Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حسینئہ من

رابعہ الرباء

حسینئہ من

رابعہ الرباء

MORE BYرابعہ الرباء

    دھوپ کی تپش سے، سورج کی گرمی سے، اوزون کے شگاف سے، انسانوں کے رویوں سے، مخلوق کے سلوک سے برف پگھل پگھل کر نجانے کب سے اپنا سفر شروع کرتی ہے۔ کہاں کس سے جھولتی ہے، کہاں کس کو چومتی ہے، کہاں اس کا دم بےدم ہو جاتا ہے اور کہاں کس کی بانہوں میں سو جاتی ہے اور پھر نجانے وہ کب کس سفر کو، کس اور نکلتی ہے، پھر سے وہی آنکھ مچولی، کسی سے اٹکھیلیاں کرنا، کبھی کسی درز سے اپنا راستہ بنا لینا، کبھی کسی پتھرکو رستے سے ہٹا دینا، یوں حدتوں کا طویل سفر مادوں میں بدل جاتا ہے۔

    موتی بننے تک سیپ میں مدتوں محبت کے کرب ناک سفر ہوتے ہیں، تب کہیں کوئی سچا موتی کسی کی سہاگ کے تحفے میں پرویا جاتا ہے، کسی کے گلے، کسی کی انگلی میں اپنے لمس کی گدگداہٹ بکھیرتا ہے۔

    حدتوں سے آبشاریں ابل پڑتی ہیں، تو ہم نیا گرا فال، سے سوات فال تک کے حسین نظاروں کو جاتے ہیں۔ اس کی طاقت سے تو پہاڑوں، کہساروں کے سینے شق ہو جاتے ہیں۔ خاک مجال کہ اس کے سامنے چٹان بننے کی جرات کر سکے اور جو بنے وہ فرعون ہے، فرعون خدائی دعویدار۔۔۔

    پتھر سے ذرا ادھر ہٹ کر اس کے قریب اس نے اس کے لمبے گھنگھریالے بالوں کی ایک لٹ کو اپنی انگلی میں لپیٹا اور اس کے گال پہ لاکر چھوڑ دیا۔

    ’’حسینۂ من یہ زندگی ہے‘‘۔

    حسینۂ من نے بری ادا سے ایک انگڑائی لی، اپنی بڑی بڑی آنکھوں اور لمبی پلکوں کو اٹھا کر اس کی طرف دیکھا، جس کے چہرے پہ وصل کے کئے وحشت ناک لمحے حدت کے نام پہ جوانی میں ہی شکن بن گئے تھے۔ کئی حدتیں ابھر کر شدت میں بدل گئی تھیں۔ اس نے اس کا مرمریں ہاتھ تھاما، یورپی کلاسیکل رقص کی سی گولائی میں گھوم گئی۔ اس کے چاروں اور اک خوشبو بکھر گئی، جو اسی ہی میں مسکرا رہی تھی، جواس کو ہی تڑپا رہی تھی۔ اس نے تڑپ کر لمحہ بھر میں قریب کے درخت سے ٹیک لگالی۔

    ’’چمکتی کشادہ پیشانی، بھولی صورت پہ سجی صدیوں پرانی معصوم بادامی آنکھیں، جن میں صدیوں کی انگڑائیاں ٹھہر گئی تھیں۔ بھرے بھرے گالوں پہ اک دن کی بڑھی شیو، مرمریں ہونٹوں سے کچھ اوپر گال پہ جھولتا اک تل، لمبی گردن سے نیچے نکھرا نکھرا کشادہ سینہ، جس کو اس نے اک سیاہ کرتی سے چھپا رکھا تھا، مگر حسن تو حسن ہوتا ہے، سات پردوں میں بھی چھلک وجھلک پڑتا ہے، ریڑھ کی ہڈی سے بغل گیر ہوتا پیٹ اور اس کے نیچے شفاف زمین پہ کھلی کھمبی، جس کی حفاظت پہ دوسرو ٹانگیں معمور تھیں، گول مٹول چمکتے بازو، جن پہ بال کھلی رات کے ستاروں کی طرح مسکرا رہے تھے۔

    وہ اپنے تمام تر حسین لباس کے باوجود اس کے چشم تصور میں نجانے کب سے فطرت کے لباس میں مسکرا رہا تھا۔ جذبات دونوں اور اپنی خوشبو بکھیر رہے تھے۔ ضبط کی وقت بھی دونوں اور یقین و بےیقینی کی ڈولتی کشتی سے انا کی دیوار بنانے کی کوشش میں کامیاب نظر آتی تھی۔

    حسینۂ من نے آنکھیں کھولیں اس کی طرف دیکھا۔ غور سے دیکھا، سرتاپا دیکھ، مسوس سی ہو کر آنکھیں چرا لیں۔ آسمان کی اور دیکھ کر کہنے لگی، ’’فطرت کے دو رنگ ہیں، وہ پہاڑوں سے چشمے نکال دیتا ہے، لوگ دیوانہ وار اس کی اور دوڑ پڑتے ہیں، کبھی برف کی خود سپردگی اس کو پانی بنا دیتی ہے، پانی چشموں اور آبشاروں کی صورت پیاس بجھانے لگتا ہے، کبھی یہ نظاروں کی پیاس ہوتی ہے، کبھی یہ جانداروں کی پیاس ہوتی ہے، کبھی پیاس نہیں بھی ہوتی، تو لپٹ کر دلدل میں بدل جاتا ہے، سیم کی شکل بیمار ہو جاتا ہے، اور بیمار کر دیتا ہے۔ مگر گرتا یہ نیچے کی اور ہی ہے، غصے و ضبط میں طوفان بن کر اچھل پڑتا ہے، چنگاڑتا ہے تو خوف زدہ کر دیتا ہے۔

    دوسرے رنگ میں بھیدی بن جاتا ہے۔ اپنے دل میں وسعت پیدا کر لیتا ہے، خودمیں خود ہی ٹوٹ جاتا ہے، سوراخ بن جاتا ہے، مگر باہر سے اس کا رعب، اس کا فطری دبدبہ قائم رہتا ہے اور پھر یہ دل کا سوراخ گہرا ہوکر خود میں اتنی جگہ بنا لیتا ہے کہ یہاں وحی اترنے لگتی ہے، تو کبھی وحی والے کی حفاظت کے لیے مکڑی محبت بن جاتی ہے، کبھی کبوتر بسیرا کر لیتے ہیں، کبھی سانپ نظارے کی تڑپ بن جاتا ہے، تو کبھی کہسار مثل انگار ہو جاتا ہے، مگر ریزہ ریزہ ہونے کی جرات نہیں کرتا، تو کبھی صفا کی شان و شوکت میں بھی جلوہ نمائی ہوتی ہے۔

    اس نے پھر قریب ہوکر، اس کی کمر کے گرد اپنی باہیں پھیلا دیں۔

    ’’تو حسینۂ من ہم کوئی فرشتے تو نہیں۔۔۔‘‘

    ’’تو جان من ہم مخلوق اشرف بھی تو نہیں‘‘۔

    یہ کہتے ہی وہ اس کی باہوں کے گھیرے سے نکل گئی مسکرا کر درختوں سے دور دیکھنے لگی۔

    وہ سنجیدہ سا سروقد، چمکتی آنکھوں معصوم بڑی بڑی صدیوں پرانی آنکھوں والا اسے کسی درخت کے پیچھے کھڑا دکھائی دیا۔ اس کے مرمریں ہونٹوں پہ نظر پڑتے ہی اس کے بدن میں لہریں دوڑ پرتیں۔ اس کا دل چاہتا جائے اور بےساختہ اس سے لپٹ جائے، اسے سرتا پا اپنے ہونٹوں سے نم کر دے، اپنی انگلیوں کی پوروں سے اس بدن سے، وہ صدیوں پرانی مٹی کی تہوں کو کھرچ ڈالے، جو اس کی آنکھوں میں دکھائی دیتی ہیں، جو اسے سوتن کی طرح ڈستی ہیں۔

    اس نے پھر سے اس کے گھنگھریالے بالوں کی ایک زلف کو اپنی انگلی میں تھام لیا اور قریب ہوکر اس کے گال ہی پہ چھوڑ دیا۔

    ’’حسینۂ من نبوت عورت پہ نہیں اتری، نبی بننے کی کوشش نا کرو، ولائت کا دور بھی نکل چکا، صور اسرافیل تک اب یوسف کی پاس داری سے ذلیخا کا دامن تھام لینا ہی حسن کی معراج ہے، تم کس تلاش میں ہو‘‘۔

    اس نے چند الٹے قدم بہت طاقت سے اٹھائے، انجانی قوت سے بولی۔

    ’’اس سے قید یوسف بہتر، جس سے تن کے در کھل جائیں اور من پیاسا رہ جائے، من کی وادیاں لہلہاتی ہیں تو تن کو تسکین ملتی ہے، تن سے من اور من سے تن کا سودا گھاتے کا سودا ہے، جس میں من کی ہار ہو، من اس اور جاتا ہی نہیں، من فطرت ہے اور فطرت فطرت سے نہیں لڑتی‘‘۔

    اس نے قریب ہو کر پھر اس کے شانوں کو تھام لیا۔

    ’’یہ آئیڈیالوجی ہے، آئیڈیالوجی، بت پرستی۔۔۔‘‘

    اس نے ایک ادا سے خودکو اس سے الگ کیا، اس کی نظر پھر آسمان پہ جا کے ٹھہر گئی۔

    مشرق سے گہرے سرمئی بادل تیزی سے مغرب کی اور بڑھ رہے تھے، ہوا تھمی تھمی سی تھی، جیسے کسی سے بچھڑ گئی ہو، آسمان گہرا ہوتا جا رہا تھا، جیسے کسی غم کو روئے بنا پی گیا ہو، اس کے باوجود، وہ اتنا حسین، اتنا شفاف تھا کہ زمین خود اس کی اور کھچی چلی جارہی تھی، اس کے بس میں نہیں تھا کہ اٹھے ساری کششوں کے بندھن توڑے اور جا آسمان سے ملے، کبھی تو وہ ایک ہی تھے، آسماں تک بھی تو زمین کی حدت یہ پیغام لے کر جاتی ہے تو ہی وہ سرمئی ہو کر مور بن، اپنی مورنی کے لیے ہوائوں سنگ رقص کرنے لگتا ہے۔ مست رقص سب جل تھل ہو جاتا ہے۔ دونوں بھیگ کر ملتے ہیں، تو زمین کی کوکھ پھولوں پھلوں سے زندگی کو بہار رنگ کر دیتی ہے، تب آسمان اس محبت کی سائبانی و نگہبانی کرنے لگتا ہے۔

    اسے اس چمکتی زمین میں ایک کھمبی بری بےکسی و بےبسی سے کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ وہ حسرت سے اسے دیکھتی اور آنکھوں کی رم جھم کو اپنی انگلی سے گالوں پہ پھلا دیتی ہے۔

    ایک انگلی اس کے گال پہ آتی ہے۔

    ’’حسینۂ من گویا میری بات سمجھ آ گئی‘‘۔

    وہ اس ہاتھ کو دھیرے سے پیچھے کر دیتی ہے۔

    ’’یوسف کو زلیخاں کی بات سمجھ آ جاتی تو اسے بادشاہت بہت قبل مل گئی ہوتی، صحرائوں نے اپنی من مانی کی ہوتی تو پیاسے نا تڑپتے‘‘۔

    اس نے اس کی کمر پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے بے قراری و بےضراری سے کہا۔

    ’’حسینۂ من یہ ظلم ہے‘‘۔

    حسینۂ من کراہت سے دونوں ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولی۔

    ’’بڑے دریا دیر سے چڑھتے ہیں اور دور تک چلتے ہیں، گہرے کنوئوں سے پیاس بجھانے گہرائی تک جانا پڑتا ہے‘‘۔

    حسینۂ من کے روکھے سوکھے روئیے سے جیسے وہ چڑ گئی تھی۔ اس نے دور کھڑے ہو کر دونوں باہیں پھیلائیں اور بہت حقارت سے بولی۔

    ’’حسینہ من دیکھو، شیر شیر کے ساتھ جچتے ہی، باز بازوں کے ساتھ۔۔۔‘‘

    حسینۂ من مسکرائی ’’میں بھی تو ہمیشہ سے یہی کہہ رہی ہوں‘‘۔

    وہ اور پیچھے کو ہو گئی ’’حسینۂ من مگر تم بھول گئی کچھ پھل صرف طوفانوں میں مسمار ہونے، تباہ بربادہونے کے لیے درختوں کا بوجھ بنتے ہیں، یوں ان کا سارا مان ٹوٹ جاتا ہے‘‘ وہ یہ کہہ کر واپسی کے رستے کو مڑ گئی اور جاتے ہوئے، اس پنجرے کا دروازہ کھول گئی جس میں اس نے اپنے وصل سے سدھائے جانور پال رکھے تھے۔

    حسینہ من نے وہاں سے سیدھے ہاتھ جنگل کی اور بھاگنا شروع کر دیا۔ کبھی کوئی پیڑ اس کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیتا تو کبھی کوئی جھاڑی اپنی گود میں چھپا لیتی۔ جوں جوں وہ آگے بڑھ رہی تھی توں توں جنگل گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ توں توں تاریکی کے راز کھلتے جا رہے تھے۔ وہ سدھائے جانور جلد کہیں پیچھے ہی روشنی میں گم ہو گئے تھے۔ اب کوئی آواز، کوئی آہٹ اس کا پیچھا نہیں کر رہی تھی۔ مگر وہ آگے بڑھتی ہی چلی گئی کہ جنگل کا کوئی کنارہ ضرور ہوتا ہے اس کا بھی ہوگا۔ جوں جوں وہ آگے بڑھ رہی تھی، توں توں چڑھائی بھی چڑھ رہی تھی، دور دور تک اونچے، سرسبز و شاداب پودوں، درختوں، پیڑوں سے ڈھکے پہاڑ اپنے پورے رعب و حسن کے ساتھ اسے اپنی اور آتا دیکھ رہے تھے۔ تھکن اس کے پور پور میں سما گئی تھی۔ مگر سفر رواں دواں تھا، کوئی کنارہ، کوئی آثار حیات، مگر دور دور تک کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس نے تھکن سے چور خود کو خوف کے حوالے کر دیا اور چوٹی کی آخری اونچائی پہ بے ہوش ہو کر گر پڑی۔

    اسے دھندلاہٹ میں وہ صدیوں پرانی معصوم آنکھوں، مرمریں ہونٹ آتے دکھائی دیے۔ اس نے بڑھ کر اسے اپنی باہوں میں تھام لیا۔ اس کا جسم کانپ رہا تھا، اس نے اپنے کاندھوں سے شال اتار کر اسے اوڑھا دی، حدّت سے اس کی آنکھیں کھلیں تو برس پڑیں، اس نے اپنے ہونٹوں سے اس کے گال آنکھوں تک خشک کر دئیے۔

    ’’آ گیا ہوں، لے چلو، اگنی کے پھیرے لے لو، یا تین بول پڑھوا لو، چاہو تو اونچے برجوں کے نیچے جاکے انگلی بھر دو، تم فطرت ہو‘‘۔ حسینۂ من نے اس کے سینے پہ سر رکھ دیا۔

    اسکے بعد وہاں بس دور سے اک دھواں دکھائی دیا اور برسوں بعد کچھ زمینی رازداں وہاں پہنچے تو اک آتش فشاں کا انکشاف ہوا جواب ٹھنڈا پڑ چکا تھا اور اس سے ہیرے، زمرد و طرح طرح کے قیمتی جواہر اکٹھے کیے جارہے تھے۔

    کاجو فینی کی خالی بوتل

    مأخذ :
    • کتاب : لوح (Pg. 1030)
    • Author : ممتاز احمد شیخ
    • مطبع : رہبر پبلشر، اردو بازار، کراچی (2017)
    • اشاعت : Jun-December

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے