ہرے دروازے والا مکان
عقیل بیگ نے چلتی ہوئی بس سے اپنے اسٹاپ پر چھلانگ لگائی اور شہر کی سب سے بڑی سڑک کو عبور کر کے مانڈلی والے سے اپنے برانڈ کا پیکٹ خریدا اور اس میں سے ایک سگریٹ نکال کر سلگاتے ہوئے اس نے اخباروں کے اسٹال پر روزناموں کی سرخیوں پر نگاہ دوڑائی۔ اس کے بعد وہ گردوپیش کی چیزوں کو غور سے دیکھتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ اس مختصر سے فاصلے کے درمیان کوئی شے ایسی نہیں تھی، جس کے بارے میں وہ جانتا نہ ہو۔ گزرے ہوئے تمام عرصے میں صرف ٹھیلے والوں اور بھیک مانگنے والوں کی تعداد میں کمی بیشی کے سوا کوئی خاص تغیر واقع نہیں ہوا تھا۔ پھر بھی ہر بار یہاں سے گزرتے ہوئی وہ راستے کی چیزوں کو نگاہوں سے ایسے کریدتا اور ٹٹولتا، جیسے کوئی اجنبی نئے شہر کے راستوں کی ٹوہ لیتا ہے۔ نجانے کیوں اس جگہ پہنچ کر اس کے معمولات کی تیز رفتاری غائب ہو جاتی تھی۔ اس کے منتشر خیالات ذہن میں اپنے آپ صف بندی کر لیتے اور اس کا دل دھیمے پن سے دھڑکنے لگتا تھا۔
مچھلی فروش کے ٹھیلے پر اچٹتی نگاہ ڈال کر، اٹھنے والی بساند کی وجہ سے اس نے منہ پھیر لیا۔ اس نے میلی کچیلی زمین پر پھٹے پرانے کپڑوں میں بیٹھے ہوئے بھکاریوں کو دیکھا اور فورُا پہچان گیا۔ تیل سے چپڑے ہوئے سر اور کالی داڑھی والا بھکاری بالکل نیا تھا اور شاید صبح کے بعد کسی وقت آکر یہاں بیٹھا تھا۔
اس نے قدم آگے بڑ ھایا اور ریلوے لائن عبور کر تے ہوئے دائیں اور بائیں طرف کی پٹڑیوں کو ایک نظر دیکھا۔ چکنے اور نوکیلے پتھروں پر چمکتی ہوئی متوازی لکیریں بہت دور تک چلی گئی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ پٹڑیاں پھلانگتا، ایک دھیمی اور دلفریب خوشبو کی لپٹ اس کے نتھنوں میں داخل ہوئی۔ اس نے بےقراری سے مڑ کر دیکھا تو ذرا سی دوری پر سرمئی لباس پہنے ہوئے ایک لڑکی دکھائی دی۔ وہ دو تین لمحوں تک پلکیں جھپکاتا اسے دیکھتا رہا۔ پہلی نگاہ میں لڑکی کے حسن اور کشش کو محسوس کر کے وہ آہ بھر کے رہ گیا۔ شاید اس کی عمر زیادہ نہیں تھی۔آنکھیں گہری اور چمک دار تھیں۔ جبکہ سرخ اور گندمی چہر ے کے سارے نقوش متناسب تھے۔ آدھے آستینوںوالی قمیض سے نکلتی اس کے بازوؤں کی برہنگی میں عجیب گداز پن تھا۔ جس کے احساس سے اس کے جسم کے خفیہ تار جھنجھنانے لگے تھے۔ لڑکی کا پورا جسم اس کے چہرے کی معصویت کا ساتھ نہیں دے رہا تھا اور گستاخی پر آمادہ معلوم ہوتا تھا۔ اسی لیے وہ بار بار آنکھوں کے کونوں سے اپنے سینے پر گرے ہوئے دوپٹے اور اپنی قمیض کے دامن کو غور سے دیکھنے لگتی تھی۔
لڑکی نے عقیل بیگ پر صرف ایک ترچھی نظر پھینکی اور ناک بھوں چڑھاتی چلتی بنی۔ اس نے لڑکی کی آنکھوں میں چھپے ہوئے جذبے کو محسوس کیا۔ اس کی تیز سماعت نے وہ خفیف سی ہونہہ بھی سن لی تھی، جو اس کے قریب سے گزرتے ہوئے لڑکی کے منہ سے نکلی تھی۔
ریلوے لائن پار کرتے ہوئے عقیل بیگ کو ٹھوکر لگی اور وہ گرتے گرتے بچا۔ لڑکی کے پیچھے چلنے کے لیے اسے اپنی رفتار میں اضافہ کرنا پڑا۔ وہ چاہتا تھا کہ لڑکی کے روبرو کھڑے ہو کر ایک بھدا سا قہقہ لگائے اور اس پر چند فقرے بھی چست کرے۔
لڑکی کے بالکل نزدیک پہنچ کر اس کی ہمت جواب دے گئی اور اس کے خون کی گردش تیز ہونے کی وجہ سے اس کا پسینہ چھوٹ گیا۔ دھیرے دھیرے ان کے درمیان فاصلہ بڑھتا رہا اور وہ چند قدموں کی دوری رکھ کر لڑکی کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔
اپنا دھیان ہٹانے کے لیے وہ خوانچہ فروشوں کو دیکھتا رہا، سڑک کے کنارے بنی دوکانوں کے اندر جھانکتا رہا۔ مگر اس کی نگاہ خود بخود لڑکی کو دیکھنے لگتی تھی جو اس کی ذات سے بےخبر بلکہ آس پاس کی دنیا سے بےخبر چلی جا رہی تھی۔
نجانے اس نے کس انداز سے دیکھا کہ اس کی آنکھیں ایک جگہ جم کے رہ گئیں اور وہ حرکت کرتے جسم کی تھرکتی ہوئی پشت کو دیکھنے لگا۔
تنگ سی قمیض میں پھنسے ہوئی بدن کی کشادہ پیٹھ کو دیکھتے ہوئے اسے عجیب لذت محسوس ہوئی۔ گردن سے کولہوں تک ایک ایک جگہ کو وہ بڑے دھیمے پن سے دیکھتا رہا۔ اسے پتہ بھی نہیں چلا کہ اس کا انتقام کا جذبہ کس وقت ٹھنڈا ہوکر معدوم ہو گیا۔ دھیرے دھیرے اس کی جگہ لڑکی کو زیادہ سے زیادہ دیکھنے اور گھورنے کی خواہش نے لے لی تھی۔
وہ اس کی پشت کو مسلسل تاکتا ہوا چلتا رہا۔
سرمئی ر نگ کی سلوٹیں کبھی زیادہ اور کبھی کم ہو جاتیں۔ قمیض کا پچھلا دامن ہوا سے ہلتا، سرکتا اور اپنی جگہ سے ہٹ جاتا، لڑکی باربار دامن کو پکڑتی، کھینچتی مگر وہ شرارت سے باز نہیں آتا۔ اس نے اپنے دوپٹے سے مدد لینا چاہی مگر وہ چھوٹا پڑ گیا۔
عقیل بیگ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کے سڑک سے گزرتے ہوئے لوگ اسے دیکھ کر اس کی بے شرمی اور ڈھٹائی پر قہقہ لگائیں۔ اسے تکنے کے لیے ایک طریقہ ایجاد کرنا پڑا۔ وہ پہلے سڑک کو دیکھتا، پھر اس کی نگا ہ دو تین لمحوں کے لئے پیٹھ پر ٹک جاتی اور اس کے بعد راہگیروں کی ایک جھلک دیکھ کر وہ دوبارہ اسی دائرے میں گھومنے لگتی۔
نہ معلوم کیوں؟ لڑکی کی خفت کو بھانپ کر وہ ندامت محسوس کرنے لگا۔
وہ کچھ ثانیوں کے لیے گھڑی ساز کی دوکان پر لٹکے ہوئے چھوٹے بڑے گھڑیالوں کو دیکھتا رہا، جو ایک دوسرے سے محتلف وقت ظاہر کر رہے تھے۔
ایک لطیف کشمکش میں الجھ کر اسے خبر نہ ہوئی کہ وہ کب سڑک سے اترا اور کب ٹیڑھی میڑھی گلیوں کے چکر سے نکل کر وہ اس طویل اور اکھڑی ہوئی گلی میں داخل ہوا۔
جس کے ایک مکان میں وہ کئی برسو ں سے رہتا تھا۔ آگے چلتی ہوئی لڑکی کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔ تھوڑی دیر کے لیے وہ اس کے ذہن سے محو ہو گئی تھی اور اب وہ اس کے سامنے اس کی اپنی گلی میں چلی جا رہی تھی۔
ہرے دروازے والے مکان کے آگے ٹھہر کر لڑکی نے گھنٹی بجائی اور چند لمحوں کے بعد وہ دروازہ کھلنے پر اندر چلی گئی۔
عقیل بیگ نے یہ سوچ کر ٹھنڈا سانس بھر اکہ لڑکی نے جاتے ہوئے اسے ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اس نے اس کے لیے اپنے حلیے کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ پانچ دنوں سے اس نے بوٹ پالش نہیں کئے تھے۔ آج اس نے پرانی پتلون پہنی ہوئی تھی۔ جس میں سے اس کی تو ند باہر کو نکلی دکھائی دیتی تھی۔اس نے دائمی زکام کو برا بھلا کہا۔ جس کی وجہ سے چونتیس بروسوں میں اس کے سر کے آدھے بال سفید ہو گئے تھے۔ اپنی بجھی آنکھوں سے ہرے دروازے کو دیکھتے ہوئے وہ آگے بڑھا اور ذرا سی دوری پر واقع اپنے سفید مکان کے سیاہ دروازے پر دستک دینے لگا۔
وہ اپنی بیوی کی مسکراہٹ کے جواب میں مسکرا نہیں سکا اور نہ ہی وہ اس کے شوخ اور مسرور لہجے کا جواب اسی لہجے میں دے سکا۔ اس کی بیوی نے پہلے ہی لمحے میں اس کی بے اعتنائی محسوس کر لی۔ عقیل بیگ نے پرواہ نہیں کی اور چپ چاپ سر جھکائے اپنی بیوی کے پیچھے چل دیا۔
بوٹوں کے تسموں کی گرہیں کھولتے ہوئے اسے اپنی بے مروتی کا احساس ہوگیا۔ لیکن جب اس کی بیوی پانی کا گلاس لے کر آئی تو اس نے معذرت نہیں کی۔ ایک دو گھونٹ پانی پی کر وہ شکایت کرنے لگا کہ بہت سی نئی پتلونوں کے ہوتے ہوئے آج اسے پرانی پتلون پہننی پڑی تھی۔ آئندہ وہ کوئی پرانی پتلون نہیں پہنےگا۔ اس نے اپنی بیوی کو مشورہ دیا کہ وہ سارے پرانے کپڑے الماری سے نکال کر باہر پھینک دے۔
اس کی بیوی نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس کے بدبودار جوتے اٹھائے اور انہیں کمرے سے باہر رکھ کر وہ باورچی خانے میں چلی گئی۔
عقیل بیگ کچھ دیر کمرے کے سرخ فرش کو گھورتا رہا۔ اچانک اس کی نگاہ میں ریلوے لائن عبور کرنے کا منظر گھوم گیا۔ جب اس نے پہلی بار لڑکی کو دیکھا تھا۔ وہ ٹھنڈا سانس بھر کے رہ گیا۔ لڑکی کے ہونٹوں سے نکلی خفیف سی ہوں ’’اس کے کانوں سے ٹکرائی‘‘ اور اندر کہیں دور جاکر گونجنے لگی۔ اس کی گونج دھیمی تھی مگر وہ تلملا کے رہ گیا۔ وہ ہاتھوں سے اپنے چہرے کو ٹٹولتے ہوئے اٹھا۔ اس نے بلب جلایا اور پانی کے بیسن پر لگے آئینے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اسے اپنا چہرہ بہت عام سا دکھائی دیا۔ اس میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ تنگ پیشانی، چھوٹی چھوٹی کج مج آنکھیں اور ان کے گرد گہرے حلقے، سوجے ہوئے گال اور سیاہ پڑتے ہونٹ۔ اس نے دیکھا کہ سفید بالوں کا شمار ممکن نہیں تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کے چہرے میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا، جو کسی لڑکی کو اس کی طرف مائل کر سکے۔ وہ نل کھول کر دیر تک چہرے پر پانی کے جھپکے مارتا رہا۔ اس نے کئی مرتبہ آئینہ دیکھ لیا مگر اس کے چہرے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ بہت آہستگی سے کسی شے کے گم ہو جانے کو محسوس کرتے ہوئے وہ آہیں بھرتا رہا۔ اپنی بیوی کی آواز سن کر وہ چونکا۔ وہ اسے کھانے کے لیے بلا رہی تھی۔ کمرے میں صوفے والی میز پر کھانا رکھا ہوا تھا۔ وہ بیٹھ کر کھانے لگا جبکہ اس کی بیوی پلنگ پر بیٹھ کر شوق بھری نگاہ سے اسے دیکھتی رہی شاید وہ چاہتی تھی کہ اس کا شوہر کوئی بات کرے۔
وہ بولنا نہیں چاہتا تھا مگر اس نے بولنے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے دو چار باتیں کر دیں۔ اس کی بیوی کو موقع مل گیا اور وہ چھوٹی موٹی بے ضرر باتوں کو اپنے دلچسپ انداز میں بیان کرنے لگی۔ وہ بار بار آنکھیں مچمچاتی، روانی سے بولتی رہی، عقیل بیگ کوئی لفظ، کوئی جملہ سنے بغیر نوالے چباتے ہوئے کمرے کی جانی پہچانی چیزوں کو دیکھتا رہا۔ چیزیں جو اپنا وجود رکھتے ہوئے بھی اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی تھیں۔
کھانے کے بعد وہ اپنی بیوی کو جہیز میں ملنے والے پانچ سال پرانے پلنگ پر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس کی بیوی بھی اس کے پہلو میں آ گئی۔ عقیل بیگ کو اس کی بے وقت مسکراہٹ میں کوئی دلکشی نظر نہیں آئی اور نہ ہی اسے اس کے جسم سے اٹھتی مسحور کن خوشبو محسوس ہوئی۔ وہ کروٹ لیے بغیر سیدھا لیٹا رہا۔
اس کی بیوی نے کھسک کر اس کے قریب آتے ہوئے سرگوشی میں کہا۔’’آپ یونہی پرانی پتلون کوکو س رہے تھے۔ آپ کو معلوم نہیں، وہ آپ پر کتنی اچھی لگتی ہے۔‘‘
اپنی بیوی کی بات سن کر اسے لگا کہ وہ مذاق کررہی تھی۔ مگر جب اس نے اس کے چہرے کو دیکھا تو اس کی سنجیدگی کو نظر انداز نہیں کر سکا۔’’ مگر وہ بہت زیادہ گھس چکی ہے۔‘‘
’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے ‘‘؟۔
’’اس کا رنگ اڑا ہوا ہے اور کریز بھی ختم ہو گئی ہے۔‘‘
اس کی بیوی خاموش ہو گئی تو اس نے بھی کوئی بات نہیں کی اور چپ چاپ سو گیا۔
عقیل بیگ کی آنکھ ذرا دیر سے کھلی۔ اس نے حیرت سے اپنی بیوی کو اس طرح دیکھا، جیسے پہلی بار دیکھ رہا ہو۔ غسل خانے سے نکل کر وہ ایک مرتبہ پھر آئینے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اپنا چہرہ دیکھتے ہوئے وہ بے معنی لفظ بدبداتا رہا۔ اپنے سر میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اچانک اسے بالوں کو رنگنے کا خیال آیا۔
چائے پیتے ہوئے وہ کسی خواب کی یاد پر مسکرایا۔ اسے بعد میں احساس ہوا کہ اس نے یہ خواب تو کچھ دیر پہلے ہی دیکھا تھا۔ وہ چسکیاں لیتے ہوئے دن بہ دن کمزور ہوتی یادداشت پر افسوس کرنے لگا۔
وہ سودا سلف خریدنے گھر سے نکلا تو نہ چاہتے ہوئے بھی گلی میں ہرے دروازے والے مکان کے آگے ٹھہر گیا۔ اس نے اپنی رگوں میں سرسراتے خون کو محسوس کیا اور نجانے کیوں اسی لمحے اس کی آنکھیں بھی جلنے لگیں۔ اس کا جی چاہا کہ مکان کے اندر گھس جائے لیکن وہ دروازے سے جھانک کے رہ گیا۔ اس نے دیواروں کی اونچائی کو بھی غور سے دیکھا۔ دیواروں کے دوسری طرف سے آتی لوچ دارنسوانی آواز سن کر اس کی حالت غیر ہونے لگی۔ پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ اس نے قدم آگے بڑھایا۔
وہ دوکان سے خضاب بھی خرید لایا۔ گھر پہنچتے ہی وہ بال رنگنے لگا، اپنی بیوی کی پوچھ تا چھ کو اس نے اہمیت نہیں دی۔ بالوں میں خضاب لگا کر وہ آدھ گھنٹے تک صحن میں ٹہلتا رہا۔
ٹہلتے ٹہلتے اسے خواب یاد آ گیا اور وہ اس کی جزئیات کے بارے میں سوچنے لگا۔
’’خواب میں کوئی سڑک تھی، جو اونچے نیچے مکانوں کے درمیان دور تک چلی گئی تھی۔ دائیں اور بائیں سڑک سے بہت سی گلیاں نکلتی تھیں۔ تمام دوکانیں بند تھیں اور وہاں کوئی آدمی نہیں تھا۔ اچانک مکانوں کی چھتوں پر رنگ برنگے آنچل لہرانے لگے۔ سرمئی، اودے، چمپئی، بنفشی اور دوسرے رنگوں کے جن کے نام بھی اسے معلوم نہیں تھے۔ پہلے مکانوں کی بند کھڑکیاں کھلتی چلی گئیں اور تمام کھڑکیوں سے جوان لڑکیوں کے چہرے جھانکنے لگے۔ ان کی آنکھیں ویران سڑک کو دیکھ رہی تھیں۔ پھر اچانک خاموشی میں ایک آواز گونجی اور اس کے بعد بہت سی آوازیں۔ ایک اک کر کے سارے مکانوں کے دروازے کھلتے چلے گئے اور کھڑکیوں پر لٹکی تمام لڑکیاں دروازوں سے باہر نکلنے لگیں۔ ہر لڑکی دوسری سے کہیں زیادہ خوب صوت تھی۔ ذرا کی ذرا میں پوری سڑک بھر گئی۔ دلکش چہرے، پر کشش جسم، مسحور کر دینے والی خوشبوئیں اور آنکھوں میں کھب جانے والے رنگیں پیراہن سارے میں پھیل گئے۔ چند لمحوں کے بعد گلیوں میں بھی تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔ مکانوں کی کھڑکیاں خالی ہو کر حسین چہروں سے دوبارہ بھر جاتی تھیں۔ ‘‘
وہ آہ بھرتے ہوئے مسکرایا۔’’کتنا خوبصورت خواب تھا‘‘۔ اس نے محسوس کیا کہ اسے کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ اس نے سوچا کہ جا کر اپنی بیوی کو خواب سنائے اور اس سے تعبیر پوچھے مگر وہ قدم بڑھا کے رک گیا وہ یاد کرنے لگا کہ وہ بھی خواب میں کہیں نہ کہیں موجود تھا۔ مگر وہ کہاں تھا؟ وہ سوچتا رہا اور اسے یاد نہ آ سکا۔
خضاب خشک ہوا تو وہ نہا دھو کر اپنے مکان کی چھت پر چلا گیا اور مختصر دیواروں کے درمیان ٹہلنے لگا۔
شام کے وقت شہر کا آسمان گدلا اور مٹیالا ہو رہا تھا۔ کہیں کہیں داغوں جیسے بادل گھسٹ رہے تھے۔ جس طرف سورج ڈوبا تھا۔ وہاں سرخ لکیریں معدوم ہونے لگی تھیں۔ پرندوں کے غول بہت بلندی پر اڑتے جا رہے تھے۔ زمین سے اٹھتا دھواں فضا میں معلق تھا۔ حد نظر تک زمین پر برقی روشنیاں پھیلی ہوئی تھیں۔
عقیل بیگ ہرے دروازے والے مکان کی چھت پر دیکھتا رہا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ اس کی نگاہ دیر تک رسی پر لٹکے ہوئے کپڑوں کو دیکھتی رہی۔ پتہ نہیں وہ ریشمی تھے یا سوتی اور کون سے رنگ کے تھے۔ شام کے بڑھتے سرمئی سائے میں اسے کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ اسے تو اس بات کی خبر بھی نہیں تھی کہ وہ رنگ برنگے پیرہن اسی لڑکی کے تھے یا کسی اور کے۔
وہ ایک کونے میں رکھے سیمنٹ کے بلاک پر بیٹھ گیا اور ایک چھوٹی کنکری اٹھا کر وہ کھردرے فرش پر دکھائی نہ دینے والی لکیریں کھینچتا رہا جو آڑی ترچھی تھیں اور ان کی کوئی سمت نہیں تھی۔
پھر وہ مختلف اشکال بنانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا اور دھیرے سے قدم اٹھاتا چھت کی مختصر دیوار تک گیا۔ وہ ہرے دروازے والے مکان کی چھت پر زور سے کنکری پھینک کر تیز رفتاری سے سیڑھیوں کی طرف لپکا۔
عقیل بیگ کو ہانپتا دیکھ کر اس کی بیوی دھک سے رہ گئی۔ اس نے سوال کیا تو اس کے شوہر نے جواب میں جھوٹ بول دیا کہ پاؤں پھسل گیا تھا۔ اس کی بیوی نے اسے غور سے دیکھا اور اس کے چہرے پر اداسی اور بوجھل پن دیکھ کر کچھ مطمئن ہو گئی۔ شاید وہ اسے ہمیشہ ایسا ہی نظر آتا تھا۔
تھوڑی دیر بعد ٹی وی پر ڈرامہ ختم ہوا تو وہ باورچی خانے میں چلی گئی۔ عقیل بیگ نے اسے جاتے ہوئے غور سے دیکھا تو اسے محسوس ہوا کہ اس نے طویل عرصے کے بعد اپنی بیوی کے جسم کو اس طرح دیکھا تھا۔ اس نے سوچا کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس کے گدازپن اور کساؤ میں اضافہ ہوتا چلا گیا تھا۔ اس کے تمام اعضاء میں عجیب سی کشش اور دل موہ لینے والی دلکشی پیدا ہو گئی تھی۔
ایک لمحے کے لیے اس کے خون میں زبردست ہلچل ہوئی اور اسی وقت اس نے فیصلہ کیا کہ آج رات وہ مباشرت ضرور کرےگا۔
کھانے کے بعد وہ مقررہ وقت سے پہلے ہی سونے کے لیے کمرے میں جا لیٹا اور تھوڑی دیر کے بعد اس کی بیوی بھی اس کے پاس آ گئی۔
عقیل بیگ اس کے ہونٹوں کو چومنے لگا تو اس نے اسے پرے ہٹا دیا۔
’’میرے قریب مت آؤ، پانچ سال سے تم یہی کچھ کر رہے ہو۔ لیکن میںا بھی تک ماں نہیں بن سکی۔‘‘ وہ کروٹ بدلتے ہوئے بولی۔
وہ فورُا پلنگ سے اترا اور سگریٹ سلگا کر اپنے جنسی اعتماد کو بحال کرتے ہوئے بولا۔’’ ہم کئی مرتبہ ہسپتال جا چکے ہیں۔ ہم دونوں میں بچہ پیدا کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔‘‘
اس نے لگاتار دو تین کش کھینچے۔
’’میں کچھ نہیں جانتی میں صرف ماں بننا چاہتی ہوں۔‘‘
’’تم ضرور ماں بنوگی۔‘‘
’’مگر کب‘‘؟
’’دیکھو جو کچھ ہمارے اختیار میں ہے۔ ہم کر رہے ہیں۔‘‘ اس نے اپنی بیوی کو قائل کرنے کی کوشش کی۔
’’تم نماز نہیں پڑھتے اور دعا بھی نہیں مانگتے خدا ہم سے ناراض ہو گیا ہے۔‘‘
’’ان چیزوں کا بچے کی پیدائش سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘وہ سوچنے لگا کہ وہ ہمیشہ ایسے موقع پر ایسی باتیں کیوں کرتی تھی؟ اس نے اپنے خون میں رینگتی سرسراہٹ کو دم توڑتے ہوئے محسوس کیا۔ آخری کش کے بعد اس نے سگریٹ کو ایش ٹرے میں مسل دیا اور سیدھا لیٹ کر کمرے کی مانوس تاریکی میں آنکھیں مچکانے لگا۔
کچھ دیر بعد اس کی بیوی نے کروٹ لی اور اپنا نچلا ہونٹ کاٹتے ہوئے چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔
’’اچھا جو کرنا چاہتے ہو کر لو۔‘‘
عقیل بیگ نے کوشش کی بلکہ بہت کوشش کی لیکن کچھ بھی نہیں کر سکا۔اس کی انگلیاں نسوانی لمس سے پگھل نہیں سکیں، اور اس کے خشک ہونٹ خشک ہی رہے۔ وہ محسوس کرتا رہا کہ رگوں میں دوڑتا خون منجمد ہو چکا تھا۔ اس کی سانسوں کی تیز رفتاری بھی اسے گرم نہیں کر پائی۔ اسے کئی بار یہ خیال آیا کہ اس کی بیوی کبھی بھی جنسی جذبے کو مثبت جذبے کے طور پر قبول نہیں کر سکےگی۔ وہ اسے ہمیشہ صرف بچہ پیدا کرنے کا وسیلہ سمجھتی رہےگی۔
اس نے دیکھا کہ اس دوران تمام وقت اس کی آنکھیں بند تھیں۔ اس کا پورا جسم بے حرکت تھا۔ مٹھیاں زور سے کھینچی ہوئی تھیں اور ناہمورار سانسوں کی آواز کمرے میں گونج رہی تھی۔
عقیل بیگ علیحدہ ہوا تو اس کی بیوی حیرت سے اسے دیکھتی رہی۔
وہ دھیرے سے بڑبڑائی۔ ’’کپڑے نا پاک کر دیے میں صبح کی نماز کیسے پڑھوں گی‘‘؟
اس نے بڑ بڑاہٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک اور سگریٹ سلگایا اور اندر کے خلا کو دھوئیں سے بھرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔
اگلے دن دفتر سے لوٹتے ہوئے وہ مانڈلی کے پاس کھڑا ہو گیا اوررکتی ہوئی بسوں سے اتر کر ریلوے کراسنگ کی طرف بڑھتے لوگوں کے چہرے ٹٹولنے لگا۔ بہت دیر گزر گئی۔ لیکن اسے وہ لڑکی دکھائی نہیں دی۔ اس نے پٹڑیاں عبور کیں اور ایک ہوٹل پر جا بیٹھا، جہاں سے وہ باآسانی سڑک پر نگاہ رکھ سکتا تھا۔
ابھی اس نے بمشکل دو گھونٹ چائے پی تھی کہ اسے وہی لڑکی دکھائی دی۔
جلدی میں ہوٹل سے نکل کر وہ اس کا تعاقب کرنے لگا۔
شام سے پہلے یہ سڑک اونگھتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ راہ گیر بہت کم تھے۔ دوکانیں کھلی ہوئی تھیں اور ٹھیلے والے اپنی بھدی اور موٹی آوازوں کے ذریعے گاہکوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
آج اس لڑکی نے گلابی رنگ کا سوتی لباس پہنا ہوا تھا۔ وہ سرجھکائے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی تیز رفتاری سے چل رہی تھی۔ وہ اپنے آگے اور پیچھے چلنے والے تمام لوگوں سے بالکل بے خبر تھی۔
تھوڑی سی دیر میں وہ اس کے نزدیک تر پہنچ گیا۔ اس نے لڑکی کی قمیض میں سے جھانکتی بریزیئر کی پٹی کو غور سے دیکھا اور اس کے بعد اس کی کمر کو، جو اسے گلابی دکھائی دے رہی تھی۔ وہ بہت دیر تک اپنی آنکھیں نہیں میچ سکا اور چلتے ہوئے اسے دیکھتا رہا۔
اس نے یونہی سڑک کے آخری کونے تک نگاہ دوڑائی۔ وہ سڑک کی محدود کشادگی کو دیکھ کر حیران ہوا۔
یہ سڑک ہو بہو اس کے خواب والی سڑک سے مماثلت رکھتی تھی۔ وہ ایک مرتبہ پھر سوچنے لگا کہ اپنے خواب میں وہ بھی شامل تھا یا نہیں۔ اگر تھا تو کہاں تھا؟ لڑکی کے کولہوں کی حرکت کا مشاہدہ کرتے ہوئے اسے یاد آ گیا۔ وہ رنگ برنگے ملبوسات میں سڑک پر ناچتی بےشمار لڑکیوں کے درمیان کہیں بھی نہیں تھا۔ اس نے آہ بھرتے ہوئے سوچا کہ وہ شاید کسی گلی کے آخری مکان کی چھت پر قید تھا۔ کمرے کی سلاخوں والی کھڑکی باہر کی طرف کھلتی تھی اور قوس و قزح سے بھری ہوئی سڑک وہاں سے بہت دور تھی۔ وہ کھڑکی کی زنگ آلود سلاخوں سے چپکا دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا اور اسے صرف مختلف رنگوں کے ہلکے سے چھینٹے دکھائی دے رہے تھے۔
اس نے افسوس کرتے ہوئے سوچا کہ وہ خواب میں سڑک تک کیوں نہیں پہنچ سکا اور حسین پیکروں کے رقص میں شامل کیوں نہیں ہو سکا۔
اپنی رفتار پر چلتی ہوئی لڑکی کو دیکھتے ہوئے اس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
صبح کو گھر سے نکلنے سے پہلے وہ بہت دیر تک آئینے کے سامنے کھڑا بال بناتا رہا تھا۔ اس نے پہلے داہنی طرف سے مانگ نکالی تھی اور پھر بائیں طرف سے۔ لیکن اس کی تشفی نہیں ہو سکی تھی۔ آخر میں اس نے جھلا کرنا ریل کا تیل اپنے سر پر لگایا تھا اور کنگھی کے ذریعے بالوں کو پیچھے کی طرف جمانے کی کوشش کرتا رہا تھا۔ اس نے اس بات کا اچھی طرح اطمینان کر لیا تھا کہ اس کے سر کا کوئی ایک بال بھی سفید تو نہیں رہ گیا تھا۔ وہ بہت خوش تھا کہ خضاب نے ایک ہی رات میں اس کی عمر کے آٹھ سال کم کر دیے تھے۔
اپنے بالوں کے مصنوعی کالے پن اور اپنی پتلون کے نئے پن پر اتراتے ہوئے وہ تیزی سے آگے کی طرف چلنے لگا۔ نجانے کیوں، اسے یقین تھا کہ لڑکی اسے نہیں پہچان سکےگی اور کوئی دوسرا سمجھ کر اس کی طرف مسکراتی ہوئی نظر سے دیکھےگی۔
وہ دھیرے دھیرے بہت سے قدم آگے نکل گیا۔ اس نے کئی مرتبہ مڑ کر دیکھا مگر لڑکی کا جھکا ہوا سر اوپر کو اٹھتا ہی نہیں تھا۔ ہاں البتہ اس کے چہرے کے بدلتے ہوئے تاثرات کو اس نے ضرور دیکھ لیا تھا۔
اپنی گلی میں داخل ہوتے ہی اس کی چال سست ہو گئی۔ اسے پتہ بھی نہیں چلا اور وہ لڑکی اس کے قریب سے نکل گئی۔
اس نے افسردگی سے سر اٹھا کر ہرے دروازے والے مکان کے پاس کھڑی لڑکی پر آخری نگاہ ڈالی۔
لڑکی نے غصیلے لہجے میں کچھ کہا اور شاید اس نے سن بھی لیا۔ اسی لیے اس کے نزدیک سے گزرتے ہوئے عقیل بیگ کو محسوس ہوا کہ وہ کسی دلدل میں اترتا جا رہا تھا۔
دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سن کر وہ سمجھ گیا کہ لڑکی اپنے گھر میں چلی گئی تھی۔
نجانے کتنی دیر تک وہ اپنے سفید مکان کے سیاہ دروازے پر کھڑا رہا۔
ایک فوری خیال نے اس کی طبیعت پر چھائی آزردگی کو تحلیل کر دیا اور اس نے تردد کے بغیر یہ فیصلہ کیا کہ وہ سفید مکان کو فروخت کر کے کسی اور گلی میں کالے رنگ کامکان خریدےگا۔
اس نے مسکراتے ہو ئے گھنٹی بجائی اور اپنی بیوی کے ہاتھوں دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.