Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہجوم ہم نفساں

تسنیم منٹو

ہجوم ہم نفساں

تسنیم منٹو

MORE BYتسنیم منٹو

    بارہ برسوں کا سلسلہ وقت اورحالات و واقعات پر مشتمل ایک دراز سلسلہ ہے۔۔۔ گزرے زمانوں میں بن باس کی مدت بارہ برسوں پر محیط تھی۔ بارہ برس ایک لمبا زمانہ تھا، اور بہت سی امثال بارہ برسوں کے حوالے سے مروج تھیں۔ دیو مالا میں لکشمن ریکھا بھی بارہ برسوں کے لیے ہی کھینچی گئی تھی۔ ان زمانوں میں بارہ برس یقیناًبارہ صدیوں کے جیسے طویل ہوتے ہوں گے، لیکن آج یہ بن باس یا ہجرت کس قدر مختصر ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔

    یہ الگ بات کہ حسنات نے باردگر جب اپنے قدم اپنی سر زمین پر رکھے، تو یہ ڈھائی گنا سے زیادہ برسوں کی بات بنتی تھی۔ تیس سالوں میں ایک نسل جوان ہو کر دوسری نسل کو جنم دے رہی تھی، جب کہ یہ بات بھی طے ہے کہ تیس کوس دُور ایک نئی زبان بھی جنم لے لیتی ہے۔ سو وطن واپسی سال ہا سال گزر جانے کے تکلیف دہ احساس کے ساتھ تھی، اور اسے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے صدیاں بیت گئی ہوں۔ اس کے اندر کا وقت کہ محدود اور محفوظ تھا، لیکن باہر کے وقت نے سارے منظر، سارے کوہسار، پہاڑ، ندی نالے نگل لیے تھے۔ اگرچہ یہ زمین اس کی جنم بھومی تھی، لیکن سامنے کا منظر جو اُسے دیکھنے کو ملا، عجب تھا۔ گلیاں، بازار سب نفوس سے اٹے پڑے تھے، لیکن یہ سب جگہیں اس کے لیے سنسان اور اجاڑ تھیں کہ کوئی ایک چہرہ بھی نگہ شناس نہ تھا۔ نہ اسے پہچان کر کوئی ٹھٹکا، نہ اس نے کسی کو روک کر بتایا کہ مَیں فلاں، فلاں ابن فلاں ہوں۔۔۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کے دائیں بائیں کنکریٹ کی دو اونچی دیواریں ہیں۔ ایک دیوار پر مختصر، محدود فاصلوں پر گھرتھے، جب کہ دوسری دیوار پر مخلوق خدا کا ہجوم بستا تھا بل کہ کلبلاتا تھا۔ بازاروں میں انسانوں کا ازدحام تھا۔ کچھ لوگ چیونیٹوں کی چال کی خصوصیت سے رواں تھے، جب کہ بہت سارے لوگ جھکڑ کی سی تندی سے چلتے تھے، سڑکوں پر بے محابا چیزیں بکھری پڑی تھیں، اورلوگ ان چیزوں پر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ گویا کہ یہ مال مفت تھا، لیکن یہ مال مفت نہیں تھا کہ چیزیں خریدنے میں خریدنے والے کی اور چیز بیچنے والے کی نگاہ مال فروخت پر تھی۔ گویا دکان دار اور خریدار دونوں ایک دوسرے سے بد ظن و بد گمان تھے۔

    ہجرت کا پہلا نصف دورانیہ کس قدر طویل تھا۔۔۔ یہ طوالت کتنی ظالم تھی۔۔۔لیکن بعد میں وقت جھپا جھپ گزرنے لگا، اور پرائے دیس میں اپنے دیس کے چہرے اس بہتات میں نظر آنے لگے جیسے بس گلی کی آخری نکڑ پر کھڑے تھے، کہ اچانک مٹھ بھیڑ ہونے لگی۔ وہ سب بھی اپنی زمین چھوڑ کر دُور دراز کی زمینوں کو مزید خوشحال کرنے کے لیے آ گئے تھے۔۔۔ یہ لوگ دن بھر نہ معلوم کہاں کہاں مارے مارے پھرتے، لیکن رات کو جب ٹھکانوں پر لوٹتے تو اداسیوں کی کالی چادر ان کو اپنے اندر لپیٹ لیتی۔ لہٰذا تنہائیاں اور شباب میں بے شباب ساعتیں مقدر ہوئیں۔۔۔ سو اداس دل کا کیا ہے۔ وہ تو منتظر ہے کہ کوئی آئے، اس چھائی اداسی کو دُور کرے۔ مجھ سے ہنسے، بولے اور پھر جب کوئی ایسا مل جاتا ہے۔ قریب آ جاتا ہے تو پھر بشری تقاضے نئی نئی صورتوں اور حالات میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں، لا محالہ ایسے ایسے واقعات ابھرے، پیدا ہوئے اور پھر ان کے گمبھیر نتائج سامنے آئے کہ جنھوں نے گھروں کا وہ سکون بھی برباد کیا، جو معاشی خوشحالی کے تعاقب میں سرگرداں ہونے سے پہلے موجود تھا۔

    پیٹ کا رزق ارزاں ہوا تو جسم فاقہ زدہ ہو گیا اور وہ جو اوّل اوّل ناموں میں ہر دو جانب سے ’’میرے قاتل، میرے دلدار، میرے پاس رہو‘‘ کی تکرار تھی، یہ آوازیں آہستہ آہستہ وقت کے قدموں تلے دبتی چلی گئیں، اب دُور دراز ہجرت کر جانے والے ’’قاتل‘‘ ’’دلدار‘‘ کی جگہ ہمسایے میں موجود کہ جیسے سایہ ساتھ ساتھ چلے، پل پل کی خبر رکھے،کے ساتھ ربط استوار ہوا، لہٰذا شباب میں ساعتیں بے شباب نہ رہیں۔۔۔ اور گواہی ہے کہ یہ صورت حالات ہر دو جانب ظہور پذیر ہوئی، اور نتیجے میں دلوں اور ذہنوں میں کیا کیا جھکڑ نہ چلے، اور کیسی کیسی رسوائیاں مقدر بنیں۔۔۔ خیر یہ تو چلتا ہے!حسنات نے ذہن کو جھٹکا دیا ، گویا خیالات کے اس دکھ اور آلودگی کو دُور پھینکا۔

    اپنی جنم بھومی میں قدم رکھنے کے بعد وہ جو ایک عجیب طرح کے ردعمل کا شکار ہوا تھا، اور اس ردعمل کے جوابی عمل میں اس نے اپنے ذہن میں کنکریٹ کی جو دیوار یں اسار لی تھیں، ان میں سے ایک آباد تھی، اوردوسری نسبتاً غیر آباد، وہ انھیں دو دیواروں کے بیچوں بیچ تنگ گلیوں میں گھومتا تھا۔ جھانکتا تھا۔۔۔ کھلی آنکھوں سے منظر کبھی دھندلا اور کبھی تھوڑا اجلا۔ لیکن جب وہ اسی منظر کو بند آنکھوں کی سکرین پر دیکھتا تو سب صاف اور روشن نظر آتا۔۔۔ عجب معاملہ ہے؟ اس نے اپنے دل سے استفسار کیا۔ پریشان کن اور اپنی اپنی صورتوں میں اجاڑ، یہ کیفیتیں اس کے اندر آپ ہی آپ اسیر ہوتی چلی جا رہی تھیں۔ اسے محسوس ہوتا تھا کہ اس کا اندر ایک بیابان کی صورت میں اس کے وجود کا حصہ بن گیا ہے۔۔۔

    ہوٹل سے، جہاں وہ پچھلے کئی روز سے ٹھہرا ہوا تھا۔ اپنے پرانے ٹھکانوں کی کھوج میں نکلا۔ اس نے سڑک پر کھڑے کھڑے دُور تک دیکھا۔ خلق خدا کی وہ فراوانی کہ اس کی آنکھیں دکھنے لگی تھیں۔ اس نے محسوس کیا کہ لوگوں کی چال میں لڑکھڑاہٹ تھی، اور قدموں میں ارتعاش تھا جیسے یہ قدم زمین سے جڑے ہوئے نہ ہوں۔ ان کے قدموں کی اٹھان اس گھاس سے مشابہ تھی، جو راستے میں پڑی مٹی کی ڈھیری کے اوپر آپ ہی آپ اگ آتی ہے۔ زمین سے اس کا وجود جڑا ہوا نہیں ہوتا ، اور معمولی ہوا بھی اسے لرزا دیتی ہے۔

    یہ اتنے بہت سے لوگ کون ہیں؟ کدھر سے آتے ہیں۔ یہ تمام سین اس قدر بوجھل اور گدلے کیوں ہیں؟ یا میری بصارت دھندلا گئی ہے۔ کیا برسوں پہلے مَیں نے یہی وطن چھوڑا تھا۔۔۔ ہاں ۔۔۔ برسوں پہلے نو عمری میں تلاش معاش کے لیے، جب وہ اس شہر کو چھوڑ کرایک دوسری دنیا کو روانہ ہوا تھا، تو یہ شہر بہت سے مختلف حوالوں میں بٹا ہوا تھا، اور ہر حوالہ جاندار اور خوب صورت تھا۔ سب حوالوں کی اپنی روایات اور برکات تھیں، لیکن اب سب کچھ ایسا گڈ مڈ تھا کہ تمام چہرے تمام نام، سب شناختیں معدوم تھیں۔ بس نفوس کے چند جامد ڈھیر تھے جوجا بجا رکھے تھے۔

    تیس سال بعد ایسی کون سی کشش تھی، جو اسے وطن لے آئی، اس نے آنے سے پہلے بہت سوچا تھا، پیچھے کچھ بھی ایسا نہ تھا کہ وہ یوں کھچا چلا آتا۔ بجز اس خبر کے کہ اس کی ماں کا انتقال ہو چکا تھا، اور ان کی قبر اس کے وطن کے ایک بڑے لکھاری کی قبر کے نزدیک ہے، لہٰذا ماں کی قبر پر پہنچنے میں دقت نہ ہو گی۔ سو ایک ہفتے کے اندر اندر اس نے سفر کا تمام بندوبست کر لیا، چلتے وقت اس کے ساتھیوں نے، کہ اسی کے ہم وطن تھے، اپنے اپنے گھر والوں کے لیے چھوٹی چھوٹی سوغاتیں اور اپنے ہاتھوں سے لکھے خطوط دیے تھے کہ مہربانی سے لواحقین کو پہنچا دینا۔

    وہ جن گھروں میں ہاتھوں سے لکھے خط اور سوغاتیں پہنچانے گیا، ان سب نے بڑے ہسٹریائی انداز میں اسے خوش آمدید کہا۔ جہاں بھی گیا، انھوں نے اسے بازو پکڑ پکڑ کر بٹھا لیا، اور ایک ہی سوال کئی کئی بار پوچھا گیا۔۔۔ یہ عمر رسیدہ بیمار اور افسردہ لوگ منتظر ہیں کچھ آہٹوں کے، کچھ آوازوں کے۔ جنھیں آمنے سامنے دیکھے اور سنے مدت گزر گئی ہے۔ ان کے کان بیٹیوں اور بہوؤں کی دبی دبی ہنسی سننے کو ترس گئے ہیں، یا پھر کسی بچے کے بسورنے اور رونے کی آواز پر باپ کی بچے کو ڈانٹنے کی آواز کہ چپ کر جاؤ، دادا سو رہے ہیں۔ آرام سے کھیلو، دادی نماز پڑھ رہی ہیں، یا وہ سر گوشی جو کبھی کبھار، دوپہر یا مہکتی راتوں کو سنائی دے جاتی تھی۔ اے رب تدبریہ کیسا سناٹا ہے کہ دن رات اپنی لمبی زبان سے ان کے وجود کو چاٹتا رہتا ہے۔

    نعیم کے والد کے تینوں بیٹے، ایک سے ایک بڑھ کر کمائی والا، لیکن سب دور، اتنے دور کہ دل کا دورہ پڑا تو ہمسایے ہسپتال تک پہنچا کر آئے۔

    خالہ، خالو، ایک بیٹی، ایک بیٹا، دور۔ دونوں دور۔ کبھی کبھار ای میل بھی آ جاتی ہے، اور ڈالرز بروقت پہنچ جاتے ہیں۔ ان ڈالرز میں بیٹے کا چچا اور پھپھی بھی حصہ دار بنتے ہیں۔ ان کو کسی نہ کسی طور سن گن مل جاتی ہے، اور وہ اپنا حصہ لینے پہنچ جاتے ہیں، لیکن جب خالہ، خالو بیمار پڑتے ہیں، تو سامنے والی مسز کریم کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔اورشرمندگی سے صرف یہ کہہ پاتے ہیں کہ بچے مجبور ہیں، ورنہ وہ چاہتے تو بہت ہیں۔ دور ہیں، روزی رزق کا مسئلہ ہے نا، ورنہ ضرور آ جاتے۔

    بیگم حبیب نے بہت چاو سے بتایا کہ میرے بیٹے نے امریکا میں پلی بڑھی پاکستانی لڑکی سے شادی کی ہے۔ ماشاء اللہ کام اچھا چل رہا ہے، سات سال پہلے بچوں کے ساتھ آیا تھا۔ بس ذرا بچوں کو ہماری زبان نہیں آتی، اس کا چھوٹا جو ہے نا، بڑا ہی پیارا ہے۔ مَیں نے اسے سینے سے لگانے کی کوشش کی تو اس نے مجھے سٹوپڈ وومن کہہ دیا۔ مَیں نے بتایا ناکہ اسے ہماری زبان نہیں آتی۔ بیگم حبیب اداس ہو کر کھسیانی ہنسی ہنسنے لگیں۔

    عدنان کی والدہ پڑھی لکھی با شعور خاتون ہیں، انھوں نے بڑے دکھ سے بتایا کہ نہ معلوم میری بیٹی کے ذہن میں کون سا خدشہ جاگا کہ اس نے جیسے کسی سنگین بات کے لیے مجھے تیار کر لیا ۔ کہا، دیکھیں اماں! یہ مت سوچیں کہ بچے پاکستان آئیں گے تو آپ انھیں باربارسینے سے لگائیں گی، چمکاریں گی۔ گھروں سے، اپنے وطنوں سے دُورپلنے والے بچے بہت Matter of Fact ہوتے ہیں۔ تو، اماں پلیز! برا مت مانیے گا۔ انھیں یہ بھی فکر تھی کہ نہ معلوم ان کے پوتے اور نواسے اردو یا پنجابی بھی بول سکتے ہیں کہ نہیں۔

    گھر گھر گھوم پھر کر اسے ایسا لگا کہ گویا اس کا تعلق کسی این جی او سے ہے، جس کے لیے وہ یہ ڈیٹا اکٹھا کررہا ہے۔ لیکن کیا کسی ایسی این جی او کا قیام عمل میں لاناممکن ہے، جو اولاد، والدین اورعزیز و اقارب کے مابین محبت کی عدم دستیابی کو دستیاب کروا سکے۔ یہ دوریاں، یہ دراڑ زدہ معاشرہ، ٹوٹتے سسکتے ہوئے رشتوں کو جوڑ سکے۔ یہ حالات، یہ واقعات یہ عرضداشت کس منصف کے آگے پیش کرے کہ انصاف تک دسترس حاصل ہو سکے!! ۔۔۔ لیکن فوراً ہی حسنات کو احساس ہوا کہ یہ سب سوچ کر وہ خواہ مخواہ جذباتی ہو رہا ہے، اور اس طرح سے وہ اپنی گزری زندگی کے ساتھ بددیانتی کر رہا ہے۔۔۔ یہ سب کتنے سادہ ہیں، اور نہیں جانتے کہ ہجرت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی کرنا، کیا معنی رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ پیچھے اور تنہا رہ جانے والوں میں سے ہیں، لیکن ان کلفتوں، مشقتوں کو نہیں جان سکتے جو گھروں سے دُور جانے والوں کوسہنی پڑتی ہیں۔۔۔ اسے دیار غیر میں پانڈی بننا پڑا۔ یخ بستہ موسموں میں سمندری جہازوں پر بوریاں ڈھوتے ڈھوتے اسے اپنے گھر کا چولھا، گلابی نمکین چاے اور دیسی گھی کا پراٹھا یاد آ جاتے تو وہ اپنے آنسو نہ روک سکتا، اور میلے سویٹر کے بازوؤں سے انھیں پونچھ ڈالتا۔

    بات پھر وقت کی آتی ہے۔ لیکن وقت بیچارے کی اپنی کتھا کیا ہے۔ ہر لمحہ پیدا ہوتا ہے، ہر لمحہ مرتا ہے۔ باہر کا وقت گزرتا رہتا ہے۔ فرد بہلا رہتا ہے لیکن اندر کاوقت بڑا ظالم ہوتا ہے۔ وہ جکڑے رکھتا ہے، کہیں تاک جھانک نہیں کرنے دیتا۔ سو تنہائیوں سے نبرد آزما لوگوں کے لیے یہ گدلا ٹھہراپا نی بن جاتا ہے۔ اور یہ منتظر لوگ اس میں ڈوبتے ابھرتے رہتے ہیں، لیکن تیر نہیں سکتے۔

    خیر یہ سب احوال جان کر اسے یکلخت محسوس ہوا کہ وہ جو دو دیواریں اس نے اپنے ذہن میں کھڑی کر لی تھیں، وہ یقیناًایسے ہی افسردہ،تنہا اور منتظر لوگوں کا حوالہ تھیں۔ بہ ہرحال پیچھے رہ جانے والوں کے لیے اس کے اندر جو جستجو اور ٹوہ تھی، اس میں وہ کامیاب تھا۔

    دوران قیام اس کے پروگرام میں اپناگھر بھی دیکھنا تھا۔۔۔ تیس سالوں میں سب کچھ بدل گیا تھا۔ تاہم وہ ڈھونڈتا، تلاشتا ہوا اور عمر رسیدہ راہ گیروں سے پوچھتا ہوا اپنے محلے تک پہنچ ہی گیا، لیکن یہاں پہنچ کر وہ ایسے شرمسار ہوا جیسے کوئی غریب اپنے امیر رشتہ دار کے دروازے پر پہنچ کرتذبذب اور بے اعتمادی کاشکار ہو جائے کہ دستک دے کہ نہ دے۔۔۔اگرچہ معاملہ الٹ تھا۔ وہ غریب نہیں تھا۔ البتہ یہ گلی اور اس سے وابستہ یادیں کم مایہ ضرور تھیں۔

    اس کشادہ گلی کے چھوٹے گھر بڑے ہو گئے تھے۔ محکم دین کریانے والے کی دکان ہول سیل مرچنٹ بن چکی تھی۔ تلوں کے کلچے والے کی دکان غائب تھی، اور وہ کالا بھجنگ بابا جو سردیوں گرمیوں میں بہت مختصر کپڑے پہنتا تھا، لیکن قیمے کے بڑے بہت مزے دا ربناتا تھا۔ سکول سے واپسی پر وہ اس بابے سے ایک بڑا اور گول گول مونگ پھلی خریدتا تھا۔ مونگ پھلی کا پتلا چھلکا گہرے گلابی رنگ کا ہوتا تھا۔ یہ ساری چیزیں وہ اٹھنی سے خریدتا تھا،جو صبح سکول جاتے ہوئے، اس کی اماں اس کی قمیص کے سامنے والی جیب میں ڈال دیتی تھیں۔

    سڑک پر کھڑے کھڑے اس نے دُور تک نظر دوڑائی۔ یہ محلہ اب بھی قدرے نشیب میں تھا۔۔۔ اس کا ذہن بہت پیچھے گھوم گیا۔۔۔ گلی کے دونوں جانب ہر گھر اپنی اپنی معاشی حیثیت کی تصوِیر تھا۔ آخری سرے والا گھر جس کا تھڑا باقی گھروں کی نسبت سطح زمین سے اونچا تھا۔ تھڑے کے درمیان پتھروں کی بیل کھدی تھی، اور دروازے کے دونوں جانب لال سیمنٹ کی پختہ کرسیاں تھیں، اور ان کرسیوں کے بازو والی جگہ پر شیر کا کھلا ہوا منہہ کندہ تھا۔ بارشیں نشیب زدہ گلی کو بھر دیتیں۔ محلے کے ننگ دھڑنگ بچے اس گندے تالاب میں نہاتے اور

    کالیاں اِٹّاں کالے روڑ

    مینہ وسا دے زورا زور

    کی بلند آواز یں نکالتے اور چیختے چلاتے ہوئے ایک دوسرے پر گندہ پانی پھینکتے، لیکن چوں کہ اس کے گھر کا تھڑا باقی گھروں سے اونچا تھا، اسے اماں کی نگاہ سے صاف پتا چلتا تھا کہ وہ ان بچوں کے ساتھ نہیں کھیل سکتا۔ وقت کی توتا چشمی کی بات یوں کہ آج اس گندے پانی میں گندے بچوں کو نہاتے سوچ کر اس نے بڑی کراہت محسوس کی۔ ’’تھرڈ ورلڈ‘‘۔ حسنات احمد بڑبڑایا ۔۔۔ ماں کی قبر پر جانے کے پروگرام پر وہ عمل نہ کرسکا۔ اب تک کی گزری زندگی اس کے لیے بے حد کھردری اور اس قدر دو ٹوک تھی کہ اپنے اندر وہ نرم و ملائم جذبوں کو ابھار نہ سکا۔

    وطن کے دورانِ قیام ایک روز بہت ہاہارکار مچی، لپکو ، دوڑو، بھاگو کاشور ہوا۔ پتا چلا کہ بڑے چودھریوں کے کسی ایک گھر میں آگ لگی ہے اور ایسی بھیانک آگ لگی ہے کہ سب کچھ تو نہیں، مگر بہت کچھ جل کر خاک سیاہ ہوا ہے۔کمی کمین، موچی، مصلی، میراثی، ڈھور ڈنگر، مال و متاع سب اس آگ کی نذر ہو گئے ہیں۔ یہ خبر سن کر وہ بے حد کمینگی سے مسکرایا تھا، جیسے کہ چودھری کے لیے وہ کچھ ایسی ہی خوفناک تباہی کی خواہش رکھتا تھا۔۔۔ بے شمار خبریں بنیں۔ چودھری انتقام سے آگ بگولا ہو رہا تھا۔۔۔ لیکن کچھ دنوں بعد یہ خبریں روز مرہ میں شامل ہو گئیں، لیکن ایک روز حسنات پر اچانک انکشاف ہوا کہ مرنے والے محض موچی، میراثی اور کمی کمین نہیں تھے، وہ انسان بھی تھے، اور ڈھور ڈنگر بھی جاندار تھے، اسے اپنی کمینگی اور بے حسی پر افسوس تو ہوا، لیکن حسد اور کمینگی کا کوئی ایک شائبہ، اس کے اندرکسمساتا رہا۔۔۔ وہ وطن میں رکا رہا۔ لوگوں سے ملتا ملاتا رہا۔ چودھری کے گھر آگ لگنے سے اسے خیال تھا کہ شاید واپس گھر جانے میں کچھ دقت ہو، لیکن وقت رساں رساں گزرتا رہا۔

    اس کا وطن اپنے اندر موسموں کی شدت رکھتا تھا۔ اس کے باوجود یہ ملک دل آویز تھا ۔ مزاجاً لوگ نرم خو اور خوش مزاج تھے۔ کھل کر ہنستے تھے اور کھل کر کھاتے تھے، زیرک تھے اور برداشت کی خو رکھتے تھے۔۔۔ لیکن ایسے محسوس ہوتا تھا کہ سب کاقیام مختصر مدت کا ہے۔ ان سب نے گویا کہیں آگے جانا ہے، ان کی زندگیوں میں افراتفری اور بے یقینی تھی۔ یہ حسنات کا دوران قیام اپنا تجزیہ تھا۔۔۔ وہ اپنے دوستوں کے لواحقین سے مل کر بہت اداس ہوا، اور سوچنے لگا کہ اگر حاصل حیات سمجھو توں کا نام ہے، تو مَیں کچھ خاص خسارے میں نہیں ہوں۔ وطن کو دیکھنے کی خواہش اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی ہے، اور اب مجھے واپس جانا چاہیے کہ میری پناہ، میرا ٹھکانا ادھر نہیں،ادھر ہی ہے۔ شاید لفظ وطن کے معنی بدل گئے ہیں۔ اوروطن وہ جگہ ہے جہاں آپ محفوظ اور مطمئن ہوں۔ وہ ایک حقیقت پسند ذہن او رسوچ کا انسان تھا۔۔۔ احتیاج کی تکمیل اور سہولتوں کی فراہمی اس کا مقصدِ حیات بن چکا تھا۔

    یہ فروری کا آخری ہفتہ تھا۔ وہ موسم کہ جب پتے آپ ہی آپ درختوں سے گرنے لگتے ہیں، ہوا پاگل تھی اور چاندنی اور بھی زیادہ، جیسے کوئی دیوانہ بے محابا ہنستا چلا جائے ۔موسم کا مزاج اور رنگ دیکھ کر اس کے ہونٹوں سے لفظ پھاگن یوں پھسلا کہ جیسے وہ ہر روز یہ لفظ بولتا ہے۔۔۔ دادی ہمیشہ انگریزی مہینوں کے ساتھ پنجابی مہینوں کو ملا تیں اور اپنی گداز انگلیوں پر مہینوں کی گنتی کیا کرتیں، پھاگن پر آ کر رک جاتیں، اور پھر فضا کو سونگھ کر خود سے کہتیں، ہاں! ہاں! یہ پھاگن ہی ہے۔ بچے ہنستے۔۔۔ نہ معلوم ان کے ذہن میں کون سا ٹھٹھرا ،ٹھہرا ،جامدلمحہ تھا، اور گزرے وقت کی وہ کون سی دل زدگی تھی کہ جو انھیں برسوں بعد بھی ملول کر جاتی تھی۔ عورت کو صرف ماں یا دادی وغیرہ ہی کیوں سمجھ لیا جاتا ہے۔ وہ کبھی لڑکی بھی تو تھی۔ کبھی شاید اس کی اوڑھنی کا رنگ بھی زرد رہا ہو۔ اپنے ملک سے باہر کی زندگی نے اس کی سوچ اور خیالات کو وسعت دے دی تھی۔

    اس وقت وہ بنکاک کے ائیر پورٹ پر تھا، اس کی اگلی فلائیٹ جو تائی پی (Taipei)سے ہوتی ہوئی سان فرانسسکو اترنی تھی، اس میں ابھی مزید چار گھنٹوں کا انتظار تھا۔ وہ وطن کے سفر اور کھوج میں اتنا نہیں تھکا تھا، جس قدر بنکاک کے ائیر پورٹ پر اگلی فلائیٹ کے انتظار نے اسے تھکا دیا تھا۔ بنکاک کا ائیر پورٹ ایک منڈی کی صورت میں پھیلا ہوا تھا۔ چیزوں، دکانوں اور انسانوں کاایک بے ترتیب انبار تھا جس میں سب ایک دوسرے کے اوپر لڑھکتے جا رہے تھے۔ یہاں بیسیوں پروازیں تھیں، جیسے کہ کسی لاری اڈے پر بیسیوں بسیں چلنے کو تیار ہوں۔

    حسنات کے پاس کلب کلاس کا ٹکٹ تھا، لہٰذا اس نے عافیت اسی میں سمجھی کہ وہ کلب کلاس والی لاؤنج میں چلا جائے، اور باقی کا وقت گزارنے کی کوشش کرے۔ اس نے کافی کا مگ بھرا۔ کاؤنٹر سے کچھ بسکٹ اور پھل وغیرہ اٹھائے، اور ایک کونے میں رکھے سوفے پر جا کر بیٹھ گیا۔ اس کے سامنے ٹی وی آن تھا اور Fox چینل کچھ عرصہ پہلے رونما ہوئے حادثے میں گزری قیامتوں پر تصاویر رواں تبصرے کے ساتھ دکھا رہا تھا۔

    کافی کے مگ میں چمچ کو گولائی میں گھماتے ہوئے اس نے اچٹتی نگاہ سے ٹی وی کی جانب دیکھا، دوسرا ہاتھ اس نے بسکٹ کی جانب بڑھایا اور بڑبڑایا ۔ تبدیلی ضروری تھی، جیسے بھی ہوتی۔ بدلاو میں ہی تسلسل ہے، اسی میں عافیت ہے۔ لچک، تنوع، بدلاو کی صلاحیت مخالف ماحول کے مطابق ڈھالتی چلی جاتی ہے۔ وہ کچھ خاص دانش نہیں رکھتا تھا ۔۔۔ ٹی وی پر گزرتی تصویریں، چہرے اور ان چہروں پر سہتے عذابوں کے نشان، چمکتی آنکھوں اور دمکتے دانتوں والے بچے بے خبر، معصوم، ہٹ دھرم، دربدر خاک بسر خود سر جوان، ہلاکت و فلاکت، ملال آزردگی اور مایوسیوں کا بوجھ اٹھاتے ہوئے، نہ معلوم یہ بے سمتے بے اعتبار قدم کس منزل پر رکیں گے۔

    رب تدبر کی تخلیق کا منتہیٰ، عذاب سہتا ہوا انسان اشرف المخلوقات ۔۔۔

    گھر میں تھا کیا کہ تیرا غم اسے غارت کرتا

    وہ جو رکھتے تھے اک حسرت تعمیر سو ہے

    وہ اپنے وجدان پر ششدر رہ گیا

    آدھی صدی سے اوپر، لیکن اس قدر شفاف منظر، کہیں کوئی دھندلاہٹ یا جھول نہیں۔ شہر کو اپنے گردا گرد لپیٹتی بڑی سڑک کے کنارے کھڑا گھر، بیٹھک کا دروازہ سڑک کی جانب کھلتا ہے۔ باہر جانے اور باہر سے اندر آنے کے لیے ایک ایک قدم کی ذرا اونچی دو سیڑھیاں۔ سیڑھوں کے دائیں بائیں خوب پھلتی پھولتی ٹاہلی اور بائیں جانب بڑے کشادہ گھیر والی بکائن۔ دونوں درخت اس قدر گھنے کہ ہواسے پتے ہلتے تو لگتا جیسے دریا میں پانی کی لہریں اوپر تلے اودھم مچائیں۔۔۔ گھر سے تھوڑے فاصلے پر ریلوے جنکشن، دن اور رات بھر انجن اِدھر اُدھر ہوتے رہتے۔ ریل گزرتی تو پورا گھر اس کی دھمک سے لرزتا۔ سٹیشن کے دوسری جانب آمدورفت کے لیے لکڑی کا ایک لمبا پل۔ جس پر بچے کھڑے ہو کر چلتی گاڑیوں اور سلگتے انجنوں کو پہروں دیکھتے۔

    تایا جی۔۔۔ گورے چٹے، سبز آنکھیں، کتابی چہرہ، خوب صورت ناک نقشہ، کھدر کا کرتہ اور ویسا ہی کھڑا پاجامہ، گیروے رنگ کا۔۔۔ بید کی بنی ہوئی نیم دراز کرسی پر خود بھی نیم دراز ارد گرد کتابیں، محلے کے چارچھ لڑکے شعور کی منزلیں طے کرتے ہوئے، باتیں، سوال، جواب، دلیل، بحث، ایک سحر زدہ ماحول، گفتگو میں لفظوں کا چناو۔۔۔ اس نے بہت چاہا کہ وہ بھی اس ماحول میں ڈوب جائے۔ تایا جی سے سب کچھ سیکھ لے، سمجھ لے۔ لیکن بد قسمت تھا، کہ اس بحر میں وہ تیرا، نہ ڈوبا۔ وقت اسے اور ہی راستوں پر لے کر چل پڑا۔۔۔ یہ بات الگ کہ آنے والی زندگی میں اس کا تجربہ، اس کا علم بنا۔

    تایا جی صبح دم اٹھتے۔ رات کو بند کیا ہوا بیٹھک کا دروازہ کھولتے دائیں بائیں کی دونوں کھڑکیاں کھولتے اور بہ آواز بلند ایک شعر پڑھا کرتے۔ یہ روز کا معمول تھا۔

    گھر میں تھا کیا کہ تیرا غم اسے غارت کرتا

    وہ جو رکھتے تھے اک حسرت تعمیر سو ہے

    تایا جی دن بھر کتابیں پڑھتے اور حقہ گڑگڑاتے ۔ تایا جی بیوی اور دو بچوں کو کھو چکے تھے اور اب صرف ان کا اپنا آپ ہی تھا۔ ذہن کی نگاہ تھوڑی اور دور گئی۔

    تایا جی بڑے دلار سے اسے سمجھا رہے تھے۔ حسنات! بیٹے علم میں دل لگا، علم کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلے۔ اچھے لوگوں میں اٹھا بیٹھا کر۔ دوست بنانے سے پہلے ہر دو جانب رتبہ متعین کرنا ضروری ہوتا ہے۔ صرف کتابی علم نہیں۔ دماغی علم، سوچ کا علم، فکر کرنے کی اہلیت، دوستی کی راہیں متعین کرنا ضروری ہوتا ہے، ورنہ انسان بے منزل، بے نشان ہو جاتا ہے۔ اس گوشت پوست سے بنے انسان کے اندر، بھٹکنے کی بڑی لچک ہوتی ہے۔ کبھی بھی اور کہیں بھی لڑھک سکتا ہے۔ خود احتسابی ضروری ہے، اشد ضروری ہے۔۔۔ لیکن وہ لڑھک گیا۔۔۔ بے راہ ہوا۔ الزام، دشنام، بیگانگی اس کا نصیب بنی۔ اس کے مقدر اور علم کا آپس میں کوئی سر نہ بن سکا۔۔۔ پر۔۔۔ مگر۔۔۔ مگر یہ تایا جی؟ عجب معاملہ ہے۔

    کافی کے مگ میں رکھی چمچی اس کی انگلی اور انگوٹھے کی گرفت میں تھی۔ کافی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ اداسی حسنات کے کہیں اندر سے پھوٹ پڑی تھی۔ عجب اداسی تھی دکھ سے الگ الگ سی۔ اگرچہ اس کا وجود سناٹے میں ڈوبا تھا، لیکن یہ سناٹا شور سے زیادہ ڈراؤنا تھا۔ کچھ لمحے اسی ساکت سناٹے میں گزر گئے۔۔۔ یکلخت اس نے مگ میں رکھی چمچی کو اپنی گرفت سے آزاد کیا۔ کھنکارا۔۔۔ مَیں ہوں۔۔۔ مَیں موجود ہوں۔ مَیں زندگی کے اس دائرے ، اس ہجوم سے الگ نہیں ہوں۔ تنوع لچک اور بدلاو پر قدرت رکھنے کی صلاحیت زندہ رکھنے کی طاقت بنتی ہے۔ تباہی، بربادی اور آبادیوں کا کھنڈروں کی صورت اختیار کرنے کے باوجود ذہن میں اثبات کا چمکتا جگنو زندگی کی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ ’’بہرحال زندگی کسی نہ کسی شبیہہ میں اپنا وجود رکھتی ہے‘‘۔۔۔ وقت کے ساتھ نبرد آزما ئیوں نے اس میں سہہ جانے کا مزاج پیدا کر دیا تھا۔

    تھائی ائیر ویز گیٹ نمبر 16۔۔۔سان فرانسسکو۔

    حسنات نے اپنا بیگ اٹھایا۔ ٹی وی پر دیکھی انجانی من موہنی صورتوں کوانجانے میں ہاتھ ہلا دیا۔

    جہاز کے اندر ادھیڑ عمر کی ائیر ہوسٹس نے تیز لپ سٹک لگے ہونٹوں سے حسنات کو خوش آمدید کہا۔ حسنات نے بے دلی سے سر ہلا دیا۔ اس نے اپنی بائیں آنکھ کے کونے پر گیلاہٹ محسوس کی اور چھوٹی انگلی سے پانی کی ایک بوند اٹھائی، اسے آنکھوں کے سامنے لایا۔ اس منی سی بوند کو بغور دیکھا اور آہستگی سے گویا خود سے بولا ’’بقدر اشک بلبل‘‘ پھر انگوٹھے کی مدد سے اس بوند کو جھٹک دیا، اور اپنا سیٹ نمبر ڈھونڈنے لگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے