکول اپنی کلاسیں ترانے کے بعد شروع کرتے تھے۔ سارے طالب علم اور تمام اساتذہ ہاتھ جوڑکر کھڑے ہوتے تھے اور ریاست کا ترانہ گاتے تھے۔ اس ترانے کو’’ون چیامنگلم‘‘ کہتے تھے۔ اس میں بھگوان سے پرارتھنا کی جاتی تھی ون چنا دو (ٹراونکور کا ایک دوسرا نام) کے حکمراں کے راج کے استحکام اور اس کی فتح و کامرانی کی۔

    ہم اسکول پیدل جاتے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سب ہی جگہوں پر پیدل جاتے تھے۔ اس زمانے میں نہ تو بسیں تھیں اور نہ کاریں۔ سڑکوں پرلال رنگ کی باریک ریت پڑی رہتی تھی۔ یہ سڑکیں شاہی شاہراہیں کہلاتی تھیں۔ بعض لوگ بیل گاڑیوں سے سفر کرتے تھے۔ کچھ گھوڑے پرسواری کرنے والے بھی تھے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت پیدل چلنے والوں کی تھی۔ صرف وہی لوگ باقاعدہ شہری سمجھے جاتے تھے جو زمین کا لگان ادا کرتے تھے۔ صرف ان ہی لوگوں کو ووٹ دینے کا حق تھا۔ میرے اباٹیکس اداکرتے تھے۔

    درختوں کو کٹوانے کے لیے ابا پہاڑیوں پر پیدل جایا کرتے تھے۔ کام کی جگہ پر پہنچنے میں انہیں دودن لگ جاتے تھے۔ انہیں پہاڑیوں پر چڑھنا اور جنگلوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ سفر میں الو دامو کے پتاجی سنکرن کٹی اباکے ساتھ ہوتے تھے۔ وہ راستے میں کھانے کے لیے بھنے ہوئے چاول رکھتے تھے۔ یہ بھنے ہوئے چاول بہت اچھے لگتے تھے، اس لئے سنکرن کٹی تھوڑے سے چاول گھر پر چھوڑ دیتے تھے، جنہیں عبدالقادر، الو دامو اور میں مل کر کھاتے تھے۔

    اس زمانے میں ہمیں بھوک بھی بہت لگتی تھی۔ یہی حال پیاس کا تھا۔ کھانے اور پینے کے لیے تھا بھی بہت کچھ، مگر یہ سب بھی ناکافی لگتا تھا۔ کھانے کی جو بھی چیز نظر آتی ہم کھا لیتے تھے اور پانی بھی گھڑوں پی جاتے تھے۔ باہر نکلے ہوئے پیٹوں کے ساتھ ہم کہیں بھی لیٹ کر سو جاتے تھے۔ وہ تو اماں یا پھر ننگیلی رات کو ہمیں اٹھاکر بستروں پر لٹا دیتی تھی۔ عبدالقادر اور میں عموماً ابا کے ساتھ سوتے تھے۔ بچھانے والی چٹائی انناس کے پتوں کی تھی جو ہاتھ سے بنی جاتی تھی۔ ابا، عبدالقادر اور میں اسی ترتیب سے پلنگ پر لیٹتے تھے۔ اماں ہم سے تھوڑے فاصلے پر، ایک دوسری چارپائی پر لگے ہوئے بستر پر سوتی تھیں۔ اس طرح ہم بڑے آرام سے رہ رہے تھے کہ ایک دن ایک بھیانک واقعہ ہوا۔ حق، انصاف اور اخلاق بڑی بےرحمی سے روند ڈالے گئے اور دنیا کی تباہی کا آغاز ہو گیا۔ اس کا سبب تھا بستر پر پیشاب۔۔۔ کوئی رات کو بستر پر پیشاب کر دیتا تھا۔

    کون تھا یہ؟ عبدالقادر، یا میں؟

    کوئی ثبوت نہیں تھا۔ سزا کس کو ملنی چاہیے؟ اماں اور ابا نے اس کے بارے میں بہت غور و خوض کیا مگر کسی فیصلے پرنہ پہنچ سکے۔

    یہی وقت تھا جب سچائی، انصاف اور اخلاق کا خون کیا گیا۔ یہ ظالمانہ کارروائی ایک شام چھٹٹے کے وقت ہوئی۔ سورج ابھی ڈوبا نہیں تھا۔ سورج ہمارے گھر کے مغربی دروازے کے قریب ناریل کے درختوں کے درمیان سے ہر چیز پر حقارت آمیز نظر ڈال رہا تھا۔ سورج کے سوا دوسرا کوئی گواہ، کوئی شاہد نہیں تھا۔ میں ملزم قرار دیا گیا۔۔۔ اور دنیا نے پہلی بار مجھے شرم سے اپنا سر جھکائے ہوئے دیکھا۔

    یہ سارا منظر میرے ذہن بالکل صاف نقش ہے۔ یہ دھندلا ہو بھی کیسے سکتا ہے؟

    گھرکے سامنے سفید چمکیلی ریت کا میدان پھیلا ہوا تھا۔ معززجج صاحبان ریت پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ بھی وہاں بہت سے لوگ تھے۔ ہر شخص وہاں موجود تھا۔ ابا اور ان کے دوست، مادھون نائر، کرشنن، اوسپ ماپلا، سنکز، کٹی اور مہاوت۔ ان سب کے ساتھ ہی والد کے پیارے سالے، پالاسری محمد، یعنی میرے ماموں بھی تھے۔ میرے ماموں کا جسم پہلوانوں جیسا تھا اور آواز بڑی اونچی اور کرخت۔ ماموں کی گود میں خاندان کا دلارا، لنگڑا عبدالقادر بیٹھا ہوا تھا۔ معزز بزرگوں نے سب سے پہلے دودھ اوربہت سی شکر والی خوب گاڑھی چائے پی تھی اور اب وہ سب اچھے قسم کی خوشبودار تمباکو والا پان کھا رہے تھے۔ عبدالقادر ماموں کے دیے ہوئے گلاس سے چائے پی رہا تھا۔

    ابا نے اس مجمعے کے سامنے مجھے بلایا۔ میں ان لوگوں کے سامنے چلا گیا، اگرچہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ کیوں ابا نے مجھے اپنے قریب کھڑے رہنے کے لیے کہا۔ انہوں نے میری دھوتی کھینچ لی اور مجھے وہاں ننگا کھڑا کر دیا۔ میری کمر پر چاندی کی چوڑی سی زنجیر بندھی ہوئی تھی اور زنجیر میں چاندی سی کے کچھ پینڈنٹ بھی لگے ہوئے تھے۔ ان کی چمک غائب ہو چکی تھی اور یہ میلے میلے سے نظر آتے تھے۔ ابا نے وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو مخاطب کیا۔ ان کا انداز ایسا تھا جیسے وہ ساری دنیا کو خطاب کر رہے ہوں۔ ’’آپ لوگ یہ دیکھتے ہیں؟ ساری چاندی کالی پڑ گئی ہے اور اس کی چمک غائب ہو چکی ہے۔‘‘ انہوں نے اپنی بات یہاں ختم نہیں کی۔ ابا نے سچائی، انصاف اور اخلاق، سب کاخون ایک ہی وار میں کر دیا۔ انہوں نے کہا، ’’یہ لڑکا رات کو بستر پر پیشاب کرتا ہے۔‘‘

    آسمان ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوا، بجلی نہیں کڑکی، دھوپ شاید تھوڑی پیلی پڑ گئی، سورج تھوڑا سا دھندلا گیا۔ مادھون نایر نے بڑ ے پر وقار لہجے میں کہا، ’’نائٹ فیور۔۔۔رات کابخار۔‘‘

    میں نے کہا، ’’بستر میں پیشاب کرنے والا میں نہیں ہوں، عبدالقادر ہے!‘‘

    عبدالقادر نے کہا، ’’یہ اککا (بڑے بھائی) ہیں، میں نہیں ہوں۔‘‘

    پلنگ پر تین آدمی لیٹتے ہیں۔ صبح بستر بھیگا ہوا ہوتا ہے۔ ان تینوں میں سے کوئی ایک اسے بھگوتا ہے۔ وہ کون ہے؟ یہی سوال تھا۔

    ’’ثبوت کیا ہے کہ میں ہوں؟‘‘ میں نے اعتماد اور یقین کے ساتھ کہا۔ ’’میں نہیں ہوں۔‘‘

    مگر دنیا میری بات کو مان نہیں سکتی۔ دنیا تو سچائی، انصاف اور اخلاق کا نام و نشان مٹا دینا چاہتی ہے اور یہ کام میرے ماموں نے چیخ کر کر دیا۔ ’’یہ وہ نہیں ہے، تم ہو!‘‘

    ہر شخص کی نگاہیں مجھ پر تھیں۔ مجھے بستر پر پیشاب کرنے والا ایک شرمناک فرد قرار دے دیا گیا تھا۔ میں نے سورج کی طرف دیکھا۔ وہ بالکل ساکت تھا۔ میں نے اماں کو پکارا۔ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دنیا نے مجھے عاق کر دیا تھا!

    وہ سب مل گئے وار متفقہ طور پر فیصلہ کر دیا۔ ’’نائٹ فیور، یعنی رات میں بستر پر پیشاب کرنے کا صرف ایک ہی علاج ہے۔۔۔ دانت والے ہاتھی کی ٹانگوں کے درمیان سے نکلنا۔ ’’فیصلہ سنانے کے بعد مجمع چھٹ گیا۔ علاج کے بارے میں سوچ کر میں بےہوش نہیں ہوا۔ میں نے نظر اٹھائی تو دیکھا کہ ہاتھی اپنی سونڈ سے اپنی پیٹھ پر ریت ڈال رہا ہے۔ سفید نکیلے دانت کتنے خوفناک تھے۔ سفاک آنکھیں، ہمدردی کے ہر جذبے سے عاری!

    میں اماں کے پاس گیا اور خوف زدہ لہجے میں ان سے کہا، ’’اماں، تم نے سنا؟ ایسا لگتا ہے کہ مجھے نکیلے دانتوں والے ہاتھی کی ٹانگوں کے درمیان سے رینگ کر نکلنا ہوگا۔‘‘

    ’’تم بستر پر پیشاب کرتے ہو نا؟ نہیں کرتے کیا؟‘‘ اماں نے جواب دیا۔ ننگیلی نے بڑی محبت سے مجھے سمجھایا، ’’بیٹے تمہیں نائٹ فیور ہے۔‘‘

    ابا نے کہا، ’’اگر تم بستر پر پیشاب کرنے کی عادت ختم کرنا چاہتے ہو تو ہاتھی کی ٹانگوں کے بیچ سے نکلنا ہوگا۔‘‘

    ’’اگر ہتھنی کی ٹانگوں کے درمیان سے نکلوں تو ٹھیک ہے؟‘‘

    ’’نہیں، تمہیں ہاتھی کی ٹانگوں کے درمیان سے گزرنا ہوگا۔ تم خود نر ہونا۔‘‘

    بہت صحیح! ان لوگوں نے فیصلہ صادر کر دیا ہے۔ میں ہی ہوں جو رات کو بستر پر پیشاب کرتا ہوں۔ میں ہی وہ شخص ہوں جسے ہاتھی کی ٹانگوں کے درمیان سے نکلنا ہوگا۔ چلو، یہی سہی! اگر ہاتھی مجھے مار ڈالتا ہے تو یہ سب خوش ہوں گے! میرا شمار شہیدوں میں کیا جائےگا۔

    اپنی شہادت کا منظر آنکھوں میں لیے میں ادھر ادھر گھومتا رہا۔ مگر کیا میں سکون کے ساتھ کہیں آ جا سکتا تھا؟ کبھی کہیں سے اس طرح گزر سکتا تھا کہ لوگ بستر پر پیشاب کرنے کا ذکر کرکے مجھے تنگ نہ کریں؟

    ’’بڑے بھائی ’نائٹ فیور‘ سے نجات پانے ہاتھی کی ٹانگوں کے بیچ سے گزریں گے۔ بستر پر پیشاب کر دیتے ہیں نا!‘‘ عبدالقادر نے یہ خبر اسکول میں بھی سب کو سنا دی۔ الو دامو نے خبر کو پھیلانے میں پوری مدد کی۔ وہ اب عبدالقادر کا کبھی الگ نہ ہونے والا ساتھی بن گیا تھا۔ دامو میرا بہت ا چھا دوست ہوا کرتا تھا لیکن اس نے اپنی وفاداریاں بدل لی تھیں اور دوسری طرف ہو گیا تھا۔ عبدالقادر نے یقیناً اسے بہت ساری چیزیں رشوت میں دی ہوں گی۔۔۔ خیر کوئی بات نہیں، میرا وقت آنے دو۔ الو دامو میرے پاس پھر آئےگا۔ ویسے مجھے بھی اسے کچھ دینا ہوگا۔ وہ کون سی چیز ہوگی جو میں نے اسے ایک بار نہ دی ہو۔۔۔ کھجور، حلوہ، تلا ہوا گوشت۔ ناشکرا، احسان فراموش دامو! شکرگزاری اور احسان مندی توا س دنیا سے ختم ہی ہو گئی اور اس کااصل ذمہ دار الو دامو ہے۔

    ’’بستر پر پیشاب کرنے والا!‘‘ مجھے دیکھ کر وہ چلائے۔ کوئی ایک لڑکا نہیں، سب کے سب، پورا گروپ،

    ’’بستر پو موتنے والا!‘‘

    میں نے جھگڑامول لیا اور ان میں سے کچھ کی ٹھکائی کر دی۔ میں چند کو تو مارپایا مگر بعد کو بدلے میں میری پٹائی ہوئی۔ جھگڑا ختم ہی ہوا تھا کہ ہم نے دیکھا کہ ہمارے سامنے ’پدوسری نارائن سار‘ کھڑے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک بید ہے۔ الو دامو نے کہا کہ میں نے جھگڑا شروع کیا تھا۔ عبدالقادر نے اس کی تائید کی۔ ایک بارجب ناریل کے تنوں سے بنے ہوئے پل پر سے عبدالقادر نہر میں گرا تھا تو وہ میں ہی تھا جس نے نہر میں اترکر اسے نکالا تھا۔ جب اس کے پیٹ میں پانی بھر گیا تھا اور وہ ڈوبنے ہی والا تھا، یہ میں ہی تھا جس نے اسے بچایا تھا۔ ان باتوں سے بھی بڑھ کریہ بات تھی کہ میں ان کا اپنا بڑا بھائی تھا۔۔۔ اور اب وہ میرے خلاف بولنے کے لیے تیار تھا۔ برائیوں سے بھری اس دنیا کو تباہ کرنے کے لیے کیا کسی اور چیز کی ضرورت ہے؟

    میں خاموش کھڑا رہا۔

    الو دامو اور عبدالقادر نے جھگڑے میں میرے رول کوبہت بڑھا چڑھاکر اور گمراہ کن ڈھنگ سے پیش کیا۔ میں نے بغیرکسی وجہ کے ہر ایک کومارا اور یہ کہ مجھے نائٹ فیور ہے اور میں رات کو بستر میں پیشاب کرتا ہوں اور یہ بھی بتایا کہ مجھے ہاتھی کی ٹانگوں کے بیچ سے گزرنا ہے۔

    ’’پہلے کس نے کہا کہ یہ بستر پر پیشاب کرتا ہے؟‘‘ پدوسری نارائن پلے سار نے پوچھا۔

    عبدالقادر نے جواب دیا، ’’مگر یہ بستر میں پیشاب کرتا ہے۔‘‘

    ’’میں نہیں کرتا،‘‘ میں نے کہا۔

    پدوسری نرائن پلے مجھ سے مخاطب ہوکر بولے، ’’یہ تم نہیں تھے جس نے تلی ہوئی مچھلی کے بدلے میں اپنا حساب کا سبق دکھانے کو کہا تھا؟‘‘ ہاں یہ بات درست تھی، مگر اس کا تعلق اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس سے کیا ہے؟

    ہوایہ تھا،

    میں اور عبدالقادر دونوں حساب میں بہت کمزور تھے۔ سوال غلط کرنے پر ہم دونوں اکثر پٹا کرتے تھے۔ کچھ دنوں بعد بہرحال صرف عبدالقادر غلط جوابوں کی پاداش میں پٹتا رہا۔ ایک مسلمان لڑکی کلاس میں میرے پاس بیٹھتی تھی، اس نے اپنے جوابات مجھے دکھانے شروع کیے، چنانچہ میری زندگی مانگے کی اس قابلیت کے سہارے آرام سے گزرنے لگی۔ ایک رات کھانا کھانے وقت میری نظر عبدالقادر کی پلیٹ پر پڑی، اس کے چاولوں کے اوپر تلی ہوئی مچھی کا ایک ٹکڑا رکھا ہوا تھا۔ اپنے حصے کی مچھلی میں کھا چکا تھا۔ یہ مچھلی میری پسندیدہ مچھلی تھی، چنانچہ میں نے اماں سے مچھلی کا ایک ٹکڑا اور مانگا۔ عبدالقادر کے ٹکڑے میں سے تھوڑی سی مچھلی کیسے حاصل کی جائے؟ وہ چاول کھانے میں مصروف تھا۔

    ’’اے، تم مچھلی کا اپنا یہ ٹکڑا مجھے دے دو تو میں حساب کے سوالوں کے اپنے جواب تمہیں دکھاؤں گا۔‘‘ غلط جوابوں پر ملنے والی سزا کو سوچ کر عبدالقادر نے تلی ہوئی مچھلی کا اپنا ٹکڑا کسی قدر دکھ کے ساتھ مجھے دے دیا۔ میں نے اسے مزے لے لے کر کھا لیا۔

    بات ختم ہو گئی۔ میں اس واقعے کو بھول بھی گیا اور بھلا اسے اپنے دماغ میں رکھتا کیوں؟ میں اپنی پڑوسی لڑکی کے جوابات دیکھ کر اپنے سوال صحیح کر لیتا تھا، اس کو میں دوسروں کو بتا کیسے سکتا تھا؟

    دوسرے دن حسب معمول میں جوابات نقل کرنے کے بعد خاموشی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ عبدالقادر نے اپنے سوال نہیں کیے تھے۔ میں اپنے جواب اسے کیسے دکھاؤں؟ اگر یہ کروں تو ساری کلاس دیکھ لے گی اور ان کے ساتھ پدوسری نرائن پلے ’سار‘ بھی۔ تلی ہوئی مچھلی کے اس ٹکڑے کے لی ے میں شکرگزار تھا مگر اس وقت میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ جو لڑکے اپنے سوال نہ کر سکے انہیں کھڑا ہونا پڑا۔ عبدالقادر بھی ان میں تھا۔ وہ بالکل میرے پیچھے گیارہواں لڑکا تھا۔ پدوسری نرائن پلے ’سار‘ نے انہیں قطار کے ایک سرے سے مارنا شروع کیا۔ عبدالقادر نے اپنی باری آنے سے پہلے ہی رونا شروع کر دیا۔

    ’’تم۔۔۔ عبدالقادر، تم کیوں رو رہے ہو؟‘‘ ماسٹر صاحب نے پوچھا۔

    ’’میں نے اپنے حصے کی تلی ہوئی مچھلی بھی دے دی اور اب مجھے مار بھی کھانی پڑ رہی ہے۔‘‘

    ’’کیوں، ہوا کیا؟‘‘

    ’’بڑے بھائی نے میری مچھلی کھالی اور وعدہ کیا کہ مجھے سوال کے جواب دکھا دیں گے۔ انہوں نے جواب دکھائے نہیں اوراب مجھے بید کھانے پڑ رہے ہیں۔‘‘

    یہ ساری باتیں خاصی اونچی آواز میں ہوئی تھیں۔ پہلی اوردوسری جماعت کے سارے لڑکوں نے سنی تھیں۔ میں بہت شرمندہ تھا۔ پدوسری نرائن پلے ’سار‘ نے میرے ہاتھوں پر دو بید مارے۔ کیوں مارے؟ کیا اس لیے کہ میں نے مچھلی کھا لی تھی، یا پھر اس لیے کہ میں نے عبدالقادر کو اپنے جواب نہیں دکھائے؟ میں سمجھ نہیں سکا۔ ماسٹر صاحبان جب بچوں کو ماریں تو انہیں مارنے کا سبب بھی بتانا چاہیے۔ انہوں نے بہرحال مجھے کوئی وجہ نہیں بتائی۔

    جیسا کہ میں نے کہا، دنیا میں حق اور انصاف کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا اور اب اس کا ذکر بھی نہیں ہوتا۔ پدوسری نرائن پلے ’سار‘ نے آخر تلی مچھلی کے واقعے کے گڑے مردے کو اب کیوں اکھاڑا؟ نکتہ یہ تھا کہ مجھے رات کو بسترپر پیشاب کرنے والا کہا گیا تھا۔۔۔ لڑائی اسی وجہ سے ہوئی تھی۔۔۔ اور بہرحال یہ میں تھا جس سے ہاتھی کی ٹانگوں کے درمیان سے نکلنے کو کہا گیا تھا۔ میں نے ہر بات بڑی تفصیل کے ساتھ بتا دی، مگر پدوسری نرائن ’سار‘ نے کہا کہ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ ہر لڑکے کو ایک ایک بید مارا گیا مگر مجھے انہوں نے دو بید مارے۔ یہ کوئی انصاف تھا؟ مگر دنیا کا یہی طریقہ تھا۔ میں نے آپ سے کہا تھا ناکہ حق وانصاف اور اخلاق دنیا سے ختم ہو چکے تھے۔

    ہم اسکول سے گھر واپس آ رہے تھے کہ راستے میں عبدالقادر نے آہستہ سے کہا، ’’بستر بھگونے والا!‘‘

    یہ بات آپ اپنے ذہن میں رکھیے کہ عبدالقادر اپنے بڑے بھائی کا مذاق اڑا رہا تھا! کیا اسے سزا دیے جانے کی ضرورت نہیں تھی؟ میں نے اسے ایک گھونسا مار دیا۔ وہ روتا ہوا بھاگا اور جاکر ابا اور ماموں سے شکایت کر دی۔ ان دونوں نے میرے سر پر ایک ایک زوردار چپت مارا اور میرے کان اینٹھے۔ کیا یہ سب انصاف تھا؟ مجھے تو نہیں لگتا۔

