Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہوا شکار

احمد صغیر

ہوا شکار

احمد صغیر

MORE BYاحمد صغیر

    اس لڑکی کو میں نے ایک دن کے لئے خریدا تھا۔ پورے چوبیس گھنٹے کے لئے۔ وہ بےحد حسین تھی ‘اتنی حسین کہ کوئی ایک بار دیکھ لے تو اس کے اندر اسے پانے کی خواہش جاگ اٹھے۔ جب وہ میرے سامنے آئی تو کچھ دیر کے لئے میں حیرت میں پڑ گیا۔ اتنی حسین لڑکی اور اس پیشے میں؟ اسے تو کوئی بھی راج کمار بیاہ کر لے جاتا۔

    میں اسے لے کر ایک ہوٹل کے کمرے میں آ گیا۔ اس وقت میں شاید زمین پر نہیں تھا۔ آسمان پر بھی نہیں تھا۔ پتہ نہیں اس وقت میرے پاؤں کہاں تھے، میرا وجود کہاں تھا۔ نہیں نہیں۔۔۔ میرا وجود توکمرے میں ہی تھا لیکن میں آسمان میں اڑ رہا ہوں۔ میرا ذہن دور خلاؤں میں پرواز کر رہا تھا۔ میں صرف اسے ایک ٹک دیکھ رہا تھا۔ جب اس نے مجھے خاموش کھڑا دیکھا تو خود اپنے کپڑے اتارنے لگی۔ میں نے اسے منع کیا——

    ’’نہیں، کپڑے نہ اتاروں.........‘‘

    ’’کیوں؟۔۔۔ تم نے مجھے خریدا ہے۔۔۔ پورے چوبیس گھنٹے کے لئے۔۔۔ اچھی خاصی رقم دے کر۔ اس لئے تم جس طرح چاہو میرا استعمال کر سکتے ہو۔۔۔ میں تمہاری زرخرید غلام ہوں مسٹر۔۔۔ نہیں میں اپنے گاہکوں کا نام نہیں پوچھتی اور نام جان کر بھی کیا کروں گی۔ چوبیس گھنٹے کے بعد تمہارا راستہ الگ ہوگا اور میری منزل کہیں اور۔۔۔‘‘

    اس کی باتیں مجھے حیرت میں ڈال رہی تھیں۔ میں بھونچکا اسے دیکھ رہا تھا کچھ بول ہی نہ سکا۔ یہ لڑکی کیا ہے؟

    ’’تم مریم ہو —— ‘‘ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ وہ چونکی۔۔۔’’ ہاں تم مریم ہو۔۔۔ معجزاتی طور پر تم حاملہ ہو گئی تھی لیکن لوگ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ بغیر باپ کے بھی کوئی عورت ماں بن سکتی ہے؟ تمہیں کتنی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن تم سچی تھیں۔۔۔ بالکل سچی۔۔۔ جس طرح خدا سچا ہے۔۔۔‘‘

    اس نے زور سے قہقہہ لگایا —— ہا ہا ہا۔۔۔ میں اور مریم۔۔۔ تم بڑی عجیب باتیں کرتے ہو، پڑھے لکھے آدمی معلوم ہوتے ہو لیکن تم اپنا قیمتی وقت برباد کر رہے ہو اگر بولو تو اپنے کپڑے اتاروں۔ میرا جسم بےحد خوبصورت ہے۔ ایک بار دیکھ لو تو اس میں ڈوبتے چلے جاؤگے۔۔۔‘‘

    ’’نہیں تم صرف خاموشی سے میرے سامنے بیٹھی رہو۔‘‘

    وہ پیچ و تاب کھاتی رہی، کبھی ہنستی کبھی ہلکے سے مسکرا کر رہ جاتی۔ وہ بار بار گھڑی دیکھتی جیسے میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہا ہوں۔ اندر ہی اندر اس کے اندر کچھ غصے کا بادل سا چھانے لگا تھا۔ غصہ اور تعجب کے دوراہے پر کھڑی وہ مجھے خواب اور حقیقت کی ایک ایسی دلآویز تصویر نظر آئی جو کبھی تو واضح نظر آتی کبھی دھندلی ہوتی ہوئی صرف ایک عکس میں تبدیل ہو جاتی۔

    ’’تم زلیخا ہو۔۔۔ تم نے ہی حضرت یوسف سے عشق۔۔۔ نہیں نہیں، وہ عشق نہیں تھا۔ وہ بوالہوسی تھی۔ کیونکہ حضرت یوسف تم سے محبت نہیں کرتے تھے۔ وہ غلام تھے اور غلام اپنے مالک کی بیوی سے محبت کیسے کر سکتا تھا؟وہ تم سے فرار حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن تم نے ہی پیچھے سے ان کا دامن پکڑ لیا تھا اور ان کا دامن چاک ہو گیا تھا۔ تم یوسف کے حسن کی دیوانی تھی کہ تمہیں کچھ اور نظر نہیں آ رہا تھا۔‘‘

    اس نے پھر قہقہہ لگایا —— تم مجھے کیا کیا بنا دوگے۔۔۔ میں وہ نہیں ہوں جو تم سمجھ رہے ہو۔میں ایک عام لڑکی ہوں روپیوں کے لئے اپنا جسم بیچتی ہوں اور اس وقت تم میرے خریدار ہو۔۔۔ اکثر لوگ جب پہلی بار مجھ سے ملتے ہیں۔ میرے حالات جاننا چاہتے ہیں لیکن میں اپنے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتاتی۔ اس دھندے کی اکثر لڑکیاں اپنی درد بھری کہانی سنا کر گاہک کو مرعوب کرتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ روپئے اینٹھتی ہیں، کوئی کہتی ہے میرا محبوب مجھے دھوکہ دے کر یہاں تک پہنچادیا، کوئی کہتی ہے میرا شوہر مجھے چھوڑکر چلا گیا، کوئی اپنی غریبی، اپنی مفلسی کا رونا روتی ہے۔۔۔ لیکن میں۔۔۔‘‘

    وہ اچانک کھڑی ہو گئی جیسے اسے کچھ یاد آ رہا ہوں۔ آہستہ آہستہ سامنے کھڑکی سے لگ کر کھڑی ہو گئی کچھ دیر تک چپ چاپ باہر نظریں جمائے سڑک پر چلتے پھرتے مناظر کو دیکھتی رہی پھر واپس آکر میرے پہلو میں بیٹھ گئی۔ اس کے جسم سے اٹھنے والی خوشبو فضا کو معطر کر رہی تھی۔ اس نے مجھے دیکھا —— ’’سردی بہت ہے۔۔۔ بولو تو پیگ بناؤں۔‘‘

    ’’میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس نے دو پیگ بنا کر گلاس میز پر رکھ دیا اور اپنا گلاس اٹھا کر ایک گھونٹ پیا —— آپ کو تعجب ہو رہا ہے کہ میں شراب پی رہی ہوں۔ اپنے گاہکوں کو خوش رکھنے کے لئے کبھی کبھی وہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے جس کے لئے دل تیار نہیں ہوتا۔۔۔ لیکن جب شراب پیتی ہوں تو کچھ پل کے لئے تسکین مل جاتی ہے۔ اپنا ماضی بھول جاتی ہوں۔۔۔ وہ لمحے فراموش ہو جاتے ہیں‘‘—— اچانک وہ خاموش ہو گئی جیسے الفاظ نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہو۔

    میں خاموش اسے ہی تک رہا تھا۔ اس وقت میرے ذہن میں کئی خیال آ رہے تھے۔ اس نے مجھے خاموش دیکھ کر کہا ——

    ’’آپ خاموش کیوں ہیں۔۔۔ کچھ تو بولئے۔۔۔ آپ بولتے ہیں تو بہت اچھا لگتا ہے جیسے میں اس دنیا کی نہیں ہوں۔۔۔ کسی اور دنیا سے آئی ہوں۔‘‘

    ’’آں۔۔۔ ‘‘ —— میں چونکا‘ کچھ دیر اسے یونہی دیکھتا رہا۔ پھر نہ جانے کس جذبے کے تحت میں بول پڑا——

    ’’میرا۔۔۔ ہاں تم ہی میر اہو۔۔۔ جو محل کے سکھ چین کو تیاگ کر جنگل جنگل کرشن کے گیت گاتی پھر رہی تھی۔ کرشن تمہارے خواب میں آتے تھے۔ تمہیں کرشن سے پیار ہو گیا تھا۔۔۔ میرے تو گردھر گوپال دوجے نہ کوئی۔۔۔‘‘

    ’’اس بار وہ ہنسی نہیں۔ خاموشی سے مجھے تکتی رہی۔ اس نے مجھے اپنے نرم و نازک ہاتھ سے چھوا۔ میرے جسم کو ٹٹولا‘ میرے دل پر ہاتھ رکھ کر میری دھڑکن کو سنا پھر میری آنکھوں میں جھانکا—— ‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ تم ایک عام آدمی نہیں ہو سکتے۔۔۔ اگر عام آدمی ہوتے تو اب تک میرے جسم کا تکہ بوٹی کر چکے ہوتے۔ تم کون ہو؟ اب میرے اندر تجسس جاگ رہا ہے کہ تمہارے بارے میں سب کچھ معلوم کر لوں۔ بتاؤ نا تم کون ہو؟‘‘

    ’’میں ایک عام آدمی ہوں۔۔۔ لیکن تم ایک عام لڑکی نہیں ہو۔ میں تمہیں صدیوں سے جانتا ہوں۔ تم دروپدی ہو۔۔۔ تمہارا ہی بھرے دربار میں چیر ہرن ہوا تھا۔‘‘

    اس نے مجھے غور سے دیکھا کچھ دیر کے لئے پھر آپ ہی آپ کھو گئی۔ پتہ نہیں خلا میں کیا ڈھونڈتی ہوئی بہت دور نکل گئی۔ اتنی دور کہ دوری کا اسے بھی اندازہ نہ ہوا اور جب واپس لوٹی تو اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کے دو قطرے موتی کی طرح جگمگا رہے تھے۔ میں نے اس کے آنسو دیکھ لئے اور ہاتھ بڑھا کر اس کے آنسو پوچھ دئیے۔ وہ میرے سینے سے لگ کر سسکنے لگی کچھ دیر کے بعد اسے اپنے سینے سے الگ کرکے اس کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔ ہولے ہولے اس کا چہرہ نارمل ہونے لگا اور آنکھیں حسب دستور مسکرانے لگیں۔

    ’’تم مسکراتی ہوئی بہت اچھی لگتی ہو، مونا لیزا۔۔۔‘‘

    ’’آں، مونا لیزا۔۔۔ اچھا نام دیا ہے آپ نے۔۔۔ میں آپ کی مونالیزا ہی تو ہوں۔۔۔ مونا لیزا۔۔۔‘‘

    اس نے یہ نام نہ جانے کتنی بار اپنی زبان سے ادا کیا۔

    میں نے آہستہ سے اس کے نازک ہاتھ کو اپنی گرفت میں لے لیا پھرمیں نے اپنی گہری نگاہیں اس کے چہرے پر گاڑ دیں۔ ابھی رات کا دوسرا حصہ سہم سہم کر گزر رہا تھا۔ سیاہی آہستہ آہستہ سارے ماحول پر اپنی حکومت جما چکی تھی ہر طرف خاموشی نے اپنی چادر پھیلا دی تھی لیکن کمرہ میں جو بلب روشن تھا اس روشنی میں ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ وہ میرے اور قریب آ گئی۔ اپنا سر میرے کندھے پر رکھ دیا۔ میں پیار سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا۔ وہ مجھ سے بالکل چمٹ گئی پھر سرگوشی کے انداز میں بولی ——

    ’’میں تمہاری ہوں، ہمیشہ سے تمہاری۔ اگلے جنم میں تم ہی میرے دیوتا تھے اور میں تمہاری پجارن، تم پوجنئے ہو۔‘‘

    ’’مجھے دیوتا نہ بناؤ۔۔۔ میں ایک انسان بن کر اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔۔۔ بس ایک انسان۔۔۔‘‘

    ’’میں اس جنم میں بھی تمہاری ہی بن کر رہنا چاہتی ہوں۔۔۔ مجھے اپنا بنا لو۔۔۔ ہمیشہ کے لئے۔۔۔‘‘ اس نے میرے شرٹ کا بٹن کھول کر اپنے ہاتھ سے میرے سینے کو سہلانے لگی۔

    جب مجھے یہ احساس ہوا کہ میں کمزور پڑنے لگا ہوں دفعتاً اسے خود سے الگ کیا۔ وہ چونک پڑی۔ اسے ذرا بھی یقین نہیں تھا کہ میں اسے اس طرح جھٹک دوں گا۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ میں اس کے کپڑے اتاروں گا اور۔۔۔

    اب وہ بستر پر گر کر اپنی تیز سانسوں کو درست کرنے لگی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں بہت دیر تک وہ اسی طرح آنکھیں بند کئے پڑی رہی۔ ٹوٹتی ہوئی رات اس کے پہلو سے گزرتی گئی۔

    کافی دیر کے بعد اس نے آنکھیں کھول دیں۔ شاید اس کا نشہ اتر چکا تھا۔ اس نے مجھے دیکھا۔ میں کرسی پر بیٹھا صبح کا اخبار پڑھ رہا تھا۔ وہ اٹھ بیٹھی ——

    ’’کیا ہوا تھا؟‘‘—— اس نے مجھ سے دریافت کیا۔

    میں نے اخبار ہٹا کر اسے دیکھا—— ’’کچھ تو نہیں ہوا۔ صرف تم اگلے جنم کی بات کر رہی تھی۔‘‘

    ’’اگلے جنم کی؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘ —— اسے حیرت ہوئی۔ اس نے سامنے ٹنگی ہوئی گھڑی پر نگاہ کی۔

    ’’بیس گھنٹے گزر چکے ہیں۔ اب تمہارے پاس صرف چار گھنٹے مزید بچ رہے ہیں۔ کیا تم اس چار گھنٹے کو بھی یوں ہی ضائع کر دو گے؟‘‘

    میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا —— ’’تم با بار وقت گزر جانے کی بات کیوں کر رہی ہو۔ وقت کا کام ہی ہے گزر جانا۔ یہ وقت بھی گزر جائےگا۔‘‘

    ’’گزر تو جائےگا لیکن تم نے اچھی خاصی رقم ادا کی ہے اور میرا استعمال نہیں کیا ہے تو مجھے لگےگا کہ میں نے یہ روپیہ حرام کا لیا۔‘‘

    ’’تم اپنے دل سے یہ خیال نکال دو۔ میں نے جو روپیہ ادا کیا ہے وہ تمہارے ساتھ وقت گزارنے کے لئے ادا کیا ہے اور وہ وقت تم نے گزارا ہے۔۔۔‘‘

    وقت دھیرے دھیرے گزر ہی جاتا ہے۔ نہ جانے کتنے واقعات، حادثات اور لمحات لے کر۔۔۔ ہم دونوں کے درمیان سے بھی وقت چپکے چپکے گزر رہا تھا اور وہ لڑکی اس لئے پریشان تھی کہ میں نے جس کام کے لئے۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ اس نے جس کام کے لئے مجھ سے روپئے لئے تھے وہ کام ابھی پورا نہیں ہوا تھا۔ وہ پلنگ پر خاموش بیٹھی نہ جانے کیا سوچ رہی تھی۔ میں نے خاموشی توڑی ——

    ’’ایک پیگ لوگی؟‘‘——

    اس نے میری طرف دیکھا —— ’’نہیں اب صبح ہونے والی ہے۔‘‘

    ’’جانتی ہو کچھ دیر قبل تم نے مجھ سے کیا کہا تھا؟‘‘

    ’’کیا کہا تھا؟‘‘

    ’’یہی کہ تم ہمیشہ کے لئے میری بن کر رہنا چاہتی ہو۔۔۔ صرف میری۔۔۔‘‘

    وہ خاموش رہی۔ نہ اس نے مسکرایا نہ میرے بات کی نفی کی۔

    ’’بہت دیر سے تم نے مجھے کسی نام سے نہیں پکارا۔۔۔‘‘

    اس نے اپنی نگاہیں میرے چہرے پر ٹکا دیں۔

    ’’اب تم اپنا نام خود طے کرو۔‘‘

    میں نے اس کی طرف دیکھا اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔ میں قدرے جھجکتے ہوئے کہا۔۔۔

    ’’میں تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں ہمیشہ کے لئے۔۔۔‘‘

    وہ لڑکی کچھ بولی نہیں اسی طرح خموش بیٹھی رہی۔ میں اٹھ کر اس کے پاس گیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر دروازہ کی طرف بڑھا لیکن اس نے ایک جھٹکے کے ساتھ اپنا ہاتھ چھڑا لیا اورانتہائی بوجھل لہجے میں میری طرف دیکھ کر کہا——

    ’’نہیں۔۔۔‘‘ کچھ دیر خموش رہی پھر بہت مضبوط لہجے میں کہا۔۔۔’’ ہوا، خوشبو اور روشنی قید نہیں کی جا سکتی مسٹر۔۔۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ دروازے سے باہر نکل گئی اور میں ہک بک اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ میری دی ہوئی رقم کے کمرے کے ایک کنارے کے ٹیبل پر پڑی۔ میرا منہ چڑا رہی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے