ہوس کی اولاد
کہانی کی کہانی
اس افسانہ میں افزائش نسل پر سوال قائم کیا گیا ہے۔ راہی اپنے دوست کرشن کو خط لکھ کر کہتا ہے کہ تم باپ بن گئے ہو جو کہ دنیا کا سب سے آسان کام ہے۔ لیکن میں اسے اولاد نہیں ہوس کی اولاد کہتا ہوں ۔ مجھے ایسے بچے سے نفرت ہوتی ہے جو شادی کے بعد یکجائی کے نتیجے میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ کرشن کی اس کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے کوئی مطلب نہیں ، وہ ان سب چیزوں سے بالا تر ہو کر اسے دوست رکھتا ہے۔ راہی کی زندگی یوں ہی دھوپ چھاؤں کی طرح گزرتی رہتی ہے پھر بنگلور میں اسے ایک لڑکی ملتی ہے جس سے اسے محبت ہو جاتی ہے اور وہ اس سے شادی کر لیتا ہے۔ وہ بچہ پیدا کرنا چاہتا لیکن اس کی بیوی کہتی ہے کہ مجھے بچوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
شادی کے قریب قریب گیارہ ماہ بعد ہمارے یہاں پہلا بچہ ہوا تھا اور کچھ دن بعد ہی راہی کا خط آیا تھا۔ خط آپ کے روبرو رکھنے سے پہلے میں راہی کے بارے میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ وہ میرا سب سے عزیز دوست ہے اور عجیب و غریب دوست ہے۔۔۔ خط یوں تھا،
کرشن، میرے دوست۔
تو تم باپ بن گئے ہو۔ میرے خیال میں کچھ بننے میں سب سے آسان باپ بننا ہے۔۔۔ ایک شخص اولاد پیدا کرنے کے ناقابل ہے۔ اپنی بیوی کا کسی اور سے ٹانکا جوڑ کر وہ باپ بن سکتا ہے۔ میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو بناسپتی باپ ہیں مگر تعجب ہے، وہ اپنی اولاد سے بےحد پیار کرتے ہیں۔
اچھا ایک بات بتاؤ۔۔۔ تمہیں اپنے بچے سے بہت پیار ہے۔ یہ بات میں آج تک سمجھ نہیں پایا۔۔۔ اگر میری شادی ہو جاتی ہے اور میں بھی تمہاری طرح چند ماہ بعد باپ بن جاتا ہوں تو مجھے اپنی اولاد سے سخت نفرت ہوگی کیونکہ وہ میری نہیں، ہوس کی اولاد ہوگی۔۔۔ مجھ میں ہوس ہے۔ اس ہوس کو مٹانے کے لئے میں شادی کا ڈھونگ رچاتا ہوں کیونکہ ہوس کی پیاس بجھانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں اور اگر ہے بھی تو مجھ میں ہمت نہیں۔ اور پھر میں باپ بن جاتا ہوں۔ کر رہا تھا میں اپنی ہوس کا مداوا مگر بن گیا باپ۔ اب وہ بچہ میری اولاد ہے۔ نہیں صاحب، میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا۔۔۔ اولاد، یعنی افزائش نسل بڑا مقدس جذبہ ہے، جسے ہوس سے کوئی علاقہ نہیں۔ مجھ میں ہوس ہے۔ پہلے میں اس پر قابو پاؤں گا۔ پھر جب مجھ پر افزائش نسل کا مقدس جذبہ پوری صحت سے حاوی ہو جائےگا، میں باپ بنوں گا اور اپنی اولاد کو باپ کا بھرپور پیار دوں گا۔
یاد رکھو کرشن، ہوس کی راہ میں پڑا ہوا بچہ، میرا بچہ نہیں ہے۔
اب یہ مجھے معلوم نہیں کہ ہوس کی بنیادوں پر لرزے ہوئے اس معاشرے کی عمارت کب گرےگی اور میری ہوس کب ختم ہوگی۔۔۔ یاد رہے، میری ہوس اور معاشرے کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
تمہارا اپنا
راہی
میں راہی کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتا مگر یہ بھی عجب ہے کہ میں آج تک اس کی کسی بات کو کاٹ نہیں پایا۔۔۔ اگر وہ محض باتیں ہی کرتا اور عملی طور پر عام دنیاوی آدمیوں کی طرح رہتا تو میں اسے گدی سے پکڑ لیتا مگر وہ رہتا بھی اپنے خیالات پر استوار کی گئی دنیا میں ہے۔
راہی سے میری ملاقات قریب پندرہ برس پہلے ایک ریستوراں میں ہوئی تھی۔ اس دن وہ موڈ میں تھا۔ اسے بات بات میں نشہ آ رہا تھا اور وہ بات بات پر تباہ ہو رہا تھا۔ کبھی وہ ہربنس کو ٹھوکا دیتا، کبھی پریم کے چٹکی لے لیتا۔۔۔ ہم پانچ چھ دوست تھے اور خوب زور و شور سے گپیں ہانک رہے تھے۔ راہی گپیں ہانکنے کے ساتھ ساتھ ریستوراں میں آتے جاتے لوگوں پر بڑے دلچسپ فقرے چست کر رہا تھا۔
ہمارے سامنے کی میز پر ایک کھدر پوش مہاشے، اپنی توند کو مشکل سے سنبھالے، آکر بیٹھ گئے۔ ان کے تیل میں چپڑے ہوئے سیاہ لچھے دار بال ان کی گردن پر جھول رہے تھے۔ میرا خیال ہے، ان کی شبیہ کے بارے میں کچھ لکھنے سے بہتر یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ وہ جسمانی طور پر دوسرے سمپورنانند تھے۔
راہی کی نظروں میں وہ شبیہ کھپ نہ سکی۔ کوئی فقرہ چست کرنے سے پہلے اس نے ہربنس سے پوچھا، ’’کون ہے یہ گردھر گوپال؟‘‘
ہربنس نے کہا، ’’ہوگا کوئی تیلی واڑے کا حلوائی!‘‘
تب راہی نے فقرہ چست کیا، ’’حلوائی ہوتا تو دریبے میں جلیبیاں بیچ رہا ہوتا۔۔۔ اپنی راشٹریہ بھاشا کے مہا کوی کو نہیں پہچانتے!‘‘
’’مہاکوی‘‘ کے لقب پر اس زور سے قہقہہ اٹھا کہ ہال میں بیٹھے ہوئے سب لوگ ہماری طرف تعجب اور غیر پسندیدہ نظروں سے دیکھنے لگے۔
’مہاکوی‘ والی بات ہربنس کو کھا گئی، اس لیے کہ وہ ہندی میں کہانیاں لکھتا تھا۔ وہ قدرے سنجیدہ ہو گیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ راہی کو آڑے ہاتھوں لینے کے لئے موقع دیکھ رہا ہے۔
بہت دیر تک ہم اسی طرح لطف لیتے رہے اور جب کچھ دیر بعد ہم سب خاموش ہوئے تو ہربنس نے یکایک راہی سے پوچھا، ’’بھئی ایک بات تم نے آج تک نہیں بتائی۔۔۔ تمہارا اچھا خاصا ماں باپ کا رکھا ہوا نام ہے، پھر تم نے یہ ’راہی‘ کا فراڈ کیوں رچایا ہوا ہے؟‘‘
ایک لمحے کے لئے راہی کی آنکھیں سکڑ گئیں۔ میں نے غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں سکڑ کر بہت چھوٹی ہوگئی تھیں اور اندر کو دھنس گئی تھیں۔ اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے ابھر آئے تھے۔ کوئی چبھتی سی بات سن کر اس پر اس طرح کا رد عمل میرے لیے حیران کن تھا۔۔۔ دوسرے لمحے ہی اس کے لبوں پر وہی تیکھی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کی آنکھیں پھر باہر کو نکل کر جھانکنے لگیں اور اس کے لبوں کی طرح متوازن ہنسی ہنسنے لگیں۔۔۔ میں نے یونہی سوچا، اس شخص کے ذہن کے نہاں خانوں میں ہلکی پھلکی، تیکھی تیز طرار اور زہر میں بجھی ہوئی باتوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ بوقت ضرورت اس کی آنکھیں ان نہاں خانوں میں غوطہ زن ہوتی ہیں اور کوئی مناسب جواب ڈھونڈ لاتی ہیں جو جواب کے طور پر یہ دوسرے کے منھ پر دے مارتا ہے۔
راہی نے اطمینان سے جواب، ’’یار، یہ سب بچپن اور جوانی کی غلط کاریوں کا نتیجہ ہے۔۔۔‘‘
’’غلط کاریوں‘‘ کے استعمال پر مجھے ہنسی آ گئی۔
راہی کہہ رہا تھا، ’’اسکول اور کالج کے زمانے میں ہر نوجوان کی طرح مجھے بھی شاعری کے کیڑے چپک گئے اور میں راہی بن گیا۔۔۔ ویسے میں نے کئی بار سنجیدگی سے ہربنس کی طرح کئی خاندانی شفاخانوں سے علاج کروایا ہے۔‘‘
اس دن واقعی وہ زبردست موڈ میں تھا۔
ہربنس نے میرے کان میں کہا، ’’اگر اب اس کا موڈ کسی وجہ سے فنا ہوگیا تو خدا کی قسم، اس کی باتوں سے سب کے موڈ کا اسقاط ہو جائےگا۔‘‘
ہربنس کی بات سن کر میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ راہی کا موڈ کسی طرح فنا ہو جائے۔ میں اسے بکھرا ہوا دیکھنا چاہتا تھا۔ اب اسے اتفاق ہی کہئے، یا یوں کہئے کہ خدا شکر خورے کو شکر دیتا ہے، راہی کا موڈ فنا ہو گیا۔
میں راہی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا اور اس کی ہر بات، ہر حرکت، ہر رد عمل کو غور سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ یکایک راہی کی ہنستی ہوئی آنکھیں بجھ گئیں۔ اس کے لب مرجھا گئے اور اس کے چہرے پر زردی چھا گئی۔ اس کی آنکھیں سُکڑ کر پھر اندر کو دھنس گئیں۔ اس کی کشادہ پیشانی پر بل پڑ گئے، جیسے کسی نے تانبے کے تاروں کو بل دے دیا ہو۔ اس کی پیشانی کی شکنوں پر بڑا بھیانک تناؤ تھا۔۔۔ اس کی نگاہیں ہم سب کو چیرتی ہوئی میری پشت کی کسی میز پر مرکوز تھیں۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں، اگر میں اس وقت راہی کی نگاہوں کا مرکز ہوتا تو فوراً وہاں سے بھاگ جاتا۔ اس کی نگاہیں آگ تھیں جس کی زد سے بچنا ناممکن تھا۔
میں نے اپنی پشت کی جانب منھ پھیر کر دیکھا۔
راہی کے سامنے کی سیٹ پر ایک بڑی حسین عورت آن بیٹھی تھی۔ گہنے پاتوں سے لدی اور سہاگ کا جوڑا زیب تن کیے وہ نئی نئی بیاہی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ وہ حاملہ تھی اور تقریباً پورے دنوں سے تھی۔ ساڑھی کو ڈھنگ سے باندھنے کے باوجود اس کا ابھرا ہوا پیٹ اس بات کی چغلی کھا رہا تھا۔ اس کا چست اور باریک بلاؤز اس کی بھری بھری چھاتیوں کو سنبھال نہ پا رہا تھا۔ اس کا جوبن قدرے ڈھلک رہا تھا اور ابھرے ہوئے پیٹ کے سہارے تھما ہوا تھا۔
میں نے راہی کی طرف پھر غور سے دیکھا۔۔۔ وہ بیمار سا دکھائی دے رہا تھا اور منہ بنا رہا تھا۔ جیسے ابھی اس نے کونین یا کوئی اور کڑوی دوا حلق سے نیچے اتاری ہو اور اس کی زبان کا ذائقہ کسیلا ہو گیا ہو اور وہ تھوکنا چاہ رہا ہو۔
میں۔ اس کی کرب ناک صورت دیکھ رہا تھا۔
جب وہ برداشت نہ کر سکا تو پھٹ پڑا، ’’خدا کرے، یہ عورت یہیں ریستوراں میں ماں بن جائے اور اسے ماں بننے کے عمل کی تکلیف سے زیادہ شرم سے گڑ جانے کا احساس زندگی بھر ستائے۔ پیٹ میں ہوا بھر کر ڈھنڈورا پیٹنے سے بہتر تو یہ ہے کہ یہ باقاعدگی سے اپنے خاوند کے گلے میں ڈھول باندھ دیتی اور اسے کہتی کہ ڈھول بجاؤ اور لوگوں کو بتاؤ کہ میں ہوس کی اولاد کو جنم دینے والی ہوں۔۔۔ میں اگر فرانس میں ہوتا تو اس عورت کو عدالت میں گھسیٹ کر لے جاتا اور چلا کر انصاف مانگتا کہ اس عورت کو میری جمالیاتی حس پر بار بننے کی جرأت کیسے ہوئی۔۔۔ پوچھو اس سے۔ اس کی شادی کو مشکل سے نو ماہ ہوئے ہوں گے اور جب نو ماہ پہلے یہ اپنے خاوند کے لحاف میں گھسی تھی، اس وقت کیا اس کے یا اس کے خاوند کے تصور میں کوئی بچہ رینگ رہا تھا۔ اس وقت تو دونوں کا جسمانی تناؤ ہوس کے کیڑے لیے منتظر بہ عمل تھا اور اب یہ اس ہوس کی اولاد کو پیٹ میں بھر کر، گھر گھر گلی گلی نعرے لگا رہی ہے کہ میرا خاوند نامرد نہیں ہے اور میں بانجھ نہیں ہوں۔۔۔
لعنت ہے اس سماج پر جہاں جمالیاتی حس کا رتی بھر احساس نہیں۔۔۔ اٹھارہ سال کی لڑکی اور ماں اور پھر چند سال بعد پیٹ ہے تو پیاری اولاد کے پنجوں کی چرسوں سے مجروح ہے، چھاتیاں ہیں تو سوکھی سڑی ٹہنیوں کی طرح ہل رہی ہیں یا پھر دنبے کی بوجھل تھیلی کی طرح لٹک رہی ہیں، گالوں پر ہڈیاں ہیں اور خاوند رات رات بھر رنڈیوں کے پاس پڑا رہتا ہے۔۔۔ اور اب دیکھو، اپنے حسن پر ظلم ڈھا رہی ہے۔ دیکھو سالی کی چھاتیاں، جیسے اوندھے گھڑے پر اوندھا لوٹا رکھا ہو۔ تھو۔۔۔!‘‘
اس اوقت مجھے اچھی طرح یاد ہے، میرے من میں خیال آیا تھا کہ اگر راہی کی کڑوی اور کانٹے دار باتیں وہ حاملہ عورت سن لیتی تو اس کے پورے دنوں کے حمل کا اسقاط بھی ہو جاتا۔
راہی کی آواز میں تبدیلی آ گئی تھی۔ اس کے الفاظ کانٹے تھے اور اس کی آواز کراہ تھی۔ اس کے ہاتھ شدت سے ہل رہے تھے، آنکھوں کی پتلیاں ناچ رہی تھیں اور وہ اپنے ہونٹ بری طرح کاٹ رہا تھا۔۔۔ اس وقت اسے دیکھ کر میں نے یہ تاثر قبول کیا کہ کیا حوصلہ ہے، خود اپنی ذات کے گرد کرب کی دیواریں کھڑی کر کے ان میں رہنا کتنا مشکل ہے۔۔۔ میں راہی کے خیالات سے اس وقت بھی اتفاق نہیں کر پایا تھا، مگر مجھے ان خیالات کی صحت پر وشواس ہو رہا تھا۔ ہو سکتا ہے، اس کی وجہ راہی کی بگڑی ہوئی حالت ہو جس نے مجھے متاثر کیا تھا۔
ہم فوراً ہی ریستوراں سے باہر اٹھ آئے۔
ہربنس نے میرے کان میں کہا، ’’ہے نا اوندھی کھوپڑی!‘‘
تھوڑی دیر بعد سب بجھے بجھے سے چلے گئے۔
مجھے راہی کی ذات میں زبردست دلچسپی پیدا ہو گئی تھی، اس لیے میں اس کے ساتھ رہا۔۔۔ وہ خاموش تھا۔ کبھی اس کے ماتھے پر بل پڑ جاتے اور کبھی اس کے ماتھے پر شکنوں کے ہلکے سے نشانات خون کی گردش میں دکھائی دیتے۔
ہم کناٹ پلیس کے اندرونی برآمدوں کا طواف کر رہے تھے۔۔۔ اسی طرح بے مقصد گھومتے۔ جب بہت دیر ہو گئی تو میں نے ہمت سے کام لے کر اس سے پوچھا، راہی کیا تم مجرد ہو؟‘‘
وہ بڑے زور سے چونکا اور پھر ایک دم ٹھنڈا ہو گیا جیسے اسے اپنا نقطہ نظر سنجیدگی سے بیان کرنے کا موقع اتفاقا مل گیا ہو۔
اس نے جواب دیا، ’’نہیں۔۔۔ مجھ میں شدید حرارت ہے۔‘‘
میں نے ہر لحاظ اور آداب کو بالائے طاق رکھ کر پھر پوچھا، ’’تو یہ حرارت کہاں خارج ہوگی۔۔۔ کیا تم رنڈی کے پاس جانے کے قائل ہو؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ رنڈی کے بارے میں سوچتے ہی مجھے سوگندھی یاد آجاتی ہے۔‘‘
’’تو پھر؟‘‘ میں نے اس کے اندر جھانکنے کی ٹھان لی تھی۔
’’بات یہ ہے کہ میں ابھی کچھ طے نہیں کر پایا۔ مجھے دلی کی آب و ہوا راس نہیں آ رہی ہے۔ کوئی جگہ ہے یہ۔ گرمیوں میں سخت گرمی اور سردیوں میں سخت سردی۔ رگیں ہیں کہ ہر وقت تنی رہتی ہیں۔۔۔ میں کسی معتدل آب و ہوا کے علاقے میں جانا چاہوں گا۔ میرا ارادہ بنگلور جانے کا ہے۔ پھر میں کوشش کروں گا کہ مجھے کسی بڑے ہسپتال میں جگہ مل جائے۔ میری جنسی تسکین اسپتال کی تیزابی فضا میں، ممکن ہے، ہو جائے!‘‘
’’اسپتال میں جنسی تسکین؟ میں سمجھا نہیں!‘‘ میں نے اسے کریدا مگر وہ میری دانستہ کرید کو جان گیا تھا۔
’’لو تو صاف صاف سنو۔ میرا ارادہ ڈاکٹروں سے اور نرسوں سے تعلقات قائم کرنے کا ہے۔۔۔ ان کا جنسی علم تسلی بخش ہوتا ہے۔‘‘
میں نے کہا، ’’یہ تو بڑا ذلیل نظریہ ہے۔۔۔ تم ایک جان کن پیشے کے افراد کے بارے میں بڑی غلط رائے رکھتے ہو۔‘‘ مجھے واقعی دکھ ہوا تھا۔ راہی نے میرے جذبات کا اندازہ لگانے کے بعد کہا، ’’نہیں دوست، تم مجھے غلط سمجھ رہے ہو۔ اس بیمار سماج میں تعلقات کہاں قائم نہیں کیے جا سکتے۔۔۔ ان کے یہاں تو حفاظت اور سمجھ کا بڑا پیارا امتزاج ہوتا ہے۔‘‘
ہم بہت رات گئے تک آوارہ گھومتے رہے۔۔۔ اس پہلی ملاقات میں مجھے ایک بڑے زبردست شخص کا قرب حاصل ہوا تھا، اس لیے میں اس سے بچھڑنا نہیں چاہتا تھا۔
اس پہلی یادگار ملاقات کے بعد راہی کے ساتھ چند اور ملاقاتیں ہوئیں، جن میں کبھی زندگی سے بھرپور قہقہے تھے اور کبھی دل کا خون لیے ہوئے آنسو۔۔۔ پھر پہلی ملاقات کے قریب چھ ماہ بعد راہی اپنے ماموں کے پاس بنگلور چلا گیا۔
میری شادی اور پھر میرے یہاں بچہ ہونے اور راہی کے بنگلور جانے کے درمیان کوئی تین برس کی مدت حائل ہے۔ ان تین برسوں میں راہی کے ساتھ خط و کتابت رہی۔ اس نے مجھے بہت سے خط لکھے، جن میں سے دو خطوں کے کچھ حصے آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں، کیونکہ ان کا اس کہانی کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
پہلا خط اس نے بنگلور پہنچنے کے قریب چھ ماہ بعد لکھا تھا۔۔۔ وہ لکھتا ہے، ’’بنگلور بڑا پیارا شہر ہے۔ دن بھر ہلکی ہلکی گرمی رہتی ہے۔ تمام دن قمیص پتلون پہنے گھومتا رہتا ہوں اور بیئر پیتا رہتا ہوں۔۔۔ رات کو فضا میں ہلکی سے خنکی پیدا ہو جاتی ہے اور طبیعت کھل جاتی ہے۔ وہسکی کے دو پیگ پی کر ماموں کے بنگلے کے دالان میں آرام کرسی پر نیم دراز ہو جاتا ہوں اور چے خف کو پڑھتا رہتا ہوں۔ موپاساں نے میری رگیں اینٹھ دی تھیں۔ چے خف میرے دماغ پر بڑی پیاری اور بڑی خنک شبنم برسا رہا ہے۔۔۔ مجھے بھوک خوب لگتی ہے اور میری صحت بھی اے ون ہے۔ ہاں کبھی کبھی کوئی رات کروٹیں بدلتے ہی گزرتی ہے۔ جس آگ میں جل رہا ہوں، وہ اس طرح تو ختم نہیں ہوتی نا۔۔۔ ماموں کوشش کر رہے ہیں، شاید میں جلد ہی ہسپتال میں ملازم ہو جاؤں۔ ڈپلوما ان لیبارٹری ٹکنیک تو میرے پاس ہے ہی۔۔۔‘‘
دوسرا خط اس نے قریب دو برس بعد لکھا تھا۔۔۔ لکھتا ہے، ’’پہاڑوں میں بسا پڑا خوبصورت ہسپتال ہے۔ شام کو کبھی ڈولی کے ساتھ، کبھی پریما اور کبھی مارگیٹ کے ساتھ کسی پہاڑی کے دامن میں سمٹی ہوئی جھیل پر چلا جاتا ہوں۔ میرے جسم کی طنابیں بتدریج ڈھیلی ہو رہی ہیں۔ کون جانے، یہ جوانیاں میرے لئے ایندھن کا کام دے رہی ہیں، یا میں ان کے لئے۔۔۔ کوئی ہوس کی اولاد، راہ میں حائل نہیں۔ جسمانی تقاضے اور سمجھداری، تسکین کا روپ ہیں۔۔۔ جب انہیں چومتا ہوں، جب ان کی چولی میں ہاتھ ڈال کر ان کی چھاتیاں مسلتا ہوں، جب ان کی صندلی پنڈلیاں سہلاتا ہوں تو ان کی سپردگی کے عالم میں زندگی کی انجانی لذتیں پھوٹ پھوٹ پڑتی ہیں۔۔۔ بس یوں سمجھ لو، میری بے چین طبیعت متوازن ہوتی چلی جا رہی ہے۔۔۔‘‘
اس خط کے بہت دنوں بعد راہی نے مجھے وہ خط لکھا جو میں نے کہانی کے شروع میں آپ کے روبرو رکھا ہے۔۔۔ ابھی تک راہی کے خیالات میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
اس طرح قریب پندرہ برس گزر گئے۔۔۔ راہی کے خط آتے رہے۔ بہتر ہے میں یوں کہوں کہ حوصلہ افزا خط آتے رہے۔۔۔ ان خطوط سے میں جو کچھ جان پایا ہوں، مختصراً اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہوں۔
راہی، بنگلور میں ڈولی اور پریما اور دوسری بہت سی ڈاکٹروں اور نرسوں سے ٹانکا جوڑے دن گزار رہا تھا۔ اس کی طبیعت میں اب وہ الجھاؤ نہیں رہا تھا جو پہلے اس کی طبیعت کا خاصہ تھا اور جس کی وجہ سے وہ ذہنی کرب میں مبتلا رہتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسے بنگلور میں من مطابق جنسی آسودگی میسر تھی۔ پھر اس کی صحت بھی بن گئی تھی جو کبھی اس کے لئے احساس کمتری کا باعث تھی۔۔۔ اس کے ماموں کی جیپ اس کے پاس تھی۔ اکثر وہ اپنا وقت گھومنے میں گزارتا تھا۔ اس طرح اس کے ذہن میں جو گرد تھی، وہ بیٹھ گئی تھی۔۔۔ پہاڑوں پر باغوں میں، جھرنوں پر اور آبشاروں پر وہ اپنا کھویا ہوا قلبی سکون پا چکا تھا۔ اس کے چہرے کی رنگت نکھر گئی تھی۔ اس کے بال کنپٹیوں پر سفید ہو گئے تھے اور اس کے توانا چہرے پر بھلے لگتے تھے۔۔۔
اس طرح قریب چالیس برس کی عمر میں وہ اپنی طبیعت کے عین مطابق خارجی حالات سے اور اپنی حسین اور مکمل جنسی آسودگی سے ایک صحت مند اور متوازن آدمی بن پایا تھا۔۔۔ اب اس کی صحت مند زندگی میں ایک کسک پیدا ہوئی۔ نتیجے کے طور پر وہ ہسپتال کی ایک مریضہ سنتوش کے عشق میں گرفتار ہو گیا۔ سنتوش دبلی، پتلی، نازک مزاج، تعلیم کے زیور سے آراستہ، اکیس سالہ خوبصورت لڑکی تھی۔ سنتوش کا حسن بیمار، راہی کے لئے باعثِ ٹھنڈک تھا۔ جب وہ حریری ملبوس میں ہسپتال کی روش پر خراماں خراماں چہل قدمی کرتی تو راہی کے من میں، پہاڑ کی برف سے ڈھکی ہوئی چوٹی پر، ویران سے ڈاک بنگلے میں رہنے کی خواہش پیدا ہوتی، جہاں نرم نرم بستر پر وہ سنتوش کو آغوش میں لیے بیٹھا ہو، اس کے ٹھنڈے جسم کی مدھم آنچ محسوس کر رہا ہو اور زیر لب فراق کی رباعیاں گنگنا رہا ہو۔۔۔ اسی جذبے نے شدت پکڑ کر اسے ازدواجی زندگی کے راستے پر کھڑا کر دیا۔ اس کے من میں بچے کی آوازیں، چیخیں، مسکراہٹیں، دکھ سکھ ابھرنے لگے۔۔۔
اس نے سنتوش سے شادی کر لی اور مجھے لکھا، ’’میں انتقاماً ہنی مون منانے دلی آ رہا ہوں۔ میں تمہاری دلی میں پہلا نارمل آدمی ہوں گا جو بچے کی تمنا کی پرورش اپنے دل کی دھڑکنوں سے کرتا ہے۔‘‘
دلی میں راہی ہمارے یہاں ٹھہرا، شاید انتقامی جذبے کے تحت۔
اس کی بیوی سنتوش کے بارے میں صرف اتنا کہوں گا، وہ گلابی رنگ کی گڑیا سی تھی۔
پہلی رات گزارنے کے بعد راہی صبح صبح میرے کمرے میں آیا۔ وہ بہت حسین دکھائی دے رہا تھا، مگر بیمار سا بھی۔
میں نے پوچھا، ’’کیوں، بیمار ہو کیا!‘‘
وہ کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر اس نے کہا، ’’نہیں یار۔۔۔ سنو، ایک زندگی سے بھرپور لطیفہ سنو۔۔۔ وہ رات بہت دیر تک میری گود میں بیٹھی رہی اور جب میں اسے گود میں لیے بستر کی طرف بڑھا، وہ جھینپی اور پھر دھیمے سے کہنے لگی، ’’مجھے۔۔۔ مجھے بچوں میں کوئی دلچسپی نہیں!‘‘
راہی کی آواز لرز سی گئی۔ پھر اس نے بڑی دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ’’یار، اس حسین شکست کے سہارے میرے زندگی کے باقی دن خوبصورتی سے گزر جائیں گے۔۔۔ کیا خیال ہے تمہارا؟‘‘
مجھے رشک آ رہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.