    زندگی ان ہی ناانصافیوں اور زیادتیوں میں گزرتی رہی۔ مگرمیں مایوس نہیں ہوا۔ ہاتھی کی ٹانگوں کے بیچ سے گزرنے کے لیے میں انتخاب کیا گیا تھا۔ یہ ایک نہایت نایاب اعزاز تھا۔ اتنا زبردست کارنامہ شہر میں اور کسی نے انجام نہیں دیا تھا۔۔۔ اور میں اتنے بڑے کام کرنے جا رہا تھا۔ میری کلاس کے میرے ساتھی مجھے رشک سے دیکھتے تھے۔ میں خوش تھا۔ میری چال اور میرے اندازمیں فرق آ گیا تھا، یہاں تک کہ میری گفتگو کا انداز بھی بدل گیا تھا۔ میری چال سے ایسا لگتا تھا جیسے مجھے اس کی ذرہ برابر پروا نہ ہو۔ دن جوں جوں قریب آ رہا تھا، میرے دل میں کچھ وسوسے سر اٹھانے لگے تھے اور ڈر کا ایک احساس پیدا ہونے لگا تھا۔ کیا ہاتھی مجھے اپنے پیروں سے روندکر مار ڈالےگا؟ میں نے سنا تھا کہ کسی دوردراز مقام پر کسی ہاتھی نے اپنے مہاوت کو دانت گھونپ گھونپ کر مار ڈالا تھا۔

    جس ہاتھی کی ٹانگوں کے درمیان سے گزرنا تھا وہ ایک زمانے میں پاگل رہ چکا تھا۔ وہ گھنے جنگلوں میں آزادانہ گھومتا رہتا تھا۔ اسے وہاں سے پکڑکر لایا گیا تھا اور سدھایا گیا تھا۔ مگر وہ پورے طور پر قابو میں نہیں آیا تھا۔ مہاوت اگر اس سے بائیں طرف گھومنے کوکہتا تھا تو وہ دائیں جانب گھوم جاتا یا پھر جم کرکھڑا ہو جاتا اور کسی طرف بھی نہ گھومتا۔ اگر مہاوت اپنے آنکس سے اس کے کان کھینچتا تو وہ بڑی خوفناک آواز میں چنگھاڑتا۔ اس کی اس کیفیت میں بھی میں اس کی پیٹھ پر بیٹھ جایا کرتا تھا۔ مہاوت مجھے پکڑے رہتا تھا۔ ایک بار مہاوت کا کہنا تھا کہ میں خوف سے لرز رہا تھا اور ڈر کر میں نے ہاتھی کی پیٹھ پر تھوڑا سا پیشاب کر دیا تھا۔ یہ بات ظاہر ہے کہ سراسر جھوٹی تھی، مگر ہاتھی نے اسے یہ کہتے ہوئے سن لیا تھا۔ فرض کیجیے کہ میرے خلاف یہ بات اس کے دل میں بیٹھی ہوئی ہو؟

    آخرکار وہ مقدس دن آہی گیا۔ اس دن مجھے ہاتھی کی ٹانگوں کے بیچ سے گزرنا تھا۔

    ہاتھی کو نہلا دھلاکر احاطے میں لایا گیا۔ میں نے بھی غسل کیا۔ مطلب یہ ہے کہ ہم دونوں دریا میں نہائے۔ مجھے نئی دھوتی، نئی قمیص اور نئی ٹوپی پہنائی گئی۔ میری قمیص میں گھڑی والی جیب لگی ہوئی تھی، ا س میں میں نے ایک کچا آم چھپاکر رکھا۔ اسے کھانے کا بھی وقت نہیں ملا تھا۔ پھر اسے کھانے کے لیے نمک کی ضرورت تھی۔ چلو، اتنا تو انتظار کیا جا سکتا ہے۔ ہاتھی کی ٹانگوں کے درمیان سے نکلنے کے بعد کھا لوں گا۔

    میں نے ہاتھی پر ایک بھرپور نظر ڈالی، اس کا رنگ گہرا سیاہ تھا اور وہ پتھر کی چٹان کی طرح لگا تھا۔ کھمبوں کی طرح چار موٹی موٹی ٹانگیں، موٹی سی سونڈ، موٹی سی دم اور بڑے بڑے نکیلے دانت۔ اس کی آنکھوں میں شرارت بھی تھی، بے رحم چمک تھی۔ مجھے لگا جیسے میرا دم گھٹ جائےگا۔ کیا ہاتھی مجھے روند کر مار ڈالےگا؟ یا اپنی سونڈ میں لپیٹ کر مجھے اپنے منہ میں رکھ لےگا؟ میرا گھر سے بھاگ جانے کا جی چاہا، مگر بھاگ کر کہاں جاؤں گا؟ اور کیسے جاؤں گا؟

    چاروں طرف لوگ کھڑے تھے۔ ایک طرف میری کلاس کے طالب علم تھے۔ لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی۔ ان ہی لوگوں میں وہ مسلمان لڑکی بھی کھڑ ہوئی تھی جو مجھے چھپا چھپاکر اپنے جوابات دکھایا کرتی تھی۔ رادھامنی بھی تھی۔ دوسری طرف، ہاتھی سے کچھ دور، ابا، ماموں اور مادھون نائر تھے۔ ان کے ساتھ ہی سنکرن کٹی، کرشنن اور اوسپ ماپلا تھے۔ یہ سب لوگ زمین پر پڑے ہوئے ناریل کے پتوں پربیٹھے، پکے ہوئے کیلے کھا رہے تھے۔ عبدالقادر کو حسب معمول ماموں کی گود میں دیکھا جا سکتا تھا۔ صاحب زادے بھی کیلے کھا رہے تھے۔ ایک کیلا ان کے منہ میں تھا اور ایک ایک کیلا ان کے دونوں ہاتھوں میں۔

    ابا ایک بہت بڑا گچھاپالن گودن کیلوں کا لائے تھے۔ اس میں سے زیادہ تو انہوں نے ہاتھی کے لیے مہاوتوں کو دے دیے اور کچھ بعض دوسرے لوگوں میں بانٹ دیے تھے۔ مجھے انہوں نے کوئی کیلا نہیں دیا۔ ایک چوتھائی کے قریب بچا ہوا گچھا عبدالقادر کے پاس زمین پر رکھا ہوا تھا۔

    میں چلایا، ’’ابا’تم نے مجھے کوئی کیلا نہیں دیا۔‘‘

    ’’میں نے تمہارے لیے یہاں رکھ چھوڑے ہیں، ہاتھی کی ٹانگوں کے بیچ سے رینگتے ہوئے آ جاؤ!‘‘

    میری طرف عورتیں بیٹھی تھیں۔۔۔ اماں اور ان کی چھوٹی بہن، اماں کی اماں، میری چچی، ننگیلی اور اوسپ ماپلا، سنکرن کٹی اور کرشنن کی بیویاں۔ ان ہی عورتوں کے درمیان الو دامو بھی تھا۔ وہ بیٹھا ہوا مزے سے کیلا کھا رہا تھا اور مجھے مشورے دے رہا تھا۔ ’’جاؤ، ہاتھی کے نیچے چپکے سے چلے جاؤ۔ تم ڈر کیوں رہے ہو؟ آخر میں جو یہاں موجود ہوں۔‘‘

    یہی تھا جس نے پالا بدل لیا تھا، جاکر دشمنوں سے مل گیا تھا۔ مگر کہتے ہیں کہ آدمی کو اپنے دشمن سے محبت کرنا چاہیے۔ میں نے اپنی گھڑی والی جیب سے کچا آم نکالا اور دامو کو دے دیا۔

    ’’ہاتھی شاید مجھے اپنے پیروں تلے روندکر مار ڈالے۔ تم بہرحال یہ آم کھا لو۔ خوب نمک لگاکر کھانا۔ آم بہت اچھا ہے اور خوب کھٹا ہے۔‘‘

    ’’بدذات، ڈر مت!‘‘ اماں نے کہا۔

    ڈرسے زیادہ مجھے کیلے کھانے کی خواہش پریشان کر رہی تھی۔ کیلے نہ ملنے کی وجہ سے میں مایوس تھا۔ میں عورتوں کے پاس، ہاتھی کے ایک طر ف کھڑا ہوا تھا۔ کیلوں کے خیال سے میرے منہ یں پانی آ رہا تھا، لیکن مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میری ٹانگیں زمین میں دھنس گئی ہیں۔ ان میں جنبش جیسے غائب ہوگئی ہو۔ میں پسینے میں شرابور ہو گیا۔ اچانک لگا کہ میرا منھ بالکل سوکھ گیا ہے۔ میراجی پیشاب کرنے کو چاہا۔ مجھے گرمی لگنے لگی اور ایسا لگا جیسے میں بےہوش ہو جاؤں گا۔ کیا مجھے چکر آ رہا تھا؟ کیا میری آنکھوں کی بینائی ختم ہو گئی تھی؟ نہیں۔ میں اپنے والد اور وہاں بیٹھے ہوئے دوسرے لوگوں کو ہاتھی کی ٹانگوں کے درمیان سے، گویا ایک موٹے سیاہ دروازے سے دیکھ رہا تھا۔ عبدالقادر اپنے ہاتھ کے کیلے ختم کر چکاتھا اور زمین پر رکھے ہوئے گچھے سے اور کیلے نکال رہا تھا۔

    میں نے چلاکر کہا، ’’ابا، یہ سارے کیلے ختم کر دےگا۔‘‘

    ابا نے کیلے اٹھاکر مجھے دکھائے۔ ماموں نے زوردار آوازمیں مجھے حکم دیا، ’’ادھر آ شیطان!‘‘

    میں بےحس و بے حرکت کھڑا رہا۔

    ’’بیٹے تمہیں شرم نہیں آتی؟ تم اتنے بڑے ہو چکے ہو کہ تمہاری شادی کی جا سکتی ہے اور پھر بھی تم رات کو بستر پر پیشاب کر دیتے ہو!‘‘

    میں بسترمیں پیشاب نہیں کرتا ہوں۔ یہ عبدالقادر ہے جو پیشاب کرتا ہے۔‘‘

    ’’نہیں یہ تم ہی ہو،‘‘ اماں نے کہا۔

    ’’تمہیں کیسے معلوم؟‘‘ میں نے ترکی ترکی جواب دیا۔

    ’’میں نے تمہیں پیدا نہیں کیا ہے؟ میں اس دنیا میں تمہیں نہیں لائی ہوں؟ عبدالقادر کے پیدا ہونے کے بعدبھی تو چھپ چھپ کر میرا دودھ نہیں پیا کرتا تھا؟‘‘

    ’’میں نے چھپ کر کسی کا دودھ نہیں پیاہے!‘‘

    ’’ارے تجھے تو موسی مادھوی کٹی نے بھی دودھ پلایا ہے۔‘‘

    الو دامو بولا، ’’اچھا، توتم نے میرے ماں کا دودھ بھی پیا ہے! تمہارا جوش و خروش اسی وجہ سے ہے۔ نہیں تو ہے کوئی دوسرا جو مجھے بھاگ کر پکڑ سکے۔‘‘ ماں کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے اس نے کہا، ’’میرے حصے کا دودھ کسی اور کو پلانے کی تم نے ہمت کیسے کی؟‘‘

    ’’میں نے کسی کا دودھ نہیں پیا ہے،‘‘ میں نے کہا۔

    ’’بہر حال میں نے تمہیں جنم دیا ہے،‘‘ اماں نے پوچھا۔

    ’’مجھے کسی نے جنم نہیں دیا۔‘‘

    ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

    ’’میں خود پیدا ہو گیا۔‘‘

    آدم کو اللہ میاں نے پیدا کیا تھا۔ آدم، پہلا آدمی، اس کے نہ اماں تھی نہ ابا۔ آدم کو کسی نے دودھ نہیں پلایا تھا۔ یہ سب باتیں مجھے معلوم ہیں۔

    اماں نے کہا’’میں نو مہینے تجھے اپنے پیٹ میں لیے لیے گھومی ہوں۔ جب تو پیدا ہوا تھا تو بڑا کمزور بہت چھوٹا سا تھا۔ میں نے اپنی چھاتی سے تجھے دودھ پلا پلاکر بڑا کیا، تجھے پالا پوسا، یہاں تک کہ تواتنا بڑا ہوا، تندرست اور توانا۔ اب تو کہتا ہے کہ میں نے تجھے جنم نہیں دیا؟ ہمت ہے تیری!‘‘

    ’’تمہارا گواہ کون ہے؟‘‘

    ’’تمہارا باپ۔‘‘

    ’’جو بھی ہو، میں بستر میں پیشاب نہیں کرتا ہوں۔‘‘

    ’’تم ہی کرتے ہو۔‘‘

    ’’میں نہیں کرتا۔۔۔! ہاتھی مجھے روندکر مار ڈالےگا۔‘‘

    ننگیلی بولی، ’’بیٹے ڈرمت۔ مہاوت بھی تو ہیں وہاں۔‘‘

    الو دامو بولا، ’’تم ڈر کیوں رہے ہو؟ میں جوہوں۔‘‘

    میراجی چاہا کہ اس کا گلا گھونٹ دوں۔

    ’’چل، اللہ کانام لے کر ٹانگوں کے نیچے سے رینگ جا۔‘‘

    میں نے وہ عبارت دہرائی جس سے قرآن مجید کی ہر سورۃ شروع ہوتی ہے، ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔‘‘ میں ابا کو کیلوں کاگچھا لیے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ کیلوں کو دیکھ کر میری طبیعت للچائی۔ مجھے ہاتھی سے ڈربھی لگا۔ عبدالقادر کو کیلے کھاتے بھی میں دیکھ رہا تھا۔۔۔ اگر وہ اسی رفتار سے کھاتا رہا تو کیلوں کا سارا گچھا ختم ہو جائےگا۔

    میں چل پڑا مگر یوں جیسے کوئی خواب میں چلتا ہو۔ ہاتھی کے جسم سے ایک بدبو سی نکلی، میں اس کی ٹانگوں کے بیچ سے رینگ کر دوسری طرف نکلا اوریوں محسوس کیا جیسے میں کسی تاریک غارسے نکل کر آیا ہوں۔ ہاتھی نے مجھ پرپیشاب کرنے کی کوشش کی۔ اس کا پیشاب اچانک ایک آبشار کی طرح آیا۔ میرا سر بس کسی طرح بچ ہی گیا۔

    تماشا دیکھنے والوں نے زور زور سے تالیاں بجائیں۔ ابا نے مجھے گود میں اٹھا لیا۔ ان کے بازوؤں سے نکل کر میں کیلوں کے گچھے پر جھپٹا۔ میں نے عبدالقادر کے ہاتھ سے بھی کیلا چھین لیا۔ پھر میں نے اپنی کلاس کے تمام ساتھیوں کوایک ایک کیلا دیا۔ میں نے اس مسلمان لڑکی کو دو کیلے دیے جو مجھے اپنے جواب دکھاتی تھی۔ وہ کیلے میں نے رادھا منی کو بھی دیے۔

    الو دامو نے بھی ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا، ’’اور مجھے؟ کیا میں زمین کا لگان نہیں دیتا ہوں؟‘‘

    میں نے اسے ایک کیلا دے دیا۔ ہم نے کیلوں کے سارے چھلکے جمع کیے اور ہاتھی کے سامنے ڈال دیے۔ مہاوت نے وہ سارے چھلکے ہاتھی کوکھلا دیے۔

    میں وہ بہادر لڑکا تھا، جو ہاتھی کی ٹانگوں کے بیچ سے رینگ کر نکلا تھا۔ بلاشبہ یہ ایک بہت بڑی بات تھی۔

    بس ہم لوگ ہنسی خوشی رہنے لگے اور زندگی مزے سے گزرتی رہی۔ ہاتھی کی ٹانگوں کے نیچے سے رینگ نکلنے کے بعد اماں نے کہاکہ اب میں بستر پر پیشاب نہیں کرتا۔ سیدھی سادی حقیقت یہ تھی کہ اب میں ابا کے ساتھ سوتا ہی نہیں تھا۔ اماں کے ساتھ سونے لگا تھا۔ گھر میں ہربات ٹھیک ہو گئی تھی۔

    پھر ایک رات کچھ شور ہوا۔ ابا عبدالقادر کی ٹھکائی کر رہے تھے۔ اماں نے ماچس سے لالٹین جلائی تو دیکھا کہ عبدالقادر نے بستر پر پیشاب کر دیاتھا!

    کون تھا وہ بےشرم شخص جو اب تک ابا کے بستر میں پیشاب کرتا رہا تھا؟ اور کون تھا و ہ معصوم جس پر یہ الزام لگتا رہا؟ دنیا کے ڈھنگ دیکھیے! کیا یہ عبدالقادر نہیں تھا جسے ہاتھی کی ٹانگوں کے نیچے رینگنا چاہیے تھا؟ مگر عبدالقادر جو اپنے دونوں ہاتھوں سے اباکے گھونسوں اور مکوں سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہاتھا چلایا،

    ’میں نے نہیں کیا! بڑے بھائی آئے ہوں گے اور چپکے سے پیشاب کر گئے ہوں گے۔‘‘

    ’’وہ مجرم نہیں ہے!‘‘

    ’’یہ ٹھیک کہتا ہوگا۔‘‘ اماں نے کہا۔

    کتنی ناانصاف ہے دنیا! بے گناہوں کو سزا ملتی ہے۔ ذرا سوچئے، مجھے مجرم قرار دیا گیا۔ عبدالقادر جس نے منوں پیشا ب کیا ہوگا وہ ایک اچھا لڑکا تھا!

    بہرحال کوئی سراغ تھے نہیں جن سے پتا چلتا کہ پیشاب واقعی کرتا کون تھا۔ اماں اور ابا کو کچھ شکوک تھے۔ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے تھے کہ عبدالقادر پیشاب کرتا تھا یا میں۔ دنیا دو فریقوں میں بٹ گئی تھی۔ اسکول میں عبدالقادر نے بہت سے لڑکوں اور لڑکیوں کو رشوتیں دے کر اپنی طرف کر لیا تھا۔ الو دامو غیرجانبدار تھا۔ اس کا خیال تھا کہ نہ تو عبدالقادر نے پیشاب کیا تھا اور نہ ہی میں نے۔۔۔ یہ کام کرنے والے تھے ابا!

    جب ننگیلی نے یہ بات سنی تو اس نے اور سنکرن کٹی نے دامو کو دوڑا دوڑا کر خوب مارا۔

    رادھامنی عبدالقادر کے گر وہ کو چھوڑکر میری طرف آ گئی تھی۔ عبدالقادر نے رادھامنی کو ایک بڑھیا قسم کی املی دی تو وہ ایک بار پھر عبدالقادر کے گروپ میں شامل ہو گئی۔ املی کے محض ایک ٹکڑے کے لیے وفاداریوں کو اس طرح بدل دینا کیا صحیح تھا؟ میں نے اسے کچھ تلے ہوئے کا جو دیے تو وہ میری طرف آ گئی اور صرف یہی نہیں کہ میرے گروہ میں شامل ہوئی، اس نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ اعلان کیا کہ ’’بستر پر عبدالقادر پیشاب کرتا ہے۔‘‘

    میں خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔

    رادھامنی کی ایک آرزو تھی۔ ایک دن چپکے سے اس نے مجھے بتایا۔ ’’مجھے ہاتھی کی دم کا ایک بال چاہیے۔ کیا تم مجھے لا دوگے؟‘‘

    اگر میرے پاس اپنا ہاتھی ہوتا تو میں وہ سارا کا سارا رادھامنی کو دے دیتا! میں نے یہ بات اسے بتا دی۔ اس نے جواب دیا، ’’مجھے پورا ہاتھی نہیں چاہیے۔ میں تو اس کی دم کا صرف ایک بال چاہتی ہوں۔‘‘

    ’’میں لادوں گا!‘‘ میں نے کہا۔ یہ بات میں نے الودامو اور عبدالقادر کے سامنے کہی۔ میں نے ابا اور اماں کے ہندو دوستوں کو ہاتھی کی دم کے بال کو استعمال کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ لوگ اسے اپنی انگوٹھیوں میں لپیٹ کر اپنی انگلی میں پہنا کرتے تھے۔ کچھ لوگ اسے اپنی کلائی میں بھی لپیٹے تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ ہاتھی کا بال اپنے اندر بڑے معجزاتی اثرات رکھتا ہے۔

    میں ہاتھی کی دم کا بال بڑی آسانی سے حاصل کر سکتا تھا۔ سارے مہاوت بہرحال میرے دوست تھے۔ اس کے باوجود میں نے سوچا کہ ابا اور اماں سے پوچھ لوں۔ انہوں نے صاف منع کر دیا۔

    ’’تمہیں ہاتھی کے بال کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

    یہ بات ان لوگوں نے مہاوتوں کے سامنے کہی۔ مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا کہ ان لوگوں نے بھی اپنی وفاداریاں بدل لی ہیں۔ الو دامو اور عبدالقادر نے ان لو گوں کو میرے بارے میں قصے سنائے تھے۔ مزید یہ کہ انہوں نے انہیں ایک ناریل اور پھر تلے ہوئے کا جو بھی دیے تھے۔

    میں نے ایک مہاوت سے بات کی، ’’مجھے ہاتھی کی دم چاہیے۔‘‘

    مہاوتوں نے میرا مذاق اڑاتے ہوئے کہا، ’’ہاتھی کے ایک ہی دم ہوتی ہے، اگر وہ کاٹ کر تمہیں دے دیں تو پھر بیچارہ ہاتھی کیا کرےگا؟‘‘

    میں نے کہا کہ میں پوری دم نہیں چاہتا، مجھے تو صرف ایک بال چاہیے۔ ایک بال، اون جیسا نرم۔

    مہاوت ہنسے۔ ’’ہاتھی کا اون! گویا ہاتھی بھیڑ ہے!‘‘

    ’’ہاتھی کا ایک بال صرف ایک!‘‘ میں نے خوشامد کی۔ مہاوتوں نے یہ ایک بال مجھے دینے سے انکار کر دیا اور وہ بھی لنگڑے عبدالقادر اور الو دامو کے سامنے۔

    میرا اتنا آسان کام انہیں کر نہیں دینا چاہیے تھا؟ ہاتھی کا ایک بال وہ میرے لیے لانہیں سکتے تھے؟ میں نے انہیں کیا کچھ نہیں دیا تھا؟ پان، چھالیہ، کچے ناریل، خوشبودار تمباکو، کیلے، حلوہ اور کھجور۔ موٹے موٹے خوشبودار سگار جو ابا پیا کرتے تھے کیا میں نے لا لاکر انہیں نہیں دیے تھے؟ یہ سارے مہاوت اتنے احسان فراموش کیوں ہیں؟ میں نے ہاتھی کی صرف ایک بال کی فرمائش کی تھی۔ انہوں نے انکار کر دیا۔ میں بھی انہیں بتاؤں گا۔ بڑا ہونے کے بعد مہاوت بننے سے بھی انکار کردوں گا اور وہ اپنے گر وہ میں ایک اچھے ساتھی سے محروم رہیں گے۔۔۔ ہمیشہ۔

    میں نے ہاتھی کا ایک بال چرانے کا فیصلہ کر لیا۔

    میں یہ چوری کیسے کروں؟

    میں اس کے بارے میں رات دن سوچتا رہا۔ ایک زندہ ہاتھی کی دم سے ایک بال آخر میں چراؤں گا کیوں کر؟ اسی سو چ میں گم میں گھوم رہا تھا کہ فضا میں ’’ہاتھی کی پونچھ!‘‘ کی تمسخر آمیز آوازیں گونج گئیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اسکول کے سارے لڑکے اور لڑکیاں مجھے اس نام سے پکار رہے ہوں۔ وہ لنگڑا اور وہ الو دامو گروپ کے نیتا تھے۔ میں نے اپنے کو بےحد تنہا محسوس کیا۔ حتی کہ رادھامنی بھی دشمنوں سے مل گئی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہر شخص مجھے ’’ہاتھی کی پونچھ‘‘ اور ’’بستر پر موتنے والا‘‘ کہہ رہا تھا۔ لڑائی ہوئی اور پدوسری نرائن پلے ’سار‘ نے میری پٹائی کی۔

    گھر میں رات کو سوتے وقت بھی عبدالقادر اپنے بستر میں لیٹے لیٹے مجھے چراتا، ’’ہاتھی کی پونچھ! متنے!‘‘

    ’’میں ان سب کو دکھادوں گا!‘‘ میں دل ہی دل میں قسم کھاتا۔ ’’میں ہاتھی کا بال چراؤں گا!‘‘ بس اسے کرنے کا بہترین طریقہ ہاتھ آ جائے۔

    دن گزرتے گئے۔ ایک دن صبح صبح میں کلاس میں بڑے فاتحانہ انداز میں داخل ہوا۔ میں نے بھاری آواز میں اپنے دوستوں اور اپنے دشمنوں سب کو پکارا۔ میں نے الو دامو اور لنگڑے عبدالقادر کو گھورا، پھر رادھامنی سے پوچھا، ’’تم میں سے کسی نے ہاتھی کا بال دیکھا ہے؟ کبھی اس کو ہاتھ لگایا ہے؟‘‘

    مجمعے میں سے کسی نے جواب نہیں دیا۔ سب خاموش تھے۔ میں نے رادھامنی کو ہاتھی کا ایک لمبا بال تھما دیا۔ اس کے بعد میں نے سارے مجمعے پر حقارت آمیز نظر ڈالی اور کہا، ’’ٹلی لی!‘‘

    ہر شخص یہ جاننے کے لیے بےچین تھا کہ ہاتھی کا بال میں نے حاصل کیسے کیا۔ الو دامو اور لنگڑا عبدالقادر بھی یہ جاننا چاہتے تھے کہ مجھے یہ بال ملا کیسے۔ انہوں نے مجھ سے بار بار پوچھا۔ میں یہ راز نہیں بتانے والا تھا، میں یہ کہانی ابھی بہت دن نہیں بتانے والا۔۔۔ مگر۔۔۔ آج بتائے دیتا ہوں۔

    نکیلے دانتوں والے بڑے سارے ہاتھی کی دم سے کوئی ایک بال کیسے چرائے؟ جب ہاتھی درخت سے بندھا ہو تو اس وقت کوئی اس کاایک بال توڑ سکتا ہے۔ مگر فرض کیجیے کہ ہاتھی گھوم جائے اور گھوم کرآپ کو اپنی سونڈ میں لپیٹ لے، یا مارنے لگے؟ جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا تھا، اس بارے میں رات دن سوچتا رہتا تھا۔ میں اکثر مہاوتوں کے ساتھ، گول گول پتھروں سے ہاتھیوں کے جسم پر کھریرا کرنے میں شامل ہو جاتا تھا۔

    گاؤں کے تمام لوگ دریامیں گھاٹ کے قریب نہایا کرتے تھے۔ ہاتھیوں کو بھی وہیں نہلایا جاتا تھا۔ یہ ایک بہت پاٹ دار دریا تھا اور پانی اتنا صاف کہ نیچے تہہ میں بیٹھی ہوئی سفید ریت صاف دیکھی جا سکتی تھی، مٹی یا کیچڑ نام کو نہیں تھا۔ دریا کے دوسرے کناے پر تاڑی کی ایک بہت پرانی دکان تھی۔ دریامیں تیرنے والے تمام لوگ تاڑی کی دکان کا چکر ضرور لگاتے تھے۔ لوگ نہاتے بھی تھے اور تھوڑی سی تاڑی پینے کا بھی انہیں موقع مل جاتا تھا۔ دریا کے کنارے کے بالکل قریب تین ہاتھی پانی میں لیٹے ہوئے تھے۔ دانتوں والا ہاتھی دو ہتھنیوں کے بیچ میں تھا۔ مجھے دانتوں والے ہاتھی کی دم سے ایک با ل چرانا تھا!

    اس وقت بہت سے لوگ نہا رہے تھے۔ بہت سے تھے جو تیر تیر کر دوسرے کنارے پر جا رہے تھے۔ کچھ لوگ گھاٹ کی کشتیوں کے ذریعے پار اتر رہے تھے۔ نہانے والوں میں ابا اور ماموں بھی تھے اور سنکرن کٹی، کرشنن، پدمنابھن نائر اور اوسپ ماپلا بھی۔ الو دامو نے اور میں نے اپنی اپنی دھوتیاں اتاریں اور دریامیں کود پڑے۔ الو دامو کے پتاجی نے اس کے جسم کو مل مل کر میل چھڑایا اور با نے میرے جسم کو صاف کیا۔ اس کے بعد ہم دونوں کو دریامیں نہانے اور ادھر ادھر تیرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ میں نے چھلانگ لگائی، تھوڑی دیر غوطے لگاتا رہا۔ ایک غوطے سے ابھرکر میں نے چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ کنارے پر کوئی نہیں تھا۔ مجھے کوئی دیکھ بھی نہیں رہا تھا۔ بس یہی مناسب وقت تھا۔ میں نے غوطہ لگایا اور اس طرف گیا جدھر ہاتھی پانی میں لیٹے ہوئے تھے۔ میں نے آہستہ سے اپنا سرپانی سے اوپر نکالا اور دانت والے ہاتھی کو دیکھا۔ ہاتھی کو دیکھنے کے بعد میں نے پھر غوطہ لگایا اور جاکر بڑی نرمی کے ساتھ ہاتھی کی دم پکڑ لی۔ یہ خاصی کھردری تھی۔ میں نے سوچا کہ میں اپنے دانت سے دم کا ایک بال نوچ لوں، مگر میں دانت سے بال کو ٹھیک سے پکڑ نہ پایا۔ میں نے دم کو زور سے جھٹکا دیا، اس پر دانت سے کاٹا، اسے ایک بار پھر اسے کھینچنے کی کوشش کی۔ یہ اس افراتفری سے قبل میرا آخری عمل تھا جو اس کے فوراً بعد پھیلنے والی تھی۔

    ہاتھی چنگھاڑتا ہوا کھڑا ہو گیا۔ میں نے دم چھوڑ دی اور پانی سے اوپر نکلا۔ ہاتھی مڑا، اس نے مجھے دیکھا۔ میں نے پھر غوطہ لگایا۔ میں پانی کے نیچے نیچے تیزی سے تیرکر ہاتھی سے جتنی دور جا سکتا تھا چلا گیا۔ اتنی دیر پانی کے نیچے رہنے سے میرا دم گھٹ رہا تھا مگر میں مستقل مزاجی کے ساتھ تیرتا رہا یہاں تک ک دریا کا ایک نسبتا سنسان حصہ آ گیا۔ میں اکسائز اسٹیشن کے قریب ایک درخت کی دریا پر جھکی ہوئی شاخوں کے نیچے تھا۔

    میں نے مڑکر دیکھا۔

    ہاتھی اٹھ گیا تھا اور اپنی سونڈ اوراپنے دانت اوپر اٹھائے ہوئے کھڑا تھا۔ پاؤں پٹخ رہاتھا اور طرح طرح کی بھیانک آوازیں نکال رہا تھا۔ دونوں ہتھنیاں بھی کھڑی ہو چکی تھیں اور وہ بھی زور زورسے چیخ رہی تھیں۔ لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ ہر طرف ایک افراتفری مچی ہوئی تھی۔ میں بالکل ننگا تھا۔ میں کنارے پر چڑھ گیا۔ گڈھوں میں گرتا پڑتا، جھاڑیوں سے الجھتا لڑکھڑاتا ہوا چل ہی رہا تھا کہ میرے ہاتھ ایک بڑے درخت سے لٹکی ہوئی ایک بیل آ گئی۔ اس کے سہارے میں درخت کی پھننگ تک چڑھ گیا اور اپنے آپ کو درخت کی شاخوں اور پتوں سے چھپا لیا۔ لال چیونٹے میرے سارے جسم میں چمٹ گئے اور مجھے بری طرح جھنجھوڑ ڈالا۔ میں نے انہیں اپنے جسم سے چھڑانے کی کوشش کی اور سہما ہوا درخت کی شاخ سے لپٹا رہا۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں وہاں اس طرح کتنی دیر بیٹھا رہا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد ہاتھی کی آوازیں اور لوگوں کی بھاگ دوڑا یسا لگا جیسے کم ہو گئی۔ لگتا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور جو کچھ دیکھا تھا وہ سب محض ایک خواب تھا۔ میرا بھیگا ہوا جسم سوکھ چکا تھا۔ چیونٹوں کے کاٹنے کی تکلیف باقی تھی۔ میں اسی طرح بیٹھا ہوا تھا کہ مجھے ابا کی آواز سنائی دی۔ وہ مجھے میرا نام لے کر پکار رہے تھے۔ میں نے جواب میں کہا، ’’جی آیا!‘‘ اور آہستہ آہستہ درخت سے نیچے اتر آیا۔ ابانے مجھے تولیہ دیا جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ میں نے تولیے کو لپیٹ لیا۔ انہوں نے میرے جسم سے چیونٹے چھڑائے جو ابھی تک چمٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے نرم ہاتھوں سے میرے جسم کی مالش کی اور میرے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔

    ہم لوگ گھر واپس آئے۔ میں نے اماں کو بتایا کہ میں نے اپنی دھوتی گم کر دی ہے۔

    اماں نے جواب دیا، ’’ہر ایک نے اپنے کپرے گم کر دیے ہیں۔‘‘

    جس وقت ہاتھیوں کو غصہ آیا تھا اور بپھرے تھے اس وقت ہر شخص اپنی اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ بھاگنے میں کسی کی دھوتی چھوٹ گئی، کسی کا انڈرویئر وہیں رہ گیا۔ وہ لوگ جن کے تمام کپڑے رہ گئے ان میں ابا اور ماموں بھی تھے، پدمنابھن نائر، کرشنن، سنکرن کٹی، الو دامو اوسپ ملا بھی۔ یہ لوگ پگڈنڈیوں پر دوڑے، نالوں کو پار کیا اور پھر ہمارے گھر پہنچے۔ اس بھاگ دوڑ میں اوسپ ماپلا ایک پتھر سے ٹکرایا۔ اس کے گھٹنے زخمی ہو گئے۔ ہاتھی نے ایک ہتھنی کو دانت سے کو نچا مگر زخم گہرا نہیں لگا۔ مہاوتوں نے بڑی مشکلوں سے ہاتھیوں کو قابو میں کیا اور بالآخر انہیں زنجیروں میں باندھ دیا۔

    انہوں نے بتایا کہ ہاتھی پاگل ہو گیا تھا۔

    یہ بات بہرحال صحیح نہیں تھی۔ یہ جو کچھ ہوا تھا اس کاذمہ دار میں تھا۔ مگریہ بات میں ظاہر کیسے کروں؟ اگر ابا کو پتا چل گیا تو وہ کیا مجھے الٹا لٹکا دیں گے؟

    ’’ابا، ہاتھی پاگل نہیں ہوا تھا،‘‘ میں نے کہا۔

    ’’پھر کیا ہوا تھا؟‘‘

    ’’اس کو کسی نے کاٹ لیا تھا۔ ’‘

    ’’کس نے کاٹا تھا؟‘‘

    ’’ابا۔۔۔ اسے میں نے کاٹا تھا۔‘‘

    ’’ہاتھی کو تم نے کاٹا تھا؟‘‘

    ’’ہاں۔ میں پانی کے اندر اندر تیرکر گیا تھا اور میں نے دانت سے پکڑکر اس کی دم سے ایک بال نکالنے کی کوشش کی تھی۔‘‘

    ابا ہنس پڑے۔ وہ بہت زور سے اور بہت دیرتک ہنستے رہے۔ پھر انہوں نے پوچھا، ’’تمہیں ہاتھی کے بال کی ضرورت کیو ں پیش آئی؟‘‘

    میں نے کہا، ’’ابا، وہ آپ کے دوست ہیں نا، ارے وہی اکسائز انسپکٹر۔ ان کی بیٹی رادھامنی نے مانگا تھا۔‘‘

    یہ سن کر اب اماں بھی ہنسنے لگیں۔

    ’’میرے پیارے بیٹے،‘‘ اماں نے کہا، ’’یہ اللہ میاں کی مہربانی تھی جس نے تمہیں اتنے بڑے خطرے سے بچالیا۔‘‘ پھروہ ابا سے مخاطب ہوئیں۔ ’’ہاتھی کاایک بال اسے دلوادو۔ نہیں تویہ پھر یہی کرےگا اور بےچارے ہاتھی کو پھر کاٹ کھائےگا!‘‘

    ابا نے کہا’’بدمعاش! تجھے ہاتھی کو کاٹنا چاہیے؟‘‘

    ’’میں نے اسے کاٹا نہیں تھا، میں تو دانت سے پکڑکر ایک بال کھینچنا چاہتا تھا۔‘‘

    ’’اچھا چھوڑ اس قصے کو۔ ہاں، اس کا ذکر کسی سے نہ کرنا۔‘‘

    ابا مجھے اس جگہ لے گئے جہاں ہاتھی بندھے ہوئے تھے۔ ایک ہتھنی کے سامنے کی ٹانگ پر ایک چھوٹا سا لال گھاؤ تھا۔ مہاوت نے کچھ جڑی بوٹیوں کو پیس کرا س کی لیپ زخم پر لگا دی تھی۔ مگر زخم سے خون ابھی تک نکل رہا تھا۔ ابا نے مہاوت سے ہاتھی کی دم کا ایک بال نکال کر مجھے دینے کے لیے کہا۔ مہاوت نے اس کا ایک بال توڑکر مجھے دے دیا۔ ہاتھی نے میری طرف مڑکر غصے سے دیکھا، اس کے اس غصے میں ہنسی بھی شامل تھی۔ اس کے پیٹ میں کچھ پھٹ پھٹ کی سی آواز ہوئی اور ایسا لگا جیسے وہ کہہ رہا ہو، ’’تو تم ہی وہ چور تھے جس نے چھپ کر میری دم کا بال توڑنے کی کوشش کی تھی؟‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے