ہم شہر بدل گئے
کافی ہاؤس میں کوئی میز خالی نہیں تھی۔ میں واپس جانے لگا کہ منوج نے اشارہ کیا۔ سامنے کھڑکی کے قریب منوج اور اس کے دوست کافی پی رہے تھے۔ منوج نے میرے سامنے کرسی سرکاتے ہوئے کہا، ’’نشا سے ملو‘‘
’’ہاؤڈیو ڈو۔‘‘
’’ہاؤڈیوڈو۔‘‘
’’مسٹر جگ دیپ۔۔۔‘‘ منوج نے جگ دیپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’اور رمن۔۔۔‘‘ یہ میرا نام تھا۔
منوج نے سب کے لیے کافی منگوائی۔ جگ دیپ یونیورسٹی میں ’’ڈان جون‘‘ مشہور تھا اور نشا اپنے گورے چٹے رنگ اور لمبی سیاہ زلفوں کے باعث ’’اے پلس‘‘ سمجھی جاتی تھی۔ لیکن سرگوشیوں میں شالنی کے چرچے بھی ہوتے تھے۔ منوج کا خیال تھا کہ جس راہ سے نشا گزر جائے آنچ محسوس ہوتی ہے اور جس موڑ سے شالنی گزرتی ہے مہک آتی ہے۔ شالنی تو خیر کسی کو لفٹ نہیں دیتی تھی لیکن نشا کے گرد عام طور پرلڑکے بھونراتے رہتے تھے۔
’’رمن صاحب بڑے انٹی لیکچول ہیں۔ مارکس فرائیڈ، ژونگ، آئن سٹائین، نہ جانے کیسے کیسے لوگ ان کے دوست ہیں‘‘ منوج نے کہا۔
’’اول۔۔۔‘‘ نشانے کہا جیسے میں کسی مصیبت میں گرفتار ہوگیا ہوں۔
’’اور اب کچھ کچھ ستھت پرگیہ ہوتے جارہے ہیں۔ ایک جیب میں بھگوت گیتا رکھتے ہیں اور دوسرے میں سلفے کی چلم۔‘‘ منوج نے پھر کہا۔
’’ستھت پرگیہ۔۔۔ یہ کیا بلا ہوتی ہے۔‘‘ جگ دیپ نے پوچھا۔
’’آپ نے بھگوت گیتا نہیں پڑھی؟‘‘ منوج نے سوال کیا۔
’’ہم تو خاش کو گیتا سمجھتے رہے ہیں۔‘‘ جگ دیپ نے کہا اور سب کھلکھلاکر ہنس پڑے اور میں نے محسوس کیا کہ چند لمحوں میں ہی میرے خلاف ’’اینی مس‘‘ کا ماحول تیار ہوگیا ہے۔
’’مس نشا، آپ کا نام آپ کے رنگ و روپ کے خلاف ہے۔ اگر آپ کورات سے اتنا ہی پیار ہے تو رجنی گندھا جیسا کوئی نام رکھ لیتیں۔‘‘ میں نے وار کیا۔
’’یعنی، جیسے رات کی رانی۔۔۔ کیوں رمن صاحب؟‘‘ جگ دیپ نے کہا۔
منوج نے ماحول میں زہر اڑانے کی کیفیت کو محسوس کیا اور فوراً بولا، ’’ان کا اصلی نام نشی ہے۔ لیکن اب یہ بڑا کامن ہوگیا ہے۔ نشی میں جادو تھا۔ اور اب نشا میں نشہ ہے۔‘‘ الفاظ اپنا جادو کرگئے۔ ریگل میں کیا چینج ہوا ہے۔ نشانے بھی موضوع گفتگو بدلنے کی کوشش کی۔
’’پرپل پلیسین گریگری پیک اور۔۔۔‘‘
’’آئی ڈائی فار پیک۔۔۔‘‘ نشا نے ہونٹوں کا دائرہ بناتے ہوئے کہا۔
’’جب وہ انڈیا آیا تھا تو ثریا سے اس کا افیر (AFFAIR) ہوگیا تھا۔‘‘
’’کیوں نہ ہو۔ یہ امریکی تو ہندوستان کے حسن پر مرمٹتے ہیں۔‘‘ منوج نے کہا۔
’’ارے امریکیوں کی خوب کہی، وہ تو ہر چیز پر مرمٹتے ہیں۔ مارلن منرو سے لے کر زین بدھ ازم پر۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔
’’سنا ہے ثریا پھر فلموں میں آرہی ہے۔‘‘ نشا نے کہا۔
’’ارے بچہ تو بی بی کے بھی ہوا ہے۔‘‘ منوج نے کہا۔
’’واقعی؟‘‘ نشانے چونکتے ہوئے کہا۔
’’کتنے نمبر کی شادی سے؟‘‘
’’وہ بے چاری تو اپنے گھر سے بھی نہیں نکل سکتی۔ تازہ ہوا کے لیے چھت پر نہیں جاسکتی۔ ہر وقت مکان کے دروازے، کھڑکیاں بند رکھنے پڑتے ہیں۔‘‘ منوج نے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ شالنی نے پوچھا۔
’’جس طرف دیکھو، فوٹو گرافر خفیہ کیمرے لیے اس کی تصویر لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ حوا کے لباس سے لے کر ڈاؤر کے لباس تک میں۔ اس نے نیند آور گولیوں سے خودکشی کی بھی کوشش کی تھی۔‘‘
’’چ چ۔ پوور بی بی۔۔۔‘‘ نشانے کہا۔
’’ورنہ مارلن منرو بننے میں کیا کسر تھی۔‘‘
’’سوائے اس کے کہ اس کو آرتھر ملر جیسا خاوند نہیں ملا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’مجھے تو اس پر ترس آتا ہے۔ تم نے اینڈ گاڈ کرئیٹڈ وومن دیکھی ہے؟‘‘ جگدیپ نے کہا۔
’’گاؤ۔ اسے تو شیطان نے پیدا کیا ہے۔۔۔‘‘ منوج نے کہا۔
’’کیوں۔۔۔ رمن صاحب سنا ہے خدا مرگیا ہے۔ وہ آپ کیا کہا کرتے تھے، خدا کا جنازہ لیے جارہے ہیں فرشتے۔۔۔‘‘
’’اعلان تو ہوچکاہے لیکن مصنوعی تنفس جاری ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’اب تو انسان کی موت کا بھی اعلان ہوچکا ہے۔ بدبخت اس کا گواہ ہے۔‘‘
’’اطلاعاً عرض ہو جگ دیپ صاحب، اب لولٹیا پر بھی فلم بن چکی ہے۔ پروڈیوسرز چاہتے تھے کہ لولٹیاکا پارٹ اس لڑکی کو دیا جائے جو ذہنی طور پر بھی لوٹیا ہو۔‘‘ میں نے جگدیپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’اور جسمانی طور پر بھی۔‘‘ منوج نے کہا، ’’امریکہ میں ایسی سیکڑوں لولٹیائیں ہیں۔‘‘
’’آٹھ سوماؤں نے اپنی لڑکیاں اس رول کے لیے پیش کی تھیں۔ بھائی ایک خبر یہ بھی ہے۔‘‘
’’یہاں تک کہ ایرول فلائین نے بھی۔۔۔‘‘
’’سنا ہے سوئٹی پون کو اس کے لیے چنا گیا ہے۔‘‘
’’سوئٹی پون۔۔۔ کتنا رومانٹک نام ہے۔‘‘ نشا نے کہا۔
’’مشکل سے پندرہ سال کی ہوگی۔‘‘
’’تم نے لولٹیا پڑھی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
نشا ہونٹ سکیڑ کر رہ گئی۔
’’اور جناب آپ نے؟‘‘
’’کوشش کی تھی۔ بڑی بور کتاب ہے۔‘‘ جگ دیپ نے کہا۔
’’اور کم بخت انگریزی میں لکھی ہوئی تھی اور وہ بھی خوبصورت انگریزی میں۔۔۔‘‘ منوج نے کہا۔
’’انگرڈبرگمسین بیسٹ سیلرباؤ گرانی پڑھو یا پیری مسین۔۔۔‘‘
شالنی خاموش بیٹھی کافی پی رہی تھی۔
’’آپ کو فلموں میں دلچسپی نہیں۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میری انفارمیشن اتنی زیادہ نہیں۔‘‘ اس نے ہونٹوں کو ہلکی سی حرکت دیتے ہوئے کہا۔
کلاس کا وقت ہوچکا تھا۔ سب اٹھ کر چلے گئے۔
’’مسٹر رمن بل کے پیسے۔‘‘ نشا نے کہا۔
میں رک گیا۔ منوج میری طرف دیکھنے لگا۔ وہ شاید سمجھ گیا کہ میرا ردعمل کیا ہوگا۔
’’مس نشا تمہاری عمر کیا ہے؟ ویسے لڑکیوں کی عمر پوچھنا ایٹی کیٹ کے خلاف ہے؟‘‘ میں نے کہا۔
’’کیوں۔ اٹھارہ سال؟‘‘ اس نے کہا۔
’’اور میری عمر چوبیس سال ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ اس نے آفنس محسوس کرتے ہوئے کہا۔
’’مادام نشا۔ مطلب یہ ہے کہ جب میں اٹھارہ سال کاتھا تو لڑکیوں کے بل ادا کردیا کرتا تھا۔‘‘
’’اور اب۔۔۔‘‘ شالنی نے پوچھا۔
’’اب تو جناب ذاتی جائیداد اور پیسے کے نظام کے خلاف ہیں۔‘‘ منوج نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’تم سمجھتے ہو تم بڑے خوبصورت ہو۔ پرنس چارمنگ۔۔۔‘‘ نشا نے غصے سے کہا اور اپنا پرس کھولا۔
منوج صرف اپنا بل ادا کرتا تھا، جگ دیپ صرف لڑکیوں کے بل کے پیسے دیتا تھا۔ اور نشا کا رجحان تھا مفت کافی۔۔۔ شالنی کو اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔
’’معلوم نہیں یہ وحشی گنوار شہروں میں کہاں سے نازل ہوجاتے ہیں۔‘‘ نشا نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور جگ دیپ کے ساتھ کلاس میں چلی گئی۔ منوج اور شالنی لائبریری کی طرف روانہ ہوگئے۔ میں کافی ہاؤس سے باہر نکل کر برآمدے میں گیا۔ میں نے سگریٹ سلگانے کے لیے دیا سلائی جلائی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے پیچھے ہولے سے آکر کوئی کھڑا ہوگیا ہے اور میرے شانے پر جھک گیا ہے۔ چھایا، سانس، مہک، سرسراہٹ کا جھونکا سا آیا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔
’’شالنی۔۔۔‘‘ شاید پہلی بار میں نے شالنی کو اپنے اتنے قریب مہکتے ہوئے محسوس کیا تھا۔ حالانکہ مجھے ہمیشہ یہ احساس ہوتا رہا ہے کہ شالنی کی نگاہیں کچھ تلاش کر رہی ہیں۔ اب پرم گیان حاصل کرکے میرے سامنے جھلملانے لگی ہیں۔
’’تمہاری عمر کتنی ہے رمن؟‘‘ اس نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔
’’چوبیس سال۔‘‘ میں نے کہا۔
’’اور میری بیس سال ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ زور سے ہنسی۔ یہ لڑکی اس طرح کھل کر ہنس بھی سکتی ہے۔
وہ میرے ساتھ ساتھ برآمدے سے اتر کر لان میں آگئی۔ بیٹ سے باہر نکل کر سڑک کے کنارے ہم دھیرے دھیرے چلنے لگے۔ ہمارے پیچھے سورج غروب ہو رہا تھا اور ہمارے سامنے سایے لمبے ہوتے جارہے تھے۔ بس اسٹاپ پر شالنی رک گئی۔
’’کتنی سردی ہے!‘‘ اس نے کہا۔
میں خاموش تھا۔
’’تم نے سویٹر وغیرہ کچھ نہیں پہنا۔‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’تم اپنی پروا نہیں کرتے، بیمار پڑجاؤگے۔‘‘
’’مجھے بیمار پڑنے کی فرصت نہیں؟‘‘ میں نے کہا۔
’’آپ شاید الہ آباد میں تھے۔‘‘ اس نے اچانک کہا۔
’’اگر میں غلطی نہیں کرتا تو آپ۔۔۔‘‘ میرا اندازہ درست تھا۔
’’آپ کے فادر آج کل کیا کر رہے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وہ ریٹائرڈ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اولڈ مین لونلی نیس۔ دن بھر اسرار لندن پڑھتے ہیں اور رات بھر شراب پیتے ہیں۔ اور اکیلے بیٹھ کر تاش کھیلتے ہیں۔‘‘
’’کیا اب بھی وہ۔۔۔ ہر رات کو قبرستان جانے کی رسم پوری کرتے ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں اب سرسوتی کی ایک سولہ سال کی سوت آگئی ہے اور وہ گھر میں بری طرح الجھ گئی ہے۔‘‘
’’میرا مطلب یہ نہیں تھا۔۔۔‘‘ میں نے کچھ پریشانی محسوس کی۔ شالنی مسکرادی۔ میں نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا، ’’وہ ایک بوڑھا تھا۔ کیا نام تھا اس کا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’فضل دین۔‘‘
’’کیا ابھی زندہ ہے؟‘‘
’’ہاں ہم سے زیادہ۔‘‘ شالنی نے کہا، ’’اب ہماری گلی میں بجلی کی روشنی آگئی ہے۔ لیکن وہ اسی طرح لگاتار ہر شام اندھیرا ہوتے ہی اپنی بانس کی سیڑھی اٹھائے آتا ہے اور لیمپ کی جگہ پر مٹی کا دیا جلاکر چلا جاتا ہے۔‘‘
’’اور کلمہ بھی پڑھتا ہے، بلند آواز میں۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’بوڑھا کچھ سنکی تھا۔‘‘ میں نے کہا۔
شالنی نے میری طرف غور سے دیکھا، جیسے وہ مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ کیا میں وہی آدمی ہوں جسے اس نے الہ آباد کی اس گلی میں دیکھا تھا اور مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں نے کچھ کھودیا ہے۔
’’تمہیں معلوم ہے کہ اس بوڑھے سنکی کا لڑکا پاکستان چلا گیا ہے اور وہ ایک بار اسے لینے بھی آیا لیکن اس سنکی نے جانے سے انکار کردیا۔ کہتا تھا کہ گنگا جمنی کو چھوڑ کر مجھے دوسرے وطن لے جانا چاہتے ہو۔‘‘
شالنی تھوڑی دیر خاموش رہی۔
’’ہر شام روشنی بلانا سوائے سنک کے ممکن نہیں دوست اور اس سنک کے لیے فلسفے کی ضرورت نہیں پڑتی اور شاید بھگوت گیتا کی بھی نہیں۔۔۔‘‘
’’اور وہ سانولی لڑکی۔ چھیریرے بدن والی۔ کیا وہ اب بھی آتی ہے؟‘‘ میں نے کہا۔
’’کون سانولی لڑکی؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’وہ پھول والی سفید ساڑی پہنے، معصوم چہرہ، غمگین صورت۔‘‘
شالنی پھر کھلکھلاکر ہنس پڑی۔
’’میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔۔۔‘‘ اور پھر میری آنکھوں میں جھانک کر بولی، ’’تمہارے تصور کی گلی میں وہ ہر دن گزرتی ہے۔‘‘
میں اداس ہوگیا۔ میرے ذہن میں اس اندھیری گلی سے وہ لڑکی اب بھی گزر رہی تھی۔
’’آج کل آپ کیا کر رہے ہیں؟‘‘ شالنی نے مجھے چونکا دیا۔
’’جسم اور جیب کی ایکویشن سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔‘‘
’’اور کام؟‘‘
’’کام مجھے کوئی راس نہیں آیا، یا شاید میں کسی کام کو راس نہیں آیا۔ لوگ اس حالت کو نمیس فٹ کہتے ہیں۔‘‘
’’تو پھر آپ لوگوں کو قتل کردیں یا خودکشی کرلیں۔ اس سرد جنگ سے کیا حاصل؟‘‘ شالنی نے کہا۔
’’اس کی کیا ضرورت ہے؟ موت جسم اور روح کے رشتے کے ٹوٹنے کا نام ہے اور یہ رشتہ ٹوٹ چکا ہے، قریب قریب ہر انسان میں۔‘‘
سامنے سے بس آتی نظر آئی۔ شالنی نے اپنا شال جسم کے گرد لپیٹ لیا اور دوڑ کر بس کے ہجوم میں شامل ہوگئی۔ میں اسٹاپ پر کھڑا دور تک بس کو جاتے دیکھتا رہا۔ وہ بیک سیٹ سے شیشے میں سے جھانک رہی تھی۔ موڑ پر مڑتے اس نے ہلکے سے ہاتھ ہلایا اور بس اگلے موڑ پر غائب ہوگئی۔
میں چپ چاپ پلیا پربیٹھ گیا۔ اندھیرا اور گہرا ہونے لگا۔ میں نے اپنی مقدس کتاب نکالی لیکن سب الفاظ مدہم پڑچکے تھے اور جب کتاب کو روشنی نہ ملی تو پھر سلفے کی لاٹ کی روشنی ہی سہی۔ اور پھر میں نے دیکھا اس اندھیری سڑک پر وہ پھولوں والی سفید ساڑی پہنے سانولے رنگ کی لڑکی گزر رہی تھی اور میرے الفاظ اس کے آنچل میں دھیرے دھیرے بھرتے جارہے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.