ہم دونوں تنہا
میں جہاں بھی جاتی یا کوئی ملنے والا آتا ہمیشہ اسی بات پر آکر تان ٹوٹتی،’’ اتنے بڑے گھر میں تم دونوں تنہا رہتے ہو؟‘‘میں بار بار وضاحت کرتی،
’’اس گھر میں جب ہم دونوں ہیں تو تنہا کیسے ہوئے؟ رہا تنہائی کا سوال تو بعض اوقات انسان مجمعے میں بھی تنہا رہ جاتا ہے، کبھی جی چاہتا کہہ دوں،
’’اس وقت بھی میں آپ سب کی موجودگی میں بالکل تنہا ہوں۔‘‘
عام طور سے لوگوں کو دوسروں کی زندگی میں دخل دینے کا بہت شوق ہوتا ہے، لہٰذا کبھی کبھی ان سوالوں کی زد میں بھی آنا پڑتا،
’’دونوں بچے باہر ہیں ،تم لوگ ان کے پاس کیوں نہیں چلے جاتے، ساری رونق تو بچوں سے ہوتی ہے،‘‘
کبھی تو میں بات آگے بڑھنے سے بچنے کے لیے کہہ دیتی۔ ’’جی چلے جائیں گے، تیاری کر رہے ہیں،‘‘ کبھی کھول جاتی،
’’کیوں جائیں ان کے پاس، یہاں ہمارا ملک ہے، گھر ہے، عیش و آرام کی زندگی ہے، نوکر چاکر ہیں، وہاں بہت کم گھر ایسے ہیں جہاں کام کرنے والے آتے ہیں۔‘‘
’’ہاں یہ تو ٹھیک ہے مگر آرام تو وہیں ملتا ہوگا نا بچوں اور ان کے بچوں کو سامنے دیکھ کر۔۔۔‘‘
اب اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا، میں انھیں کیا بتاتی اور بتاتی بھی تو وہ کب یقین کرتیں کہ ہم دونوں نے ضد کر کے اپنے بچوں کو ان کی مرضی کے خلاف وہاں بھیجا تھا، دونوں کو وہاں نوکریاں بھی مل گئی تھیں مگر اسٹیٹس بدلنے کے لیے جب وہ دونوں یہاں آئے تو ہم نے بیٹی کی شادی جس لڑکے سے کی وہ امریکا میں ملازمت کر رہا تھا، لہٰذا اسے تو جانا ہی پڑا لیکن بیٹا کسی طرح جانے پر آمادہ نہیں تھا، ہم بھی کیا کرتے ان دنوں یہاں ملک کے حالات ہی اتنے خراب تھے، آئے دن اغوا کی وارداتیں سامنے آتیں، کبھی اغوا برائے تاوان تو کبھی گمشدہ لوگوں کی تلاش میں والدین اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ لیے پریس کلب کے باہر مظاہر کرتے، مائیں اپنے پیاروں کی جدائی میں اپنی بینائیاں کھو بیٹھتیں اور ان گھروں میں ایک دائمی افسردگی چھا جاتی۔
ان دنوں سارے والدین اپنے بچوں کو باہر بھیجنا چاہ رہے تھے اور اسے تو ملازمت بھی مل گئی تھی ،ہم نے اسے سمجھایا کہ ’’ابھی چلے جاؤ، نا شکری نہ کرو، حالات بہتر ہو جائیں تو آ جانا۔‘‘
شروع شروع میں بچے بہت پریشان ہوئے، بیٹی کے دن میں کئی بار فون آتے، چاول تو وہ رائس کوکر میں پکا لیتی لیکن مختلف کھانوں کی ترکیب پوچھنے کے لیے ہر لمحہ آنکھوں کے سامنے رہتی، دونوں طرف اسکائپ کھلا رہتا، پھر جب کھانا پک جاتا تو ’’تھینک کیو، امی،آئی لو و یو امی۔۔۔‘‘
کہہ کر باتوں کا سلسلہ ختم کرتی اور اپنے دوسرے کاموں میں لگ جاتی۔ پھرچند ماہ کے بعد ہی ’’آن لائین ریسیپیز اور یو ٹیوب پر مختلف کھانا پکانے والی خواتین اور مرد شیفس کے سلسلے شروع ہوئے تو وہ مجھ سے بھی زیادہ بہتر کھانے پکانے لگی۔
دونوں بچے وہاں کسی نہ کسی بات پر پریشان ہو جاتے، ’’امی یہاں تو سارے کام خود ہی کرنا پڑتے ہیں ،گھر کے باہر اور بیک یارڈ کی گھانس کاٹنی، سوئمنگ پول صاف کرنا، ‘‘بیٹی کو تو اتنا فرق نہیں پڑتا کہ اس کا شوہر دفتر سے واپس آ کر یا ہفتے کے آخر میں یہ مشکل کام نمٹا دیتا، مگر بیٹا سخت نالاں تھا:
’’مجھ سے نہیں ہوتے اتنے سارے کام، امی میں واپس آنا چاہتا ہوں،‘‘
ہم اسے سمجھاتے کہ گھر چھوڑ کر کسی کنڈومینیم میں شفٹ ہو جاؤ، سارے کام انتظامیہ کرےگی، پیسے بھی کم خرچ ہوں گے۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے امی،پہلے بھی تو وہاں رہتا تھا، مگر آپ کہتی ہیں گوریوں کے ساتھ رابطہ بھی کم کم رکھوں، مگر میرے دفتر میں ساری گوریاں ہی ہیں اور ہیں بھی بہت اچھی، مگر یہاں دوستی کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو پاکستان میں ہوتا ہے، اس عمر میں صرف لڑکوں سے ملتا ہوں تو لوگ مجھے کچھ اور سمجھتے ہیں۔ وہ مجھے اشاروں کنایوں میں بہت کچھ سمجھاکر گھر واپس آنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کرتا اور پھر ایک دن سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آ گیا اور صاف صاف اعلان کر دیا۔
’’اب میں وہاں ہرگز نہیں جاؤں گا،‘‘
میں اس کے لیے نت نئے کھانے بناتی، بہت جلد اسے اپنی پسند کی نوکری مل گئی تو ہم نے اس کی شادی کر دی، اس کی خوشیوں کی انتہا نہیں تھی، اس کے بہت سے دوست تو پہلے ہی امریکا چلے گئے تھے اور بہت سے جانے کی تیاریاں کر رہے تھے، چند ماہ کے بعد اس کا تبادلہ اسلام آباد ہو گیا، وہ دونوں وہاں بہت خوش تھے، آئے دن تفریحی مقامات پر نکل جایا کرتے، ہم بھی وہاں جاکر شمالی علاقہ جات اور آس پاس کی تفریح گاہوں سے لطف اندوز ہوتے۔ ایک دن اس نے اپنے ابو سے کہا:
’’ ابو میں یہاں سب سے زیادہ کولیفائڈ ہوں اور کام بھی سب سے زیادہ کرتا ہوں مگر اس بار محکماتی ترقی میں میرا نام و نشان نہیں ہے، میرے بعد میں آنے والے مجھ سے آگے نکل گئے ہیں۔۔۔‘‘
’’بیٹا میں جانتا ہوں یہاں یہی ہوگا اسی لیے کہتا ہوں دوبارہ باہر چلے جاؤ۔‘‘
’’ابوآپ مجھے بار بار باہر جانے کیوں کہتے ہیں۔‘‘ وہ خفا ہو گیا۔ ہم اس سے کیا کہتے کہ یہاں ایساہی ہوگا، رشوت، اعلیٰ افسران کی خوشامد، سفارش اور کئی ایسے وسیلے تھے جو ترقی کا ذریعہ بنتے تھے اور وہ ان تمام حربوں سے نفرت کرتا تھا، صرف ایمان داری پر یقین رکھتا تھا۔ایک دن پھر آواز بھرائی ہوئی تھی،
’’کیا ہوا جانو بیٹا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘
’’امی میری سمجھ میں نہیں آتا ایسا کیوں ہوتا ہے میں نے رات دن کی محنت کے بعد جو ریسرچ رپورٹ تیار کی تھی اس کی بناء پر میرے باس کو اسکالرشپ پر جاپان مزید ریسرچ کے لیے منتخب کر لیا گیا، باس نے تو کچھ کیا ہی نہیں تھا، مگر رپورٹ ان کے نام سے داخل کی گئی تھی، میں نے باس سے شکوہ کیا تو انھوں نے میرا تبادلہ دوسرے سکشن میں کر دیا اور اس سال بھی جب پروموشن کی لسٹ نکلی تو اس میں میرا کہیں نام نہیں ہے، میرے ساتھ مجھ سے جونیر ایک لڑکا ہے جو دفتر تو آتا ہی نہیں مگر باس کے گھر پر سودا سلف لانے اور ان کے بچوں کو سرکاری گاڑی میں اسکول لانے لے جانے، باس کی بیگم کو شاپنگ مال میں لے جانے کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں کرتا، اس کا نام اس لسٹ میں ہے۔‘‘
وہ حیرت زدہ تھا۔عید آنے والی تھی میں نے اپنی بہو کو خاص طور پر تاکید کی۔
’’بٹیا عید پر تم دونوں اس کے باس کے گھر عید کی مبارک باد دینے کیک لے کر ضرور جانا، ویسے بھی عید پر تحفے تحائف کا سلسلہ تو ہماری روایات میں شامل ہے۔‘‘ ’’جی امی کوشش کروں گی مگر آپ تو اپنے بیٹے کو جانتی ہیں، شاید ہی راضی ہوں، کہتے ہیں ان سے ہماری دوستی تھوڑا ہی ہے، پھر ان سے جونیر افسران اتنے قیمتی تحفے دیتے رہتے ہیں جوان کی تنخواہوں سے بھی زیاد ہ کے ہوتے ہیں۔‘‘
میں نے اسے بتایا کہ وہ اپنے ابو پر گیا ہے، تمھارے ابو کے زمانے میں بھی ان سے کم عہدوں پر کام کرنے والے ان ہی تحفوں تحائف کی بناء پر کہاں سے کہاں پہنچ گئے، ایک اٹھارہ گریڈ کا افسر جس کی تنخواہ بہت قلیل تھی، اپنے باس کو کراچی سے اسلام آباد پرل کانٹی نینٹل سے کیک خرید کر ٹی سی ایس نہیں کرتا تھا، کیوں کہ ایسے کتنے ہی تحفے وہاں جاکر گمنام ہو جاتے تھے،لہٰذ وہ سرکاری خرچ پر اپنے خاص ماتحت افسر کوہوائی پرواز سے بھیجتا، اس بیچارے کی عید اپنے گھر سے دور ہوتی لیکن وہ افسر بالا سے ملاقات کیے بغیر نہیں ٹلتا۔‘‘
وہ ہنس پڑی۔ ’’امی یہ سن کر تو وہ ہرگز نہیں جائیں گے، ویسے میں انھیں بتا ضرور دوں گی۔‘‘
اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ ہم اسے باہر جانے کے لیے کیوں کہتے رہتے ہیں۔ ہم اسے بارہا سمجھاتے دیکھو باہر کام کو اہمیت دی جاتی ہے، اس میں شک نہیں کہ وہاں جب چاہے بغیر کسی وجہ یا پیشگی اطلاع کے کام سے نکال دیتے ہیں لیکن ’’ہائر اور فائر ‘‘ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس نے ہنس کر کہا۔
’’وہاں بھی آدمی کو اپنے آپ کو بیچنا پڑتا ہے، نوکری کا راز چرب زبانی میں ہوتا ہے، جو اپنے آپ کو انمول ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے وہ مقدر کا سکندر ہو جاتا ہے، اپنی مار کیٹنگ آپ ہی کرنا پڑتی ہے، یعنی کام کرنے کے بعد کار کردگی کو سامنے لانا ضروری ہوتا ہے، پھر یہ بھی کہ وہاں ہر شعبے میں پاکستانی یا ہندوستانی مینیجر اپنے اپنے علاقوں سے آنے والوں کو لینا پسند کر تے ہیں، وہاں ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعدادملازمت کرتی ہے،کیوں کہ وہ بہت کم اُجرت پر ملازمت قبول کر لیتے ہیں، لیکن خیر ایسی دھاندلی نہیں ہوتی۔ملازمت کے دوران قابلیت اور کارکردگی کو ضرور مدنظر رکھا جاتا ہے۔ میں ان کے طور طریقے تو نہیں اپنا سکتا، مگر میں نے جس فرم میں بھی ملا زمت کی اپنا کام پوری ذمہ داری سے کیا، اسی لیے میرے کام کو پسندید گی کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ گھر آنے کے بعد کام کا ٹینشن بھی نہیں ہوتا تھا۔
ہمارے اکسانے پر اس نے امریکا میں کسی فرم میں نوکری کے لیے آن لائین درخواست دی اور اتفاق سے اچانک آن لائین انٹرویو کے بعد اسے منتخب کر لیا گیا، اس بار وہ پھر تذبذب میں تھا۔
’’آپ دونوں کو اس وقت ہماری ضرورت ہے، میں کیسے چلا جاؤں؟‘‘
آخرکار اس وعدے پر راضی ہو گیا کہ ہم اس کے پاس آتے جاتے رہیں گے اور اس کی نیشنلیٹی کے بعد ا میگریشن ویزے کے لیے درخواست دے دیں گے۔
ہم انھیں باہر بھیج کر خوش تھے کہ یہاں واپسی میں رات کے بارہ سے زیادہ ہو جاتے تھے تو ہم دونوں کی پریشانی کا عالم دیدنی ہوتا، بچے بیچارے بھی بار بار فون کرکے خیریت بتانے پر مجبور ہوتے اور ہمیں بھی اس وقت تک نیند نہیں آتی جب تک ان کی کار گھر میں داخل نہیں ہو جاتی۔
ان سے ہر روز باتیں ہوتیں، بچوں کی پیدائش پر ہم آتے جاتے رہتے۔ تین سال کے بعد انھیں وہاں کی وطنیت مل گئی۔
بس یہیں سے ’’ہم دونوں تنہا‘‘ کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس دن سے بچے پیچھے پڑ گئے کہ اب ہم بھی رخت سفر باندھ لیں، انھوں نے ہمارے لیے امیگریشن فارم تیار کرنے کا آغاز کر دیا۔
ہم نے انھیں ہزار واسطے دیے کہ ہم یہاں بہت خوش ہیں، یہاں ہماری اپنی شناخت ہے، محلہ، پڑوس میں سب جانتے ہیں، لیکن دونوں بچے پیچھے پڑ گئے کہ ’’آپ کو نہیں پتا ہم یہاں آپ کے لیے کتنے فکر مند رہتے ہیں، آپ میں سے جو بیمار ہوتا ہے ہماری جان نکل جاتی ہے، یہاں انشورنس کی بناء پر علاج بھی بہت آسان ہو جاتا ہے۔‘‘
ہم ان سے کہتے۔ ’’دیکھو بچو دعا کرو ہم کبھی بیمار نہ پڑیں۔۔۔‘‘لیکن وہ ہماری ایک نہ سنتے ’’یہاں ہمارے سارے دوستوں کے والدین آ چکے ہیں یا آنے والے ہیں، سب ہم سے کہتے ہیں کہ تم اپنے والدین کو وہاں تنہا کیسے چھوڑ سکتے ہو۔‘‘
’’اچھا تو تم دوستوں کی تقلید میں اور ان کے آگے سعادت مندی کا ثبوت دینے کے لیے بلانا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے اسے چھیڑا، وہ سخت خفا ہو گیا، آخر ہم بچوں کی رضا کے آگے مجبور ہو گئے۔
قربانی ہمیشہ والدین ہی کو دینی پڑتی ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اس بار بھی وزٹ ویزا پر جاکر حالات کا جائزہ لیں گے، اگر دل لگ گیا، تو اپنے آپ کو ان کے سپرد کر دیں گے۔ ائیر پورٹ پر سب سے پہلے ایک پوتی نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوا پھولوں کا گل دستہ اور دوسری نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوا بہت خوب صورت خوش آمدید اور I love u کا کارڈ پیش کیا۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے پھولوں سے آراستہ welcome Home دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ ہمارا کمرہ بھی رنگا ر خوشبودار پھولوں سے سجا ہوا تھا۔ اتنا پیارا استقبالیہ دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آ گئے اور ہم نے محسوس کیا کہ واقعی ہم اپنے بچوں سے الگ ہوکر ان سے زیادہ اپنے آپ پر ظلم کر رہے تھے۔
دو ماہ بہت پرسکون گزرے، بچوں کی من موہنی باتوں اور محبتوں کے حصار میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا، بیٹا اور بہو بھی بہت پر سکون تھے۔
’’ابو امی آپ کے آجانے سے ہم کتنے مطمئن اور پر سکون ہو گئے ہیں، ہم دونوں جلدی جلدی بچوں کو ڈے کئیر میں چھوڑ کر دفتر جاتے، واپسی کے بعد بھی اپنے کام کرتے ہوئے آتے ہیں، گھر آنے کی جلدی نہیں ہوتی ہمارا گھر جنت بن گیا ہے۔‘‘
ویک انڈ پر ہم مختلف تفریح گاہوں پر جاتے، لیکن دوماہ بعد جب بچوں کے اسکول کھل گئے تو ہمیں احساس ہوا کہ ہم تو ہم رہے ہی نہیں ہیں، ہماری شناخت ابو امی، دادا، دادی، نانو اور نانی رہ گئی ہے، ہم نے اپنے نام کھو دیے تھے، پاکستان میں ہمارے بچوں کو ہمارے حوالے سے متعارف کرایا جاتا اور یہاں ان کے حوالے سے، ہم باقی بھی ہیں یا نہیں جب میں نے اپنے خدشے کا اظہار اپنے شریکِ حیات سے کیا تو کہنے لگے:
’’اس عمر میں ہماری یہی شناخت ہے، پھر اس میں برائی بھی کیا ہے۔ معلوم نہیں عورتیں ہمیشہ اپنی شناخت کی طالب کیوں رہتی ہیں۔۔۔‘‘
’’اور تم مرد بھی عجیب ہوتے ہو،‘‘ مجھے بڑا غصہ آیا، میں نے جب اس خطرے کا اظہار اپنی ایک بچپن کی سہیلی سے کیا تو اس نے بھی بڑی لاپروائی سے کہا۔۔۔
’’تو اس میں برا کیا ہے، مجھے تو بہت اچھا لگتا ہے جب بچے مجھ سے فرمائشیں کر کے کچھ پکواتے ہیں، میں تو بچوں کو اسکول سے لے کر بھی آتی ہوں۔۔۔‘‘ اس کی سمجھ میں بھی میری بات نہیں آئی۔ بچوں نے جب بات سنی تو فوراً مسئلے کا حل نکال لیا۔
’’امی جانی ،وہاں آپ کا اپنا کون رہ گیا ہے، ہم دونوں بھائی بہن بھی یہیں ہیں، آپ کے دوسرے بھائی بہن بھی مختلف ریاستوں میں آ چکے ہیں، اگر اپنی الگ شناخت چاہتی ہیں تو آپ کو یہاں آپ کی پسند کے لوگوں سے ملوا دوں گا۔۔۔اور آپ ایسا کیوں نہ کریں کہ اپنا کراچی والا گھر بیچ کر انھیں پیسوں سے یہاں ایک خوب صورت سا گھر لے سکتی ہیں، ہمارے گھر سے بہت قریب۔۔۔‘‘
’’اچھا تو پھر ہم کھائیں گے کیا؟‘‘
’’ویسے تو ہم ہیں نا یہاں لیکن وہاں کی زمینوں سے جو پیسے آتے ہیں اور آپ دونوں کی پنشنوں کے پیسے آپ کے کھانے پینے سے کہیں زیادہ ہیں۔‘‘
’’نا بیٹا ہم وہاں کا گھر کبھی فروخت نہیں کریں گے،ویسے بھی وہ گھر تم دونوں بھائی بہن ہی کا ہے، ہمارے بعد بیچ دینا، ابھی کم از کم کراچی میں ایک ٹھکانہ تو ہے نا۔۔۔‘‘
اس دن کے بعد سے بچوں نے اپنی تمام تر توجہ اس بات پر مرکوز کر دی کہ ہمارے ہم عمروں سے ہماری دوستیاں کرا دیں، لیکن ان سے مل کر ہماری تنہائی اور زیادہ بڑھ جاتی، پڑھنے لکھنے کی باتیں بھی ہوتیں مگر جن لوگوں سے ہماری ملاقاتیں ہوتیں ان کے پسندیدہ موضوعات کچھ اور ہوتے، بعض اپنے خیال میں اتنے زیادہ مذہبی ہوتے کہ ہمیشہ یہی محسوس ہوتا آج ہی قیامت آنے والی ہے لہٰذا کفن اور قبر کو یاد رکھیں اور بعض اتنے روشن خیال کہ حرام حلال کی تمیز تو دور کی بات ہے ہر بات کو جائز سمجھتے، شکر ہے بہت جلد میرے شوہر کو بھی احساس ہوا کہ ایسے لوگوں سے ملنے سے بہتر تو یہی ہے کہ سا را دن گھر میں گزار دیں۔
پھر ہوا یوں کہ میں تو لکھنے پڑھنے کے علاوہ کو کنگ کر لیتی اور شکر ادا کرتی کہ میری بہو کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا کیوں کہ بعض خواتین سے یہ روداد بھی سنی کہ بہو اتنا خیال رکھتی ہے کہ کچن میں جانے ہی نہیں دیتی۔وی آئی پی ٹریٹمنٹ دیتی ہے اور کہتی ہے آپ کے بیٹے اور بچوں کو صرف میرے ہاتھ کا کھانا پسند ہے، اب آپ کے بیٹے بھی کولیسٹرول سے بھرے کھانے نہیں کھاتے۔ ایک خاتون مسکرا کر کہہ رہی تھیں:
’’میرا بیٹا بہو کے سامنے تو اس کی ہاں میں ملاتا ہے لیکن ہفتے میں دو دن جب وہ گھر سے آن لائین کام کرتا ہے تو میرے گلے میں بانہیں ڈال کر مجھ سے آلو بھرے پراٹھوں کی فرمائش کرتا ہے اور کہتا ہے، ’’تھینک کیو مما آج تو کھانے کا مزہ آ گیا، اس لمحے میں جی اٹھتی ہوں۔‘‘ لیکن جب بہو کام سے واپس آتی ہے تو اس کے ساتھ دوبارہ کھانا کھاتے ہوئے اسے یہ احساس ہی نہیں ہونے دیتا کہ وہ کھا چکا ہے۔
ایک خاتون نے کہا، ’’بھئی پاکستان کی تو کیا بات ہے، اپنا گھر اپنا گھر ہی ہوتا ہے، میں دو سال میں ایک بار ضرور جاتی ہوں اور پھر آنے کو دل نہیں چاہتا مگر بچوں کا پیار مارے ڈالتا ہے، اپنے ہی گھر میں بچوں کے بغیر دم گھٹنے لگتا ہے، یہاں آکر بھی زیادہ دن ہو جائیں تو دل بند ہونے لگتا ہے۔‘‘
وہاں تین مہینوں میں بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں، ایک خاتون کے متعلق مشہور تھا کہ وہ اپنے دو نوں بیٹوں کے پاس موسم کے لحاظ سے رہتی ہیں اور بہت خوش گوار اور بھر پور زندگی گزار تی ہیں،ان سے باتیں کرکے مجھے بھی بہت اچھا لگا، کہنے لگیں،
’’ہاں میں سردیوں میں اپنے ایک بیٹے کے پاس ایریزونا آ جاتی ہوں اور گرمیوں میں دوسرے بیٹے کے پاس ٹورونٹو آ جاتی ہوں، اس طرح امریکا اور کینیڈا کی سیروں میں زندگی گزر رہی ہے۔‘‘
’’میں نے سنا ہے وہاں پاکستان میں آپ کا بہت بڑا گھر ہے، آپ وہاں کبھی نہیں جا تیں تو کہنے لگیں،
’’جب ہم دو تھے تو زیادہ تر وہیں رہتے تھے، لیکن جب سے میں تنہا ہو گئی یہاں آنا پڑا، بچے کہاں تنہا رہنے دیتے ہیں۔ یہاں آکر احساس ہوتا ہے کہ میں ہی دونوں گھروں پر راج کر رہی ہوں۔‘‘ وہ مسکرائیں،
’’بہو اور بیٹا دونوں الگ الگ اپنے اپنے کام کے سلسلے میں مصروف رہتے ہیں، دونوں کو کبھی کبھی دس پندرہ دنوں کے لیے سمینار میں جانا ہوتا ہے، کبھی صرف بہو جا تی ہے تو بیٹے کے کمرے میں دوسری عورت آ جاتی ہے، بیٹا باہر جاتا ہے تو بہو کے دوست احباب کا گٹ ٹو گیدر ہوتا ہے۔
پوتا بھی اپنی گرل فرینڈ کو گھر لے آتا ہے اور وہ کئی کئی دن ساتھ رہتی ہے، میں نے ایک بار دونوں کی توجہ اس جانب دلائی تو دونوں ہنس پڑے،
’’ارے مما بچوں کو اپنی زندگی جینے دیں،ہم روک ٹوک کریں گے تو گھر سے باہر جا کر رہنے لگیں گے۔‘‘
شکر ہے پوتی ابھی سال بھر کی ہے۔۔۔پندرہ سولہ سال کے بعدمیں اگر جیتی رہ بھی گئی تو بچے مجھے کسی بہت ہی اچھے نرسنگ ہوم میں داخل کر دیں گے۔۔۔‘‘ وہ مسکرائیں۔
گھر آتے ہی اپنے شوہر سے ساری باتیں بتائیں اور کہا،
’’آج میں نے حتمی فیصلہ کر لیا ہے، ہم اپنے گھر کراچی میں رہیں گے تو بچے سال میں ایک بار ہم سے ملنے آتے رہیں گے، ایک بار ہم ان کے ساتھ چلے جائیں گے، اس طرح بچے بھی اپنی تہذیب اور ماحول سے آشنا رہیں گے، اسکائپ پر بےخوف و خطر ان کو تنبیہ کر سکتے ہیں، بتاؤ کون سی تنہائی اچھی ہے، یہاں کی یا وہاں کی؟‘‘
جانے سے پہلے میں انھیں خدا حافظ کہنے اور اپنے فیصلے سے آگاہ کرنے گئی میں نے ان سے کہا۔’’ آپ کی باتوں نے میری آنکھیں کھول دیں مگر آپ یہ سب کچھ کیسے برداشت کرتی ہیں؟‘‘
’’جب گھر میں اس قسم کی پارٹی ہوتی ہے تو میں ان تین عقل مندوں کی طرف دیکھتی رہتی ہوں۔‘‘
انھوں نے ڈرائینگ روم میں رکھی ہوئی میز کی طرف اشارہ کیا، بہت ہی قیمتی شیشے کی میز کی بنیاد گہرے بھورے رنگوں کی لکڑی کے بنے ہوئے نادر جاپانی آرٹ سے مزین تین بندروں پر قائم تھی، ایک نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھا ہوا تھا، دوسرے نے کانوں پر اور تیسرے نے ہونٹوں پر۔ ‘‘
اپنی آنکھوں کے نمناک گوشوں کو چھپانے کے لیے انھوں نے پیٹھ موڑی اور فریج کھول کر کولڈ ڈرنک نکال کر میز پر رکھ دی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.