Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حب الوطنی

ذاکرہ شبنم

حب الوطنی

ذاکرہ شبنم

MORE BYذاکرہ شبنم

    آج علی رحمان کی شادی ہو ئے صرف ایک ماہ گذرا تھا۔ علی اپنی شادی کے لیے دو ماہ کی چھٹی لے کر اپنے گھر دلی آیا ہوا تھا۔ اسے اپنی شریک حیات کے روپ میں پڑھی لکھی بہت ہی خوبصورت اور نیک سیرت رو شنی مل گئی تھی۔ وہ رو شنی کو پا کر بےحد خوش تھا۔ علی رحمان آرمی میں فو جی تھا اس کے والد بھی فو ج میں کرنل تھے انہوں نے اپنے دیش کی خاطر اپنی جان نچھاور کر دی اور شہید ہوچکے تھے بہادری کے اعزاز میں انہیں پرم ویر چکر سے بھی نوازا گیا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کے دونوں بیٹے علی رحمان اور فصیح رحمان فو ج میں شامل ہوں اور اپنے وطن کی حفاظت کریں۔ ماں نے اپنے سہا گ کے شہید ہو نے پر بڑے صبر سے اپنے آنسوؤں کو پی لیا اور اپنے دل پر پتھر رکھ کر مر حوم شوہر کی خواہش کے مطابق اپنے دونوں بیٹوں کو فوج میں بھرتی ہو نے کی اجازت دے دی۔ علی رحمان نے ٹریننگ مکمل کرکے آرمی جو ائن کر لیا تھا۔ فصیح رحمان چو نکہ چھوٹا تھا اس کی ٹریننگ میں ابھی پورے دو ماہ باقی تھے۔ رو شنی بچپن سے فصیح رحمان کے ساتھ پڑھا کرتی تھی یہی وجہ تھی کہ پڑھا ئی میں اکثر مدد لینے کی خا طر اس کا گھر میں آنا جانا تھا۔ ماں کو بےحد پسند تھی اور ماں نے رو شنی کو علی رحمان کے لیے چن لیا۔

    بڑی دھوم دھام اور مسرتوں کے ساتھ شادی کی تقریب انجام پذیر ہوئی۔ آج شادی کو ہو ئے ایک ماہ پورا ہو ا تھا۔ روشنی نے آج کے دن خود اپنے ہا تھوں سے لذیذ پکوان بنا ئے تھے۔ سبھی اس کی تعریف کے پل باندھ رہے تھے اور چٹخارے لے لے کر نوش فرما رہے تھے۔ وہ اپنی تعریف سن کر پھولے نہیں سما رہی تھی۔ اس کے چہرے پر خو شی سے لالی آ گئی تھی شرم سے رخسار لال ہو ئے جا رہے تھے۔ اتنے میں دروازے کی گھنٹی بجی علی رحمان نے جاکر دروازہ کھولا۔ ایک آدمی اس کے ہاتھ میں ٹیلی گرام تھما کر چلا گیا۔ ٹیلی گرام علی رحمان کے ہی نام تھا۔ اسے فوراً بلایا گیا تھا۔ چھٹی رد کرکے اسے فوراً جا نا تھا۔ اچا نک دراندزوں نے ہماری سرحد وادی کشمیر میں داخل ہو کر حملہ کر دیا تھا۔

    سر حد پر لڑائی چھڑ چکی تھی، یہ خبر سنتے ہی سبھی کے چہرے پھیکے پڑ گئے۔ ابھی چند لمحے پہلے خو شی سے سب چہک رہے تھے۔ اب نقرئی آوازوں کی جگہ خاموشی نے لے لی تھی۔ سارے گھر میں سنا ٹا سا چھا گیا اور رو شنی اپنے آنسوؤں کو روک نہ پا ئی دوڑ تے ہو ئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ خود کو بستر پر گراتے ہو ئے تکیہ میں منہ چھپا ئے بےاختیار رو پڑی۔

    علی رحمان ایک فوجی تھا۔ وہ فوجی جس کا نہ تو گھر سے جانے پر کو ئی اختیار ہوتا ہے نہ ہی پلٹ کر آ نے پر کوئی اختیار۔ اس نے رو شنی کو سمجھایا کہ ایک فوجی کی بیوی کو اس طرح آنسو نہیں بہانا چاہیے بلکہ اسے اپنے آپ پر فخر کرنا ہو گاکہ وہ ایک ہندوستانی فوجی کی بیوی ہے۔ جو اپنے وطن کی خا طر اپنی جان بھی دینے سے گریز نہیں کرتا۔ علی نہ جانے کیا کیا کہے جا رہا تھا اور وہ معصوم اس کے سینے میں سر چھپائے روئے جا رہی تھی۔ اسی طرح ایک دوسرے کو تسلی دینے اور ہمت بند ھا نے میں رات نہ جانے کیسے بیت گئی۔

    صبح اسے اپنے وطن کی راہ میں نکلنا تھا۔ ماں نے اپنے کلیجے پر پتھر رکھ کر اپنے بیٹے کو ڈھیر ساری دعا ئیں دیں۔ بھائی نے گلے لگ کر یہ کہا کہ بھائی تم آگے آگے چلو میں تمہارے پیچھے چلا آتا ہوں۔ اپنے دیش پر حملہ آور دشمنوں کو دونوں مل کر بھگا ئیں گے۔ دونوں نے ایک ساتھ مسکرا کر ایک دوسرے کو سلیوٹ کیا اور علی نے اپنے چھوٹے بھائی فصیح کو تاکید کی کہ میری غیر حاضری میں ماں کا اچھی طرح خیال رکھنا اور روشنی کو کبھی مایوس مت ہونے دینا۔ ہمیشہ اس کی دلجوئی کر تے رہنا۔ میں برابر خط لکھتا رہوں گا۔ رو شنی نے بھی وعدہ کے مطا بق بڑے صبر و ضبط سے مسکراکر علی کو خدا حافظ کہا اس طرح علی رحمان سب سے وداع لے کر میدان میں سر حد پہنچ گیا۔

    سرحد پر سبھی فوجیوں میں ایک جنون سا پیدا ہو گیا تھا۔ ہمارے ہندی جوان مورچہ سنبھالے دشمن کا سامنا کر نے کے لیے تعینات تھے۔ ہر پل اپنے کمانڈر کے آرڈر کے منتظر کہ کب وہ انہیں فائرنگ کا حکم دے اور یہ جوان اپنے دشمنوں کو گولیوں سے بھون ڈالیں۔ کوئی بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ سب کو اپنے وطن کی حفاظت کی فکر تھی۔ کئی جوان اپنے دیش کی خاطر شہید ہو رہے تھے۔ سب کی زبان پر جئے ہند اور بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ تھا۔ ہمارے پیارے ہندوستان میں ظاہر ہے کوئی ایک قوم نہیں ہے سبھی ایک ذات سے منسلک نہیں ہیں۔ قو می یکجہتی سے بندھے سارے مذاہب کے لوگ فو ج میں اکٹھا تھے۔ ہندو مسلم سکھ عیسا ئی سبھی بھائی یہاں مو جود تھے۔ کو ئی اپنے مذہب یا اپنے ایمان کی خاطر نہیں لڑ رہا تھا۔ سب کو اپنے دیش کی اپنے وطن کی حفاظت کی فکر تھی۔ یہی ان کا دھرم تھا اور یہی ان کا کرم۔

    اس جنگ میں شریک کوئی کسی کا باپ تھا تو کوئی کسی کا بیٹا، کوئی کسی کا بھائی تو کوئی کسی کا شوہر۔ سبھی دیش کی رکھشا میں اپنا دھرم نبھا رہے تھے۔ انہیں تھوڑا بھی وقت مل جاتا تو اپنے گھر والوں کو تسلی بخش چھٹیاں لکھنے میں گذار دیتے۔ علی رحمان بھی اپنے گھر والوں کو برابر خطوط لکھتا رہا۔ روشنی کو لڑائی کے بارے میں بتاتا اور لکھتا کہ فتح ہماری ہوگی۔ ہم جیت جائیں گے۔ تم فکر مت کرنا میں جلد واپس آؤں گا۔ تم ہمیشہ خوش رہنا۔ وہ چند دن جو میں نے تمہارے ساتھ گذارے ہیں ان چند دنوں میں جو پیار تم نے مجھے دیا ہے۔ وہی پیار میرے اندر طاقت بن کر مجھے دشمن سے لڑنے کی قوت دے رہا ہے اور تمہاری وہ پیاری سی صورت ہمیشہ میری نگاہوں کے آگے آ تے ہوئے مجھے حوصلہ بخشتی ہے۔ ان با توں کے ساتھ ساتھ وہ ہمیشہ ہر خط میں یہ بھی ضرور لکھتا کہ اگر میں اپنے وطن کے لیے لڑتا ہوا شہید ہو جاؤں تو تم اپنی آ نکھوں سے آ نسو ہرگز بھی نہ بہانا اپنے آپ پر ما یوسی کا لبادہ اوڑھ کر اپنی حسین زندگی کو برباد مت کرنا بلکہ بہادری کے ساتھ زندگی کی ساری خوشیوں کو سمیٹ کر جینا۔

    رو شنی اس کا خط پاکر جتنا خو ش ہوتی آخر میں لکھی ہوئی اس کی باتیں بڑھ کر اتنی ہی دکھی ہو جاتی۔ ادھر فصیح رحمان رو شنی کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہمیشہ اس کی دلجوئی میں لگا رہتا۔ کبھی لطیفے سناکر تو کبھی اپنے اور بھائی کے بچپن کی باتیں بتا کر اسے ہنسایا کرتا کہ کس طرح دونوں کو بچپن سے فو ج میں بھرتی ہو نے کا ارمان تھا۔ عمر میں دونوں کی دو ہی سال کا فرق تھا۔ علی رحمان بڑا ہو نے کے ناطے ہمیشہ فصیح رحمان کو ستایا کرتا کہ تمہیں فو ج میں نہیں جانا ہے۔ میں فوج میں جاؤں گا کیو نکہ میں تم سے بڑا ہوں۔ دیکھو فو جیوں کی طرح میں کتنا طاقتور ہوں۔ میرا سینہ کتنا چوڑا ہے تم چھوٹے ہو پڑھائی کرنا اور گھر میں رہ کر ماں کا خیال رکھنا بھائی کی باتوں پر فصیح کو غصہ آ جاتا اور وہ کہتا میں بھی کرنل کا بیٹا ہوں مجھ میں طاقت بہت ہے میرا سینہ بھی بالکل تمہاری ہی طرح چوڑا ہے میں بھی ضرور فوجی ہی بنوں گا اور وطن کے لیے لڑوں گا۔ آخر میں ماں آکر ہماری لڑائی یہ کہہ کر چکاتیں کہ تم لو گ جھگڑو مت تم دونوں ہی بہت طاقتور ہو اور تمہارے والد کی طرح تمہارے سینے بھی چوڑے ہیں، تم دونوں ضرور فوج میں جاؤگے بس اب چپ ہو جاؤ۔

    فصیح کی باتیں سن کر روشنی خو ب ہنسا کرتی۔ روشنی اس کی کلاس میٹ تھی اس کی ہم عمر اس لیے وہ اسے نام سے بلایا کرتا، جب علی رحمان کی رو شنی کے نام چھٹی آتی تو فصیح رحمان ڈاکیہ سے ایک جھٹکے میں اصول کرلیتا اور رو شنی چھٹی حاصل کر نے کے لیے اس کے پیچھے پیچھے سارا آنگن بھا گتی پھر تی فصیح اسے خو ب ستاتا بیچاری تھک ہار کر شرم سے چپ بیٹھ جاتی اس کا تو رونا باقی ہو جاتا تب جاکے گھبراکر یہ کہتے ہو ئے اس کے ہاتھ میں چھٹی تھما تاکہ رو شنی صاحبہ اب خدا کے لیے ان خوبصورت آنکھوں سے موتیوں کی برسات شروع مت کر دینا ور نہ تمہیں ستا نے کے جرم میں بھائی سے ہمیں ڈانٹ کھا نی پڑےگی پھر دونوں ہنس پڑتے۔ رو شنی اپنی سہیلیوں سے بڑے فخر کے ساتھ سر اٹھا کر سینہ تان کے اپنے فوجی شوہر کے قصے سناتی اور کہتی کے میں ایک ہندوستانی فوجی کی بیوی ہوں جو وطن کی خاطر سرحد پر ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

    فصیح رحمان کی ٹریننگ بھی مکمل ہو چکی تھی اب تو اسے بھی سرحد پر جانے کا آرڈر مل چکا تھا۔ ایک طرف وہ اپنے وطن کی لڑائی میں شامل ہو نے پر فخر محسوس کر رہا تھا۔ خوش تھا تو دوسری طرف اسے اپنی ماں اور روشنی کی فکر ہو رہی تھی۔ اتنے دن تو بھائی کی غیرحاضری میں اپنی خوش گفتاری سے سارے گھر کے ماحول کو وہ سنبھا ل کرتا تھا۔ اب وہ بالکل اکیلے ہو جائیں گے یہی سوچ کر اسے فکر ہو نے لگی۔ مگر ظاہری طور پر وہ اپنی فکر کا اظہار نہیں کر رہا تھا۔ کیونکہ اسے ان سب باتوں کو بھول کر اپنے وطن کی راہ میں نکلنا تھا پھر ایک بار گھر میں ما یو سی کے بادل چھا گئے۔ اس نے پہلے ماں کو تسلی دی پھر رو شنی کو سمجھا یا اور اسے یہ کہہ کر خوش کر تے ہوئے وداع لی کہ میں جاتے ہی پہلے بھائی سے ملوں گا اور تمہارے بارے میں اُنہیں ساری باتیں بتا ؤں گا پھر فتح پا کر بھائی کو اپنے ساتھ لے آ ؤں گا۔ وہ جا کر علی رحمان سے ملا اور گھر کی کیفیت بھی سنائی علی رحمان نے خوشی سے اپنے بھائی کو گلے لگا لیا پھر دونوں اپنی اپنی پو زیشن سنبھالے اپنی اپنی کمپنیوں کے ساتھ لڑائی کے میدان میں دشمن کا مقابلہ کر نے لگے۔ ادھر رو شنی ماں کی خدمت کر تی اور لڑائی کی خبریں ٹی وی پر سننے اور اخبارات میں پڑھنے میں اپنا وقت گذارتی۔ ٹی وی میں جب دیکھتی کہ ہمارے کئی فوجی جوان دیش کے لیے شہید ہو رہے ہیں ان کی لا شیں ان کے گھر واپس پہنچائی جا رہی ہیں کیا گذرتی ہوگی ان کے گھر والوں پر یہ سوچ کر اس کا دل دہل جاتا۔ ملک کے ہر شہر میں لاکھوں کی تعداد میں تمام شہری مل کر جلوس نکال رہے تھے اور نعرے بلند کر رہے تھے شہید فوجیوں کے گھر والوں کی مدد کے لیے زخمیوں کے لیے فنڈ اکھٹا کیے جا رہے تھے وطن کی محبت میں بڑے تو بڑے بچے بھی پیچھے نہیں رہے اپنے دیش کی محبت میں معصوم بچے اپنے کھلو نے اور اپنی سائکلیں بیچ کر اپنی گولکیں توڑ کر اپنے دیش واسیوں کی مدد کر رہے تھے۔ وہ سو چتی کہ کتنا پیار اور ایثار لا جذبہ ہے ان ننھے بچوں کے دلوں میں اپنے وطن کے لیے لڑائی کے میدان سے دور بیٹھے ہم لوگوں کے دلوں میں اس قدر حب الو طنی کا جذبہ مو جزن ہے۔ تو ہمارے جوان فوج میں بھر تی ہوکر لڑنے کے لیے جا تے ہیں اور اپنے وطن کی خاک پر اپنی جانیں نثار کر تے ہیں۔ ان کے جذبات ان کا اظہار وطن پر فدا ہو نے والی وہ جانیں ان شہیدوں کو تو ہمارا لاکھوں سلام۔

    یہ سب سو نچتے سو نچتے اس کی آ نکھیں نم ہو جاتیں اور وہ اپنی پلکوں کی خو بصورت چلمن کو عرش کی طرف اٹھا تے ہو ئے دل ہی دل میں دعا کر نے لگتی ہے کہ اے اللہ ہمارے وطن کی حفاظت فرما اور وطن کی محبت میں لڑائی کے میدان میں لڑ رہے ہمارے جوانوں کو فتح نصیب فرما اور جو شہید ہو ئے ہیں ان کے گھر والوں کو صبر و تحمل عطا فرما۔

    ادھر اچا نک دشمن پر حملہ کر تے ہو ئے علی رحمان کی کمپنی کا فوجی کلدیپ سنگھ گر پڑتا ہے پا س ہی فائر کر تے ہوئے علی رحمان کی نظر اپنے ساتھی دوست کلدیب پر پڑتی ہے تو وہ فوراً آگے جا کر اپنے ساتھی کو بچانے کی خاطر اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اسے اپنے کاندھوں پر لادے جیسے ہی واپس مڑ نے لگتا ہے دشمن اس کے سینے پر گولیوں کو داغ دیتے ہیں وہ بہادری سے زخموں کو برداشت کر تے ہوئے کسی طرح اپنے فوجی بھائی کی جان بچاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے بیچ پہنچ جاتا ہے۔ بغل میں ہی فصیح رحمان کی کمپنی تعینات ہو نے کی وجہ سے فوراً اسے بلا لیا جاتا ہے، علی رحمان اپنے بھائی سے جئے ہند کے نعرے کے ساتھ یہ کہتے ہو ئے اس کی بانہوں میں دم توڑ دیتا ہے کہ اب روشنی کو تم اپنا لینا۔ یہ میری آخری خواہش ہے۔

    چھوٹے بھائی کے ہمراہ سپاہیوں کے ساتھ علی رحمان کی لا ش کو ترنگے میں لپیٹے بڑے عزت و احترام کے ساتھ دلی اس کے گھر پہنچایا جاتا ہے۔ فصیح رحمان کو اپنے وطن کے لیے اپنے بڑے بھائی کی شہادت پر فخر بھی ہوتا ہے کہ اس نے اپنے ملک کی خاطر لڑتے ہوئے اپنی جان فدا کر دی اور جاتے جا تے اپنے ایک فوجی بھائی کی جان بھی بچا گیا۔ ذہنی طور پر وہ ایک عجیب کشکمش میں مبتلا بھی رہتا ہے کہ و ہ اپنی ماں اور روشنی کو کیا جواب دےگا کیسے سنا سکےگا وہ اپنے بہادر بھائی کی وطن پر دی گئی قربانی والی داستان۔

    جیسے ہی سپا ہی علی رحمان کی لا ش کو لیے گھر میں داخل ہو تے ہیں روشنی اور ماں جہاں کھڑی رہتی ہیں حیرت اور سا کت سے آ نکھیں پھاڑے وہیں کھڑی رہ جا تی ہیں۔ ان دونوں کو یہ سمجھنے میں بالکل دیر نہیں لگتی کہ یہ لاش علی رحمان کی ہے کیونکہ ان کے سامنے سب سے آگے فصیح رحمان لاش کو کاندھا دیے ہو ئے ہوتا ہے۔ ماں کی آ نکھوں کے آگے تو ایسا ہی منظر پہلے بھی ایک مر تبہ گذر چکا تھا جب ان کے شوہر شہید ہوئے تھے۔ انہوں نے اس وقت بھی بڑی بہادری کا مظاہرہ کیا تھا۔ اپنے دونوں بچوں کو سینے سے لگائے بڑے ضبط سے کام لیا تھا۔ اب بھی اپنے آنسوؤں کو ضبط کیے اپنے بہادر بیٹے کی لا ش کو دیکھے جا رہی تھیں انہیں خیال ہو رہا تھا تو صرف اپنی نئی نو یلی بہو روشنی کا انہوں نے ساکت کھڑی روشنی کو جھنجھوڑا اسے رلانا چاہا مگر وہ خاموش بت بنی دم سادھے اپنے شوہر کی لاش کو تکے جا رہی تھی۔ نہ وہ اپنے لبوں سے کچھ کہہ رہی تھی اور نہ ہی اس کی آنکھوں سے ایک بھی آنسو بہہ رہا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اچانک اس کے دل کی دھڑکن رک گئی ہو۔ اپنے شوہر کے دیدار کو ترستی اس کی آنکھیں لاش کو دیکھ کر جیسے پتھرا گئیں ہوں۔

    فصیح رحمان روشنی کی یہ حالت دیکھ کر پریشان ہو اٹھا۔ اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں روشنی اگر اسی طرح بغیر روئے گھٹن میں رہےگی تو ہو سکتا ہے کہ اس کے دل و دماغ پر اس کی صحت پر اثر پڑے یہی سو نچتے ہو ئے روشنی کے قریب آکر کہنے لگا روشنی میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ میں جلد بھائی کو لیکر تمہارے پاس آؤں گا دیکھو میں بھائی کو لے آیا۔ دیکھو تو وہ یہ کہتے کہتے خود سسک پڑا اور اس کی یہ باتیں سن کر روشنی میں اچانک حرکت ہوئی اوروہ بھی پھوٹ پڑی۔

    بڑے ہی صبر و ضبط کے ساتھ اس کی تجہیز و تکفین کا سامان ہوا۔ کافی عزت و احترام سے آرمی والوں نے علی رحمان کو سلامی پیش کی اور پھر تدفین عمل میں آئی گھر جیسے سنسان ہو گیا تھا اسی حالت میں فصیح رحمان کا ابھی واپس چلا جانا گھر والوں کے لیے اور بھی تکلیف دہ ہو سکتا ہے یہی سوچ کر فصیح نے کچھ دن گھر والوں کے ساتھ ان کے غم اور تنہائی میں شریک رہنے کا فیصلہ کر لیا ہر پل چہکتے ہو ئے فصیح رحمان پر بھائی کی جدائی سے جیسے خاموشی نے قبضہ کر لیا ہو اور سارے گھر میں کھلکھلاتی ہوئی روشنی اپنے آپ میں گم بند کمرے میں سو چا کرتی کہ اداس اور تنہا سفر میں گزرے ہو ئے چند خوشگوار لمحات اور چند خوبصورت یادوں کی پرچھائیاں ہی اب اُس کے رفیق سفر ہیں۔

    انقلاب وقت نے اپنے دامن میں سب کچھ سمیٹ لیا تھا، انقلا ب یہ نہیں دیکھتا کہ اس کی روانی کا کس پر کیا اثر ہوتا ہے، کس کی متاع حیات لٹ گئی کس کا پیار قربان ہو گیا۔ فصیح رحمان اپنے دکھ کر چھپائے پہلے کی طرح روشنی سے بات کر نے اور اس کا دل بہلانے کی کوشش کر تا رہا اور روشنی بھی صبر سے اپنا زخم چھپائے مسکرا نے کی ناکام کوشش کر نے لگتی ماں نے بھی مضبوطی سے صبر کا دامن تھا مے رکھا سبھی اپنے اپنے دکھ کو چھپا ئے آپس میں ایک دوسرے کو خوش کر نے کی کوشش کر تے رہے سرحد پر لڑائی جاری رہنے کی وجہ سے فصیح رحمان کو واپس جانا تھا اور دشمنوں پر فتح حاصل کرنی تھی اس نے جانے سے پہلے ماں سے اپنے بھائی کے مر تے وقت کی کہی ہو ئی باتیں اس کی آخری تمنا بیان کی کہ کس طرح اُس نے روشنی کو اپنا نے کی التجا کر تے ہو ئے اس کی بانہوں میں دم توڑ دیا تھا۔

    فصیح نے ماں سے یہ بھی کہا کہ ان حالات میں روشنی سے میں یہ بات کہنے کی ہمت نہیں کر سکتا اور اس معصوم کو ہم ساری زندگی اسی طرح گھٹتے ہو ئے بھی نہیں دیکھ سکیں گے۔ ہمیں کوئی تو حل نکالنا ہوگا جس سے روشنی ہمیشہ خوش رہے۔ ماں نے کہا بیٹا اس مسئلہ کا حل تو تمہارے بھائی علی رحمان نے جاتے جا تے نکال دیا ہے اس پھول سی بچی کو ہم اپنی آنکھوں سے اوجھل کبھی نہیں ہو نے دیں گے میں اسے کسی بھی طرح مناکر اس بات پر راضی کر لوں گی، تم اپنے بھائی کی آخری بات مان لو، فیصلہ تمہارے ہاتھوں میں ہے پھر ایک بار فصیح رحمان سرحد پہنچ گیا یہاں ماں نے موقع دیکھ کر روشنی سے بات کی پہلے تو روشنی ان باتوں کو سن کر کا فی حیران ہوئی اور صاف انکار بھی کر دیا کہنے لگی میں اپنے شو ہر کی یاد میں ہی باقی زندگی گذارنے کی ہمت رکھتی ہوں، آخر میں بھی ایک شہید فوجی کی بیوی ہوں مجھے ہمت سے رہنا ہوگا اس نے کہا۔ ماں ہم صر ف اپنے بارے میں اپنی زندگی اور خوشیوں کے بارے میں سونچیں گے تو یہ کہاں کا انصاف ہوگا وطن کے لیے میری طرح کتنی سہاگنیں ہوں گی جنہوں نے اپنا سہاگ اور سندو ر مٹایا ہے۔ کتنی مائیں ہوں گی جو اپنے جوان بیٹوں کے روپ میں اپنا سہارا کھویا ہوگا۔ ہم ایک ہی واحد غم کے مارے نہیں ہیں۔ جو قربانی دے کر پھر سے جینے کے لیے خوشی تلاش کریں۔ ماں نے پھر ایک بار روشنی کو سمجھایا کہ میں مانتی ہوں تم ایک بہادر فوجی کی بیوی ہو کسی طرح ہمت جٹا لوگی جینے کے لیے مگر تم اکیلی معصوم کہاں تک، کب تک اس دنیا کے تھپیڑے کھاؤگی، تمہیں ایک مضبوط سہارے کی ضرورت ہے میں اس دور سے گذر چکی ہوں جب میرے شوہر شہید ہو ئے تو میرے دونوں بچے بھی میرے ساتھ تھے۔ تمہارے آگے ابھی ساری زندگی پڑی ہے تمہارا کہنا بجا ہے کہ وطن کی راہ میں بہت سی عورتوں نے کسی نہ کسی روپ میں اپنے سہارے نچھاور کیے ہیں۔ ہم سبھی کے لیے تو سہارے نہیں ڈھونڈ سکتے ہر ایک کو تو پھر سے خوشیاں نہیں دے سکتے تم ہماری گھر کی بہو ہو ہم چاہتے ہیں کہ کم سے کم تمہیں تو پہلے کی طرح ہر پل خوش دیکھ سکیں۔

    تم اس گھر میں ایک فوجی کی بیوہ بن کر نہیں بلکہ پھر سے ایک فوجی کی سہاگن بن کر جیؤ۔ اس آنگن میں پہلے کی طرح ہنستے مسکراتے ہو ئے زندگی گذارو یہ صرف ہماری ہی چاہ نہیں ہے بلکہ علی رحمان کی بھی یہی آخری خواہش تھی جو جاتے جاتے اپنے بھائی سے تمہیں اپنا نے کو کہہ گیا۔ تم یہ بات مان لوگی تو علی رحمان کی روح کو بھی تسکین ہوگی اور اس سونے گھر میں پھر سے تھوڑی بہت رو نق لوٹ آئےگی۔ ماں کے بہت سمجھا نے پر آخرکار روشنی کو ہتھیار ڈالنا ہی پڑا۔ وہ بھی کیا کر تی اتنا پیارا گھر اتنے پیارے لوگ اس قدر چاہنے والے ان کے بغیر وہ بھی کیسے رہ پاتی۔

    کچھ دنوں بعد دشمن کو سرحد کے اس پار بھگانے میں ہمارے بہادر جوان کامیاب ہوگئے۔ سچائی اور وطن پرستی کے آگے دشمن کی ہار یقینی تھی اور جیت ہماری ہوئی۔ فصیح رحمان فتح پاکر روشنی کو اپنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے واپس اپنے گھر لوٹ آیا چند ہفتوں بعد اس نے ماں کے کہنے پر روشنی کو اپنی زندگی میں شریک کر لیا دونوں علی رحمان کی تصویر کے سامنے کھڑے ہوئے تھے۔ فصیح رحمان اپنے بھائی کی فوجی لباس میں ملبوس تصویر کوسیلوٹ کر تے ہوئے کہنے لگا بھائی یو آر گریٹ۔ تم نے وطن کی خاطر اپنی جان نثار کر دی۔ دشمنوں سے ہم نے بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہیں سرحد کے اس پار بھگا نے میں ہم کا میاب ہو گئے دیش کے لیے تمہار ی قربانی بیکار نہیں گئی۔ ہماری فتح ہو ئی بھائی تم نے کہا تھاکہ روشنی کو اپنا لینا۔ تم نے وطن کے لیے جان قربان کر دی اور کیا میں تمہارے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتا، ہم تمہاری بات کیسے ٹال سکتے تھے۔ بھائی دیکھو میں نے تمہاری روشنی کو اپنا لیا ہے۔ میں روشنی کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کروں گا، روشنی سے یہ سب باتیں برداشت نہیں ہوئیں وہ فصیح رحمان کے سینے میں منہ چھپائے سسک پڑی اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے وہ علی رحمان کا ہی چوڑا سینہ ہو جس میں وہ تھکی ہاری سکون پارہی ہو۔ فصیح رحمان کو ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے فیصلے پر علی رحمان کی سیلوٹ کرتی ہوئی تصویر مسکراکر انہیں دعائیں دے رہی ہو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے