Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہڈی کی مٹھی میں سور کا کوڑھی

قمر احسن

ہڈی کی مٹھی میں سور کا کوڑھی

قمر احسن

MORE BYقمر احسن

    پہلے تو غلام نے سواری پر سے بھاری بھرکم قدیم وضع کے فرنیچر اتارنا شروع کیے اور اس قدیم گوتھک طرز کے مکان کے صدر دروازہ میں داخل ہوکر نظروں سے غائب ہوتا رہا۔ پھر اس نے باہر نکل کر بڑی مشکلوں سے ایک لمبا سا سیاہ رنگ کا آنبوس کا تابوت سواری سے کھینچ کر اتارا اور گھوم کر اسے اپنی پیٹھ پر لاد کر صدر دروازہ سے گزر گیا۔ اس بار دروازہ سے وہ دونوں باہر آئے۔ غلام پیچھے پیچھے طرح طرح کی منھ بناتا ہوا آ رہا تھا اور وہ شخص بھاری قدموں سے تیز چلتا ہوا، بےترتیب گھنی داڑھی میں اس کا بڑا سا چہرہ اور سر پر میلے کوروالی سرخ ترکی ٹوپی عجیب سی کراہیت پیدا کر رہی تھی۔

    اس نے پیچھے گھومے بغیر غلام سے کچھ کہا تو غلام تیزی سے آگے بڑھ کر سواری پر چڑھ گیا اور ایک بڑا سا مرغیوں کا ڈھابہ اتار نے لگا جس میں سے چند مرغیاں اوپر نکالے منھ پھیلا ئے ہانپ رہی تھیں اس نے ڈھابہ نیچے اتارا اور اس بار جب اوپر چڑھا تو دونوں ہاتھوں میں دو پنجرے لٹکائے نیچے آیا۔ ایک پنجرے میں چند لعل اور دوسرے میں پہاڑی مینا تھی۔ لعل کا پنجرہ اسے تھماکر اس نے جھک کر دوسرا پنجرہ اٹھایا جس میں ایک عجیب و غریب طوطا بند تھا اور بےچینی سے پنجرے میں چاروں طرف گھوم رہا تھا۔ دونوں پنجرے نیچے اتار کر وہ پھر اوپر چڑھ گیا اور اس بار کھینچ کر کچھ جمنا پاری بکریوں کو نیچے اتار لایا۔ پھر دونوں ان سب کو لیے ہوئے صدر دروازے میں غائب ہو گئے۔ لوٹ کر آئے تو غلام نے اوپر سے ایک سفید فربہ بھیڑ اتاری اور رسّی اسے تھماکر پھر اوپر چڑھا کر چاروں طرف نظریں گھمانے لگا۔

    ’’اے آقا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک گھٹا گھٹا سا اسٹیج ہے جس پر چاروں طرف سے بچے امنڈ آئے ہیں اور سارا ہال چھوٹے بڑے بچوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے اور وہ مستقل بول رہے ہیں یا اسٹیج پر آئے ہوئے بچوں میں سے کسی کسی کو آوازیں دے رہے ہیں۔۔۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ اسٹیج پر بچوں کے پروگرام میں کوئی ربط نہیں ہے۔ کوئی بچہ داہنی طرف بھاگ رہا ہے، کوئی آگے کی طرف، کوئی اسٹیج کا دائرہ پورا کئے بغیر دوڑ کر اپنی صف میں آ کھڑا ہوتا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ سارے بچے رہ رہ اسٹیج کی داہنی طرف یا بائیں طرف دیکھتے ہیں اور شاید وہاں سے کچھ اشارہ پاکر پھر اپنا پارٹ ادا کرنے لگتے ہیں اور کچھ بچے اسٹیج کے پس منظر کا پردہ اٹھا اٹھاکر جھانک رہے ہیں، جس سے سارا پس منظر تباہ ہو جا رہا ہے۔‘‘

    ’’اے عزیز!‘‘ اس نے کہا، ’’تو صحیح دیکھ رہا ہے۔ اگر تو اور بلندی سے دیکھتا تو سارے بچے تجھے اور چھوٹے مکھی اور مچھر ایسے دکھائی دیتے، بس اتر آ۔‘‘

    غلام سواری پر سے اتر آیا اور دونوں فربہ بھیڑ کو کھینچتے اور ہنکاتے صدر دروازہ کے اندر چلے گئے۔

    تھوڑی دیر بعد غلام باہر آیا اور اس نے بائیں ہاتھ میں پھیلے گیرو کو صدر دروازہ پر پوت دیا اور ہتھیلی پھیلاکر صدر دروازہ کی بائیں چوکھٹ کے پاس چھاپ لگا دی۔ تھوڑی دیر تک اس ابھرے ہوئے گیروے ہتھیلی کے نقش کو دیکھتا رہا پھر صدر دروازہ کے اندر گھس پڑا اور واپس آکر نقش کے اوپر ایک زنگ اڑے ہوئے شیشہ کو دیوار کھود کر نصب کرنے لگا۔ شیشہ نصب کر کے اس نے اپنی داہنی جیب سے ایک ٹوٹی ہوئی نعل نکالی اور دروازہ کی اوپری چوکھٹ میں نصب کر دی۔ پھر بائیں جیب سے لہسن کے پھولوں کا ایک گچھا نکال کر پہلے تو دروازہ کی چاروں طرف گھمایا۔ پھر چوکھٹ اور بازو میں سے جگہ جگہ گھسیڑنے لگا۔ اس کام سے فارغ ہوکر وہ پھر اندر چلا گیا۔

    تھوڑی دیر بعد لوٹا تو ایک ہاتھ میں چھوٹی سی ہتھوڑی لیے ہوئے تھا۔ اس نے گھوم کر چاروں طرف دیکھا پھر منھ کھول کر اس میں سے ایک کیل نکالی اور اس گیروے ہتھیلی کے درمیان میں ٹھونک دی۔ پھر منھ کھول کھول کر اس نے انگوٹھے سے لے کر چھوٹی انگلی کے پہلے پور پر ایک ایک کیل لگا دی۔ آئینہ میں جھک کر غور سے اپنا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی۔ پھر سر ہلاتا ہوا اندر چلا گیا۔

    تھوڑی دیر بعد غلام پھر باہر آیا۔ اس نے پہلے آئینہ کو دیکھا، پھر نعل کو، پھر لہسن کے گچھوں کو گھوم گھوم کر دیکھا۔ پھر گیروے رنگ کے پنجے کے نشان کے پاس کھڑا ہوکر کیلوں کو گننے لگا۔ کئی بار گننے کے بعد اس نے ہر ایک کیل کو ہلاکر دیکھا اور پھر اندر چلا گیا۔

    غلام پھر باہر آیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک بلی کا خاکستری رنگ کا کٹا ہوا سر تھا جس سے تازہ خون اب بھی ٹپک رہا تھا۔ اس نے منھ کھول کر کیل نکالی اور چوکھٹ کے اوپر دروازہ کے عین درمیان کیل لگاکر بلی کے سر کو اس میں ٹانگ دیا۔ پھر اس نے نعل کو دیکھا۔ لہسن کے گچھوں کو دیکھا۔ گیروے رنگ کے پنجے کے نشان کے پاس کھڑا ہوکر کیلوں کو گنتا رہا۔ پھر کیلوں کو ہلایا اور جھک کر آئینہ دیکھا اور پھر اندر چلا گیا۔

    غلام نے اندر آکر دھول بھرے آنگن میں پانی چھڑکا۔ پھر آنگن کے بیچ میں قدیم وضع کی مسہری بچھاکر اس پر بستر لگانے لگا۔ پھر مسہری پر مچھر دانی لگا دی اور مسہری کے نیچے تانبے کے بڑے سے لوٹے میں پانی بھر کر رکھ دیا۔

    پھر اس نے ایک بڑے سے تسلے میں بڑے بڑے گوشت کے خون آلود ٹکڑوں پر آٹا چھڑک کر اسے ہاتھوں سے مسلا۔ پھر تسلے کو اٹھاکر پہلے فربہ سفید بھیڑ کے سامنے لے گیا۔ بھیڑ نے اپنا منھ تسلے سے لگاکر اٹھا لیا تو غلام نے تسلہ بکریوں کے سامنے رکھ دیا۔ بکریوں نے بار باری اپنا منھ تسلے سے لگاکر اٹھا لیا تو غلام نے تسلہ مرغیوں کے سامنے رکھ دیا۔ مرغیوں نے باری باری اپنا منھ تسلے سے لگاکر اٹھا لیا تو غلام تسلہ لے کر طوطے کے پنجرے کے پاس گیا۔ ایک لمحہ وہاں رکھ کر پھر مینا کے پنجرے کے پاس پہنچا۔ وہاں ٹھہر کر پھر لعل کے پنجرے کے پاس آیا اور پکارا۔۔۔

    ’’اے آقا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ان میں سے کسی نے بھی گوشت کی طرف رغبت نہیں ظاہر کی ہے اور گیلری میں کہیں ٹوٹی ہوئی چھت سے سورج کی زرد سی روشنی گرد آلود دیواروں اور لو نا لگی ہوئی اینٹوں پر پڑنے لگی ہے۔‘‘

    ’’اے عزیز!‘‘ اس نے کہا، ’’تو صحیح دیکھ رہا ہے لیکن تمام احتیاطی تدابیر کے بعدبھی تیرے اختیار میں کچھ نہیں ہے، جو کچھ جیسا ہوتا ہے ہونے دے۔ جا اب تو بھی آرام کر۔‘‘

    غلام نے گوشت کا تسلہ اٹھا لیا۔

    تھوڑی دیر بعد غلام پھر باہر آیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا تسلہ تھا جس میں خون آلود گوشت کے بڑے بڑے لوتھڑے تھے۔ اس نے صد ر دروازہ سے دور آکر جگہ جگہ ان لوتھڑوں کو گرا دیا اور خون آلود تسلہ لے کر واپس ہوا۔ صدر دروازہ کے پاس ا ٓتے ہی اس نے خون آلود تسلہ میں اپنا ہاتھ رگڑ کر پورے پنجہ کا نقش داہنی جانب کی دیوار پر لگا دیا پھر منھ کھول کر کیلیں نکال نکال کر ہتھیلی کے درمیان اور پانچوں انگلیوں کی پہلی پور پر ٹھونک کر صدر دروازہ سے اندر چلا گیا۔

    غلام پھر باہر آیا اور اس نے مڑی ہوئی سینگوں والے بکرے کا خون آلود سر، جس سے اب بھی خون کے قطرے ٹپک رہے تھے چوکھٹ کی بائیں طرف دیوار پر لٹکا دیا۔ پھر اس نے نعل کو دیکھا۔ لہسن کے گچھوں کو دیکھا۔ گیروے رنگ کے پنجہ کے نشان کے پاس کھڑا ہوکر کیلوں کو ہلاتا رہا۔ پھر جھک کر آئینہ دیکھا۔ پھر بلی کے سر کو دیکھا۔ پھر خون آلود ہتھیلی کے نشان کو دیکھا۔ کیلوں کو ہلایا پھر بکرے کے سر کی طرف دیکھ کر گھر کے اندر چلا گیا۔۔۔

    غلام نے اندر آکر پہلے تو گھر کے جالے چھڑائے۔ پھر کیاریاں بنائیں اور اس میں پھولوں کی قلمیں لگاتا رہا۔ اس سے فارغ ہوکر اس نے ایک بڑے سے تسلہ میں گوشت کے خون آلود بڑے بڑے ٹکڑوں پر آٹا چھڑکا۔ پھر انہیں دونوں ہاتھوں سے مسلتا رہا۔ پھر تسلہ لے کر فربہ بھیڑ کے پاس پہنچا۔ اس نے اپنا منھ تسلہ سے لگاکر ہٹا لیا تو اس نے تسلہ بکریوں کے پاس جاکر رکھا۔ باری باری سے ہر بکری نے اپنا منھ تسلہ پر لگاکر ہٹا لیا تو وہ تسلہ لے کر مرغیوں کے پاس آیا پھر وہاں سے لعل طوطا اور مینا کے پنجرے کے پاس آیا۔

    پھر تسلہ لے کر باہر نکل آیا اور صدر دروازے سے خاصی دور تک ان لوتھڑوں کو بکھراکر خون آلود تسلہ لیے گھر میں چلا گیا اور پکارا۔۔۔

    ’’آقا! میں دیکھ رہا ہوں کہ دھوپ میں تیزی آ چکی ہے اور اسٹیج پر جمع اور ہال میں جمع سارے بچے پیاس سے جاں بہ لب ہیں اور ہال سے نکل کر اسٹیج سے کود کر بھاگے جا رہے ہیں۔ ہاتھ میں پتلی پتلی قمچیاں لیے ان کے مدرس ان کے پیچھے دوڑے آ رہے ہیں۔ اے آقا، میں دیکھ۔۔۔‘‘

    ’’اے عزیز!‘‘ اس نے کہا، ’’تو صحیح دیکھ رہا ہے۔ اب اسٹیج اور ہال دونوں خالی ہو جائیں گے اور سارے بچے چوتڑوں میں ہاتھ ڈالے سو جائیں گے۔ اسی لیے میں نے ہمیشہ محفوظ دنوں (Safe Days) میں مباشرت کی ہے۔ سوجا اے عزیز، میں بھی سونے جاتا ہوں۔ صبح چار بج کر تیس منٹ پر اٹھ جانا ہے، تاکہ ہر ایک کو اس کی مطلوبہ غذا مل سکے۔‘‘

    تھوڑی دیر بعد غلام باہر آیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک مشعل تھی۔ اس نے مڑی ہوئی سینگوں والے بکرے کے سر کو دیکھا۔ پھر نعل کو دیکھا۔ لہسن کے گچھوں کو دیکھا۔ خاکستری بلی کے سر کو دیکھا۔ گیروے رنگ کے پنجہ کے نشان کو دیکھا۔ کیلوں کو گنا۔ انھیں ہلاکر دیکھا۔ پھر جھک کر آئینہ دیکھا اور گھر میں واپس چلا گیا۔

    غلام رات میں کئی بار اٹھ اٹھ کر باہر آکر جھانکتا رہا۔ پھر صبح کو دونوں باہر آئے۔ اس کے ہاتھ میں ایک زنجیر تھی، جس میں ایک مریل نحیف و لاغر سی پلی بندھی ہوئی چل رہی تھی۔ غلام ان سے دس قدم پیچھے چل رہا تھا۔

    اچانک صدر دروازہ کی بغل سے آس پاس کے کچروں کے ڈھیر اور کونوں سے چھوٹے چھوٹے پلوں کی بہت سی آنکھیں جھانکنے لگیں۔ پھر وہ آنکھیں مجسم ہوکر مریل سی کتیا کے پیچھے پیچھے چلنے لگیں۔ اس نے مڑکر پیچھے دیکھا۔ غلام نے داہنے بائیں دیکھا اور ساتھ چلتا رہا۔ اچانک ایک سیاہ رنگ کے پلے نے پلی کو زور سے دھکا دیا اس کی آواز پر پلٹ کر اس نے پہلے پلی کو دیکھا پھر غلام کی آنکھوں میں دیکھا اور پلوں کوجھڑک کر آگے بڑھ گیا۔ دو چار پیچھے چلتے ہوئے پلوں نے احتجاجاً غراکر پف کہا۔ پھر پف پف کی آوازیں آئیں۔

    قبرستان کے میدان تک پہنچتے ہی دو چار پلے اور آملے اور ندی تک آئے تو اچھا خاصہ جلوس ساتھ تھا۔ جب وہ واپس آئے تو سارا مجمع اسی طرح صدر دروازہ تک ان کے ساتھ رہا۔ دونوں تیزی سے پلی کو لے کر اندر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد غلام باہر آیا تو صدر دروازہ کھولتے ہی دو چار پلے کو د کر بھاگے اور دور کھڑے ہوکر کھلے ہوئے صدر دروازہ سے اندر جھانکنے کی کوشش کرنے لگے۔ غلام نے صدر دروازہ پر لگی ہوئی ساری چیزوں کو دیکھا۔ پھر دونوں پنجوں کی کیلوں کو گنا اور گھر کے اندر چلا گیا۔

    شام کو پھر دونوں پلی کو ساتھ لے کر جیسے ہی صدر دروازہ کے باہر آئے آس پاس منتظر کھڑے پلے لپک لپک کر ان کے پیچھے ہونے لگے۔ قبرستان تک آتے ہی یہ مجمع اور بڑھ گیا۔ ندی پر پہنچے تو غلام نے کہا، ’’اے آقا! میں دیکھ رہا ہوں کہ سارے نشانات مٹ چکے ہیں۔ صرف قبرستان کی نرم مٹی پر میرے اور آپ کے نشانات باقی ہیں۔ کیا اس میں ہمارے لئے کچھ نشانیاں اور خطرات ہیں؟‘‘

    ’’اے عزیز!‘‘ اس نے کہا، ’’تو سچ دیکھ رہا ہے۔ سارے نشانات مٹ چکے ہیں۔ لیکن قبرستان کی نرم مٹی پر ہار سنگھار کے درخت تک ہمارے قدموں کے ساتھ ایک نشان اور بھی ہے۔ کیا تو مجھ سے غداری کرنا چاہتا ہے؟‘‘

    غلام کے چہرے پر زردی آ گئی۔ اس نے جھک کر نشانات کو دیکھا اور خاموشی سے پیچھے چلنے لگا۔ پلے اس زنجیر میں بندھی پلی کے ساتھ ندی تک آئے اور پھر واپسی کے لئے مڑ گئے۔ کبھی کبھی کوئی پلا ہمت کر کے پلی تک آ جاتا اور اسے اپنے جسم سے دھکا دے دیتا۔ یا گردن پکڑ کر ڈھکیل دیتا اور اس کے واپس مڑتے ہی کود کر دور جاکھڑا ہوتا اور مسکین صورت بنائے گردن جھکائے ساتھ چلنے لگتا یا دو چار ہلکی سی پف کر کے کنارے ہو جاتا۔ صدر دروازہ پر آتے ہی دونوں نے بیک وقت دروازہ پر لگی تمام چیزوں کو ایک نظر میں دیکھا وار دروازہ کھول کر اندر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد غلام پھر باہر آیا۔ اس کے دروازہ کھولتے ہی چوکھٹ پر سر رکھے دو چار پلے کود کر الگ ہو گئے۔ کچرے کے ڈھیر اور کونوں میں چھپے ہوئے پلوں نے بھی جلدی جلدی سر اٹھاکر کھلے ہوئے صدر دروازہ سے اندر جھانکنے کی کوشش کی۔

    غلام اتنی دیر میں اپنے کام سے فارغ ہوکر ان پلوں کو باری باری گھورتا ہوا صدر دروازہ بند کر کے گھر میں چلا گیا۔

    اس نے کہا، ’’اے عزیز! وقت جیسے جیسے گزرتا جا رہا ہے تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘

    ’’اے میرے آقا!‘‘ غلام نے کہا، ’’تیری تشویش بجا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ وقت کے ساتھ یہ پلی ایک مریل سی پلی نہیں رہ گئی ہے، بلکہ کتیا ہوتی جا رہی ہے اور باہر منتظر کھڑے پلے اب پلے نہیں کہے جا سکتے۔ کتے ہو چکے ہیں۔ بالکل کتے لہٰذا۔۔۔‘‘

    ’’اے عزیز!‘‘ اس نے کہا، ’’تو بالکل صحیح دیکھ رہا ہے لیکن اب یہ سوچ کہ ہم شام کو گھر سے باہر کیسے نکلیں گے۔ جا ذرا صد ر دروازہ پر دیکھ آ۔‘‘

    غلام نے جیسے ہی صدر دروازہ کھولا دو چار کتے کود کر دور ہٹ گئے۔ سامنے کچرے کے ڈھیر پر اور پاس کے کیچڑپر دو چار کتے بیٹھے کن انکھیوں سے صدر دروازہ کے پیچھے دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے اور زبان باہر نکالے ہانپ رہے تھے۔ غلام نے دروازہ پر لگی چیزوں کو دیکھا اور تیزی سے گھر میں گھس گیا۔

    ’’اے آقا! میں دیکھ آیا ہوں، خون آلود ہتھیلی کے نشان سے تمام کیلیں غائب ہیں اور دس بارہ کتے باہر دروازہ پر بیٹھے ہیں۔‘‘

    وہ مسہری پر سے کود کر کھڑا ہو گیا۔ ’’کیا!کیا کہا، کیلیں غائب ہیں۔‘‘

    ’’ہاں، لیکن گیروے رنگ کے ہتھیلی کے نقش کی تمام کیلیں موجود ہیں۔‘‘

    ’’چلو‘‘ اس نے کہا، ’’ہم فوراً باہر نکلتے ہیں۔‘‘

    صدر دروازہ کھلا تو باہر کھڑے ہوئے کتے بھڑک کر دور بھاگے۔ پھر ایک جلوس کی شکل میں کتیا کے پیچھے پیچھے روانہ ہو گئے۔ کتیا نے دبی آواز سے کوں کوں کیا۔ لیکن اس نے اسے کھینچ لیا۔ جب کوئی کتا نزدیک آتا تو وہ اسے غصہ سے جھڑک کر کتیا کو آگے کھینچ لیتا۔ یہ جلوس قبرستان ہوتا ہوا ندی پر پہنچا اور وہاں سے واپس ہونے لگا تو اس نے غلام سے کہا، ’’اے عزیز! ذرا پیچھے مڑکر دیکھتے رہنا۔ نقش باقی ہیں؟‘‘

    غلام نے کہا، ’’اے آقا میں دیکھ رہا ہوں کہ نزدیک کے نقوش باقی ہیں لیکن بہت پیچھے کے نقش دھندلے ہوکر مٹتے جا رہے ہیں۔‘‘

    ’’ارے اتنی جلدی‘‘، مالک نے کہا اور صدر دروازہ سے گزر گیا۔ غلام دروازہ پر لگی ہوئی اشیا کو دیکھ کر آئینہ میں جھکا۔ پھر گھر میں گھس کر دروازہ بند کرنے لگا۔

    رات میں اچانک اسے لگا جیسے دروازہ پر کچھ لوگ جمع ہو گئے ہیں۔ پھر آپس میں ان کی کانا پھوسی کی آواز سنائی دی اور محسوس ہوا جیسے کچھ لوگ گھر میں جھانکنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ پھر لگا جیسے وہ سب مل کر صدر دروازہ کو دھکا دے رہے ہوں اور اسے توڑ ڈالنا چاہتے ہوں۔ ابھی پوری طرح وہ ہوش میں نہیں آیا تھا کہ زنجیر زور زور سے بجنے لگی اور دروازہ ہلنے لگا۔ اچانک ہی باہر سے کوں کوں کی بہت سی آوازیں آئیں اور اس نے دیکھا کہ دور ٹہلتی ہوئی کتیا تیزی سے صدر دروازہ کی طرف دوڑ پڑی ہے اور ادھر سے دروازہ کو دھکا دے کر خود بھی کوں کوں کر رہی ہے۔

    اس نے جلدی سے غلام کو آواز دی، ’’اے عزیز میں دیکھ رہا ہوں کہ دروازہ ہلنے لگا ہے اور زنجیر بجنے لگی ہے۔ تو کتیا کو سنبھال کر بند کردے میں دروازہ کھولتا ہوں۔‘‘ اس نے تابوت کے پاس سے ایک سیاہ رنگ کا آنبوس ڈنڈا اٹھایا اور دروازہ کھول کر دیکھا کہ دس بارہ کتے انتہائی فربہ اور خوفناک شکل والے، دروازہ گھیرے کھڑے ہوئے ہیں۔ اس نے تیزی سے ڈنڈا گھمایا۔ سب سے پہلا ڈنڈا سامنے کھڑے سیاہ رنگ کے کتے کی ٹانگ پر پڑا جب تک کتے بھاگیں ان پر دس پانچ ڈنڈے پڑ چکے تھے۔ وہ بڑبڑاتا اور گالیاں بکتا ہوا گھر میں واپس آیا تو دیکھا کتیا انتہائی مسکین صورت بنائے لیٹی ہے۔

    اس نے کہا، ’’اے عزیز! آج سے یہ کتیا میری مسہری کے پائے سے باندھی جائےگی تو بھی ذرا ہوشیار رہنا اور جاکر دیکھ آ، دروازہ کا کیا حال ہے۔‘‘

    غلام نے صدر دروازہ کھولا تو سناٹا تھا۔ پھر بھی اسے احساس ہوا جیسے کچھ سائے بھاگتے ہوئے ابھی ابھی موڑ پر غائب ہوئے ہیں۔ غلام کے واپس آتے ہی اسے دروازہ پر پھر کچھ آہٹ محسوس ہوئی۔ وہ آبنوسی ڈنڈا لے کر پھر دروازہ کی طرف جھپٹا۔

    صبح کو اس نے غلام سے کہا، ’’باہر جا اور دیکھ کر آکہ دروازہ کی اب کیا صورت ہے۔‘‘ تھوڑی دیر بعد غلام باہر آیا۔ دروازہ پر لگی چیزوں کو دیکھا اور تیزی سے گھر میں گھس گیا۔

    ’’اے آقا، میں دیکھ رہا ہوں کہ دروازہ پر سے نعل غائب ہے اور دروازہ پر دس بارہ کتے بیٹھے ہیں۔‘‘

    ’’کیا تو نے ٹھیک سے دیکھ لیا ہے؟‘‘ اس نے کہا۔

    ’’ہاں‘‘ غلام نے کہا، ’’میں نے بہت اچھی طرح دیکھا ہے۔‘‘

    ’’اچھا، اب تو کتا پکڑنے والی گاڑی صدر دروازہ سے باہر نکال۔ میں اسے انہیں راستوں پر دوڑاؤں گا اور تو جال لے کر پچھلے حصہ میں بیٹھ جانا۔‘‘

    پھر اس نے جھانک کر دیکھا۔ سارے کتے گلی میں موجود تھے۔ ان میں وہ سیاہ رنگ والا فربہ اور خوفناک کتا بھی تھا۔ تھوڑی دیر بعد صدر دروازہ اچانک کھلا اور کتا پکڑنے والی لمبی جالی دار ایک بڑی گاڑی شور مچاتی صدر دروازہ سے اچانک باہر نکل آئی۔ کتوں نے گھبرا کر اچک کر بھاگنا چاہا لیکن غلام نے تیزی سے جال پھینک مارا۔ دونوں کود کر نیچے اترے اور گرفتار شدہ کتوں کو دیکھنے لگے۔

    ’’اے عزیز!‘‘ اس نے کہا، ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ ان میں وہ سیاہ رنگ والا خوفناک کتا نہیں ہے۔۔۔‘‘

    ’’اے آقا! غلام نے کہا، ’’میں نہیں جانتا تو کس سیاہ رنگ کے خوفناک کتے کا ذکر کر رہا ہے۔ کیا واقعی ان میں کوئی ایسا کتا تھا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ گلی پتلی ہے اور جال پھیل نہیں سکتا۔ پھر بھی آج رات ہم یقیناً آرام سے گزاریں گے۔‘‘

    ’’ہاں اے عزیز تو صحیح دیکھ رہا ہے۔ ہم آج کی سیر موقوف کرتے ہیں۔ چل صدر دروازہ سے واپس ہولے۔‘‘

    رات ہونے سے پہلے غلام نے کتیا اسکی چارپائی سے باندھ دی اور خود الگ ہو گیا۔ نصف شب کے قریب اسے دروازہ پر پھر آہٹیں محسوس ہوئیں۔ زنجیر بجنے لگی اور صدر دروازہ زور زور سے ہلنے لگا۔ پھر اچانک دروازہ پر کھرونچیں مارنے کی آواز کے ساتھ ساتھ کوں کوں کی آوازیں بلند ہوئیں۔ ادھر مسہری سے بندھی کتیا نے بھی ان کی کوں کوں کا جواب دیا اور کوشش کرنے لگی کہ خاموشی سے زنجیر سے نکل جائے۔ وہ آبنوسی ڈنڈا لے کر اٹھا اور جھٹکے سے صدر دروازہ کھول کر دیکھا تو پانچ سات کتے نظر آئے۔ سیاہ رنگ والا کتا سب سے آگے کھڑا تھا۔ لیکن اس کے ڈنڈا اٹھاتے ہی وہ تیر کی طرح غائب ہو گیا۔ دوسرے کتوں پر بھاگتے بھاگتے دو چار ڈنڈے پڑ ہی گئے۔ وہ جیسے ہی واپس آیا آوازیں پھر سنائی دینے لگیں۔ وہ جھلاکر اٹھا اور دروازہ کھولتے ہی ڈنڈے کا وار کیا۔ لیکن کتے بھاگ نکلے۔ جیسے ہی دروازہ بند کر کے واپس ہوا تو اسے لگا کہ پھر سب جمع ہو گئے ہیں۔ اس نے پھر جھپٹنا چاہا تو لگا جیسے سارے کتے تیزی سے بھاگ رہے ہیں۔ اس نے پلٹ کر غلام سے کہا، ’’اے عزی، جا مشعل جلاکر ذرا دروازہ کی خبر لے۔‘‘

    غلام نے صدر دوازہ کھول کر مشعل کی روشنی میں دروازہ پر لگی ہوئی چیزوں کو دیکھا اور تیزی سے گھر میں گھس گیا۔

    ’’اے آقا، میں نے دیکھا کہ چوکھٹوں، بازوؤں سے لہسن کے سارے پھوں غائب ہیں۔‘‘

    اس نے غلام کی آنکھوں میں دیکھا۔ چپ رہا۔ پھر کہا، ’’اے عزیز تو نے یقیناً صحیح دیکھا ہے۔‘‘

    اتنے میں لگا جیسے پھر دروازہ پر کچھ لوگ جمع ہو گئے ہیں۔ پھر کھرونچوں کی آواز آئی۔ دونوں نے صدر دروازہ کھولنے کے بجائے وہیں سے زور زورزمین پر قدم ٹپکے تو پھر کتوں کے بھاگنے کا احساس ہوا۔

    ’’اے آقا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس طرح ساری زندگی کتے گرفتار نہیں ہو سکیں گے۔‘‘

    ’’تو ایسا کر کہ صبح حسب معمول تو کتیا کو لے کر سیر کے لئے قبرستان کی طرف سے ندی کی طرف چل۔ میں کتا پکڑنے والی گاڑی لے کر اس جلوس پر پیچھے سے حملہ کروں گا اور تب وہ شاید گرفتار ہو سکے۔‘‘

    صبح صدر دروازہ کھلا اور وہ کتیا کی زنجیر تھامے باہر نکلا تو آس پاس سے جھانکتی ہوئی آنکھیں مجسم ہوکر جلوس کی شکل میں اس کے پیچھے چلنے لگیں۔ کچھ آگے بڑھ جانے پر غلام کتا پکڑنے والی گاڑی لے کر صدر دروازہ سے نکلا۔ پہلے اس نے شیشہ کو دیکھا۔ پھر بلی کے خاکستری سر کو دیکھا۔ پھر گیروے رنگ کے ہتھیلی کے نقش کو دیکھا۔ کیلوں کو ہلایا۔ پھر بکرے کے سر کو دیکھتا ہوا گاڑی لے کر قبرستان کی طرف چلا۔ قبرستان کے پاس آتے ہی غلام نے کتیا کے پیچھے چلتے ہوئے جلوس پر جال مارا۔ پیشتر کتے گرفتار ہو چکے تھے۔ اس نے بڑے شوق سے پلٹ کر دیکھا تو وہ سیاہ رنگ والا کتا نظر نہ آیا۔

    غلام نے کہا، ’’اے آقا میں نے دیکھا تھا کہ گاڑی کی آواز سنتے ہی سیاہ رنگ والا لنگڑا کتا دو کتوں کے ساتھ تیزی سے ندی کی طرف بھاگ نکلا تھا۔‘‘

    ’’اے عزیز!‘‘ اس نے کہا، ’’تو نے یقیناً صحیح دیکھا ہوگا۔ آج رات صدر دروازہ پورے طور سے بند نہ کرنا۔ صرف زنجیر لگا دینا اور تو بھی میرے ہمراہ جاگتے رہنا۔‘‘

    شام ہوتے ہی دونوں بے چین ہوکر بار بار صدر دروازہ کی طرف دیکھتے۔ رات آئی تو غلام نے مشعل سنبھالی اور اس نے بآہستگی صدر دروازہ کھول دیا۔ دیکھا تو سیاہ رنگ والا کتا دو کتوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ دونوں کتے انہیں دیکھتے ہی تیزی سے بھاگے۔ آبنوسی ڈنڈا گھمانے سے پہلے اس نے سوچا کہ سیاہ کتا بھی بھاگ جائےگا۔ لیکن وہ اسی طرح کھڑا رہا اور کھلے دروازہ سے گھر میں دیکھتا رہا۔ پھر اس کی ہلکی ہلکی غراہٹ ابھرنے لگی۔ اس نے ڈنڈا اٹھانا چاہا لیکن آدھا اٹھا ہوا ہاتھ نیچے لٹک گیا۔ وہ سیاہ رنگ والا کتا جب آہستہ سے صدر دروازہ کی طرف دیکھتا ہوا واپس ہوا تو یہ بھی گھر میں گھس پڑے اور صدر دروازہ مضبوطی سے بند کرکے دونوں مشعل کی روشنی میں کتیا کو گھورنے لگے۔۔۔

    صبح ہوتے ہی دروازہ کھلا۔ غلام نے باہر آکر دروازہ کا جائزہ لیا اور تیزی سے گھر میں گھس پڑا۔

    ’’اے آقا میں دیکھ رہا ہوں کہ دروازہ پر سے بلی کا خون آلود خاکستری سر بھی غائب ہے اور اب دروازہ پر کوئی کتا نہیں ہے۔‘‘

    ’’اے عزیز!‘‘ اس نے ٹھنڈی سانس لی، ’’تو نے یقیناً بالکل صحیح دیکھا ہے۔ اب گیروے ہاتھ کے نقش کی کیلوں کو بھی ہلاکر کر دیکھ لے۔‘‘

    غلام بار بار صدر دروازہ کھول کر بے چینی سے باہر آتا اورجلدی جلدی دروازہ پر لگے دھندلے شیشے، گیروے رنگ کے ہتھیلی کے نقش اور بکرے کے خون آلود سر کو دیکھ کر گھر میں گھس جاتا۔ شام ہوتے ہی اس نے کہا، ’’اے عزیز! ذرا اب تو جا اور صدر دروازہ سے قبرستان اور قبرستان سے ندی تک دیکھ آ کہ کچھ نقش باتی ہیں یا سب مٹ گئے اور خبردار سیاہ رنگ والے کتے سے غافل نہ رہنا۔ غلام نے کتیا کی زنجیر پکڑی اور صدر دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ پہلے قبرستان آیا۔ پھر وہاں سے ندی تک آیا۔ پھر واپس چل دیا۔ واپسی میں اس نے رک کر صدر دروازہ پر لگی چیزوں کو دیکھا اور تیزی سے کتیا کو کھینچتا ہوا گھر میں گھس گیا۔

    ’’اے آقا، میں نے دیکھا کہ دیوار کے گیروے رنگ کے ہتھیلی کے نقش سے کیلیں غائب ہیں۔‘‘

    ’’اے عزیز، کیا نشانات باقی رہ جاتے ہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’آقا، دور کے سارے نشانات بہت تیزی سے مٹ جاتے تھے۔ لیکن نزدیک کے باقی رہ جاتے تھے۔ ذرا دور جاتے ہی وہ بھی ختم ہو جاتے اور میں نے دیکھا کہ ندی کے پاس دو کتے ریت پر لیٹے ہوئے تھے اور سیاہ رنگ والے کتے کا کہیں پتہ نہیں نہ تھا۔‘‘

    غلام نے آبنوسی تابوت کو کھول کر اس میں سے کچھ سفید کپڑوں کے پارچے نکالے اور انہیں دھوپ میں پھیلاکر تسلوں اور پیالوں میں پانی بھر کر بکریوں، بھیڑ اور پرندوں کے پاس رکھنے لگا۔ پھر سارے گھر کی صفائی کی۔ کونوں سے مکڑی کے جالے دور کئے۔ جگہ جگہ کیاریاں بناکر اس میں قلمیں لگائیں اور پکارا۔۔۔

    ’’آقا، میں دیکھ رہا ہوں کہ سورج کی زرد دھوپ گرد آلود دیواروں اور لونا لگی ہوئی اینٹوں پر زیادہ چمکنے لگی ہے۔ شاید چھت زیادہ کھل چکی ہے۔ کہیں اس میں ہمارے لیے کچھ نشانیاں اور آگاہی تو نہیں ہے۔ اب مجھے محسوس ہونے لگا ہے۔‘‘

    ’’عزیز!‘‘ اس نے کہا، ’’تو صحیح دیکھ رہا ہے لیکن تجھے ہراساں ہونے کی ضرورت نہیں کہ تو ابھی محفوظ ہے اور تو اپنے تحفظ کے لئے اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتا۔ تیرے بس میں بھی نہیں ہے۔ عناصر جو چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے۔۔۔ شام ہونے سے پہلے تو پھر سیر کے لیے چلا جا اور دیکھ آکہ نشانات باقی رہتے ہیں یا نہیں اور خبردار اس سیاہ کتے سے ہوشیار رہنا۔‘‘

    غلام نے کتیا کی زنجیر پکڑی اور صدر دروازہ کھول کر دروازہ پر لگے ہوئے بکرے کے خون آلود سر کو دیکھا۔ دھندلے شیشہ کو دیکھا۔ خون آلود ہتھیلی کے بغیر کیلوں کے نقش کو دیکھا۔ گیروے رنگ کے ہتھیلی کے نقش کو دیکھا اور قبرستان کی طرف سے ہوتا ہوا ندی تک گیا اور واپس آتے ہی دروازہ پر لگی اشیا کو دیکھا اور تیزی سے گھر میں گھس پڑا۔

    ’’اے آقا، میں نے دیکھا کہ دروازہ پر سے بکرے کا خون آلود سر بھی غائب ہے اور ہمارے نزدیک کے نشانات اب بھی باقی رہ جاتے ہیں اور ذرا دور ہٹتے ہی غائب ہو جاتے ہیں اور۔۔۔ ا ور قبرستان کے پاس دو کتے لیٹے ہوئے تھے لیکن سیاہ رنگ کے اس کتے کا کوئی پتہ نہیں تھا۔ اے آقا۔ کیا تو اس کی عدم موجودگی سے مطمئن ہے؟‘‘

    ’’عزیز تو نے جو کچھ دیکھا وہ صحیح ہے۔ رات ہوتے ہی مشعل جلاکر دروازہ کا خیال رکھنا۔ میری مسہری پر مچھردانی لگا دینا اور تانبے کے لوٹے میں پانی رکھ دینا۔ لے اب کتیا کو میری مسہری سے باندھ دے۔‘‘

    تھوڑی دیر بعد غلام مشعل لیے دروازہ کھول کر باہر آیا۔ اس نے دروازہ کے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ پھر تیزی سے مشعل پھینک کر گھر میں گھس گیا اور چیخا۔۔۔

    ’’اے آقا، میں نے دیکھا کہ دروازہ سے شیشہ بھی غائب ہے۔‘‘

    ’’عزیز!‘‘ اس نے کہا، ’’تونے بالکل صحیح دیکھا ہے۔۔۔‘‘

    رات کے پچھلے پہر اس کی آنکھ کھلی، اس نے جھک کر تانبے کا لوٹا اٹھانا چاہا تو اچانک مسہری کے نیچے اسے دو ہیولے نظر آئے۔ پہلے تو اس نے نظر کا دھوکا جانا۔ پھر غور کیا تو ایک کتیا کے بجائے دو نظر آئے۔ ذرا اور غور کیا تو دونوں کی جسامت میں فرق پایا۔ گھبراکر اس نے آواز دی، ’’اے عزیز ذرا مشعل لے کر آنا۔‘‘

    غلام نے آتے ہی کہا، ’’آقا! میں دیکھ رہا ہوں کہ سیاہ رنگ۔۔۔‘‘

    ’’اے عزیز!‘‘ اس نے کہا، ’’تو بالکل صحیح دیکھ رہا ہے۔‘‘

    پھر دونوں جھک کر مسہری کے نیچے دیکھا، دیکھتے رہے۔۔۔

    ’’اے عزیز! مشعل بجھا دے‘‘، اس نے کہا۔

    پھر دونوں آہستگی سے دروازہ کھولا۔ پھر کتیا کی زنجیر کھولی اور بڑی مشکل سے لیکن خاموشی سے دونوں گتھے ہوئے ہیولوں کو صدر دروازہ سے باہر نکال کر دروازہ بند کر دیا۔

    دوسری صبح دو کتوں نے صدر دروازہ پر آکر پہلے تو گیروے رنگ کے ہتھیلی کے نقش میں اور خون آلود ہتھیلی کے نقش میں بنے سیاہ رنگ کے کیلوں کے خالی سورا خوں کو دیکھا پھر بائیں طرف لگے آقا کے خون آلود سر کو پھر داہنی طرف لگے غلام کے خاکستری خون آلود سر کو دیکھا اور بیٹھ کر ہانپنے لگے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے