Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہتک

MORE BYانور سجاد

    بدرے نے چاروں طرف دیکھا، گلی میں سبھی لوگ چارپائیوں پر مردوں کی طرح سو رہے تھے۔ سوائے کتوں کے ایک جوڑے کے اور کوئی زندہ نہ تھا۔ بجلی کے کھمبے کے منہ سے بہتی ہوئی روشنی اس کھڑکی والی دیوار تک پہنچ کر خشک ہوجاتی تھی۔ ایک نے دوسرے کتے کے کان میں سرگوشی کی اور دونوں بدرے کے وجود سے بے نیاز روشنی کے تاریک کناروں میں اتر گئے۔ بدرے نے اپنے جسم سے ابھرتے ہوئے تازہ پسینے سے دل کی آگ بجھانے کی کوشش کرتے ہوئے اس کھڑکی کو ذرا سا دبایا۔۔۔ کھڑکی بند تھی۔ اس پٹ میں چھوٹے سے روزن میں آنکھ جماکر سرگوشی کی، ’’۔۔۔ شیدو۔‘‘

    کمرے میں صرف لالٹین کی لو سو رہی تھی۔ بدرے کو بہت غصہ آیا کہ اتنی منتوں کے باوجود شیدو کا منجمد دل پگھلا نہیں۔ اس نے ہاتھ پر بہت جبر کرکے دروازہ کھٹکھٹایا، ’’۔۔۔ شیدو!‘‘ کھٹ کھٹ کھٹ۔

    لالٹین کی نیند میں ڈوبی روشنی میں ایک سایہ بڑی تیزی سے دیوار پہ کانپا اور چوڑیوں کی گھٹی ہوئی جھنکار بند کھڑکی میں الجھ گئی۔

    ’’شیدو۔۔۔‘‘

    ’’کیا بات ہے؟‘‘ شیدو کی آواز روزن سے دبے پاؤں نکلی۔

    بدرے کا جی چاہا کہ کھڑکی اکھاڑ کر پھینک دے اور شیدو کی کلائیوں میں ہلکی ہلکی کھنکتی ہوئی چوڑیوں کا گلا گھونٹ کر کہے۔۔۔ یہ بات ہے لیکن اس کے جسم پر تازہ پسینہ پھر جم گیا اور اس نے اپنی اسی خواہش کی گردن دباتے ہوئے سوچا، شیدو اب میں کیا بتاؤں کہ کیا بات ہے۔

    ’’میں چلتی ہوں۔۔۔ کاکا جاگ جائےگا۔‘‘

    اسے معلوم تھا کہ شیدو جھوٹ بول رہی ہے۔ کاکا اور دوسرے سب چھت پر سو رہے ہیں اور حسب معمول تنہا نیچے صحن میں بدرے نے بڑی مشکل سے اپنے صحت مند جسم کی تمام قوت جمع کرتے ہوئے بند کھڑکی سے کہا، ’’شیدو! اب مجھ سے اور صبر نہیں ہو سکتا۔‘‘

    ’’کس معاملے میں؟‘‘

    بدرے کا خیال نہیں تھا کہ شیدو کی سمجھ میں اتنی معمولی سی بات بھی نہیں آئےگی۔ وہ کچھ بوکھلا سا گیا جب شیدو نے پھر کہا، ’’بتاؤنا!‘‘ تو اس نے پردہ پوش عورت کی طرح جو کسی کے مجبور کرنے پر پہلی مرتبہ برقع اتار کے باہر نکلتی ہے، شرماکر کہا، ’’منگنی ہوئے اتنے مہینے ہو گئے ہیں۔۔۔ تمہارے ماں باپ سے ابھی تک تمہارا داج نہیں بنا۔۔۔؟‘‘

    یہ کہہ کر وہ یوں سر جھکاکر کھڑا ہو گیا جیسے شیدو کے باپ نے اسے چوری کرتے پکڑ لیا ہو۔ شیدو نے کچھ نہ کہا۔

    ’’شیدو!‘‘

    خاموشی۔

    ’’شیدو!‘‘ اس نے یک دم روزن سے آنکھ لگا دی۔۔۔ لالٹین کی لو لالٹین کے منہ سے اتر چکی تھی، کمرے میں تاریکی تھی اور شیدو وہاں نہیں تھی۔۔۔

    ’’مرجانی۔ شیدو کی بچی۔۔۔ کوڑھا ہوکے مروں اگر دوبارہ تم سے ملوں۔‘‘

    اس نے روہانسا ہوکر پاس ہی زمین پر رکھی ہوئی تھرماس سے چاک بار نکالی جو وہ بڑے ارمانوں سے شیدو کے لیے لایا تھا۔ جانے وہ کتوں کا جوڑا اتنی جلد تاریک کناروں سے پھر روشنی کے دریا میں کیوں آ گیا تھا۔ اس نے بڑے غصے میں وہ چاک بار انہیں ماردی۔ ان میں سے ایک چیاؤں چیاؤں کرتا ہوا بھاگ گیا۔۔۔ بدرے کا ذہن اور بھی چیاؤں چیاؤں کرنے لگا۔۔۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے۔۔۔ جب سے اس کی شیدو سے منگنی ہوئی تھی تب سے وہ اسی طرح بوکھلایا ہوا پھر رہا تھا۔۔۔

    اسی دن سے بدرے کے جذبات شیدو کے گھونگھٹ کی منہ بند کیتلی میں قید ہوکر رہ گئے تھے۔ جب دل کی آگ جذبات کو بھاپ بنادیتی تو اس وقت تک دیکھتا رہتا جب تک کہ شیدو گھڑالے کر آتی۔ اس کے چہرے پر گھونگھٹ کی دیوار اور بھی پختہ ہوجاتی۔ بدرے نے اس سے کئی مرتبہ کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنا گھڑا وہاں رکھ کر بغیر کچھ سنے تیز ہوا کی طرح ساتھ ہی گوجروں کے ویہڑے میں چلی جاتی اور بدر اس دن کو کوستا ہوا لوٹ آتا جب اس کی منگنی ہوئی تھی۔

    اسے کئی مرتبہ خیال آیا تھا کہ کہیں شیدو کا دل اس سے بھر نہ گیا ہو، کہیں وہ اس سے اکتا نہ گئی ہو۔ لیکن جب اس کی منگنی سے پہلے کے دنوں کا خیال آتا جب رات کو گھڑیال کی بارھویں سر پر اس کا قدم گھڑی سے اندر ہوتا۔ وہ ایک سیکنڈ بھی لیٹ نہ ہوتا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ شیدو بے حد بے قرار ہو جائےگی اور پھر اس سے لاتعداد مرتبہ شکوہ کرےگی۔ اس زمانے میں تو اسے سب کے ساتھ چھت پر سوتے ہوئے ہول آتا تھا، وہ نیچے صحن میں تنہا ہی سوتی تھی اور سردیوں میں اسے کاکے کے خراٹوں سے بے پناہ نفرت تھی۔ وہ اس کمرے میں تنہا ہی سوتی تھی۔۔۔

    وہ دونوں شیدو کی ماں کے تہجد پڑھنے کے لیے اٹھنے تک (ایک چارپائی کی پائینتی اور دوسرا سرہانے کی طرف بیٹھے) باتیں کرتے رہتے، یا صرف ایک دوسرے کو دیکھتے ہی رہتے۔۔۔ بدرے کی چارپائی کی لمبائی کا یہ فاصلہ کم کرنے کی کبھی ضرورت پیش نہ آئی تھی۔ لیکن پچھلے چند دنوں سے اس کا جی چاہتا تھا کہ دھواں بن کر شیدو کے کمرے کے کونے کونے میں رچ جائے۔۔۔ لیکن اب جب کہ شیدو اتنی بےرخی سے پیش آرہی تھی اور آج اس نے اس کے احساس پر اتنا کاری زخم لگایا تھا اس کا جی چاہا کہ آگ کی لپٹ بن کر ساری دنیا کو چاٹ جائے۔۔۔

    جب وہ کھڑکا کیے بغیر اپنے سوئے ہوئے باپ کی نیند کی حفاظت میں آکے اپنی چارپائی پر لیٹا تو اپنے احساس پر شیدو کا لگایا ہوا زخم دھیرے دھیرے پھیلنے لگا۔ بدرا گھبرا کے اٹھ بیٹھا، وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا سارا جسم اس زخم کی لپیٹ میں آ جائے۔۔۔ آخر اس شیدو کی بچی کو ہو کیا گیا ہے۔۔۔ وہ یقیناً مجھ سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے۔ لیکن بچپن کی گلی میں کھیلتا کھیلتا کھڑکی کی اوٹ میں جوان ہوتا ہوا پیار اس طرح مدہم ہو سکتا ہے۔۔۔؟ اگر ہو سکتا ہے تو بے شک ہو، مجھے کیا پڑی ہے کہ میں تنہا اس پیار کی حفاظت کروں۔۔۔ شیدو یقیناً اس طرح مجھ سے بےرخی برتی کے مجھ سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے۔۔۔ تو جائے بھاڑ میں۔۔۔ میں کون سی پروا کرتا ہوں۔۔۔ میں بھی تو اسی لیے اس سے ملنا چاہتا تھا کہ بعد میں کوئی مجھ سے میرے پیار کے کچے پن کا شکوہ نہ کرے۔۔۔ تب وہ کس طرح نرگس بی بی کی باتوں سے جلتی تھی۔۔۔

    اسے کیا خبر کہ نرگس بی بی مجھے ان نگاہوں سے دیکھتی ہے کہ آج تک اس نے بھی نہ دیکھا تھا۔۔۔ نرگس بی بی۔۔۔! تم کتنی اچھی ہو۔۔۔ کتنی ہمدرد۔۔۔ شیدو کی بچی، جاؤ جہنم میں۔۔۔ اگر مجھ سے اکتا گئی ہو اور مجھ سے ملنا نہیں چاہتی تو میں کون سی پروا کرتا ہوں۔۔۔ جب میں نرگس بی بی کی کوٹھی میں نوکر ہو جاؤں گا تو خود ہی پچھتاؤگی۔۔۔ اگر تم نے مجھ سے آج چاک بار نہیں لی تو نہ سہی۔۔۔ میں کل نرگس بی بی کو دو چاک باریں مفت کھلاؤں گا۔۔۔ اگر تم نے کسی اور سے آنکھ لڑائی ہو تو میں۔۔۔

    اس نے مسکراتے ہوئے اپنے سرہانے کے نیچے سے ٹوتھ پیسٹ اور برش نکالے اور کھرے میں بیٹھ کر آہستہ آہستہ دانت مانجھتا ہوا مسکرا مسکرا کر جانے کا سوچنے لگا۔۔۔ وہ ٹوتھ پیسٹ اور برش جو نرگس بی بی نے اسے پرسوں ہی دیے تھے۔۔۔ وہ نرگس بی بی جو بھری دنیا میں تنہا اسے بدر کہتی تھی۔

    نرگس بی بی کے کالج کی دیوار کے ساتھ ایک چھوٹی سی کھال بہتی تھی جسے سب ندی کہتے تھے اور جس کے کنارے لگے ہوئے شیشم، یوکلپٹس اور کیلے کے درختوں کی چھاؤں میں کالج گیٹ سے کافی ہٹ کر چند ایک کاروں کے ڈرائیور اپنی بیبیوں کے لوٹنے کے انتظار میں تمباکو نوشی کرتے ہوئے اپنے اپنے مالکوں کے متعلق گفتگو کیا کرتے تھے، جن کی کلاسیں جلد ہی ختم ہو جاتی تھیں۔ کالج کی حدود سے ایک ایک فرلانگ تک کسی خوانچے والے کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔ کیونکہ کالج ٹک شاپ میں املی سے لے کر چائے تک ہر چیز ملتی تھی۔ بدرے کو اندر کیلوں کے سائے میں آنے کی اس لیے اجازت تھی کہ ٹک شاپ میں آئس کریم نہیں ملتی تھی اور کالج کی پرنسپل نے لڑکیوں کی ضد پر ’’بے بی ڈیلائٹ آئس کریم‘‘ والوں سے کہا تو انہوں نے بدرے کو بھیج دیا۔ ’’بےبی ڈیلائٹ‘‘ کے منیجر کے ہاں کوئی بوڑھا آدمی ملازم نہیں تھا اور بدرے کے متعلق اسے پتا تھا کہ وہ بہت شریف آدمی ہے، لڑکیوں کے ذکر سے بالکل لڑکیوں کی طرح شرما جاتا ہے۔۔۔ بدرے نے منیجر سے بڑی منت سماجت کی وہ کسی اور کو بھیج دے، لیکن اس انکار سے اس پر منیجر کا اعتماد اور بھی پختہ ہو گیا۔

    جب وہ پرنسپل کے سامنے پیش ہوا تو کالج کے تمام بوڑھے نوکر اور چپراسی اس کی نگاہوں میں گھوم گئے۔ وہ بدرے کے خوبصورت ڈیل ڈول سے گھبرا گئی۔ لیکن بدرے سے چند منٹ کی گفتگو سے اسے یقین ہو گیا کہ وہ ایسی ویسی حرکت نہیں کرےگا۔

    اس انٹرویو کے بعد وہ ماتھے سے پسینہ پونچھتا کچھ سوچتا ہوا باہر آ گیا۔۔۔ اس نے شیدو سے لڑکیوں کے کالج کی نوکری کا ذکر کیا تھاتو شیدو نے بڑے عجیب انداز سے کہا تھا، ’’راجہ اندر بنوگے وہاں تو۔۔۔‘‘ بدرے کواس جملے کا ایک ایک لفظ زہر میں بجھا محسوس ہوا تھا۔۔۔ ’’اگر تم نہیں چاہتیں تو میں انکار کر دوں گا۔۔۔ وہ مجھے نوکری سے نکال دےگا اور پھر منگنی دور جا پڑےگی۔‘‘ جانے شیدو اس بات سے قائل ہوئی تھی یا نہیں، لیکن اس نے کمائی میں اضافے کی دعائیں دیتے ہوئے اسے صرف ذرا احتیاط برتنے کے لیے کہا تھا اور بدرے نے سینہ پھلاکر اسے اپنے بدرے ہونے کا یقین دلایا تھا۔ ’’میرا نام بدرا ہے بدرا۔۔۔ اور میں صرف تمہارا ہوں۔‘‘

    پھر اس نے پرنسپل کو کچھ ایسے جواب دینے چاہے تھے کہ وہ اسے نہ رکھے مگر وہ اپنی اسکیم میں کامیاب نہ ہو سکا۔ شاید اس لیے کہ اس طرح اس کی خود اعتمادی کا جذبہ مجروح ہوتا تھا۔ سارا دن اتنی ساری لڑکیوں میں رہ کر وہ شیدو پر ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ راجہ اندر نہیں بدرا ہے۔۔۔ اس کا بدرا۔

    وہ کالج کی لڑکیوں سے اپنے برتاؤ اور رویے کے متعلق سوچتا، آہستہ آہستہ آئس کریم گاڑی دھکیلتا ندی کے کنارے آ گیا اور یوکلپٹس اور کیلوں کے سائے میں ڈرائیوروں کے کنبے میں ایک اور فرد کا اضافہ ہو گیا۔

    کالج بند ہونے پر جب اس نے ریہڑی کا ڈھکنا اٹھاکر دیکھا تو اس نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اسے یہ نوکری نصیب ہوئی۔ کہاں تو سارا سارا دن شہر کی خاک چھاننے کے بعد رقم ملتی تھی اور اب گرمیوں کے موسم میں دیکھتے ہی دیکھتے ریہڑی خالی ہو گئی تھی۔۔۔ اس کے نزدیک یہ سب شیدو کی دعاؤں کا نتیجہ تھا۔

    رات کو چونکہ اس کی ساری آئس کریم ختم ہو چکی تھی اس لیے اس نے کسی دوسرے آئس کریم والے سے اپنی شیدو کے لیے چاک بار خریدی اور حسب معمول تھرماس لے کر آدھی رات کو اس سے ملنے گیا۔ شیدو نے بڑی بے صبری سے اس سے سارے دن کا احوال پوچھا اور اسے یقین ہوگیا کہ بدرے کی آنکھیں خوبصورت اور اونچے گھرانوں کے رنگین کپڑوں سے نہیں چندھائیں گی۔۔۔ اور اگر کبھی وہ اندھا بھی ہو گیا تو کہاں ایک آئس کریم والا اور کہاں کاروں والے۔۔۔ پھر اس نے احتیاطاً بدر سے کہہ دیا کہ اگر اس نے شیدو کو لمحہ بھر کے لیے بھی اپنے دل سے علیحدہ کیا تو خدا اسے کبھی نہ بخشےگا۔

    بدرا کالج میں ڈرائیورں سے ہٹ کر اپنے فارغ وقت میں بورئیے پر لیٹ کر یا تو ذہن کے آئس بکس سے شیدو کی باتیں نکال کر سنتا اور پھر ان میں مستقبل کے پروگراموں کو جمع کرکے پھر ذہن کے آئس بکس میں رکھ دیتا یا پھر اس ندی کنارے بیٹھ کر قصہ سیف الملوک یا یوسف زلیخا پڑھنے لگتا۔۔۔

    اسے ڈرائیوروں کی گفتگو سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ کلب کسے کہتے ہیں، فلاش کیا ہوتی ہے اور بال روم کس کمرے کے ناچ کا نام ہے۔ کبھی کبھی اس کے مکان میں کسی کے مالک کی شرافت اور پرہیزگاری کے متعلق بھی آواز آتی، لیکن وہ ان سب باتوں کو گوش انداز، کر دیتا۔۔۔ اس کے نزدیک سب سے بڑا گناہ یہ تھا کہ کوئی اپنی شیدو کو لمحہ بھر کے لیے اپنے دل سے علیحدہ کر دے اور سب سے بڑا عذاب یہ تھا کہ خدا کسی کو کبھی نہ بخشے۔

    اس کے لیے سبھی لڑکیاں ایک سی تھیں۔ سب کی سب شیدو سے کم، بہت کم خوبصورت۔ ہر لڑکی کو صرف لمحہ بھر دیکھ کر نظریں جھکا لیتا اور اس کے بعد اپنی شیدو سے مقابلہ کرنے لگتا۔ سوائے لباس کے شیدو کی ہر چیز ان سے اچھی تھی (جو کہ کوئی بھی اچھائی نہیں تھی کیونکہ اس کا دل کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا) اسے دو ایک بار یہ احساس بڑی شدت سے ہوا تھا کہ شیدو کا ان لڑیوں سے مقابلہ کرنا اچھی بات نہیں۔ پھر بھی وہ اپنے خیالات کو شیدو کی زنجیر نہ پہنا سکا۔ پھر یہ سوچ کر کہ آخر میں حرج ہی کیا ہے، اس کے احساس کی چبھن مٹ گئی۔

    وہ ہر لڑکی سے بڑی سنجیدگی سے پیش آتا، اتنی سنجیدگی سے کہ وہ بھی ان کی نگاہوں میں کالج کے بوڑھے نوکروں کے گروہ میں شامل ہو گیا۔ لیکن ان تینوں لڑکیوں کو دیکھ کر، روکنے کی کوشش کے باوجود اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ جاتی (جس سے وہ اپنے آپ کو تسلی دے لیتا کہ یہ تو تجارتی مسکراہٹ ہے) ۔ وہ ان کے سامنے بالکل بےبس ہو جاتا۔ وہ جب بھی اس کے پاس آتیں تو تمام وقت اس کی گاڑی کے تینوں پہیوں کی طرح چرچراتی رہتیں۔ اس سے ہلکے ہلکے مذاق کرتیں۔ بدر اشروع شروع میں تو بہت گھبرایا۔ اس نے یہ بھی سوچا کہ پرنسپل سے رپورٹ کر دے کہ یہ لڑکیاں اسے تنگ کرتی ہیں۔ لیکن یہ سوچ کر وہ خود ہی شرمندہ ہو گیا کہ آخر یہ لڑکیاں اسے کیا ضرر پہنچاتی ہیں۔ لمبی کاروالی، بےپناہ خوبصورت آنکھوں والی لڑکی (بدرے کو یہ دیکھ کر تھوڑا سا دکھ ہوا تھا کہ اس کی آنکھیں شیدو سے ذرا اچھی ہیں) جو خود ہی کار ڈرائیو کرکے کالج آتی تھی۔ اپنی لمبی لمبی پلکیں جھکاکر کہتی۔۔۔

    ’’بدر۔۔۔! تو بڑا سمارٹ ہے۔‘‘

    بدر ا لمبی لمبی پلکوں والی اس بےحد اچھی لڑکی کا بہت احترام کرتا تھا کیونکہ بدرے کے بجائے ’’بدر‘‘ سن کر اسے بڑی مسرت ہوتی۔

    ’’اسمارٹ کیا ہوتا ہے نرگس بی بی؟‘‘

    ’’دلکش۔۔۔‘‘

    بدر کے گالوں میں خون ابلنے لگتا۔ وہ یہ بھی نہ کہہ پاتا کہ ایسی باتیں نہ کیا کریں بی بی۔۔۔! لیکن یہ الفاظ تو آج تک شیدو نے بھی اس سے نہیں کہے تھے۔

    ’’ہائے۔۔۔ کس طرح شرماتا ہے۔‘‘ ایک کہتی۔۔۔

    ’’بدرے، تیری مونچھیں بڑی اچھی ہیں۔‘‘ دوسری کہتی۔

    ’’بالکل ہیروؤں والی۔۔۔ بدرا ہیرو۔‘‘ پہلی کہتی۔

    بدرے کو اپنی تلوار مار کہ مونچھیں تلوار کی نوک کی طرح چبھتی محسوس ہوتیں۔

    اس کے بعد وہ ان کی باتوں کا عادی ہوگیا تھا۔ کیونکہ وہ باتوں باتوں میں بہت ساری آئس کریم کھا جاتی تھیں اور اس میں بدرے ہی کا فائدہ تھا۔ جب وہ تینوں چلی جاتیں تو اسے یوں محسوس ہوتا جیسے کسی گھاٹی پر اس کے ہاتھوں سے آئس کریم گاڑی چھوٹ گئی ہو۔ لیکن پھر ذہن کے کسی گوشے سے ایک عجیب سا اطمینان نکل کر اس کے ذہن پر چھا جاتا اور وہ سر کو ذرا سا جھٹکا کر مونچھوں کو سہلاتا ہوا اپنے ذہن میں فوراً ’’قصہ شیدوبدرا‘‘ کھول کر بیٹھ جاتا۔

    روز بروز نرگس بی بی اور اس کی دونوں سہیلیاں اس کی زندگی میں بالکل آئس کریم کی طرح جم کر رہ گئیں۔۔۔ بدرے کو اس چیز کا بالکل احساس نہ ہوا تھا۔ اگر کسی روز وہ نہ آتیں یا کالج میں چھٹی ہوتی تو وہ ان کی غیرموجودگی میں اداس بالکل نہ ہوتا۔ بس یہ تھا کہ کھانے کے ساتھ سرکہ یا اچار کی کمی محسوس ہوتی تھی۔۔۔

    اس کے دن بہت اچھے گزر رہے تھے۔ شیدو کو جب بھی وہ ان لڑکیوں کی باتیں سناتا تو وہ تھوڑی دیر تک ان باتوں سے لطف اٹھانے کے بعد اس سے کہتی۔۔۔ چل چھوڑ، اب دفع کرا نہیں اور بدرا انہیں دفع کر دیتا۔ وہ اسے بار بار اپنی محبت کا یقین نہیں دلانا چاہتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ شیدو اس کے جواب میں کیا کہےگی۔۔۔ ’اگر تم نے لمحہ بھر کے لیے مجھے‘۔۔۔ ویسے بھی باتوں باتوں میں جب وہ نرگس بی بی کا ذکر شروع کرتا تو وہ لمبی لمبی پلکوں والی آنکھیں اس کے دل میں عجیب سا خلا پیدا کرتی ہوئی اسے گنگ کر جاتیں اور وہ نرگس بی بی کی کہی ہوئی کئی باتیں گول کر جاتا۔۔۔ اور جانے اب وہ کیوں شیدو کے لیے ایک کے بجائے دو چاک باریں لاتا تھا۔

    پھر جب ایک رات شیدو کو محسوس ہوا کہ بدرا اب کالج کی لڑکیوں کا ذکر کچھ زیادہ ہی کرنے لگا ہے تو اس نے کہا۔۔۔ ’’بدرے۔ اب ہم کب تک یوں چھپ چھپ کر ملتے رہیں گے۔‘‘

    بدرے کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ نرگس بی بی کی آنکھوں کے بوجھ تلے آ گیا ہے۔۔۔ نرگس بی بی کی نگاہیں وہ شروع شروع والی نگاہیں نہیں رہی تھیں۔ اب جب کبھی وہ اس کے ذہن میں آتی تو اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس نے کسی چور سے سازش کرکے اپنے ذہن میں سیندھ لگوائی ہو۔ اسے نرگس بی بی سے کبھی کبھی بہت خوف سا آنے لگتا تھا اور اس نے کئی بار سوچا تھا کہ وہ یہ نوکری چھوڑ کر بھاگ جائے۔ لیکن پھر اس خیال سے کہ شیدو یقیناً دال میں کچھ کالا سمجھےگی (اور زندگی کی روٹی اچار بغیر کھانی پڑےگی) تو یہ ارادہ ترک کر دیتا۔ پچھلے چند دنوں کی اس الجھن کا حل اسے اب ملا تھا۔

    ’’کیا سوچ رہے ہو بدر۔۔۔! میں نے کہا تھا کہ۔۔۔‘‘

    ’’شیدو۔۔۔ شیدو۔۔۔‘‘ بدرا کے منہ سے جیسے لاوا ابلنے لگا۔ ’’شیدو میں کل ہی اپنے لالا سے کہہ کر منگنی کے لیے تمہارے ہاں بھیجوں گا۔‘‘

    یک دم اس کے ذہن پر منگنی کا بھوت سا سوار ہو گیا اور دوسرے ہی دن اپنے باپ سے منگنی کی ضد منوالی کہ وہ کل ہی پیغام لے کر جائے گا۔ اگرچہ اس کے باپ نے اس کو یقین دلایا تھا کہ گھر کا معاملہ ہے۔ منگنی بیاہ کسی دن بھی ہو جائےگا۔ لیکن خدا معلوم وہ ان عجیب سی دل میں آگ لگا دینے والی دو آنکھوں کے پاٹوں میں کیوں پسنے لگا تھا اور اسے یہ احساس کیوں ہو گیا کہ اگر اس کی منگنی جلد ہی نہ ہوئی تو خدا اسے کبھی نہ بخشےگا۔۔۔ باپ کو اس کی ماننی ہی پڑی۔

    دوسرے دن جب نرگس بی بی اور اس کی سہیلیاں آئیں تو نرگس بی بی نے اس سے اتنی خوشی کی وجہ پوچھی۔

    ’’کچھ نہیں بی بی۔۔۔‘‘ بدرے نے دلہنوں کی طرح شرماکر کہا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ نرگس بی بی اور اس کی دونوں سہیلیوں کو سب کچھ بتا دے۔ مگر اس کی زبان شرم کی زنجیروں سے آزاد نہ ہو سکی۔

    ’’کچھ تو بات ہے؟‘‘ نرگس بی بی نے خود ہی گاڑی کا ڈھکنا کھول کر چاک بار نکالتے ہوئے کہا۔

    ’’نرگس بی بی۔۔۔ آپ۔۔۔ آپ بہت اچھی ہیں۔‘‘

    دونوں سہیلیاں کھلکھلاکر ہنس دیں اور پل بھر میں نرگس بی بی کے دانت آئس کریم میں منجمد ہوکر رہ گئے۔ اس نے اپنے ہونٹوں سے زبان کے ساتھ آئس کریم سمٹتے ہوئے آہستہ بہت آہستہ جھکی ہوئی پلکیں اٹھائیں اور برف کی دو ڈلیاں بدرے کے دل میں اتر کے پگھل گئیں۔ وہ یک دم اتنا گھبرا گیا کہ اس نے گاڑی سے ایک اور چاک بار نکال کر اس کے سامنے کر دی۔ دونوں سہیلیاں پھر ہنسیں اور نرگس بی بی نے بہت ہی ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا، ’’کیوں بدر۔۔۔ میں بہت اچھی کیوں ہوں؟‘‘

    بدرا بالکل خالی الذہن ہو گیا۔۔۔ واقعی وہ بہت اچھی کیوں ہے۔۔۔ اس نے بالکل الوؤں کی طرح کہا، ’’۔۔۔ پتا نہیں جی۔‘‘

    ’’بدر۔۔۔! تو بالکل گریک گوڈ ہے۔‘‘ نرگس بی بی کچھ اسی قسم کی باتیں کرتی رہتی تھی۔ بدرے نے یہ سمجھ کر کہ کوئی اچھی بات ہی ہوگی اور گالی نہیں ہوگی۔ جھٹ سے شکریہ کہہ دیا۔

    نرگس بی بی نے اپنی سہیلیوں سے ایک قدم پیچھے ہٹ کر کچھ ایسی نگاہوں سے بدرے کو دیکھا جیسے شیدو۔۔۔ نہیں، شیدو نے بھی کبھی بدرے کو ایسی نگاہوں سے نہیں دیکھا تھا۔ بدرے کے لیے یہ نگاہیں بالکل نہیں تھیں اسی لیے اس کا ردعمل کچھ ایسے ہی ہوا جیسے کوئی بچہ کسی کی گود میں جکڑا روشن انگارے دیکھے۔

    ’’بدرے ہیرو۔۔۔ ہفتے ڈیڑھ ہفتے میں کالج سے چھٹیاں ہوجائیں گی۔ تو پھر ہم تم سے آئس کریم کیسے کھائیں گے؟‘‘ ایک سہیلی نے پوچھا۔

    دوسری نے کہا، ’’ہمارے گھر آکے دے جایا کرےگا۔‘‘

    بدرے نے نہ چاہنے کے باوجود نرگس بی بی کی طرف دیکھا۔ وہ کچھ اداس سی ہو گئی تھی۔ بدرے نے کہا، ’’آپ فکر نہ کریں نرگس بی بی، آپ تینوں مجھے اپنے پتے دے دیجئےگا میں آپ کو گھر آئس کریم دے جایا کروں گا۔‘‘

    نرگس بی بی اپنی سہیلیوں سمیت مسکرا دی۔

    جب وہ گھر گیا تو اس کے لالہ نے اسے بتایا کہ وہ شیدو کے باپ سے رشتے کی بات پکی کر آیا ہے۔۔۔ یعنی اس کی منگنی ہوگئی ہے۔ بدرے کا دل خوشی میں سینے کی دیوار سے سر ٹکراتے ہوئے رات کا بری شدت سے انتظار کرنے لگا۔

    رات کو وہ حسب معمول تھرموس میں چاک بار لے کر شیدو کے ہاں گیا لیکن کھڑکی بند تھی۔ وہ کھڑکی کی بنی پر چاک بار رکھ کر آ گیا تھا۔

    اگرچہ اس کے دل کا سب سے بڑا ارمان پورا ہو چکا تھا لیکن اس کی خوشی بجھی بجھی سی تھی۔ نرگس بی بی کو تو وہ بہت ہی اداس نظر آیا۔ اس نے اور اس کی سہیلیوں نے بدر کو بہت مجبور کیا لیکن اس نے اپنی اداسی کی کوئی وجہ نہ بتائی۔ آدھی چھٹی کے خاتمے کی گھنٹی کے بعد جب سب لڑکیاں جماعت میں چلی گئیں تو نرگس بی بی آئی۔

    ’’اب بتا بدر۔۔۔ دیکھ میں تیرے لیے اپنی کلاس مس کرکے آئی ہوں۔‘‘

    نرگس بی بی نے کچھ اس انداز سے التجا کی تھی کہ بدر کے کانوں کی لویں بھڑکنے لگیں اور گال تمتمانے لگے اور اس نے قصہ شیدوبدرا بڑی تفصیل سے اسے سنا دیا۔۔۔ نرگس بی بی نے جیسے اپنے خشک آنسوؤں سے خشک گلے کو تر کرتے ہوئے کہا، ’’تو پگلے اس میں اداس ہونے کی کیا بات ہے؟‘‘

    ’’یونہی نرگس بی بی۔۔۔ رات۔۔۔‘‘

    ’’مبارک ہو بدر۔۔۔‘‘ نرگس بی بی نے اس کی پوری بات نہ سنی اور جانے کے لیے مڑی۔

    ’’آپ ناراض ہیں۔‘‘ جانے بدرے نے کیا سوچ کر کہا۔

    ’’نہیں تو۔۔۔ میں کیوں ناراض ہوں گی۔۔۔ تمہاری منگنی کا سن کر تو میں بےحد خوش ہوئی ہوں۔‘‘ بدرا اپنی بیوقوفی پر دل ہی دل میں ہنسا کہ واقعی اس میں ناراضی کی کیا بات تھی۔۔۔ اور پھر نرگس بی بی کی نگاہوں میں وہ عجیب سی چمک بدستور تھی۔

    رات وہ پھر شیدو سے ملنے گیا لیکن ہر رات وہ کھڑکی کی بنی پرچاک بار رکھ کے مایوس ہی لوٹتا رہا۔ پھر وہ شیدو کی کھڑکی سے ٹکریں مارنے کی بجائے انگریزی فلمیں دیکھنے لگا اور کسی حدتک اس کی ذہنی الجھن کم ہو گئی۔ لیکن وہ شیدو کے رویے سے بہت حیران تھا کہ اسے دیکھتے ہی فوراً گھونگھٹ کاڑھ کر پرچھائیں کی طرح غائب ہو جاتی ہے جیسے وہ اجنبی ہو۔ پھر جب اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تو وہ غصے میں جھنجھلا جاتا کہ اسے ہو گیا گیا ہے۔ ایک روز اس نے گلی کی نکڑ والے نلکے پر اس سے بات بھی کرنی چاہی تھی لیکن اس نے بڑے غصے میں کہا تھا۔۔۔ ’’بدتمیز‘‘ اور آندھی کی طرح گوجروں کے ویہڑے میں چلی گئی تھی۔

    بدرا پہلے سے بھی بہت اداس رہنے لگا۔۔۔ اس کو ہر وقت ایک ہی خیال ستاتا رہتا مبادا شیدو کی آنکھ کسی دوسرے سے۔۔۔ نہیں ایسا ممکن نہیں۔ اس کی مجھ سے منگنی ہو گئی ہے۔۔۔ اور پھر گزرے ہوئے اتنے حسین دن اور وعدے۔۔۔ تو پھر کیوں۔۔۔ بدرے کے ذہن میں سوالوں کے تاگے اتنے زیادہ الجھ جاتے کہ وہ بے بس ہوکر انہیں پھینک دیتا اور کالج میں گزرے ہوئے دن میں خاموشی سے اتر جاتا۔

    نرگس بی بی اب اکثر تنہا آدھی چھٹی کے بعد والی کلاس مس کرکے آتی۔ اس سے شادی کی تاریخ پوچھتی (بدرا بہت جھنجھلاکر لاعلمی کا اظہار کرتا) اسے شیدو کے بارے میں تسلیاں دیتی کہ لڑکیاں منگنی کے بعد اکثر پردہ کرنے لگتی ہوں۔ (لیکن بدر ے کو اس دلیل سے چڑتھی کیونکہ بچپن سے لے کر اب تک کی وابستگیوں کا تقاضا یہ نہیں تھا) جب نرگس بی بی باتوں باتوں میں یونہی اداس ہو جاتی تو بدرے کا جی چاہتا کہ وہ اس کی اداسی دور کرنے کے لیے ناممکن ترین کام بھی کر دے۔۔۔

    اس نے اپنے باپ سے دبی زبان میں ذکر کیا کہ اس کی شادی جلد ہو جانی چاہیے لیکن اس نے شیدو کے داج کا حوالہ دے کر اسے ڈانٹ پلاکر چپ کرا دیا۔

    ایک روز نرگس بی بی بہت ہی اداس تھی۔ بدرا بہت بے چین ہو گیا، ’’کیا بات ہے بی بی۔۔۔ آج آپ بہت اداس ہیں؟‘‘

    ’’ہوں۔۔۔؟ نہیں کوئی بھی تو نہیں۔‘‘

    بدرے نے خالی نظروں سے نرگس بی بی کی طرف دیکھا، اس کی نظریں بھی خالی تھیں۔ لمحہ بھرکے لیے جب دونوں خلا ایک دوسرے میں اچھی طرح حل ہو گئے تو نرگس بی بی نے چاک بار کو چاٹتے ہوئے رک رک کر کہا، ’’بدر۔۔۔ تو ہمارے ہاں نوکری کرےگا۔۔۔؟‘‘

    ’’جی۔۔۔‘‘

    ’’ہاں۔ ہاں۔‘‘

    ’’جی اگر شیدو۔۔۔‘‘

    ’’شیدو کے اتنے ظالمانہ رویے کے باوجود تمہیں اس کا اتنا خیال ہے!‘‘

    بدر اپنی نگاہوں میں ذلیل ہو گیا۔۔۔ واقعی اسے کیا پڑی ہے کہ شیدو کی اتنی بے رخی کے باوجود، اس کا اتنا خیال رکھے۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں نرگس بی بی سے معافی مانگ لی۔

    ’’تم کتنے اچھے ہو بدر۔۔۔!‘‘

    بدرے کا جی چاہا کہ اپنی گاڑی کی ساری آئس کریم نرگس پر سے وار کے پھینک دے۔

    ’’بی بی۔۔۔ میں چھٹیوں میں آپ کے ہاں نوکری کرلوں گا۔‘‘

    ’’سچ۔۔۔‘‘ نرگس بی بی کے منہ سے خوشی پھوٹ بہی۔ پھر اس نے اپنے پنسلوں والے ڈبے سے ایک برش اور ٹوتھ پیسٹ نکال کر اسے پکڑاتے ہوئے کہا۔ ’’بدر۔۔۔ اگر انسان کے دانت خراب ہوں تو اس کی صحت خراب ہو جاتی ہے اور منہ سے بدبو بھی آتی ہے۔۔۔‘‘

    ’’میں روز مسواک کرتا ہوں۔‘‘

    ’’یہ انگریزی طریقہ ہے۔ تمہارے دانت موتی بن جائیں گے۔‘‘

    نرگس بی بی کتنی اچھی تھی، اسے بدرے کا اتنا خیال تھا اور تو اور جس طرح اس کے ذکر سے شیدو کچھ جل سی جاتی تھی، وہ اس کے برعکس شیدو کے ذکر سے خوش ہوتی تھی اور اب وہ شیدو کے دیے ہوئے غم میں اس کی پوری حصہ دار تھی۔ صرف اسی نے اسے سمجھنے کی کوشش کی تھی۔

    کالج کی چھٹیاں بہت ہی قریب آگئی تھیں۔ یہی کوئی دو چار دن رہتے تھے۔ بدرے کی خواہش اور بھی زور پکڑ گئی کہ اس کی شادی چھٹیوں سے پہلے ہی ہو جائے۔ کیونکہ جب وہ شادی کے بعد نرگس بی بی کے گھر میں چھٹیوں کی نوکری کا تصور کرتا تو اس کا ذہن سردیوں میں آئس کریم کی گاڑی کی طرح خالی ہو جاتا۔

    نرگس بی بی کی ان نگاہوں کی شدت بھی بڑھ گئی تھی جن سے آج تک شیدو نے بھی اسے نہیں دیکھا تھا۔ وہ اپنے گھر میں اس کی نوکری کاذکر کرتی اسے اتنی بلندیوں میں لے جاتی کہ وہاں سے لوٹتے بدرے کو دکھ ہوتا۔

    پرسوں رات تو سینما میں بیٹھے بیٹھے بدرے کا جی چاہتا تھا کہ اٹھ کر چیختا ہوا سکرین پھاڑدے کیوں کہ نرگس بی بی کواس کا اتنا خیال تھا کہ اسے دانت صاف کرنے کے لیے ٹوتھ پیسٹ برش لاکر دیا تھا اور جس طرح اس کا جی چاہا تھا کہ اس کے اور شیدو کے درمیان سرہانے سے پائینتی تک کا فاصلہ نہ رہے۔ اسی طرح وہ چاہتا تھا کہ نرگس بی بی کے درمیان آئس کریم کی گاڑی نہ رہے۔ اس روز نرگس بی بی کی آنکھیں بالکل اژدھے کی طرح تھیں اور شیدو نے دو دن سے گھر سے باہر نکلنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ اس کے گھر میں ڈھولک کی آواز اب بھی نہیں گونجی تھی۔

    کل صبح بدرے نے اپنی جیب سے قصہ سیف الملوک نکال کر پڑھا نہ یوسف زلیخا۔ اس نے قصہ شیدو بدرا کو بھی ذہن کی جیب میں رہنے دیا اور دوسری جیب سے ٹوتھ پیسٹ اور برش نکال کر بڑی احتیاط سے تھوڑی سی پیسٹ لگاکر ندی میں اپنا عکس دیکھتا ہوا دانت مانجھنے لگا۔

    ’’بدر۔۔۔!‘‘

    بدرے نے جلدی سے گھبراکر منہ صاف کیا۔ نرگس بی بی جانے کب سے وہاں کھڑی آئس کریم کھا رہی تھی۔ وہ بوکھلاہٹ میں یونہی ہنس دیا۔

    ’’بدر آج سے چوتھے دن چھٹیاں ہو جائیں گی۔‘‘ نرگس بی بی بہت اداس تھی۔ بدرا اس سے بھی زیادہ اداس ہو گیا۔ پھر اس نے تسلی دیتے ہوئے کہا، ’’لیکن اسی دن تو میں آپ کے ہاں نوکر ہو جاؤں گا نا۔‘‘

    ’’ہاں سچ۔۔۔ میں بھول ہی گئی تھی۔‘‘ نرگس بی بی نے جیسے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا، ’’شیدو کا کیا حال ہے؟‘‘

    ’’اس کا نام نہ لیجیے میرے سامنے۔ مجھے تو نظر ہی نہیں آتی۔‘‘

    ’’بدر۔۔۔! اس نے کہیں۔۔۔‘‘

    ’’میں بھی یہ سوچا کرتا ہوں۔‘‘

    ’’بڑی ظالم ہے وہ۔‘‘

    ’’عورت ذات ہوتی ہی بڑی ظالم ہے۔‘‘ بدرے نے اپنی تمام تر مظلومیت سے کہا۔

    ’’اگر میں شیدو۔۔۔‘‘

    نرگس بی بی باقی کا فقرہ آئس کریم کے ساتھ ہی نگل گئی اور ایک عجیب سا سانس لے کر گاڑی پر پیسے رکھ کر چلی گئی۔ بدرا مبہوت کھڑا رہ گیا۔ اس کے کان اس فقرے کے پگھلے ہوئے سونے سے بند ہو گئے تھے۔ اسے وہاں کھڑے کھڑے اتنا پسینہ آ گیا جیسے اس نے ندی میں ڈوبتے ہوئے کسی کو بچانے کے لیے ڈبکی لگائی ہو۔ نرگس بی بی نے اس کے ساتھ بڑی زیادتی کی تھی۔ اسے گیس بھرا غبارہ سمجھ کر ہوامیں چھوڑ دیا تھا۔ اس کابے پناہ جی چاہا کہ شیدو کے گھر کے اوپر یہ غبارہ پھٹ کر اس کے صحن میں جا گرے۔

    وہ باقی کی آئس کریم بیچے بغیر ہی گھر آ گیا اور اپنے دروازے میں کھڑا ہوکر شیدو سے ملنے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔ وہ اس سے مل کر ساری بات پوچھنا چاتا تھا کہ اگر واقعی اسے اس میں کوئی دلچسپی نہیں رہی تو صاف صاف کہہ دے اور اگر وہ نرگس بی بی کے گھر تنہا ہی نوکر ہو گیا تو پھر شیدو کو شکوے کا موقعہ نہ ملے۔ وہ یہ نہ کہے کہ اس نے عشق کے نام پر سیاہی مل دی ہے۔۔۔ وہ اس کو یہ بھی بتانا چاہتا تھا کہ اگر اسے بدرے سے نفرت ہو گئی ہے تو کوئی بات نہیں۔ دنیا میں صرف وہی اس سے پیار نہیں کرتی بلکہ۔۔۔

    شیدو کا آنچل کمیٹی کے نلکے پر لہرایا اور وہ ہکلاتا ہوا وہاں چلا گیا۔ شیدو اسے گھونگھٹ کی اوٹ سے دیکھ کر گوجروں کے ویہڑے میں چلی گئی۔ بدرے کو یقین تھا کہ اگر شیدو کو اس میں ذرا سی دلچسپی بھی باقی رہ گئی ہوتی تو آج رات وہ ضرور کھڑکی کھول کر اس کا انتظار کرےگی۔

    لیکن اب جب کہ وہ غصے میں کتوں کے جوڑے کو چاک بار مار کے آ گیا تھا اور کھرے میں بیٹھ کر دانت مانجھتا ہوا نرگس بی بی کے بارے میں سوچ رہا تھا تو ہر بار اس کے شبہات کی دیوار کو یہ فقرہ گرا دیتا۔ ’’اگر میں شیدو۔۔۔‘‘ یعنی اگر میں شیدو ہوتی تو تم سے کبھی ایسا سلوک نہ کرتی بلکہ ہر وقت تمہارے ساتھ رہتی، تمہاری پوجا کرتی۔۔۔ بدرے نے کالج میں پہلے دن سے لے کر آج تک جائزہ لیتے ہوئے سوچا کہ وہ کتنا بیوقوف ہے خواہ مخواہ شیدو ایسی گھٹیا لڑکی کے لیے وقت ضائع کرتا رہا۔۔۔ اسے تو پہلے دن ہی سمجھ جانا چاہیے تھا کہ نرگس بی بی کو اس سے بے پناہ عشق ہے۔ ورنہ کوئی غیر لڑکی بھی کسی سے اس قسم کی باتیں کر سکتی ہے۔

    پھر منہ صاف کرنے کے بعد جب وہ نرگس بی بی کو آنکھوں میں لے کر چارپائی میں لیٹا تو اس کے ذہن میں اردو فلموں کے ڈائیلاگ گونجنے لگے۔۔۔

    ’’مخمل میں ٹاٹ کا پیوند نہیں لگ سکتا۔‘‘

    ’’ذات کی کوڑھ کر لی۔‘‘ وغیرہ۔ وغیرہ۔

    پھر اچانک اس کو بہت عرصہ پہلے ایک ڈرائیور کا سنایا ہوا قصہ یاد آ گیا کہ کس طرح اس کا مالک اپنے اتنے سرمائے کے باوجود اپنی بیٹی کی محبت کو قابو میں نہیں کر سکا تھا۔ اس کی بیٹی اس ڈرائیور کے ساتھ نکل گئی تھی اور پھر اپنے باپ کو خط لکھا تھا کہ اگر اس نے اس ڈرائیور کو اپنے کاروبار میں حصہ دار بناکر اس سے شادی نہ کی تو وہ یہ خبر عام کر دےگی اور اس بے چارے نے اس ڈرائیور کو اپنا داماد بناکر عزت کی دیوار کو سہارا دیا تھا۔۔۔ دنیا میں کیا نہیں ہو سکتا۔ ہو سکتا ہے نرگس بی بی بھی۔۔۔

    شیدو کی بند کھڑکی کے سامنے رفتہ رفتہ نرگس بی بی کے محل کے دروازے کھلتے گئے اور اس نے شیدو کے لیے اپنے دل کے دروازے کو کیلیں ٹھونک کر بند کر دیا۔ اس کے جکڑے ہوئے اعصاب کی زنجیر ڈھیلی ہوتی گئی اور نیند ان اعصاب کی قید سے آزاد ہوکر اس کی آنکھوں میں بند ہو گئی۔

    دوسری صبح اس نے ڈرائیوروں سے اور بھی ہٹ کر گاڑی کھڑی کی۔ وہ ٹوتھ پیسٹ اور برش نکالنے ہی والا تھا کہ دور سے نرگس بی بی آتی دکھائی دی۔ اس کے تمام خیالات جنہیں وہ رات بھر اپنے ذہن میں سجاتا رہا تھا یک دم یوں بکھر گئے جیسے دماغ کے کمرے میں کسی نے بہت ہی جلدی میں چوری کی ہو۔ مستقبل کے سارے دنوں میں اس نے نرگس بی بی ہی کو تو سجایا تھا اور اب اسے ہی دیکھ کر یہ دن اس طرح گڈمڈ ہو گئے تھے جیسے اسکرین پر ایک ساتھ کئی فلمیں چل رہی ہوں۔۔۔ جیسے جیسے وہ قریب آتی جا رہی تھی یہ فلمیں اور بھی زیادہ تیزی سے گھومنے لگیں۔۔۔ کبھی شیدو اسکرین پر اپنی باتوں سمیت ابھرتی، کبھی بند کھڑکی بجلی ایسی تیزی سے گھوم جاتی۔ پھر نرگس بی بی اپنی آنکھوں کا جادو لیے ہوئے آتی اور پھر پھلجھڑیاں رقص کرنے لگتیں، پھر’’مخمل میں ٹاٹ کا پیوند‘‘ ایسے ڈائیلاگ گونجنے لگتے، لیکن پھر سیٹھ صاحب کی لڑکی والا ڈرائیور قہقہوں میں گھرا قصہ سناتا نظر آتا۔

    نرگس بی بی نے اپنی آنکھوں کی کشتی میں ڈولتے، دل کے سیلاب میں ڈوبتے بدرے کو اپنی جھپکتی ہوئی پلکوں کا سہارا دیا، ’’ہیلو بدر۔۔۔!‘‘

    بدرے کے ہونٹ زخمی پرندے کے پروں کی طرح پھڑپھڑاکر رہ گئے۔

    ’’کیا بات ہے بدر۔۔۔‘‘ اس نے حسب معمول خود ہی گاڑی سے آئس کریم نکال لی۔

    ’’نرگس۔۔۔‘‘ اس سے بی بی نہ کہا گیا۔ اسے جھرجھری آ گئی اور اپنی نگاہوں سے زمین کو کریدنے لگا۔

    ’’ہوں۔۔۔‘‘ نرگس کی آواز جیسے آئس کریم کے نشے میں ڈوبی ہوئی تھی۔

    ’’میں بڑا احمق ہوں۔۔۔‘‘ بدر کچھ کھسیانا سا ہوکر ہنسا، ’’جانے میں کیا سوچتا رہا ہوں۔‘‘

    ’’میں بھی بڑی احمق ہوں بدر۔۔۔ میں بھی بہت کچھ سوچ رہی ہوں۔‘‘

    نرگس بی بی کی نظریں بھی زمین میں گڑ گئیں۔ بدرا کچھ بھی نہیں سوچ رہا تھا۔ وہ اس وقت اس دنیا میں نرگس کے ساتھ تنہا تھا۔

    ’’ہیلو! بدرے ہیرو۔۔۔‘‘

    نرگس کی سہیلیاں آ گئی تھیں اور ان دونوں کو دنیا میں اور لوگوں کی موجودگی کے احساس سے کوفت ہوئی۔

    پھر جب آدھی چھٹی کے خاتمے کی گھنٹی ہو گئی تو سہیلیوں کے ساتھ دو قدم جانے کے بعد فوراً لوٹ آئی۔

    ’’بدر۔۔۔ آج شام ہمارا ڈرامہ ہے۔ تم ڈرامے کے خاتمے تک یہیں رہنا۔ مجھے آفٹر ڈنر گھر کے لیے بہت سی آئس کریم چاہیے۔‘‘

    ’’مگر نرگس بی بی۔۔۔‘‘

    ’’اوں ہوں۔۔۔ نرگس۔۔۔‘‘

    ’’میرے پاس تو صرف پانچ چھ کپ اور اتنی ہی چاک باریں۔۔۔‘‘

    ’’بس کافی ہیں۔۔۔ اور پھر مجھے تم سے کچھ کہنا بھی ہے۔‘‘

    شام کا اندھیرا درختوں سے نکل کر ندی پر تیرتا ہوا کالج میں جا رہا تھا۔ وہ کالج کے گیٹ پر کھمبے کی روشنی میں آ گیا۔ وہ تمام وقت یہی سوچتا رہا کہ نرگس کو اس سے کیا کہنا ہے۔۔۔ وہ خود ہی ان باتوں کے متعلق سوچ سوچ کر خوش ہوتا رہا۔ بہت ہی خوش، اتنا کہ اپنی منگنی پر بھی نہیں ہوا تھا۔

    ڈرامہ ختم ہو گیا لوگ چلے گئے۔ ایک ایک کرکے سب کاریں بھی چلی گئیں۔ مگر نرگس کی سیاہ کار وہیں کھڑی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ آئی۔ اس نے کار سے تھرماس نکال کر گاڑی پر رکھ دی اور بدرے نے فوراً نرگس کی آئس کریم تھرموس میں ڈالنے کے لیے گاڑی پر رکھ دی۔

    ’’بدر۔۔۔‘‘ نرگس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ بدرے کو اس کے دل کی دھڑکن صاف سنائی دے رہی تھی۔ وہ پیازی غرارے میں بالکل چیری آئس کریم معلوم ہو رہی تھی۔۔۔

    ’’جی۔‘‘ بدرے نے بہت ہی آہستہ کہا۔

    ’’بدر۔۔۔ آج صبح جب میں آئس کریم کھانے آئی تھی تو وہاں ندی کے کنارے میرا پین گر گیا تھا۔ چلو ڈھونڈ لائیں۔‘‘

    ’’وہاں تو بہت اندھیرا ہے بی بی۔۔۔‘‘

    ’’اوں ہوں۔ نرگس۔‘‘ نرگس کی آنکھوں کی ساری شراب زبان میں اتر آئی تھی۔

    ’’نرگس۔۔۔‘‘ بدرے کی نظریں جھک گئیں۔

    ’’میرے پاس ٹارچ ہے۔‘‘ اس نے اپنے پرس سے چھوٹی سی ٹارچ نکالی۔

    ’’چلیے!‘‘

    اور ٹارچ کا ننھا سا روشن نقطہ ان دونوں سمیت اندھیرے کے دل میں اتر گیا۔ بدرے کی گاڑی پر تھرماس کے قریب پڑی ہوئی آئس کریم پگھلنے لگی۔۔۔ پگھلتی رہی اور گاڑی کے کناروں سے بہتی رہی۔۔۔

    کل سے کالج میں چھٹیاں تھیں۔ بدرا بہت خوش تھا۔۔۔ آج نرگس کے ساتھ لمبی سیاہ کار میں بیٹھ کر انجانی دنیا میں چلا جائےگا۔ کل شام نرگس نے اس آج کے لیے ساری اسکیم سمجھا دی تھی۔۔۔ دنیا میں کیا نہیں ہو سکتا۔۔۔ دل کے ہاتھوں سبھی مجبور ہوتے ہیں۔

    بدر نے اپنی جیب سے ٹوتھ پیسٹ اور برش نکالا اور نرگس کی کار کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے پیسٹ نکالنے ہی والا تھا کہ کالج کے بوڑھے چپراسی کی آواز اس کے کانوں میں گرجی۔

    ’’پرنسپل صاحبہ کا حکم ہے کہ تم یہاں سے دفع ہو جاؤ۔۔۔ وہ تمہاری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتیں۔‘‘

    بدرے نے بچوں کی طرح اسے کچھ یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو۔۔۔ کیا بکتے ہو۔۔۔ چوکیدار کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے (بدرے نے اسے کبھی مفت آئس کریم نہیں کھلائی تھی۔)

    ’’دیدے پھاڑ پھاڑ کر کیا دیکھتے ہو۔ ابھی ابھی نرگس بی بی نے تمہاری رپورٹ کی ہے۔‘‘

    ’’آں۔۔۔‘‘ اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

    ’’ہاں ہاں۔۔۔ تمہارے منیجر کو فون پر رپورٹ کر دی گئی ہے۔ اگر آئندہ یہاں نظر آئے تو تھانے میں دے دیے جاؤگے۔۔۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ نرگس بی بی نے رپورٹ کی ہے کہ تم لڑکیوں سے گندے مذاق کرتے ہو۔۔۔ اٹھو۔‘‘

    بدرے کے ہاتھوں نے بڑی شدت سے ٹوتھ پیسٹ کا گلا گھونٹ دیا۔۔۔ اس نے اپنے پھیپھڑوں کی پوری قوت سے قہقہہ لگانا چاہا لیکن فوراً شیدو کے گھونگھٹ میں گونجتی ہوئی چوڑیوں کی جھنکار نے اس کے قہقہے کا بھی گلا گھونٹ دیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے