اپنے کمرے کی مغربی سمت میں کھلنے والی کھڑکی کے پردے سرکانے کے بعد بیرام جی کو جب روشنی کا مینار نظر نہ آیا اور شمال مغرب کی سمت نظر دوڑانے پر انہیں مچھیروں کی جھونپڑیوں میں ٹمٹماتے چراغ بھی نظر نہ آئے تو انہوں نے پریشان ہوکر اپنی کمزور انگلیوں سے کھڑکی کی کنڈی سرکائی اور بڑی مشکل سے دھکے دے دے کر کھڑکی کھول دی۔
ہوا کے تیز جھونکے کے ساتھ بارش کی بوچھار کمرے میں آئی اور پلک جھپکتے میں بیرام جی کو شرابور کر گئی۔ اپنی عادت کے مطابق بیرام جی نے گندی سی گالی دی اور برا سامنہ بناکر کھڑکی کے پٹ بند کردیے۔ اس بوکھلاہٹ میں وہ کھلی کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھنا بھول گئے اور کھڑکی بند کردینے کے بعد بھی انہیں یاد نہ رہاکہ انہوں نے کھڑکی کیوں کھولی تھی۔ اس وقت تو انہیں اپنے بھیگے ہوئے کپڑے بدلنے کی فکر کھائے جارہی تھی اور ساتھ ہی گیلا فرش پونچھنے کا تھکا دینے والا کام ان کے سرپر آن پڑا تھا۔ پینسٹھ سال کی عمر کے آدمی کو اپنے معمول سے زیادہ جو بھی کام کرنا پڑتا ہے، وہ اس کے لیے سوہان روح ثابت ہوتا ہے۔ دس منٹ بعد بیرام جی فرش پونچھ کر اور کپڑے بدل کر، تھکے ہارے ایک آرام کرسی پراس کھڑکی سے لگ کر بیٹھ گئے۔
بیرام جی گھنٹہ بھر قبل پونہ سے لوٹے تھے۔ انہوں نے آتے ہی اپنے کمرے کی ہرچیز سے گرد جھاڑی تھی۔ فرش پر جھاڑو پھیری تھی۔ پلنگ کی چادر بدلی تھی۔ مٹکے کا باسی پانی پھینک کر تازہ پانی بھرا تھا۔ داخلی دروازہ کی باہری چوکھٹ پر دودھ کی بوتل رکھ چھوڑی تھی اور دروازہ کی باہری کنڈی ہی سے ایک تھیلی لٹکادی تھی کہ صبح دودھ والا اس بوتل میں دودھ اور پاؤ والا اس تھیلی میں پاؤ چھوڑجائے۔ انہوں نے اپنے پن چکی نما اسٹو میں تیل بھی ڈال دیا تھا کہ صبح نیند سے بیدار ہوکر بغیر کسی جھنجھٹ کے، اس پر چائے کا پانی دم دیا جاسکے۔
انہیں جب ان چھوٹے بڑے کاموں سے فراغت نصیب ہوئی تھی تو حسب معمول اپنی تھکن دور کرنے اور اپنے یار دیرینہ کو اپنی واپسی کی اطلاع دینے کی خاطر انہوں نے کھڑکی سے پردہ سرکایا تھا۔ انہیں توقع تھی کہ سمندر کی طوفانی موجوں میں گھرا روشنی کا مینار (جسے سالہا سال سے روزانہ دیکھتے دیکھتے انہیں انسیت ہوگئی تھی) کتنا پراسرار اور خوفناک لگ رہا ہوگا! لیکن انہیں وہاں سیاہی کی پھیلی ہوئی طویل چادر کے سوا جب کچھ اور نظر نہ آیا تھا تو انہیں اپنی آنکھوں پر دھوکہ ہوا تھا، اس لیے فوراً انہوں نے مچھیروں کی بستی پر نظر ڈالی تھی جہاں شام گئے چراغ روشن ہوجاتے تھے اور رات بھر روشن رہتے تھے۔
بیرام جی نے سیکڑوں راتیں اسی طرح اس آرام کرسی پر اسی کھڑکی کے پہلو میں بیٹھ کر گزاردی تھیں۔ وہ راتیں جب ان کابوڑھاپا دن میں ان کے جسم کو تھکنے نہیں دیتا تھا اور موت و تنہائی کا ڈر انہیں سونے نہیں دیتا تھا، یا ان کے جسم کے مضمحل اعضا، ان کی جوانی کی لغزشوں، بے توجہیوں اور لاپروائیوں کے برتنے کے سبب درد سے چور ہوکر ان لمحوں میں فریاد کرنے لگتے تو بیرام جی کا دل گھبراجاتا اور بے چینی سے وہ صبح کاانتظار کرنے لگتے۔ لیکن رات گزرنے میں جب اپنا وقت لیتی تو بیرام جی اپنے پلنگ سے اٹھ کر اس آرام کرسی پر جابیٹھتے اور سمندر کی ہولناکیوں، چیرہ دستیوں اور ظلم رانیوں میں گھرے اس روشنی کے مینار کو دیکھ کر اپنا مورل (MORALE) بلند کرتے۔
وہ اپنے دل کو تسلی دیتے کہ نہ گھبرااس تاریکی سے، نہ ڈر اس تنہائی سے، صبح ہونے کو ہے۔
دیکھ کہ ان مچھیروں کی جھونپڑیوں میں زندگی ہمک رہی ہے۔
جہاں ان کے قہقہے، ان کے بچوں کے رونے کی آواز، ان کی عورتوں کی کسک اور دبی دبی سی ہنسی گونج رہی ہے۔
یہ ثبوت ہے زندگی کا جو سمندر کے اتنے قریب ہے۔
اور روشنی کا وہ ثابت قدم مینار،
جسے سمندر کی جوان لہروں کا بل ایک بھی جنبش نہ دے سکا،
تو پھر تو خوف سے کیوں متزلزل ہوا جارہا ہے۔
یوں سوچتے سوچتے بیرام جی کی آنکھ لگ جاتی اور جب صبح کو وہ آنکھ ملتے بیدار ہوتے تو انہیں اپنے کو بجائے پلنگ پر پانے کے، اس کرسی پر پاکر حیرت ہوتی۔ پھر وہ مسکراکر جمائی لیتے، اٹھ کھڑے ہوتے اورتپکیر کی ڈبیا ٹیبل پر سے اٹھاکر دانت مانجھنا شروع کردیتے۔
جب سے انہوں نے ہوش سنبھالا تھا، اپنی ماں کی دیکھا دیکھی تپکیر ہی سے دانت مانجھا کرتے تھے اور اس عمر کو پہنچ کر بھی، جب کہ ان کے منہ میں دانت نہیں، دانتوں کے آثار باقی رہ گئے تھے، وہ بلاناغہ دن میں دومرتبہ ان پر تپکیر پھیرا کرتے تھے۔
دانتوں پر تپکیر پھیرتے پھیرتے، وہ کمرے کے اس کونے سے اس کونے تک ٹہلتے رہتے۔ دس پندرہ منٹ تک اس عمل کو جاری رکھنے کے بعد انہیں اپنے پیٹ میں سے کوئی ثقیل چیز نیچے سرکتی محسوس ہوتی اور جب وہ چیز سرکتے سرکتے کافی نیچے پہنچ جاتی تو وہ لیٹرین(LATRINE) میں چلے جاتے اور بغیر دروازہ بند کیے بڑی دیر تک اپنے پیٹ کو سکیڑتے سمیٹتے رہتے۔ انہیں قبض کی دائمی شکایت تھی۔ جس روز بھی انہیں کھل کر اجابت ہوجاتی، اس روز وہ بڑے خوش و خرم رہتے، گویا ان کی دلی مراد برآئی ہو، ورنہ اس انتظار میں اکڑوں بیٹھے رہنے کے وہ طویل لمحے انہیں اپنی زندگی میں کیے گئے کسی بھی انتظار سے کٹھن لگتے۔
کرسی پر بیٹھے بیٹھے بیرام جی محسوس کر رہے تھے کہ وہ خوفزدہ ہوگئے ہیں۔ موسلا دھار مینہ کھڑکی کے شیشوں پر تڑا تڑ برس رہا تھا۔ ہوا کے جھونکے کھڑکی کو چوکھٹ سمیت اکھاڑ دینے پر تلے تھے۔ سمندر کی چنگھاڑ کے ساتھ ساتھ بادلوں کی گھن گرج بھی سنائی دے رہی تھی۔ کبھی کبھار بجلی کی چمک میں سامنے میلوں تک پھیلے ہوئے سمندر اور روشنی کے مینار کے بجائے بیرام جی کو ہاتھیوں کی قطار کھڑی دکھائی دیتی تھی۔
ایسی بھیانک رات ان کی زندگی میں کبھی نہیں آئی تھی۔ انہوں نے کرسی سے اٹھ کر پہلے تو گرم سوئیٹر پہنا۔ پھر اپنے کانپتے سر پر ململ کی گول ٹوپی رکھی اور زرتشت کی تصویر کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوگئے اور بڑی تیزی سے بڑبڑانے کے انداز میں فارسی دعائیہ کلمات پڑھنے لگے۔
دعا ختم کرکے انہوں نے رحم طلب نظروں سے زرتشت کی تصویر کو دیکھا تو ان کی نظر اس تصویر پر نصب، چوبیسوں گھنٹے روشن رہنے والے سرخ بلب پر جاپڑی، جو کسی خونی آنکھ کی طرح انہیں گھورتا نظر آیا۔ نظریں فوراً نیچی کرکے وہ پھر اسی کرسی پر جابیٹھے اور تسبیح اٹھاکر کلماتِ زر تشت کا ورد کرنے لگے۔
وِرد کے دوران وہ بڑبڑائے جارہے تھے۔
ایسی بھیانک رات تو میری زندگی میں کبھی نہیں آئی۔ پینسٹھ سال گزر گئے مجھے اس مکان میں رہتے ہوئے، لیکن کبھی میں نے اپنے دل میں اتنا خوف محسوس نہیں کیا۔
کیا میں بہت بوڑھا ہوگیا ہوں؟
یا بہت کمزور ہوچکا ہوں؟
یا میرا دل اتنا نازک ہوگیاہے کہ اس چھوٹے سے طوفان بادو باراں کا بپا کیا ہوا ہنگامہ برداشت نہیں کرپا رہا ہے۔ اگر یہی بات ہے تو مجھے اکیلے نہیں رہنا چاہیے۔ پونہ سے رخصتی کے وقت زریں ٹھیک ہی کہتی تھی کہ کوئی نوکر رکھ لوں جو میری دن رات دیکھ بھال کرتا رہے۔ یا پھر اسی کے یہاں اپنے بقیہ دن کاٹ دوں۔
یہ تو قطعی ناممکن ہے۔
بیٹی شادی کے بعد پرائی ہوجاتی ہے۔ اس کے گھر تو مہمان بن کر بھی زیادہ دنوں تک نہیں رہنا چاہیے۔ اورمیں تین مہینے بتاکر آرہا ہوں۔ جمشید کیا سوچتا ہوگا؟
لیکن وہ بھی تو مجھے اپنے باپ کی طرح چاہتا ہے۔ خواہ مخواہ میں ایسے خیالات اپنے ذہن میں کیوں لاؤں؟
میں یہیں بھلا ہوں۔ مجھے کس بات کی تکلیف ہے یہاں؟
ضرورت کی ہر چیز چوکھٹ پر مل جاتی ہے۔ جو نہیں ملتی جاکر لے آتا ہوں۔ ہاتھ پاؤں اب بھی سلامت ہیں۔ رہا گھر کا کام، سو وہ بھی نہ کروں تو جسم میں چستی کیوں کر آئے؟
اور پہاڑ جیسا دن بھی تو کاٹنا ہے۔
پھرآج کل کے نوکروں کا کیا بھروسہ؟
کب گردن ماردیں اور پونجی بٹورکر چلتے بنیں۔
اسماعیل موٹر والے کا کیس تو سامنے ہے۔
نا بابا نا۔۔۔ میں باز آیا ان نوکروں سے!
بیرام جی نے محسوس کیا کہ ان کے ذہن و قلب نے رات کی ہولناکیوں کااثر قبول کرکے اپنی قوت برداشت بڑھالی ہے۔ وہ کرسی سے اٹھے اور میز کی دراز کھول کر، اس سرخ بلب کی روشنی میں تین مہینے پہلے خرید کر رکھا ہوا سگریٹ کاپیکٹ تلاش کرنے لگے۔ چند لمحوں میں ڈن ہل کا لمبا چوڑا پیکٹ ان کے ہاتھ آیا۔ پھر انہوں نے اسٹو کے پاس رکھی ہوئی ماچس اور پلنگ پر پڑا ہوا بلینکیٹ اٹھایا اور کرسی پرآبیٹھے۔
پہلے تو انہوں نے بلینکیٹ کھول کر اپنے پیروں پر پھیلادیا اور اس کا ایک حصہ اپنے سینہ تک لے آئے۔ سگریٹ کی ڈبیہ سے سگریٹ نکال کر لبوں سے لگایا اور ماچس جلاکر اسے سلگایا۔ پہلے ہی کش کے ساتھ تمباکو کی عربی کھجور جیسی خوشبو ان کے نتھنوں کی راہ پھیپھڑوں میں پہنچی تو انہیں ایسا سکون ملا کہ وہ بھیانک طوفان اچانک تھم گیا ہو اور رات کی تاریکی اچانک سمٹ گئی ہو اور سمندر کی اٹھکھیلیاں کرتی لہروں میں گھرا روشنی کا مینار ان سے باتیں کر رہا ہو۔
باتیں بیرام جی کی زندگی کا سب سے بڑا جز تھیں۔ انہیں باتیں کرنے میں بڑا مزہ آتا تھا۔ یہ باتیں۔۔۔؟ اچھی اور بری باتیں۔ بے تکی اور SENSIBLE باتیں، اخباری اور کتابی باتیں۔ گھریلو اور دنیاوی باتیں۔ سماجی باتیں، مذہبی باتیں۔ سینما اور تھیٹر کی باتیں، سطحی باتیں، گمبھیر باتیں، دل کی باتیں اور خاص معاملات کی باتیں۔ وہ باتیں کرنے کے جرم میں اپنے اسکول کے زمانے میں کئی بار کلاس روم سے باہر نکالے جاچکے تھے۔ انہیں باتوں نے ان کی اسکول کی رپورٹ پرCONDUCT کے کالم میں FAIR سے بہتر کبھی کوئی ریمارک آنے نہیں دیا۔ ایک مرتبہ اپنے دوست کے ہمراہ اس کے مکان کے سلسلہ میں چلنے والے کیس کی HEARING کے دوران باتیں کرتے ہوئے جج کو ڈسٹرب کرنے کے جرم میں کورٹ روم سے باہر نکال دیے گئے تھے۔
کلکٹر کے آفس میں انہیں لوگ اسی لیے چاہتے تھے کہ وہ بڑی دلچسپ باتیں کیا کرتے تھے اور آفس کے ماحول کو خوشگوار بنائے رکھتے تھے۔ کلکٹر نے انہیں کئی بار ٹوکا تھا کہ وہ اپنے اردگرد اسٹاف ممبرز کو ہر وقت جمع نہ رکھیں، آفس کے کام میں ہرج ہوتا ہے۔ لیکن ہر بار بیرام جی اپنی سرکی ہوئی کمانی دار عینک NOSE BRIDGE پر اور جھکی ہوئی ٹوپی سر پر ٹھیک سے جماکر مسکراتے ہوئے اپنے باس کو دیکھتے اورTYPICALپارسی انداز میں کہتے، ’’جادا وے نی ڈیکرا، بچاؤ چھے، ماری پاسی پرابلموں لینئی آویا کری چھے، اُوں اے لوگو نے ADVICE آپوچھوں۔‘‘
یہ سن کر کلکٹر بھی اپنی ہنسی ضبط نہ کرپاتا اور انہیں ہاتھ کے اشارے سے DISMISS کردیتا تھا۔
ایسا باتونی شخص اپنے بڑھاپے کے حصار میں قید، اپنے نامساعد حالات کاشکار، لائٹ ہاؤس سے باتیں نہ کرے تو کس سے کرے؟ خود نہ بڑبڑائے تو بچپن سے پرورش پائی ہوئی، اس توانا خواہش کی تکمیل کیوں کر کرے؟
پچھلے دس سالوں میں ان کی زندگی میں جتنے مدوجزر آئے، اتنے کسی سمندر میں نہ آئے ہوں گے۔ ماں باپ گزرے، ان کے پیچھے بیوی بھی چل دی۔ اکلوتی بیٹی جو شادی کے بعد بھی ساتھ رہا کرتی تھی، اپنے میاں کے نئے کاروبار کے تحت دوسرے شہر میں منتقل ہوگئی۔ نوکری سے ریٹائر ہوئے تو روز کے ملنے جلنے والوں کے چہرے دیکھنے کو ترس گئے۔ مہنگائی بڑھی اور پنشن ناکافی ہوئی تو پرکھوں کا مکان آدھے سے زیادہ کرایہ پر اٹھادیا۔ غرض یہ کہ بھرا پرا گھر اجڑ گیا۔ ہنستی کھیلتی زندگی پر خزاں کی افسردگی چھاگئی۔ نہ یار نہ رشتہ دار، کوئی بھولے سے نہیں پھٹکتا۔ پاس پڑوس والے انہیں جھکی سمجھ کر کنی کاٹتے یا کبھی آمنا سامنا ہو بھی جاتا تو صرف، ’’بیرام جی کیم چھو؟ سارو چھو۔‘‘ اور سائب جی کہہ کر رخصت ہوجاتے۔
کون تھاجس کی رفاقت میں یہ چند گھنٹے گزار سکتے؟ یا اپنے دل کی باتیں کہہ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتے۔ گنتی کے چند لوگ تو تھے جن سے انہیں چوبیس گھنٹوں میں واسطہ پڑتا تھا۔ کئی بار انہوں نے دودھ والے، پاؤ والے اور اخبار والے کو اپنی باتوں میں الجھانا چاہا۔ لیکن وہ کب تک اس بوڑھے کی باتوں میں اپنے کام کے وقت دلچسپی لیتے؟ تھوڑی دیر تک تو وہ بڑے صبر سے ان کی باتیں سنتے اور پھر دوسروں کے گھر اپنے مال کی ڈیلیوری میں دیر ہوجانے کابہانہ بناکر رخصت ہوجاتے۔
بیرام جی کے معمول میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ ناشتہ کرکے ہوا خوری کونکلاکرتے تھے۔ برس کے بارہ مہینے، ان کی صبح کی سیراٹل تھی۔ برسات میں چھتری اور سردی میں اوور کوٹ اوڑھے وہ نیپنسی روڈ(NEPEON SEA ROAD) سے ہارکینس روڈ تک جاتے۔ یہ فاصلہ کسی صورت میں دو میل سے کم نہ تھا لیکن بیرام جی خراماں خراماں اسے طے کرلیا کرتے تھے۔
دراصل انہیں اس علاقہ سے دلی لگاؤ تھا اور کیوں نہ ہوتا یہ لگاؤ؟ بیرام جی کا بچپن اسی علاقہ میں گزرا تھا۔ کیسا شاداب اور پرفضا مقام تھا وہ! سرسبز و شاداب پہاڑیوں پر واقع! سمندر سے گھرا ہوا، جہاں بل کھاتی ہوئی سڑکیں اوپر سے نیچے کسی جھرنے کی صورت بہتیں۔ دور دور بنے ہوئے بنگلوں کو نیچے سے دیکھ کر گمان ہوتا کہ گویا ایک دوسرے سے غیرمتعارف انگریز ٹوپیاں پہنے ہوئے کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور رات جب گیس کے ہنڈولے ان پر پیچ راستوں پر روشن ہوجاتے تو نیچے سے دیکھنے والا سمجھتا کہ بہت سے جگنو اس پہاڑی پر مختلف قطاروں میں بیٹھے ہیں۔
ان دنوں اس علاقہ کی آبادی بہت کم تھی۔ وہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ بڑے بڑے سرکاری دفتروں میں کام کرتے تھے۔ ان کا خاندان بڑا ہوتا تھا۔ کم از کم پندرہ بیس افراد پر مشتمل۔ ایک شخص کماتا، دوسرے کھاتے تھے۔ انہیں فکر کاہے کی تھی؟ وہ زمانہ آج کا زمانہ نہیں تھا، خوف و اندیشوں کا زمانہ! وہ بے فکری کا زمانہ تھا۔
بیرام جی کا باپ کلکٹر کے دفتر میں چیف اکاؤنٹنٹ تھا۔ ہزار روپے تنخواہ، موٹر گاڑی، بنگلہ، نوکر چاکر، سب کچھ تو تھا۔ بیرام جی J.B. PETIT ہائی اسکول میں پڑھنے کو جایا کرتے تھے۔ اتوار کو چھٹی ہوتی، تویہ اپنے دوستوں کو، جو بمبئی کے گردونواح میں رہتے، اپنے گھر دن گزارنے بلالیا کرتے۔
مکان کے پچھواڑے کھلامیدان تھا۔ بیرام جی اور ان کے دوست وہیں اسٹمپس گاڑ کر کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ کھیلتے کھیلتے دوپہر ہوجاتی تو کھانا بیرام جی کے گھر ہی پر ہوتا، جس کاانتظام ان کی ماں اپنی نگرانی میں کرتیں۔ چکن دھان سک، کباب، پاپڑ اور کچومر، پھر انہیں آئس کریم یا فروٹ جیلی پیش کی جاتی۔
خوب سیر ہوکر کھانا کھانے کے بعد بیرام جی اور ان کے دوست بنگلہ کے وارنڈے میں صوفوں پر دراز ہوجاتے، گراموفون آن کردیا جاتا اور سہگل کا گیت ’’سوج راجکماری۔۔۔ سوجا‘‘، بڑے شوق سے بار بار سنا جاتا۔ سہ پہر کو چائے پی کر یہ سب اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہوتے۔
کہتے ہیں کہ کھلے میدان سے آسمان کانظارہ کرنے کا لطف صرف وہی شخص جانتا ہے جومیدان کی ہری گھاس پر دو گھنٹے تک لیٹا ہو اور مسلسل آسمان کو تکتا رہا ہو۔ ایک بے کنار وسعت کا احساس ہوتا ہے۔ نیلے آکاش میں سفید بادلوں کے ٹکڑے روئی کے گالوں سے اڑتے چلے آتے ہیں، اور بہت بلندی پر اڑتی ہوئی چیلیں اپنے پھیلے ہوئے پروں کو جنبش دیے بغیر اپنا وزن سنبھالے سمندر میں چلنے والی کشتیوں سی لگتی ہیں۔
بیرام جی اکثر میدان میں لیٹے آسمان کی اور دیکھا کرتے تھے۔ اور غروب کامنظر؟ ہاں، وہ بھی۔ انہیں طلوع اور غروب دونوں دیکھنے کا شوق تھا۔ ان کے لیے روزانہ سورج اپنے سنہری تھال سے چاندی کے ہزارہا تاروں کو لٹاتا، مشرق سے مغرب کاسفر کرتا تھا اور ان کی زندگی کے دن اس کے جلو میں گزرا کرتے تھے۔
گزشتہ دس سالوں سے بیرام جی محسوس کر رہے تھے کہ ان کے کھیل اور تفریح کے میدان، وہ بنگلے، وہ پہاڑیاں، وہ بل کھاتی سڑکیں رفتہ رفتہ غائب ہوتی جارہی ہیں اور ان کی جگہ دیوپیکر، آہنی سنگلاخ کی سیدھی اور سپاٹ عمارتیں کھڑی ہوتی جارہی ہیں۔ رفتہ رفتہ قدرتی حسن پامال ہو رہا ہے۔ اب نہ تو سبزہ ہے نہ درخت، نہ پھول ہیں نہ پتے۔ نہ چڑیاں ہیں نہ گلہریاں، نہ تتلیاں ہیں نہ بھنورے۔ نہ گرگٹ ہیں نہ ٹڈے، کچھ بھی تو نظر نہیں آتا! اوگاڈ، وہ سب کہاں گئے؟ کیا ہوئے؟ انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟ کئی دنوں تک وہ بڑے فکرمند رہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیو ں ہو رہا ہے؟ کیسے ہو رہا ہے؟ کتنا ہو چکا ہے؟ اور کتنا ہونا باقی ہے؟
اس کی کوئی انتہابھی ہے؟ اس کا کوئی خاتمہ بھی ہے؟
یا یہ اسٹیل اور سیمنٹ کا جنگل جو ہر لمحہ اور ہر پل اپنے پھیلاؤ میں بڑھتا ہی جارہا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان کی ہر سانس کا احاطہ کرلے اور اس کا جینا دوبھر کردے۔ یہ تو اس کے ذہن، قلب اور روح پر ظلم کا پہاڑ بن کر ٹوٹ رہا ہے۔ مجھے اس کی مخالفت کرنی ہی پڑے گی۔
انہوں نے مختلف اخباروں کے ایڈیٹروں کو خط لکھے اور بڑی مدلل باتوں سے ثابت کیا کہ آدمی اپنی خواہشات کی تکمیل کے سلسلے میں شہر کے ساتھ بدفعلیاں کر رہاہے۔ اگر فوراً نئے مکانات کی تعمیر نہیں روکی گئی، خودغرض عمارتی ٹھیکیداروں کے حوصلوں کی پسپائی نہیں کی گئی، ان کے منصوبوں کی مذمت نہیں کی گئی، تو یہی شہر اسٹیل اور سیمنٹ کا جنگل ہوکر رہ جائے گا جس میں موٹروں اور بسوں کے ہیبت ناک جانور دوڑتے پھریں گے جن سے انسان خوف زدہ ہوکر سمندر میں کود پڑے گا۔
بیرام جی کے خطوط ایڈیٹروں نے بڑے اہتمام سے شائع کیے اور ایک اخبار کے ایڈیٹر نے ان کے خط کے ساتھ یہ نوٹ بھی لگایا کہ اگر اس سلسلے میں شہر کے دوسرے معزم شہری کوئی مہم چلاناچاہیں تو ادارہ ان کے منصوبوں کو عام کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔
یکے بعد دیگرے سیکڑوں خط بیرام جی کے خیالات کی تائید میں شائع ہوئے۔ بیرام جی کی چئیرمین شپ میں ADHOC کمیٹی بنائی گئی۔ ایک جنرل باڈی کے تحت شہر کے مختلف اداروں کے لیے کئی چھوٹی بڑی کمیٹیوں کا قیام ہوا۔ ان کمیٹیوں نے ہر بنتی ہوئی نئی عمارت پر اپنا مورچہ بھیجا۔ عمارتی ٹھیکیداروں کے دفتر کے سامنے بھوک ہڑتالیں کیں اور اسی کاز کے لیے خود سوزی کرتے ہوئے دو تین ممبروں کو پولیس نے گرفتار کیا۔ لیکن کوشش لاحاصل رہی۔
لائنز کلب نے اپنے ہر علاقہ میں سیمینار منعقد کیے، لیکن لاحاصل، کوئی کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ عمارتیں بنتی تھیں، بنتی گئیں اور۔۔۔ آئے دن ذراذرا سی جگہوں پر بنتی گئیں۔
سیر کوجاتے ہوئے بیرام جی جب بھی کسی عمارت کی بنیاد پڑتے دیکتے تو ان کے دل سے آہِ سرد نکل پڑتی تھی۔ اب تو اُن کا جی سیر میں بھی نہیں لگتا تھا۔ وہ جس حسن قدرت کو دیکھنے نکلا کرتے تھے، وہ تو ان عمارتوں کے آہنی وجود تلے دفن ہوچکا تھا اور بجائے اس کے انہیں ان عمارتوں کی بالکنیوں میں کوئی دانت مانجھتا، کپڑے سکھاتا، یا شب خوابی کے لباس میں چائے پیتا نظر آتا تھا۔ راستہ پر موٹر گاڑیاں، اور بسیں دندناتی ہوئی ان کے بہت قریب سے گزر جاتیں اور بیرام جی کے جسم میں سنسناہٹ دوڑا جاتی تھیں۔ وہ انسان کے اس ظالمانہ رویہ پر لعنت بھیجتے گھر لوٹ جاتے تھے۔
اب تو انہوں نے صبح کی سیر کو بھی جانا چھوڑ دیاتھا۔ بس اسی کھڑکی کی بغل میں بیٹھ کر مچھیروں کی شکار پر روانگی، آبی پرندوں کی اڑان اور غروب کا منظر دیکھا کرتے تھے اور اپنے ہمدم دیرینہ کو اپنے دل کی باتیں سناکر تسکین پالیتے تھے۔
دن کا اُجالا دبے پانو اس کھڑکی کی راہ بیرام جی کے کمرے میں داخل ہوا تو اس نے بیرام جی کو آرام کرسی پر سوتا پایا۔ ان کے چہرے پر سفر کی تکان، رات کی ہولناکیوں کا اثر اور خطرناک اندیشوں کا ڈر، کچھ بھی تو نہ تھا۔ ان کی پائینتی کے قریب کئی جلے ہوئے سگریٹوں کی راکھ اور BUTTS پڑے تھے۔
تھوڑی دیر بعد بیرام جی نیند سے بیدار ہوئے تو انہیں پھر اپنے آپ کو اس کرسی پر پاکر حیرت ہوئی۔ انہیں یاد آیا کہ گزشتہ رات انہوں نے کتنے کرب و اضطراب میں کاٹی۔
’’اُوں راترے پونہ تھی آوی نے تم نے ترتجINFORM کردانو ہتھوں پن ہیوی اسٹورم تھیا پچھی اوں تم نے جوئی نئی شکوں۔‘‘
یہ کہتے کہتے بیرام جی نے اپنے دوست کی جانب دیکھا، ان کا منہ کچھ کہنے کو کھلا، لیکن وہ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا۔ کسی نے اُن کی روح کو انگلی میں لپیٹ کر باہر کھینچ لیا تھا۔
دوسرے ہی لمحہ وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھے کرسی پر گرپڑے۔
پھر انہیں محسوس ہوا کہ ان کی کھڑکی کے سامنے کھڑے ہوئے اسٹیل اور سیمنٹ کے ہاتھیوں نے اپنی سونڈیں آہستہ آہستہ بلند کرلی ہیں اور اپنے دیوپیکر وجود سے انہیں کچل رہے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.