Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حاصل زندگی

نوشابہ خاتون

حاصل زندگی

نوشابہ خاتون

MORE BYنوشابہ خاتون

    برسوں بعد آئینہ کے سامنے کھڑی وہ اس سراپے کو بغور دیکھ رہی تھی جس کے بالوں میں اب ان گنت چاندی کے تار جھلملا رہے تھے۔ وہ اس چہرے میں اس چہرے کو تلاش کر رہی تھی جو کبھی موسم سرما کی چمکیلی اور سنہری دھوپ کے مانند روشن تھا۔ نہ جانے کہاں کھو گیا تھا وہ روشن چہرہ؟ وہ اس کی کھوج میںپیچھے بہت دور لوٹ گئی۔ تبھی امی کی کراہتی ہوئی آواز کی بازگشت کانوں میں گونجی۔ وہ تیزی سے ان کے پاس پہنچی۔

    ”کیا ہوا امی! آپ ٹھیک تو ہیں نا؟“

    ”ہاں بیٹا! تمھارے ابو ابھی تک نہیں آئے؟” اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ ابو آ گئے تھے۔ اس نے دروازہ کھول کر فائلان کے ہاتھوں سے لے لی۔

    ”ابو! آپ کے لیے چائے بناؤں؟“

    ”ہاں بیٹا! ذرا فریش ہو لوں۔ پھر ٹیوشن کے لیے بھی جانا ہے۔“

    باپ کے تھکے تھکے لہجے نے اس کے دل کو دکھ درد سے بھردیا۔ اس کا بس چلتا تو وہ ان کے چہرے سے ساری تھکن دور کر دیتی۔ وہ اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کے تئیں بہت حساس تھی۔ وہ ہر وقت اس فکر میں رہتی کہ کس طرح ان کی محرومیوں کو دور کر دے۔

    ابو کو چائے دینے کے بعد وہ باورچی خانہ کا باقی کام بھی نبٹا نے لگی۔ جس تیزی سے اس کے ہاتھ چل رہے تھے اتنی ہی تیزی سے اس کا ذہن بھی کام کر رہا تھا۔

    ”ابو بےچارے کو ہم لوگوں کے لیے کتنی محنت مشقت کرنی پڑتی ہے۔ ایک معمولی ماسٹر کی تنخواہ ہی کتنی؟ اتنی قلیل آمدنی ہم پانچ بھائی بہنوں کی پرورش کے لیے ناکافی ہے۔ اسی لیے ابّو کو اضافی کام بھی کرنا پڑتا ہے۔“

    اس نے مصمم ارادہ کیا کہ پڑھ لکھ کر وہ گھر کی معاشی ذمہ داریاں پوری کر نے میں ابّو کی مدد کرے گی اور ان کی دست راست بن کر ان کا بوجھ ہلکا کر نے کی کوشش کرےگی۔

    وہ اپنی پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے ماں کی صحت یابی کی دعائیں کرتی۔ لیکن وہ تو دائمی مریض تھیں۔ ایک رات چپ چاپ دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ ان کے رخصت ہوتے ہی گھر پر سوگواری سی طاری ہو گئی۔ سب بھائی بہن مغموم اور اداس ہو گئے اور ابو توا یسے ٹوٹے جیسے ان کے ریڑھ کی ہڈی ہی ٹوٹ گئی ہو لیکن انھوں نے اپنے بچوں کو بکھرنے نہ دیا۔سبھوں کو اپنے آزو بازواس طرح بٹھائے رکھا جیسے مرغی اپنے بچوں کو اپنے پنکھ میں سمیٹ لیتی ہے۔ آمنہ خالہ نے اس غم کی گھڑی میں بہت ساتھ دیا۔ وہ دور کی رشتہ دار تھیں اور پڑوس ہی میں رہتی تھیں۔ پھر سب کچھ معمول پر آ گیا۔ کسی کے چلے جانے سے دنیا کا کاروبار بند نہیں ہو جاتا۔ یہ قدرت کا نظام ہے۔ بچے وقت پر اسکول جانے لگے۔ اس نے بھی کالج جانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ کالج جاتے وقت وہ اکثر چابھی آمنہ خالہ کے یہاں رکھ دیا کرتی تھی۔ ایک دن وہ چابھی رکھنے کے لیے ان کے یہاں گئی تو اتفاق سے عمر سے ملاقات ہو گئی۔

    ”آؤفائزہ! آج بہت دنوں پر دکھائی دی ہو۔ خیریت تو ہے؟“ عمر نے اس کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا۔

    “ہاں! اللہ کا شکر ہے۔ خالہ کہاں ہیں؟ ان کے پاس چابھی رکھنے آئی ہوں۔“

    اس نے متلاشی نظروں سے ادھرادھر دیکھا۔

    “وہ تو نہیں ہیں۔ لیکن تم کہاں جا رہی ہو؟“

    “کالج جا رہی ہوں۔ میں نے اپنی پڑھائی پھر سے شروع کر دی ہے۔“

    ”اوہ! ویری نائس۔ یہ تم نے بہت اچھا کیا۔“

    “اچھا اب میں چلتی ہوں۔ خالہ آجائیں تو یہ چابھی انھیں دے دینا۔”

    خالہ کی غیر موجودگی میں وہاں زیاہ دیر ٹھہر نا اس نے مناسب نہ سمجھا سو خدا حافظ کہہ کر چلی آئی۔

    ”السلام علیکم خالو جان!“ کمرے میں داخل ہوتے ہی عمر نے سلام کیا۔

    “جیتے رہو۔کہو کیسے آنا ہوا؟“

    ”آپ لوگوں سے ملے بہت دن ہو گئے تھے۔ سوچا چل کر ملاقات بھی کر لوں اور یہ خوش خبری بھی سنادوں کہ مجھے جاب مل گئی ہے۔“

    ”ارے واہ !یہ تو تم نے بہت اچھی خبر سنائی۔“ انھوں نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔ میری دعا ہے کہ خدا تمھیں زندگی کی ہر منزل پر اسی طرح کامیابی عطا کرتا رہے (آمین۔)

    ”بس یہ آپ لوگوں کی دعاؤں کا ہی تو اثر ہے خالو جان۔“ اس نے انکساری سے کہا۔ پھر اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔

    ”بڑی خاموشی ہے۔سب لوگ کہاں ہیں۔“

    “بچے کہیں کھیل رہے ہوں گے اور فائز ہ شاید باورچی خانہ میں ہو۔“

    کچھ دیر باتیں کر نے کے بعد عمر نے باورچی خانے کا رخ کیا۔

    “کیا ہو رہا ہے فائزہ بی بی؟“

    “تمھارے لیے چائے بنا رہی ہوں۔”فائزہ نے پلٹ کر دیکھا۔

    “میری آمد کی خبر تمھیں کیسے ہوئی۔“

    ”مجھے الہام ہوا ہے۔“

    ”اوہ! تمھاری شخصیت تو بہت اہم ہو گئی ہے۔ اب تمھیں الہام بھی ہونے لگا۔ تب تو اور باتوں کا بھی تمھیں الہام ہوا ہوگا۔“

    ”مثلاً!“

    “مثلاً یہ کہ اب میں بےکار سے باکار ہو گیا ہوں۔ مجھے جاب مل گئی ہے۔“

    “واہ! تب تو تمھیں مٹھائی کے ساتھ آنا چاہئے تھا۔“

    “یہ بھی خوب رہی۔ نہ کسی خوشی کا اظہار نہ مبارک باد بس مٹھائی کا تقاضہ۔ لاؤ پہلے چائے پلاؤ۔“

    ”لیجیے چائے حاضر ہے۔” فائزہ نے اس کے ہاتھ میں پیالی تھمادی۔

    ”واہ !مزہ آ گیا۔ کیا لاجواب چائے ہے۔“ اس نے چائے کی چسکی لی۔

    ”بنا بھی تو لاجواب ہاتھوں سے۔“ فائزہ نے اتراکر کہا۔

    “ہاں سو تو ہے۔ اب ان لاجواب ہاتھوں کا بنا ہوا کھانا کھانے کو دل چاہ رہا ہے۔“

    ایک معنی خیز مسکراہٹ اس کے لبوں پر آ گئی۔

    ”اچھا اب زیادہ پھیلنے کی ضرورت نہیں۔ پہلے میری مٹھائی تو لاؤ۔“

    “اچھا بابا!آ جائےگی تمھاری مٹھائی۔ اب میں چلتا ہوں۔“

    چند دنوں بعد آمنہ خالہ مٹھائی کے ساتھ پہنچ گئیں۔ ڈبہ فائزہ کے ہاتھوں میںدیتے ہوئے انھوں نے ابّو کے متعلق پوچھا۔

    ”وہ تو نہیںہیں۔آپ بیٹھئے نا۔“ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ہی و ہاٹھ گئیں۔

    “اب میں چلتی ہوں۔ پھر آؤں گی۔”

    “کیوں خالہ !ابھی تو آپ آئی ہیں۔ نہ کوئی ٹھنڈا نہ گرم۔ کچھ دیر تو اور بیٹھئے۔ ابو بھی اب آ ہی جائیں گے۔”

    فائزہ نے دوبارہ انھیں بٹھاتے ہوئے فرض میزبانی نبھایا۔

    اور واقعی کچھ ہی دیر بعد ابّو آگئے۔ وہ آمنہ خالہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔

    “کہئے بہن کیسی ہیں؟ بیٹے کی کامیابی پر میری طرف سے دلی مبارک باد قبول کریں۔ میں خود آپ کے یہاں جانے والا تھا لیکن معذرت خواہ ہوں فرصت کی کمی کی وجہ سے نہ جا سکا۔“

    ابو واقعی بہت شرمند ہ تھے۔

    “کوئی بات نہیں بھائی صاحب! مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں۔ بس آپ کی دعائیں ہی کافی ہیں۔“

    ”اب آپ عمر کی شادی کر دیں۔ آپ کی تنہائی دور ہو جائےگی۔“ ابو نے مشورہ دیا۔

    ”میں خود بھی یہی سوچ رہی ہوں۔ بلکہ میں نے تو لڑکی بھی پسند کر لی ہے۔“

    ”کون ہے وہ خوش نصیب جسے آپ نے اپنے لائق فائق بیٹے کے لیے منتخب کیا ہے؟“

    “وقت آنے پر وہ بھی معلوم ہو جائےگا۔“

    اتنا کہہ کروہ چلی گئیں۔ کچھ دن یوں ہی گزر گئے لیکن ایک دن اچانک پھر آمنہ خالہ پہنچ گئیں۔ علیک سلیک کے بعدا نہوں نے کہا۔

    ”بھائی صاحب! آج میں آپ کے پاس ایک خاص مقصد کے تحت آئی ہوں۔ دیکھئے مجھے مایوس نہ کیجیےگا۔“

    “کہو نا وہ مقصد کیا ہے؟“ ابّو نے سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھا۔

    ”میں آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے آئی ہوں۔ آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں۔“

    ابو حیرت اور خوشی کی تصویر بنے انھیں دیکھ رہے تھے۔خوشی خود چل کر ان کے گھر آئی تھی۔

    “آپ نے میری باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا بھائی صاحب؟“

    “ہاں ! نہیں!!“ ابو ایک دم گڑبڑا گئے۔ پھر خود کو سنبھال کر کہا۔

    “آپ میرے لیے اتنا نا یا ب تحفہ لے کر آئی ہیں اور میں انکار کر دوں۔ یہ تو کفران نعمت ہوگی۔“

    پھر دونوں فریقین کے باہمی مشورہ اور خوشی سے بہت ہی سادگی کے ساتھ عمر اور فائزہ کی منسوب طے ہو گئی۔

    آمنہ خالہ کو بہو لانے اور اپنا گھر بسا نے کی جلدی تھی لہٰذا شادی کے لیے اصرار کر نے لگیں لیکن ابّو کو فائزہ کی تعلیم مکمل ہونے کا انتظار تھا۔ اور خود فائزہ کی بھی یہی خواہش تھی۔ لیکن انسان کچھ سوچتاہے اور اللہ کچھ اور ہی۔ اس دن جب وہ بی اے فائنل کا آخری پیپر دے کر لوٹی تو گھر میں داخل ہوتے ہی اسے کچھ عجیب سا احساس ہوا۔ خلاف معمول گھر میں کچھ ہل چل سی مچی تھی۔ وہ تیز تیز قدموں سے ابّو کے کمر ے کی طرف آئی۔ وہاں اس نے جو نظارہ دیکھا اس نے اس کے ہوش اڑادیئے۔ ابو بےہوش پڑے تھے۔ فائقہ نے ان کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ نوید اور فارحہ رو رہے تھے۔ اسی وقت ندیم ڈاکٹر کو ساتھ لے کر پہنچا۔ معائنہ کے بعدڈاکٹر نے انھیں جلد سے جلد ہاسپیٹل میں داخل کرنے کا مشورہ دیا لہٰذا بلا تاخیر انھیں ہاسپٹیل پہنچایا گیا۔ وہاں ڈاکٹروں نے انھیں ICU میں رکھا۔ اس ناگہانی افتاد نے فائزہ کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ رات دن گھر اور ہاسپٹیل کے چکر لگاتے ہوئے اس کے پاؤں میںچھا لے پڑگئے تھے۔ سارے پیسے جو شادی کے لیے پس انداز کیے گئے تھے وہ پانی کی طرح بہہ رہے تھے۔ وہ ایک ہفتہ تک موت و زیست کی جنگ لڑتے رہے لیکن آخر موت نے زیست کو شکست دے دی۔ فائزہ چکر اکر لاش ہی پر گر گئی۔ جب اسے ہوش آیا تو وہ ساکت ہو چکی تھی۔ اس ایک ہفتہ کے درمیان اس نے اتنے آنسو بہائے تھے کہ اب آنسوؤں کے سوتے خشک ہو چکے تھے۔ وہ کبھی لاش کی طرف دیکھتی اور کبھی بھائی بہنوں کو گلے سے لگاتی۔ وہ ایک بڑی آزمایش میں گھر چکی تھی اور بہرحال اسے اس آزمایش سے گزرنا تھا۔ اس کی ساری زندگی اس کے سامنے پڑی تھی۔ اس نے اچھی پوزیشن حاصل کی تھی لیکن کون ایسی شفیق ہستی تھی جس کے ساتھ وہ اپنی خوشی شیئر کر تی۔ اب اسے اتنا ہوش ہی کہاں تھا اتنی فرصت ہی کب تھی۔ اس کے ناتواں کندھوں پر تو بڑی بڑی ذمہ داریاں آ گئی تھیں۔ بھائی بہنوں کی پرورش پر داخت، تعلیم و تربیت، شادی بیاہ اس کا ذہن منتشر سوچوں کے گرداب میں پھنسا ہوا تھا۔

    بہت غور و فکر کے بعد اس نے مکان کا کچھ حصہ کرائے پر لگا دیا۔ اور گھر میں تعلیمی ادارہ قائم کیا جہاں بچے ابتدا ئی تعلیم حاصل کر تے۔ لیکن یہ بھی ناکافی تھا لہٰذا جب بھی ویکینسی نکلتی تو جھٹ درخواست دے دیتی۔ ہر جگہ انٹرویو کے لیے بھی جاتی۔گویا پیہم جدوجہد کرتی رہی اور بالآخر ایک پرائیوٹ اسکول میں اسے جاب مل گئی تو اسے قدرے سکون ہوا۔ ندیم اور فائقہ میڑک کر نے کے بعد کالج پہنچ گئے تھے۔

    اس دوران آمنہ خالہ کبھی کبھی ڈھکے چھپے لفظوں میں شادی کا ذ کر کر لیا کر تی تھیں لیکن ایک دن تو وہ خاص اسی مقصد کے لیے پہنچ گئیں۔ فائزہ کو پیار کر تے ہوئے کہا۔

    “آج میں تم سے کچھ خاص بات کرنے آئی ہوں۔ حالانکہ اس موضوع پر تم سے بات کر نا بہت ہی نامناسب لگ رہا ہے لیکن کیا کروں مجبوری ہے۔ تم خود سمجھدار ہو اور تم سے بہتر تمھارے بارے میں اور کون سوچ سکتا ہے۔ آخر تم نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ اب تو تمھارے بھائی بہن ماشاءاللہ سمجھدار ہو گئے ہیں۔“

    خالہ بہت رسانیت سے اسے سمجھا رہی تھیں۔

    ”اب اتنے بھی سمجھدار نہیں ہیں کہ اپنی کفالت خود کر سکیں۔”

    فائزہ نے بےحد افسردگی سے کہا۔

    ”تم تب بھی ان لوگوں کی دیکھ بھال اور سرپرستی کر سکتی ہو۔“

    ”تب اور اب میں بہت فرق ہوگا خالہ! آپ بزرگ ہیں اور ظاہر ہے مجھ سے زیادہ تجربہ کار بھی ہیں۔ میں یہ مانتی ہوں آپ ہمارے ساتھ بہت ہی مخلص بھی ہیں لیکن حالات خود بخود ایسے پیدا ہو جائیں گے کہ میں چاہ کر بھی ان لوگوں کے لیے کچھ نہ کرپاؤں گی۔ نہیں خالہ نہیں! میں اپنے بھائی بہنوں کو بےسہارا نہیں چھوڑ سکتی۔”اس دن خالہ کچھ رنجیدہ کچھ افسردہ واپس چلی گئیں۔ لیکن اب تقاضے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ لیکن ہر بار اس کا جواب نفی ہی میں ہوتا۔

    اسے اس بات کا اندازہ بالکل نہ تھا کہ زندگی کی راہ گزر پرا تنے نشیب و فراز آئیں گے، اتنی دشواریاں پیدا ہوں گی۔ اتنے مسائل کھڑے ہو جائیں گے۔ اس نے تو سوچا تھا کہ زندگی کے اس اہم تقاضے اور مطالبے سے منہ موڑ کر بھی وہ اپنی زندگی کے باقی ایام اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ ہنسی خوشی گزار لےگی۔ لوگ اسے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کا مشورہ دیتے لیکن اس کا بس ایک ہی جواب ہوتا۔

    ”اگر کوئی کچھ کر سکتا ہے تو تھوڑا اور انتظار کر لے۔“

    یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی کہ کوئی کسی کے لیے کب تک انتظار کر سکتا ہے اور پھر کبھی کبھی وہ سب ہوجاتا ہے جسے کوئی خواب و خیال میں دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ لوگ کہتے ہیں تقدیر کے ساتھ تدبیر کا دخل بھی لازمی ہے لیکن اکثر تقدیر تدبیر پر اتنی حاوی ہو جاتی ہے کہ انسان کے لاکھ ارادے اور خواہش کے باوجود وہ ہو جاتا ہے جو کاتب تقدیر اس کی قسمت میں لکھ دیتا ہے اور انسان اتنا بےدست و پا اور لاچار ہے کہ بلا چوں و چرا اس لکھے کو قبول کر نے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

    اس کے ٹیبل پر عمران کی شادی کا کارڈ پڑا تھا۔ اس نے حسرت سے کارڈ کی طرف دیکھا۔ آج ہی اس کی بارات تھی۔ پڑوس میں رونق ہی رونق تھی لیکن اس کے اندر بیکراں سناٹا تھا۔ ایک عجیب سی احساس محرومی نے اس کے دل کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ دم گھٹ رہا تھا۔ اس نےاٹھ کر کھڑکی کے پٹ کھول دیئے۔ہوا کے ایک تیز جھونکے کے ساتھ ابا کی آواز کی بازگشت ا س کے ذہن کے نہاں خانے میں ابھری۔

    “آپ میرے لیے اتنا نایاب تحفہ لے کر آئیں ہیں اور میں انکار کر دوں۔ یہ تو کفران نعمت ہے۔“

    لیکن حالات نے اسے اس قدر بے بس کر دیا کہ وہ اس تحفہ کو قبول نہ کر سکی۔ اس کے لیے کسے موردا لزام ٹھہراتی؟ صحیح معنوں میں کوئی بھی قصور وار نہ تھا۔ امی ٹھیک ہی کہتی تھیں کہ یہ سب تو قدرت کے ہاتھوں کا کھیل ہے۔ کچھ لوگ اپنی جھولی ہی میں بدقسمتی اور ناکامیوں کی سوغات لے کر دنیا میں آتے ہیں۔ اچانک بہت سارے آنسو اس کی آنکھوں کے کنارے سے چشمے کے مانند پھوٹ پڑے۔

    پھر دھیرے دھیرے وہ نارمل ہو تی گئی کہ وقت سب سے بڑا معالج ہے۔ ندیم بی کام کرنے کے بعد کمپٹیشن کی تیاری میں جٹ گیا تھا۔ فائقہ نے ایم اے میں داخلہ لے لیا تھا۔ لیکن ادھر کچھ دنوں سے ندیم کے رنگ ڈھنگ کچھ اچھے نہیں لگ رہے تھے۔ وہ سارا سارا دن غائب رہتا۔ رات دیر سے گھر لوٹتا۔ ہر ہفتہ اسے پیسے کی ضرورت پیش آ جاتی۔ وہ جب تک رات کو واپس نہیں آ جاتا فائزہ فکرمند رہتی۔ ایک دن تو اس نے حد ہی کر دی۔ جب رات کے دوبجے گھر لوٹا تو فائزہ میں مزید برداشت کی طاقت نہ رہی۔اس نے دروازہ کھولتے ہی کہا۔

    “یہ کوئی وقت ہے گھر آنے کا؟ گھڑی دیکھی ہے تم نے؟“

    ”ہاں دیکھی ہے۔ میں باہر آوارہ گردی کے لیے نہیں رہتا۔ رات کی کوچنگ کلاس کرتا ہوں۔ اگر گھر بیٹھ گیا تب تو ہو گئی میری تیاری۔ آپ میرے لیے فکر مند نہ ہوں۔ اب میں بچہ نہیں ہوں۔ اب آپ کی انگلی پکڑ کر نہیں چل سکتا۔“ اس کے تیور بالکل بدلے ہوئے تھے۔ وہ اس کے اس انداز تخاطب پر حیرت زدہ تھی۔

    “کیا یہ وہی لڑکا ہے جو کبھی نظریں ملا کر بات کر نے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ اگر کوئی غرض ہوتی تھی تو گلے میں بانہیں ڈال کر پیار سے اپنی بات منوا لیا کرتا تھا۔”

    دن گزرتے رہے لیکن ندیم کی روٹین او ررویے میںکوئی فرق نہ آیا۔ ہاں اتناضرور ہوا کہ اسے بینک میں جاب مل گئی۔ یہ ایک بڑی بات تھی۔ایک بڑا بوجھ اس کے سر سے اتر چکا تھا۔ اسے بھائی کی کامیابی پر جتنی خوشی تھی اس سے زیادہ اس بات کا اطمینان تھا کہ اب ذمہ داری کی گاڑی چلانے کے لیے وہ تنہا نہیں رہی لیکن بر سر روزگار ہونے کے بعد اس کا انداز اور بھی بدل گیا تھا۔ اس کے اسی انداز نے فائزہ کو الجھن میں ڈال دیا تھا۔

    وجہ سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ لیکن ندیم نے بہت جلد اسے اس الجھن سے نکال دیا۔

    ”آپا! میں آپ سے کچھ کہنا چاہتاہوں۔“

    ”کوئی خاص بات؟“ فائزہ نے اسے گہری نظروں سے دیکھا۔

    ”ایسا ہی سمجھ لیجیے۔ وہ بات یہ ہے آپ کہ میں ایک لڑکی کو پسند کر نے لگا ہوں۔ اب اس کے گھر والے شادی کے لیے تقاضہ کر رہے ہیں۔“

    اوہ !تو یہ بات ہے۔ تب ہی کہوں کہ میر ابھائی اتنا بدلا بدلا کیوں لگ رہا ہے۔ میں تو پہلے فائقہ کی ذمہ داری سے سبک دوش ہونا چاہتی تھی۔ تم ان لوگوں سے کہو کہ فائقہ کی شادی تک انتظار کریں اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ انھیں مجھ سے ملواؤ۔ ڈائرکٹ بات کراؤ۔ پتہ تو چلے وہ کون ہیں؟ کیسے لوگ ہیں؟“

    “میں آپ کو ان لوگوں سے ملوا تو دوں گا لیکن میرا خیال ہے وہ زیادہ دنوں تک انتظار نہ کریں گے۔“

    چند دنوں بعد ندیم نے پھر اسی موضوع کو چھیڑا۔

    ”آپا! وہ لوگ کسی قیمت پر انتظار کر نے کے لیے راضی نہیں ہو رہے ہیں۔“

    “کیوں بھئی! آخر انھیں اتنی جلدی کیوں ہے؟ وہ تمھاری بات ماننے کے لیے تیار نہیں اور تم ان کی بات ماننے پر مجبور ہو، کیوں؟ کہہ دو اگر وہ انتظار نہیں کر سکتے تو نہ کریں ہمارے پیش نظر سب سے پہلے اپنی بہن کا مستقبل ہے۔“

    ”یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں آپا! میں اپنی محبت اپنی خوشیوں کو ذمہ داری پر قربان نہیں کر سکتا۔ ہر انسان کو اپنی زندگی اپنے طریقے اور اپنی خواہشوں سے جینے کا حق حاصل ہے۔“

    ”تو گویا تم نے سب کچھ طے کر ہی لیا ہے۔“

    اندرونی کرب سے اس کا ہرہ پل پل رنگ بدل رہا تھا۔

    پھر ہزار سمجھانے کے باوجود وہ اپنے من کی کر کے ہی رہا۔ بہو کیا آئی کہ گھر کی فضا ہی بدل گئی۔ جیسے اپنوں کی محفل میں کوئی اجنبی آ جائے۔ ایک نامانوس سا احساس تھا۔شاید یہی احساس اسے بھی تھا تب ہی تو شوہر کے سوا اسے گھر کے کسی فرد سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔ فائزہ ساری ذمہ داریاں نبھاتی رہی۔ صبح سے شام تک چھوٹے بھائی بہنوں کے ساتھ مغز ماری کر نے کے بعد وہ اتنا تھک جاتی کہ نہ اس کے جسم میں کوئی سکت رہتی نہ دماغ میں۔

    ایک روز کی بات ہے۔فائزہ صبح سویرے بیدار ہوئی اور کسی ضرورت کے تحت اس کا جانا ندیم کے کمرے کی طرف سے ہوا تو اندر سے چیخ چیخ کر بولنے کی آوازیں آتی سنائی دیں۔وہ رک گئی۔ندیم خاموش تھا مگر اس کی بیوی غصہ بھرے لہجے میں کہہ رہی تھی۔

    ”یہ گھر ہے یا پاٹھ شالہ۔نہ دن میں چین نہ رات میں سکون۔ جانے لوگ اس گھر میں رہ کر کیسے گزارہ کر لیتے ہیں۔ میں اب ایک دن بھی یہاں رہنے والی نہیں۔ تمھیں دونوں میں سے کسی ایک کو چننا ہوگا۔ یا میں یا تمھارے بھائی بہن۔“

    ندیم کی کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔ وہ بالکل خاموش تھا جیسے اس کی قوت سماعت اور قوت گویائی دونوں مفلوج ہو چکے ہوں۔ فائزہ زیادہ دیر تک وہاں پر نہ ٹھہر سکی اور لڑکھڑاتے قدموں سے اپنے کمرے کی جانب مڑ گئی۔

    اسے بہو کی باتوں کا اتنا صدمہ نہ تھا جتنا دکھ اس بات کا تھا کہ اس اپنا سگا بھائی اس کی دفاع میں ایک لفظ بھی نہ بول سکا۔ انھی بھائی بہنوں کے لیے اس نے زندگی خوشیوں سے منہہ موڑ لیا تھا۔ یہ قربانی اس نے ایسے وقت میں دی تھی جب دل میں ہزاروں تمنائیں جنم لیتی ہیں، ہزاروں خواہشیں انگڑائیاں لیتی ہیں۔ اس وقت انسان کو اپنی ذات کے سوا کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔ اس وقت وہ صرف اپنے لیے جیتا ہے، اپنی خوشی کو مقدم سمجھتا ہے لیکن اس نے بھائی بہنوں کے لیے اپنی ساری خوشیاں قربان کر دیں۔ اب اس کی ساری خوشیاں انھی سے وابستہ تھیں۔ وہ انھیں ہنستے مسکراتے دیکھتی تو اس کی ساری تھکن کافور ہو جاتی۔ لیکن اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کی ساری قربانیاں رائگاں چلی گئیں۔ اس نے اپنی زندگی میں کیا کھویا، کیا پایا اس کا تجزیہ کرنے میں لمحہ لمحہ ماضی کی یادیں دل میںنشتر بن کر چبھنے لگیں۔

    دوسرے دن فائزہ نے موقع پاکر ندیم کو سمجھانے کے انداز میں کہنا شروع کیا۔

    ”اگر تمھاری بیوی ہم لوگوں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو تم بخوشی الگ ہو جاؤ۔ تمھیں حالات سے سمجھوتہ کر لینا چاہئے۔ تلخیاں بڑھانے سے کیا فائدہ؟“ یہ بات اس نے دل پر پتھر رکھ کر کہی تھی لیکن ندیم شاید اسی کا منتظر تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے چہرے پر خوشی اور اطمینان کے رنگ بکھر گئے۔

    رخصت کرتے وقت اس نے بھائی کو گلے لگاکر کہا۔

    ”میری دعائیں ہمیشہ تمھارے ساتھ رہیں گی۔ تم دور رہ کر بھی میرے قریب رہوگے۔ گھروں کے فاصلے دلوں کے فاصلے نہیں بڑھا سکتے۔“

    لیکن یہ اس کا محض خیال خام تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فاصلے بھی بڑھتے گئے۔ وہ بھائی کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس گئی۔اور اب اس کا دل یہ سوچ سوچ کر لرزتا تھا کہ کہیں دوسرے بھائی بہن بھی اس کے ہاتھوں سے نہ نکل جائیں۔لیکن یہ تو ہونا ہی تھا۔ایک دن فائقہ نے کہا۔

    ”آپا! شاہد آپ سے ملنا چاہتا ہے۔“

    “کون شاہد؟ میں اس نام کے کسی آدمی کو نہیں جانتی۔“

    “وہ میرا کلاس فیلو ہے۔“

    ”مجھ سے کیوں ملنا چاہتا ہے؟“

    ”یہ تو وہی بتائےگا۔“ فائقہ نے شرماتے ہوئے کہا۔

    فائزہ ایک لمحے میں ساری بات سمجھ گئے اور پھر فائقہ کی خواہش کے مطابق وہ شاہد سے ملی اور اس کے گھر والوں سے بھی۔ لوگ اچھے تھے۔رشتہ مناسب تھا لہذا اس نے فوراً حامی بھر لی۔وہ بہت خوش تھی۔ فائقہ نے اس کی مشکل آسان کر دی تھی۔

    اور پھر فائقہ کی شادی ہو گئی۔ اس نے خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات کے درمیان فائقہ کو رخصت کیا اور اس کی جدائی کے بات وہ کئی دنوں تک چپکے چپکے آنسو بہاتی رہی۔

