Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حیرت فروش

غضنفر

حیرت فروش

غضنفر

MORE BYغضنفر

    کتابوں سے نکلتے ہی نگاہیں اشتہارں پرپڑنے لگیں۔ اشتہار اور انٹرویو کے چکرمیں وہ دربدرپھرنے لگا۔ اس چکر میں اسے چکر آنے لگے۔ آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا۔ پاؤں لڑکھڑانے لگے۔مگر ایک دن ایک اشتہار سے اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

    ’’ضرورت ہے حیرتوں کی۔ ایک ایک حیرت کا منہ مانگادام—حیرت فروش اس پتہ پر رجوع کریں۔‘‘

    (ادارۂ حیرت، عجائب خانۂ نو، کائنات گنج، آفاق نگر۔)

    وہ حیرتوں کی تلاش میں نکل پڑا———

    ایک جگہ ایک بے قصور جسم پر سڑاک سڑاک کوڑے برس رہے تھے۔ بےرحم چابک کی چوٹ پر کچے بدن کی نرم ونازک چمڑی جگہ جگہ سے ادھڑ رہی تھی۔ سفیدچربی پگھل پگھل کر باہر نکل رہی تھی۔ مظلوم کی چیخ وپکار پر زمین وآسمان دہل رہے تھے۔ لوگ تماشائی بنے کھڑے تھے۔ اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ کوڑوں کی مسلسل ضرب پر اس کا وجود جھنجھنا اٹھا۔

    آگے بڑھا تو ایک مقام پر———

    ایک بن بیاہی عورت ماں بنی بیٹھی تھی۔ ماں اور بچے دونوں کو سنگ سار کیا جا رہا تھا۔ پتھر مارنے والوں میں بچے کا باپ بھی شامل تھا۔

    اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ لرز اٹھا۔ کچھ اور آگے بڑھا تو دیکھا:

    کمان کی طرح جھکی رہنے والی گردن بندوق کی نال کی طرح تنی ہوئی تھی۔دینے والا ہاتھ پھیلا ہوا تھا۔ لینے والا دے رہا تھا۔

    اعجوبہ انداز دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔

    شہر شہر،قریہ قریہ، گاؤں گاؤں، گلی گلی گھوم گھوم کر اس نے بہت ساری حیرتیں جمع کیں اور ان حیرتوں کے عوض میں ملنے والی منہ مانگی رقم کے تصور میں جھومتا ہوا اداراۂ حیرت کے دروازے پر پہنچ گیا۔

    ’’جناب! میں حیرتیں لایا ہوں۔‘‘

    ’’کیا؟ حیرتیں لاے ہو؟‘‘

    ’’جی، بہت ساری حیرتیں لایا ہوں‘‘

    ’’دکھاؤ!‘‘

    ’’مجھے ان کے منہ مانگے دام ملیں گے نا؟‘‘

    ’’ضرور ملیں گے۔‘‘

    ’’آ پ سچ کہہ رہے ہیں نا؟‘‘

    ’’ہاں، ہاں، میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں مگر پہلے انہیں دکھاؤ تو۔‘‘

    ’’ابھی دکھاتا ہوں۔ لیجیے، یہ پہلی حیرت ملاحظہ کیجیے۔‘‘

    بن بیاہی عورت ماں بن گئی۔

    ’’دوسری دکھاؤ!‘‘

    جرم ثابت ہو جانے کے باوجود مجرم بری ہو گیا۔

    ’’تیسری دکھاؤ!‘‘

    قاتل کو انعام سے نوازا گیا۔

    ’’کوئی اور دکھاؤ!‘‘

    گلابوں پر گیندے کھِلے۔

    ’’کوئی اور!‘‘

    شاخ سے ثمر ٹوٹا زمین پر نہیں گرا۔

    ’’اور!‘‘

    پانی میں آگ لگ گئی۔

    ’’اور کوئی!‘‘

    سائبانوں سے دھوپ برستی ہے۔

    ’’اور‘‘

    آسمان زمین پر اتر آیا۔

    ’’اور‘‘

    زمین آسمان پر پہنچ گئی۔

    ’’کوئی اور‘‘

    ’’عجیب ہیں آپ! اور اور کی رٹ لگائے جا رہے ہیں مگر ایک بھی حیرت پر آپ کی آنکھیں نہیں پھیلیں۔ پیشانی پر کوئی لکیر نہیں ابھری۔ کیا یہ حیرتیں آپ کو حیرت انگیز نہیں لگیں؟‘‘

    ’’حیرتیں! حیرت انگیز! نہیں؟ مجھے تو نہیں لگیں۔‘‘

    ’آپ مذاق کر رہے ہیں جناب!’‘‘

    ’’نہیں، میں مذاق بالکل نہیں کر رہا ہوں۔‘‘

    ’’تو کیا سچ مچ یہ آپ کو حیرت انگیز نہیں لگیں؟‘‘

    ’’میں سچ کہہ رہا ہوں، مجھے ان میں حیرت کا شائبہ بھی نظر نہیں آیا۔‘‘

    ’’کہیں آپ کے حواس بیمار تو نہیں ہیں؟‘‘

    ’’نہیں، میرے حواس بالکل درست ہیں۔‘‘

    ’’نہیں صاحب! ضرور آپ کے حواس میں کوئی خرابی آ گئی ہے ورنہ———‘‘

    ’’نہیں بھائی! میرے حواس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ کہو تومیں اپنا ڈاکٹری معائنہ کراکر دکھا دوں۔ تب تو یقین کروگے نا؟‘‘

    ’’ہاں، معائنے کے بعد مجھے یقین آ جائےگا۔‘‘

    ’’تو ٹھیک ہے۔ آؤ میرے ساتھ۔‘‘ ادارۂ حیرت کا مینجر اسے لے کر ڈاکٹر کے پاس پہنچ گیا۔ مختلف طرح کی مشینوں سے مینجر کے حواس کی جانچ ہو گئی۔ ڈاکٹر رپورٹ دیکھ کر مینجر سے بولا۔

    ’’آپ کے حوا س بالکل صحیح ہیں۔ کہیں کوئی خرابی یا خامی نہیں ہے۔‘‘

    ’’رپورٹ سن کر اس نے ڈاکٹر کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا‘‘

    ’’تعجب ہے! ان کے حواس میں کوئی خرابی نہیں، پھر بھی انہیں حیرتیں حیرت انگیز نہیں لگتیں ۔مگر یہ کیسے ہو سکت اہے؟‘‘ اس نے ڈاکٹر کو مخاطب کیا۔

    ’’ڈاکٹر صاحب! یہ حیرتیں جن پر میں اب تک حیران ہوں۔ جنھیں دیکھ کر میری آنکھیں جل جل گئی ہیں۔ پلکیں بھیگ بھیگ گئی ہیں۔ چہرہ بگڑ بگڑ سا گیا ہے۔ دل دھڑک دھڑک اٹھا ہے۔ دماغ ماؤف سا ہوگیا ہے۔ وجود لرز لرز اٹھا ہے، ان کے لیے ان میں حیرانی کی کوئی بات ہی نہیں ہے؟ ———سمجھا! یہ ضرور کوئی ڈراما کر رہے ہیں تاکہ میری اتنی ساری حیرتوں کے منہ مانگے دام نہ دینے پڑیں۔ ڈاکٹر صاحب!میں نے انہیں بڑی مشقّت اور مشکل سے جمع کیا ہے۔ برسوں تگ ودو کی ہے۔‘‘

    دھوپ میں خود کو تپایا ہے۔

    بارش میں جسم کو بھگویا ہے۔

    تن من پر کڑاکے کی سردیاں جھیلی ہیں۔

    تنگ وتاریک راہوں میں ٹھوکریں کھائی ہیں۔

    روحانی اذیتیں برداشت کی ہیں۔

    تب جاکر یہ میرے ہاتھ لگی ہیں۔ ڈاکٹر !ان سے کہیے کہ اگریہ منہ مانگے دام نہیں دے سکتے تو اپنی مرضی سے جو چاہیں دے دیں، میں اسی پر قناعت کر لوں گا مگر————— ’’دیکھو! میں کوئی ڈراما و راما نہیں کر رہاہوں اور نہ ہی میری نیت میں کوئی کھوٹ ہے۔ تم جو کچھ اپنے ساتھ لائے ہو اگر یہ حیرتیں ہوتیں تو میں واقعی تمھیں منہ مانگے دام دیتا—— اچھا، اگر تم کو مجھ پر یقین نہیں آ رہا ہے تو میں لوگوں کو جمع کرتا ہوں تم انہیں ان کے سامنے رکھو۔ اگر وہ انہیں حیرت تسلیم کر لیتے ہیں تومیں تم جو مانگوگے، دینے کے لیے تیار ہوں۔‘‘

    مینجر نے لوگوں کو جمع کیا۔ ایک ایک کرکے اس نے ساری حیرتیں ان کے سامنے رکھ دیں مگرکسی بھی حیرت پر کوئی آنکھ نہیں پھیلی۔ کسی بھی چہرے پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوا۔اس کی حیرانی اور بڑھ گئی۔کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے اپنے شہبے کا اظہار کیا۔

    ’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ تمام لوگ کسی دباکے شکار ہوں؟سب کے حواس بیمار پڑ گئے ہوں؟‘‘

    ’’تمہارا یہ شک بھی ہم دور کیے دیتے ہیں——‘‘اس نے ڈاکٹر کو مخاطب کیا۔

    ’’ڈاکٹر! پلیز ان سب کا معائنہ بھی کر دیجیے۔‘‘

    تمام لوگوں کا بھی معائنہ ہو گیا۔ کسی میں کوئی خرابی نہیں نکلی۔

    پھیل کر اس کے دیدے اور بڑے ہو گئے۔

    ’’کہیں ایسا تو نہیں کہ جانچ مشین ہی خراب ہو؟‘‘ اس کے ذہن میں ایک اور اندیشے نے سر اٹھایا۔

    ’’تمہارا یہ شک بھی ہم دور کرا دیتے ہیں، مشینوں کو بھی جانچ کر دیکھ لیتے ہیں۔‘‘

    مشینوں کی بھی جانچ ہو گئی۔ مشینیں ٹھیک تھیں۔

    اس کا سر ندامت سے جھک گیا۔

    ’’مجھے افسوس ہے نوجوان کہ تمہاری محنت رائیگاں گئی۔ ایک بار پھر کوشش کرو۔ ممکن ہے دوسری بار کامیاب ہو جاؤ۔‘‘

    احساس ناکامی اور ندامت کے بوجھ کے ساتھ وہ وہاں سے لوٹ آیا مگر اس کی تلاش جاری رہی۔ اسے وہ تمام حیرتیں پھر سے دکھائی پڑیں جنھیں وہ اداراۂ حیرت میں چھوڑ آیا تھا۔ ان کے علاوہ اس نے یہ بھی دیکھا:

    باپ بیٹی کے ساتھ زنا میں مشغول تھا

    بیٹا ماں کے اوپر سوار تھا

    رہبر رہزنی کر رہاتھا

    محافظ تحفظ کا گلاگھونٹ رہا تھا

    اندھادیکھ رہا تھا

    آنکھ والا ٹھوکرکھا رہا تھا

    لنگڑا دوڑ رہا تھا

    پاؤں والا گرا پڑا تھا

    لولھا مال وزر بٹور رہا تھا

    ہاتھ والا دست نگر تھا

    دریا کوزے میں بند تھا

    زہر بےاثر تھا

    صدا بےصوت تھی

    سرخ سفید تھا

    سفید سیاہ تھا

    مگر کسی بھی حیرت پراس کی آنکھیں نہیں پھیلیں۔ چہرے پر لکیرنہیں ابھری ۔پیشانی پر بل نہیں پڑا۔ دل کی دھڑکن تیز نہیں ہوئی۔سماعت نہیں لرزی۔ دماغ ماؤُف نہیں ہوا۔ اسے اپنے آپ پر تعجب ہوا۔ اسے محسوس ہوا جیسے اس کے حواس بےکار ہو گئے ہوں۔

    وہ حیرتوں کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹکتا رہا۔ کہیں بھی کوئی حیرت ہاتھ نہیں آئی۔کئی برس بیت گئے——آنکھوں میں اندھیرا گھلنے لگا۔ مایوسیاں دل ودماغ میں ڈیراڈالنے لگیں۔ ایک دن ایک حادثے پر نظرپڑی۔ اسے اس پرحیرت کا گمان ہوا۔ وہ اپنی پھیلی ہوئی آنکھوں میں اس حادثے کوسمیٹے اداراۂ حیرت کی طرف بھاگا۔

    ’’تم کون ہو؟‘‘

    ’’میں وہی ہوں جو برسوں پہلے بہت ساری حیرتیں لے کر آیا تھا مگر میری ایک بھی حیرت نہیں بِکی تھی۔‘‘

    ’’اب کس لیے آئے ہو؟‘‘

    ’’پھر حیرت لے کر آیا ہوں۔‘‘

    ’’دکھاؤ!‘‘

    ’’کسی کی قابلیت اس کے کام آ گئی۔‘‘

    ’’کیا؟ قابلیت بار آور ہو گئی؟‘‘مینجر کی آنکھیں پھیل گئیں۔

    ’’جی ہاں، میں سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘

    ’’اب کے تم واقعی حیرت لے کر آئے ہو؟ جاؤ! کیشیئر سے اس کی منہ مانگی قیمت وصول کر لو مگر جانے سے پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ یہ حیرت تمھیں کہاں ملی؟ اگرتم خود ہماری رہنمائی کر سکو تو اس کا ہم تمھیں الگ سے معقول معاوضہ دیں گے۔‘‘

    ’’ضرور‘‘ اس نے کیشئیر سے قیمت وصول کی اور ان کی رہنمائی کرتا ہوا جائے وقوع تک پہنچ گیا۔

    ’’ہم لوگ اداراۂ حیرت سے حاضر ہوئے ہیں۔‘‘ مینجرنے تعارف کرایا۔

    ’’فرمائیے!‘‘ اس جگہ کسے افسر اعلا نے ان کے آنے کا سبب دریافت کیا۔

    ’’ہم لوگ آپ کو سَمّانِت کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

    ’’سمانت کرنا چاہتے ہیں! مگر کیوں؟‘‘

    ’’اس لیے کہ آپ نے ایک حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا ہے۔‘‘

    ’’حیرت انگیز کارنامہ! کون سا کارنامہ؟‘‘

    ’’آپ نے ایک شخص کی لیاقت تسلیم کر لی۔ اسے اس کی قابلیت کا ثمرہ دے دیا۔‘‘

    ’’ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ یکایک افسر کے منہ سے قہقہوں کا فوارہ ابل پڑا۔

    ’’آپ ہنس رہے ہیں؟‘‘ اداراۂ حیرت کے کارکن اسے اس طرح دیکھنے لگے جیسے کوئی ایک اور اعجوبہ ان کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا ہو۔

    ’’ہنسوں نہیں تو اور کیا کروں صاحب؟‘‘مشکل سے افسرنے اپنی ہنسی کو روکا۔‘‘

    ’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا؟‘‘مینجر کی حیرانی اور بڑھ گئی۔

    ’’جناب! اس قابل شخص کا انتخاب اس لیے نہیں ہوا کہ وہ قابل تھا؟‘‘

    ’’پھر؟‘‘

    ’’دراصل ہم اپنے سابقہ عمل سے اوب چکے تھے۔ یہ تبدیلی ویسی ہی ہے جیسے ہم اپنے پرتکلف دسترخوان پر کبھی چٹنی روٹی کی فرمائش کر بیٹھتے ہیں۔‘‘

    رکا ہوا فوارہ پھر سے جاری ہو گیا۔

    اداراۂ حیرت کے مینجر اور اس کے کارکنوں کی پھیلی ہوئی آنکھیں ایک دم سے سکڑ گئیں۔ جیسے یکایک کوئی نشتر چبھو کر ان کے دیدوں کے اندر سے ڈلے ٹکالے لیے گئے ہوں۔

    (افسانوی مجموعہ حیرت فروش از غضنفر، ص 48)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے