Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہوٹل سلازار

عطیہ سید

ہوٹل سلازار

عطیہ سید

MORE BYعطیہ سید

    واشنگٹن سکوائر کے جنوب مشرقی کونے سے جو سڑک پھوٹتی ہے، اس پر چند فرلانگ کے فاصلے پر ہوٹل سلازار واقع ہے۔ یہ اس صدی کے اوائل کے طرز تعمیر کا نمونہ، ایک سادہ، بے رنگ عمارت ہے جس کی دیواریں مسلسل بارشوں سے کائی زدہ ہیں۔ اس کا اوپر والا حصہ کالے سیاہ رنگ کا ہے۔ سنا ہے کہ یہ بیس برس پہلے آگ کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ نجانے کیوں، اسے اسی رنگ میں محفوظ کر دیا گیا اور اب یہ خستہ حال سرمئی آخری منزل اپنی اندھی آنکھوں سے اردگرد کی جدید تر عمارتوں میں قدامت کی انفرادیت لیے، راہگیروں کی توجہ کھینچتی ہے۔

    ہوٹل کی تنگ ڈیوڑھی میں داخل ہوتے ہی داہیں جانب لکڑی کا تنگ زینہ گذرے وقتوں کی یاد دلاتا ہے۔ بائیں جانب استقبالیہ (Reception) کا لکڑی سے بنا ڈبہ نما کمرہ ہے جس کی کھڑکی ڈیوڑھی میں کھلتی ہے۔ اس کھڑکی میں ہر وقت یا تو لحیم شحیم حبشی مہماندار (Receptionist) یا موٹی توند والا برازیلین منیجر براجمان رہتا ہے۔ زینے اور اس لکڑی سے بنے ڈبہ نما کمرے کے درمیان ایک ننھی منی لفٹ موجود ہے۔ اگرکوئی چیز ہوٹل کی گذشتہ گھٹیا شان و شوکت کی یاد دلاتی ہے تو وہ ہوٹل کی یہی لفٹ ہے جس کی اندرونی دیواروں پر سیاہی مائل کلیجی رنگ ویلوٹ منڈھی ہے۔ لفٹ کی تین دیواروں پر قد آدم آئینے بھی جڑے ہیں اور دروازے کا اہتمام یوں ہے کہ جب دونوں پٹ بند ہو جائیں تو دونیم آئینہ یک جان ہو کر باقی تین دیواروں کی مانند ثابت و سالم قد آدم آئینے کا روپ دھار لیتا ہے۔ اس لفٹ کی خوبی یہ ہے کہ آپ نرگسیت کا شکار ہوں یا نہ ہوں اپنے عکس سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔

    لفٹ بہت پرانی ہونے کے سبب ہر وقت کراہتی رہتی ہے۔ اس کے کل پرزے، چولیں، سب وقت کے ہاتھوں زخم خوردہ ہیں۔ اسی لیے یہ چوں چوں کرتی انتہائی سست روی سے اوپر کی طرف سفر کرتی ہے جیسے کوئی بڑھیا ہانپتی کانپتی چڑھائی چڑھ رہی ہو۔ ہوٹل کے اکثر گاہک اپنے حق میں بہتر سمجھتے ہیں کہ وہ لکڑی کے زینے سے اوپر نیچے آئیں جائیں۔ ویسے بھی لفٹ تنگی دامن کی بنا پر ایک وقت میں صرف ایک مسافر بےسروسامان کی متحمل ہو سکتی ہے۔ اگر مسافر مع سامان ہے تواسے کون اتارےگا، اگر خود لفٹ میں چلا جاتا ہے تو سامان کیسے پہنچےگا۔ اس لیے اکثر گاہک لکڑی کے زینے کو آزماتے ہیں جو اپنی قدامت کے باوجود اتنا فراخ ضرور ہے کہ گاہک اور اس کے سامان دونوں کو سہار سکتا ہے۔

    اوپر پہلی منزل پر پہنچنے کے بعد زینے کے دہانے سے دو کوریڈورز نکلتے نظر آتے ہیں۔ زینے کی بالکل سیدھ میں ایک لمبا بل کھاتا ہوا کوریڈور ہے، جس کے پیچ و خم کے سبب اس کا آخری سرا نظروں سے اوجھل ہے۔ جانے وہ کہاں جا کر ختم ہوتا ہے۔ دائیں جانب صرف دیوار ہے جس میں کوئی دروازہ نہیں۔ زینے کے بالکل ساتھ ہی لفٹ کا دروازہ ہے جس کے قریب سے زینہ بل کھاتا ہوا اوپر کی منزلوں کو چلا جاتا ہے۔ بائیں جانب جو کوریڈور ہے وہ آگے جاکر ایک لمبی گیلری کے ساتھ جڑتا ہے۔ اس میں کئی گیلریوں کے دروازے کھلتے ہیں جو اس مرکز ی گیلری کے ذریعے سے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ باقی تمام منزلوں پر اسی نقشے کی تکرار نظر آتی ہے۔ غرضیکہ کوریڈورز اور گیلریوں کی بھول بھلیاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہوٹل سلازار کی تنگی کا جو تاثر اس کی ڈیوڑھی سے پیدا ہوتا ہے درحقیقت صحیح نہیں۔ اس کا گراؤنڈ فلور یعنی ڈیوڑھی والا حصہ یقیناً رقبے میں بےحد محدود ہے، لیکن جوں جوں ہم اوپر کی طرف جاتے ہیں اس کے پھیلاؤ میں پراسرار طریقے سے اضافہ ہو تا چلا جاتا ہے۔ شمالاً جنوباً، شرقاً غرباً، کمرے گیلریوں کے ذریعے سے ملے ہوئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوریڈورز اور گیلریوں کا ایک معمہ بکس تیار کیا گیا ہے جس میں انسان بالکل اسی طرح بھٹک سکتا ہے جس طرح ماہرین طبیعات کی تجرباتی بھول بھلیوں میں چوہا۔ بظاہر ہوٹل سلازار کی تعمیراتی ساخت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ لیکن اس کے اندر گھومنے کے بعد تصور کی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ ایک تکون کی طرح ہے جو اپنے کسی کونے پر سیدھی کھڑی ہو یا جیسے اہرام اپنی نوک کے بل کھڑے ہوں۔ غالباً یہ امریکن تجارتی ذہن کی توسیع پسندی کے روئیے کا کرشمہ ہے کہ سلازار کے مالک کو جس ملحقہ عمارت کا کوئی اپارٹمنٹ حاصل ہوا وہ اسے ہوٹل میں شامل کرتا گیا اور گیلریوں کے ذریعے باہم ملاتا چلا گیا۔

    مختلف منزلوں میں جو گیلریاں اور کوریڈورز ہیں ان میں گھسی پٹی دریاں بچھی ہیں جو جوتوں کی مسلسل رگڑ سے تار تار ہیں۔ ان دریوں کا کوئی خاص مقصد سمجھ میں نہیں آتا۔ سوائے عذر زیبائش کے، جسے پورا کرنے میں یہ ناکام ہیں۔ گیلریوں کی دیواروں پر جو وال پیپر چڑھا ہے وہ کبھی نکھرے آسمانی رنگ کا ہوگا لیکن اب وہ مٹیالے رنگ میں ڈھل چکا ہے۔ اس وال پیپر پر کھڑی جل پریوں کا نقش ہے، جو اس قدر گھس پٹ گئی ہیں کہ اپنے گلیمر سے محروم ہو چکی ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ زمانے کے ہاتھوں کسی کا سرغائب ہے اور کسی کا دھڑ، عموماً آنے جانے والوں کو اتنی فرصت نہیں کہ وہ اس تخیلی مخلوق کی طرف توجہ دے سکیں، لیکن کبھی ان پر بھولے سے نظر پڑ جائے کہ دل دہل جاتا ہے کہ دیکھنے والا شخص اپنے آپ کو سینکڑوں عجیب الخلقت اپاہج جل پریوں کے غول درغول میں گھرا پاتا ہے۔

    بہزاد جب نوکری کی تلاش میں اس شہر میں وارد ہوا تو اس کی جیب بھاری تھی۔ چنانچہ وہ لنکن سینٹر کے بالمقابل ایک اونچے متوسط درجے کے ہوٹل میں آکر اترا۔ مگر جوں جوں دن گزرتے گئے، نوکری ناپیدرہی اور جیب ہلکی ہونے لگی تو اسے کسی ایسے ہوٹل کی جستجو ہوئی جو کم کرائے پر کمرے اٹھاتا ہو۔ بعد از بسیار وقت و تلاش اسے گوہر مقصود ہوٹل سلازار کی شکل میں نصیب ہوا۔ اسے محض اتفاق کہیے یا خوبی تقدیر سمجھئے کہ جس دن بہزاد نے پوچھا اسی دن ایک کمرہ موجود تھا۔۔۔ وہ فوراً وہاں اٹھ آیا۔ لحیم شحیم حبشی نے اسے بتایاکہ جو کمرہ خالی ہے وہ چودھویں منزل پر واقع ہے۔ جب بہزاد اپنا سامان ڈیوڑھی میں حبشی کے حوالے کر کے کمرہ دیکھنے کی غرض سے لفٹ کے ذریعے اوپر جانے لگا، تو اسے بے حد حیرت ہوئی کہ لفٹ میں منزلوں کی نمبر پلیٹ پر بارھویں منزل کے فوراًبعد چودھویں منزل کا نمبر لکھا تھا۔اس نے سوچا کہ غلطی سے تیرھویں کو چودھویں لکھ دیا گیا تھا، اگرچہ اس قوم کی میکانکیت کی حد تک مکمل کارکردگی کی استعداد سے اس قسم کی غلطی کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ پھر بھی انسان انسان ہے اور خطا کا پتلا بہے۔ اس لیے بہزاد نے اپنی تیسری دنیا کی قدیم سوچ کے مطابق اسے انسانی کوتاہی جان کر کوئی خاص اہمیت نہ دی۔ البتہ جب وہ ہوٹل کے عملے سے بات کرتے ہوئے کہتا کہ اس کا کمرہ تیرھویں منزل پر ہے تو وہ لاحول پڑھتے ہوئے غائب ہو جاتے۔ آخر اس سے رہا نہ گیا اور ایک دن اس نے ہوٹل کے برازیلیں منیجر سے یہ پہیلی بجھوانے کی کوشش کی۔ منیجر نے اس کے سوال کے جوا ب میں اگرچہ ’احمق‘ یا ’جاہل‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ لیکن اس کی آنکھوں سے ظاہر تھا کہ وہ اسے احمق یا جاہل یا دونوں کی آمیزش خیال کر رہا تھا۔ پھر بھی منیجر نے زیادہ علم رکھنے کی بنا پر احساس برتری کے تحت اس پر یہ منکشف کیا کہ بےوقوف کیا تم نہیں جانتے کہ تیرہ کا عدد منحوس ہوتا ہے، اس لیے یہاں کسی عمارت میں بھی تیرھویں منزل کا ذکر نہیں ہوتا، بلکہ تیرھویں کو چودھویں کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

    بہزاد کی سمجھ میں یہ منطق نہ آئی کہ اگر تیرھویں منزل موجود ہوتی ہی ہے تو اس کے چودھویں پکارنے سے آئی بلاکیسے ٹل جاتی ہے۔ بہرحال یہ منکشف ہو گیا کہ چاند پر پہنچنے والے انتہائی ترقی یافتہ امریکن ویسے ہی تو ہم پرست ہیں جیسے برصغیر کے کسی پسماندہ گوشے میں بسنے والے جہاں اب تک کو روؤں پانڈوؤں کی رتھ گڈاور ریڑے کی شکل میں چل رہی ہے۔ اس طرح خلائی دور اور قرون اولیٰ کا باہم فاصلہ گھٹ کر صفر رہ جاتا ہے۔

    جب بہزاد اپنے کمرہ میں پہنچا تو رات ہو چکی تھی۔ اس نے بجلی کابٹن دباکر کمرے میں روشنی کی تواس کا دل دہل گیا۔ کمرے کی دیواریں پر ہیبت سیاہ رنگ کی تھیں۔ کھڑکی سڑک کی جانب کھلنے کے بجائے ساتھ والی بلڈنگ کی چھت پر کھلتی تھی جس کی چادر زنگ کی وجہ سے کہیں سے بھورے رنگ کی تھی اور بارش کا پانی جمع ہو جانے کے سبب کہیں سے سیاہ تھی۔ اس کھڑکی میں جو شیشے لگے تھے وہ چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے ٹکڑوں کی صورت میں تھے۔ لیکن کالی دیواروں کے پس منظر میں آگ کے دہکتے انگاروں کی مانند دکھائی دے رہے تھے۔ کمرے میں ایک پلنگ، ایک تپائی، ایک کرسی اورایک الماری تھی۔ کمرہ صاف ستھرا ہونے کے باوجود بہزاد کو بوسیدگی کے علاوہ عجیب طرح کی گھٹن کا احساس ہوا۔ کمرے میں کپڑوں کے ایسے بند ٹرنک کی سی بو تھی جسے بڑی مدت کے بعد کھولا گیا ہو۔ اس نے الماری کھولی تو اس میں سے بھی بند بو آ رہی تھی۔ اس نے فوراً الماری بند کر دی۔ بستر میں بھی کا فور کی گولیوں کی ہمک تھی۔

    بہزاد کو کمرے کی ہر چیز سے کراہت محسوس ہو رہی تھی۔ حالانکہ وہ بڑی محنت سے صاف کی گئیں تھی۔ وہ بہت تھکا ہوا تھا سو بستر پر لیٹ گیا، مگر نیند اس سے کوسوں دور تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ آخر اسے اس کمرے اور اس میں رکھی ہر چیز سے تنفر کا احساس کیوں ہو رہا ہے۔ جبکہ اس کی کوئی ٹھوس وجہ موجود نہیں۔ یقیناً یہ کمرہ آتشزدگی کی باقیات میں سے تھا۔ لیکن اسے اسی حالت میں محفوظ رکھنے کا کیا جواز تھا۔ بھلا کون اس کے آسیب زدہ ماحول میں رہنا پسند کرےگا۔ شاید ہوٹل کے مالک کو اس میں کوئی خاص کشش اور انوکھا پن محسوس ہوتا ہو۔ ویسے بھی اس ملک کے باسیوں کا احساس جمال ناقابل فہم ہے۔ جن چیزوں کو عموماً بھدا، بدصورت حتیٰ کہ کریہہ المنظر سمجھا جاتا ہے، یہ انہیں حسین، خوبصورت اور دلفریب تصور کرتے ہیں۔

    بہزاد ساری رات عجیب کیفیت سے گذرا۔ ایک انجانے خوف سے اسے ٹھنڈے پسینے آتے رہے۔ بالاخر وہ تھک ہارکر سویا بھی تو ایسی نیند کہ ذہن نیم بیدار تھا۔ وہ صبح سویرے اٹھ گیا۔ انگ انگ ٹوٹ رہا تھا۔ سر میں شدید دردتھا۔ سوچا کہ تازہ دم ہونے کے لیے غسل کر لیا جائے۔ اس غرض سے جب غسل خانے گیا تو ’لاحول‘ پڑھ کر پلٹ آیا۔ ہر چند کے غسل خانے کی ہر چیز صاف ستھری تھی، لیکن اتنی پرانی تھی کہ گندگی کا تاثر دیتی تھی۔ ٹب، سنک اور فلش کی چینی جگہ جگہ سے اکھڑ چکی تھی اور نیچے سے زنگ آلود سیاہی جھانک رہی تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ صفائی کے باوجود ناقابل برداشت بو آ رہی تھی جیسے مردہ چوہے کا تعفن۔

    آخر بہزاد کے صبرکا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ وہ بڑبڑاتا ہو ا منیجر کے پاس پہنچا اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ موٹی توند والے برازیلین منیجر کو یقین تو نہ آیا کہ کوئی مردہ چوہا غسل خانے میں لیٹا بدبوکے بھبھکے اڑا رہا ہے، مگر بہزاد کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے خیال سے اس نے جنیٹر کو اس کے ساتھ غسل خانے میں بھیجا تک کہ بدبوکا معمہ حل کیا جا سکے۔ جنیٹر نے لاکھ کوشش کی کسی مردہ تو کیا کسی زندہ چوہے کا سراغ بھی نہ مل سکا، لیکن بہزاد اتنی جلد ہار ماننے کو تیار نہ تھا۔ اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ اس جھلسے ہوئے آسیب زدہ کمرے، بند بو والے بستر اور مرے ہوئے چوہے کے تعفن سے ہر صورت چھٹکارا حاصل کرے گا۔ سو وہ دوبارہ منیجر کے پاس پہنچا اور کچھ اس موثر اور قابل رحم اندازمیں اپنی وکالت کی کہ اس کا دل پسیج گیا اور اس نے پہلی منزل پرایک ننھے منے سے کمرے کی پیش کش کی۔ بہزاد فوراً راضی ہو گیا۔ اس نے سوچا کہ ہر کمرہ اس کمرے سے بہتر ہوگا۔ چنانچہ وہ منیجر سے چابی لے کر اپنا بکس اٹھائے ہوئے نئے کمرے میں آن پہنچا۔

    یہ انتہائی چھوٹا یعنی ۷x۷ فٹ کا کمرہ تھا جس میں بمشکل ایک بیڈ رکھا جا سکتا ہے۔ بیڈ کے علاوہ اس میں صرف ایک کرسی تھی اور بس۔ کمرے کی کل اوقات یہی تھی۔ اس کمرے سے منسلک غسل خانہ اعلیٰ درجے کا نہ سہی، مگر کم از کم قابل برداشت تو تھا۔ کمرے میں دو پٹوں والی ایک کھڑکی تھی جو باہر سٹرک کی جانب کھلتی تھی۔ اس کھڑکی سے واشنگٹن سکوائر کے کچھ حصے کا نظارا بھی ممکن تھا بشرطیکہ کھڑکی میں سے اچک کے سر باہر نکال کر دیکھا جائے۔ اس کے علاوہ بستر پر لیٹے ہوئے کھڑکی سے سامنے والے چرچ کی بیل فری کا مینار بھی دکھائی دیتا تھا۔

    بہزاد کو اس نئے کمرے میں منتقل ہوئے کئی روز بیت گئے۔ جوں جوں وقت گذرتا چلا گیا، مسافتوں کے در کھلتے چلے گئے، بہزاد ناستلجیا کی زد میں آتا چلا گیا۔ اس اژدہا کی طرح بہت بڑے کاسمو پولیٹن شہر کے روز مرہ سے بےربطی کا احساس شدت اختیار کرتا چلا گیا۔ جتنا یہ احساس گہرا ہوتا گیا، اتناہی اپنے دیس کی یاد کسک کی شکل میں ڈھلتی گئی۔ شاید ان دونوں کے درمیان ’برابر تناسب‘ کا رشتہ تھا۔ فاصلے ویسے بھی جذبوں کو منکشف کرتے ہیں۔ زیادہ قربت مانع بصارت اور قاطع بصیرت ہوتی ہے۔ جب گھر میں رکھی اشیاء ہر روز اپنے مقام پرملیں، تو آہستہ آہستہ اپنی مانوسیت کی بنا پر جاذب توجہ نہیں رہتی ہیں، لیکن ان میں سے کوئی چیز اپنی جگہ سے غائب ہو، تو اس کی عدم موجودگی بری طرح کھٹکتی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال بہزاد کی تھی۔ جب وہ وطن میں تھا تو اس کی ہر چیز سے بیزار تھا اور اب ان تمام چیزوں کے لیے بےقرار جنہیں اس نے کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا تھا۔ پان سے اس نے ہمیشہ تنفر محسوس کیا، لیکن اب بعض دفعہ بیٹھے بٹھائے اس کی زبان پان کے پتے کا ذائقہ محسوس کرتی اور سونف سپاری کی خوشبو اس کے نتھنوں میں کہیں سے آ گھستی۔ ایک دن ٹائم سکوائر کے قریب چلتے چلتے اچانک جانے کہاں سے چنبیلی موتیے اور گلابوں کی مہک اس کے ساتھ ہولی راتوں کو اکثر اسے اپنے کمرے میں بستر پہ لیٹے لیٹے نیچے سڑک پر لوگ اردو بولتے سنائی دیتے، جس پر وہ فوراً بستر سے اٹھ کر کھڑکی سے جھانکتا اور اسے بڑی مایوسی ہوتی یہ جان کر کہ نیچے سڑک پر اردو میں نہیں، انگریزی میں گفتگو ہو رہی ہے۔ اکثر اوقات صبح سویرے نیم بیداری میں وہ محسوس کرتا جیسے وہ اپنے دیس میں اپنے گھر میں لیٹا ہوا ہے۔

    غرضیکہ بہزاد کے دل و دماغ مکمل طور پر ناستیلجیا کی دلدوز گرفت میں جکڑے ہوئے تھے۔ اس کے اعصاب مغلوب ہوتے جا رہے تھے۔ وہ عموماً غنودگی حالت میں رہتا۔ صبح جب گھڑی الارم بجاتی تووہ آنکھیں کھولتا، لیکن اس کا وجود ہلنے سے انکاری ہو جاتا۔ اس کے پپوٹے بند ہو جاتے، ذہن نیم غنودگی حالت میں ہوتا اور جسم کے پٹھے مزید آرام کی خواہش میں ڈھیلے پڑ جاتے۔ یہ کیفیت سارا دن اس پر طاری رہتی اور وہ اکثر بارہ بجے سے پہلے اٹھنے کے قابل نہ ہوتا۔ اس نیم بیداری نیم غنودگی کی نباتاتی حالت میں اس کا ذہن گم گشتہ ماضی کے پچھتاوے سے محفوظ رہتا۔ شاید یہ اس کے وجود کا دفاعی ہتھکنڈا تھا۔

    اگرچہ بارہ بجے کے قریب اس کی آنکھ کھل جاتی، مگر روز مرہ میں شرکت سے گریز اب بھی موجود رہتا، سووہ بستر پر لیٹے لیٹے کھڑکی سے باہر سامنے سکوئر کی پرلی طرف واقع چرچ کی بیل فری کو تکتا رہتا، جس میں لگی دیوہیکل گھنٹی جب بج اٹھتی تو فری بیل میں بسیرا کرنے والے سفید کبوتر غول در غول پھڑپھڑاتے ہوئے بیل فری کی چاروں کھڑکیوں سے طوفان کی طرح پھٹ پڑتے اور آسمان کو پل بھر کے لیے برف کے گالوں کی طرح سفید کر ڈالتے۔ جانے کیوں بہزاد کو ان کبوتروں کو دیکھ کر بہاالدین زکریا کے مزار کے گنبد پر اڑنے والے کبوتر یاد آتے جن کی ڈاریں چراغ والے صحن میں دانہ چگنے اترتی تھیں۔

    ایک دن اسی کیفیت میں اسے ساتھ والے کمرے سے باتوں کی آواز سنائی دی۔ اس کے اور ساتھ والے کمرے کے درمیان جو دیوار تھی وہ اس قدر پتلی تھی کہ آواز صاف آ رہی تھی۔

    ’’ہیلو لنڈا سویٹ ہارٹ! ہاؤ آر یو‘‘۔

    غالباً فون پر گفتگو ہو رہی تھی۔ کیونکہ جواب میں مخاطب کی آواز نہیں آ رہی تھی۔

    ’’ہاں میں، میں ٹھیک ہوں‘‘۔

    گفتگو جاری رہی۔ ’’کیا؟ آج کل کیا لکھ رہا ہوں؟ ایک پرتگالی لڑکی اور سیاہ فام کی داستان۔ سیاہ فام کو ایک پرتگالی لڑکی سے بے پناہ محبت ہے اور وہ اسے پا بھی لیتا ہے، مگر وصل کی قربت ہی سے فراق کی شدت جنم لیتی ہے، جس کی کہانی میں لکھنا چاہتا ہوں۔ کیا کہا؟ وصل سے فراق کیسے؟ وہ یوں، لنڈا ڈئیر! کہ پرتگالی طبعاً قنوطی ہوتے ہیں اور سیاہ فام بنیادی طور پرخوش طبع اور رجائی۔ اسی لیے ان کے تمدن کی روح، اتنی مختلف ہے۔ یہی تمدنی اور نفسیاتی فاصلے ان کے درمیان بڑی ڈھٹائی سے حائل ہیں جن کا احساس اس وقت زیادہ شدت سے ابھرتا ہے، جب دونوں فریق ایک ہی چھت تلے زندگی بسر کرنا شروع کرتے ہیں اور ان کے جسمانی ملن سے روحانی بیراگ جنم لیتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’کیا؟ ہاں۔ یہ ایک مسحور کن موضوع ہے‘‘۔

    ’’اچھا۔ خدا حافظ۔ مجھے ابھی بہت سا کام کرنا ہے۔ پھر بات ہوگی، بائی۔۔۔‘‘

    کچھ دنوں تک بہزاد کو ساتھ والے کمرے میں ہونے والی روز مرہ کی گفتگو سننے کا موقع نہ مل سکا یا شاید گفتگو ہوئی ہی نہ ہو۔ غالباً کہانی نگار کمرے میں موجود نہیں تھا یا پھر اتنا مصروف کہ اسے اپنی دوست لنڈا کو فون کرنے کی فرصت ہی نہ تھی۔ عموماً تخلیق کار جب کسی تخلیق کی زد میں ہوتا ہے تو تخلیقی عمل اسے شاذو نادر ہی معاشرتی میل جول اور رسمیات کی مہلت بخشتا ہے۔۔۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ سلازار سے جا چکا ہو۔

    کافی عرصے بعد ایک دن بہزاد کو کہانی نگار کی آواز پھر سنائی دی۔ وہ حسب معمول لنڈا سے محو گفتگو تھا اور اپنی تحریروں کا ذکر کرر ہا تھا۔

    ’’یس۔ لنڈا ڈارلنگ! وہ پرتگالی اور سیاہ فام کی کہانی۔۔۔ ہاں مکمل ہو گئی۔۔۔‘‘ اور پھر بہزاد کو کھسیانی ہنسی کی آواز آئی۔

    ’’خیر۔ اس کا تذکرہ اب کیا۔ سنو، اس وقت میں نیویارک کے ٹی وی نیٹ ورک نمبر۲ کے لیے ایک سیریل لکھنے کی سوچ رہا ہوں۔ کیا؟۔۔۔ وہ کس قسم کا ہوگا؟۔۔۔ وہ سینٹ ہلز بلیو کی طرز پر لکھا جائےگا۔ مرکزی خیال؟۔۔۔۔ امریکی نوجوانوں میں ۱۹۶۰ء کے اردگرد جو تشخص کا بحران پیدا ہوا تھا اس کے سیاق و سباق پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا‘‘۔

    پھر ذرا توقف سے کہانی نگار بولا ’’بس لنڈامیرے لیے دعا کرو کہ میں اس خیال کوخوبصورتی سے تحریر کر سکوں۔۔۔ تم ایسا کروگی۔۔۔ یقینا۔۔۔ شکریہ مجھے خوش قسمتی کی انتہائی ضرورت ہے۔۔۔۔‘‘ اور فون بند ہو گیا۔

    ابھی تک بہزاد کو کہانی نگار کی شکل و صورت دیکھنے کا موقع نہ ملا تھا، اگرچہ وہ اس کا اور لنڈا کا مکالمہ اکثر سنتا تھا۔ لیکن ایک دن اس نے کہانی نگار کو دیکھ ہی لیا۔ وہ اپنے کمرے سے نکل رہا تھا، بہزاد کو اپنی طرف متوجہ پایا تو اس نے رسمی انداز میں مسکراکر ’’ہائے ‘‘ کہا۔وہ ایک لانبے قد، چھریرے بدن، کریو کٹ بالوں والا سادہ لوح سینکی دکھائی دیتا تھا، جس نے ٹخنوں تک لمبا اوورکوٹ اور جاگر پہنے ہوئے تھے۔ اس دن کے بعد وہ اکثر اسے کوریڈور، لفٹ یاہوٹل کی ڈیوڑھی میں ملتا اور رسمی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موسم کا ذکر کرتے ہوئے، ہلکورے کھاتے ہوئے تیزی سے اس کے پاس سے گذر جاتا۔

    کہانی نگار کا کمرہ بہزاد کے کمرے سے پہلے آتا تھا۔ اس لیے بہزاد کو اپنے کمرے سے باہر جانے اور باہر سے اپنے کمرے کی طرف آنے کے لیے اس کے کمرے کے سامنے سے گذرنا پڑتا تھا۔ وہ اکثر کہانی نگار کے کمرے کا دروازہ نیم وا تھا۔ تجسس نے اس کے پاؤں پکڑ لیے اور وہ بڑی دلچسپی سے کمرے کے اندر دیکھنے لگا۔ کہانی نگار مسلے ہوئے کاغذوں کے ڈھیر بیچ فرش پر آلتی پالتی مارے گھٹنے پر کہنی ٹکائے، ہتھیلی پر ٹھوڑی جمائے کسی گہری سوچ میں غرق، اپنی دھن میں مگن بیٹھا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بہزاد کی ٹکٹکی نے اسے چونکا دیا۔ اس نے ادھ کھلے دروازے میں سے بہزاد کی طرف دیکھا۔ اسکی آنکھوں میں اداسی اور لبوں پر کھسیانی ہنسی تھی۔ اس سے پہلے کہ بہزاد رومی کے اس ڈھیر کا راز دریافت کرتا جس کے بیچوں بیچ وہ براجمان تھا، وہ خود ہی بولا۔۔۔ ’’دراصل میں کہانی لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں‘‘۔

    اس نے بڑی بےچارگی سے مچڑے ہوئے کاغذوں کے انبار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’یہ عجیب واردات ہے کہ نازک سبک سوچیں الفاظ کے قالب میں ڈھل کر جب کاغذ پر سیاہ نقش کی صورت ابھرتی ہیں تو وہ بھدی، بےڈول اور بےمعنی ہو جاتی ہیں۔ جذبے عریانی اظہار کے بعد کس قدر بے جان اور فرسودہ لگتے ہیں۔ خود مجھے ان کے جھوٹ کا یقین ہونے لگتا ہے۔۔۔۔ اور ایک بے تکے پن، عجیب شرمندگی اور خجالت کا احساس جیسے میں بھرے بازار بیچ، لوگوں ے ہجوم کے سامنے گر پڑا ہوں اور کیچڑ سے لت پت ہو گیا ہوں۔۔۔ ایک احساس زوال مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے‘‘۔

    ’’اور لنڈا۔۔۔۔؟‘‘ بہزاد نے پوچھا۔

    ’’ہاں۔ لنڈا؟ ‘‘ کہانی نگار نے چونک کر اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے دوہرایا۔

    یک دم بہزاد کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اسے یاد نہ رہا تھا کہ احترام خلوت کے آداب کے پیش نظر اسے کہانی نگار اور لنڈا کی باتیں سننی نہیں چاہیے تھیں۔ لیکن کہانی نگار نے اپنی خلوت کے حق کی پامالی پر متوقع چڑچڑاہٹ کے بجائے عجیب گمبھیرتا سے جواب دیا ’’میرے کمرے میں توکوئی فون نہیں ہے‘‘۔

    اس پر بہزاد بھونچکا سارہ گیا، کیونکہ کمرے میں نظر ہر طرف دوڑانے پر اسے واقعی کہیں کوئی فون دکھائی نہ دیا۔

    ’’تو اس کا مطلب ہے۔۔۔‘‘ بہزاد نے افسردہ حیرت سے باقی جملہ ہوا میں لٹکتا چھوڑ دیا۔ اسے معصوم آنکھوں والے کہانی نگار پر بےحد رحم آیا۔ جو اتنا اکیلا تھا کہ اس بھرے شہر میں، ایک خیالی دوست سے نادیدہ فون پر پہروں باتیں کرتا تھا۔۔۔ اور اتنا بے بس تھا کہ لفظ اس کا ساتھ نہیں دیتے تھے۔ بہزاد کو ایک ناقابل فہم احساس ضیاع ہوا اور اس نے اداس شائستگی کے ساتھ کمرے کے کھلے دروازے کو بند کر دیا۔

    اگلے دن بہزاد کہانی نگار کے کمرے کے سامنے سے گذرا تو صفائی کرنے والی عورت کو کمرے کی صفائی کرتے اور مسلے ہوئے کاغذوں کا ڈھیر پولی تھین بیگ میں ڈالتے ہوئے دیکھا۔ گھڑی بھر کو بہزاد کمرے کے کھلے دروازے کے سامنے ٹھٹک گیا۔ صفائی کرنے والی عورت نے سر اٹھا کر اسے غور سے دیکھا پھر وہ جیسے اس کا عندیہ بھانپ گئی، کہنے لگی ’’وہ یہاں نہیں ہے۔ آج صبح سویرے اپنابل ادا کرنے کے بعد ہوٹل چھوڑ گیا ہے‘‘۔

    ’’کہاں گیا ہے؟‘‘ بہزاد کے منہ سے بےساختہ یہ سوال نکلا۔ غالباً یہ سوال صفائی کرنے والی کو احمقانہ اور ناپسندیدہ لگا کیونکہ اس نے بڑی رکھائی سے جواب دیا ’’مجھے کیا معلوم‘‘۔

    اس پر بہزاد کو خیال آیا کہ کسی کی نقل و حرکت سے دلچسپی رکھنا یہاں کے آداب شائستگی کے خلاف تھا۔ نتیجتاً وہ خاموش ہو گیا اور کوریڈور میں لفٹ کی سمت چلنے لگا مگر اسے کہانی کار کی رخصتی سے ناقابل تشریح آزردگی ہو رہی تھی جیسے کوئی برسوں کا آشنا بچھڑ گیا ہو۔

    ایک رات بہزاد سونے کی ناکام کوشش کر رہا تھا کہ اسے سڑک سے لڑائی جھگڑے کی آوازیں سنائی دیں۔ اس نے اٹھ کر کھڑکی سے نیچے جھانکا۔ رات کے اس پہر سڑک سنسان پڑی تھی۔ کھڑکی کے عین نیچے فٹ پاتھ پر بھی کوئی نہیں دکھائی دیتا تھا، پھر بہزاد کو خیال آیا کہ شاید آوازیں ہوٹل کی ڈیوڑھی سے آرہی تھیں، کیونکہ اس کا کمرہ ڈیوڑھی کے اوپر پہلی منزل پر واقع تھا اور کھڑکی عین صدر دروازے پر کھلتی تھی۔ اگرچہ صدر دروازے کے چھجے کی وجہ سے دروازے میں کھڑے لوگ نظر نہیں آتے تھے۔

    اتنے میں آواز آئی ’’مجھے معلوم ہے کہ تم مجھ سے کیوں جلتے ہو‘‘۔ کسی نے سیٹی کی طرح چیختی ہوئی آواز میں کہا۔

    ’’وہ بھلا کیوں؟‘‘ دوسرے نے پھنکارتے ہوئے پوچھا۔

    ’’اس لیے کہ تم میرے رنگ سے جلتے ہو۔ یہ تمہارا کومپلکس ہے جو تم سے یہ سب کچھ کروا رہا ہے‘‘۔

    ’’اچھا اور بھلا وہ کونسا رنگ ہے جس کی وجہ سے مجھے کومپلکس ہے‘‘۔ غصے سے دانت پیستے ہوئے دوسرا شخص بولا۔

    اب بہزاد نے پہچان لیا تھا کہ یہ آواز ہوٹل کے حبشی کی تھی۔ ذہن پر ذرا زور دینے سے اس نے شناخت کرلی کہ پہلی آواز ایک مدقوق نشئی کی تھی، جس سے اکثر اس کی مڈبھیڑ زینے پر یا لفٹ میں ہوتی۔ یہ ایک منحنی پیلی آنکھوں، پیلے دانتوں والا میلا کچیلا سفیدفام تھا، جو اپنے یرقان زدہ وجودکے ساتھ آسیب کی طرح سلازار کے اردگرد منڈلاتا رہتا تھا۔

    اتنے میں پھر آواز آئی ’’میرا رنگ سفید ہے اور تمہارا کالا۔ یہ ایک حقیقت ہے جسے تم جھٹلا نہیں سکتے اور اسی لیے تم مجھ سے نفرت کرتے ہو‘‘۔

    ان کے درمیان نسل در نسل پھلتی پھولتی ہوئی نفرت ان کی آوازوں میں امنڈآئی تھی۔

    ’’بکواس بند کرو ورنہ۔۔۔‘‘ غصے سے رندھی ہوئی آواز میں حبشی نے چلاتے اور غالباً نشئی کو گریبان سے پکڑتے ہوئے کہا۔

    ’’تم ایسا نہیں کر سکتے، کیونکہ میں نے کمرے کا ایک دن رات کا پورا کرایہ ادا کیا ہے۔۔۔ پورے اکیس ڈالر، اس لیے مجھے حق ہے کہ میں پورے چوبیس گھنٹے کمرے میں گذاروں‘‘۔

    نشئی نے اپنے نحیف پھیپھڑوں کی پوری قوت سے چیخ کر کہا۔

    جواب میں کچھ ایسی آوازیں آئیں جیسے ہاتھا پائی ہو رہی ہو۔ پھر قوی الجثہ حبشی نے اپنے آباؤ اجداد سے ورثے میں ملی ہوئی قدیم طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سفید فام نشئی کو اٹھاکر سڑک پر پٹخ دیا۔ وہ غالباً نشے کی ہذیانی سرمستی میں تھا سو سڑک پر لڑھک کر دوسرے کنارے کے فٹ پاتھ سے ٹکرایا اور گٹھری کی صورت وہیں ڈھیر ہو رہا۔ شاید وہ اتنا بےسدھ تھا کہ اس میں اٹھنے کی ہمت نہ تھی اور رات کے اس پہر ٹریفک مفقود تھا۔ سو اس نے سوچا کہ اٹھ کر کیا کرنا ہے، رات یہیں بسر ہو جائے تو کیا مضائقہ۔ مگر وہ آزاد کے فوجی کی طرح رات بھر باآواز بلند حبشی کو دھمکیاں دیتا رہا۔ جس سے بہزاد کوکافی بےآرامی ہوئی۔ البتہ یوں لگتا تھا کہ حبشی غصہ فرد ہونے کے بعد ان گیدڑ بھبکیوں کو نظرانداز کرکے گہری نیند سو گیا، کیونکہ اس کے فلک شگاف خراٹوں کی آواز بہزاد کو پہلی منزل پر صاف سنائی دے رہی تھی۔

    اس واقعے کے کچھ دن بعد بہزاد ہوٹل سلازار کی طرف بوجھل ذہن اور تھکے قدموں سے آرہا تھا۔ دن بھر کی تھکاوٹ درد بن کر اس کے انگ انگ میں دھڑک رہی تھی۔ ہوٹل سلازار کی ڈیوڑھی میں داخل ہوتے ہی اس نے سوچا کہ وہ لفٹ سے اوپر جائےگا۔ عموماً وہ لفٹ کا انتظار کئے بغیر زینے ہی سے اوپر چلا جاتا تھا۔ اس وقت اتفاقاً لفٹ موجود نہیں تھی نیچے ہی کھڑی تھی۔ اس کے اندر روشنی نہیں تھی۔ غالباً اندر کی لائٹس فیوز ہو گئی تھیں۔ یہ سوچتے ہوئے بہزاد لفٹ میں داخل ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ منزل کا بٹن دباتا۔ لفٹ کا دروازہ کھٹاک سے بند ہو گیا اور وہ خودبخود چلنے لگی۔

    بہزاد نے دیکھا کہ لفٹ تیزی سے کسی منزل پر رکے بغیر اوپر چلی جا رہی تھی۔ اس نے یکے بعد دیگرے مختلف منزلوں کے بٹن دبائے مگر لفٹ تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ لفٹ کی تیز رفتاری بھی حیران کن تھی۔ پھر لفٹ آخری منزل پر جھٹکے سے ٹھہر گئی۔ ابھی بہزاد سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ اس کی پشت سے کوئی چیز ٹکرائی۔ وہ تیزی سے پیچھے مڑا تا کہ معلوم کر سکے کہ وہ کس چیز سے ٹکرایا تھا۔ اسے اندھیرے میں کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا۔ بدبو کا ایک بھبکا اٹھا اور ساتھ ہی دو استخوانی بازوؤں نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ بہزاد نے بہتیری کوشش کی کہ اس بدبو دار وجود کی بانہوں سے نکل جائے مگران سوکھے ہوئے بازوؤں میں جنونی قوت تھی۔ ان کے آہنی چنگل سے فرار مشکل تھا۔ تھک ہار کے اس نے یہ کوشش ترک کر دی، لیکن وہ بہر صورت لفٹ میں لگے ایمرجنسی الارم تک پہنچنا چاہتا تھا جو اندھیرے میں اس سے چمٹے ہوئے جسم کی وجہ سے دشوار تھا کہ وہ ایمر جنسی الارم اور بہزاد کے بیچ حائل تھا۔

    ایک دقت طلب جسمانی کرتب کے بعد وہ اس پر تعفن جسم کی بغل سے ایک ہاتھ نکالنے میں کامیاب ہو گیا اور اندھیرے میں ٹٹولتے ہوئے ایمرجنسی الارم کا سوئچ اون کر دیا۔ فوراً الارم چیخنے لگا اور اس کے ساتھ ایمرجنسی لائٹس جل گئیں۔ ان کی مدھم مدھم سی روشنی میں بہزاد نے دیکھا کہ وہ مدقوق نشئی اس سے لپٹا ہوا تھا جس کا کچھ دن پہلے حبشی مہماندار سے جھگڑا ہوتا تھا۔ نشئی کی آنکھیں بند تھیں اور سینے سے سانس کی کھڑکھڑاہٹ صاف سنائی دے رہی تھی۔ کسی وجہ سے اس کا جسم ٹھنڈا ہونے لگا تھا اور اس نے اپنا سر بہزاد کے سر پر ٹکا دیا تھا۔ بہزاد کو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ برف کے کسی بدبو دار تودے سے لپٹا ہوا ہے۔ یہ ساری صورت حال اس کے لیے اذیت ناک تھی۔

    تھوڑی دیر میں ہوٹل کا برازیلین منیجر زینے کے راستے اوپر آیا اور باہر سے بٹن دباکر لفٹ کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا۔ یوں لگتا تھا کہ وہ جام ہو گیا تھا۔ پھر اس کی آواز آئی ’’جو کوئی بھی اندر ہے، مت گھبرائے ہم نے لفٹ ٹھیک کرنے والے کو بلا بھیجا ہے‘‘۔

    بہزاد نے جواب میں کہا ’’اچھا۔ مگر برائے مہربانی ذرا جلدی کریں‘‘۔

    ’’ہاں۔ ہاں۔ کوشش کریں گے‘‘۔

    اس گفتگو کے بعد برازیلین منیجر زینے کے راستے نیچے چلا گیا۔

    پھرجیسے وقت ٹھہر گیا۔ بہزاد کو یوں لگا جیسے صدیاں گذر گئیں۔ وہ ادھر ادھر کی سوچنے لگا۔۔۔بیکار باتیں۔ اس نے دنیا بھر کی باتیں سوچ ڈالیں، مگر عذاب کی ساعت تھی کہ ختم ہونے کو نہ آتی تھی۔۔۔ آہستہ آہستہ وہ خالی الذہن ہونے لگا۔ وقت قطرہ قطرہ رگ جاں پر گرنے لگا۔۔۔ ہرقطرے میں، ہر پل میں ایک نہ ختم ہونے والی اذیت پنہاں تھی۔ اس کا جسم دکھنے لگا، ٹانگیں شل ہونے لگیں۔ ہر مرتبہ اسے یو ں محسوس ہوتا کہ و ہ ابھی گرپڑے گا، کیونکہ اس میں کھڑا ہونے کی مزید سکت نہ تھی۔

    اسی عذاب کے دوران اس کی نظر یکدم اس آئینے پر پڑی جو لفٹ میں چاروں طرف لگا ہوا تھا اور آئینے کا ایک حصہ نشئی کی پشت پر بھی موجود تھا، جس میں اس کا چہرہ نظر آ رہا تھا، مگر۔۔۔ کیا یہ اسی کا چہرہ تھا؟ کیا اس کے بال کنپٹیوں پر سے سفید تھے؟ کیا اس کے ماتھے اور آنکھوں کے نیچے لکیروں کا جال بچھ چکا تھا؟ کیا اس کے ہونٹوں کی دونوں اطراف دو بڑی سلوٹیں پہلے بھی موجود تھیں؟ نہیں۔۔۔ ایسا تونہ تھا۔۔۔۔ یا پھر شاید اس شہر میں آنے کے بعد یہ سب نشانیاں ظاہر ہوئی ہوں۔ اس شہرکے ظالم روزمرہ اور غم روزگار نے یہ سب کچھ دیکھنے کی مہلت ہی نہ دی ہو۔

    ایک برقی جھٹکے سے بہزاد پر اس گھڑی ساری صورت حال کی مجہولیت یوں واضح ہوئی جیسے سورج سوا نیزے پر آ گیا ہو اور اس کی روشنی آنکھوں میں چبھنے لگی ہو، اس نے سوچا ’’یہ کتنا مضحکہ خیز ہے کہ وہ کروڑوں کے اس شہر میں ایک گھٹیا ہوٹل کی بوسیدہ لفٹ میں ایک نشئی کے پر تعفن وجود سے یوں بغلگیر ہے جیسے کوئی عاشق اپنی محبوبہ سے۔۔۔ اور نیچے سڑکوں پر ہجوم اسی طرح رواں ہے۔ وال سٹریٹ میں لین دین اسی طرح زور وشور سے جا ری ہے۔ یو این او میں دنیا بھر کے ڈپلومیٹس جانے کن مسائل پر ہنس ہنس کر ایک دوسرے کو ٹھگنے کی کوشش میں مصروف ہیں، ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ اسی طرح سر اٹھائے کھڑی ہے، فلک بوس مجسمہ آزادی اپنے ہاتھ میں مشعل لیے اپنی جگہ پر قائم ہے۔۔۔ اور کسی کو خبر تک نہیں کہ وہ۔۔۔بہزاد۔۔۔ گھنٹوں سے تیسرے درجے کے ایک ہوٹل میں عمر رسیدہ لفٹ میں ایک مدقوق نشئی سے مجبوراً ہم آغوش، جانے کون سا عذاب جھیل رہا ہے‘‘۔

    انکشاف کی اس ساعت بہزاد نے آئینے میں دیکھا کہ ایک بھورا ٹھگنا، دیو قامت سفید فام اجنبی کے بدبو دار جسم سے خود چمٹا ہوا ہے۔ اسے اپنے آ پ سے گھن آنے لگی۔ اس نے سوچا ’’وہ یہاں اس شہر غدار، اس دیارغیر میں کیا کر رہا ہے جہاں کسی کو اس کے جینے مرنے کی نہ خبر ہے، نہ پروا۔ یہ سرزمین جہاں اس کے آباؤ اجداد کے خون کا ایک قطرہ بھی مٹی میں جذب نہیں ہوا جہاں اس کی جڑیں نہیں ہیں، وہ یہاں کیا کر رہا ہے؟ ان لوگوں کے درمیان جنہوں نے اسے گم گشتہ ماضی میں مدفون کر دیا ہے، وہ یہاں کیا کر رہا ہے؟‘‘

    اور اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ واپس چلا جائےگا، اپنے وطن، اپنے گھر، اپنے عزیزوں کے درمیان۔

    بیل فری میں نصب گھنٹی بج اٹھی۔ اس میں بسیراکرنے والے کبوتر غول در غول پھڑپھڑاتے ہوئے، اس کی چاروں کھڑکیوں سے طوفان کی طرح پھٹ پڑے۔ آسمان پل بھر کے لیے برف کے گالوں سے سفید ہو گیا۔۔۔ پھر بہزاد نے دیکھا کہ بہاء الدین زکریا کے مزار کے چراغ والے صحن میں کبوتر دانہ چگنے اتر آئے ہیں۔

    غالباً لفٹ میں پیدا ہونے والانقص مستر ی نے رفع کر دیا تھا، اس کا جام دروازہ کھٹاک سے کھل گیا۔

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    મધ્યકાલથી લઈ સાંપ્રત સમય સુધીની ચૂંટેલી કવિતાનો ખજાનો હવે છે માત્ર એક ક્લિક પર. સાથે સાથે સાહિત્યિક વીડિયો અને શબ્દકોશની સગવડ પણ છે. સંતસાહિત્ય, ડાયસ્પોરા સાહિત્ય, પ્રતિબદ્ધ સાહિત્ય અને ગુજરાતના અનેક ઐતિહાસિક પુસ્તકાલયોના દુર્લભ પુસ્તકો પણ તમે રેખ્તા ગુજરાતી પર વાંચી શકશો

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے