Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حلقہ مفرغہ

محمد ہمایوں

حلقہ مفرغہ

محمد ہمایوں

MORE BYمحمد ہمایوں

    کہانی کی کہانی

    ’’ایک نیکو کار یہودی ایک ایسے شہر میں داخل ہوجاتا ہے جہاں داخل ہونا تو آسان ہے لیکن وہاں سے نکلنا حد درجہ مشکل ۔۔۔

    ’’ یہودا بن یوسف بن یامین تم پر الزا م ہے کہ جس گھر میں تو سکونت پذیر تھا اور مالک جس کا یانش بن داود بن صافیر ہے جو بلاشبہ مرد پر توقیر ہے، تم نے وہاں تیس گواہوں کی موجودگی میں اس گھر سے چوری کرکر بھاگنے کی ٹھانی تھی اور نہ صرف یہ بلکہ اسی گھر میں ایک معصوم لڑکی اشبیلہ بنت یانش کو اپنی ہوس کانشانہ بنایا۔

    یہودا بن یوسف بن یامین کیا تمھیں یہ جرم قبول ہیں؟

    ان جرموں کی سزا قطع ید، رجم یا دونوں ہیں اور یاد رکھو اگر جرم قبول کرنے میں شتابی کرو گے تو تخفیف واسطے اپنی سزا میں پاو گے‘‘

    یہ واقعہ مرقس کے دربار کا ہے جو رومی شاہنشاہ تراجان کے زمانے میں کسی شہر کا حاکم تھا۔

    ایک دن داروغہ شہر اور دس سپاہ باصفا کے جلو میں ایک نوجوان بدون قبا لایا گیا جس کا گریبان تار تارتھا اور بیچ دربار، شاہ عبادت گزار سے واسطے اپنے، انصاف کا طلب گار تھا۔

    حاکم نے اپنے لباس فاخرہ پر نظر ڈالی اور پھر ایک شاہانہ شان اور غرور سے اپنی توجہ اس نوجوان کی طرف مبذول کی اور تحقیق اس نے دیکھا کہ و ہ جو لباس فاخرہ سے محروم تھا،، نیزہ بردار سپاہ کے بیچ ژولیدہ مو، خاک بر سر، برہنہ پا، ایک عالم بیچارگی میں اس طرح کھڑا تھا کہ گویا گرا چاہتا تھا اور بے شک وہ تو بس جاں بلب تھا۔

    دربار میں خاموشی چھا گئی کہ عدل کا وقت ہوا چاہتا تھا۔

    مستعد چوبداروں نے باآواز بلند و پر ہیبت منادی سنا دی کہ شاہ عبادت گزار کے دربار عدل کا آغاز ہوا چاہتا ہے اور یہ سنتے ہی لوگ دست بستہ، بصد احترام، رو برو شاہ، مودب اور بلا جنبش و حرکت یوں کھڑے ہوگئے گویا نقش مصور ہوں۔

    نقارے پر چوٹ پڑی، داروغہ شہر نے اجازت طلب کی، جو مرحمت فرما دی گئی اور اس نے اپنا منہ ملزم کی طرف کرکرفرد جرم اس نوجوان کے گوش گزار کی۔

    فرد جرم سنا کے داروغہ نے، اقبال جرم کی امید رکھتے ہوئے، اس کی طرف دیکھا لیکن اس نے، جو بہ سبب تہمت جرم سرقہ و زنا، زیر غضب نجوم تھا، انکار میں سر ہلایا

    ’’نہیں ہر گز نہیں اے محترم داروغہ شہر، ہر گز نہیں، میں نے یہ جرم ہر گز نہیں کیئے، اشتباہ ہوئی ہوگی، درخواست کی جاتی ہے کہ معاملہ نئے سرے سے دوبارہ جانچا جاوے، تحقیق کی جاوے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاے۔

    حضور والا !

    یہ بات بھی بھلی ہے کہ جرم قبول کروں تو واسطے اپنے کچھ تخفیف سزا میں پاوں، چہ معنی دارد؟ توضیح چاہیئے اس بات کی کہ بھلا قطع ید میں کیا اور کتنی تخفیف ہو سکتی ہے اور رجم میں کس پیمانے پر کمی ہو کہ ان دونوں امور کا نتیجہ مختلف آئے‘‘

    داروغہ شہر نے جب یہ غیر اقبالی بیان سنا تو تلملایا، اپنے ہونٹ کاٹے لیکن زبان سے اس مرد کو کوئی جواب نہ دیا۔اپنا رخ مرقس کی طرف کیا اورفرد جرم اس کے سامنے دہرائی۔

    مرقس نے ہاتھ کے خفیف اشارے سے اس مرد کو اجازت مرحمت فرمائی کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے واسطے اپنی صفائی میں کچھ بیان کرے کہ کیوں نہ اس کو قرار واقعی سزا دی جاوے۔

    ’’اے شاہ باصفا، اے قاضی عادل، ناچیز تین مہینے پہلے اس شہرمفصل میں واسطے تجارت کے وارد ہوا اور جس دروازے سے داخل ہوا اس کا محصول بھرا اور اس دن کا اندراج دفتر دخول و خروج میں مرقوم ہے اور چام کے اس مراسلے پر مہر کے ساتھ بطور ثبوت میرے پاس موجود ہے۔

    امیر محترم !

    جب فقیر نے تجارت کے لین دین سے سے فارغ ہو کر اس شہر سے نکلنے کی سعی کی تواس کو یہ بتلایا گیا کہ اس شہر میں آنا تو آسان ہے پر اس شہر سے نکلنے کے لئے پروانہ خروج درکار ہے اور بغیر اس کے کوئی کوشش، کوئی سعی اس شہر سے نکلنے کی، بیکار ہے۔

    اپنے آپ کو اس نئی مصیبت میں گرفتار پا کر میں نے تمام جنس تجارت کا فروخت کر کر، پروانہ خروج کی قیمت بھرکر، جو اس دوسرے چام پر بصورت مہر چوبدار مرقوم ہے، نکلنے کی سعی مکررکی مگر فصیل شہر پر مامور چوبدار نے رشوت پر مجبور کیا۔

    اے والی نظم، حضور دین و دنیا، عالم پناہ، صاحب سپاہ اور ہر حقیقت سے آگاہ بادشاہ میں نے زندگی بھر کوئی کام موسی کے رب کے حکم کے خلاف نہیں کیا سو اسی سبب ان گنہگار چوبداروں کو رشوت دینے سے انکار کیا اور چاہا کہ ان کو کیفر کردادر تک پہنچاوں۔

    جب میں نے داروغہ شہر کو شکایت لگانے پر اصرار کیا تو مجھے بتایا گیا کہ اس شکایت کے اندراج کے لئے رشوت سے دگنی رقم درکار ہوگی۔

    متاع تجارت کا تو ہاتھ سے جاتا رہا، کہ محصول خروج میں بھر دیا، اب جو باقی تھے ایک انگوٹھی اور منقش خنجر تھے۔تو تب میں یہ دونوں اجناس بیش بہا، واسطے بیچنے کے اس یپر مرد یانش بن داود بن صافیر، جو زر گر ہے، کی دکان پر گیا تاکہ اس سے کچھ رقم حاصل ہو اور شکایت درج کرکر یہاں سے نکلوں۔

    اس نے باتیں ایسی میٹھی کیں، کہ دل موہ لیا اور اس پر دفعتاً اعتبار آگیااور اس کے سامنے اپنا دل کھول کے رکھ دیا۔

    اس نے میری کہانی مو بہ موسنی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے

    ’’اے نوجون بلاشبہ تجھ پر جو گذری، قیامت سے کم نہیں مگر اس وقت شہر سے نکلنا قرین مصلحت نہیں کہ شام ڈھل چکی ہے اور ویسے بھی فصیل پر وہی چوبدار موجود ہیں تو کیوں نہ میرے گھرآج رات قیام کرو، کچھ تناول فرماو اور آرام کرو۔ یسوع مسیح نے چاہا تو کل کچھ بندوبست رقم کا کر کے تمھیں اس شہر مفصل سے نکلوا دوں گا‘‘

    یوں میں اس خبیث پیر مرد، کہ مثل پیر تسمہ پا ہے،کے چکمے میں آگیا۔ رات کو اس کے گھر میں خور دونوش و بادہ نوشی سے فارغ، تھکن سے چورمخمور گویا مردہ در گورسویا۔ صبح اٹھا کہ اس مرد نیک کا شکریہ ادا کروں اور اس سے عوض انگوٹھی کے مقرر رقم کا مطالبہ کیا، لیکن اس عیار، بے وقار، پیر ناہنجار نے صبح دام لوٹادینے میں حیل و حجت سے کام لیا، مہلت تین روزکی مانگی۔ تین سے چار اور چار سے پانچ اور یوں ہوتے ہوتے دس دن بیت گئے لیکن رقم ندارد۔

    چند روز بعد اس نے مجھے بلا مطالبہ ہی مطلوبہ رقم فراہم کی۔ رقم قبضے میں کرکے ابھی میں اس کے گھر سے نکلا ہی تھاکہ داروغہ شہر کے سپاہیوں نے مجھے پکڑ لیا اور پابند سلاسل کرکے الزام میں چوری کے دھر لیا۔

    حضور میں نے واویلا مچایا تو اکابرین شہر نے میرے سرنقص امن اور چوبدا رکو رشوت دینے کا الزام لگایا اور یوں میں چوری، رشوت خوری، نقص امن، زنا بالجبر میں مدت تین ماہ سے محبوس زار زار ہوں کہ میری باری آئے تو مقدمہ سنا جاوے۔ اب آپ سے انصاف کا طلب گار ہوں۔‘‘

    گواہوں میں سب نے یک زبان ہو کر کہا

    ’’اے والی شہر، اے خداوند مملکت، اے حافظ دین و دنیا، اے شاہ قلوب، اے سید الملوک یہ شخص حد درجہ مکار، جھوٹا، فریبی، دغا باز، ہوس سے پراور مکروہ آدمی ہے جو چوری اور سینہ زوری کرتا ہے اور اپنے تئیں پارسا بتلا کر معذور و ضعیف لوگوں کو لوٹتا ہے، ان کی پر عِفت دختروں کی عزت سے کھیلتا ہے۔

    اے امیر القلوب !

    اس کو مصلوب کریں اور یاحکم اس کے رجم کا دیں تاکہ اس بد خصلت آدمی سے نجات ملے نیز اس کا بچا کچھا متاع اس پیر مرد کو، جو معصوم ہے، مظلوم ہے، اور اس مرد بدکار و کج خصلت کی کارستانیوں کے سبب جاں بلب ہے اور حلاوت سے حیات کے محروم ہے، عطا کیا جاوے کہ یہی جزا واسطے اس کے کتاب میں مرقوم ہے‘‘

    پھر گواہان نے ایک گماشتہ ایسا پیش کیا کہ جس میں یہ درج تھا کہ یہ شخص دو سال پہلے اس شہر مفصل میں داخل ہوا تھا اور چام پر مرقوم اس کا پیش کردہ ثبوت دخول بلاشبہ جعل سازی تھی، دھوکہ تھا کہ دفتر خروج و دخول میں تین مہینے پہلے کسی کا نام نہیں تھا‘‘

    اس پیر مرد کے پڑوسی نے کہا

    ’’میں جانتا ہوں حضور یہ آدمی زبوں حالی میں اس پیر مرد کے گھر دو سال پہلے آیا اور وہاں واسطے قیام کے ملتجی ہوا۔ اس نیک مرد کا دل پسیجا اور اسے پناہ دی اور یوں وہ وہاں مدتوں مقیم رہا۔ یہ بھی کوئی بات نہ ہوتی لیکن اس شیطان نے اس نیکی کا صلہ یہ دیا کہ اس پیر مرد کی دختر نیک اختر پر نظر ہوس والی رکھی اور جب جب موقع دیکھا اس کے ساتھ زنا کیا، اسے حاملہ بنا چھوڑا اور اس سبب یہ مرد مظلوم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہا۔

    حضور یہ ان دونوں کو روزانہ ستاتا تھا اور یوں یہ معاملہ مہینوں چلتا رہا لیکن اے شاہ کون و مکان کوئی بھلا کب تک سہے، اس نیک مرد نے ہزار بار کہا لیکن اس نے سنی ان سنی کردی‘‘۔

    پھر ایک گواہ نے، جو طبیب تھا، اس بات کا اقرار کیا کہ اس نے اسی پیر مرد کو سینکڑوں بار اپنے مطب میں بیمار اور زخموں سے چور رنجور دیکھا ہے جو اس ذلیل شخص کے ہاتھوں اسے لگے تھے۔

    گرجے کے پادری نے یسوع مسیح کی قسم کھا، پیر مرد کی بیمار پرسی کا ذکر کیا اور اس کے مجروح بدن کا ذکر متعدد بار کیا۔

    قصہ مختصر ہر گواہ نے اس پیر مرد کو مظلوم اور دوسرے کو ظالم، پیر مرد کو پارسا اور دوسرے کو پر معصیت، پیر مرد کو احسان کنندہ اور دوسرے کو احسان فراموش اور ہوس میں اندھا شیطان بتلایا۔

    تب اس مرد زبوں حال نے کہا

    ’’ امیر محترم میں نے اس کے گھر میں کوئی بیٹی ان دونوں کی نہیں دیکھی اور تحقیق اس کی بی بی تو نوے سالہ عقیم عورت ہے اس زمین کی مانند جو شور زدہ ہو اور جہاں گھاس پھونس بھی نہ اگے اور کیسے بیس سال پہلے کوئی ستر سالہ عجوزہ کسی بیٹی کو جنم دے ؟ نہ ددیدہ نہ شنیدہ‘‘

    اس پر ایک راہب نے غیض میں آکر کہا

    ’’کیا یہ شخص اس بات میں شک کرتا ہے کہ یسوع مسیح اس بات پر قادر نہیں کہ کسی زن عقیم کو ستر سال کی عمر میں بچہ دے دے؟ یہ شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ورمیں درخواست کرتا ہوں کہ اسی پاداش میں اسے زندہ جلا دیا جاوے‘‘۔

    داروغہ نے فی الفور فرد جرم میں اس امر کا بھی اندراج کیا۔

    اسی اثنا میں بطور گواہ دربار عدل میں ایک نوجوان عورت، بیس سالہ، بلند قامت کو لایا گیا جو پیٹ سے تھی اور اس نے گفتار کی اجازت طلب کی اور جب یہ اذن عطا ہوا تو اس مہ لقا نے نقاب الٹا اور اس کے حسن کے سامنے خورشید بھی شرما گیا اور حاضرین کو غش آگیا۔ پھر اس ما ہ رخ نے لب کھولے

    ’’اے بادشاہ میں اشبیلہ بنت یانش بن صافیر ہوں، اس پیر مرد کی بیٹی، اور تحقیق میں نے جنم لیا اس نوے سالہ ماں کی کوکھ سے جب وہ ستر سالہ تھی جس کو یہ بدمعاش بانجھ بتلاتا ہے، عقیم کہتا ہے، بے شک امر رب سے سب کچھ ممکن ہے‘‘

    ’’بے شک بے شک‘‘

    دربار سب حاضرین کی صداوں سے گونج اٹھا اور اشبیلہ نے اپنا بیان جاری رکھا

    ’’ اے شاہ روشن دل یہ ہے اس مرد کے گناہ کا ثبوت جو میرے پیٹ میں پلتا ہے۔ اسی مرد کے پھسلاوے میں آکر مجھ نادان نے عصمت اپنی گنوائی اور اب اس کے گناہ کا بوجھ لئے خداوند کے سامنے شرمسا ر ہوں اور دنیا کے طعنوں کی بدولت زندگی سے بیزار ہوں، کوئی بعید نہیں کہ کسی لمحے بھی زندگی کاخاتمہ اپنے ہاتھوں کروں‘‘

    مرقس نے سب معاملہ گوش گزار کیا اور تفصیل سے سنے گواہوں کے بیان کو جانچا مگر فیصلہ صادر کرنے میں عجلت نہ کی۔

    اس نوجوان کو دو باتوں کا اختیار دیا کہ یا تو اس پیر مکرم کے گھر ایک سال غلامی کرے کہ اس کے نقصان کی تلافی ہوئے یا اپنے آپ کو رجم کے لئے تیار کرے

    ’’اے حاکم، میں ابراہیم کا بیٹا ہوں، اسحاق کے صلب سے ہوں۔ میں تین مہینے پہلے اس شہر میں آیا جس کا میرے پاس ثبوت بھی ہے۔ نہ تو میں نے چوری کی اور نہ ہی میرے پاس سے سرقے کا مال برآمد ہو ا تو جب میں اپنے تئیں خود کو بیگناہ تصور کرتا ہوں اور بلاشبہ جب بے گناہ ہوں تو کیوں اس مرد کی غلامی کروں؟ یروشلم کے معبد اور ابراہیم کے رب کی قسم یہ تو میں ہر گز نہیں کروں گا۔

    ثانیاً نہ تو یہ عورت اس مرد کی بیٹی ہے اور نہ ہی یہ میرے ہاتھوں حاملہ ہوئی ہے۔ یہ جس کے گناہ کابوجھ لئے پھر رہی ہے، اس کے پاس جاکر اس سے مواخذہ کرے۔ میرے سر یہ گناہ نہ تھوپئے۔ یاد رکھیئے اے حاکم! قیامت کے دن داود کے رب کے سامنے تیرا عبا گیر رہوں گا‘‘۔

    مرقس نے لب کاٹے اور کہا

    ’’اے نوجوان کیا یہ بہترنہیں کہ تو کچھ چند مہینے اس بوڑھے کی غلامی کر لے۔۔ صرف چند مہینے؟۔۔میری ضمانت ہے اس کے بدلے میں تجھے اس مسئلے سے آزادی مل جائے‘‘

    ’’ہارون کا رب میرے ساتھ ہے جب میں نے گناہ کیا ہی نہیں تو میں کیوں کسی کی غلامی کروں؟ میری آزادی میری بے گناہی ہے اور یہ مت سمجھ کہ میں موت سے ڈرتا ہوں۔ اے حاکم تیرے رجم کے بعد مجھے آزادی تو ویسے بھی مل جائے گی‘‘

    مرقس نے کل فیصلے کا اردہ دل میں رکھ کر، جملہ امور سلطنت نمٹا کر قیلولہ کا اردہ کیا اور اپنے ہجرے میں لوٹ آیا۔

    کچھ دیر اپنی بی بی، ام حنہ،جو ابو الغاس کی بیٹی تھی کے ساتھ خلوت میں لیٹا، گہری سوچ میں مستغرق رہا۔

    جب بی بی نے اپنی طرف مائل نہ دیکھا تو اس سے استفسار کیا

    ’’ کیا ہوا کہ آج آپ کے اندر رمق محبت کی نہیں، حلاوت اور التفات ناپید ہے۔ یہ آپ کا کمال ہے کہ اس شہر کی ہر عورت آپ کے نظر کرم کی متلاشی ہے اور اس واسطے مجھ ناچیز سے جلتی ہے۔ اے بادشاہ کیا ام حنہ میں وہ حسن نہ رہا، کیا ام حنہ اب قابل التفات نہ رہی، کیا اب وہ ایسی خوبصورت نہ رہی کہ اپنے سحر سے دلوں کو گرما دے ؟ کیا بات ہے کہ آپ پریشان ہیں؟‘‘۔

    مرقس نے اپنی بی بی کے سوالوں کا جواب دینے سے احتراز کیا اور جھوٹ موٹ کی آنکھیں بند کیں گویا گہری نیند میں ہو۔بی بی نے اس کو آرام کی طرف راغب دیکھا تو آہستہ سے اپنا عریاں بدن ریشمی لباس میں اوڑھ کر ڈھانپا اور حجرہ سے خروج کی راہ لی۔

    مرقس نے جب دیکھا کہ اس کی بی بی جا چکیں تو ایک لمبا سانس لیا اور اسی وقت اس کے سامنے اپنی گزشتہ زندگی کامنظر آیا۔تحقیق اس باعث وہ اتنا رویا کہ اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔

    برسوں پہلے مرقس ایلیا میں معبد اعظم سلیمانی کا داروغہ تھااور یہ تب کی بات ہے جب رومی بادشاہ پاسبازیان کا دور تھا۔ جان لینا چاہئے یہ وہی دور ہے جب یہودیوں اور رومی حاکم کے بیچ خراج کے معاملے پر چپقلش کچھ ایسی بڑھی کہ خروج کے غلغلے بلند ہوئے۔ یہ دیکھ کر زیلوتیوں نے عوام کو اکسایا اور یوں پہلے سے بغاوت پر آمادہ لوگ حکومت کے خلاف نکل کھڑے ہوئے۔

    جب بغاوت کے غلغلے بلند ہوئے تو حاکم روم نے سپہ سالار طیطوس کو حکم دیا کہ ان ناہنجاروں کی بغاوت کچل دی جاوے اور یوں رومی سپاہ نے سن ستر عیسوی میں پورے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پورا یروشلم جلایا گیا، معبد اعظم کو ڈھا دیا گیااور ماسوائے ایک دیوار کے اس کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا اور یوں بت پرست رومیوں نے کلمہ توحید کے ماننے والوں کو تہ تیغ کیا۔ اس ظلم سے مجبورجس کا جہاں سینگ سمایا نکل کھڑا ہوا۔

    مرقس نے غنیمت اس میں جانی کہ یہودہ سے نکل کر شام کا سفر اختیار کرے۔

    ہرج مرج کھینچتاشمال کی طرف چلا تو تیسرے روز اس کا گزر دو پہاڑوں کے بیچ ہوا۔ ان سرمئی رنگ پہاڑوں کا حال بھی عجیب تھا کہ تھے تو ایک دوسرے سے بہت دور لیکن ان کی شبیہ کا رعب کچھ ایسا تھا کہ نظرآتا تھاگویا ایک دوسرے میں مدغم ہیں اور یہیں ان پہاڑوں کے بیچ ایک راہ مخفی ایسی تھی جو ہر کسی کو نظر نہیں آ سکتی تھی۔

    وہ اس راہ پر چلا تو اس کا گزر ایک شہر پر وقار کے قریب ہوا جس کے گرد پکی اینٹوں سے بنی ایک چوڑی فصیل تھی اور اس کے چاروں طرف پانی تھا کہ لحظہ لحظہ جب موجیں اٹھتیں تھیں تو اس فصیل سے آن ٹکراتی تھیں۔

    تھکن سے چور وہ گرتا پڑتا کسی طور صدر دروازے کے پاس پہنچاتو دیکھا کہ وہ لمبا چوڑا تھا اور صندل سے بنا تھا اور اس میں نیزوں سے بھی بڑے کیل اور ڈھالوں سے چوڑے آہنی قبضے لگے تھے جو زنگ آلود تھے۔ دروازہ اوپر جا کر کمانی دا رشکل اختیار کرگیا تھا جس کے عین اوپر دو برج تھے جس میں مستعد سپاہ چار ہتھیار باندھے تیارکھڑے تھے۔

    اس نے برج میں بیٹھے سپاہ سے دروازہ کھولنے کی استدعا کی لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور سپاہ نے دروازہ کھولنے میں تردد کیا

    ’’میاں اس شہر کا دستور ہے کہ کسی کے واسطے بھی دروازہ نہیں کھولا جاتا، اے مرد نامراد گمان غالب ہے آپ یہاں اجنبی ہیں اور اس بات سے یکسر لا علم ہیں کہ بے شک دروازہ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی کھولا جاتا ہے اور جب سورج غروب ہو جاوے تو بند ہو جاتا ہے اور اس میں رعایت کسی کو نہیں دی جاتی‘‘۔

    جب سپاہیوں سے کوئی امید رحم کی نظر نہ آئی تو ناچار وہ فصیل کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیااور اپنی زندگی رب العرش کے سپرد کی اور ورد تلمود کا کیا۔

    اندھیرا آہستہ آہستہ چھانے لگا اور آسمان میں جھلمل کرتے تارے نمودار ہوئے اور رات آسمان سے بتدریج اترنے لگی۔ دور سے صحرائی بھیڑیوں کی آوازیں تواتر سے آنے لگیں۔ خوف کی ردا اوڑھے اس نے دعائیں تیز آواز میں کہیں جو کہ ان دربانوں نے بھی سنیں لیکن سنی ان سنی کی۔

    جب خوف کی شدت بڑھ گئی اور کچھ بھی سمجھ نہ آیا تو بے اختیار رونا شروع کیا۔ اس حالت گریہ و زاری میں اس کو گھوڑے کی ٹاپیں سنائی دیں۔

    جھکا سر اٹھایا تو ایک گھڑ سوار نظر آیا، جس نے اپنا منہ ڈھک رکھا تھا، اور رفتہ رفتہ اس کے نزدیک آرہا تھا۔

    قریب آکر گھڑ سوار نے کہا

    ’’اے نیک مرد تو کس واسطے گریہ و زاری کرتا اور عبث جان ہلکان کرتا ہے ؟‘‘

    ’’اے نیک شخص میں یہاں اجنبی ہوں، کسی کو نہیں جانتا، شب بسری کے واسطے ٹھکانہ چاہیئے جو عین ممکن ہے اس شہر مفصل میں ملے لیکن ان بے رحم دربانوں نے مجھے اندر جانے سے روک رکھا ہے اور یہاں جان کا خطرہ ہے ایسا نہ ہو کہ صحرا کے موذی درندے آکر مجھے کھا لیں‘‘

    ’’کیا تم یہودی ہو؟ جان لو یہ شہر دین عیسی کے ماننے والوں کا ہے اور ممکن ہے اس باعث تم کو ایذا پہنچے‘‘

    اس نے اسی لمحے اپنا پیدائشی عقیدہ ترک کرکے ثانیوں میں دین عیسی کو اپنایا

    ’’ہر گز نہیں، میں تو بلکہ عیسی کا سچاپیروکار ہوں اور ان کی عشق کی حدت سے بیمار ہوں، خدا را میرے واسطے کچھ کیجئے، میں خستہ حال ہوں، اور کوئی مجال طاقت کی نہیں رکھتا کہ حوادث زمانہ کا سامنا کروں، میں غریب الوطن ہوں، اے مرد پر توقیر میرا کچھ کیجئے، خدا را‘‘

    بیت

    پہنچ چکا ہے سر زخم دل تلک یارو

    کوئی سیو کوئی مرہم رکھو ہوا سو ہوا

    اس پر اس گھڑ سوا رنے اس کا ہاتھ تھاماْ

    ’’ اے نیک مرد تیرا زہد اللہ برقرار رکھے بے شک جو اس شہر بے توقیر کے اند ر گیا، واپس نکل نہ سکا اور کرم ہے یسوع مسیح کا تیرے اوپر جو دروازہ تیرے اندر جانے سے پہلے بند ہوا۔ اے مرد پر توقیر جو دروازہ بند دیکھو اس کو کھولنے کی ضد مت کر اپنے واسطے خرابی کروگے ‘‘۔

    وہ بہرحال اپنی بات پر ڈٹا رہا اور شہر میں اندر جانے پر اصرار کیا جس پر اس سوار نے سپاہ سے کچھ زبان عجیب میں کہا جو عبرانی یا سریانی ہر گز نہ تھی، اور انہوں نے بنا حیل و حجت دروازہ کھول دیا اور مرقس کو آنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

    اس نے سوار کا شکریہ ادا کرنا چاہا مگر اس کو اپنے گرد نہ دیکھا۔

    تعجب تو اس کو ہوا لیکن شتابی سے اس شاندار ڈیوڑھی سے گزر کر اس شہر میں داخل ہوا۔

    شہر میں ہر سو ہو کا عالم تھا، گلیاں آدم کے وجود سے ویران تھیں پر پر از سگاں تھیں۔ اندھیرے میں بھوک سے بے حال وہ، بچتے بچاتے، چلتے چلتے ایک چھوٹے سے چبوترے کے پاس پہنچا اوروہاں کچھ دیر کھڑا رہا اور اس خیال میں مستغرق رہاکہ کسی طریق کوئی سبیل ایسی پیدا ہوجائے کہ شب بسری کا سامان پیدا ہو۔

    جب رات کچھ اور گہری ہوئی تو کچھ اور آگے چلااور ایک مینار کے پاس پہنچا کہ اونچائی میں کوہ طور سے بلند تھا۔ وہاں ایک پیر مرد کو دیکھا جو سر نیوہڑاے بیٹھا کسی ورد میں مصروف تھا اور بار بار سر اٹھا، دائیں بائیں کچھ پھونک کر دوبارہ آہستہ سے کچھ کلام نامانوس تیز تیز پڑھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں بلا کی چمک تھی اور سیاہ بال اس کے سلیقے سے دائیں بائیں منقسم تھے کہ اس کی مانگ گویا دو تاریک راتوں کے بیچ ایک دن کی مانند چمکتی تھی۔ اس نے اس پیر مرد سے کلام کیا تو اس نے پوچھا

    ’’آپ اس شہر کے باسی معلوم نہیں ہوتے، کہاں سے آئے ہو؟‘‘

    اس پر مرقس نے پوری داستان اس پیر مرد کے گوش گزار کی اور جوجوجتن اس نے یہاں تک پہنچنے میں کئے تھے من و عن بتلا دئے اور یہ بتاتے ہوئے اس کی آواز رندھ گئی۔

    بوڑھا تھا چرب زبان، اب جو اس سادہ لوح آدمی کو دیکھا تو اس نے اسے واسطے کھانے کو کچھ دیا اور ساتھ چلنے کو کہا۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں، مرقس نے بھی تردد نہ کیا اور اس کے ساتھ چل دیا۔ اپنے گھر لے جا کر اس پیر مرد نے اسے ایک کمرے میں ٹھہرنے کو کہا اور اس نے جو اتنے دنوں بعد ایک آراستہ اور آرام دہ بستر دیکھا تو چادر تان، ٹانگیں پسار کر سو گیا۔

    علی الصبح جب وہ بیدار ہوا تو اس پیر مرد کو محسن پکار کر شکریہ ادا کیا اور جانے کی اجازت طلب کی۔اس پرپیر مرد نے خفگی دکھائی اور بناوٹ کا واویلا مچا دیا کہ میرے گھر چور داخل ہو گیا ہے، میری جوان بی بی کی طرف مذموم ارادے سے بڑھا چاہتا ہے۔ آن کی آن میں تیس اکابرین شہر اس گھر میں جمع ہو گئے اور اسے کوتوالی والوں نے پکڑ کر پابند سلاسل کر دیا۔

    قاضی نے اسے اس جرم کی پاداش میں یا تو مصلوب ہونے کی سزا دی یا یہ کہا کہ چار سال اس بوڑھے مرد کی غلامی کرو اور اپنی راہ لو۔ اس نے دوسری سزا کو ترجیح دی گویا آسمان سے گرا، کھجور میں اٹکا۔

    اسی طور اس گھر میں تین سال گزر گئے اور اس نے گن گن کر دن گزارنے شروع کئے پر وہ بوڑھا حیلے و مکر کا فن خوب جانتا تھا اور ہر بات میں مین میکھ نکالنے میں طاق تھا سو جب رہائی کا وقت قریب آیا تو کوتوالی میں شکایت کی اور اس کی خدمت میں سو نقص نکالے اوراسی سبب اس پر چار سال مزید سزا مقرر ہوئی۔

    ہوتے ہوتے سولہ سال گذر گئے۔ ایک دن اس نے تنگ آکر اس لامتناہی سزا کی وجہ اس پیر مرد سے پوچھی تو اس نے مسکرا کر کہا،

    ’’ تمہیں بتایا تھا کہ اس شہر میں مت داخل ہو، اس میں خطرہ جان کو ہے اس لئے کہ یہ شہر عیاروں کا شہر ہے، جہاں داروغہ شہر سے لے کر حاکم تک سب ایک جیسے ہیں‘‘

    یہ سن کر اس کا ماتھا ٹھنکا اور اس مرد سے کسو بھی طریق خلاصی کی درخواست کی۔

    اس پر اس پیر مرد نے سوچ کر کہا

    ’’ایک طریقہ ہے اگر تم اس شہر کے امیر بن جاو، لیکن اس واسطے سب کو عیاری میں مات دو گے تو ہی امیر بنو گے۔ اس شہر میں آنے کے راستے کئی ہیں پر اندر سے باہر جانے کا دروازہ ایک ہے اور اس کی کلید حاکم شہر کے پاس ہوتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کنجی کو چوری کرو، مگر چور کی سزا قطع ید ہے‘‘

    اتنا کہنے کے بعد اس پیر مرد نے امیر شہر کے دربار کی راہ لی۔

    مرقس نے سارا دن فکر میں گزارا اور شام کو ارادہ مصمم باندھا کہ کچھ بھی ہو اس شہر مفصل سے نکلنے کی ترکیب کی جاوے اور اس میں مدد اس پیر مرد سے لی جاوے۔ اس مرد نے کہا

    ’’ پورا جسم گوشت پوست ہے پر اس میں ایک بخرہ دل کا ہے اور تیرا دشمن تیرا دل ہے، جسم نہیں۔ جان لو جسم کتاب ہے جس کی تحریر ساری کی ساری عیاری کی ہے پر دل جو فقط ایک نقطہ ہے تجھے ترقی سے روکتا ہے، پستی کی طرف کھینچتا ہے۔

    یہ بھی جان لو کہ انسان مجسم عیار ہے اور دل اس کو عیاری سے روک کر اس کی نمو میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ سو جب تلک تو اس دل کو جیتا رکھے گا، تو ہر دم خوار رہے گا۔ پس اے مرقس اس دل کو خفتہ رکھو، جسم تیرا جیتا رہے گا‘‘

    اس نے پوچھا،

    ’’وہ کیا طریق ہو کہ دل کو خفتہ رکھا جاوے ؟‘‘

    بتایا گیا،

    ’’ جو بھی دل کہے اسے جھوٹ جانو اور جو جسم چاہے اس کی تگ و دو کرو اسے سچ جانو، عین حیات مانو عبادت جانو، دین جانو ایمان جانو‘‘

    اس نے التجا کی،

    ’’دل کے احساس کا کیا جاوے، کہ بلا شبہ وہ سونے نہیں دیتا جینے نہیں دیتا‘‘

    بتایا گیا

    ’’ جو بھی احساس دل میں آوے، اسے رد کرو، شراب اور شباب میں گم رہو، مگر اس قدر کہ جسم کو گزند نہ ہو اور ہاں اعتبار کسی پر بھی نہ کرو سوائے اپنے دل اور دماغ کے‘‘

    ’’دل کو ماروں بھی اور اعتبار بھی اس پر کروں؟، تفسیر کی جاوے‘‘

    اس پر پیر مرد نے جواب بصورت حکایت دیا

    ’’ پرانے زمانے میں دو چور ایک گھر کے اندر گئے اور وہاں سے جو سامان ملا اٹھا کر نکلا ہی چاہتے تھے کہ مالک،اس مکان کا کہ پیر مرد تھا،جاگ اٹھا اور ان سے لڑ پڑا۔ دونوں جوان تھے سو اس پیر مرد پر قابو پایا۔ایک اس کی چھاتی پر بیٹھا اور دوسرے نے اس کا منہ اور ناک ہاتھوں سے بند کر دیا جس وجہ سے وہ پیر مرد مر گیا۔

    ابھی وہ اس گلی سے نکلتے ہی تھے کہ کوتوالی والوں نے انہیں پکڑ لیا اور ان دونوں سے رقم اور زیورات برآمد کئے۔

    پھر جب دن چڑھا تو پتہ چلا کہ گھر کا مالک بھی اس حالت میں ملا کہ جس میں شک ہے کہ خود مرا یا مارا گیا۔

    قاضی نے دونوں کو ایک کمرے میں بند کیا اور ان کے پاس علیحدہ علیحدہ جاکر یہ بات بتائی

    ’’یہ بات تو معلوم ہے کہ تم نے چوری کی ہے جس کی سزا قطع ید ہے، لیکن یہ نہیں پتہ کہ قاتل کون ہے۔ اگر تم قتل کے چشم دید سلطانی گواہ بنتے ہو تو ہم اس دوسرے کا سر قلم کر دیں گے اور تمھیں چوری کے جرم سے مبرا کر دیں گے اور یوں تم گھر جاسکتے ہو، بغیر کسی سزا کے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ تمہارے خلاف بالکل خاموش رہے۔

    یہ یاد رکھواگر ایسا ہو کہ وہ تمہارے خلاف سلطانی گواہ بنے اور تم خاموش رہو تو تیرا سر قلم کر دیا جائے گا اوراسے چھوڑ دیاجائے گا۔

    اب اگر یہ ہو کہ تم دونوں خاموش رہو تو تم دونوں چوری کی سزا ہوگی لیکن اگر تم دونوں ایک دوسرے پر قتل کا الزام دھرتے ہوتو تم دونوں کو دس سال زندان میں گزارنے پڑیں گے‘‘

    اے مرقس اب یہ بھی جان لو کہ دونوں کو الگ الگ زندان میں رکھا گیا ہے اور دونوں کو نہیں پتہ کہ اگلا کیا کرے گا، خاموش رہے گا یا اس کے خلاف سلطانی گواہ بنے گا۔

    اس صورت میں تم صرف وہی کرو جس میں تجھے آزادی بھی ملے اور وہ یہ ہے اس کی کوئی پروا نہ کرو کہ اسے کیا ہوتا ہے، تم اس کے خلاف گواہ بن جاو، اسے روندو‘‘۔

    بس ساری دنیا یہی ہے، کوئی اپنے دل میں کیا چھپا کے رکھتا ہے اس کا تجھے کوئی علم نہیں ہو سکتا لیکن تو نے دل میں کیا چھپا کر رکھا ہے اس کا علم تجھے ہے سو وہی کرو جس میں تیرا فائدہ ہو‘‘

    اگلے دن پیر مرد اس کو ایک بازار میں اس لئے لے گیا تاکہ دیکھے کہ اس کے اندردل ہے یا نہیں۔ راستے میں ایک فقیر کو دیکھا، بے دست و پا، لباس تارتارہونٹوں پر پپڑیاں جمی، آنکھوں میں غم و اندوہ کا سمندر چھپائے سر جھکائے سامنے نیم شکستہ کشکول رکھے خیرات کا طلب گار تھا۔ اس پیر مرد نے اس کو اشارہ کیا کہ اس فقیر بے حال سے کچھ سکے اچک لے۔ جس پر مرقس نے کہا،

    ’’اے پیر مرد یہ کہاں کاانصاف ہے، کہ ایک ناتواں، بے یارو مددگار فقیر بے گلیم سے میں سکہ اٹھاوں، یہ مجھے سے ہر گز نہ ہوگا‘‘

    تب اس پیر مرد نے کہا،

    ’’تیرا دل تجھے اس سے روکتا ہے اگرچہ جسم کو ضرورت ہے اس رقم کی ، اٹھا لے‘‘

    اس نے قصد اس فقیر کے پاس جانے کا کیا اور ادھر ادھر دیکھ کر آہستہ سے اپنا ہاتھ بڑھایا کہ اس کشکول سے اس کے دن کی کمائی کا کچھ حصہ اٹھا لے اور جوں ہی ہاتھ کشکول میں ڈالا اور سکے اٹھانے چاہے فقیر نے اپنی آنکھیں کھولیں اوروہ جو ہاتھوں سے محروم تھا، ناگہاں اس کے آستینوں سے دو ہاتھ صحیح سلامت نکل آئے اور اس نے مرقس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

    ’’ہمیں ہاتھ دکھاتے ہو؟ کیا یہ سمجھتے ہو میں ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے بیٹھا اپنے مال کی حفاظت سے غافل ہوں؟ میاں اناڑی ہونہیں دیکھتے، اندھا نظر آتا ہوں،مگر ہوں نہیں، دل کہتا ہے تجھ پر اس چوری کے جواب میں ہاتھ اٹھاوں اور تیرے ہاتھ پیر توڑ دوں، لیکن تجھ پر رحم آتا ہے۔ اگر ہاتھ تنگ ہے تو ادھر آکر میری طرح ہاتھ پھیلاو، بھونڈی چوری نہ کرو‘‘

    مرقس کے ہاتھ پاوں پھول گئے اور وہ ہکا بکا کھڑا رہ گیا اور تب اس نے دیکھا کہ دور کھڑا پیر مرد تبسم بر لب تھا۔

    اس ماجرے کی کچھ سمجھ نہیں آئی تو پیر مرد کے پاس لوٹ آیا اور اس سے پوچھا،

    ’’یہ کیا ماجرا ہے، اور اس شاطر فقیر نما آدمی کی کیا روداد ہے ؟‘‘

    پھر اس پیر مرد نے کہا

    ’’اے نوجوان جان لے اس دنیا میں ہر شخص بس یہی فقیر ہے جو تم سے تمہارا وقت اور، درہم بٹورنا چاہتا ہے اور اس واسطے سوانگ رچاتا ہے، بہروپ بھرتا ہے،۔ اے نادان تب وہ جذبات کا جال بنتا ہے اور اس جال کا شکار تیرا دل ہے اور اس میں چھپی ہمدردی جو تجھے اس کی طرف کھینچتی ہے، سواس ہمدردی کو دل سے نوچ پھینکو اور آگے بڑھو۔

    جان لو دنیا میں کوئی بھی ایسا آدمی نہیں جس نے بہروپ نہ بھرا ہو اور قاعدہ ہے کہ وہ جو زیادہ بہروپیا ہے، اسی کا زیادہ فائدہ ہے۔تو جب تم اس بازار کذب و ریا میں اترو تو یہ جان رکھو کہ تیرے جیسے اور بھی ہونگے سو ہر لجظہ ریا اور جھوٹ کو اتنا محکم کرو کہ وہ جو خود ریا کار ہے، جھوٹا ہے اسے سچ سمجھے اور اگر سچ نہ بھی سمجھے تذبذب میں پڑے۔

    یاد رکھو جس گداگر کا صرف لباس تار تار ہے اس سے بہتر وہ ہے جس کے جسم پر لباس ہی نہیں، اور اس سے بہتر وہ ہے جو بے دست پا ہے گنگ ہے کفیف ہے اور اس سے بہتر وہ ہے جو ساتھ میں معذور بچے لے کے پھرتا ہے اور اس سے بہتر۔۔‘‘۔

    اس پیر مرد نے مرقس کو سات سو سے اوپر درجے صرف بھکاریوں کے بتلائے، دس

    ہزار شکلیں بزازوں کی بتلائیں، تین سو اقسام عورتوں کی بتائیں، تیس شکلیں رنڈیوں کی بتائیں، نناوے روپ کلیسا کے شیوخ کے بتلائے، اور ہزار صورتیں بادشاہوں اور سرداروں کی بتائیں جو ہر لمحے دل کی گھات میں رہتے ہیں۔

    اس نصیحت کو پلے باندھ کر وہ لوگوں کے اژدھام میں شامل ہو گیا اور دن دگنی رات چگنی ترقی کرتا گیا۔ ہر جائز و ناجائز طریق سے پیسا اینٹھا لیکن ایک دھیلے کی چوری اس پر ثابت نہیں ہو سکی، ہزار لوگوں کو غلام کیا لیکن اس طریق پر کہ قاضی اور عوام دونوں اس سے خوش، اور پھر ایک دن وہ اس شہر عیاران کا حاکم بن گیااور یوں کلید خروج اس کے سپرد کر دی گئی۔

    سالوں بعد جب کنجی اس کے ہاتھ میں آئی تو وہ ستر سال کا ہو چکا تھا اور ا س کے مصاحبین غنڈے، بدمعاش، خوشامدی، بھانڈ، شرابی، قمار باز، زانی، مفت خورے، دروغ گو ہر وقت اس کے گردرہتے تھے جو اس کو مشورے ہر طریق کے الٹے سیدھے دیتے تھے۔

    کنجی کے باوجودمرقس اس شہر سے نہ نکل سکا اور وہ جو کبھی ارض مقدس میں خانہ خدا کا داروغہ تھا، اب عیاروں ناہنجاروں کے شہر کا حاکم بن گیا۔ ڈھلتی عمر اور موت کے قریب پہنچ کر اس نے سوچا اب اس شہر سے نکل کر میں بھلا کیا کروں گا اور پھر ان صحرائی بھیڑیوں سے بھلا کیسے بچوں گا؟۔

    اس کے ضمیر نے اسے کچوکے لگائے کہ اس کو پورا یقین تھا کہ وہ مرد بے گناہ تھا، تمام ثبوت اس کے خلاف گھڑے گئے تھے کیونکہ وہ خود کسی زمانے میں مقدموں کو درکار ثبوت مہیا کیا کرتا تھا۔

    اس نے کلید خروج منگوائی۔

    وہ بار بار بار اس کنجی کی طرف دیکھتا رہا اور اپنے آپ سے پوچھتا رہا کہ آخر اس نے زندگی میں کیا پایا ؟ اگر وہ صحرائی بھیڑیوں کے جبڑوں سے تو محفوظ ہے لیکن موت کے جبڑوں سے تو نہیں۔

    اس نے سوچا کہ اگر وہ دونوں اس بدبخت شہر سے نکل جاتے ہیں تو جوان اس کی حفاظت ضرور کرے گا اور وہ شام پہنچ کر اپنی باقی ماندہ زندگی یہودی بن کر عبادت میں گزار لے گا، اور خدا اسے معاف کردے گا۔

    یہ سوچ کر اس نے کچھ مصمم ارادہ کیا اور کلید خروج اپنے جیب میں ڈال لی۔

    اگلے دن وہ دربار میں واپس آیا اور اپنا فیصلہ سنا دیا اور پھر اپنے حجرے میں واپس چلا آیا اور کلید خروج واپس رکھوا دی۔

    بن شمعون نے اپنے مخطوطے ’’ عظمت موسیٰ‘‘ میں یہ تحریر کیا ہے کہ جس وقت یہودہ بن یوسف بن یامین کو شہر مفصل سے آزادی ملی اس کے مبارک چہرے پر تبسم تھا ۔

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    મધ્યકાલથી લઈ સાંપ્રત સમય સુધીની ચૂંટેલી કવિતાનો ખજાનો હવે છે માત્ર એક ક્લિક પર. સાથે સાથે સાહિત્યિક વીડિયો અને શબ્દકોશની સગવડ પણ છે. સંતસાહિત્ય, ડાયસ્પોરા સાહિત્ય, પ્રતિબદ્ધ સાહિત્ય અને ગુજરાતના અનેક ઐતિહાસિક પુસ્તકાલયોના દુર્લભ પુસ્તકો પણ તમે રેખ્તા ગુજરાતી પર વાંચી શકશો

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے