Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حیران مت ہو سنگی مترا

مشرف عالم ذوقی

حیران مت ہو سنگی مترا

مشرف عالم ذوقی

MORE BYمشرف عالم ذوقی

    باہر نکلتے ہی سنگی مترا کو ابھتوش کی بات یاد آنے لگی۔ سب کچھ نہ بدلے تب بھی کیا فرق پڑتا ہے؟

    ہاں کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔

    سنگی مترا جیسے اپنے آپ سے بد بدائی۔ دیکھا نا، بھول گئی کہ وہ کس لئے باہر نکلی تھی؟ کس کام سے؟ یہ غلط بات ہے۔ ذرا دیر میں سب بھول جاتی ہے۔ حافظہ کمزور ہونے لگا ہے۔ کتنی بار وہ جسدیو سے کہہ چکی ہے گڑے مردے بھی کہیں ایسے نہیں سڑتے جیسے وہ۔۔۔ بس یہی آ کر نال گڑا گئی۔۔۔ سڑنے کے لئے۔ سنتے ہیں زمین میں گاڑے جانے والے مردوں کی ہڈیاں بھی گھومتی رہتی ہیں۔۔۔ جغرافیہ میں کہیں بچپن میں پڑھا تھا۔ زمین گھومتی ہے، مگر اس کی تو نال گڑا گئی۔

    *

    کھڑ۔۔۔ کھڑ۔۔۔ کھڑ۔۔۔ کھڑ۔۔۔

    پتلی سی سنکری گلی۔ ذرا سی نگاہ دائیں طرف چلی گئی کہ مشکل۔۔۔ ماڈرن ٹیلر۔۔۔ ناک سے بار بار پھسل جانے والے چشمے کو برابر کرتا کھوسٹ قدوس غور سے اس کی طرف دیکھتا ہے۔۔۔ ’’بائی، تم برابر والی گلی میں رہتا کیا؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔‘‘

    ’’تم اچھا لوگ بائی۔ اکھا بمبئی میں اچھا لوگ ملتا کہاں بائی۔۔۔؟

    کھڑ کھڑ۔۔۔ کپڑوں پر سرسراتی قینچیاں گھماتا کھوسٹ قدوس جب آگے کے ٹوٹے ہوئے پورے بارہ دانتوں کے ساتھ مسکراتا تو اس کے تن بدن میں جیسے آگ دوڑ جاتی۔ یہ کہاں آخر پھنس گئی ہو تم سنگی مترا۔ یہ تمہارا کلکتہ نہیں ہے، بمبئی ہے بمبئی۔۔۔

    رحمت کباڑیا کے دیدے بھی اسے دیکھ کر یوں پھسل جاتے ہیں۔ جیسے وہ سنگی مترا نہیں، گوشت کی تازہ ذائقہ دار بوٹی ہو۔ ہر وقت اپنے کباڑ میں سردیئے ترازو اور ’’باٹ کھڑوں‘‘ کے بیچ اپنی گنجی کھوپڑی کی نمائش کرتا۔۔۔ کلکتہ کی سڑکوں پر ایک بار اس نے ایک پھل فروش کو رام پھل بیچتے ہوئے دیکھا تھا۔ پتہ نہیں کیوں رحمت کباڑیے کو دیکھ کر اسے وہ پھل فروش یاد آ جاتا۔۔۔

    مگر وہ باہر کیوں نکلی تھی۔۔۔؟

    کھوسٹ قدوس نے پھر اپنی ’’اٹھائیسی‘‘ دکھائی۔

    ’’کہاں جاتا بائی۔ پن کو بول۔‘‘

    رحمت کباڑیے کا گنج چمک اٹھا۔ ترازو دھم سے زمین پر رکھتے ہی پاؤ پاؤ بھر کے دو پلڑے زمین پر لڑھکتے چلے گئے۔

    ’’کچھ کہا کیا بائی؟‘‘

    سنگی مترا نے منہ بنایا۔ اندر تک ایک آگ بھر گئی۔ پیر پٹکتی وہ آگے بڑھ گئی۔۔۔ دیر تک رحمت کباڑیا اور کھوسٹ قدوس کے قہقہے اس کا پیچھا کرتے رہے۔

    *

    جسدیو نے اسے طنز سے دیکھا تھا۔

    ’’سنگی مترا، تمہاری ساری ترقی پسندی ایسے میں کہاں کھو جاتی ہے؟‘‘

    پھر جلے پر نمک چھڑکتے ہوئے ایک ساتھ کتنے ہی طنزیہ قہقہے وہ اس کے مہ پر اچھال دیتا۔

    ’’شادی تو تم نے اپنی پسند سے کی۔۔۔ کیوں پھر بمبئی آنے میں تمہیں اعتراض کیوں ہوتا۔۔۔ ہوا بھی نہیں۔۔۔ مہانگر کا اپنا ہی گلیمر تھا۔ ہاں سوچا ہو گا۔۔۔ ویسا مکان ہو گا جیسا بمبیا فلموں میں دکھائی دیتا ہے۔۔۔ آدمی چاہے معمولی ہو، سوروپلی کماتا ہو یا ہزار۔۔۔ بمبیا فلموں کے مکان تو محل لگتے ہیں۔‘‘

    سنگی مترا کیا یہ سچ ہے۔۔۔ وہ چپ تھی۔۔۔ جسدیو کے ہنستے چہرے کو تک رہی تھی جسدیو نے اسے اپنے پاس کھینچا۔

    ’’کیوں نسگی؟ تم نے ایسے ہی کسی مکان کا تصور کیا تھا نا؟ اور نوکری کا خواب ٹوٹ گئے کیا؟ کیا لگتا ہے تمہیں؟‘‘

    سنگی مترا یک دم سے سنجیدہ بن گئی۔ ’’آج کی سنگی کیسی دکھائی دیتی ہے تمہیں؟ بار بار تم سے جرح کرنے والی؟ سوال کرنے والی؟ یہاں سے پیدا ہونے والے ڈھیر سارے سوالوں کو تمہاری آنکھوں میں دیکھنے والی؟‘‘

    سنگی نے سر اونچا کیا۔۔۔ ’’حافظہ کمزور ہے تمہارا جسدیو یا تو سب بھول جاتے ہو یا کہیں دل میں اپنے آج پر تھوڑا سا افسوس ہوتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ جسدیو چونکا۔

    سنگی مترا ہنس دی۔ ’’بس ایسے ہی۔ ورنہ تم اپنی سنگی سے یہ تو نہیں پوچھتے۔ ایسے پوچھتے ہو جیسے اسے جانتے ہی نہیں۔‘‘

    جسدیو ہنس دیا۔ لیکن پھر سنجیدہ بن گیا۔۔۔ ’’اکلوتے‘‘ کمرے کے بکھراؤ پر ایک نظر ڈالی۔ صفائی تھی۔ لیکن کباڑ اپنی جگہ تھا۔ چیزیں تھوڑی سی ہوں۔ مگر کمرہ ایک ہو تو بکھرا بکھرا سا لگتا ہے۔ سنگی کو اپنے گھر کا سجا ہوا بیڈروم ڈرائنگ روم یاد آ جاتا۔ چمچماتے فرش کو جب بھی چاہو۔ ’’انگلی‘‘ لگا کر دیکھ لو۔ ایک ذرا گرد کا نام و نشان نہیں۔

    ’’پھر بھی سنگی! تھوڑا سا افسوس تو ہوتا ہو گا؟‘‘

    جسدیو نے پینٹ شرٹ دیوار پر گڑی کھونٹی سے لٹکا دی۔ اس نے نظر اٹھائی تو جسدیو ہنس دیا۔

    ’’یقین نہیں آتا تم وہی ہو اپنے بمل مترا کی لڑکی سنگی مترا۔‘‘

    *

    کھونٹی سے ٹنگے شوہر کے، شکن آلود قسم کے کپڑوں کو دیکھ کر بھی کچھ ٹوٹتا نہیں کیا تمہارے اندر؟ ایک ہی کمرے میں گوہ سے موت تک کے سارے سامان۔۔۔ یہ کھولی بھی تو مشکل سے ملی ہے سنگی مترا۔

    اس نے ایک بے مطلب سا قہقہہ اچھالا۔ یہاں سب کو لال اور ہری جھنڈیاں کھنچ لاتی ہیں سنگی۔ سپنوں کی لال اور ہری جھنڈیاں۔۔۔ لکھتا تھا نا؟ سوچتا تھا چانس تو بمبئی میں ہے۔ چھلانگ لگا دو اور سبھاش گھئی کو پکڑ لو۔۔۔ ایک ہٹ کہانی کا آئیڈیا سنا دو۔ اپنی بنگالی فلموں کا اتنا ڈیمانڈ نہیں ہوتا نا۔۔۔ بمبئی کی بات ہی اور ہے۔ ایک دم سے ایک ہی بار میں سپرہٹ۔۔۔ نئیں۔۔۔؟ بمبئی کے کتنے ہی ہیرو سپر اسٹار بننے سے پہلے ان ہی کھولیوں میں رہا کرتے تھے سنگی۔ این چندرا سے جیکی شیروف تک اور یہاں آ کر بارہ سو روپلی کی چکی پیس رہا ہوں۔

    *

    اس نے نظریں جھکا لیں اور جیسے سنگی مترا کے بدن کو نظر کے ہر زاویے سے تول لیا۔ خوبصورت پر کشش جسم، جسم پر معمولی نوعیت کی ساڑی۔ سانولا چہرہ۔ گہری اور اندر تک اتر جانے والی آنکھیں۔ بکھرے ہوئے بال۔ غضب کی سادگی۔

    *

    ’’دکھ ہوتا ہے۔‘‘

    سپنوں کی پتھریلی سڑک پر چلتے ہوئے تیرے ساتھ کیا کیا سوچا تھا۔

    اور کیسے کیسے تصورات کے مکان آباد کئے تھے۔ ایسے ہوتا۔۔۔ کاش ایسا ہوتا!

    اور ہر ایسا ہوتا کہ بعد ایسا ہوتا کا ایک لمبا سلسلہ۔۔۔ وہ قریب کھسک آئی۔ چہروں کے درمیان ہونٹ چھو لینے بھر کا فاصلہ رہا۔ آنکھیں آنکھوں کے پاس لہرائیں۔‘‘

    سنگی مترا ہولے سے مسکرا دی۔۔۔ ’’سنو! تم وہی جسدیو ہونا؟‘‘

    وہ شرارت سے ہنسی۔۔۔ یاد ہے تین چار ملاقاتوں کے بعد تم نے کیا کہا تھا؟ تم اتنی سجی ہوئی کیوں رہتی ہو سنگی مترا؟ سچ تو یہ ہے کہ سجنا مجھے کبھی پسند نہیں تھا۔ صرف تمہارے لئے، تمہاری آنکھوں میں بسنے کے لئے۔۔۔ بندی بھی لگا لی تھی اور۔۔۔ یاد ہے تم نے کیا کہا تھا۔۔۔ مجھے تو سب کچھ بکھرا بکھرا پسند ہے۔ بکھری چیزیں، کمرہ کتابیں اور بکھری بکھری سی عورت۔۔۔ یاد ہے۔۔۔؟ دھت۔ دوسرے دن ہی میں ہمیشہ والی سادگی میں تمہارے سامنے تھی۔ تم ہنسے تھے۔ بس ایسے ہی رہنا سنگی ہمیشہ۔۔۔‘‘

    سنگی چپ ہو گئی۔

    جسدیو نے پوچھا۔ ’’یہ گزرا ہوا کیوں یاد آیا تمہیں؟‘‘

    ’’تم نے سپنوں کی پتھریلی سڑک کی بات کی نا اور دکھ کے کنکر چنے، اس لئے۔‘‘

    سنگی ایک بار پھر قہقہہ بار تھی۔ ’’سنو! ایک بات پوچھوں؟‘‘

    ’’پوچھو۔۔۔‘‘

    ’’اپنے آپ کو ترقی پسند کہتے ہونا، تم لوگ؟‘‘

    ’’کہتا ہوں کیا مطلب۔۔۔؟ جسدیو بگڑا ’’یہ تو آئیڈیولوجی کی بات ہے۔‘‘

    ’’بکواس۔۔۔ سب ڈھونگ ہیں تمہارے۔ کھانا نہیں بناؤں گی آج۔ بھوکے رہنا۔‘‘

    جسدیو نے اس کی چوٹی کھینچی۔۔۔ ’’سنگی کی بچی۔ کھانے کی بات چھوڑ۔ یہ آئیڈیا لوجی پر چوٹ کیوں کی؟‘‘

    ’’آں پہلے چوٹی چھوڑو۔۔۔‘‘ درد کی ہلکی سی شکن اس کے چہرے پر ابھری۔ سنگی اٹھ کھڑی ہوئی۔ کھانا نہیں بنا تو الٹا نقصان اسی کا ہے۔۔۔ ’’چلو۔۔۔ چلتی ہوں کھانا بنانے۔‘‘

    اس نے آگے بڑھنا چاہا تو جسدیو غصّے میں آگے تن گیا۔

    ’’سنگی کی بچی۔‘‘

    ’’پی۔ پریکٹیکل یہ ہر وقت کا جھگڑا اچھا نہیں لگتا۔‘‘

    سنگی نے ننگے پاؤں سے زمین کھجائی۔۔۔ جو کل تھا، جو کل کی باتیں تھیں۔ روزی، روٹی اور پریشانیوں کو آج سے جوڑتے ہوئے جب تم اس کل پر انگلی اٹھاتے ہو تو بہت چھوٹے لگتے ہو۔۔۔ اپنے قد سے بہت کم۔۔۔ جانے دونا۔۔۔ بہت کام پڑے ہیں۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔‘‘

    بُرا نہیں مانوگے نا۔۔۔؟

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’لفظوں میں اور حقیقت میں فرق ہوتا ہ جسدیو۔۔۔ تم اور تمہارے دوست کبھی کبھی سب مجھے دوغلے لگتے ہو۔‘‘

    جسدیو ن حیرت سے دیکھا۔ مگر تب تک سنگی باتھ روم کا دروازہ بند کر چکی تھی۔

    *

    بارہ سو روپلی سے پہلے کلکتہ کی سڑکیں ناپتے ہوئے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ آنے والے دنوں میں کبھی حقیقت کے اس پل صراط سے بھی گزرنا پڑ سکتا ہے۔۔۔ نازک سی عمر۔۔۔ احساس اور جذبات کے نرم نرم روئی کے گالے۔۔۔ اور شعر و شاعری، جو جنم سے ورثے میں ملی تھی۔۔۔ جو آنکھ کھلتے ہی اس نے بنگالی تہذیب میں گھلا ملا پایا تھا۔ نازک سی عمر اور کالج کا زمانہ۔۔۔ کلکتہ کی مصروف تین سڑکیں۔۔۔ ٹرام اور گاڑیوں کے شور۔۔۔ غریبی اور بے روزگاری کے قدم قد پر کچلے ہوئے جسم اور۔۔۔ کلکتہ۔۔۔ رکشے میں جتا آدمی۔۔۔ بھیڑ میں پھنسا آدمی۔۔۔ اور ننگا ساکلکتہ۔۔۔ بےحال سا کلکتہ۔۔۔ جینس کا پینٹ، کھا دی کا کرتا اور کندھے سے جھولا لٹکائے۔ تب سارا سارا دن وہ کلکتہ کی سڑکیں ناپ رہا ہوتا۔ تب اس نے پہلی کویتا (نظم) لکھی تھی۔۔۔ رکشے میں جتا ہوا بہاری۔۔۔ پھر اس نے ہوڑہ کے جوٹ ملس میں کام کرنے والے ایک بوڑھے مزدور سے متاثر ہو کر دوسری کویتا لکھی۔ یہ کویتا بھی بہت مقبول رہی۔۔۔ پھر سنگی ملی تھی۔ سنگی مترا۔۔۔ تب درد کو نیا نیا پالنے کا شوق ہوا تھا۔۔۔ گلیمر۔۔۔ سامنے تمہاری پسند کی ایک خوبصورت لڑکی بیٹھی ہو۔ لڑکی پڑھی لکھی ہو۔۔۔ ذرا اس درد کو اچھی طرح الفاظ میں اتار کر

    تو دیکھو۔ آنکھیں بند کر کے۔۔۔ مسکرا کر۔۔۔ خوبصورت معنی خیز الفاظ میں اتار کر۔۔۔ وہ بہاری رکشے والا۔۔۔ جوٹ ملس کا وہ بوڑھا مزدور۔۔۔ سنگی مترا۔۔۔ مجسم مورت بنی اس کے لفظوں کے سحر میں کھوئی تھی۔

    ’’آؤ سنگی۔‘‘

    اس نے شام کے ڈھلتے سایوں میں اپنے سایوں کا عکس دیکھ لیا۔ آؤ سنگی چلتے ہیں۔ اصل کلکتہ تو یہاں بت ہے۔ جوٹ ملس کے اس مزدور میں۔ آدمی کو ڈھونے والے اس بہاری مزدور میں۔۔۔ سردی ہو، برسات ہو یا گرمی۔ راتوں کو فٹ پاتھ آباد کئے لاکھوں بے گھر غریبوں میں، جنہیں کلکتہ واسی کہلانے کا بھی کوئی حق نہیں۔‘‘

    سنگی جیسے حیرت زدہ تھی۔ اس نے غور سے جسدیو کو دیکھا۔ ایسے کہ میوزیم سے اٹھ کے جیسے کوئی شاہکار اس کے سامنے آ گیا ہو، یا پھر اس نئے زمانے میں اس نے کسی شخص میں اربندو گھوش یا ٹیگور کو دیکھ لیا ہو۔

    ’’تم۔۔۔ جسدیو تم؟‘‘

    ’’سنگی۔۔۔ میرا ہاتھ تھام لو۔‘‘

    *

    شہر کی پرچھائیوں میں سمٹتے ہوئے اسے کتنی ہی بار محسوس ہوا۔ سنگی نے چند لمحوں میں جیسے اسے ہزاروں لاکھوں بار دیکھنے اور پڑھنے کی کوشش کی ہو۔۔۔

    خوابوں کے ہزاروں دروازے تھے اور خوشبوؤں میں ڈوبا ہر دروازہ بمبئی کی طرف کھلتا تھا۔

    اس نے سنگی کی طرف دیکھا۔۔۔ ’’میری کویتا کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ہے سنگی۔‘‘

    سنگی مسکرائی۔۔۔ وہ کیسے؟‘‘

    ’’کل صرف آوارہ سڑکیں تھیں اور ملک کی غریبی۔۔۔ اب روزگار ہے اور میری اپنا کیرئیر‘‘جسدیو ہنسا۔ ’’ایک بات کہوں۔۔۔ آدمی ڈھونے والے اس بہاری مزدور کا چہرہ بھی کچھ دھندلا سا پڑ گیا ہے اور جوٹ ملس والا بوڑھا اچانک کہیں غائب ہو گیا۔۔۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے سنگی؟‘‘

    سنگی مترا ہنسی نہیں۔ اس نے غور سے جسدیو کو دیکھا۔۔۔ بےجان بت کی طرح اس کے سینے پر بچھ گئی۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ ’’ایک آنکھ میں کتنی آنکھیں ہوتی ہیں جسدیو۔ ایک چہرے میں کتنے چہرے؟‘‘

    ’’سنگی!‘‘

    ’’خواب تو ب پہلی سیڑھی دیکھنے تک سہانا رہتا ہے جسدیو۔ سیڑھی دیکھ لی اور پہلی سیڑھی پر چڑھنے کی نوبت آ گئی تو۔۔۔ پچھلا سب باسی اور کوڑا لگنے لگتا ہے ایسا ہوتا ہے نا۔۔۔ !

    *

    بمبئی۔۔۔

    کھولی کے دروازے تک جو گندھ پھیلی تھی ہمت اور حوصلے کے بیچ وہ گندھ اسے کہیں سے بری نہیں لگی تھی۔ ہاں برے لگے تھے تو آس پاس کے لوگ۔۔۔ وہ بوڑھا قدوس اور وہ رحمت کباڑیا۔۔۔ ’’کہاں سے آنا ہوا بائی۔۔۔ کلکتہ۔۔۔

    ’’تمہارے ہسبنڈ کیا کرتا بائی۔۔۔ پھلم میں گانا لکھنے کو مانگتا۔۔۔ آئیں۔‘‘

    آئے دن کے ان تذکروں سے اندر ہی اندر زخمی ہوا تھا جسدیو۔۔۔ وہ جیسے تسلی کے لئے لفظ جوڑتا۔۔۔

    بس کچھ دن کچھ ہی دنوں کی بات ہے سنگی۔۔۔

    اسے لے دے کر بس یہی غم کھائے جاتا۔۔۔ ایک کمرے کی کھولی، بکھرا ہوا سامان۔ آس پاس کے گندے لوگ۔۔۔

    ’’سنگی! تمہاری کہیں اور شادی ہوتی تو۔۔۔؟‘‘

    وہ مسکرا کر کہتی۔۔۔ ’’جسدیو! ہم نے لو میرج کی ہے۔ یہ کیوں بھول جاتے ہو۔ تم سنگھرش کرو۔ سنگھرش کرنے میں شرم کیسی؟‘‘

    اس دن پہلی بار وہ ابھتوش سے ملی تھی۔ تذکرے تو جسدیو سے کافی سن چکی تھی۔ لیکن ملی تھی پہلی بار۔۔۔ اور پہلی ہی بار میں ابھتوش نے یہ احساس نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ اجنبی ہیں۔

    ’’کیوں بھابی۔ بمبئی پسند آیا۔۔۔‘‘

    ابھتوش ہنستا تھا۔ کچھ عجیب تو نہیں لگا۔۔۔ زندگی میں ہر طرح کے تجربے تو ہونے ہی چاہئیں۔ ان تجربوں سے گزر کر ہی انسان ہونے کا درد جاگتا ہے۔ پہلی بار جب بمبئی آیا تھا تو میرا ایک دوست یہاں ایک چال میں رہتا تھا۔۔۔ مجھے بھی جگہ مل گئی کیوں؟ جسدیو تو پھر بھی مجھ سے بہتر تھا۔

    *

    پہلی بار میں ہی ابھتوش کا گہرا رنگ اس پر چڑھا تھا۔

    ابھتوش روانی میں بول رہا تھا۔ ’’چال میں کیسے کیسے رنگ تھے اور کیسی کیسی دنیا آباد تھی۔ رشتوں کی نازک ڈال کے بیچ شرم وحیا کے زیور نہ تھے۔ وہاں ایک دوست بنا تھا رگھو۔ پانچ روپے کا ٹھرا پلا دو، پھراس کا ٹیپ آن۔۔۔ کہتا تھا بہو کی ننگی ننگی ٹانگیں دیکھے باپ۔ بہو بیٹے کا ملن بھی دیکھے ایسا اپنا چال۔ رہو وہیں، موتو وہیں۔۔۔ کھاؤ وہیں۔ وہی سنڈاس جیسا کمرہ اور دس دس افراد یہی اپنا چال۔

    سنگی مترا سناٹے میں تھی۔

    ’’پہلی بار۔۔۔ اپنے درست ہاتھ پیر دیکھ کر لگا تھا۔ بھابی، ہم کتنے خوش قسمت ہیں۔ یہاں تو جینے کو جانور بننا پڑتا ہے۔ ڈرین پائپ میں لیٹنے کا بھی ٹیکس لگتا ہے۔۔۔

    *

    ابھتوش چلا گیا۔۔۔ سنگی اس پوری رات حیران و پریشان رہی۔ وہی بکھرا سا کمرہ۔ لیکن اس دن ابھتوش کے جانے کے بعد اس نے اطمینان کی ٹھنڈی سانس بھری۔ خوب خوب پیار کیا جسدیو کو۔

    ’’ایسی کیا بات ہے، جسدیو حیران تھا۔ پھر وہ بتانے لگا، سیریلس بھی لکھنے کے آفر ملنے لگے ہیں۔ کوکیز، ٹیلی فلم، مارننگ، آفٹرنون ٹرانسمیشن کے لئے۔۔۔ وہ ہنسا۔۔۔ یہاں رائٹر تو بہت ہیں، اسکرپٹ رائٹر کم ہیں۔‘‘

    جسدیو نے سنگی کی آنکھوں میں جھانکا۔

    سنگی جیسے خود سے بولی۔ ’’دھیرے دھیرے مجھے اس کمرے کی سیلن اور بدبو سے پیار ہوتا جا رہا ہے۔‘‘

    *

    اس دن شاپنگ کے لئے ابھتوش کے ساتھ وہ دو قدم چلی تھی۔ کھوسٹ قدوس اور رحمت کباڑیے نے دونوں کو دیدے نکال کر دیکھا۔۔۔

    بائی۔۔۔

    آواز جیسے جلتے سیسے کی طرح اس کے کان میں اتری۔۔۔

    ابھتوش نے پلٹ کر اس کے چہرے کی شکن دیکھ لی تھی۔۔۔

    ’’ان نفرت رنگوں کو وہیں چھوڑ دیا کرو بھابھی۔‘‘

    اس روز وہ سارا دن غصّے میں رہی۔ کھولی اور آس پاس والوں پر غصہ آتا رہا۔ جسدیو خوب ہنسا تھا۔ لیکن وہ جانتی تھی کہ یہ ہنسی کتنی مصنوعی تھی۔

    جسدیو نے اس کا مذاق اڑایا۔

    ’’سنگی مترا، یہ تمہاری پرواز کہاں کھوتی جا رہی ہے۔‘‘

    لیکن اس بار چوکنی نہیں سنگی مترا۔ طنز سے مسکرائی۔ ’’بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی جسدیو۔ شہزادی راستہ بھول جاتی ہے۔ راستہ بھول کر وہ غلطی پر غلطی کرتی جاتی ہے۔ تم جسدیو۔۔۔ تو جیسے لوگوں کے پاس کوئی آئیڈیالوجی تھی بھی کیا؟ یا سب روماٹیسیزم۔۔۔ کوری رومانٹیسیزم۔۔۔

    وہ ہنسی۔۔۔ پہلے تم یا تمہارا درد نہیں، کتابیں بولتی تھیں۔۔۔ اس لئے کہ بیکار تھے تم۔ اور ٹھوسنے کے لئے ایک گھر تھا تمہارے پاس۔ جیب خرچ کا بار اٹھانے ک لئے بابو جی تھے۔ اب اپنے لئے تم خود ہو جسدیو۔ تو تمہارا درد وہیں رہ گیا ہے۔ جوٹ ملس کے اس بوڑھے کے پاس یا رکشہ ڈھونے والے اس بہاری مزدور کے پاس۔‘‘

    جسدیو نے بات بدلی۔ ’’ڈیڑھ سال میں کتنا بڑا فرق آگیا۔ اب تم لڑنے بھی لگی ہو۔۔۔‘‘

    *

    سنگھرش کے پاؤں اوبڑ کھابڑ زمینوں پر بڑھتے رہتے تھے۔ جسدیو کو دھیرے دھیرے کام ملنے لگا تھا۔ اس بیچ صرف ایک بات ہوئی۔ دو ماہ کے لئے وہ اپنے گھر گئی تو اماں نے سر جو کو ساتھ کر دیا۔۔۔ جو وہاں اماں کا سارا کام دیکھتی تھی۔ اماں کا ہاتھ پیر سب کچھ تھی۔ لیکن وہ۔۔۔ اماں کی پہلی لڑکی تھی نا۔۔۔ اماں کی دلاری۔۔۔ اور اماں نے اس کے پیٹ میں دھیرے دھیرے چھوٹے چھوٹے پاؤں نکالتے بچے کا لمس محسوس کر لیا تھا۔۔۔

    ’’حماقت مت کر سنگی۔۔۔ یہ آرام کا سمے ہے۔ جسدیو کو بھی سمجھا دینا۔‘‘

    ’’نہیں اماں۔۔۔؟‘‘

    اماں نے بات کاٹ دی۔۔۔ ’’جانتی ہوں سب۔۔۔ ایک کھولی ہے تمہارے پاس۔ ایک جن بڑھ جائے تو کوئی فرق نہیں پڑےگا۔‘‘

    سرجو۔۔۔

    عجیب سا لگتا ہے نا؟ پیٹ کا بچہ جب دھیرے دھیرے اندر پاؤں پسارتا ہے تو؟ عجیب سی گدگدی مچتی ہے پورے وجود میں۔۔۔ جسدیو۔۔۔ وہ گنگناتے ہوئے ذرا پاس سمٹ آئی۔۔۔ دیکھ نا، ہلتا ہے یہ۔۔۔ گھومتا ہے۔۔۔ ناچتا ہے۔۔۔ پورے پیٹ میں۔۔۔ دھت۔۔۔ اسے خود ہی شرم آ گئی۔

    سرجو کہاں ہے۔۔۔ بالکنی میں۔۔۔ کمرے اور کچن کے بیچ نکلتی تھوڑی سی جگہ۔۔۔ اس دن رات کے وقت اچانک سامنے نکل کر کھڑی ہو گئی تھی سرجو۔۔۔

    ’’میم سائب، بائی رے برشٹی پورچھے بھیترو شوبو؟‘‘ (میم صاحب، باہر ٹپ ٹپ ہو رہی ہے۔۔۔ اندر سو جاؤں)

    سنگی جلدی سے بولی۔ ’’سوجاؤ۔۔۔‘‘

    سرجو کو حیرت تھی۔ ’’میم سائب۔ یہ کیسی جگہ تم آ گیا۔ یہاں سب بائی بولتا۔

    اس نے ڈانٹا۔۔۔ ’’اپنے کام سے کام رکھو سر جو۔۔۔‘‘

    ابھتوش نے بھی سرجو کا سواگت کیا۔ ’’تم نے تو کھولی کو محل بنا دیا بھابی۔ چلو اچھا ہے۔ جب تک تین نہیں ہو جاتے، باتیں کرنے کے لئے کوئی تو ہوگا تمہارے پاس۔‘‘

    ’’نامیں نے بمبئی میں نہیں رہنا زندگی بھر۔۔۔ ’’سنگی مترا نے منہ بنایا۔۔۔ ابھیتوش! یہاں تو صرف گدھ ہی گدھ نظر آتے ہیں مجھے۔‘‘

    ابھتوش نے سرجو کی طرف دیکھا، جو دھیان سے ٹکٹکی لگائے اس طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کا لہجہ یکایک بہت سنجیدہ ہو گیا۔ ’’گدھ نہیں بھابی۔ یہاں وہ جانور بستے ہیں جو اپنے طور پر اپنی زندگی گزارنے کا حق نہیں رکھتے۔ پیسوں سے اپنی خوشی بھی نہیں خرید سکتے۔۔۔ صرف تھکن۔۔۔ وہی بیچتے ہیں اوڑھتے ہیں۔۔۔ خریدتے ہیں پیتے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’میں نے انہیں گدھ کہا ہے۔۔۔‘‘ سنگی نے زور دیا۔

    وہی تو کہہ رہا ہوں۔۔۔ تم جنہیں دیکھتی ہو اور جیسا سمجھتی ہو، ویسا نہیں ہے۔ یہ آنکھیں خوشی ڈھونڈتی پھرتی ہیں بھابی۔ یہ خوشی کسی بھی ہنستے چہرے میں مل سکتی ہے۔

    سنگی مترا نے قہقہہ لگایا۔۔۔ ’’بشرطیکہ چہرہ لڑکی کا ہو۔‘‘

    سرجو سبزی لے کر کچن میں چلی گئی۔

    سنگی نے کچن کی طرف جاتی ہوئی ابھیتوش کی نظروں کا جائزہ لیا، جو اسی سنجیدگی بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا۔ ’’لیکن اس کے باوجود بھابی تم اسے بھوک نہیں کہہ سکتیں۔‘‘

    ’’بنو مت‘‘ سنگی نے منہ بنا لیا۔۔۔ ’’کان ایسے پکڑو چاہے ویسے۔۔۔ بھوک تو بھوک ہی ہوتی ہے۔ اپنی بیوی کے ہوتے دوسرے کی بیوی کی طرف جب گدھ جیسی نظر اٹھتی ہے نا۔۔۔‘‘

    ابھیتوش ہنسا۔۔۔ ’’تم کیوں چاہتی ہو بھابی کہ سب کچھ بدل جائے۔ سب نہ بدلے تب بھی کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘

    *

    پتہ نہیں کیوں اسے محسوس ہوا جیسے سرجو سبزی کاٹنے کا بہانہ لے کر ایک ٹک ابھیتوش کو دیکھتی رہی ہو اور ابھیتوش بھی باتوں کے درمیان سرجو سے باتیں کرنے کا جواز ڈھونڈتا رہا ہو۔۔۔ ’’کیوں سرجو۔۔۔ آج چپ کیوں ہو؟ طبیعت خراب ہے کیا؟ آج کیا بنا رہی ہو۔۔۔ چائے نہیں پلاؤگی۔۔۔؟

    ابھیتوش چلا گیا تو سنگی مترا نے سوچا۔ ایسا کیوں ہے؟ اس نے ایسا کیوں محسوس کیا؟ کہیں کوئی طلب تھی کیا؟

    نا۔۔۔؟ پھر۔۔۔ سرجو مستقل ابھیتوش سے سٹ کر بیٹھی رہی تھی۔ کہیں کوئی برسوں سے ٹھنڈی پڑی آگ تھی کیا جو ذرا سا بھڑکی تھی۔

    *

    اس دن تیز تیز بارش ہو رہی تھی۔ بالکنی سے ہو کر پانی کے چھینٹ اندر کمرے تک آ گئے تھے۔ آج صبح سے ہی سر جو کچھ زیادہ تیز آواز میں بول رہی تھی۔ بات بات پر سلگ اٹھتی تھی۔ غصہ ہو جاتی۔ ’’بنیا کے یہاں میں نہیں جاؤں گی میم سائب۔۔۔‘‘ دو دنوں سے پانی بھی نہیں آ رہا تھا۔ نیچے ہینڈ پمپ تھا۔ جسدیو تو رات میں آتا تھا۔ سرجو نے ہاتھ پاؤں پھیلا دیئے۔۔۔ کھانا کیسے بنےگا۔ ’’میں نہیں لاؤں گی پانی۔۔۔ اتنی اتنی سیڑھیاں ط کر کے نیچے جانا پڑتا ہے۔‘‘

    ’’سرجو۔۔۔‘‘

    اس نے سرجو کا جائزہ لیا۔ ساڑی کا آنچل ڈھلک گیا تھا۔ اس کا دودھیا پیٹ اب نظروں کے سامنے تھا۔ سنگی نے غور سے دیکھا، چولی کے بٹن تک ٹھیک سے نہیں لگے تھے۔ سرجو کے بدن سے آگ کی جھاس اٹھتی ہوئی محسوس ہوئی اسے، گرم گرم بھاپ۔

    ’’اے بھابے کی دیکھچن‘‘(ایسے کیا دیکھتی ہو میم سائب) سر جو فوراً پلٹی ایک بار اس نے ڈانٹا بھی۔ ’’تیز تیز آواز میں کیوں بولتی ہو سر جو۔ سیدھے منہ کیوں نہیں بولتی۔‘‘

    جسدیو آیا تو اس نے پوچھا۔ ’’یہ کیا ہو رہا ہے جسدیو۔ ایسا کیوں ہے؟‘‘

    جسدیو کچھ زیادہ ہی تھک گیا تھا۔ ’’تم تھکی تھکی سی لگ رہی ہو سنگی۔ سو جاؤ۔‘‘

    ’’میں تک گئی ہوں۔‘‘ سنگی نے جسدیو کے کھردرے ہاتھوں کو تھاما۔۔۔ سب کچھ بدل رہا ہے جسدیو۔ اس گھر کا ماحول۔۔۔ اور بھی بہت کچھ۔۔۔ پتہ نہیں یہ صرف میں محسوس کر رہی ہوں یا تم بھی اور بدلا ہے صرف۔۔۔‘‘

    جسدیونے انگڑائی لی۔۔۔ سر جو کے آنے سے۔‘‘

    وہ ایک دم سے چوکنی۔ ابھیتوش تو کہتا ہے کچھ نہ بدلے تب بھی کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ لیکن فرق تو پڑا ہے جسدیو۔ سرجو کے آنے سے کچھ تو فرق پڑا ہے۔

    *

    ابھیتوش کے بارے میں سنتی رہی تھی۔ سوشل ایکٹی وسٹ۔ صرف کہتا نہیں ہے کرتا بھی ہے۔ جسدیو اور اس میں اتنا فرق ہے۔ انقلاب صرف اس کے لئے بغاوت بھرا لفظ نہیں ہے بلکہ اس لفظ میں جیتا ہے۔ جسدیو خالی ہوتا تو ابھیتوش کی تعریف لے کر شروع ہو جاتا، وہ بھی ابھیتوش کو دیکھتی رہی تھی۔ بمبئی آنے کے بعد، اس کھولی میں رہنے سے لے کر اب تک۔ اتنا پیار اور دوست تو پردیس میں مشکل سے ہی ملتا ہے۔ جان چھڑکنے والا۔۔۔ ذرا سے درد پر بچھ جانے والا۔ انقلاب کے تیور تو وہ شروع سے ابھیتوش میں پڑھتی رہی تھی۔۔۔ اس کی سرگرمیاں۔۔۔ چل میں لڑائی ہوئی۔ جھونپڑیاں خالی کرانے آئے غنڈوں سے ہا تھا پائی کی نوبت آ گئی۔۔۔ مل میں ہڑتال شروع کروا دی۔ ابھتیوش خوب خوب ہنساتا، دنیا بھر کی باتیں لے کر بیٹھ جاتا، ان میں اپنے مسائل بھی ہوتے، دنیاوی خبریں بھی۔ روس میں لینن اور مارکس کی ہٹائی جانے والی مورتیوں کا بھی تذکرہ ہوتا۔

    جسدیو کی رومانی، لچھے دار گفتگو کے تاج محل تو بہت پیچھے چھوٹ گئے تھے۔ وہ سوچتی۔ سچ کیا ایسا ہوتا ہے سنگی مترا۔۔۔ وواہ (شادی) سے پہلے شوقیہ آنکھوں میں بسنے تک، لڑکی کے سامنے میل جیسے ادھیڑنے تک۔ ابھیتوش بھی کل۔۔۔ شادی کے بعد ویسا ہی ہو جائےگا جیسا جسدیو ہے۔۔۔ کتنی بار بے خیالی میں اس نے جسدیو کی کچھے (انڈر ویئر) سے جھانکتی پتلی پتلی ٹانگیں اور دبلے پتلے جسم کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔ ’’خوابوں کا بھرم کیوں ٹوٹتا ہے جسی۔‘‘

    جسدیو چونکا تو وہ ہنستی چلی گئی۔ ’’برا مت ماننا، وواہ نہیں ہوا تھا۔ تو تم سپنوں میں بار بار آنے والے ہیرو تھے میرے، جو شان سے لہراتا ہوا گھوڑے پر آتا ہے اور شہزادی کا دل جیت لیتا ہے۔۔۔ تب یہ کچھے سے جھانکتی پتلی پتلی ٹانگیں نہیں تھیں تمہاری۔ تب صرف تمہارے لفظ تھے اور ان لفظوں سے بنا ہوا ایک خوبصورت سنسار۔۔۔ مجھے لگتا ہے اس عمر میں سب مرد ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اب تمہارے بعد ابھیتوش کو پڑ رہی ہوں۔‘‘

    جسدیو ناراض ہوتا تو وہ اسے چڑھانے کے لئے بول دیتی۔۔۔

    ’’بی پریکٹیکل۔۔۔‘‘

    *

    ابھیتوش اور سرجو۔۔۔ کبھی کبھی اسے لگتا، کھولی اور آس پاس کے ماحول نے اس کے من میں گندگی بھر دی ہے۔ ایسی ایسی باتیں کیوں سوچتی ہے وہ۔۔۔ جن کا نہ سر ہوتا ہے نہ پیر۔۔۔ دو دو باتیں کر لینے سے کوئی برا تو نہیں بن جاتا۔۔۔ سرجو میں کیا سچ مچ کوئی مانگ جاگی ہے۔۔۔ یا ابھیتوش نے اس مانگ کو محسوس کیا ہے۔ غلط کیا ہے۔ یہ مانگ یا اس کا ایسا سوچنا یا ابھتیوش کے چہرے سے اٹھتی نقاب۔ سنگی مترا کچھ بدل رہا ہے۔۔۔ وہ قد آدم مورتی ٹوٹ رہی ہے جو تمہارے دلوں میں بستی ہے۔۔۔ ٹوٹ رہی ہے نا۔

    سرجو پوچھ رہی تھی۔ ’’آج جے دادا آسچھے جا۔ اونار جو ننودوئی ماچھ بانا چھی۔‘‘’’

    دادا وہ ابھیتوش کو کہتی ہے

    *

    سنگی چپ رہی۔ جواب نہیں دیا۔ دیوار گھڑی کی طرف دیکھا جو ٹک ٹک کرتی، جسدیو کے آنے کے وقت کا اشارہ کر رہی تھی۔۔۔ ٹک ٹک۔۔۔ صبح سے ہی وہ پیٹ کے درد کو لے کر پریشان تھی۔ محبت کے ان لمحوں کو پیٹ میں چھپائے کتنے ماہ گزر گئے۔ اب تو وہ ایک سنسنی خیز موڑ والی جذباتی سڑک پر کھڑی تھی۔ وہ اس کی آہٹ سنتی تھی۔ ننھے کومل کے سر کو محسوس کرتی تھی۔ جب وہ دھیرے دھیرے پیٹ میں ہاتھ پاؤں چلاتا۔

    زمانہ کتنا بدل گیا بھابی۔ ابھیتوش نے اس دن ہنستے ہوئے اس کے پھولے پیٹ کو دیکھ کر گور کی (مشہور روسی ناول نگار میکسم گورکی) نئے انسان کی پیدائش کا قصہ سنایا تھا۔ مزدور عورت۔۔۔ تیز طوفان، بارش، وہ کسی نرسنگ ہوم میں نہیں گئی۔ کسی مڈ وائف کا سہارا نہیں لیا۔ بلکہ وہ تو نیا انسان تھا۔ طوفانی ہوا، مزدوروں کے گیتوں کے بیچ، موسلادھار بارش میں اس کا جنم ہوا تھا۔

    *

    لیکن وہ نیا انسان تو اس کے لئے بس خواب رہا۔۔۔ اور کچے خوابوں کا بھی کیا ہے؟ وہ نیا انسان تو اندر ہی انر ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گیا۔ کانوں میں کہیں بوڑھے کھوسٹ قدوس کا جملہ لہرایا۔۔۔ ’’بائی تیرے کو تو اس وقت گھر میں ہونا تھا بائی۔۔۔ وطن میں۔۔۔ یہ تو گیر ملک ہے۔۔۔ کھیال رکھنا۔‘‘

    گندگی صرف ذہن میں ہوتی ہے کیا؟ سوچنے میں۔۔۔ اس دن بھی تیز موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔۔۔ سرجو پریشان سی اس کے سامنے تھی۔۔۔ میم سائب۔۔۔ پلکیں موندنے سے پہلے اسے لگا، ابھیتوش اس پر جھکا ہے۔ سرجو، ابھیتوش میں دھیرے دھیرے کچھ باتیں ہو رہی ہیں، جسدیو تم کہاں ہو۔ ایک گھنے اندھیرے کا جنگل تھا۔۔۔ وہ ڈوبتی جا رہی تھی۔ نیا انسان۔۔۔ اسے لگا ہولے ہولے پر نکالنے والے بچے نے اندر لمبی خاموشی اوڑھ لی ہو۔ پھر ایک تیز درد اٹھا۔ درد سے کراہتے ہوئے وہ ہاتھ کو اندر نائیٹی میں لے گئی اور جب ہاتھ باہر آیا تو۔۔۔

    سنگی مترا۔۔۔ جیسے یکایک خوف سے نہا گئی۔۔۔ منہ سے تیز چیخ نکل گئی۔ اس کے دونوں ہاتھوں نئے انسان کے خون سے سنے تھے۔

    *

    بارش کب کی رک گئی۔ سنگی نے آنکھیں کھولیں تو پاس میں لگ بھگ جذبات سے کانپتا ہوا جسدیو کھڑا تھا۔۔۔

    سنگی۔۔۔ ! اس کی آواز کمزور تھی۔ وہ منہ چھپا کر وہیں بیٹھ گیا۔ سنگی نے بے من سے دونوں ہاتھ اس کی طرف بڑھائے۔ تبھی جیسے ایک چھناکا سا ہوا۔ اس نے چونک کر دیکھا۔

    سرجو کپڑے کی گٹھری لئے اس کے سامنے کھڑی تھی۔ آنکھوں میں بغاوت کے سرخ ڈورے تیر رہے تھے۔

    ’’میم سائب، آمی جاچھی۔۔۔ آمی باڑی جاچھی۔۔۔ آمی پھیروت جاچھی۔۔۔‘‘

    سنگی نے اٹھنا چاہا۔ رات کے دھندلکے میں سارا منظر سامنے تھا۔ پتھر جیسے چہرے سے اس نے سر جو کو گھورا۔۔۔

    ’’ابھیتوش کب گیا۔۔۔ کہاں گیا؟‘‘

    سرجو غصّے سے دہاڑی۔۔۔ ’’او آسے نا۔ کی لکھ نئے آسبے۔‘‘

    سنگی بت بن گئی تھی۔

    سرجو زار قطار رو رہی تھی۔ ’’میم سائب۔۔۔ جار سامی نیئی، سے ویشیا۔ جن کے پتی نہیں ہوتے کیا وہ رنڈیاں ہوتی ہیں میم سائب۔۔۔ دو بات کرنے کا مطلب کیا شریر سے کپڑا الگ کرنا ہوتا ہے۔ امی تو او کے مہاپرش سبھے بی چھلام۔۔۔ میم سائب ہم تو کھوس ہوتے تھے بابو کتنا پڑھا لکھا آدمی ہے۔۔۔ لیکن سب کتّے ہیں میم سائب۔۔۔ سب کو گوشت کی بوٹیاں چاہئیں۔ ماشر ٹکڑو اور دیر لکھے چھڑے پھیلو۔ آسول چہرہ بھیڑیے اسبے۔‘‘

    اس نے سرجو کو روکا نہیں۔

    سرجو کو جانا تھا، سرجو چلی گئی۔ سنگی پہلے پھوٹ پھوٹ کر نہیں روئی تھی۔ اس نے محسوس کیا تھا، بچے تو وہ اور پیدا کر لےگی۔ ابھی تو جسدیو کو خوش رکھنے کی ضرورت ہے، مگر بے وقت آئی آندھی نے اس کے وجود کے قلعے کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

    *

    ایک ہفتہ کے اندر سب کچھ معلوم پر آ گیا۔ لیکن اندر کے بکھراؤ کو روکتے روکتے سنگی اپنے چہرے کی سپیدی کو چھپا نہ سکی۔ اس دن کام پر جاتے ہوئے اس نے خود ہی جسدیو کے کپڑے نکالے، ناشتہ تیار کیا، جوتا آگے رکھا، کپڑوں کے بٹن لگائے۔ جسدیو حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ ہاتھ میں بریف کیس تھماتے ہوئے سنگی نے اپنی دونوں وحشت زدہ آنکھیں اس کی آنکھوں میں اتار دیں۔

    ’’سنو جسدیو۔‘‘

    اس کے لہجے میں کپکپاہٹ تھی۔ کچھ پوچھنا چاہتی ہوں تم سے۔۔۔

    ’’جیسے وقت کی سوئی ٹھہر گئی۔ جسدیو کے چہرے پر برف جیسا کچھ جم سا گیا۔۔۔

    ’’اوہو۔۔۔ ڈرو مت جسدیو۔۔۔‘‘

    اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور اندرونی چنگاریوں کو ایک ایک کر کے نکالنا شروع کیا۔ ’’میں پاگل ہو رہی ہوں جسدیو۔۔۔ جو پوچھتی ہوں اس کا خیال مت کرنا۔ صحیح صحیح جواب دینا۔۔۔ دیکھو میری خاطر کچھ چھپانا نہیں۔ تم مردوں سے وشواس اٹھتا جا رہا ہے میرا۔۔۔ پھر بھی یقین دلاتی ہوں میں۔۔۔ برا نہیں مانوں گی۔۔۔ عام زندگی میں تم کتنی عورتوں سے ملے ہو۔ ان سے تمہارے رشتے کس حد تک رہے ہیں۔ تم بس میں سفر کرتے ہونا۔ بس میں لڑکیاں تم سے ٹکراتی ہوں گی۔ تم بھی ٹکراتے ہو گے۔ ان کے انگ چھوتے ہوں گے۔ کبھی میرے سوا کسی اور کی مانگ نے جنم لیا ہے تمہارے اندر۔۔۔؟ جسدیو یقین کرو، میں ہرگز ہرگز برا نہیں مانوں گی۔۔۔ کبھی کسی کو دیکھ کر سوئی ہوئی بھوک لہرائی ہو۔ رات دن لڑکیوں سے سامنا ہوتا رہتا ہے تمہارا۔

    اس پر ہذیان طاری تھا۔

    ’’بولو جسدیو سچ تو یہ ہے کہ ساری ترقی پسندی ایک طرف۔ مردوں کے لئے ہم صرف گوشت کی بوٹیاں ہیں۔۔۔ مجھے بوٹیاں نہیں بننا جسدیو۔ میں مردوں میں تمیز نہیں کر پا رہی۔۔۔ اصول اور آدرش کی ساری کتابیں مجھے جھوٹی لگ رہی ہیں اور ان کے لکھنے والے بھی۔‘‘

    وہ اب تک اس کا گریبان پکڑے ہانپ رہی تھی۔۔۔ ’’میری تسلی کر ادو جسدیو۔۔۔ سچ میں برا نہیں مانوں گی جسدیو۔۔۔ میں برا نہیں مانوں گی۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے