ہم وہاں ہیں ،جہاں۔۔۔
وہ میرے سامنے کھڑی تھی، اس سائے کی طرح جسے ایک وجود کی ضرورت ہوتی ہے یااس موسم کی طرح جو اگلے موسم کے انتظار میں خود کوبے بس کر دیتا ہے!
میں دل کا حملہ ہونے تک معمول کی زندگی جی رہا تھا، اگر سماجی معاملات کو نظر میں رکھا جائے تو وہ ایک کامیاب زندگی تھی اور اگر میری سوچ کو اہمیت دی جائے تو زندگی ناکامیوں کا ایک مجموعہ تھا۔ ویسے تو میرے پاس سب کچھ تھا: ایک گھر ،بچے اور گھر کے ہر کونے میں سے ابلتی ہوئی خوشیاں جو دوسروں کو حسد کی آگ میں جھلسا دیتی تھیں لیکن میں مطمئن نہیں تھا، پتا نہیں کیوں؟ شاید اس کی وجہ اکتا دینے والا وہ معمول تھا جس کا میں عادی ہو چلا تھا اور جس کا بوجھ بعض اوقات میرے کندھوں یا برداشت کی طاقت سے سوا ہو جاتا۔ میں بعض اوقات اس معمول کو بدلنے کا سوچتا لیکن میں کیسے بدل سکتا تھا؟ کولہو کا بیل تو کولہو میں چلتے ہوئے ہی آرام محسوس کرتا ہے، اسے اگر ہل یا گاڑی کے آگے جوت دیا جائے تو چکروں میں گھومنے کی خواہش میں اپنے ہوش گنوا بیٹھےگا۔ مجھے ایک تبدیلی کی ضرورت تھی اور یہی خواہش مجھے ہر وقت اپنی لپیٹ میں لیے ایسے گھماتی کہ مجھے اپنے وجود کے ہونے پر شک ہونے لگتا۔ میں کون تھا؟ حالات کی ڈوری میں بندھی ایک پتلی جودوسروں کے لیے رقص کرتے اپنے آپ پر اتر ارہی تھی۔ کیا مجھے ایک تبدیلی کی ضرورت تھی؟ یہ تبدیلی کیا ہوگی؟ میرے اندر کسی طرح کی تبدیلی یا میرے حالات کو ایک نئے سانچے میں ڈھلنے کی ضرورت تھی؟ ایسا تو نہیں تھا کہ میں اپنے ہی کسی سراب میں گم تھا اور یہ سوچ ایک ذہنی قلابازی تھی جسے میں نے خود ہی اپنے پر طاری کر لیا تھا؟ کیا میں اپنے اندر تبدیلی لاؤں اور وہ بن جاؤں جو نہیں ہوں اور وہ بھی جوکوئی اور نہیں؟ یہ تو ایک روپ دھارنا ہوگا اور کیا میں اپنے چہرے پر ایک مصنوعی چہرہ چڑھا لوں گا؟ کیا وہ مصنوعی چہرہ اصلی ہوگا اور اس وقت جو اصلی چہرہ ہے وہ مصنوعی ہو جائےگا؟ کیا میں نیا انسان بن جاؤں گا؟ میں کس چہرے کی تلاش میں تھا؟ میں نے سوچا کہ شرابی بن جاؤں! میں شراب تو پیتا تھا لیکن زیادہ پینے سے کیا ہو جائے گا؟
میرے لیے یہ کوئی تبدیلی نہیں ہوگی صرف شراب کی مقدار بڑھ جائےگی اور اس کے علاوہ شرابی ہونا کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ میں اپنے ارد گرد کئی شرابیوں کو جانتا تھاجو اتنے غیر اہم تھے جتنا کہ اپنی نظر میں میَں خود تھا! یہ روپ مجھے غیر ضروری لگا۔کیا میں چرسی بن جاؤں ؟یہ ایک ایسا نشہ تھا جس سے مجھے گھن آتی تھی۔ میں چرسیوں کو بازاروں، چوکوں، گلیوں، سڑکوں، پارکوں، دکانوں کے تھڑوں، فٹ پاتھوں، اندھیری سڑکوں اور سجے ہوئے گھروں کے روشن کمروں میں دیکھتا آیا تھا اور میرا ان کی صفحوں میں شامل ہوجا نابے معنی ساتھا۔کیامیں سادھو بن جاؤں ؟سادھو بن کر کہاں جاؤں گا ؟ جنگلوں میں ؟ کون سے جنگل ؟ مجھے کوئی ایسا جنگل نظر نہیں آ رہا تھا جہاں میں دھونی رما کر سدہارتھ سے گوتم بدھ بن جاتا۔ سادھو بننے کا مطلب زندگی کے معاشی عمل سے کٹ جانا تھا جو زندگی کا حصہ نہیں تھا اورمیں روپ بدلنے کے باوجود زندگی کے معاشی عمل سے کٹنا نہیں تھا۔ کیا میں بھکاری بن جاؤں؟ میں چوکوں، شہر کی اہم سڑکوں، سٹوروں، ہوٹلوں اور ریستورانوں کے باہر، بازاروں اور گھروں کے دروازوں کے باہر بھکاریوں کو دیکھتا آیا ہوں۔ ایک ایسے بھکاری کے متعلق میں نے سن رکھا تھا جس کی ایک چھوٹی سی فیکٹری تھی اور ایک گاڑی مقررہ وقت پر اسے ایک اہم چوک پر چھوڑ جاتی اور وہ اپنے کام میں مصروف ہو جاتا؛اس کے متعلق یہ بھی مشہور تھا کہ وہ رات کو اپنی فیکٹری کی کارکردگی پر تفصیلی رپورٹ لیتا اور کوتاہی کے مرتکب ہونے والوں کو چابکوں سے مارتا۔ کیا ہر بھکاری کی فیکٹری تھی؟
عام بھکاری تو زندگی کے معاشی عمل میں شامل نہیں ہوتااور اس کی آمدنی کا دارومدار اس جگہ پر ہوتا ہے جہاں وہ ڈیرہ ڈالے ہو۔ کیا میں بھیک مانگ سکوں گا؟ بھکاری تو فنکار ہوتے ہیں اور میں شاید ایک ناکام بھکاری بنوں جب کہ ناکامی مجھے پسند نہیں۔ کیامیں gay بن جاؤں؟ یہ سوچتے ہی مجھے شرمندگی، حیرانگی اور دل چسپی کے ملے جلے احساسات نے اپنی زد پر رکھ لیا۔ کیا ایسا ممکن ہو سکے گا؟ مجھے خوب رگڑ کر ڈاڑھی بنائے، پراندہ ہوا میں لہراتے، موٹے یا بھدے ہونٹوں پر کسی گاڑھے رنگ کی لپ سٹک تھوپے وہ مخلوق نظر آتی جسے عام طور پر gay کہا جاتا ہے لیکن میرے خیال میں ہوتے نہیں۔ gay تو ایک دہشت گرد کی طرح عام لوگوں جیسا ہی ہوتا ہے، فرق صرف ڈلیوری میں ہے۔ عام لوگوں میں gay کی موجودگی یا جہاں gay ہوں وہاں عام لوگوں کا ہونا سوالیہ نشان ابھارتا ہے۔ دہشت گرد وار کرنے تک کسی بھلے چنگے آدمی جیسا ہوتا ہے اور gay کسی بھلے چنگے آدمی کے ساتھ قریبی تعلق قائم کر لینے تک عام آدمی جیسا ہوتا ہے اور اس کے بعددونوں ہی محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔ میں ایسے کئی امکانات پر غور کرتا تھا کہ ایک دن مجھے اپنی سانس چھاتی میں اٹکتے ہوئے محسوس ہوئی، جسم پر ایک ٹھنڈک سی پھیلتے ہوئے پسینے میں نہلا گئی، مجھے ایک گہری سی تھکاوٹ کا احساس ہوا اورجسم بےجان ہو گیا۔
یہ ایک شدید قسم کے دل کے حملے کا آغاز تھا۔ یہ ایسے ہی تھا کہ جب پرندے زلزلے سے پہلے اپنے گھونسلوں میں ہی شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ بچپن کے بعض واقعات ذہن پر اس طرح پرنٹ ہوئے ہوتے ہیں کہ مخصوص واقعے سے پہلے یا بعد کا کچھ یاد نہیں ہوتا۔ میرے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا؛ مجھے جب ہوش آیا تو میں ہسپتال میں تھا اورمیں وقت اور زمانے سے بےخبر تھا جیسے کوما میں سے واپس آنے والا درمیانی عرصے سے ناواقف ہوتا ہے۔ وہاں چند اجنبی اور کچھ شناسا چہرے تھے اور میں خوف زدہ سا دم سادھے اس آسمانی مخلوق کی طرح لیٹا رہا جس پر زمینی مخلوق نے کوئی تجربہ کیا ہو! پھر مجھے اجنبی اور شناسا چہروں کی شناخت ہونے لگی؛ وہ ڈاکٹر اور میرے عزیز تھے۔ اب میری سماعت بھی جاگ چکی تھی اور میرا تجسس بھی۔ گفتگو کے دوران میں کبھی کبھی کوئی میری طرف بھی دیکھ لیتا۔ اب میں باتوں میں سے معنی کشید کرنے لگ گیا تھا؛ میرے دِل کے حملے کی شدت کی بات ہو رہی تھی اور یہ بھی کہ مجھے زندہ رہنے کے لیے کیا کرنا چاہیے! میں کچھ پریشان ہوا اور قدرے خوف زدہ بھی۔ کیا اب زندہ رہنے کے لیے مجھے دوایوں کی بیساکھی استعمال کرنا ہوگی؟ میں شکست کو تسلیم کرتے ہوئے ملازمت سے سبکدوش ہو گیا اور اپنا وقت گھر کی رونق میں مایوسی کو لپیٹے ہوئے بتانے لگا گو مجھے معمول کی زندگی جاری رکھنے کی ہدایت تھی۔ میں اپنا وقت سونے یا اخبارات، رسائل پڑھنے، ٹی وی پر سپورٹس چینل، اپنی پسند کے فلم اور گانے دیکھنے اور کرسی کے بازوؤں کو تھامے سامنے کچھ نا دیکھتے ہوئے دیکھنے کی کوشش کرتے میں گزارتا۔ یہ ایسی بے رنگ سی زندگی تھی جس کے بارے میں میَں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا؛ میں تو متحرک زندگی گزارنے میں یقین رکھتا تھا۔ دل کا عارضہ میری اناپر براہِ راست حملہ تھا اور میں نے دراصل گھر کی بےرنگ سی دنیا میں پناہ لی ہوئی تھی۔
میں نے اپنے گھر کے لان کے اردگرد پھولوں کی کیاریاں بنائی ہوئی تھیں جن میں پورا سال رنگ برنگے پھول کھلے رہتے۔ میں سارا دن ان پھولوں کے درمیان میں بیٹھا پڑھتا اور پڑھتے ہوئے سو جاتا۔ اس مختصر سی نیند میں اتنی گہرائی ہوتی کہ جب میَں جاگتا تو محسوس ہوتا کہ کومے سے باہر آیا ہوں۔ مجھے اپنا اردگرد سمجھنے میں کچھ وقت لگتا اور وہی وقت میرے لیے دھند میں آنکھیں بند کرنے کے مترادف تھا۔
اس دن میں ایسی ہی نیند میں سے جاگ کر خواب میں سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا کہ میری نظر ساتھ والے ٹیریس تک پہنچ کر رک گئی۔ وہ حفاظتی دیوار پر کہنیاں رکھے، ہتھیلیوں کا پیالہ بنائے اور اس پیالے میں اپنی ٹھوڑی رکھے مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس کا چہرہ اور آنکھیں ماں کی چھاتی سے دودھ پیتے بچے کی طرح پر سکون تھے۔ ہماری نظر ملی تو اس کے ہونٹ کناروں پر کپکپائے اور پھر وہاں ہلکا سا،شک میں رکھنے والا تبسم، ہونٹ ہلے تھے کہ نہیں، پھیل گیا۔ ہونٹوں کے علاوہ اس کے جسم میں کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ وہ ایک ٹکٹکی لگائے مجھے دیکھے جارہی تھی جیسے مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو یا چاہتی ہو کہ میں کوئی ردِعمل دکھاؤں اوریا پھر میرے نیند سے باہر آنے کی کیفیت سے لطف اندوز ہو رہی ہو! میں اس کی طرف زیادہ دیر دیکھ نہیں سکا، کوئی انجانا سا بھار میری آنکھوں کو دبا گیا۔میں نے گود میں رکھی کتاب پڑھنا شروع کر دی۔ میں لفظوں پر توجہ نہیں دے پا رہا تھا، میری حالت اس طالب علم کی سی تھی جو امتحانی پرچہ لکھتے ہوئے اس وقت تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے جب نگران ایک دل چسپ سے تجسس کے ساتھ رک کر اس کا لکھا پڑھنے لگے۔ مجھے وہ دیوار پر اسی طرح کھڑی اپنی طرف دیکھتے ہوئے محسوس ہو رہی تھی اور مجھے اپنا چہرہ جلتے ہوئے محسوس ہوتا تھا۔ ایک عرصے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ میں زندہ ہوں!
وہ اپنے ٹیریس پر روزانہ آتی اور جیسے ہی ہتھیلیوں کا پیالہ بنا کر ان پر ٹھوڑی رکھتی تو جنوری آخیر کی دھوپ کی چمک بڑھ جاتی اور پھولوں کے رنگ مزید گہرے ہو جاتے۔ وہ روزانہ وہاں کھڑی ہو جاتی اور پھر مجھے اس کا انتظار رہنے لگا۔ اب میں جب اس کی طرف دیکھتا تو کوئی بھار میری آنکھوں کو دباتا اور ناہی کتاب کے حرف آنکھوں میں چبھتے۔ میں جب بھی اسے دیکھتا، مجھے اپنے اندر زندگی کی نئی لہر محسوس ہوتی۔ میں سادھو کی طرح زندگی سے دور ہوکر کتابوں کے جنگل میں کھو گیا تھا اور ہتھیلی پر ٹھوڑی رکھے عورت کی ٹکٹکی مجھے زندگی کی بھیڑ میں شامل ہونے پر اکسا رہی تھی۔ میں اسے دیکھتے ہوئے ایک دن مسکرا اٹھا؛ وہ ہتھیلی کے پیالے میں ٹھوڑی رکھے اباسی لے گئی تھی۔ ایک سیکنڈ کے لیے اس کا منہ پورا کھلا ہوا تھا اور آنکھیں بند تھیں؛ اس شیرنی کی طرح جو نیند سے جاگتے ہوئے اباسی لیتے ہوئے منہ کھولتے ہی چلے جاتی ہے۔ مجھے مسکراتے دیکھ کر وہ بھی مسکرا دی اور ہلکی سی خفت کے ساتھ ہاتھ ہلاتے ہوئے، خاموش سا قہقہ لگاتے ہوئے، آنکھیں بند کر گئی۔
ہم ایسے ہی خاموش زبان میں گفتگو کرنے لگے!
مجھے اب کرسی پر بیٹھنا بیماروں کی مجبوری لگتی۔ میرے ذہن میں وہ انگریزی فلم آ گئے جن میں نفسیاتی پاگل کرسی پر بیٹھا، گود میں ہاتھے باندھے سامنے دیکھتا رہتا ہے۔ میں بھی جب بھی کتاب بند کرتا یا اونگھ میں نا ہوتا تو اسی طرح گود میں ہاتھ باندھے سامنے دیوار کو دیکھتا رہتا۔ اب مجھے اس طرح بیٹھنا ایک نفسیاتی آسن لگتا جس کے بارے میں پہلے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ میں نے بیوی کو پتا چلے بغیر اپنے فزیشن سے ملاقات کا وقت لیا؛ وہ میری طویل عمر کی خواہش مند تھی اور نہیں چاہتی تھی کہ مجھے دل کا دوسرا حملہ اسے بیوہ کر جائے اس لیے اب وہ ایک ماں بن گئی تھی اور میں فیڈر سے دودھ پیتا بچہ۔پڑوس میں آنے والی عورت نے فیڈر سے دودھ پیتے بچے کو مرد بنانا شروع کر دیا تھا اس لیے فزیشن سے ملنا ضروری تھا۔
اس شام ایک طویل عرصے کے بعد میں نے کار چلائی۔
جب ہم کلینک پہنچے تو میری بیوی نے لمبی آہ بھر کے سکھ کا سانس لیا۔ اس کا خیال تھا کہ راستے میں مجھے کسی وقت بھی دل کا دورہ ہو جانا ہے؛ وہ لگاتا ر دعائیں پڑھے جا رہی تھی اور ایک عرصے کے بعد مجھے اپنے آپ پر اعتماد محسوس ہوا۔ ڈاکٹر کا لہجہ پیشہ ورانہ ہمدردی میں ڈوبا ہوا تھا اور میں اس دردمندی کی حدت سے محصور اس کے ایک ایک لفظ پر توجہ دیتا رہا۔ ’’آپ اتنے ہی صحت مند ہیں جتنا کہ میں۔ آپ کو پچھلی مرتبہ بھی بتایا تھا کہ اپنے معمول کی زندگی کا آغاز کریں۔‘‘ میں خوف زدہ ہو گیا۔ ڈاکٹر مجھے کولھو کو وہ بیل بننے کا کہہ رہا تھا جس کو کھوپے لگے ہوں۔ وہ پھر مجھے اس ختم نا ہونے والے چکر میں ڈالنا چاہتا تھا۔ میں اس کی بات کو رد بھی کرنا نہیں چاہتا تھا۔ ’’آپ ہلکی پھلکی ورزش کا آغاز کریں اور اپنے دل کو مضبوط کریں۔ ہم کسی ماہر نفسیات کی خدمات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘
’’میں ایسا کرنا نہیں چاہوں گا۔ آپ بتائیں کہ کیا کرنا ہوگا مجھے؟‘‘ میں جلدی میں تھا کہ زندگی کی بھیڑ میں شامل ہو جاؤں۔
’’عابد صاحب! آپ واک شروع کریں اور یہ کبھی نا سوچیں کہ آپ پر دل کا حملہ ہوا ہے۔ اس واقعے یا حادثے کو بھول جائیں اور تمام تر توجہ اپنی واک کے ساتھ ساتھ اپنے کام پر بھی دیں۔‘‘ معاشی عمل میں واپسی کا میرے لیے یہ پہلا اشارہ تھا جسے میں دونوں ہاتھوں سے دبوچ لینا چاہتا تھا۔ میرے گھر کے سامنے ایک پارک تھا جس کا جاگنگ ٹریک پھولوں، سجاوٹی جھاڑیوں اور درختوں کے بیچ میں سے گزرتا تھا۔ مجھے لگا کہ وہ ٹریک بلا رہا ہے۔ میں نے اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے نیا جاگنگ سوٹ اور جاگرز خریدنے کا فیصلہ کیا گو میرے پاس یہ چیزیں تھیں۔
میں نے بتدریج اپنے جسم کو بلِڈ کرنا شروع کر دیا۔ میری واک کا آغاز ایک کلومیٹر سے ہوا جو چار تک گیا۔میں نے اپنے رابطوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک ملازمت ڈھونڈ لی جو میری مصروفیت کا سبب بنی اور وہاں سے حاصل ہونے والی رقم، پینشن اور دو چھوٹی سرمایہ کاریوں سے آنے والے پیسوں میں ایک اضافہ تھا ۔میں اب شام گئے تک مصروف رہتا، پھر واک کرتا اور دو وہسکیوں کے بعد رات کا کھانا کھاتا۔ گو اس مصروفیت میں اس کا کہیں ذکر نہیں تھا جس کی وجہ سے یہ سب ہو رہا تھا۔ میں سارا دِن مصروف رہتا اور وہ مجھے نظر نہیں آتی تھی۔ وہ شاید ٹھوڑی کو ہتھیلیوں کے پیالے میں رکھے کسی طرف دیکھتی ہوگی؟ لیکن وہ ہے کون؟ میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ خوب صورتی کی عمر کے اس حصے میں تھی جہاں طرز اور ڈھنگ غالب آنے لگتے ہیں۔پھر ایک اتوار وہ ٹیریس پر آ گئی۔ مجھے اپنے طاقت پکڑتے دل میں ایک لرزش کا احساس ہوا اور پھر جسم میں توانائی عود کرتے لگی۔ میں اسے دیکھ کر مسکرایا اور اس نے بھی ہاتھ ہلاتے ہوئے مسکرا کر مجھے دیکھا۔ اس کے ہونٹ ہلے، جیسے اس نے کوئی بات کی ہو! میں اس کی طرف دیکھتا تھا اور اس کے ہونٹ ہلتے تھے۔
میں شام کو جوگنگ ٹریک پر گیا تو وہ وہاں ایک بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے دیکھ کر مجھے اپنے دادا کی بات یاد آ گئی کہ عورت بہت دلیر ہوتی ہے جو ڈولی سے اترتے ہی انجان لوگوں میں ایک وقار کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے۔ میں جان گیاکہ وہ میری منتظر تھی جس سے میں کسی حد تک خائف ہو گیا۔ میں اس کے ساتھ کیا بات کروں گا؟ وہ مجھے خالی نظر سے دیکھ رہی تھی، لگا کہ وہ مجھے تول رہی ہے۔ میں بھی شاید اس کی طرف خالی نظر سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک برتر سی مسکراہٹ پھیل گئی جیسے ایک ماں بچے کو گرنے کے بعد دوبارہ کھڑے ہونے کی ترغیب دے رہی ہو۔ مجھے لگا کہ وہ بول نہیں سکتی؛ شاید وہ میرے بارے میں بھی ایسے سوچ رہی ہو۔میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور جواب میں وہ بھی مسکرا دی۔ ان مسکراہٹوں نے اجنبیت اور جھجک کی کھائی کو بند کر دیا۔
’’آپ بات کر سکتی ہیں؟‘‘ مجھے اپنی آواز کی مٹھاس پر حیرت ہوئی اور مزید حیرت اس کے قہقہے سے ہوئی جو طلوعِ سورج سے، پہلے پرندے کی پہلی چہکارکی طرح تھی۔
’’جی ہاں!‘‘ وہ اسی طرح ہنستے اٹھی اور میرے ساتھ چلنے لگی۔ ہم خاموشی میں چلتے رہے؛ اس کی چال میں لچک اور قدم لمبا تھا۔ تین کلومیٹر کا چکر ختم کرکے ہم اسی بینچ پر بیٹھ گئے۔ اس کی سانس تیز چل رہی تھی اور میں اس کے چہرے کا رنگ نہیں دیکھ سکتا تھا۔
’’میرا نام سعدیہ ہے۔‘‘ اس نے کچھ دیر کے بعد کہا۔
’’میں عابد ہوں!‘‘
’’نام کے ہی ؟‘‘ اس نے ہلکا سا قہقہ لگا کر پوچھا۔ میں بھی ہلکا سا ہنس دیا۔
ہم روز اکٹھے واک کرتے اور دیر تک بیٹھتے۔
’’میں شادی شدہ ہوں، دس برس سے۔‘‘ مجھے اس کے بارے میں تجسس رہا کرتا تھا اور اب جب اپنے متعلق کچھ بتانے لگی تھی تو میں نے خاموش رہنا مناسب سمجھا۔ ’’میرا خاوند دبئی میں ہے، وہ شادی سے پہلے ہی وہاں تھا۔ ان دس سالوں میں وہ تین مرتبہ آیا ہے ایک ایک مہینے کے لیے اور وہ ایک مہینہ سوتے ہوئے گزار دیتا ہے اور میں اس کے آنے کے بعد بھی اکیلی ہی ہوتی ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اب چاہتی ہوں کہ وہ نا ہی آئے۔ وہ وہاں کمپنیاں بدلتا رہتا ہے اور ہر نئی کمپنی کے پروبیشن کا زمانہ اپنا ہوتا ہے چناں چہ۔۔۔‘‘ وہ خاموش ہو گئی، مجھے اس کی آواز ڈوبتے ہوئے محسوس ہوئی۔ کچھ دیر ناہموار سی خاموشی رہی جسے اس نے لمبی سانس لے کر توڑا۔ ’’چناں چہ وہ کم آتا ہے۔‘‘
میں پوچھنا چاہتا تھا کہ یہاں آنے سے پہلے وہ کہاں رہتی تھی؟
میں نے ایک مرتبہ اسے رات کو کھانے کے لیے کہا تو اس نے انکار کر دیا۔ میرے ساتھ وہ صرف جاگنگ ٹریک پریا دوپہر کو مل سکتی تھی۔ اس چھوٹے سے شہر میں جہاں میَں نے اب تک کی زندگی گزاری تھی، میرے جاننے والوں کا ایک وسیع حلقہ تھا۔ مجھے اسے دِن میں ساتھ لے جانے میں کچھ ذاتی قسم کے تحفظات تھے جو میں اس پر ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔میں نے اسے اپنے ساتھ لے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے پرتکلف کھانا منگوایا جس میں سوپ تھا، چاول اور دوقسم کے سالن تھے۔ میں نے سن رکھا تھا کہ مہمان کے پیٹ سے زیادہ اس کی آنکھ بھرنی چاہیے چناں چہ وہ مینو دیکھ کر متاثر ہوئی اور ہم ایک طرح سے اپنے کھانے پر ٹوٹ پڑے۔دوسرے کورس پر ہم نے ایک دوسرے کو شرمندہ سی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا۔اس کے ماتھے پر پسینہ آیا ہوا تھا اور حسب معمول میرے ناک میں سے پانی بہہ رہا تھا۔ میں اس کو مزید جاننا چاہتا تھا۔
’’دس سال خاصا طویل عرصہ ہوتا ہے۔ آپ کے ہاں کوئی رونق۔۔۔‘‘میں نے فقرہ مکمل نہیں کیا۔اس نے ایک ہلکا سا قہقہ لگایا جس میں اس کے دس سالوں کا درد شامل تھا۔ مجھے اپنے اس خالص نسوانی قسم کے سوال پر شرمندگی بھی ہوئی۔ اس نے لقمہ اٹھائے والا ہاتھ ہوا میں روک لیا اور میری طرف ایک جنونانہ سی شدت کے ساتھ دیکھا۔ میں نے اس کی نظر کی تاب نا لاتے ہوئے پلیٹ میں سالن اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ مجھے یقین ہے وہ میری اس کمزوری سے لطف اندوز بھی ہوئی ہوگی۔
’’اب کوئی ایسا نقصان بھی نہیں ہوا۔ میں مینو پاز سے ابھی کافی فاصلے پر ہوں۔‘‘ میں نے جلدی سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا اور وہ نظر جھکا کر لقمہ منہ میں ڈالنے لگی اور پھر ایک تلخ سی ہنسی ہنسی، ’’جب یاسر اپنی نیند پوری کر چکے تو شاید یہ بھی ہو جائے۔ ابھی تک اس کا خیال ہے کہ اس کے بھیجے ہوئے روپے ہر کمی کو پورا کر رہے ہیں اور شاید کر بھی رہے ہوں، مجھے پورا یقین نہیں۔‘‘ ہم خاموش ہو کر ایک دوسرے سے چھپنے کی اداکاری کرنے لگے۔ میں نے اس ذاتی قسم کے تلخ موضوع سے ہٹنے کے لیے بات کیے جانے کا فیصلہ کیا ؛بغیر مقصد کے بات کیے جانا بھی ایک فرار ہے۔
’’یہاں آنے سے پہلے آپ کی رہائش کہاں تھی؟‘‘ میرے سوال کے جواب میں اس نے ایک لمحے کے لیے نظر بھر کے میری طرف دیکھا جیسے مجھے پڑھ رہی ہو۔
’’میں یاسر کے خاندان کے ساتھ ان کے آبائی گھر میں رہتی تھی۔ وہاں بچہ نا ہونے کا ہر وقت ایک دباؤ رہتا تھا؛ ایک طرح سے میں پریشر ککر میں ڈلی ہوئی تھی۔ بعض اوقات مجھے محسوس ہوتا کہ وہ یاسر کی دوسری شادی کا بھی سوچ رہے ہیں۔ ان کا گھر شہر کے سب سے پرانے محلے کی ایک تنگ اور اندھیری گلی میں تھا، شاید وہ گلی،‘‘ وہ رکی،نیپکن سے ہونٹ اس طرح صاف کیے کہ لِپ سٹک نا اترے اور پھر مسکرائی، اس کی مسکراہٹ میں لہجے کا بھاری پن نہیں تھا، ’’میری طرح ہی اندھیرے میں تھی۔میں نے محسوس کیا کہ مجھے روشنی کی ضرورت تھی۔ مجھے یاسر کو قائل کرتے ایک وقت لگا لیکن پھر سمجھ غالب آ گئی اور اس نے ایجنٹ کے ذریعے آپ کا پڑوسی بنا دیا۔‘‘ اس نے خوش مزاجی سے بات ختم کی۔
سعدیہ نے مجھے میری راکھ میں سے زندہ کر دیا تھا۔میں دفتر اور اپنے گھر میں آرام کرنے کے علاوہ ہر وقت اس کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا لیکن اس نے مجھے ایسا سوچنے کی اجازت نہیں دی ہوئی تھی۔ ہم اندھیرے میں واک کرتے کبھی ایک دوسرے کا ہاتھ تھا م لیتے یا تھکاوٹ کے کسی لمحے میں وہ میرے ساتھ لگ جاتی۔ میں اس کے جسم کی حدت اپنے وجود اور دل کی تیز دھڑکن اپنے دل میں محسوس کرتا۔ میں سعدیہ کے متعلق تو نہیں کہہ سکتا، اس تعلق نے مجھے ایک ایسی طاقت سے شناسائی کرائی جس سے میں آشنا نہیں تھا۔ میں اتنا کمزور ہو گیا تھا کہ سعدیہ نے مجھے وہ طاقت دی جو میرے اندر نہیں تھی۔میں سوچ ہی نہیں سکتا تھا کہ میں کسی اجنبی عورت کو چھو بھی سکتا ہوں، کجا اس کے دل کی دھڑکن کو اپنی دھڑکنوں سے ناپنا!
ایک شام ہم اندھیرے حصے میں سے گزر رہے تھے کہ وہ یک دم رک گئی۔
’’سنو!‘‘ میرا دل ایک دم تیزی کے ساتھ دھڑکنے لگا۔ ہم ایک دوسرے کو آپ کہہ کر بلاتے آئے تھے اور مجھے اس کے مخاطب کرنے کے انداز سے حیرت، خوشی اور تھوڑا خوف بھی محسوس ہوا۔ میرے لیے اتنے بھاری قدم اٹھانا ممکن نہیں رہاتھا۔ ’’یہ اندھیرا دیکھتے ہو!‘‘ اس نے میرا ٹھنڈا ہاتھ اپنے گرم ہاتھ میں تھام لیا تھا۔ ’’اسے کبھی محسوس بھی کیا ہے؟‘‘ مجھے اس کے سوال کی سمجھ نہیں آئی، میں خاموش رہا تاکہ اس کی سوچ کا سلسلہ نا ٹوٹے۔ ’’میں اس اندھیرے کو اپنے گھر میں محسوس کرتی ہوں۔ مجھے پورچ لائٹ ہمیشہ ڈم لگتی ہے، تقریباً روز بلب اور شیڈ تبدیل کرنے کے باوجود۔ شاید اندھیرا میرے اندر اتنا دور تک گھس گیا ہے کہ میں اپنے گھر کی روشنی کو محسوس ہی نہیں کرتی۔‘‘مجھے اچانک خیال آیا کہ شام کے بعد اس کے گھر میں ایک ویرانی سی جھانکتی نظر آتی ہے۔ میں نے سعدیہ سے پوچھنا مناسب نہیں سمجھا کہ یہ خالصتاً اس کا ذاتی مسئلہ تھا۔ اب میں اس کے گھر میں سانس لیتی ویرانی کو دیکھ سکتا تھا۔ میں نے اسے اپنے ساتھ لگایا، اب میرا ہاتھ بھی گرم ہو چکا تھا۔ ہم کچھ دیر خاموش کھڑے ایک دوسرے کے جسم کو اپنے ساتھ لگے محسوس کرتے رہے۔ میں اس چپ سے اندھیرے میں سے ایسی سرگوشیاں سن سکتا تھا جو ہمیں اپنے اندر جذب کیے جارہی تھیں اور میرے پاؤں اور بھی وزنی ہو گئے تھے۔ وہ شاید میرے دل کی دھڑکن ناپنا شروع ہو گئی تھی کہ بغیر بتائے الگ ہو گئی۔
اس کا رویہ بعض اوقات مجھے خوف زدہ کر دیتا۔ وہ اکثر معمولی سے اختلاف کو اتنا سنجیدگی سے لیتی کہ اس کی آنکھوں میں وحشت بھر جاتی، مجھے محسوس ہوتا کہ گلاس اٹھا کر دیوار پر دے مارے گی یا چیخنا شروع کر دےگی۔ ہم جب باہر کھانا کھاتے، میں اس کے مزاج کی برہمی سے خائف، کوشش کرتا کہ کوئی متنازع گفتگو نا ہو۔ ہمارا اختلاف ہمیشہ یاسر کی عدم دل چسپی کی وجہ سے ہوتا۔ وہ اگر اس کے رویے پر تنقید کر رہی ہوتی تو میرا ہاں میں ہاں ملانا اسے اپنے ذاتی معاملات میں دخل اندازی لگتا اور اس کے رویے میں جنونانہ جارحیت آ جاتی۔ اگر میں اس سے اختلاف کرتا تو موقف ہوتا کہ اپنے حالات وہ مجھ سے بہتر سمجھتی ہے اس لیے مجھے اپنی رائے اپنے پاس ہی رکھنی چاہیے۔ میں ان گھمن گھیریوں کو اس کی نفسیاتی پیچیدگیوں کی توسیع سمجھتا اور ایک وقت آیا کہ اس کے مزاج کی یہ کیفیت مجھے غیر اہم لگنے لگی؛میں اس کی باتیں غور سے سنتا اور خاموش رہتا۔
میں شاید واک کرنے کے لیے ہی جی رہا تھا۔ میں شام کو جب پارک میں پہنچتا تو وہ میرے انتظار میں ہوتی اور ایک مسکراہٹ سے استقبال کرتے ہوئے ہم ایک دوسرے کے مزاج کو ناپ لیتے۔ پچھلے دوسالوں سے ہم نے بارش، دھند،شدید گرمی یا حبس میں کبھی ناغہ نہیں کیا تھا۔ واک کر سکیں یا نا لیکن ہم دونوں آتے ضرور۔ اس شام وہ وہاں موجود نہیں تھی، میں نے اس کا انتظار کیا اور پھر واک کرتے ہوئے ہر قدم کیچڑ میں دھنستے ہوئے لگ رہا تھا۔ میں نے معمول کے تین کلومیٹر طے کرتے ہوئے اپنی ٹانگوں کے پٹھوں میں بھاری قسم کا کھچاؤ محسوس کیا اور بینچ پر بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگا کہ شاید میرے شروع کرنے کے بعد وہ آ گئی ہو، جس کا مجھے یقین بھی تھا۔ میَں اندھیرے میں دور سے نظر آتی سعدیہ کو غور سے دیکھتا تا وقتیکہ وہ کوئی اور ہوتا۔
میں جب واپس گھر کی طرف چلا تو میری حالت قابلِ رحم تھی۔میری حالت اس سپاہ کی سی تھی جو اپنے سالار کے گر جانے کے بعد مایوس اور شکست خوردہ وطن کی طرف سفر کا آغاز کرتی ہے۔ میرا جسم مایوسی، گھٹن اور انجانے سے خوف کے بوجھ سے جھکا ہوا تھا اور مجھے اپنی چھاتی میں ایساخلا محسوس ہو رہا تھا جس کا میں عادی نہیں رہا تھا۔ میں اس آدمی کی طرح چل رہا تھا جو زندگی میں سب کچھ ہار چکا ہو! پھر میں اپنے آپ کو حوصلہ دیتا کہ وہ بیمار بھی تو ہو سکتی ہے۔ مجھے اس کی اپنی تنہائی سے جنم لینے والی نفسیاتی الجھنوں اور محرومیوں کو سمجھنا چاہیے۔ میں چلتے ہوئے یک دم رُک گیا! کیا مجھے اس کے ساتھ ایسارشتہ قائم نہیں کر لینا چاہیے تھا جس کا نا ہونا اسے محرومی میں ڈبوئے رکھتا ہوگا؟ میں نے اپنے تعلق کی ریل کو ذہن میں گھمایا کہ اس نے کبھی مجھے ایسا اشارہ دیا ہو جسے میں سمجھ نا پایا ہوں؟ مجھے ایسا کچھ نظرتو نہیں آیا لیکن مجھے محسوس کر لینا چاہیے تھا۔ میں نے بھی اسے کبھی ایسا اشارہ نہیں دیا تھا کہ میں اس کے ساتھ کوئی اور رشتہ بھی قائم کرنا چاہتا ہوں۔ کیا مجھے ایسا کرنا چاہیے تھا؟ مجھے اس کے چہرے اور آنکھوں میں ہمیشہ ایک تکمیل نظر آتی اور اس کے بدن کی زبان نے کبھی کوئی ایسی چغلی نہیں کھائی تھی جو کچھ اور ظاہر کرتی، سوائے واک کے دوران میں تیز دھڑکنوں کے جنھیں میں تیز چلنے کی وجہ سمجھتا تھا۔ اس کے ساتھ واک نا کرنے کی وجہ سے میں نے اپنے آپ کو نامکمل سمجھا اور اگر وہ دوبارہ نا آئی تو کیا مجھے پھر دل کا دورہ پڑ جائےگا؟ مجھے اپنا سانس رکتے ہوئے محسوس ہوا۔ میں نے اپنے حواس پر قابو پانے کے لیے ایک لمبی سانس لی اور گھر کی طرف چل پڑا۔میرا سر جھکا ہوا تھا اور میں اپنی رفتار کو برقرار رکھتے ہوئے چلتا رہا۔ میں اپنے ذہن کو خالی رکھنے کی کوشش میں چلتے ہوئے لمبے لمبے سانس بھی لیتا جاتا تھا اور اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی تھا۔ اس وقت میرے لیے سب سے اہم چیز خود کو دل کے حملے سے بچائے رکھنا تھا۔ میری کیفیت اس رہائشی کی سی تھی جس کے دروازے کے باہر ڈاکو کھڑا ہوا اسے کنڈی کھولنے کا کہہ رہا ہو۔ میں اپنے دل کے اندر اٹھتے ہوئے شور کو دبائے خاموشی کے ساتھ گھر میں داخل ہو گیا۔ میری بیوی حسبَ معمول اپنی جگہ پر بیٹھی پورے گھر کو قابو میں رکھے ہوئے تھی۔میرے صوفے کے ساتھ تپائی پر پانی گلاس رکھا ہوا تھا جسے پی کر میں نے کچھ توقع اور کچھ ناامیدی کے ساتھ اس کی طرف دیکھا۔
’’آپ نے کچھ غور کیا؟‘‘ وہ ایسے ہی مبہم سے سوال پوچھا کرتی ہے اور میں اگر کوئی تبدیلی شناخت نا کر پاؤں تو برا منا جاتی ہے۔ میں نے چھپی ہوئی نظر سے اردگرد جانچنے کی کوشش کی لیکن مجھے سب معمول کے مطابق لگا۔ میں خاموش بیٹھا رہا۔ ’’ساتھ والوں کے گھر آج بتیاں جل رہی ہیں۔ لان،ٹیریس اور تمام کمروں میں سے روشنی بہہ رہی ہے۔‘‘ وہ ایسی ترکیب استعمال کرکے ہنسا کرتی ہے۔ مجھے اس کا ہنسنا معنی خیز سا لگا۔میں نے اس کی طرف دیکھنا مناسب نہیں سمجھا۔ ’’عجب پراسرار قسم کے لوگ ہیں۔ کبھی کوئی نظر نہیں آیا اور آج روشنی اتی کہ چیونٹی بھی نا چھپ سکے۔‘‘ وہ پھر ہنسی اور مجھے اپنی چھاتی اور پیٹ میں سے ایک خلا باہر کی طرف نکلتے ہوئے محسوس ہوا۔ اسی خلا نے میرا ہاتھ پکڑ کر باہر کی طرف دھکیل دیا اور میں نے اس کونے میں کھڑے ہوکر اس طرف دیکھا جہاں وہ ہتھیلیوں کے پیالے پر ٹھوڑی رکھے کھڑی ہوتی تھی۔ ٹیریس روشن تھا لیکن وہ وہاں نہیں تھی۔میں باہر نکل کر اس کے گھر کے سامنے آ گیا۔ پورا گھر روشن تھا اور اس طرف دیکھنے سے آنکھیں چندھیاتی تھیں۔ کیاوہ اپنے اندر کے اندھیرے سے اتنی خائف ہو گئی تھی کہ اس نے تنہائی کے آسیب کو نکالنے کے لیے پورا گھر بقعہ نور بنا دیا تھا؟
میں وہاں کھڑا ٹیریس پر سعدیہ کو ڈھونڈ رہا تھا کہ اس کی تنہائی کا آسیب مجھے اندر کھینچنے لگا۔ میں کبھی اس کے گھر نہیں گیا تھا اور آسیب سے بازو چھڑا کر پیچھے ہٹ جانا چاہتا تھا لیکن میں شاید کمزور تھا؛ میری انگلی بلانے والی گھنٹی کی طرف بڑھی جسے میں نے دبا دیا۔ میری انگلی کے ہلکے سے دباؤ نے اتنا لطف دیا کہ میں نے گھنٹی کو دبائے رکھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ وہ عرصہ ایک لمحہ تھایا پوری زندگی ؛میری پور نے گھنٹی کو دبایا ہوا تھا اور میں گھر کے کسی روشن حصے کے اندھیرے میں اسے مسلسل ہنستے اور کبھی کراہتے ہوئے سن سکتا تھا۔
ہماری کالونی کے گیٹ چار فٹ اونچے ہیں اور باہر کھڑا آدمی جہاں اندر دیکھ سکتا ہے، وہ خود بھی نظر آ رہا ہوتا ہے۔ میں گھنٹی کو دبائے اندر دیکھے جا رہا تھا۔ مجھے پردے کے پیچھے ایک سایہ نظر آیا جو دروازہ کھلنے پر سعدیہ میں تبدیل ہو گیا۔ وہ معمول کے خلاف شوخ لباس میں ملبوس تھی۔ وہ وقار کے ساتھ چلتے ہوئے میرے سامنے کھڑی ہو گئی۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھے جا رہے تھے۔ پھر اس کے ہونٹوں کے کونے کپکپائے اور محبت میں ڈوبی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔ مجھے اپنے اندر کا خلا مٹتے ہوئے محسوس ہوا۔
’’عابد!‘‘ اس کی سرگوشی مسرت کا بھاری پن لیے ہوئے تھی۔
’’عابد!‘‘ اس نے دہرایا۔ ’’میں واک پر نہیں آ سکی اور یہ بتایا بھی نہیں جا سکتا تھا کیوں کہ تم موبائل فون استعمال نہیں کرتے۔‘‘ وہ رکی۔اس کی سانس پھولی ہوئی تھی، شاید آنکھوں میں خوشی کے رقص کی وجہ سے! ’’در اصل یاسر اچانک آگیا بتائے بغیر، ہمیشہ کے لیے۔‘‘ وہ رکی، ’’اب شاید اسے نیند پوری کرنے کی ضرورت نا ہو۔‘‘ وہ ہنسی اور مجھے کہیں دورایمبولینس کے سائرن اور شہنائی کی ملی جلی آوازیں سنائی دینے لگیں!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.