ہوا کی ہوک
وہ بڈھا کھڑا ہوا تھا اور دہری سڑک کے اس پار گھورے جا رہا تھا۔ اس پار، سڑک کی درمیانی نہر کے کنارے، ایک جوان عورت اور ایک تگڑا سا مرد کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ سڑک خالی تھی، البتہ کبھی کبھی کوئی موٹر کار آ کر تیزی سے نکل جاتی تھی۔ اندھیرا ہو چلا تھا۔ چنار کے درختوں کو جھنجھوڑیاں دیتی ہوئی تند ہوا سے سڑک کی خاک اڑ اڑ کر فضا میں پھیل رہی تھی۔
بڈھے کے رعشہ دار ہاتھ میں ہلتی ہوئی لاٹھی ڈامر کے فٹ پاتھ پر کھٹ کھٹ کر رہی تھی۔ اس کے ہونٹ ہل رہے تھے اور منہ سے بے معنی آوازیں نکل رہی تھیں۔ اس کی نگاہیں سڑک کی دوسری سمت سے ہٹائے نہیں ہٹ رہی تھیں۔ تگڑا آدمی نحیف بدن کی مختصر سی عورت کے سامنے جھکا ہوا ہاتھ نچا نچا کر کچھ کہہ رہا تھا۔ عورت کے لمبے سیاہ بال ہوا سے اڑ رہے تھے اور اس کے لپے پتے چہرے پر سڑک کی دھول جم رہی تھی۔
ان دونوں سے کچھ فاصلے پر سڑک کے کنارے سرخ رنگ کی ایک کار کھڑی تھی۔ اسٹیرنگ کے پیچھے ایک آدمی بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا اور ان پر نظریں گاڑے ہوئے تھا۔
بڈھا لاٹھی ٹیکتا ہوا نہر کی سمت بڑھا۔ نہر مٹ میلے پانی سے لبالب بھری ہوئی تھی اور غراتی ہوئی سڑک کی ڈھال کے رخ بہہ رہی تھی۔ بڈھا اُدھر سے پلٹا اور سڑک کے پل کے پاس پہنچا، تیزی کے ساتھ پل کو پار کر کے دوسری طرف اترا اور اسی تیزی سے ادھر کی سڑک بھی پار کرنا چاہتا تھا کہ ہارن کی طویل چیخ نے اس کے قدم روک دیے۔ ایک کار اس کے قریب سے ہو کر زن سے نکل گئی۔
لاٹھی ٹیکتے ہوئے بڈھے نے سڑک کی چوڑان پار کی اور جلدی سے خود کو نہر والے کنارے پر پہنچا دیا۔ تگڑے آدمی نے عورت کی بانہہ پکڑ لی تھی اور اس کو آہستہ آہستہ سرخ کار کی طرف لے جا رہا تھا۔
بڈھا پیچھے سے ان کے سر پر آ پہنچا۔ اس نے لاٹھی اٹھا کر ایک جما ہوا ہاتھ مارا۔ لاٹھی تگڑے آدمی کے سر کے پاس سے ہوتی ہوئی اس کے بائیں بازو پر پڑی۔ وہ اچھل کر پلٹا اور تیزی سے پیچھے ہٹ گیا۔ بڈھے کی لاٹھی پھر اٹھی لیکن اس کا نشانہ چوک گیا۔ تگڑے آدمی کی حیرت زدہ آواز بلند ہوئی،
’’!‘‘
اس نے بڈھے کی لاٹھی کو، جو پھر بلند ہو گئی تھی، بیچ ہی میں پکڑ لیا، بڈھے کی سرخ انگارہ آنکھوں کو دیکھا، لپک کر عورت کو پیچھے کھینچا اور بولا، ’’کھڑی رہو، پاگل ہے۔‘‘
اس نے بڈھے کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے کی طرف مروڑ دیا۔ بڈھا تکلیف سے کراہنے لگا۔ عورت ان کی طرف لپکی اور چیخی، ’’چھوڑو! چھوڑو!‘‘
مرد پلٹا اور بھونچکا سا ہو کر عورت کو دیکھنے لگا۔ پھر بولا، ’’میں کیا کر رہا ہوں! یہ خرافاتی خود ہی بھڑا ہوا ہے۔‘‘
اس نے بڈھے کو چھوڑ دیا۔ لاٹھی زمین پر گر گئی۔ بڈھا گالیاں بکتا ہوا پھر اس پر جھپٹا۔ آدمی نے تاؤ کھا کر اس کے منہ پر ایک ہاتھ رسید کیا اور لاتیں مار مار کر اسے پیچھے کھدیڑنے لگا۔ بڈھا الٹے پاؤں ہٹتا گیا، یہاں تک کہ اس کے پیر نہر کی پکی منڈیر سے ٹکرائے اور وہ چاروں شانے چت پانی میں جا پڑا۔
اسٹیرنگ کے پیچھے بیٹھے ہوئے آدمی نے کھڑکی سے سر باہر نکالا اور پکار کر پوچھا، ’’کیا بات ہے، عبدول؟ یہ بڈھا کہاں سے آ مرا؟‘‘
تگڑا آدمی برا سا منہ بنائے ہوئے مڑا اور بولا، ’’قسم سے، مجھے نہیں پتہ۔ کمبخت نے میرا ہاتھ۔۔۔‘‘
وہ اپنا بازو سہلانے لگا۔ اسٹیرنک والے نے پھر پکار کر پوچھا، ’’پاگل واگل ہے کیا؟‘‘
عورت بڈھے کی طرف دوڑی جو نہر میں پڑا ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ بڈھے کے چہرے پر خون تھا اور سر اور منہ سے پانی کی دھاریں گر رہی تھیں۔
ہوا درختوں کو کبھی جھکاتی، کبھی سیدھا کرتی، آس پاس کے مکانوں کی دو چھتیوں میں ہوکتی پھر رہی تھی۔ چنار کے سوکھے پتے اڑ رہے تھے اور درختوں کی سنسناہٹ سے فضا گونج رہی تھی۔
فٹ پاتھ پر چلتا ہوا ایک راہگیر ٹھٹک کر رک گیا اور پوچھنے لگا، ’’کیا معاملہ ہے؟‘‘
تگڑے آدمی کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ وہ دھمکانے کے انداز میں راہگیر کی طرف ہاتھ لہرا کر بولا، ’’جاؤ جاؤ، اپنا کام کرو جی۔‘‘
اسٹیرنگ والے نے پھر پکار کر کہا، ’’اسے چھوڑو بابا۔ چلو نا، کہاں اٹک گئے؟‘‘
بڈھا اب نہر کے کنارے بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سفید بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا، پورا بدن کیچڑ میں لت پت ہو گیا تھا اور نتھنوں سے خون نکل رہا تھا۔ عورت اس کے پہلو میں زمین پر بیٹھ گئی تھی اور رومال سے اس کے چہرے کا خون پونچھ رہی تھی۔ اس کا اپنا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔
تگڑے آدمی نے جھک کر عورت کا ہاتھ پکڑا اور اسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔ عوررت نے غضبناک ہو کر خود کو چھڑا لیا اور چیخی، ’’چھوڑ مجھ کو، قرّم ساق!‘‘
آدمی اس کا بازو چھوڑ کر الگ ہٹ گیا۔ اس نے سہمے ہوئے انداز میں اسٹیرنگ والے کی طرف مڑ کر دیکھا اور بے بسی کے ساتھ شانے اُچکائے۔ اس کے چہرے اور بدن کی ایک ایک جنبش سے ظاہر تھا کہ وہ بری طرح سٹپٹایا ہوا ہے۔
اچانک بڈھا اچھل کر کھڑا ہو گیا اور عورت پر گھونسے اور لاتیں چلانے لگا۔ عورت نے گردن جھکا رکھی تھی اور خود کو بڈھے کے حملوں کے حوالے کر دیا تھا۔
نہر کے اس طرف والے فٹ پاتھ پر وہ آدمی اور ایک بچہ چپ چاپ کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ بڈھا عورت پر پلا پڑا تھا اور دونوں مٹھیوں میں اس کے بال جکڑے ہوئے اپنے گھٹنوں اور ایڑیوں سے اس کو کوٹے ڈال رہا تھا۔ عورت اسی طرح گھٹنوں میں سر دیے زمین پکڑے بیٹھی تھی اور ذرا بھی مدافعت نہیں کر رہی تھی۔ ہوا اسی طرح سڑک پر ہوک رہی تھی اور درختوں کے شور سے اسی طرح ہر طرف ہنگامہ برپا تھا۔
اسٹیرنگ والا کار کو بڑھا کر قریب لایا اور اس پر سے کود کر نیچے اترا۔ اس نے طیش میں آ کر بڈھے کو پیچھے ڈھکیل دیا اور عورت کو گھسیٹ کر اس کے پنجے سے چھڑایا۔ وہ بے ہوش سی ہو کر سڑک پر ڈھیر ہو گئی۔
تگڑا آدمی آگے بڑھا۔ دونوں نے مل کر عورت کو زمین پر سے اٹھایا اور گاڑی کی طرف لے چلے۔
بڈھا ان کے پیچھے لپکا۔ آدمی نے پلٹ کر اسے ایک اور دھکا دیا۔ بڈھا الٹ کر سڑک پر گر گیا۔ تگڑے آدمی نے عورت کو گود میں اٹھا کر گاڑی کی پچھلی نشست پر ڈال دیا اور خود بھی وہیں بیٹھ گیا۔ بڈھا لنگڑاتا اور شور مچاتا ہوا گاڑی کے پیچھے دوڑا، لیکن گاڑی روانہ ہو چکی تھی۔ اسٹیرنگ والے نے گاڑی کے عقبی آئینے میں اس کو دیکھا اور بولا، ’’باندھ کر رکھنے والا ہے، پاگل۔‘‘
اس نے گاڑی کی رفتار بڑھائی، پھر بولا، ’’ہم نہ پہنچ گئے ہوتے تو بچی کو مار ہی ڈالا تھا۔‘‘
اس کی پشت پر عورت کی سسکیوں کی آواز بلند ہو رہی تھی۔
(فارسی عنوان، ’’زوزۂ باد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.