    اب صرف تین نفوس اس گھر میں رہ گئے تھے۔ نوید اور فارحہ تو اس کے دائیں بائیں بازو تھے۔ اب اس کے پاس کل یہی اثاثۂ حیات بچا تھا۔

    وقت نے کچھ اور فاصلہ طے کیا۔ نوید نے بی اے پاس کر لیا مگر گریجویشن کے بعد نوید نے آگے پڑھنے سے انکار کر دیا۔اسے باہر جانے کی دھن سوار تھی۔ دن رات اسی تگ و دو میں لگا رہتا اور بالآخر وہ مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے چلے جانے کے بعد گھر کا سناٹا مزید گہرا ہو گیا۔ یہی غنیمت تھا کہ کبھی کبھار وہ بہنوں کی خیرخبر لیتا رہتا اور گاہے بگاہے کچھ پیسے بھی بھیج دیا کرتا۔ ایک بار اس نے خط میں لکھا کہ”آپا! مجھے ایک بہت اچھا چانس مل رہا ہے۔ ایک صاحب جو گرین کارڈ ہولڈر ہیں انھوں نے اپنی لڑکی کے لیے مجھے پسند کر لیا ہے اور مجھے امریکہ لے جانا چاہتے ہیں۔ میں یہ چانس مِس نہیں کرنا چاہتا۔ امید کہ آپ مجھے بخوشی اس کی اجازت دے دیں گی۔“

    وہ سکتے میں آ گئی۔ سوچنے سمجھنے کی وقت زائل ہو گئی اور اب زیادہ سوچنے کے لیے بچا ہی کیا تھا۔ چلو غنیمت ہے کہ اس نے رسماً ہی سہی اجازت تو مانگی۔ اگر وہ اسے بغیر اطلاع دیئے شادی کرکے امریکہ چلا جاتا تو وہ کیا کر لیتی اور پھر اس نے بھائی بہنوں کی راہ کب کھوٹی کی ہے۔وہ تو انھی کے لیے جی رہی تھی۔ یہ بھی خدا کا لاکھ لاکھ شکر اور احسان ہے کہ اس کے بھائی بہنوں میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اپنی زندگی کی راہیں خود متعین کر رہے ہیں اور اس کے بوجھ کو ہلکا کر رہے ہیں۔ کیا ہوا اگر وہ اس کی نظروں سے دور ہیں۔ وہ جہاں رہیں خوش رہیں۔ شاد رہیں، آباد رہیں۔ (آمین)

    اس کے دکھے ہوئے دل سے بے ساختہ دعا نکلی۔

    اب صرف فارحہ بچی تھی۔ اس کی آخری ذمہ داری۔ فارحہ بچپن ہی سے کم سخن اور نیک تھی۔ اسے گھر کے کاموں سے زیادہ دلچسپی تھی۔ خوبصورت تھی اور خوب سیرت بھی۔اس کے رشتے آنے شروع ہوئے تو فائزہ آنے والے دنوں کے خوف سے ڈر گئی۔فارحہ کی شادی ہو جانے کے بعد؟؟؟ اس سے آگے سوچنے کی اس میں ہمت نہ تھی۔تنہائی کا عفریت منہہ کھولے سامنے کھڑا تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ آنے والی تنہائی کا خوف شدت اختیار کرتا جا رہا تھا۔ مایوسیاں اس کی ذات کو اپنی گرفت میں جکڑتی جا رہی تھیں۔ لیکن فرض سے آنکھیں چرانا تو اس نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ اس نے ایک مناسب رشتہ دیکھ کر فارحہ کے ہاتھ پیلے کر دیئے اور جس وقت فارحہ رخصت ہو رہی تھی اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اس کا آخری سہارا بھی اس سے چھوٹا جا رہا ہے۔ اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے فارحہ کو گاڑی میں بٹھایا اور ٹوٹے قدموں سے اپنے کمرے میں جاکر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

    گھر مہمانوں سے بھرا پڑا تھا۔ مگر اس کے اندر باہر ہر طرف سناٹا ہی سناٹا تھا۔اسے ابھی بھی بہت سارے کام سمیٹنے تھے لیکن اب اس کے اندراٹھنے کی سکت بھی باقی نہ بچی تھی۔ اس نے ایک لمبی مسافت طے کی تھی اور راستے میں آنے والے روڑوں کو ہٹاتے ہٹاتے اس کے ہاتھ لہو لہان ہو گئے تھے پھر بھی اسے منزل نہ مل سکی۔ دوسروں کو منزل تک پہنچاتے پہنچاتے وہ خود اپنی منزل کا نشان کھو بیٹھی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے