Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہاؤس ہوسٹس

غضنفر

ہاؤس ہوسٹس

غضنفر

MORE BYغضنفر

    ایرکنڈیشنڈ آفس میں ایزی چیئر پر بھی مسٹر چوپڑا دباؤ اور تناؤ لیے بیٹھے تھے۔وہ ایک نئی قسم کے بواسیر میں مبتلا تھے۔ مسے ان کے دماغ میں تھے۔ جس دن مسے زیادہ پھول جاتے مسوں میں ہل چل سی مچ جاتی اور دباؤ سے چہرے کا تناؤ بڑھ جاتا۔

    آفیسر بیگ میز پر کب سے تیار پڑا تھا مگر وہ اسے اٹھانہیں پا رہے تھے، جیسے اس میں کسی نے آتش گیر مادہ رکھ دیاہو۔ آتش گیر مادہ تواس میں نہیں تھا مگر گھر جاکر جب بھی وہ بیگ رات میں کھلتا تو دھماکا ضرور ہو جاتا۔ کاغذوں کے پھیلتے ہی گھر میں بھونچال آ جاتا۔ ماحول کی دھجیاں بکھر جاتیں۔ درودیوار میں دھواں بھر جاتا۔ یہ اور بات ہے کہ گھر کے بھونچال، ماحول کے بکھراؤ اور درودیوار کے دھویں کا سبب صرف یہ بیگ ہی نہیں تھا بلکہ گھر کے اردگرد آئے دن کھلنے والے وہ بکسیز بھی تھے جن سے نکلنے والا تیز رنگوں اور بوؤں کا بارودی غبار کھڑکیوں، دروازوں اور روشن دانوں سے گھس کر دل ودماغ پر چڑھتا اور سانسوں میں بستا جا رہا تھا۔ کچھ اور چیزیں بھی تھیں جو باہری دباؤ کے باعث اندر سے اٹھ رہی تھیں اور ان سب سے گھر کا توازن بگڑتا جا رہا تھا۔

    گھر کے بگڑے ہوئے توازن سے نکلنے والی بےہنگم، کرخت اور بےرس آوازیں حسبِ معمول مسز چوپڑا کے کانوں میں ادھم مچا رہی تھیں اور توازن کے اس بگاڑ سے بننے والی بد رنگ بےکیف اور بد ہیئت صورتیں آنکھوں میں بچھوؤں کی طرح اپنا ڈنک چبھو رہی تھیں۔

    مسٹر چوپڑا کے مشتعل مسّوں کا ایک علاج سنکائی ضرور تھا جس کا انہیں تجربہ بھی تھا۔ وہ کسی باریاکیبرے میں چلے جاتے۔ شراب کا نشہ انہیں سن کر دیتا یا کیبرے ڈانسر کے عریاں بدن سے نکلنے والی گرمی وماغ کے مسّوں کوگرما کرنرم بنا دیتی۔ کولھوں کے جھٹکوں سے انہیں آرام مل جاتا مگر گھر پہنچتے ہی سوئے ہوئے مسّے اپنی آنکھیں کھول دیتے۔

    جب بھی تناؤ بڑھتا مسٹر چوپڑا کا ذہن ادرھر ادھر بھٹکتا ہوا اپنی فیکٹری کے بنے کھلونوں پر آکر رک جاتا۔ ان کے سامنے طرح طرح کے کھلونے گھومنے لگتے۔ ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے جو روتے بچوں کو ہنسا دیتے، ضدی بچوں کی ضد کو دبا دیتے، ان کا دھیان ایک طرف سے دوسری جانب موڑ دیتے، اپنے کرتب سے بچّوں کے پیٹ میں گدگدیاں بھر دیتے۔ پژمردہ چہروں پر شادابیاں سجادیتے۔ ویران آنکھوں میں چراغ جلا دیتے۔

    آج بھی ان کا ذہن کھلونوں پر آکر رک گیا تھا۔

    کھلونوں کے سامنے بچوں کی جگہ جوان اور بوڑھے کھڑے تھے، جن کی ویران آنکھیں، کھنچے ہوئے چہرے ،خشک ہونٹ، پرشکن پیشانی، سخت سپاٹ پیٹ، سب کے سب کھلونوں کی سمت ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔

    ’’سرا بھی تک——‘‘مسٹر چوپڑا آواز پر چونک پڑے۔ سامنے ان کے مینجر ملہوترا کھڑے تھے۔

    ’’ہاں مگر آپ! مسٹر چوپڑا نے ملہوترا کی طرف تعجب سے دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’سر آپ کو ایک خوش خبری سنانی ہے۔‘‘

    ’’سنائیے۔‘‘

    ’’آپ کے خوابوں کی تعبیر مل گئی سر!‘‘

    ’’کون سے خواب؟ کیسی تعبیر؟‘‘مسٹر چوپڑا کی آنکھیں پھیل گئیں۔

    ’’سر ہم نے ہاؤس ہوسٹس تلاش کر لی ہے۔‘‘

    ہاؤس ہوسٹس؟

    ’’یس سر!‘‘

    مسٹر چوپڑا کے ذہن میں ہوائی جہاز اڑنے لگے ۔آس پاس خلائی دوشیزائیں سجی سنوری مہکتی اور مسکراتی ہوئی پھرنے لگیں۔ شگفتہ جسموں کی تازگی دل ودماغ کو تروتازہ کرنے لگی۔

    سفرکی گرد چھٹنے لگی۔ تناؤ ڈھیلا پڑنے لگا۔ کاروباری الجھنوں، گھریلو جھمیلوں، سودوزیاں کی جھنجھٹوں اور جھنجھلاہٹوں سے مکتی ملنے لگی۔ ماضی کی تلخیوں پر پردہ پڑ گیا۔مستقبل کی چنتاؤں پر غلاف چڑھ گیا۔ حال ہواکی طرح ہلکا ہو گیا۔

    ’’کیا سچ مچ ہاؤس ہوسٹس مل گئی؟‘‘

    ’’یس سر!‘‘

    ’’کیا یہ ہاؤس ہوسٹس بھی ویسی ہی ہوگی جیسی کہ جہازوں میں ہوتی ہیں جو پورے سفر میں ہر ایک مسافرکی شریک حیات بنی رہتی ہیں، جن سے بنا ضرورت بولنے کو جی چاہتا ہے۔ بنا بھوک پیاس کے بھی جن سے کھانے پینے کی چیزوں کی فرمائش کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ جنھیں ہر کوئی اپنی آنکھو ں میں قید کر لینا چاہتا ہے۔ جن کی بدولت ہوائی جہاز کا سفر ہوا کی طرح سبک ہو جاتا ہے؟

    ’’سران سے بھی بہتر ہے ہماری ہاؤس ہوسٹس۔‘‘

    کیا؟ ’’آنکھوں کے ساتھ مسٹر چوپڑا کے ہونٹ بھی پھیل گئے۔‘‘

    ’’میں سچ کہہ رہا ہوں سر! آپ کے خوابوں کی تعبیرکی تلاش میں ہم کئی ہوائی میزبانوں کے گھربھی گئے مگر گھروں کے اندران کے جسموں پر ہوائی جہاز والا رنگ و نور نظر نہ آیا۔ان کا چہرہ پھیکا، باسی اور بوسیدہ لگا۔ ان سے بات کرتے وقت ان کے لہجوں میں جھنجھلاہٹ اور اکھڑپن بھی محسوس ہوا۔ سر !ہم نے جوہاؤس ہوسٹس حاصل کی ہے اس کا رنگ وروپ ہمیشہ تروتازہ رہےگا۔ اس کا لب ولہجہ بھی سدا پرسکون اور پرکیف بنا رہےگا۔‘‘

    ’’مجھے یقین نہیں آ رہا ہے۔‘‘

    ’’یقین آ جائےگا! جب آپ اسے دیکھیں گے۔‘‘

    ’’میں جلد سے جلد دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’میں تو اسی لیے حاضر ہوا ہوں سر۔‘‘

    مسٹر چوپڑا اسپرنگ کی طرح اچھل کر اپنی کرسی سے اترے اور ملہوترا کے پیچھے پیچھے اپنی فیکٹری کے گیسٹ ہاؤس تک پہنچ گئے۔ ملہوترا نے آگے بڑھ کر کال بٹن کو دبا دیا۔ بٹن کے دبتے ہی دروازہ کھل گیا۔

    ایک نہایت حسین وجمیل دوشیزہ نے جاں بخش مسکراہٹ سے استقبال کیا۔ مسٹر چوپڑا کی نگاہیں دوشیزہ کے مقناطیسی رنگ وروپ پرکسی کمزور لوہے کی طرح فوراً چپک گئیں۔ متناسب، سڈول، شگفتہ، شاداب اور پرآب جسم نے مسٹر چوپڑا کے پژمردہ اور ویران آنکھو ں کے آگے رنگ ونور بکھیر دیے۔

    چند لمحے بعد اس حسنِ مجسم کے لب لعلیں بھی کھل گئے۔

    ’’یہ کیا؟ آپ نے پھر چہرے کو تناؤ سے بھر لیا؟ میں کہتی ہوں آخر اتنی سوچ فکر کیوں؟ یہ بھاگ دوڑ کس لیے؟——زندگی مسکرانے کے لیے ملی ہے، اداس ہونے کے لیے نہیں۔ میں اس چہرے پر پھول دیکھنا چاہتی ہوں، خار نہیں۔ آئیے گرم پانی تیار ہے، منہ ہاتھ دھو لیجیے، کچھ ریلیف مل جائےگا۔‘‘

    مسٹر چوپڑا حیرت واستعجاب سے اس حسینہ کی طرف دیکھتے ہوئے باتھ روم کی جانب بڑھ گئے۔ اس کی آواز کا جادو اور لہجے کی اعتمادی قوت نے انہیں واش بیسن تک پہنچا دیا۔باتھ روم سے باہر نکلے تو وہ پھر ان کے پاس آ گئی۔

    ’’کیا لیں گے؟ چائے، کافی؟ یاکوئی سافٹ ڈرنک؟ کہیے تو وہسکی کا ایک پیگ بنا دوں؟‘‘

    مسٹر چوپڑا اس کی آنکھوں کے پرخلوص بھاؤ اور باتوں کے مترنم بہاؤ میں بہنے لگے۔ چہرے کا کھنچاؤ کم ہونے لگا۔ بوجھل من سبک ہونے لگا جیسے ان کے مسوں کو ٹھنڈک پہنچ گئی ہو۔

    ’’سر! اب ذرا اس کاایک دوسرا رول دیکھیے۔ ملہوترا نے ایک اسکول بوائے کو بلوایا جو اپنی پیٹھ پر کتابوں کا بستہ لادے ایک دوسرے کمرے میں تیار بیٹھا تھا۔ بچہ اشارہ پاکر دروازے کی طرف بڑھا۔ پیچھے پیچھے دروازے تک ہاؤس ہوسٹس بھی پہنچ گئی۔

    ’’دیکھو بیٹے!ٹھیک سے اسکول جانا۔ راستے میں کہیں ادھر ادھر نہ رکنا۔ چھٹی ہونے پر سیدھے گھر پہنچنا۔ لنچ ٹائم میں لنچ ضرور کھا لینا۔ بھولنا نہیں۔ پیاس لگے توپانی صرف اپنی بوتل کا پینا اور سنو ایک قدم آگے بڑھ کر اس نے بچے کی پیشانی پرایک پیار بھرا بوسہ ثبت کر دیا۔

    بچہ لمسِ محبت سے سرشار ہوکر جھومتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

    ہاؤس ہوسٹس کے ہونٹوں سے چھلکتی ہوئی ممتا مسٹر چوپڑا کے من کے پیالے میں بھر گئی۔ ان کا سراپا معصوم بچے کی طرح مسکرا اٹھا۔

    ’’سر ایک اور روپ ملاحظہ فرمائیے۔‘‘ ملہوترا نے آگے بڑھ کر دروازہ بند کر دیا۔

    تھوڑی دیر بعد کال بیل بجی اور ہاؤس ہوسٹس دروازے پر پہنچ گئی۔ دروازہ کھلا۔ سامان سے لدی پھندی ایک عورت اندر داخل ہوئی۔

    ’’میم صاحب! شاپنگ کیسی رہی؟ لگتا ہے آپ بہت تھک گئی ہیں۔ بیٹھیے پہلے میں آپ کے لیے گرماگرم کافی لاتی ہوں۔ پھر آپ کے جسم کا مساج کر دوں گی۔ آپ پھرسے فریش ہو جائیں گی۔‘‘

    ’’کیسی لگی سر؟‘‘

    ’’بہت اچھی۔ بہت ہی پیاری۔ ایک دم فنٹاسٹک!‘‘

    ’’تھینک یوسر!‘‘

    ’’مگر ملہوترا!‘‘

    ’’سر؟‘‘

    ’’گھر کے اندر جاکر کہیں یہ بھی ایئر ہوسٹس کی طرح باسی اور پھیکی تونہیں ہو جائےگی۔‘‘

    ’’بالکل نہیں سر! ذرا اسے غور سے تو دیکھیے۔اس کی جلد میں جو کساؤ ہے وہ کبھی ڈھیلا نہیں پڑےگا اور اس کا رنگ تو اتنا پختہ ہے کہ کسی بھی موسم کا وار اسے پھیکا نہیں کر سکتا اور اس کے لب ولہجے میں ایسی جاذبیت ہے کہ قیامت تک بھی ختم نہیں ہوگی۔‘‘

    ’’تو کیا یہ——؟‘‘ حیرت سے مسٹر چوپڑا ملہوترا کی طرف دیکھنے لگے۔

    ’’یس سر!‘‘

    ’’ونڈرفل! میں تو سمجھ رہاتھا کہ——بھئی ملہوترا تم نے واقعی کمال کر دیا۔ آئی ایم پراؤڈ آف یو۔‘‘

    ’’سر! کمال تو اس کا ہے جو اس کے اندر ہے۔جو اتنا sensative ہے کہ پیروں کی چاپ سے سمجھ جاتا ہے کہ آنے یا جانے والا مرد ہے یا عورت ہے۔ جوان ہے یا بوڑھا ہے۔ یابچہ ہے۔ جو یہ بھی محسوس کر لیتا ہے کہ کوئی آ رہا ہے یا جا رہا ہے۔ جسے وقت کا بھی احساس رہتا ہے اور جو جنس، عمر، وقت، حیثیت، موقع، ماحول، موسم سب کو نگاہ میں رکھتا ہے اورا اسی کے مطابق اپنا رول پلے کرتا ہے۔‘‘

    ’’واہ ملہوترا واہ! آج پتہ چلا کہ تم ایک کامیاب بزنس مین اور اچھے سائنس داں ہی نہیں بلکہ ایک عظیم تخلیق کاربھی ہو۔سچ مچ تم نے میرے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈ نکالی ہے ۔اب جلد سے جلد یہ تخلیق میر گھر پہنچ جانی چاہیے۔

    ’’سر! لیکن ایک درخواست ہے‘‘

    ’’بولو‘‘

    ’’سر ہم اس کی نمائش کرنا چاہتے ہیں اگر آپ اجازت دیں تو۔‘‘

    ’’ مسٹر چوپڑا سوچ میں پڑ گئے‘‘کچھ دیر کے بعد بولے۔

    ’’ٹھیک ہے مگر نمائش میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔‘‘

    ’’بالکل دیر نہیں ہوگی سر!‘‘

    بہت جلد نمائش کی تیاریاں مکمل کرلی گئیں۔ ہاؤس ہوسٹس نمائش کے لیے شہر کے سب سے بڑی آرٹ گیلری میں رکھی گئی۔ دیکھنے والوں کا تانتا لگ گیا۔ ہاؤس ہوسٹس کے مختلف طرزوں اور روپ کا مظاہرہ دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے۔

    نمائش کے بعد ملہوترا نے ایک موٹا سا رجسٹر مسٹر چوپڑا کے سامنے رکھ دیا۔

    یہ کیا ہے؟

    ’’سر! اس میں لوگوں کے کمنٹس Comments ہیں۔‘‘

    مسٹر چوپڑا نے رجسٹرکھول کر ادھر ادھر سے پڑھنا شروع کیا۔

    ’’آپ کی فیکٹری نے یہ ایک ایسا جاندار کھلونا بنایا ہے جو بےجان جسموں میں بھی جان ڈال دیتا ہے اور جو بچہ، بوڑھا، جوان، مرد، عورت سب کے لیے کشش رکھتا ہے۔

    (رپورٹر)

    ’’اس تخلیق کودیکھ کر میری طرح بہت سے، ادیب تخلیق کرنا بھول جائیں گے۔‘‘

    (ادیب)

    ’’آپ اسے بیچنا چاہیں تو میں اس کے منہ مانگے دام دے سکتا ہوں۔‘‘

    (تاجر)

    ’’روبوٹ سائنس کی ایک بہت بڑی دین ہے مگر اس میں خوبصورتی پیدا نہیں کی جا سکی۔ آپ نے اس ماڈل کو حسن عطا کرکے سائنس کو بہت آگے بڑھا دیا ہے۔

    (سائنس داں)

    ’’آپ اسے میر گھر پہنچا دیجیے۔ بدلے میں جو چاہے کرا لیجیے‘‘ (منسٹر)

    ’’مجھے یہ اتنی اچھّی لگی کہ میں اپنے ممی پاپا کو بھی بھول گئی۔‘‘ (طالبہ)

    ’’میں ایک کم تنخواہ والا ملازم ہوں۔ اسے خرید نہیں سکتا۔ اس لیے جی چاہتا ہے اسے چراکر اپنے گھر لے جاؤں۔‘‘ (ٹیچر)

    ’’نوکری اگر نہیں، تو یہ ہاؤس ہوسٹس ہی مجھے دے دی جائے۔‘‘

    (بےروزگار)

    ’’یہ تواتنی قیمتی ہے کہ اگر اس کی اسمگلنگ کی جائے تو ہیرا، سونا، چرس، حشیش، افیون، براؤن شوگر سب پرپانی پھر سکتا ہے۔ (اسمگلر)

    ’’اتنی پیاری چیز کو آپ نے یہاں بند کر رکھا ہے۔ اسے گھر لائیے نا۔‘‘

    مسز اوشا ملہوترا، وائف آف ایم۔ آر۔ ملہوترا

    مینجر ٹوائز کمپنی

    (مجموعہ پارکنگ ایریا از غضنفر، ص 216)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے