ہم جو روشن سی راہوں میں مارے گئے!
قاسم آباد کی رونقیں آج عروج پر ہیں۔ ظاہری رونق اور چہل پہل سے قطع نظر یہ وہ رونق ہے جو اہل محلہ کے چہروں پر نظر آرہی ہے۔ یہ وہ رونق ہے جو چاند رات پر بچوں کے چہروں پر چمکتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج ان کے قہقہے سا ری حدیں توڑ کر نکل رہے ہیں۔ اہل محلہ جذبات سے بھرے نظر آ تے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے بوڑھا باپ بیٹے کی پہلی کمائی کو ہاتھ میں تھامتے ہوئے جذباتی ہوتاہے۔ یوں لگتا ہے کہ ان کے علاقے میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔ یہ ساری رات اس تبدیلی کی خوشی میں سو نہیں پائے، بلکہ شاید پلک بھی نہیں جھپکی۔ آنسوئوں اور دکھوں کو روند کر یہ کسی انجانی خوشی کو گلے لگانے کے منتظر ہیں۔ قاسم آباد کے مکین آج اس بچے کی مانند معلوم ہوتے ہیں جو روتے روتے سوگیا ہے، خواب میں جب وہ رنگ برنگی تتلیاں، پھول اور خوشبو دیکھتا ہے تو نیندمیں قہقہے لگاتاہے اور اس کے آنسو خشک ہوجاتے ہیں۔ اہل علاقہ بھی شاید کسی خواب میں ہیں۔
علاقے کی ظاہری رونق بھی کچھ کم نہیں ہے۔ آر۔ سی۔ ڈی کی پیلی جیکٹوں والے کالے سپاہی ہر جگہ ہاتھ میں جھاڑو کھڑے نظر آتے ہیں۔ مرکزی چوک پر آج ایل۔ سی۔ ڈی لگایا جائے گا۔ جہاں سارے لوگ مل کر الیکشن سے پہلے اپنے لیڈر کی تقریر سنیں گے۔ یہ شورغل اور ہنگامہ خاص تہواروں پر بھی نہیں ہوتا اور جتنا بڑا اجتماع آج چوک پر ہونے جارہا ہے ویسا تو عید کی نماز پر بھی نہیں ہوتا۔ خادم خان جو چند دنوں میں ہونے والے الیکشن کا نمایاں امیدوار ہے۔ وہ بدل ڈالنے کا عزم لے کر سامنے آیا ہے۔ اور وہ سب جو اپنے حال سے بیزار ہیں، اس کے پیچھے پیچھے ہیں۔ یہ علاقہ اس کے حامیوں سے بھرا پڑا ہے۔ علاقے کی بیشتر آبادی اسی کے حق میں ہے۔ اور جو اس کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ اس ’’بدل دو‘‘ کے جوش و خروش کو دیکھ کرخائف ہیں۔ آج اس کی تقریر سننے کے لیے سارا علاقہ مرکزی چوک پر جمع ہونے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ عورتوں نے شام سے ہی تیاری شروع کر دی ہے۔ آج تو وہ رات کا کھانا بنانے کی ذمہ داری سے بھی دستبردار ہوگئی ہیں۔ سب کا ارادہ یہی ہے کہ چوک سے ملنے والی کراچی کی مشہور بریانی کھائیں گے۔ ناجانے تقریر کب ختم ہو۔ کون گھر آکر بنائے گا روٹی!
پیارے صاحب کے مزار کا سائیں بھی آج اسی خوشی میں مست ہے۔ ہر آنے جانے والے سے پوچھتا ہے کہ وہ آج ایل۔ سی۔ ڈی پر خادم خان کی تقریر سنے گا۔ اور اگر کوئی ہاں میں جواب دے تو اس کی کمر پر زوردار دھموکا جڑ کر کہتا ہے،
’’دل خوش کیتا ای۔ اپنے سوہنے لیڈر کی تقریر ہے۔ سارے جائیں گے اور نعرے لگائیں گے۔‘‘
سائیں کی عمر پچاس ساٹھ کے لگ بھگ ہوگی۔ علاقے میں موجود پیارے صاحب کی درگاہ پر رہتا ہے۔ یہ درگاہ اس علاقے کی معروف جگہ ہے۔ محرم اور ربیع الاول کے دنوں میں عقیدت مند اپنے جلوس یہیں سے نکالتے ہیں اور علاقے کے تمام ضعیف الاعتقاد لوگ یہیں سے اپنی بیماریوں اور دکھوں کا علاج کرتے ہیں۔ سائیں کی ذات اسی درگاہ سے منسوب ہے۔ وہ کہاں سے آیا اور کب آیا، یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ علاقے کے بزرگ بھی اسے بچپن سے جانتے تھے۔ درگاہ کے سارے انتظامات اسی کے ہا تھ میں تھے۔ بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ اتنے سالوں سے مزار پر رہنے کی وجہ سے وہ بھی مدفن پیر کی طرح مقدس ہوچکا تھا۔ اکثر والدین اپنے بچوں پر دَم کروانے آتے تھے۔ سائیں کا کہنا تھا کہ وہ خادم خان اور اس کے والدین کو بہت عرصے سے جانتا ہے۔ وہ دعا کرنے اکثر اس زیارت پر آتے تھے بلکہ اکثر وہ مبالغہ آرائی میں حد سے آگے چلاجاتا تھا۔ کہتا تھا اسی زیارت پر دعائوں اور منتوں کے باعث خادم خان کے والدین کو اولاد کی سعادت حاصل ہوئی۔
شام ہوتے ہی سب نے مرکزی چوک کا رخ کیا۔ کوئی پیدل چلنے لگا تو کوئی گاڑیوں میں سوار ہوگیا۔ سائیں بھی چوک پر جانے والے ایک جلوس میں شامل ہوگیا۔ بے فکری سے نعرے لگاتاوہ بہت خوش نظر آرہا تھا۔ منچلے نوجوان اپنا سارا دھڑ ٹیکسیوں کاروں سے نکال کر خادم خان کے حق میں نعرے لگاتے۔ ڈیک پر جوش و جذبہ بڑھانے کے گیت لگے تھے۔ محلے کا یہ جوش و جذبہ دیکھ کر مخالف پارٹی کے کچھ لڑکوں نے فساد پھیلانے کی بھی کوشش کی لیکن سائیں اور کچھ دوسرے بڑے بزرگوں نے معاملہ رفع دفع کر دیا۔
دوگھنٹے کی تقریر کے دوران لگائے جانے والے نعروں میں سائیں کی آواز سب سے اونچی تھی۔ وہ گلا پھاڑ پھاڑ کے خادم زندہ باد کے نعرے لگاتا رہا۔ اس کے منہ سے نکلے ہر جملے پر واہ واہ کرتا۔ اس کا جوش جوانوں سے بھی بڑھ کر تھا۔ مجمع میں موجود بہت سے لوگ اس کے جوش و خروش سے محظوظ ہو رہے تھے۔ تقریر کے بعد جب سب لوگ کھانے پینے کی دکانوں کی طرف بڑھے تو کھمبے کے نیچے زمین پر بیٹھے سائیں کو بھی کسی نے مرغ پلائو کی ایک پلیٹ لادی۔ جسے وہ بڑی رغبت سے کھانے لگا۔ وہ نوجوان جس نے سائیں کو پلائو لا کر دیا تھا۔ اس کے پاس ہی بیٹھ گیا اور اس سے پوچھنے لگا۔
’’یار سائیں! ایک بات بتا؟تیرا نہ تو کوئی گھربار ہے۔ نہ بیوی بچے ہیں۔ تجھے ان الیکشن کے معاملات سے کیا۔ تو درگاہ پہ بیٹھ۔ وہاں کی صفائی کر۔ لوگوں کودعا دے۔ کہاں رُل رہاہے۔‘‘
نوجوان کی بات ختم ہوئی تو اس نے دیکھا کہ سائیں اسے لال لال آنکھوں سے گھور رہا تھا۔
’’کیوں بے! میرا اپنا کوئی گھر نہیں تو کیا یہ ملک بھی میرا گھر نہیں؟ یہ لوگ بھی میرے نہیں ہیں؟میرے دل میں بھی سَٹ لگتی ہے جب میں لاشیں اور بندوقیں دیکھتا ہوں۔ سڑکوں پہ خون دیکھتا ہوں۔ میرا پیٹ بھر جاتا ہے لیکن مجھے ننگے بھوکے پیٹ نظر آتے ہیں۔ جا دفع ہو جا۔ اور لے جا اپنے چاولوں کی پلیٹ۔ کمینے۔ مجھ سے پوچھتا ہے کہ۔۔۔‘‘
سائیں کے شورغل سے سارے لوگ جمع ہوگئے اور اس کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
آخر الیکشن کا دن آگیا۔ سارا علاقہ اپنے قریبی پولنگ اسٹیشن پر پہنچ گیا۔ سائیں بھی شور مچاتا ایک جلوس کے ساتھ پولنگ اسٹیشن پر پہنچ گیا۔ پولنگ ایجنٹ نے سائیں کو بتایا کہ وہ ووٹ نہیں ڈال سکتا۔ کیونکہ نہ تو اس کے پاس شناختی کارڈ ہے اور نہ ہی ووٹنگ لسٹ میں اس کا نام ہے۔
’’میں یہاں ہی پلا بڑھا ہوں۔ جب بڑا ہوا تب سے درگاہ پر ہوں۔ سب مجھے جانتے ہیں یہاں۔ پوچھ لو ان سے۔ بتائو انہیں‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن ووٹ ڈالنے کے لیے اپنی شناخت کروانا ضروری ہے۔ کوئی نام اور پتہ ہونا ضروری ہے۔ مجھے بتائیں آپ کا کیا نام ہے؟‘‘
’’سائیں‘‘
’’اچھا! باپ کا نام؟‘‘
’’یہ تو نہیں پتا مجھے۔‘‘
’’اب اس طرح میں آپ کو ووٹ ڈالنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہوں۔ آپ ووٹ نہیں ڈال سکتے، جائو بابا۔‘‘
پولنگ ایجنٹ نے ناگواری سے جان چھڑاتے ہوئے کہا.سائیں سے کبھی کسی نے اس لہجے میں بات نہ کی تھی۔ کچھ دیر تو اسے اس بات کایقین ہی نہیں آیا کہ وہ اتنے دنوں سے جس کام کی تیاری کر رہا ہے۔ وہ اس کے لیے اہل ہی نہیں ہے۔ کچھ لمحے وہاں کھڑے رہنے کے بعد اس کے پائوں آہستہ آہستہ بغیر مڑے پیچھے کی طرف جانے لگے۔ کل اس نے مزار کے خاکروب کو اپنے کپڑے دیئے تھے کہ وہ اپنی گھروالی سے یہ دھلوا کر اور استری کرواکر لے آئے۔ اتنے عرصے بعد اس نے پائوں میں چپل بھی پہنے تھے۔ لیکن یہ سب تیاری۔۔۔ اور سب سے بڑی دکھ کی بات تو یہ تھی کہ برسوں سے اس علاقے میں رہنے کے باوجود اس کی کوئی شناخت ہی نہیں ہے۔
’’میں یہاں ہوکر بھی یہاں نہیں ہوں۔‘‘
’’ابے! باپ کا نام پتا نہ ہو تو بندہ ووٹ بھی نہیں ڈال سکتا‘‘ سائیں سارا دن یہی جملہ دہراتا رہا۔ اور سوچتا رہا۔ شام کو جب نتائج سامنے آئے اور پورے علاقے میں ہلچل ہوئی تو سائیں کو بھی اپنی کو ٹھڑی سے نکلنا پڑا۔ خادم خان جیت چکا تھا۔ نوجوان لڑکوں کی ٹولیاں فائرنگ کرتے اور بھنگڑے ڈالتی گھوم رہی تھی۔ سب نے سائیں کے منہ میں بھی مٹھائی ڈالی۔
’’سائیں پریشان نہ ہو۔ یہ الیکشن کے ہنگامے ختم ہوتے ہی ہم تیرا شناختی کارڈ بنوادیں گے۔ اگلی بار ووٹ ڈال دینا تو خادم خان کو‘‘
’’لیکن مجھے تو اپنے باپ کانام۔۔۔‘‘
’’ارے! کچھ نہیں ہوتا اس سے۔ اب تو اپنے بندے کی حکومت ہے۔ سب ہوجائے گا۔ تو غم نہ کر۔‘‘
لڑکوں کے دلاسے اور خوشی دیکھ کر سائیں بھی اپنا غم بھول گیا۔ اور ان کے ساتھ ناچنے لگا۔ ناچتے ناچتے خوشیاں مناتے وہ مخالف پارٹی کے دفتر کے سامنے پہنچ گئے۔ ہوائی فائرنگ کی۔ ان کا دل جلانے کے لیے ان کے لیڈروں کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔ سائیں بھی اس سب میں شامل رہا۔ نعرے لگانے میں اس کی آواز سب سے اونچی تھی۔ جو نوجوان تھک کر بیٹھ جاتے وہ دوبارہ انہیں جوش دلاتا۔ مخالف پارٹی کے لوگ کچھ دیر تو صبر کرتے رہے۔ تنگ آکر انہوں نے پہلے پتھروں اور اینٹوں سے ان کی تواضع کی۔ لیکن ان کے جوش کے سامنے پتھر اور اینٹ کچھ نہ کرسکے۔ غصے میں آکر چند نوجوانوں نے اپنی رائفلیں اٹھائیں اور اندھادھند فائرنگ شروع کری۔ ایسی دھند اٹھی کہ کافی دیر کچھ نظر نہ آیا۔ باقی کا حال دالان میں روتی عورتیں، چوپال میں خاموش بزرگوں اور نجی چینل کے لوکل نمائندے سے یہ معلوم ہوا۔
’’الیکشن کے دن قاسم آباد میں کشیدگی۔ مخالف پارٹی کے نوجوانوں نے جیتنے والی پارٹی کے نوجوانوں پر فائرنگ کر دی۔ پانچ افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ باقی ہسپتال میں تشویش ناک حالت میں بتائے جاتے ہیں۔ تبدیلی پارٹی کے قائد نے مقتولین کے گھر والوں کو دو دو لاکھ دینے کا اعلان کیا ہے۔‘‘
قاسم آباد کے انسان دوست مکین پریشان ہیں اور خادم خان سے پوچھنے آئے ہیں کہ سائیں کے دو لاکھ کس کو دیے جائیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.