ہمزاد
ٹھک، ٹھک، ٹھک! کون ہے بھئی؟ میں ہوں! میں کون؟میں اِبنِ فلاں! ابنِ فلاں کون؟ ابنِ فلااں! ابنِ فلاں کون؟ حد ہو گئی بھئی! یہ کنڈیالے چوہے جیسے بالوں والا بابا میری جان کو آ گیا ہے۔ یہ حیات کا منکر نکیر ممات سے پہلے ہی پوچھ کر رہےگا کہ آخر میں کون ہوں۔ اگرچہ یہ دروازہ بھی میرے لئے نا مانوس نہیں بلکہ میری اپنے جسم کا دروازہ ہے اور یہ بابا بھی کوئی غیر نہیں بلکہ میرا اپنا جسم ہی ہے مگر مجھے اس مورکھ کی لاٹھی کو ایک طرف کھسکانے کے لئے بتانا پڑیگا کہ میں کون ہوں ورنہ وہ مجھے اندر داخل نہیں ہونے دیگا اور میں ناکامیاب جادوگر کے نوخیز بچے کی طرح مرا پڑا رہ جاؤں گا۔ یہ بابا دراصل میرے لئے دربان ہونے کے ساتھ زندگی کی اس اجنبی اذیت کا استعا رہ ہے جو کسی بیگانے در پر دستک سے در آتی ہے۔
تو دیکھ اے زندگی میں تیرا ایلن پو بالٹی مور کی گلیوں سے چنی اپنی ہڈیوں، مانگے تانگے ملگجے کوٹ اور دریدہ پتلون کو سانسوں کی ڈور سے باندھتے ہوے ویرانے کی طرف جا رہا ہوں جہاں میری بلیاں اور کتے کچر ے سے نکالے ہوے کھانے کا انتظا کر رہے ہیں۔ ابھی کچھ ہی دیر میں میں لمبی لمبی پیلی گھاس سے لپٹ کر ہمیشہ کے لئے سو جاؤں گا۔ مگر یہ کیا کہ میری مطلق اندھیروں سے آشنا ہوتی ہوئی آنکھوں کے سامنے کسی نے دنیا کی مختصر تریں دراؤنی کہانی کا سکرپٹ لہرا دیا۔ زمین پر آخری آدمی اپنے کمرے مں تنہا تھا۔درست ہے بھئی! آج کے انسان کے لئے یہ کہانی ہارر تھنکنگ کا باعث ہو سکتی ہے کہ وہ لاکھوں سال بعد بھی خیر و شر کے فلسفیانہ یا مذہبی نُقطہء نظر میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ رو۱قیت پرستی (Stoicism) نے خیر و شر کے وجود سے انکار کرکے انسان کے دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کی کوشش تو کی مگر پھر صلیب و ہلال نے میرے بھائی ولیم جیمز کی وہ درگت بنائی کہ خدا پناہ! مر گیا بیچارا اپنی ہی آگ میں جل جل کر۔
جرمن سپاہیوں کی طرح جرمن فلاسفر بھی بڑا تیز نکلا! کیا مطلب؟ کونسا فلاسفر! ایک منٹ!کہیں کوئی نازی سپاہی میری جان لینے تو نہیں آ رہا! کیا بات کرتا ہے گھامٹر! یہ امریکہ ہے امریکہ! اچھا! ہاں! یہ سسرے ولہلم لینبز کی بات کر رہا ہوں۔ اپنے اچھے خاصے دماغ کو چلنے سے روک دیا اس نے۔ چڑھا دیا اپنی فکر کو عام زندگی کی بھینٹ۔ لے بیٹھا میرے اقبال کو بھی، کھپا دیا ماحول کے بیچ، بٹھا دیا اسے بھی پوتر مسند پر، بنا دیا اس کو بھی سٹیچو۔ فکر کو لاٹھی سے مارتا ہوا لایا اور اور زبردستی تسلیم کروایا اس سے خدا کے وجود کو۔ پھر وہی جرمنوں والی چالاکی کہ خُدا کے وجود کو تسلیم تو کیا مگر اسکی قدرت کو منطقی طور پر ممکن کاموں تک محدود رکھا اور اس طرح ہماری دُنیا میں شر کی موجودگی کو لازم قرار دے کر سرخرو ہوا۔ آہا ہا! خدا کو ڈھونڈنے نکلا تھا شیطان کی تلاش پر منتج ہوا! آہاہا!
میرے نزدیک مذکورہ بالا مختصر ترین کہانی ڈراؤنی نہیں بلکہ فکری اور نظریاتی ہے۔ اس کی تہ تک جانے کیلئے ہمیں اپنی سوچ کے بنے بنائے سانچوں کو توڑ مروڑ کر ایک طرف پھینکنا ہے۔ دشوار ہے مگر چند لمحے ملن، دو گھڑی گفتگو کے نشاط انگیز تصور میں یہ بھی کر دیکھو۔ فلسفہ و فکر کی موشگافیوں کو دِل و دماغ میں جگہ دینی ہو تو روایت کے مردوں کو پاؤں تلے روندھتے گزرنا پڑتا ہے۔ یوں بھی ہمارے روایتی ذہنی سانچوں کی حیثیت بھٹہ خشت پر اینٹیں پتھنے سے مماثل ہے۔ ایک جیسی رٹی رٹائی، پتھی پتھائی لال بھوری اینٹیں۔ سر پھوڑنے کو دل کرتا ہے ان اینٹوں سے۔اگر میں یہ کہوں کہ یہ مختصر ترین کہانی ہماری اس ظاہری دنیا سے متعلق نہیں ہے بلکہ ہمزاد سے جُدائی اور تنہائی کا بیان ہے تو کیسا ہے۔ ایک منٹ یار! سانسیں کھینچ کھینچ کر میری پسلیوں کی رگیں چڑھ گئی ہیں۔چند لمحے پیلی گھاس کے گداز سے لپٹ کر انہیں موزوں کر لوں۔
ہاں تو میں ہمزاد کی بات کر رہا تھا۔ آہ! ہمزاد کی بات سے پہلے ہمزاد کا نوحہ! ان لوگوں کا نوحہ جو فکری لحاظ سے ازل کے تنہا ہیں، جن کے محرم راز گوریں جا سوئے ہیں، جن کی بات سننے اور سمجھنے والا کوئی نہیں۔ بہت پہلے کی بات ہے! بہت پہلے کی نہیں بلکہ بہت بہت پہلے کی بات ہے۔ ساڑھے چار ارب سال یا پھر شاید پونے چودہ ارب سال سے بھی پہلے کی بات جب میں اور میرا ہمزاد کسی نامعلوم کہکشاں کے کسی بے نام سیارے پر یک جان کی طرح رہتے تھے۔ صدیوں کے ارتقائی سفر کے باعث ہماری حیات تصوراتی جنت کے موافق ہو گئی تھی۔ شر کی قوتوں کو ارواحِ مقررہ کے ذریعے کسی اور کہکشاں کے کسی اور سیارے کے پاتال میں قید کیا جا چکا تھا۔ ہم لوگ اپنے ذہن کے ارتکا زسے اپنے ماحول میں موجودم قناطیسی میدان کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنے ارد گرد کی چیزوں کو فقط تصور کرنے پر حاصل کر لیا کرتے تھے۔اپنے ماحول میں موجود الیکٹرک پاور کو استعمال میں لا کر لاکھوں میل تک پیغام رسانی، گفتگو، عوامل اور اسراع پر قادر تھے۔ اگرچہ سب لوگ روحانی طور پر ایک جیسی طاقت کے متحمل نہ تھے تاہم ارتقائی عروج کے ثمرات سبھی لوگوں کو بڑی حد تک بہم تھے۔ ایک جرمن کہاوت جس چیز کو آنکھ نہیں دیکھتی، اس کے لئے دل افسردہ نہیں ہوتا کے مصداق ہماری دنیا میں ان دیکھے خُدا کا تصور موجود نہیں تھا۔
اگرچہ بدروح TOIA اور شیطان OKEE جیسی مخلوقات کو پاتال بدر کر دیا گیا تھا مگر روحانی طاقت کے حصول اور استعمال سے متعلق ایک مقابلے اور مباہلے کی فضاء ہم لوگوں میں موجود تھی۔ نطریہء اضافیت کے مطابق ہم لوگ اپنے اجسام یعنی مادے کی کیفیت سے نکل کر لائٹ یعنی نور کی کیفیت میں رہ رہے تھے۔تمام روحیں اس وقت تک آزاد تھیں اور اپنی قوت کے مطابق مسحور اور شاداں بھی ہر روح کا اپنا دائرہ عمل اور الیکٹرک اور مقناطیسی فیلڈ مختلف تھی اسی طرح لاکھوں سال گزر گئے اب ایک دو قرنوں سے ایک واضع تبدیلی ہمارے جہاں میں دیکھی اور محسوس کی جا رہی تھی کبھی کبھی ایسا ہونے لگا کہ ہم روحوں کے مقناطیسی اور الیکٹرک فیلڈ ہماری مرضی کے مطابق کام کرنے سے قاصر رہتے کبھی کبھی تو اتنے زبردست جھٹکے لگتے کہ یوں محسوس ہوتا جیسے ہماری حالت (State) تبدیل کی جا رہی ہو اور یوں لگتا جیسے کچھ ہی دیر میں پھر ہم لوگ نور سے مادے کی کیفیت میں چلے جائیں گے مگر پھر کچھ وقت کے بعد ہماری پو زیشن درست ہو جاتی۔
پھر یوں ہوا کہ شاں کی تیز آواز آتی اور ہماری کروڑوں اربوں روحوں میں سے کچھ روحیں غائب ہو جاتیں۔ پہلے تو ہم لوگ یہ سمجھتے تھے کہ نور یا روح کی حالت میں آنے کے بعد ہم ہر قسم کے کنٹرول سے مبّرا ہو جائیں گے مگر اب ہمیں ایک سُپر نور کی موجودگی کا احساس ہونے لگا تھا۔ وقتاً فوقتاً ہماری طاقت کے فیلڈ میں خلل آنے لگا تھا مگر یہ معلوم نہ تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور کون کر رھا ہے۔ اپنے تئیں ہم لوگ اسے اپنی توجہ کے ارتکاز کی کمزوری یا خلل ہی قرار دیتے تھے پھر ہم نے دیکھا کہ ہمارا اک ہمزاد نہ تو فیلڈ ٹوٹنے کا شکار تھا اور نہ جھٹکوں سے پریشان۔
ہم میں سے کئی روحوں نے اس سے اپنی کیفیت کا اظہار کیا مگر وہ کچھ نہ بتاتا بلکہ صرف مسکراتا تھا۔ اب تو وہ ہمیں کبھی کبھی عجیب و غریب تماشے بھی دکھایا کرتا ہم لوگوں کو اتنے زور سے گھماتا کہ ہم لوگ مادے کی کیفت میں چلے جاتے پھر ہمیں اتنے زور سے دوڑاتا کہ ہم لوگ شاں کرکے واپس اپنی نوری حالت میں آ جاتے۔
ایک دن ایسا بھی آیا کہ ہم سب روحوں کے مقناطیسی میدان اور الیکٹرک فیلڈ بے اثر ہو گئے۔ ہم لوگ بے بسی کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ہم لوگوں میں سے کچھ کی ریزرو انرجی ختم ہونے لگی۔ اس موقع پر پھر ہمیں انرجی ٹرانسمشن کا احساس ہوا۔ نینو سیکنڈ سے بھی کئی ہزار درجہ کم وقت میں ہم لوگوں کو روشن یعنی زندہ رہنے کے لئے مائکروویو طاقت حاصل ہونے لگی۔ یہ بات تو طے تھی کہ ہماری ہی دنیا کی کوئی سپر طاقت ہمیں زندہ رکھے ہوے تھی۔ لازمی طور پر یہ طاقت و ھی ہو سکتی تھی جس نے ہماری تمام طاقت ختم کر دی تھی یا پھر اس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔
لاکھوں سال اسی طرح گزر گئے اور ایک دن سُپر روح کاظہور عمل میں آیا۔ یہ روح دراصل میرے ہمزاد ہی کی روح تھی مگر اب یہ بہت ہی پیچیدہ برقی راستوں اور مقناطیسی میدانوں سے مزین اور محفوظ ہو چکی تھی اس کی موجودہ قوت اور قدرت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ ہم ایسی اربوں کھربوں روحوں کی تمام قوت اس کے اختیار اور استعمال میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اپنے ظہور کے بعد ہمزاد نے تمام روحوں کو مخصوص مقام پر محفوظ کر دیا اور اپنی مرضی سے ان کو انرجی ٹرانسمٹ کرنے لگا۔
مادے سے نور میں تبدیلی کے وقت ہم نے ساڑھے چونتیس ارب میل فی سیکنڈ سے زیادہ رفتار کے ساتھ سفر کیا تھا پھر اسی طرح کئی نوری قرنوں اور کئی برقی رفتاروں کے مقامات آئے اور گزر گئے۔ ایک دن پتہ نہیں ہمزاد کو کیا سوجھی کہ اس نے دو روحوں کو مانع اور مستعمل کے چکر میں ڈال کر ایک لمبے ہی چکر میں ڈال گیا۔ پھر یوں ہوا کہ مانع و مستعمل کی عدم تعمیل کے باعث ان روحوں کے درجے میں تنزلی کرکے ان کی حالتِ نور کو مادے کی کیفیت میں تبدیل کر دیا۔ لو بھئی یہ تھے ہم اور یہ تھی ہماری کہانی، جب ہم لوگ روح تھے تو ہمزاد کے قُرب میں تھے مگر اب باری باری مادے کی حالت میں پہنچے تو ہمارے بیچ کئی سیاروں اور کہکشاؤں کے دبیز پردے حائل ہو گئے۔
پھر کیا ہوا کہ ہم لوگوں نے ہمزاد سے دوری کے سبب رونا پٹنا شروع کیا مگر اب اتنے نوری سال کے فاصلے پر مقناطیسی اور برقی میدانوں کے بغیر ہماری رسائی اگر سو فیصد نا ممکن نہیں تو محدود ترین ضرور ہو گئی۔ نا ممکن اس لئے نہیں کہ ہمزاد اپنی مرضی سے کچھ مادی جانوں کو الیکٹرک فیلڈ کے ذریعے روحانی طور پر اپنی جھلک دکھا بھی دیتا تھا شائد اس لئے بھی کہ ان لوگوں کے ذریعے اس کا نام اور مقام مناسب حد تک قائم اور زندہ رہے۔ ہمزاد کی مرضی کے مطابق میں نے اپنی قید کے مقام جسے زمیں یا اس جیسا کوئی اور سیارہ تصور کر لیں پر اپنی کم درجہ یعنی اپنی مادے کی حالت کے مطابق کم درجہ عوامل میں کئی صدیوں کے ارتقاء کے نتیجے میں ترقی بھی حاصل کی جو ہماری نارسا فکر اور ہمارے مختلف زمانوں کے لحاظ سے بڑی ارفع اور اعلیٰ بھی دکھائی پڑتی تھی۔ نظام شمسی ہی کے کسی دوسرے سیارے کی دریافت ہو کہ مادے کو ہوا میں جہاز کی رفتار سے اڑانے کا معاملہ یا پھر بھاری بھرکم ٹھوس اجسام کا پانی پر تیرنے کا مسئلہ، یہ سب بھی مجھے تو حیرت زدہ کرنے کے لئے کافی تھے۔ چونکہ میں نے ارفع سے ادنیٰ کی طرف سفر کیا ہے اس لئے میری سرشت میں روح کی محبت اور ہمزاد سے ملاپ کی تڑپ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اگرچہ ہمزاد نے میری نوری طاقت کو سلب کر لیا مگر مجھے فکری طور پر زندہ رکھنے کے لئے سوچنے اور سمجھنے کی کچھ طاقت بحال بھی رکھی۔ اپنی اس مخفی قوت کے بَل بوتے پر میں نے اپنی روح کے کھوج اور ہمزاد کی تلاش کا سفر جاری کر رکھا۔ اس وقت جب میرا نام حلاج ہوا کرتا تھا تو میں نے چینخ کر ہمزاد کے راز کو افشاں کرنا چاہا۔ چونکہ ہمزاد کا کوئی ھمراز نہیں ہو سکتا اس لئے اس نے ظاہری عوامل کو استعمال کرکے فوری طور پر میری مادے کی کیفیت کو نور میں تبدیل کر دیا تا کہ میں اپنے دیگر ہم نفسوں کے اذہان کھولنے اور انہیں حقائق سے آگاہ کرنے سے باز رہ سکوں اور پھر میرے ہی ہم نفسوں نے ظاہر کے لباس پہن کر میری پھانسی کے حکم نامے پر مہرصدق لگا دی۔
دلچسپ بات ہے کہ تمام کائنات مادے سے ملکر بنی ہے اور دراصل مادہ اور نور ایک چیز کے دو پر توں ہیں اور ان کی مقدار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کائنات میں ایک جتنی یعنی یکساں ہے۔ ان کی صرف ہیت تبدیل ہوتی ہے یعنی مادے سے نور میں اور نور سے مادے میں مگر یہ ختم نہیں ہوتے۔ اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں کی کیا روحوں نے زمین سے آسمان کا سفر کیا البتہ مادے اور لائٹ کے لئے دو الگ مقام مخصوص کئے۔
مجھے اپنی مادی کیفیت کی تبدیلی کا پتہ بھی تقریباً بیسویں صدی کے آغاز میں ہوا جب میرا نام نیوٹن ہوا کرتا تھا اور میں نے حرکت اور ثقل کی قوتوں کو دریافت کیا۔ اس وقت معلوم ہوتا تھا جیسے میں نے کائنات کے سب سے بڑے راز کو معلوم کر لیا مگر جب میں نے آئن سٹائن کے روپ میں جنم لیا اور نیوٹن کے برعکس نظریۂ اضافیت یعنی یہ نظریہ کہ فاصلہ اور وقت اضافی ہیں کی بنیاد رکھی اور اضافت کی سپیشل تھیوری کے تحت مادے کی نور میں تبدیلی کا پتہ لگایا۔ میں نے رومی کی نے بن کر بھی آواز لگائی جو کسی نے سنی نہیں! تمام تر فاصلوں کے باوجود ہمزاد نے بھی مجھ سے محبت کا رشتہ قائم رکھا۔ مجھے علمِ شریعہ سے مستفیض کیا تا کہ میرا میلان نہ تو بھٹکے اور نہ ہی حد سے بڑھے۔ پھر کبھی کبھی طریقت کے رستے میرے مقناطیسی اور الیکٹرک فیلڈ میں کبھی کبھی ارتعاش بھی پیدا کر دیتا ہے مگر پتہ نہیں اس نے مجھے مزید کتنی صدیوں تک نا مراد و نا رسا رکھنا ہے۔ کبھی کبھی تو مجھے فاصلے اور وقت کی اکائیوں کی طرح اپنا ہر فعل، اپنی ہر سوچ، ہر فکر، ہر احساس اور ہر پہنچ اضافی یعنی (Relative) لگتی ہے۔ سوچتا ہوں تو ڈر جاتا ہوں کیونکہ اگر ایسا ہے تو پھر میرا ہر کام اور ہر عمل بے معنی و لا یعنی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو میرا مقصد نوری کیفیت کی تلاش اور ہمزاد سے ملاپ کے لئے ہے اگرچہ ہمزاد کے مصمم وعدہ اور غیر متزلزل ارادہ کی نوید ہے مگر پتہ نہیں میری حالت میں تبدیلی اور ہمزاد سے ملاپ کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے میں کتنی صدیاں اور کتنے نوری قرن صرف ہو جائیں۔ یہ سب سوچ کر میرا دل ڈوب جاتا ہے اور میں پھر اپنے خول یعنی اپنے جسم میں پناہ ڈھونڈتا نظر آتا ہوں، اسی پناہ کے لئے ابھی ابھی میں نے اپنے جسم کے دروازے پر دستک دی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.