حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
فبای الآء ربکما تکذبن:
ثمیہ جیسے ہی عارفہ کے گھر کے داخلی دروازے تک پہنچی تبھی یہ قرآن مجید کی خوبصورت آ یت ثمیہ کے کانوں میں رس گھولنے لگی۔۔۔ ثمیہ کچھ لمحوں کے لیے رک سی گئی اس کا من کر رہا تھا کہ وہیں ٹہر کر کچھ دیر اور سماعت فرمائیں، دروازہ کھٹ کھٹا کر تلاوت قرآن پاک میں دخل نہ دیں۔۔۔ نہ چاہتے ہو ئے بھی اس نے دھیرے سے دروازے پر دستک دی۔۔۔ عارفہ کے پانچ سالہ بیٹے نے آکر دروازہ کھولا، ثمیہ بچے کو پیار کر تے ہوئے چپکے سے داخل ہوئی۔ ہال میں ہی بیٹھی عارفہ قرآن مجید کی تلاوت کر رہی تھی اس نے جیسے ہی ثمیہ کو اپنے گھر میں اچانک دیکھا تو قرآن پاک کو بند کر تے ہوئے ثمیہ سے فرط مسرت کے ساتھ گویا ہوئی۔ ثمیہ تم آؤ آؤ بیٹھو، ثمیہ جلدی سے بول پڑی آپی میں بیٹھ جاؤنگی مگر آپ نے اپنا پڑھنا کیوں روک دیا۔ آپ نہیں جانتی آپ کتنا اچھا پڑھتی ہیں۔۔۔ چلیے شروع کیجئے آپ سورہ الر رحمن پڑھ رہی تھی نہ اسے پورا کر لیجئے۔ ایک عرصہ ہو گیا میں نے آپ کو پڑھتے ہوئے نہیں سنا، آج ہم دونوں بہنوں پر اللہ نے کرم فرمایا ہے کہ رمضان المبارک میں ہم ساتھ بیٹھ کر پڑھیں اور سنیں۔۔۔
عارفہ نے مسکراتے ہو ئے قرآن پاک کو کھولا اور تسمیہ کے ساتھ پھر سے الرحمن کی سورۃ جو باقی رہ گئی تھی وہ پڑھنے لگی۔ جب وہ فبای الآء ربکما تکذبن کی آ یت کا ورد کرتی تو اس کی آ نکھوں میں ایک تجلی سی پیدا ہو جاتی۔۔۔ عارفہ کے ساتھ ساتھ ثمیہ بھی پوری طرح خدا کے حضور میں حاضر ہو گئی اور ثمیہ نے بخوبی محسوس کیا کہ پڑھتے ہوئے عارفہ کے چہرے پر ایک نور سا چمکنے لگتا ہے اور بار بار آنکھوں میں نمی بھی آ جاتی ہے پھر چہرہ پر سکون بھی ہو جاتا ہے جیسے وہ خداکا شکر بجا لا رہی ہوں۔۔۔ دونوں ذکر الٰہی میں جیسے کھو سی گئیں تھیں۔ سورۃ کے ختم ہو نے پر کچھ لمحے ایک سکوت سا طاری رہا پھر ثمیہ نے اس سکوت کو توڑا اور گویا ہوئی۔۔۔ آپی قرآن مجید کی عربی زبان مخارج الحروف اور پوری الترتیل کے ساتھ پڑھتے ہوئے آپ کا ایمان پرور جذبہ ایسا لگتا ہے کہ آپ اپنی پر کشش التجا ئی آواز میں رب کی تعریف اور شکر بجا لانے میں منہمک دنیا و ما فیہا سے بےخبر بوقت ذکر خدا کی ذات پاک پر آپ کا یقین کامل نمایاں طور پر خود بخود عیاں ہونے لگتا ہے۔۔۔ پڑھتے ہو ئے آپ کی آنکھوں میں ایمان کی تجلی اور آپ کے چہرے پر ایک نور سا تبسم جلوہ نما ہوتا ہے آپ جب پڑھتی ہیں تو سننے والے میں ایک اشتیاق سا پیدا کر دیتی ہیں پھر وہ انسان بےچین ہو اٹھتا ہے۔ قرآن پاک کے مفہوم و تفہیم کو جاننے اور سمجھنے کے کی تمنا اور جستجو کا طوفان سا اس کے اندر بر پا ہو جاتا ہے۔۔۔ سچ آپی میں تو کہتی ہوں کہ آپ کو قرآن پاک پڑھتے ہوئے جو بھی سن لے چاہے وہ کسی بھی فر قے سے کیوں نہ ہو بےشک اللہ کی اس کتاب پاک سے اسے محبت ہو جائے اور وہ ایمان لے آئے۔۔۔ یہ خدا کی دین ہے جو خدا نے آپ میں موجزن کر رکھی ہے ایسا علم اور ایسی انمول عنایتیں سبھی کو نصیب نہیں ہوتی ایسے نیک بندے خال خال ہی ہو تے ہیں۔ خدا کے منظور نظر آپ بھی خدا کی خاص الخاص بندوں میں سے ہو۔ پڑھتے ہوئے آپ صحیح معنوں میں عارفہ معلوم ہوتی ہیں۔۔۔ عارفہ نے مسکراتے ہو ئے ثمیہ کو روکا بس بس بہت تعریف کے پل باندھ لیے تم نے میرے۔۔۔ آپی سچ ہی تو کہہ رہی ہوں ظاہر سی بات ہے کیوں ابو بھی تو آپ کو پڑھتے ہوئے سن کر آپ کی تعریف ہی تو کرتے ہیں۔۔۔ اچھا آپ مجھے یہ بتایئے کہ آپ کو کوئی کام تو نہیں ہے کچن میں۔۔۔ عارفہ نے کہا نہیں نہیں ایسا کوئی کام نہیں ہے، پھر ثمیہ نے پورے ذوق کے ساتھ عارفہ سے فرمائش کی کہ آپی آپ کو ترجمے کے ساتھ قرآن پاک پڑھتی ہیں اور یہ بھی جانتی ہیں کہ اردو جیسی شیرین زبان کو میں سیکھ نہیں پائی آپ تو اردو زبان پر عبور حاصل ہے اور ہماری اپنی زبان میں ترجمہ پڑھنے اور سمجھنے کا اپنا ہی لطف ہوتا ہے، پلیز مجھے اپنی زبانی اس کا ترجمہ بھی پڑھ کر سنا دیجئے اور اس سورۃ کے مفہوم اور مقصد کے بارے میں بھی مجھے ذرا سمجھا یئے۔۔۔ عارفہ ثمیہ کے تجسس کو دیکھ کر بےحد خوش ہوئی اور اس نے سورۃ الرحمن کا اردو ترجمہ پڑھ کر سنایا۔ پھر عارفہ اپنے انداز بیان میں ثمیہ کو سمجھا نے لگی کہ یہ سورۃ قرآن مجید کے ۷۲ ویں پارہ میں آ تی ہے اور یہ قرآن کی ۵۵ ویں سورۃ ہے یہ سورہ الرحمن جو کہ بےحد خوبصورت اور پر کشش ہے اسی لیے اللہ کے نبی ﷺ نے اس سورہ کو عروس القرآن کا لقب عطا کیا ہے یعنی قرآن مجید کی دلہن اس سورہ میں فبای الآء ربکما تکذبن یہ آیت ۱۳ مر تبہ آئی ہے۔ اس کے ذکر میں ایک الگ ہی لذت محسوس ہوتی ہے جس سے تشنہ لب بھی سیراب ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ تم نے سننے میں لطف محسوس کیا اس سے ۱۰۰ گنا زیادہ پڑھنے والے اُس سے لطف اندوز ہو تے ہیں۔۔۔ اس سورۃ میں جیسا کہ تم نے ابھی ترجمے میں سنا کہ اس میں ہم پر عطا کردہ بے شمار نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اس کی شروعات اللہ تعالیٰ قرآن پاک کے ذکر سے فرماتے ہیں چوں کہ تعلیم قرآن میں قدرومنزلت اور اہمیت و افادیت کے لحاظ سے سب سے نمایاں ہے اس سورۃ میں بہت سی نعمتیں گنوائیں ہیں جو ہمارے لیے پیدا اور مہیا فرمائیں ہیں۔ یہاں تک کے فنائے دنیا کے بعد بھی جزا و سزا یعنی عدل کا اہتمام بھی ایک نعمت عظمیٰ ہے شکر الٰہی واجب ہے۔
الرحم الرٰحمین جو مہربانوں کا مہربان ہے ہم جن و انس پر اللہ رب العزت کی بےشمار نعمتیں ہیں جو اس سورۃ میں گنوائیں ہیں اور ان نعمتوں کے اقسام و انواع کا ذکر فرماتے ہو ئے ہر نعمت یا چند نعمتوں کے ذکر کے بعد یہ استفسار فرمایا ہے کہ فبای الآء ربکما تکذبن ترجمہ (اے جن و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤں گے) جس کا مقصد اس خالق اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روکنا جس نے یہ ساری نعمتیں اپنی مخلوق کے لیے پیدا اور مہیا فرمائی اور اُس کے بدلے صرف اس امر کا جن و انس سے تقاضا کیا گیا ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرائیں۔ اسی لیے نبی ﷺ نے اس کے جواب میں یہ آیت پڑھنا پسند فرمائی ہے۔ ترجمہ آیت (اے میرے رب ہم تیری کسی بھی نعمت کی تکذیب نہیں کر تے پس تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں)
ثمیہ میری بہن سورۃ مجھے بہت ہی عزیز ہے اسے پڑھتے ہوئے مجھے ایک سکون میسر ہوتا ہے۔ اللہ کی نعمتوں کا ذکر میں کتنی بھی بار کروں میراجی ہی نہیں بھرتا، بے شک اللہ بڑا ہی مہر بان اور کارساز ہے وہ ظاہر بھی ہے مخفی بھی، وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے وہی اول وہی آخر بھی، وہی زبردست اور دانا ہے۔ زمین و آسمانوں کی سلطنت کا مالک وہی زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے۔۔۔ یعنی سب اس کے محتاج ہیں اور اس کے در کے سوالی۔۔۔
آپی بہت دنوں کے بعد آپ سے قرآن مجید کو سننے کا ہی نہیں بلکہ اس عظیم سورۃ کے مفہوم کو سمجھنے کا بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے موقع عطا فرمایا، یہ ماہ رمضان کی فضلیت ہے جو آپ سے ملاقات کا شرف مجھے عطا ہوا۔ صبح میرا آ پ کے شہر آنا ہوا یعنی اپنے سسرال اسی بہانے میں نے آپ سے بھی ملاقات کر لی آ پ کے پاس آکر وقت کیسے بیت گیا پتہ ہی نہیں چلا تین بجے یہاں آئی تھی اب تو عصر کا وقت ہو رہا ہے اب مجھے نکلنا چاہیے وہاں پر سب میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔۔۔ عارفہ نے ثمیہ کو روکتے ہو ئے کہا تھوڑی دیر اور رک جاؤں تمہارے بھا ئی جان آتے ہی ہوں گے ان سے بھی مل لینا۔۔۔ نہیں آ پی دیر ہو جائےگی بعد افطار کے ہمیں جلدی سے اپنے گھر بھی نکلنا ہوگا ان سے پھر کبھی مل لوں گی۔۔۔ ہاں! عابد بھائی جان کو میرا سلام سنائیےگا۔
عارفہ کے بچے کو شاید پیاس لگی تھی وہ پانی پانی کہنے لگا۔۔۔ اتنے میں عارفہ کو باہر سے کسی نے آواز دی تو عارفہ بچے کی بات کو ان سنی کرتے ہوئے دروازے کی طرف چلی گئی۔۔۔ ثمیہ نے یہ سوچتے ہوئے کہ بچے کو پیاس لگی ہے اُس کو لیکر یہ کہتے ہو ئے کچن کے اندر چلی گئی کہ آؤ بیٹا ہم آپ کو پانی پلاتے ہیں اس نے گلاس سلف پر سے لیا اور دیکھا تو اسٹوو کے بالکل قریب ہی پانی سے بھرا جگ رکھا ہوا تھا۔ ثمیہ نے جیسے ہی جگ اٹھاکر گلا س میں پانی بھرنا چاہا تو اچانک جگ کے بازو ہی رکھی پتیلی سے اس کا ہا تھ لگ گیا اور پتیلی کو ڈھکا برتن کھسک کر کھل سا گیا۔ ثمیہ نے بچے کو پانی پلانے کے بعد اس کھسکے ہو ئے بر تن کو ٹھیک سے ڈھک کر رکھنا چاہا تو پتیلی کے ہلکے اور خالی پن کا احساس اس کو ہوا اس نے غیر ارادی طور پر برتن کو پورا کھو ل کر دیکھا تو اندر سے پوری پتیلی خالی تھی، اس میں کچھ بھی تو نہیں تھا پھر ثمیہ کی نظر ایک اور پتیلی پر پڑی جو اسٹوو کے اوپر ڈھک کر رکھی ہو ئی تھی اس نے سو چا شایداس میں کچھ بنا کر رکھا ہوگا مگر پھر بھی اسے کچھ عجیب سا خد شہ ہوا تو اس نے اس ڈھکی ہوئی پتیلی کو بھی کھول کر دیکھ ہی لیا اور وہ ساکت سی ہو گئی کیونکہ وہ پتیلی بھی خالی ہی تھی پھر جلدی سے آس پاس نظریں گھما کر دیکھنے لگی وہاں پر اسے کوئی سبزی وغیرہ کچھ بھی نظر نہیں آیا۔۔۔ وہاں کے خالی پن سے اس کا دل دھک سے رہےگیا وہ جلدی سے خود کو سنبھالتے ہوئے بچے کو لیکر ہال میں آ گئی۔۔۔ عارفہ اب بھی اپنی پڑوسن سے مسکرا تے ہو ئے باتیں کر رہی تھی ثمیہ کو ان کے گھر کے حالات دیکھ کر بڑی ہی تکلیف ہونے لگی وہ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے اپنی عارفہ آپی کو تکے جا رہی تھی یہ سچ ہے کہ خدا کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ دکھ یا تکلیف اس کو نہیں دیتا مگر آج عارفہ کو دیکھ کر ثمیہ کو ایسا لگ رہا تھا عارفہ کے اندر خدا نے زمیں و آسماں سے بھی بڑی وسعتیں رکھ دی ہوں۔۔۔ کیسی نیک بخت صابر بہن ہے رمضان کا مہینہ ہے افطاری کا وقت قریب تر ہوا جا رہا ہے، گھر میں کھانے اور پکا نے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے مگر وہ اس طرح خوش اسلو بی کے ساتھ باتیں کیے جا رہی ہے کہ شاید ہی کوئی ان کی اندرونی تکالیف کو سمجھ پائے۔۔۔ ثمیہ بھی آج عارفہ کے باورچی خانے کے اندر قدم نہ رکھتی تو یہ راز اس پر بھی ہرگز عیاں نہ ہو پاتا۔۔۔ کچھ ہی دیر میں وہ آئی ہوئی عورت چلی گئی اور ثمیہ نے بھی وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہو ئے اپنی آپی کی عظمت کو ٹھیس پہنچائے بغیر انجان بن کر چپ چاپ وہاں سے نکلنا ہی مناسب سمجھا اور عارفہ سے اجازت طلب کی اچھا آپی اب مجھے اجازتے دیجئے میں نکلتی ہوں، اللہ حافظ اور نکلتے ہوئے ثمیہ نے اپنی پرس سے دو سو روپیے نکال کر تحفتاً بچے کے ہاتھ میں رکھ دیے۔۔۔ عارفہ نے جیسے ہی ثمیہ کو بچے کے ہاتھ میں روپیے رکھتے ہو ئے دیکھا تو فوراً منع کر نے لگی ثمیہ یہ تم کیا کر رہی ہو ایسا مت کرو، اس کو روپیے دے کر اس کی عادت خراب کر رہی ہو۔۔۔ آپی میں روز روز تھوڑی ملوں گی جس سے اس کی عادت خراب ہو جائے دیکھئے میرے اور میرے بھانجے کا معا ملا ہے پلیز آپ ہمارے درمیان میں مت آ یئےگا۔۔۔ ثمیہ کی بات پر عارفہ کو چپ ہونا ہی پڑا۔۔۔ ثمیہ بعد افطاری کے اپنے گاؤں چلی آئی۔ مگر سیدھا اپنے گھر نہیں اپنے والدین کے یہاں پہنچی اور اپنے ابو سے آج کے دن کی عارفہ سے ملاقات کا سارا ماجرا بیان کر تے ہو ئے اس کی آنکھیں بھیگی جارہی تھی اس نے اپنے ابو سے کہا ابو مجھے عارفہ آپی کے گھرکے حالات دیکھ کر بہت تکلیف پہنچی ہے۔۔۔ میں اتنی خوش حال ہوں اور میری بہن اس قدر آزمائشوں میں گھری ہوئی ہے۔۔۔ میں چاہتے ہوئے بھی ان سے کچھ پو چھ بھی نہ سکی اور نہ ہی کچھ کر پائی ان کے صابر و شاکر کردار کی عظمت کے آگے میرے ہونٹ جیسے سل سے گئے میں نہیں چاہتی تھی کہ میرے کسی بھی سوال سے ان کی انا کو ان کے عارفا نہ مزاج کو ہلکی سی بھی ٹھیس پہنچے۔ اب جو بھی اور جیسے بھی کر سکتے ہیں وہ صرف آپ ہی کر سکتے ہیں۔ وہ تو اپنے آپ کبھی کسی کو کچھ نہیں بتائیں گی۔۔۔ آج اتفاق سے میرا ان کے گھر جانا ہو گیا تو مجھ پر یہ راز عیاں ہو پایا ورنہ پتہ نہیں اور کب تک ہمیں ان کی تکا لیف کا احساس بھی نہ ہو پاتا۔۔۔ وہ جب بھی آتی ہیں بڑی خوش باش یہاں آکر چلی جاتی ہیں کچھ کہنا تو دور وہ اپنی طبیعت سے بھی کچھ ظاہر نہیں ہو نے دیتی ہم تو ان کے ہاں خال خال ہی جاتے ہیں۔ پھر آپ ہی سو چئے ابو ان کے حالات زندگی ان کے گزر بسر کا ہمیں کیسے پتہ چلےگا بھلا۔۔۔
سعید صاحب اپنی بیٹی ثمیہ کی زبانی یہ ساری باتیں سن کر دنگ سے رہ گئے وہ اپنی زبان سے کچھ بھی نہیں کہہ پائے۔۔۔ کہتے بھی تو آخر کیا کہتے اس وقت وہ اچھی طرح محسوس کر نے لگے تھے کہ غلطی انہی کی ہے اور انہی سے سر زد ہوئی ہے۔۔۔ انہیں اپنی بیٹی کی باتوں کو سنتے ہوئے جھٹ سے یاد آیا کہ پہلی طرح تراویح میں جب الٰمہ کے پارہ کی سورۃ: سورہ بقرہ کی تلاوت ہوئی تھی، نماز کے بعد حافظ صاحب نے اس کی تفہیم میں بیان فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اپنا مال جس سے تم محبت کر تے ہو پہلے قرابت داروں میں اور یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور پھر سوال کر نے والوں کو دو۔۔۔ اصل گنہگار تو میں ہی ہوں، میں یہ کیسے بھول گیا کہ سب سے پہلے قرابت دار ہی حق دار ہیں اپنے رشتہ دار عزیز و اقارب میں جو بھی تنگ دستی میں ہوں سب سے پہلا حق تو انہی کا بنتا ہے۔ ان کا حال دریافت کر نا اور ان کی مدد کر نا ہمارا فرضِ اولین ہے۔ پھر آگے آتا ہے ذکر یتیموں، مسکینوں اور سوال کر نے والوں کا۔۔۔ اس دنیا میں کچھ انسان ایسے بھی ہیں جو غریبی، تنگ دستی اور فاقہ کشی میں ہو تے ہوئے بھی کسی کے آگے اپنا مدعا بیان نہ کر تے ہوئے ہر حال میں صابر و شاکر اپنے رب کا شکر ادا کر تے ہو ئے لبوں پر مسکراہٹ پھیلائے زندگی کو نعمت خداوندی سمجھ کرجی رہے ہیں۔۔۔ میری بہن کے جگر کا ٹکڑا میری عارفہ بھی انہیں میں سے ایک ہے جسے آج تک میں پوری طرح سمجھ ہی نہیں پایا۔ وہ جب بھی ایک دو دنوں کے لیے ہم سے ملنے آتی تو اس کی خوش دلی، اس کے حسنِ سلوک اور اس کی ہنسی کو دیکھ کرمیں اس کی خوش حالی سمجھتا رہا۔۔۔ کبھی مجھے اس کی مسکراہٹ کے پیچھے چھپی برداشت کی قوت اور اس کا بےجا صبر و شکر کیوں نظر نہیں آیا۔۔۔ اس نے اس درمیان کبھی بھی اپنی تکالیف کو آشکار نہیں ہونے دیا۔ اصل میں گنہگار میں ہوں غلطی مجھ ہی سے ہو ئی ہے۔۔۔ سارے شہر میں دانی بنا پھرتا ہوں ہر ضرورتمند کی مدد کرتا ہوں، بیمار ہو کہ یتیم یا مسکین یا پھر گداگر۔ کوئی بھی میرے گھر سے کبھی خالی نہیں گیا ہر ہاتھ پھیلانے والے کی میں دونوں ہاتھوں سے جھولی بھرتا رہا۔۔۔ اس لیے کہ خدا نے مجھے غنی بنایا ہے، مجھے بے انتہا مال و دولت سے مجھے نوازا ہے میں اس کا شکر گزار ہوں۔ ماہ رمضان میں تو میرا دروازہ چند لمحوں کے لیے بھی دستک سے بری نہیں ہو پاتا، مال زکوٰۃ بھی بھرپور ادا کرتا ہوں۔ میرے گھر کے آ گے قطاروں میں مانگنے اور لینے والے جمع ہو جاتے ہیں اور مجھے دعاؤں سے نواز تے ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو جانتے اور سمجھتے ہو ئے بھی مجھ سے اتنی بڑی بھول کیسے ہو گئی دنیا بھر کی مدد کرتا رہا مگر صحیح حقدار کو فراموش کر بیٹھا۔ ایک بار بھی اس کے بارے میں سوچنے کا خیال تک مجھے نہیں آیا۔۔۔ دنیا داری میں ایسا کھو گیا کہ اپنے فرض کو ہی بھلا بیٹھا۔ عارفہ کے حق کے تئیں میں غافل کیسے ہو گیا۔ مجھے اس کی زندگی کے حالات کا گاہے ماہے جائزہ لینا چاہیے تھا میں نے کبھی اس کے گھر کا رخ ہی نہیں کیا۔ وہ خود مجھ سے ملنے آ جاتی اور میں اسے ہنستا کھلکھلاتا دیکھ مطمئن ہو جاتا کہ وہ خوش حال ہے، گھر آ نے پر اپنوں کو تحفہ جات پیش کر دینے سے تھوڑی قرابت داروں کا حق ادا ہو پائیگا بھلا؟ ان کی تکا لیف اور ضروریات کو جاننا بھی تو شامل فرائض ہے۔۔۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا۔ اپنی غلطی سدھارنی ہوگی۔۔۔ انہیں سوچوں میں شر مسار سعید صاحب نے جیسے تیسے رات کاٹی سحری کے بعد بڑی بیتابی صبح سے صبح ہو نے کا انتظار کر نے لگے۔۔۔ پھر وہ بس اسٹاپ نکل پڑے اور عارفہ کے شہر جانے والی بس میں بیٹھ گئے، سعید صاحب اپنی سیٹ پر بیٹھے، پھر ایک بار اپنے خیالوں میں کھو سے گئے ان کے من میں اپنے آپ پر کئی سارے سوالات اٹھ رہے تھے وہ اپنی بھول پر پچتا رہے تھے اپنے ناساختہ ہوش و ہواس پر نا دم اپنی نا سمجھی یعنی اپنی بےسود دانش مندی پر ملامت کر رہے تھے۔ بار بار ان کی آنکھوں کے سامنے عارفہ کا مسکراتا ہوا چہرا آ جاتا، آنکھیں نمناک بھی ہوئی جا رہی تھی وہ یہی سو چتے رہے کہ اگر ثمیہ اتفاقاً عارفہ کے گھر نہ جاتی تو آج بھی اس کی حقیقت سے وہ بےخبر ہی رہتے۔۔۔ عارفہ یوں ہی خود اپنے حالات ان پر آشکار نہ ہو نے دیتی وہ صحیح معنوں میں عارفہ جو تھی خدا شناس صابر و شاکر۔۔۔ السلام علیکم! سعید صاحب، اچانک کسی کے سلام کر نے کی آواز پر وہ چونک سے گئے اور جلد ہی خود کو سنبھالا اور جواب میں وعلیکم السلام! کہتے ہو ئے دیکھا تو ان کے دوست رشید صاحب ان کے بغل والی سیٹھ پر آکر بیٹھتے ہوئے پو چھنے لگے سعید صاحب صبح صبح کہاں پر تشریف لے جا رہے ہیں؟ سعید صاحب جواب میں صرف اتنا ہی کہہ پائے اپنی بچی کے پاس جا رہا ہوں۔۔۔ پھر رشید صاحب اپنے دوست کی حکایت میں بہت کچھ کہنے لگے۔ سعید صاحب شہر میں سبھی آپ کی تعریف کر تے ہیں واقعی آپ ہیں ہی قابل تعریف۔۔۔ ہر کس و ناکس کا خیال جو آ پ رکھتے ہیں۔ اللہ جب اپنے کر م سے کسی کو نواز تا ہے تو بہت کم لو گ دوسروں کابھی خیال رکھنے والوں میں سے ہو تے ہیں۔ آپ بڑے ہی دریا دل ہیں ہر کسی کا دل اتنا بڑا نہیں ہوتا آج کے اس مطلبی دور میں، انسان میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ بہت کم ہوتا جا رہا ہے، اللہ تعالیٰ ہر امیر کو آپ جیسا ظہیر بنائے۔ رشید صاحب سعید صاحب کی تعریف کر تے نہیں تھک رہے اور سعید صاحب کو اس وقت اپنی تعریف میں کچھ بھی سننا اچھا نہیں لگ رہا تھا (چپ چا پ بیٹھے وہ اپنے ہم سفر دوست کو جیسے برداشت کیے جا رہے تھے) بار بار یہ جملہ ان کی ہر دھڑکن سے نکلا جا رہا تھا کہ ”من آنم کہ من دانم“ میں کیسا ہوں میں خود بھی نہیں جانتا ہوں۔۔۔ اور مجھے تو میرا خدا ہی بہتر جانتا ہے میں تو آج تک خود کو مکمل فرض شناس اور حق شناس تصور کرتا رہا۔ آج میں کس قدر شرمسار ہوں کہ دراصل حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔۔۔
ایک جھٹکے کے ساتھ بس رک گئی عارفہ کا شہر آ چکا تھا وہ اپنے خیالوں کے تسلسل سے باہر نکل آئے اور اپنے دوست سے اجازت طلب کر تے ہو ئے بس سے اتر کر عارفہ کے گھر کی طرف چل پڑے، سعید صاحب اپنے دونوں ہاتھوں میں دو بیاگ تھامے ہو ئے تھے جو کہ پھل مٹھائی اور بھی کئی ساری چیزوں سے لبریز تھے، عارفہ کی شادی کے پورے چھ سالوں بعد انہوں نے اس کے گھر کا رخ کیا تھا۔۔۔ ایسا نہیں کہ انہیں عارفہ سے محبت نہیں یا اس کی فکر نہیں تھی بےشک وہ عارفہ کو بھی ثمیہ کی طرح مانتے تھے اس سے بےانتہا محبت اور شفقت رکھتے تھے کیوں نہ ہو ان کی عزیز بہن کی وہ آخری نشانی جو تھی۔ سعید صاحب کی بہن نے آخری سانس لیتے ہوئے اپنی بیٹی کی ذمہ داری اپنے بھائی پر کامل یقین کے ساتھ سونپی تھی اور سعید صاحب نے بھی اپنی مرحوم بہن کی یادگار کو سینے سے لگاتے ہوئے بخو بی سنبھالا اور اس کی پر ورش میں کوئی کمی نہیں کی۔ اس کا نکاح بھی ایک قابل اور نیک انسان عابد علی کے ساتھ کروایا جو پڑھا لکھا شہر کی ایک اچھی کمپنی میں برسر روزگار اچھی تنخواہ پر معمور تھا۔ دو سال پہلے اچانک اُس کی کمپنی بند ہو جانے کی وجہ سے عابد علی نے دوسری کمپنی جوائن کرلی سعید صاحب نے عابد علی کی ملازمت کے بارے میں عارفہ سے دریافت بھی کیا تھا۔ مگر ہمیشہ کی طرح عارفہ نے خوش باش لہجے میں یہی کہا تھا کہ ماموں جان اللہ کے کرم سے سب کچھ ٹھیک ہے، ہاں اس درمیان عابد علی پر اُن کی بیوہ بہن اور بچوں کی کفالت کی ذمہ داری بھی آگئی تھی۔ اس میں بےچارے عابد علی کا بھی تو کوئی قصور نہیں تھا۔ مگر عارفہ کے گھر اور ماحول میں ایسی بھی تنگ دستی بن آئی ہے یہ تو انہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ وہ تو اچھا ہوا اللہ نے ثمیہ کو کسی بہانے عارفہ کے گھر پہنچا دیا ورنہ سعید صاحب تو عارفہ کے حالات زندگی سے لا علم ہی رہتے۔ انہی خیالوں میں چلتے چلتے عارفہ کا گھر بھی آ گیا۔۔۔ دروازہ پر دستک دیتے ہوئے ہی وہ بےحد جذباتی ہو نے لگے تھے، جیسے ہی عارفہ نے دروازہ کھولا اپنے سامنے یوں اچانک اپنے ماموں جان کو دیکھتے ہی بے ساختہ خوشی سے اچھلتے ہوئے بول پڑی آداب ماموں جان آپ اچانک یہاں۔۔۔ سعید صاحب کی آنکھیں عارفہ کے گلا ب سے کھلتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر بھر سی آئیں اور انہوں نے بیاگ ایک طرف رکھتے ہوئے ہمیشہ کی طرح عارفہ کو گلے لگا لیا۔۔۔ مگر آج منظر کچھ مختلف سا تھا کیونکہ آج تک عارفہ کی فطرت اور نیک سیرت کو اس قدر گہرائی و گیرائی سے سمجھنے اور اس کے ایمان پرور صبر و شکر کو ناپنے اور تولنے میں سعید صاحب ناکام رہے تھے آج انہوں نے عارفہ کو مکمل عارفا نہ طرز کے ساتھ پہچان لیا تھا۔ آج انہیں اپنی مرحوم بہن کی بچی پر بڑا ہی فخر ہو رہا تھا۔۔۔ جو تجربہ کار آنکھیں عارفہ کو پرکھنے میں ناکام رہی آج وہی آنکھیں اس کی عظمت پر نم ناک ہوئی جا رہی تھی اور عر ش بریں کی طرف شکر گزار اندا ز میں اٹھتی جا رہی تھیں۔ قریب ہی کھڑے عارفہ کا بیٹا اپنی ماں اور اپنے نانا جان کے اس ملن کو دم بخود ٹک ٹک دیکھے جارہا تھا سعید صاحب کو جب اس بات کا احساس ہوا تو آگے بڑھ کر اس معصوم کو انہوں نے پیار سے بانہوں میں بھر لیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.