حویلی کے پھاٹک پر دستک
گرمی کا موسم تھا، تپتا ہوا دن۔ اپنی بہن کے ساتھ گھر لوٹتے ہوئے میں ایک بہت بڑے مکان کے پھاٹک کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اب میں یہ نہیں بتاسکتا کہ میری بہن نے پھاٹک پر شرارتاً دستک دے دی تھی یا بے خیالی میں اس کی طرف اپنا ہاتھ صرف بڑھایا تھا اور دستک سرے سے دی ہی نہیں تھی۔
سڑک یہاں سے بائیں کو مڑگئی تھی اور اس سڑک پر کوئی سو قدم آگے بڑھ کر گاؤں شروع ہوتا تھا۔ ہم اس سے اچھی طرح واقف نہیں تھے۔ لیکن ابھی ہم گاؤں کے پہلے مکان سے آگے نکلے ہی تھے کہ لوگ سامنے آآکر دوستانہ یا خبردار کرنے کے انداز میں ہمیں اشارے کرنے لگے۔ وہ خود بھی سہمے ہوئے نظر آرہے تھے، خوف سے جھکے جاتے تھے۔ جس حویلی سے گزر کر ہم آرہے تھے وہ اس کی طرف اشارہ کرتے اور یہ جتاتے تھے کہ ہم نے اس پھاٹک پر دستک دے دی ہے۔ حویلی کا مالک ہم پر یہی جرم عائد کرے گا، جس کی تفتیش فوراً شروع ہوجائے گی۔
میں نے اپنے اوسان بحال رکھے اور اپنی بہن کو بھی دلاسا دینے کی کوشش کرنے لگا۔ اول تو اس نے پھاٹک پر ہاتھ مارا ہی نہیں، اور اگر مارا بھی تو اسے کبھی ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات میں نے اپنے چاروں طرف کھڑے ہوئے لوگوں کو بھی سمجھانا چاہی۔ انہوں نے میری بات سن تو لی مگر اس پر کوئی رائے ظاہر کرنے سے احتراز کیا۔ پھر انہوں نے مجھے بتایا کہ صرف میری بہن ہی پر نہیں بلکہ اس کے بھائی کی حیثیت سے مجھ پر بھی جرم عاید کیا جائے گا۔ میں سرجھٹک کر مسکرادیا۔ ہم سب مڑ کر حویلی کی طرف یو ں دیکھنے لگے جیسے کوئی دور پردھوئیں کا بادل دیکھے اور اس میں سے شعلے بھڑک اٹھنے کا انتظار کرے۔
اور واقعی ذرا ہی دیر بعد ہم نے دیکھا کہ پاٹوں پاٹ کھلے ہوئے پھاٹک میں گھوڑے سوار داخل ہو رہے ہیں۔ گرد اڑنے لگی اور سب کچھ اس کے پیچھے چھپ گیا، صرف اونچے اونچے نیزوں کے پھل چمکتے رہے۔ اور ابھی یہ سوار حویلی کے صحن میں غائب ہوئے ہی تھے کہ شاید انہوں نے اپنے گھوڑے پھیرلیے کیونکہ وہ اب سیدھے ہماری طرف آرہے تھے۔ میں نے اپنی بہن سے کہا کہ یہاں سے چلی جاؤ۔ وہ مجھے چھوڑ کر جانے پر راضی نہ ہوئی۔ میں نے اس سے کہا کہ کم از کم اپنے کپڑے ہی بدل ڈالو تاکہ بہتر لباس میں ان سواروں کا سامنا کرسکو۔ آخر وہ مان گئی اور ہمارے گھر کو جانے والی سڑک پر چل کھڑی ہوئی۔
اتنی دیر میں سوار ہمارے برابر پہنچ گئے اور اترنے سے پہلے ہی پہلے انہوں نے میری بہن کو پوچھا۔ اس سوال کا سوچا سمجھا ہوا جواب یہ تھا کہ اس وقت تو وہ موجود نہیں ہے لیکن تھوڑی دیر میں آجائے گی۔ سواروں نے اس جواب کو بے اعتنائی سے سنا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مجھ کو پالینا ان کے نزدیک زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ایک چاق چوبند نوجوان جو منصف تھا اور اس کا خاموش طبع نائب جس کا نام عسمان تھا، یہ دونوں بظاہر اس دستے کے سربراہ تھے۔
مجھ کو گاؤں کی سرائے میں چلنے کا حکم دیا گیا۔ سر جھٹک جھٹک کر اور زیر جامہ سنبھال سنبھال کر میں دھیرے دھیرے اپنا بیان دینے لگا جس کے دوران میں دستے کی تیز نظریں مجھے ٹٹولتی رہیں۔ مجھ کو ابھی تک یقین سا تھا کہ شہر کا باشندہ اور عزت دار ہونے کی بناپر مجھے دیہاتیوں کی اس جماعت سے چھٹکارا دلانے کے چند لفظ کافی ہوں گے۔ لیکن جب میں نے سرائے کی دہلیز پر پاؤں رکھا تو منصف جو پہلے ہی سے وہاں پہنچ کر میرا انتظار کر رہا تھا، بولا، ’’واقعی مجھے اس شخص کی حالت پر افسوس ہے۔‘‘ اور اس میں شبہے کی کوئی گنجائش نہیں کہ اس سے اس کی مراد میری موجودہ حالت نہیں بلکہ کوئی ایسی بات تھی جو مجھے پیش آنے والی تھی۔
وہ جگہ سرائے کے کمرے سے زیادہ کسی قیدخانے کی کوٹھری معلوم ہوتی تھی۔ پتھر کی بڑی بڑی سلوں کا فرش، سیاہ اور بالکل ننگی دیواریں جن میں سے ایک میں لوہے کا حلقہ جڑا ہوا۔ بیچ میں بچھی ہوئی ایک چیز، کچھ بسترکی سی، کچھ جراحی کی میز کی سی۔
کیا اب میں زندان کی فضا کے سوا کسی اور فضا کی تاب لاسکتا ہوں؟ اصل سوال یہی ہے، یا شاید ہوتا، بشرطیکہ مجھے اب بھی امید ہوتی کہ میں یہاں سے نکل سکوں گا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.