Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حنائی انگلیاں

مہندر ناتھ

حنائی انگلیاں

مہندر ناتھ

MORE BYمہندر ناتھ

    کہانی کی کہانی

    ایک ایسے فرد کی کہانی، جسے اپنی کالو کلوٹی بیوی بالکل بھی پسند نہیں ہے۔ مگر اسے اس کی حنائی انگلیاں بہت پسند ہیں۔ ان انگلیوں کو ہر طرح سےمحفوظ رکھنے کے لیے وہ اپنی بوڑھی ماں سے بھی کام کرانے سے باز نہیں آتا ہے۔ اس کے بعد بھی وہ طوایفوں کے کوٹھوں اور یاروں کی محفلوں میں ہمیشہ جاتا رہتا ہے۔

    کیا کرتے ہو راجندر بھیا۔۔۔؟ کچھ نہیں بی اے پاس کر چکا ہوں۔۔۔ اب کیا کر رہے ہو۔۔۔ ایم اے کی تیاری کر رہا ہوں۔۔۔ پھر کیا کروگے، بی اے کا امتحان پھر دوں گا۔۔۔ آہا۔۔۔ آہا۔۔۔ آہا۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔

    سالی نوکری نہیں ملتی۔ بہت کوشش کر چکا ہوں، جھوٹ بکتے ہو، رات دن گھر میں رہتے ہو اور اپنے ماں باپ کا خزانہ خالی کر رہے ہو اور پھر کہتے ہو بہت کوشش کر چکا ہوں، تم کیا کوشش کروگے، تم میں کام کرنے کی صلاحیت ہی نہیں، تم کام کر ہی نہیں سکتے، جو کام کرنا چاہتے ہیں، وہ کام لے آتے ہیں۔۔۔ تم کاٹھ کے الو ہو، تم کیا کروگے، بوٹ پالش کرو بوٹ۔۔۔ سنا تم نے۔۔۔ کیا کبھی کسی سے ملنے گئے۔۔۔ کسی کی سفارش حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے۔۔۔ کسی کے ہاں جوتیاں چٹخائیں، کسی کے لڑکے کو مفت پڑھایا، کسی کی چاپلوسی کی، کسی کی تعریف میں قصیدے پڑھے اور پھر کہتے ہو بہت کوشش کر چکا ہوں، جاہل بےوقوف۔۔۔ کیا نوکری اسی طرح ملا کرتی ہے، آج کل کے لڑکے کام تو کرتے نہیں، وہ تو چاہتے ہیں کہ بیٹھے بٹھائے کوئی کام مل جائے، ہزاروں کی تھیلی ہاتھ میں آ جائے اور پھر وہ گلچھرے اڑائیں، ناک سے دھواں نکالیں، سنیما دیکھیں اور نسبت روڈ پر لڑکیوں سے دل لگی کریں، بدمعاش، شہدے کہیں کے۔

    میری طرف نہیں دیکھتے، سوکھ کر کانٹا ہو گیا ہوں، جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا ہے، یہ کس طرح ہوا، تمہاری طرح ہی تھا۔ موٹا۔۔۔ تازہ۔۔۔ آنکھوں میں چمک تھی، جسم گوشت سے بھرا ہوا تھا۔۔۔ چہرے پر دلآویزی تھی۔۔۔ کیا مر گئی۔۔۔؟ کیا گیا۔۔۔؟ جونک پی گئی۔۔۔! کہا نہ تھا، محنت کرو خوب دل لگا کر پڑھو۔۔۔ ایم اے میں سکینڈ ڈویژن لو، تم کیا جانو نوکری کس طرح ملتی ہے، جاؤڈنڈ پیلو، اکھاڑےمیں جاؤ، مالش کرو۔۔۔ آئے پڑھنے اور پھر کہتے ہو نوکری نہیں ملتی۔۔۔

    کام کرنے سے نوکری ملتی ہےمیاں! پروین گھوش کی طرح، آنکھیں اندر دھنس چکی ہیں، چھاتی دکھتی ہے۔۔۔ پھپھیڑوں سے خون آتا ہے، گورنمنٹ نے انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی ہے اور ایک ہزار روپے ماہوار تنحواہ دےگی، سولن جا رہے ہیں، ایسے نوکری ملتی ہے۔ تمہیں تپ دق چاہیے۔۔۔ یا نوکری۔۔۔ آہا۔۔۔ آہا۔۔۔ اوہ۔۔۔ ہو۔۔۔ تپ دق جاؤ۔۔۔ سولن وارڈ میں رہو اور لوگوں سے پوچھو کہ انھیں کیوں تپ دق ہو گیا۔۔۔ وٹامن کھانے کو نہیں ملتا۔۔۔ دودھ پینے کو نہیں ملتا اور صاف ہوا سانس لینے کو نہیں ملتی، نوکر ہوکر کیا کروگے۔

    شادی کروگے، کیا تمھیں دنیا میں اور کوئی کام نہیں، نوکری کے بعد شادی عورت۔۔۔ عورتیں تو بازار میں پھرتی ہیں، کسی ایک کو پکڑ لو۔۔۔ ارے جوتیوں سے ڈرتے ہو، جوتیوں سے یا موت سے، مرے اللہ غلام بھی کوئی نہ ہو۔۔۔ عورت سے ڈرتے ہو، غلام کہیں کے، آزادی نہیں ملتی، ملے کیوں کر۔۔۔ اچھا آؤ، ایک اور راستہ دکھاؤں، جاؤ اس بازار میں جہاں عورتیں بکتی ہیں، سمجھ گئے، میں کئی بار گیا ہوں، جب تک شادی نہیں کی تھی، ہر روز جاتا تھا، ارے کیا کہا سوزاک، سوزاک سے ڈرتے ہو، دہلی کا دواخانہ موجود ہے، کویراج شامداس موجود ہے پاگل! خود میرے پاس ایک مجرب نسخہ ہے، ایک دن میں پیپ جلن بند، ایک بار مجھے بھی ہوا تھا، سنا تم نے، سوزاک نہیں، آتشک، کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔۔ خون خراب ہو جاتا ہے جسم پر پھوڑے نکل آتے ہیں اور پھر۔۔۔ پھر۔۔۔ علاج کراؤ تو مکتی مل جاتی ہے، کتنا سہل طریقہ ہے مکتی حاصل کرنے کا عورت کے ذریعے مکتی۔

    کیا کہا کوڑھ ہو جائےگا، کوڑھ سے ڈرتے ہو، ارے میاں تم بہت ڈرپوک ہو، ہر وز جذامیوں کو راستے میں لیٹے ہوئے دیکھتے ہو اور پھر بھی ان سے ڈرتے ہو، میں سمجھ گیا تم عورت سے ڈرتے ہو، تم نروان حاصل کرنا نہیں چاہتے، میں۔۔۔ میں۔۔۔ چھ بچوں کا باپ ہوں اور بچّوں کو میں نے آتشک دیا ہے، ایک کی آنکھیں اندھی ہو گئی ہیں اور دوسرے کی ٹانگیں ٹیڑھی ہو گئی ہیں اور میری بیوی کو بھی آتشک ہو گیا ہے، لائلپور لے گیا تھا، لیڈی ڈاکٹر کہنے لگی۔

    تم اچھی لڑکی ہو، ٹمارا کوئی کسور نہیں، سارا تمھارے خاوند کا قصور ہے وہ بدمعاش ہے، تم مت رو، اچھا ہو جائےگا، خدا غارت کرے اس لیڈی ڈاکٹر کو، ارےمیری بیوی کو اچھا کر دیا کیوں۔۔۔ مجھے اپنی بیوی سے نفرت ہے، کتنی بدصورت ہے میں ایک آرٹسٹ ہوں، مجھے خوبصورتی پسند ہے، خوبصورت عورتیں، گول گول مکھن کی طرح سپید بازو، دلکش نکھری ہوئی رنگت، آنکھیں جیسے، کیا کہا، کوئلے کی طرح کیا کہا، مرگئی۔۔۔ نہیں نہیں، میری بیوی زندہ ہے اور میں بھی زندہ ہوں۔ لیکن پھر بھی اس بازار میں جاتا ہوں، جہاں عورتیں بکتی ہیں، اجناس کی طرح، تم کہتے تھے، کہ جانا بند کر دیا۔۔۔ جھوٹ بکتا تھا، مجھے حسن چاہیئے، خوبصورت عورتوں کے بغیرمیں زندہ نہیں رہ سکتا۔

    کیا کہا آس پاس کے گلی کوچوں میں، ارے بھئی نہیں۔۔۔ شریف آدمی پھانس سکتے ہیں، میں رات کے اندھیرے میں جاتا ہوں، لوگ رات کو جاتے ہیں، میں ایک اچھے عہدے پر فائز ہوں، کیا کہا، رات کو جاؤں، ہاں سمجھ گیا تمھاری چالاکی، دفتر سے نکلوانا چاہتے ہو اور میری جگہ حاصل کرنا چاہتے ہو، کبھی نہیں، میں دن کو جاؤں گا، رات کو بدمعاش جاتے ہیں، میں شریف ہوں، میں نے شادی کی ہوئی ہے، میرے بال بچّے ہیں، میں دن کو جاتا ہوں۔

    اوہ۔۔۔ تم نے مس شمسی نہیں دیکھی، خدا کی قسم۔۔۔ نری مورت ہے، سونے کی مورت، تم کیا جانو۔۔۔ اس میں کتنی کشش ہے، اس کی گول گول بانہوں میں کتنی لطافت ہے، اس سپید سپید۔۔۔ مرمریں ہاتھوں میں کتنا سکون ہے اور پھر مس جلو۔۔۔ اف اس کی آنکھیں! تیر کی طرح کلیجہ میں پیوست ہو جاتی ہیں اور ہاں یاد آیا مس بانوں۔۔۔ خدا اس کی عمر تگنی کرے۔ ارے دیکھولوٹ پوٹ ہو جاؤ، اسے مجھ سے کتنی محبت ہے، بے انداز محبت۔۔۔ ایک دن میں اس کے کوٹھے پر ایک ہفتے بعد گیا، کہنے لگی میں تجھ سے محبت کرتی ہوں، حرام زادے تو۔۔۔ تو دوسری رنڈیوں کے پاس جاتا ہے، بتاؤ مجھ میں کیا کمی ہے، کیا تم مجھے حیوان سمجھتے ہو، کیا میں محبت نہیں کر سکتی، کیا میں جذبات سے مبّرا ہوں، کیا میں محسوس نہیں کر سکتی، حرامی، گدھے، میں کتنے عرصے سے تیرے فراق میں گھل رہی ہوں، آج چڑھا ہے میرے ہاتھ۔۔۔ میں تمھیں خوب پیٹوں گی۔۔۔ کیوں جاتے ہو کسی کے گھر، بولو، کہو، نہیں نہیں، معاف کر دو، اب کبھی نہ جاؤں گا، اب کہیں نہ جاؤں گا، اب معاف کر دو۔

    لیکن اس نے میرا بوٹ چھپا لیا اور کہنے لگی جاؤ۔۔۔ مردود۔۔۔ بے حیا۔۔۔ دوسری رنڈیوں کے پاس جاتا ہے، میں نے اس کے پاؤں پکڑ لئے، خدارا کیوں دفتر سے نکلواتی ہو، کہاں جاؤں ننگے پاؤں، ننگے سر کسی نے دیکھ لیا تو۔۔۔ کہہ دینا کہ پاگل ہو گیا ہوں، حیوان ہوں، کیا کہا۔۔۔ میں پاگل ہوں، کیا میں پاگل ہوں، میں بالکل پاگل نہیں ، ہجڑا ہوں، ہجڑا، نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں میرے چھ بچے ہیں، مجھے کون ہجڑا کہتا ہے، میں چھ بچوں کا باپ ہوں۔

    اور میں بھول گیا، تم بھی چلوگے، ارے بھئی ایک اور پرانی واقف کار آئی ہیں بالکل نئی، رالپنڈی سے آئی ہے، دیکھو تو تڑپ اٹھو، کانوں میں چمکتے ہوئے آویزے، بانہوں میں سبز رنگ کی چوڑیاں اور بدن پر سرسراتی ہوئی آسمانی رنگ کی ساڑی، کاش تم اسے دیکھ سکو، اوہ تم بازار جانے سے ڈرتے ہو، عورتوں سے، مردوں سے، بڑے آدمیوں سے، بچوں سےاور اپنے آپ سے بھی، چلو میرے ساتھ، اس نے ایک محلہ میں جگہ لی ہوئی ہے، میں ہر روز، وہاں جاتا ہوں، کوئی پوچھتا ہے تو کہتا ہوں کہ میرے رشتہ دار کا گھر ہے، میرے ماموں کی لڑکی رہتی ہے، میری سالی رہتی ہے، ہنس رہے ہو، کیا کہا۔۔۔ روپیہ نہیں۔۔۔ پاگل چوری کرو، ڈاکہ ڈالو، پولیس سے ڈرتے ہو۔

    ارے ارے ہر آدمی سے ڈرتے ہو، تم تو خوف سے بھی خوف کھاتے ہو، کیا کہا۔۔۔ بیماری، بیماری سے ڈرتے ہو، ڈاکٹروں سے ڈرتے ہو، اٹھو چلو بھی، کتنے عرصے سے تمھارے یہاں بیٹھا ہوا ہوں، کچھ تو خیال کرو، دنیا دیکھ لو، میاں ارے ارے رو رہے ہو، بیماری۔۔۔ بیماری اتنا بھی کیا ڈر، دیکھو میں بھی بالکل تندرست ہوں، صحت مند ہوں، کیا ہوا، کہ جسم پر گوشت نہیں، کیا ہوا کہ ایک قلم کی طرح دبلا پتلا ہوں، دیکھ سانس برابر آ جا رہی ہے، ہر روز روٹی کھاتا ہوں اور تم کیا کرتے ہو، دن رات گھر پر پڑے رہتے ہو، مکھیاں مارتے ہو، ہوش کی دوا کرو، راجیندر بھائی۔

    گھر گھر۔۔۔ میاؤں میاؤں، کون بول رہا ہے، اختر بھائی، بلیاں، بلیاں ارے چوہے کہاں ہیں، ارے چوہے کہاں ہیں! وہ تم یہ بھی نہیں دیکھتے، تمھارے سامنے، تمھارے آگے، تمھارے دائیں بائیں، اوپر نیچے، ہر روز دیکھتےہو، گلیوں میں، بازاروں میں، ارے ۳۵ لاکھ چوہے ہیں۔۔۔ آہا۔۔۔ آہا۔۔۔ آہا۔۔۔ بی۔۔۔ بی۔۔۔ بی۔۔۔ ۳۵ لاکھ چوہے ہیں؟ ارے بلیاں کدھر گئیں، وہ دیکھو سامنے، میں آنکھیں بند کر لیتا ہوں، کہاں ہیں، دکھائی نہیں دیتیں، ارے بلیاں کہاں ہیں دکھائی نہیں دیتیں، کھا جائیں گی، کھانے دو، میں آنکھیں بند کر لیتا ہوں، کہاں ہیں دکھائی نہیں دیتیں، ارے بلیاں کہاں ہیں دکھائی نہیں دیتیں، کھا جائیں گی، کھانے دو، میں آنکھیں بند کر لیتا ہوں، مجھے کوئی نہیں کھا سکتا، ۳۵ لاکھ چوہے۔۔۔ آہا۔۔۔ آہا۔۔۔ بی۔۔۔ بی۔۔۔ بی۔۔۔

    کیا کہا۔۔۔ کیا کہا۔۔۔ اختر بھائی ، ہاں تم ٹھیک کہتے ہو، میں ادیب ہوں، نہا یت حساس واقع ہوا ہوں، لوگوں کو دیکھ کر مجھے رونا آتا ہے، تمھاری صورت دیکھ کر بھی، ارے تمہیں کیا ہو گیا، آج کچھ نہیں کھایا، کچھ تو کھالو، پانی پی لو۔۔۔ اختر بھائی ٹھنڈا پانی، ہندو پانی، مسلم پانی، کون سا پانی پیوگے، پانی پی لو اختر! سن سٹروک نہیں ہوگا، لو نہیں لگتی۔

    ہاں میں ادیب ہوں، کہانیاں لکھتا ہوں، شعر کہتا ہوں، ارے دیکھتے نہیں مزدوروں کی حالت ، کتنے مضمحل اور افسردہ نظر آتے ہیں، چہرے پر رنگت نہیں، لب مسکراہٹ سے عاری اور کیا کہا۔۔۔ زندگی بے کیف، بےمزا، ہروقت کا رونا۔

    کہانیاں لکھتا ہوں، میں ترقی پسند ادیب ہوں، مزدوروں پر شعر کہتا ہوں، لوگ سنتے ہیں تو سر دھنتے ہیں۔ واہ بھئی واہ، خوب لکھا۔ مزدور کا کلیجہ نکال دیا، اب بھیجا باہر نکالو۔۔۔ کیا کہا۔۔۔ کیا ملتا ہے، ارے مزدور کو کیا ملتا ہے، کہ ان پر لکھنے والوں کو کچھ ملے، مزدور بھی فاقے کرتے ہیں اور ہم لکھنے والے بھی ترقی پسند۔۔۔ ارے نام ہوتا ہے، عوام میں مشہور ہو گیا ہوں، یہ کون جا رہا ہے ، ترقی پسند ادیب۔۔۔ ارے اس کی حالت۔۔۔ چہرے کی رنگت، زرد۔۔۔ گال اندر کو پچکے ہوئے، گردن سوکھی ہوئی، چال ڈھال میں مردنی، آنکھوں میں وحشت اندھا کیا جانے بسنت کی بہار، میں مزدور بننا چاہتا ہوں، ایک نئےادب کی تخلیق کرنا چاہتا ہوں، جب تک میں ان کی طرح زندگی بسر نہ کروں، ان کے احساسات کی امنگوں ، ان کی زندگی کی ترجمانی کس طرح کر سکتا ہوں۔

    میں مزدور بن رہا ہوں، ہر روز۔۔۔ دن بہ دن۔۔۔ کیا کہا، تپ دق ہوجائے گا، ہونے دو، مجھے پروانہیں، میرا نام روشن ہو جائےگا، مزدوروں کا ترجمان، دنیا کے مزدور اکھٹے ہوں گے، دنیا کے مزدور اکھٹے ہو جاؤ، تمھارے لئے کچھ نہیں بنےگا، صرف زنجیریں بنیں گی، کیا کہا، دنیا کے مزدور اکھٹے ہوں گے، موچی دروازے کے باہر۔۔۔ ارے کون بھونک رہا ہے، کتا۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں الو۔۔۔ ارے الو تو رات کو بولتے ہیں، یہ کل جگ ہے، آج کل دن کو الو بولتے ہیں۔

    ہاں ٹھیک ہے، ٹھیک ہے مجھے اپنی بیوی پسند ہے اور تمھیں اختر بھائی، اوہ، تم نے تو شادی بھی نہیں کی۔ کیا کہا، میری بیوی بدصورت ہے، تو کیا ہوا۔۔۔ مجھے اس کی انگلیاں پسند ہیں، تم نے اس کی انگلیاں نہیں دیکھیں، وہ ہر روز پالش کرتی ہے، بوٹ پالش نہیں، ناخنوں کی پالش، ارےہر روز حنائی انگلیاں، خوب صورت دل کو لبھانے والی اور پالش کے بعد ایسی معلوم ہوتی ہیں، جیسے سونے کی قاشیں، ارے سونے کی قاشیں تو ٹھنڈی ہوتی ہیں، ان میں خون کھولتا ہے، نرم اور گرم ہاتھ، مخروطی انگلیاں، چغتائی کا شاہکار، کیا کہا، کام کون کرتا ہے، میری بیوی۔ توبہ توبہ، میری بیوی۔۔۔ کیوں کام کرے، ارے نوکر، اتنی ہمّت نہیں، کہ نوکر رکھ سکوں، ٹھیک کہا، تم بہت سیانے ہو، کالے کوے کی طرح، میرے دل کی بات جان لیتے ہو۔

    اس کی ایک ساس ہے وہ کام کرتی ہے، دن رات، میاں تمھاری کیا لگی، میری بیوی کی ساس، میری کیا لگی ٹھہرو، سوچ کر بتاتا ہوں، ہاں یاد آیا میری کچھ بھی نہیں، اے میری بیوی کی ساس میری کیا لگی، دن رات وہ کام کرتی ہے، بہت اچھا کام کرتی ہے، دن رات برتن صاف کرتی ہے، فرش صاف کرتی ہے، جھاڑو دیتی ہے، روٹی پکاتی ہے، گھر کا سارا کام میری بیوی کی ساس کے سپرد ہے، ایک دن بڑھیا کہنے لگی تمھاری بیوی کام نہیں کرتی ہے، برتن صاف نہیں کرتی، میں نے ہنس کر ٹال دیا، خوب کہا، ایساہی کرنا چاہیے، کہتی ہے میری بیوی کام نہیں کرتی، برتن صاف نہیں کرتی، کھوسٹ بڑھیا نہیں جانتی، اگر حنائی انگلیاں برتن صاف کرتے کرتے خراب ہوجائیں، تو بتاؤ میری بیوی کی حنائی انگلیاں بدنما ہو جائیں تو اس کاکون ذمہ دار ہوگا۔

    میں کسی کے سہارے زندہ رہ سکتا ہوں، کیا کہا، سارا کام بڑھیا سے لیتا ہوں، کیا وہ انسان نہیں، ارے وہ انسان بڑھیا، ۶۰ سال کی وہ بڑھیا، چلنے پھرنے سے وہ عاری، ہاتھ کانپتے ہوئے، کہتی ہے منہ سے پیپ آتی ہے، دانت ہلتے ہیں، مسوڑھے خراب ہوچکے ہیں، ڈاکٹر کو بلا لاؤ، دانت نکلوادو سارے میاں، جہاں خون ہوتا ہے وہاں سے پیپ بھی آ سکتی ہے اور ساٹھ سال کی عمر میں پیپ نہ آئے، شہد نکلےگا کیا۔۔۔ کہتی ہے مروں گی نہیں، تمھارا کام کروں گی، مرنے میں نہیں آتی، اتنا کام دیا ہوا ہے، پھر بھی مرنے میں نہیں آتی، کتنی سخت جان ہے، مجھے اپنی بیوی کی انگلیاں پسند ہیں۔ نہایت خوب صورت اور حسین، ریشم کے تاروں سے زیادہ ملائم، بھلا وہ برتن کیوں صاف کرے، انگلیاں بد نما ہو جائیں تو میں کیا کروں گا، اختر بھائی۔۔۔ تم مجھے کوستے ہو، بتاؤ کس کے سہارے جی سکتا ہوں، یہی تو میرا زندگی کا سرمایہ ہے مگر یہ مٹ جائے تو پھر۔۔۔ میں ادیب ہوں، نہایت حساس ہوں، بڑھیا کام کرے اور خوب کرے۔۔ اور وہ حنائی انگلیاں۔۔۔

    کیا کہا، ارے بولو،۔۔۔ بھئی میرے کان تو بہرے نہیں ہیں، گو دماغ میں بھوسا بھرا ہوا ہے، کہیں کان تو بہرے نہیں، اختر میاں تم کیا جانو شادی کے مزے، میں ان حنائی انگلیوں کو خراب نہیں ہونے دوں گا۔ کہتی ہے میرا خیال کرو، کیا کہا، کون ارے وہی، میری بیوی کی ساس کہتی ہے میں نے تمھیں جایا، پالا پوسا، پڑھایا مجھ پر احسان جتاتی ہے، شرم نہیں آتی، اختر میاں میں نے کبھی احسان جتایا، میں جس پر احسان کرتا ہوں۔۔۔ جو احسان کر کے جتانے لگے۔۔۔ تمھیں دو سال سے پڑھا رہا ہوں، تم ہی بتاؤ، کبھی تمھیں کچھ کہا، کہو، بولو، کہتے کیو ں نہیں، چپ کیوں ہو گئے، زبان کیوں گونگی ہو گئی، بولتے کیوں نہیں۔

    ارے کون بھونک رہا ہے، بازاری کتے، گولی سے اڑا دو، یہ کتے آدمی کو کاٹتے ہیں ، کتو ں کو کسولی بھیج دو، کیا کہا۔۔۔ اونچی آواز میں کہو، میں ہوں اور تو کوئی نہیں، میرے باپ کے متعلق پوچھتے ہو، اس کی نظر کمزور ہو گئی ہے، وہ عینک مانگتا ہے، کتنی عمر ہے اس کی ۶۵ سال بی۔ بی۔ بی ۶۵ سال کا بوڑھا عینک مانگتا ہے، کایا کلپ چاہتا ہے، بوڑھے نوجوان سے دو قدم بڑھ گئے، پھر کہو۔۔۔ آواز نہیں آتی، باز کی آنکھیں لادوں، عقاب کی آنکھیں، خوب کہا، اختر۔۔۔ میری بیوی کو دیکھنا چاہتا ہے، عقاب کی آنکھیں عینک چاہتا ہے، بینائی چاہتا ہے، عینک پر پندرہ روپے ، قبر میں پیر لٹکے ہوئے ہیں، پھر بھی بینائی چاہتا ہے، کہاں سے لادوں، ہاں کایا کلپ پنڈت مالو یہ۔۔۔ روپے کہاں ہیں، پندرہ روپے نہیں ملتے، ہاں ٹھیک کہتے ہو، پندرہ روپوں سے پندرہ فلمیں دیکھ سکتا ہوں، پندرہ عورتیں، خوبصورت رسیلے ہونٹ، نشیلی آنکھیں، ابھرا ہوا سینہ، بوڑھا کھوسٹ عینک مانگتا ہے۔

    ۶۵ سال کے بعد آہا۔۔۔ آہا۔۔۔ آہا۔۔۔ بی۔ بی۔ بی۔

    پھٹ پھٹ پھٹ۔ دھم۔۔۔ دھم۔۔۔ دھم۔۔۔ کون آیا بم گرا، کہاں لندن میں، لیکن آواز یہاں آ رہی ہے، کانوں میں انگلیاں ڈالو، حنائی انگلیاں سونے کی قاشیں۔

    آزادی، لارڈایمری کا بیان، انڈیا منٹ، کیا کہا۔ خوب کہا، کون تقریر کر رہا ہے، چرچل، ہم آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں، ہم غلامی کو اس دنیا سے مٹانا چاہتے ہیں، ہم فرانس کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں، ہم لڑیں گے، ہر جگہ۔۔۔ زمین پر ، خشکی پر، سمندر پر، آسمان پر، اپنی زمین پر، کنیڈا میں، آسٹریلیا میں، ہم سب کو آزاد کرنا چاہتے ہیں۔ نہیں۔۔۔ نہیں میں بھول گیا، ہم یورپ کو ہٹلر کے پنجہ سے چھڑانا چاہتے ہیں، کیا یورپ میں ہندوستان بھی شامل ہے۔

    خوب زور سے تالیاں پیٹو، اختر میاں، آزادی مانگتے ہو۔۔۔ آزادی مانگنے سے نہیں ملتی۔۔ اور کچھ مانگو، کیا کہا۔۔۔ موت۔۔۔ ابھی لو۔۔۔ اسی وقت لو۔۔۔ چلاؤ۔۔۔ خوب زور سے چلاؤ۔ ہاں کہو، مسجد مندر بن گئی، مسجد مندر بن گئی، وہ دیکھو سامنے، بازار بند ہونے لگے، بنئے گھروں میں گھس گئے، لاٹھیاں چلنے لگیں، پتھر برسنے لگے، ہائے میرا لال، کسی ہندو نے گولی سے مار دیا، ہائے میرا بچہ۔۔۔ کسی مسلمان نے چھرا گھونپ دیا۔۔۔ دیکھا۔۔۔ دیکھتے نہیں، خون کی ندیاں، کہاں، ۔۔۔ وہ دیکھو۔۔۔ مندر مسجد بن گیا۔۔۔ انڈیا فسٹ مت چلاؤ۔۔۔ آزادی۔۔۔ ہٹلر کے بعد اور موت ابھی لو۔۔۔ اسی وقت۔۔۔ جب جی چاہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے