Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہوا کی ہوک

جمال میر صادقی

ہوا کی ہوک

جمال میر صادقی

MORE BYجمال میر صادقی

    وہ بڈھا کھڑا ہوا تھا اور دہری سڑک کے اس پار گھورے جارہا تھا۔ اس پار، سڑک کی درمیانی نہر کے کنارے، ایک جوان عورت اور ایک تگڑا سا مرد کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ سڑک خالی تھی، البتہ کبھی کبھی کوئی موٹر کار آکر تیزی سے نکل جاتی تھی۔ اندھیرا ہو چلا تھا۔ چنار کے درختوں کوجھنجھوڑیاں دیتی ہوئی تند ہوا سے سڑک کی خاک اڑاڑ کر فضا میں پھیل رہی تھی۔

    بڈھے کے رعشہ دار ہاتھ میں ہلتی ہوئی لاٹھی ڈامر کے فٹ پاتھ پر کھٹ کھٹ کر رہی تھی۔ اس کے ہونٹ ہل رہے تھے اور منھ سے بے معنی آوازیں نکل رہی تھیں۔ اس کی نگاہیں سڑک کی دوسری سمت سے ہٹائے نہیں ہٹ رہی تھیں۔ تگڑا آدمی نحیف بدن کی مختصر سی عورت کے سامنے جھکا ہوا ہاتھ نچا نچا کر کچھ کہہ رہا تھا۔ عورت کے لمبے سیاہ بال ہوا سے اڑ رہے تھے اور اس کے لپے پتے چہرے پر سڑک کی دھول جم رہی تھی۔

    ان دونوں سے کچھ فاصلے پر سڑک کے کنارے سرخ رنگ کی ایک کار کھڑی تھی۔ اسٹیرنگ کے پیچھے ایک آدمی بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا اور ان پر نظریں گاڑے ہوئے تھا۔

    بڈھا لاٹھی ٹیکتا ہوا نہرکی سمت بڑھا۔ نہر مٹ میلے پانی سے لبالب بھری ہوئی تھی اور غراتی ہوئی سڑک کی ڈھال کے رخ بہہ رہی تھی۔ بڈھا اُدھر سے پلٹا اور سڑک کے پل کے پاس پہنچا، تیزی کے ساتھ پل کو پار کر کے دوسری طرف اترا اورا سی تیزی سے ادھر کی سڑک بھی پار کرنا چاہتا تھا کہ ہارن کی طویل چیخ نے اس کے قدم روک دیے۔ ایک کار اس کے قریب سے ہوکر زن سے نکل گئی۔

    لاٹھی ٹیکتے ہوئے بڈھے نے سڑک کی چوڑان پار کی اورجلدی سے خود کو نہر والے کنارے پر پہنچا دیا۔ تگڑے آدمی نے عورت کی بانہہ پکڑ لی تھی اور اس کو آہستہ آہستہ سرخ کار کی طرف لے جارہا تھا۔

    بڈھا پیچھے سے ان کے سر پر آپہنچا۔ اس نے لاٹھی اٹھاکر ایک جما ہوا ہاتھ مارا۔ لاٹھی تگڑے آدمی کے سر کے پاس سے ہوتی ہوئی اس کے بائیں بازو پر پڑی۔ وہ اچھل کر پلٹا اور تیزی سے پیچھے ہٹ گیا۔ بڈھے کی لاٹھی پھر اٹھی لیکن اس کا نشانہ چوک گیا۔ تگڑے آدمی کی حیرت زدہ آواز بلند ہوئی،

    ’’!‘‘

    اس نے بڈھے کی لاٹھی کو، جو پھر بلند ہوگئی تھی، بیچ ہی میں پکڑ لیا، بڈھے کی سرخ انگارہ آنکھوں کو دیکھا، لپک کرعورت کو پیچھے کھینچا اور بولا، ’’کھڑی رہو، پاگل ہے۔‘‘

    اس نے بڈھے کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے کی طرف مروڑ دیا۔ بڈھا تکلیف سے کراہنے لگا۔ عورت ان کی طرف لپکی اور چیخی، ’’چھوڑو! چھوڑو!‘‘

    مرد پلٹا اور بھونچکا سا ہوکر عورت کو دیکھنے لگا۔ پھر بولا، ’’میں کیا کر رہا ہوں! یہ خرافاتی خود ہی بھڑا ہوا ہے۔‘‘

    اس نے بڈھے کو چھوڑ دیا۔ لاٹھی زمین پر گر گئی۔ بڈھا گالیاں بکتا ہوا پھراس پر جھپٹا۔ آدمی نے تاؤ کھاکر اس کے منہ پر ایک ہاتھ رسید کیا اور لاتیں مار مار کر اسے پیچھے کھدیڑنے لگا۔ بڈھا الٹے پاؤں ہٹتا گیا، یہاں تک کہ اس کے پیر نہر کی پکی منڈیر سے ٹکرائے اور وہ چاروں شانے چت پانی میں جا پڑا۔

    اسٹیرنگ کے پیچھے بیٹھے ہوئے آدمی نے کھڑکی سے سر باہر نکالا اور پکار کر پوچھا، ’’کیا بات ہے، عبدول؟ یہ بڈھا کہاں سے آمرا؟‘‘

    تگڑا آدمی برا سا منھ بنائے ہوئے مڑا اوربولا، ’’قسم سے، مجھے نہیں پتا۔ کمبخت نے میرا ہاتھ۔۔۔‘‘

    وہ اپنا بازو سہلانے لگا۔ اسٹیرنک والے نے پھر پکار کر پوچھا، ’’پاگل واگل ہے کیا؟‘‘

    عورت بڈھے کی طرف دوڑی جو نہر میں پڑا ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ بڈھے کے چہرے پر خون تھا اور سر اور منھ سے پانی کی دھاریں گر رہی تھیں۔

    ہوا درختوں کو کبھی جھکاتی، کبھی سیدھا کرتی، آس پاس کے مکانوں کی دو چھتیوں میں ہوکتی پھر رہی تھی۔ چنار کے سوکھے پتے اڑ رہے تھے اور درختوں کی سنسناہٹ سے فضا گونج رہی تھی۔

    فٹ پاتھ پر چلتا ہوا ایک راہ گیر ٹھٹک کر رک گیا اور پوچھنے لگا، ’’کیا معاملہ ہے؟‘‘

    تگڑے آدمی کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ وہ دھمکانے کے انداز میں راہ گیر کی طرف ہاتھ لہرا کر بولا، ’’جاؤ جاؤ، اپنا کام کرو جی۔‘‘

    اسٹیرنگ والے نے پھر پکار کر کہا، ’’اسے چھوڑو بابا۔ چلونا، کہاں اٹک گئے؟‘‘

    بڈھا اب نہر کے کنارے بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سفید بالوں سے پانی ٹپک رہاتھا، پورا بدن کیچڑ میں لت پت ہوگیا تھا اورنتھنوں سے خون نکل رہا تھا۔ عورت اس کے پہلو میں زمین پر بیٹھ گئی تھی اور رومال سے اس کے چہرے کا خون پونچھ رہی تھی۔ اس کا اپنا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔

    تگڑے آدمی نے جھک کر عورت کا ہاتھ پکڑا اور اسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔ عوررت نے غضب ناک ہوکر خود کو چھڑا لیا اور چیخی، ’’چھوڑ مجھ کو، قرّم ساق!‘‘

    آدمی اس کا بازو چھوڑ کر الگ ہٹ گیا۔ اس نے سہمے ہوئے انداز میں اسٹیرنگ والے کی طرف مڑ کر دیکھا اور بے بسی کے ساتھ شانے اُچکائے۔ اس کے چہرے اور بدن کی ایک ایک جنبش سے ظاہر تھا کہ وہ بری طرح سٹپٹایا ہوا ہے۔

    اچانک بڈھا اچھل کر کھڑا ہوگیا اور عورت پر گھونسے اور لاتیں چلانے لگا۔ عورت نے گردن جھکا رکھی تھی اور خود کو بڈھے کے حملوں کے حوالے کردیاتھا۔

    نہر کے اس طرف والے فٹ پاتھ پر وہ آدمی اور ایک بچہ چپ چاپ کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ بڈھا عورت پر پلا پڑا تھا اور دونوں مٹھیوں میں اس کے بال جکڑے ہوئے اپنے گھٹنوں اورایڑیوں سے اس کو کوٹے ڈال رہا تھا۔ عورت اسی طرح گھٹنوں میں سر دیے زمین پکڑے بیٹھی تھی اور ذرا بھی مدافعت نہیں کر رہی تھی۔ ہوا اسی طرح سڑک پر ہوک رہی تھی اور درختوں کے شور سے اسی طرح ہر طرف ہنگامہ برپاتھا۔

    اسٹیرنگ والا کار کو بڑھا کر قریب لایا اور اس پر سے کود کر نیچے اترا۔ اس نے طیش میں آکر بڈھے کو پیچھے ڈھکیل دیا اور عورت کو گھسیٹ کر اس کے پنجے سے چھڑایا۔ وہ بے ہوش سی ہوکر سڑک پر ڈھیر ہوگئی۔

    تگڑا آدمی آگے بڑھا۔ دونوں نے مل کر عورت کو زمین پر سے اٹھایا اور گاڑی کی طرف لے چلے۔

    بڈھا ان کے پیچھے لپکا۔ آدمی نے پلٹ کر اسے ایک اور دھکا دیا۔ بڈھا الٹ کر سڑک پر گر گیا۔ تگڑے آدمی نے عورت کو گود میں اٹھاکر گاڑی کی پچھلی نشست پر ڈال دیا اور خود بھی وہیں بیٹھ گیا۔ بڈھا لنگڑاتا اور شور مچاتا ہوا گاڑی کے پیچھے دوڑا، لیکن گاڑی روانہ ہوچکی تھی۔ اسٹیرنگ والے نے گاڑی کے عقبی آئینے میں اس کو دیکھا ا و ربولا، ’’باندھ کر رکھنے والا ہے، پاگل۔‘‘

    اس نے گاڑی کی رفتار بڑھائی، پھربولا، ’’ہم نہ پہنچ گئے ہوتے تو بچی کو مار ہی ڈالا تھا۔‘‘

    اس کی پشت پر عورت کی سسکیوں کی آواز بلند ہورہی تھی۔

    (فارسی عنوان، ’’زوزۂ باد)

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    મધ્યકાલથી લઈ સાંપ્રત સમય સુધીની ચૂંટેલી કવિતાનો ખજાનો હવે છે માત્ર એક ક્લિક પર. સાથે સાથે સાહિત્યિક વીડિયો અને શબ્દકોશની સગવડ પણ છે. સંતસાહિત્ય, ડાયસ્પોરા સાહિત્ય, પ્રતિબદ્ધ સાહિત્ય અને ગુજરાતના અનેક ઐતિહાસિક પુસ્તકાલયોના દુર્લભ પુસ્તકો પણ તમે રેખ્તા ગુજરાતી પર વાંચી શકશો

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے