شعلے
کہانی کی کہانی
یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جو ایک گھر میں گورنیس کی نوکری کرتے ہوئے اپنے باس سے محبت کرنے لگتی ہے۔ جبکہ اس کی منگنی ہو چکی ہے۔ اس کا باس بھی جانتا ہے۔ مگر وہ اپنے جذبات کو چھپا نہیں پاتی۔ باس جانتا ہے کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے، لیکن وہ انکار کر دیتا ہے۔ مگر جس روز اس کی ڈولی اٹھتی ہے تب وہ سجدے میں گر کر سسک سسک کر کہتا ہے کہ مجھے تم سے محبت ہے۔
نکہت کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آ رہا تھا۔ اندر اسلم صاحب درد سے کراہتے پڑے تھے اور وہ خود باہر ہاتھ ملتی کھڑی تھی۔ اس نے لپک کر شانو کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ اور اس کے کان میں بولی۔
’’ڈاکٹر صاحب کا فون نمبر یاد ہے تمہیں؟
’’جی ہاں۔ 9434۔‘‘ وہ حیرت سے بولی۔ کیوں مگر
’’تم جلدی سے جا کر ڈاکٹر صاحب کو فون کر دو کہ وہ کسی وقت کوٹھی پر چلے آئیں۔‘‘
شانو بھاگتی ہوئی کمرے سے نکل گئی اور نگہت دھیرے دھیرے کمرے میں داخل ہو گئی۔
اسلم صاحب نے ایک لمحے کو آنکھیں کھول کر نگہت کو آتا دیکھا اور پھر سے آنکھیں موندلیں۔
نگہت دھیرے دھیرے کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔
(کتنے دنوں پیچھے آج اسلم صاحب کا دماغ جا رہا تھا)
لمبا سا قد۔ سانولا رنگ۔ بھورے بالوں کی دو چار پریشان لٹیں پیشانی پر آئی ہوئیں اور وہ آنکھیں۔ اس کے چہرے پر سب سے زیادہ کوئی چیز نمایاں تھی تو یہی آنکھیں۔ بڑی بڑی اور اس قدر غم سے بھری کہ لگتا ابھی ابھی ان میں آنسو امڈ آئیں گے۔ ان آنکھوں کو دیکھ کر خواہ مخواہ ان آنکھوں والی سے ہمدردی کرنے کو جی چاہتا۔ نگہت کے سراپے کو دیکھتے ہی اسلم صاحب کے دماغ میں اس کا خط گھومنے لگا۔
محترمی!
میں نے آج صبح کے اخبار میں آپ کا دیا ہوا اشتہار پڑھا ہے، آپ کو، اپنے بچوں کے لئے ایک گورنس کی ضرورت ہے۔ اور مجھے اپنے لئے، اپنی ماں اور اپنی ضروریات کے لئے ایک معقول رقم کی ضرورت ہے آپ نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ گورنس کی ماہانہ تنخواہ دو سو روپے ہوا کرےگی مگر اسے اپنی ڈیوٹی انجام دینے میں بہت ہی اسمارٹ ہونا چاہئے۔ (جس کے لئے ۴۰ سال سے اوپر ہونا بھی لازمی رکھ دیا ہے) میں اکثر سوچتی ہوں جناب، خدا کی بنائی ہوئی اس دنیا میں اتنی نا انصافی کیوں ہے۔ کس نے پیدا کی۔ ہم بندوں نے یا خود خدا نے؟
دیکھئے نا آپ محض اتنے سے کام کے لئے دو سو روپے خرچ کرنے کو تیار ہیں کہ کوئی آپ کے بچوں کو کھلائے پلائے، کپڑے بدلوالے اور ڈھنگ سے دیکھ بھال کرے۔ جب کہ یہاں یہ حال ہے کہ ایک بار کھانا مل جانا ہی معجزہ ہے۔
آپ کے پاس بہت ساری درخواستیں آ رہی ہوں گی اور ان میں سے یقیناًکسی نہ کسی کو آپ چن بھی لیں گے۔ مگر آپ سے اپنی مجبوریوں کا کیا بیان کروں۔ کاش میری عمر آج سے بیس سال زیادہ ہوتی۔
(دو سو روپے خوبصورت جنت) میرا دل چاہ رہا ہے کہ کسی بھی طرح آپ کے دل میں اپنے لئے رحم بھردوں اور یہ نوکری حاصل کر لوں۔ صبح سے جب سے آپ کا اشتہار پڑھا ہے، میں نے اتنی کم مدت میں اس قدر رنگین خواب دیکھ ڈالے ہیں۔ کہ پوچھئے نہیں۔ صبح سے میں نے کئی ساڑیاں بدل ڈالی ہیں۔ کانوں کے ٹوپس نہیں جچے تو جھولتے ہوئے لمبے ایرنگ پہن لئے۔ گلے میں ہلکی سی زنجیر پسند نہیں آ رہی تھی تو چمکدار نیکلس پہن لیا۔ چپل نا پسند ہونے لگی تو اونچی ایڑی کی سینڈل پہن ڈالی۔ کئی دنوں سے جو گھڑی کا اسٹریپ بدلوانے کے بارے میں سوچ رہی تھی، فوراً ہی بدل ڈالا۔ اب میری کلائی پر سنہرا اسٹریپ جھل مل کر رہا ہے میں نے اپنے کمرے میں رنگین پردے لٹکا دئیے ہیں۔ ہلکی نیلی مسہری کے سامنے کرسی اور میز دھری ہے اور یہاں بیٹھ کر میں آپ کے تینوں بچوں کو انگلش پڑھا رہی ہوں (جی ہاں میں بی اے پاس کر چکی ہوں۔
(بہت سی دعائیں اور محبتیں! نیاز مند)
نگہت
اسلم صاحب کو خط لکھنے کا اسٹائل بری طرح بھاگیا۔ نوکری کے لئے کئی عرضیاں آئی رکھی تھیں، مگر اب وہ کسی کے بارے میں نہیں سوچ رہے تھے، اتنی معصومیت، اتنی سچائی، اتنی سادگی اور اس قدر منوالینے والے لہجے اور انوکھے اسٹائل کی کوئی تحریر آج تک ان کی نظر سے نہ گزری تھی۔ سکریٹری نے جب سارے خطوط ان کے سامنے ڈالے تھے تو انھوں نے نگہت کے خط کو الگ رکھتے ہوئے کہا تھا۔
’’مس نگہت آئیں تو انھیں سے اپوئنٹمنٹ کر لینا۔ ‘‘
’’مگر جناب۔‘‘ وہ رکتے رکتے بولا۔ ’’وہ صرف بیس سال کی ہیں اور آپ نے تو چالیس۔۔۔‘‘
’’بکومت۔‘‘ اسلم صاحب جھلا کر بولے۔ ’’جو کہا جائے اسے پورا کیا کرو۔‘‘
نگہت آئی تو اسلم صاحب نے اسے سرسری نگاہ سے دیکھا اور لاپروائی سے بولے۔
’’آپ کل کام پر آ رہی ہیں۔‘‘
اس اچانک اور غیرمتوقع خوشی سے نگہت لڑکھڑا سی گئی اور رکتے جھجکتے بولی۔
’’مگر جناب میں۔ میں تو۔۔۔
’’میں تو صرف بیس سال کی ہوں۔ یہی کہہ رہی تھیں نا آپ‘‘ وہ ہنس کر بولے۔ کوئی بات نہیں۔ مجھے عمر کی قید اس لئے لگانی پڑی تھی کہ گورنس تجربہ کار اور ذمہ دار ہو۔ میں نے پہلے تو آپ کا خط دیکھا اور اب آپ کو دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ دنیا میں عمر ہی تو سب کچھ نہیں ہوتی۔
نگہت نے کچھ نہ کہا۔ کچھ بھی تو نہ کہا۔ بس اسلم صاحب کو دیکھا اور دیکھ کر آنکھیں جھکا لیں۔
جب وہ جانے کے لئے مڑی تو اسلم صاحب نے اس کے پچھانویں کو دیکھا۔ اتنی حسین جسامت (اتنا ذہین دماغ) اتنی اچھی لڑکی اور غریبی بھی کیا شے ہوتی ہے۔ صاف دیکھائی دے رہا تھا کہ اس نے اس قدر اہتمام سے جو ساڑی پہنی ہے۔ دو پیسے کا صابن لگاکر دھوئی ہوگی اور استری بھی نہ کر سکی ہو گی۔ تبھی تو یوں ملگجی ملگجی دکھائی دے رہی تھی جیسے پہلی پہلی برسات کے پیلے پیلے بادل۔
نگہت نے کمرے کو بار بار دیکھا۔ دیواروں کو دیکھا۔ میز کو دیکھا کرسی کو۔ پھر پلنگ اور مسہری کو۔ نیلی مسہری کو۔ اور اسی سے میچ کرتے ہوئے نیلے چپرتی۔ رنگین پردے۔ وہ اپنا بکس رکھ کر تیز تیز قدموں سے چلتی اسلم صاحب کے کمرے تک پہنچی اور چوکھٹ پر رک کر بولی۔
’’بوس۔ میں اندر آسکتی ہوں۔‘‘
اسلم صاحب نے سر ہلا کر اندر آنے کی اجازت دی۔ تو وہ آتے ہی بچوں کے نئے معصوم لہجے میں جلدی جلدی بولنے لگی۔
’’وہ آپ کے سکریٹری صاحب میری بات سنتے نہیں ہیں۔ جانے کون سا کمرہ میرے لئے وقف کر دیا۔ اب میں انھیں غلطی پرشرمندہ کرنا چاہتی ہوں۔ تو ڈھٹائی سے بولتے ہیں کہ ’’نہیں وہ کمرہ میرا ہی ہے۔‘‘ بھلا ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘
اسلم صاحب ذرا سا مسکرا کر بولے۔
’’تمہارے لئے وہ کمرہ میں نے ہی مخصوص کر وایا ہے۔‘‘
نکہت حیرت سے ان کے منہ کو تکنے لگی۔ تو غم آمیز مسکراہٹ سے بولے۔
’’تم نے اپنے خط میں کمرے کا جیسا نقشہ کھینچا تھا ویسا ہی پایا، یا نہیں۔
(کس قدر مہربان۔ کتنا شفیق کتنا اونچا ہے یہ انسان!)
نگہت نے گھبرا کر کہا۔ مگر جناب وہ میرا ایک ممکن خواب تھا۔ زندگی کی سب سے بڑی اور سب سے ناقابل حصول تمنا تھی۔ وہ۔ وہ۔۔۔
اسلم صاحب اسی لہجے میں بولے۔ ’’اب تمہارے خواب کی تعبیر تو تمہارے سامنے ہے ہی۔ کیا خدا کو اب بھی نا انصاف ہی کہوگی؟‘‘
یقیناً یہ کوئی انسان نہیں، دیوتا۔ بھلا انسان اس قدر رحم دل اتنے خلیق، اس قدر شفیق کیسے ہو سکتے ہیں۔ یہ شخص جو دیکھنے میں انسانوں جیسا ہی نظر آتا ہے اس کے سینے میں کس کا دل ہے؟ کل اس نے مجھے آپ کہہ کر پکارا۔ آج تم کہہ رہا ہے اور اس قدر پیار اور خلوص سے۔ کیا یہ حقیقت ہے یا سچ مچ میرا خواب ہی ہے۔ اس نے چونک کر اپنے بوس کو دیکھا۔
بوس۔۔۔ وہ کچھ کہنے ہی والی تھی کہ اسلم نے ہاتھ اٹھا کر اسے منع کر دیا۔
’’مجھے بوس نہ کہو۔ اس لفظ سے مجھے دکھ ہوتا ہے۔ ہم سب ایک ہی خدا کے پیدا کئے ہوئے انسان ہیں۔ کوئی چھوٹا نہیں کوئی بڑا نہیں۔ ہمارا بوس تو وہ ہے اور انھوں نے اپنی انگلی (جس مں ک بڑا سا پکھراج چمک رہا تھا) آسمان کی طرف اٹھائی۔ نگہت یونہی تصویر حیرت بنی کھڑی تھی۔ وہ سادگی سے بولے۔
’’میرا نام اسلم ہے۔‘‘
احسانوں کے بوجھ تلے دب کر نگہت خود اتنی بوجھل ہو گئی کہ قدم تک نہ اٹھا سکی بڑی مشکل سے اس نے ساری طاقت سمیٹ کر اپنے پیر بلائے اور دھیرے دھیرے کمرے سے باہر نکل گئی۔
جب وہ کمرے میں پہنچی تو اس کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔
اب اس نے مالکانہ احساس کے ساتھ پھر سے اپنے کمرے کا جائزہ لیا۔ اسے یہ دیکھ کر بری طرح حیرت ہو رہی تھی کہ ہر چیز بالکل ایسی ہی تھی جیسی کہ اس نے تصور میں سوچ رکھی تھی اور خط میں جس کا ذکر کیا تھا۔ اسلم صاحب نے صرف ایک دن میں یہ سب کچھ کیسے کر لیا۔ کیوں کر لیا۔ یہاں سچ مچ کے رنگین پردے تھے۔ روالونگ چیر تھی۔ اس کے ساتھ ٹیبل۔ کھڑکی باہر باغ میں کھلتی تھی اور کھڑکی سے لگ کر گلابوں کے پودے تھے۔ ہوا کے جھونکے نے خوشبوؤں کو اندر لوٹ دیا۔ اور نگہت پیچھے مڑ کر دیکھنے پر مجبور ہو گئی اپنے جسم کو گھما کر جب وہ پیچھے دیکھ رہی تھی تو سامنے والی دیوار میں اسے ایک لڑکی نظر آئی۔ اس لڑکی کو اس نے آج سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ لمبے سے قد، سانولی رنگت الجھے بھورے بالوں اور نمناک آنکھوں والی وہ لڑکی جو ایک ملگجی سی ساڑی میں ملبوس تھی اور حیرت سے آئینے کو تک رہی تھی۔ اس نے قریب جا کر اسے غور سے دیکھا اور پوچھا۔
’’یہ تم ہو نگہت بی بی۔ تم۔ اس محل میں تم رانی بن کر کیسے آ گئیں۔‘‘ ہوا کے جھونکوں سے اس کے بال اور کپڑے لہرا رہے تھے اس نے ہر ہر چیز کا جائزہ لیا اور پھر اپنے آپ کو دیکھا۔ اس کے کپڑے کس قدر برے تھے۔ ایسے کپڑوں کے ساتھ وہ کیوں کر اس شاندار مہروی پر قدم دھر سکتی تھی؟ مارے احساس کے اس کی آنکھوں میں آنسو امد آئے۔ اس نے اپنے اڑتے ہوئے بالوں کو اپنے پتلے پتلے ہاتھوں سے پیچھے کی طرف سمیٹا اور جوڑا باندھ کر آئینے کے سامنے بیٹھ گئی۔ اس کے تصور میں رنگین ساڑیاں لہرانے لگیں۔ اور پھر ایک ساڑی جو پوری سبز تھی اور جس پر بڑے بڑے کالے کالے پھول تھے، آئینے سے نکل کر اس کے گالوں کو چھونے لگی۔ اس نے گھبرا کر پیچھے دیکھا۔ اسلم صاحب کھڑے ہوئے تھے اور ذرا جھجک جھجک کر بول رہے تھے۔
’’نگہت تم یہ نہ سمجھنا کہ اس طرح میں نے تمہارے احساسات کو ٹھیس پہنچانی چاہی ہے، بلکہ تم سوچو کہ اب تم اس گھر کی ایک فردسی ہو۔ میرے کئی ملنے جلنے والے آئیں گے اور اگر وہ تمہیں ان کپڑوں دیکھیں گے تو یہ تمہاری ہی نہیں میری اپنی بھی بےعزتی ہوگی۔‘‘ وہ حسب عادت بالکل ہولے سے مسکرائے۔
’’یہ پیسے تمہاری تنخواہ سے کاٹ لئے جائیں گے۔‘‘ اور انہوں نے ایک بڑا سا بنڈل اس کی طرف بڑھا دیا۔ ’’اس میں کچھ کپڑے ہیں۔‘‘
نگہت بالکل بےدست و پا ہو گئی۔ اس نے تھوڑی دیر تک تو یونہی اسلم صاحب کو خالی خالی نگاہوں سے دیکھا۔ اور پھر بنڈل ایک طرف پھینک کر وہ اسلم صاحب سے چمٹ گئی۔ اسلم صاحب نے محبت سے اس کے سر پر تھپکیاں دیں اور وہ سسک سسک کر روتی رہی۔
’’آپ کتنے اچھے ہیں۔ آپ انسان نہیں دیوتا ہیں۔ آپ۔ آپ۔۔۔‘‘
اسلم صاحب نے جواب میں کچھ بھی نہیں کہا۔ بلکہ ایک بزرگانہ انداز سے اس کے سر پر ہاتھ رکھے رہے۔ جب نگہت کے دل کا غبار نکل گیا تو وہ سہم کر دور کھڑی ہو گئی۔ پھر بھی وہ نوکر تھی اور وہ اس کا آقا، یہ کسی حرکت اس سے سرزد ہوئی؟ اس نے سہم کر اسلم کو دیکھا، شائد وہ کچھ تنبیہ کریں۔ مگر وہ یونہی خاموشی سے چلے گئے۔ مگر ان کی آنکھوں میں آنسو کیوں چمک رہے ہیں!‘‘ اس نے بڑے دکھ سے سوچا۔
اب دل کا سارا غبار نکل چکا تھا اور وہ خود کو پر سکون محسوس کر رہی تھی۔ گلابوں کی خوشبو اس کے دل تک اتر چکی تھی۔ اس کا جوڑا ڈھلک کر کھل چکا تھا۔ آنکھیں جو اب تک بار بار بھر بھر کر آ رہی تھیں صاف شفاف ہو چکی تھیں۔ اس نے دھیرے سے بنڈل کھولا اور کپڑے دیکھنے لگی۔ چار چھ ساڑیاں تھیں اور اسی کے جوڑ کے بلاؤز۔ بھلا انھیں میرا ناپ بھی معلوم ہو گیا۔ اس نے حیرت سے کپڑے الٹ پلٹ کئے۔ یہ کپڑے کئی بار دکانوں پر لٹکتے دیکھ چکی تھی۔ جھل مل کرتے، باغ و بہار لباس، تیار شدہ کہ بس خریدو اور پہن لو۔ اس نے ہزاروں بار تمنا ضرور کی تھی مگر خرید کبھی نہ سکی تھی۔ آج مسرتوں کے دروازے اس پر کھل گئے تھے گویا الہ دین کا چراغ مل گیا تھا کہ سوچو وہ حاضر۔
اس نے ساتھ والا دروازہ کھولا اور اندر چلی گئی۔ اس نے بڑی معصومانہ حیرت سے دیکھا کہ حمام کے ٹائلز کس قدر صاف شفاف اور اجلے اجلے اور شاور ہاتھ ذرا چھیڑنے پر ہی برسات کی پھوار کا سا منظر پیش کرنے لگا۔ اس نے اپنا لباس اتار دیا اور شاور کے نیچے اپنے لمبے لمبے بال کھول کر کھڑی ہو گئی۔ بارش کی اولیں پھوار سے جیسے اس کا جسم بھیگ اٹھا اور وہ لہک لہک کر گنگنانے لگی۔
وہ اپنا بھیگا بھیگا جسم لئے آئینے کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ اس نے بڑی مسرت کے ساتھ وہ کپڑے پہنے۔ اپنے لمبے لمبے بالوں سے قطرہ قطرہ ٹپکتے پانی کو بڑی خوشی کسے ساتھ دیکھتی رہی اور جب وہ پوری طرح تیار ہو گئی تو اس نے ایک بار پھر آئینے میں اپنا جائزہ لیا۔ وہ بالکل بدل کر رہ گئی تھی۔
اب اس کے دل میں ایک عجیب سی تمنا جاگی کہ اسلم صاحب اسے اس لباس میں ضرور دیکھیں۔ لیکن وہ ان کے پاس جائے کیسے؟ بڑی دیر تک کوئی بہانہ سوچتی رہی۔ آخر اس نے ایک حل سوچ ہی لیا۔
’’اب آپ یہ بتا دیجئے کہ میرے ذمہ کیا کیا کام ہوں گے۔‘‘ بس میں یہی جا کر پوچھوں گی۔
وہ اسلم صاحب سے اجازت لے کر ان کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہ چڑ کر بولے۔
’’مجھے بار بار اجازت لے کر تمہارا آنا بالکل پسند نہیں۔‘‘
وہ گھبرا گئی۔ اس کا چہرہ اتر سا گیا۔ وہ بول رہے تھے۔
’’میں بھی آخر انسان ہوں غصہ مجھے بھی آتا ہے اور بڑی عجیب عجیب باتوں پر آتا ہے تم سے کس نے کہا ہے کہ جب آؤ تب اجازت لے کر ہی آؤ۔‘‘
نگہت نے سکون کا لمبا سانس لیا۔
’’میں یہ پوچھنے آئی تھی کہ میرے ذمے کیا کام ہوں گے!‘‘
اسلم صاحب نے اسے سر سے پیر تک غور سے دیکھا اور صاف سیدھے لہجے میں بولے۔
’’ہاں اب تم بہت اسمارٹ نظر آ رہی ہو۔ کپڑے پسند آئے؟‘‘
اس نے سر ہلا دیا۔ ’’اور کمرہ کیسا لگا؟‘‘
’’جی بہت اچھا۔‘‘
انھوں نے اطلاعاً کہا۔‘‘ ساتھ ہی ہاتھ روم بھی ہے۔‘‘
’’جی ہاں۔ وہ خوشی سے بولی۔ وہیں تو میں نے باتھ لیا ہے۔‘‘
اسلم صاحب نے گھنٹی بجائی اور نوکر آیا تو بولے۔
’’بچوں کو لے آؤ۔‘‘
تھوڑی دیر بعد اس کے سامنے تین بچے کھڑے تھے۔
’’یہ میری سب سے بڑی بیٹی سلمیٰ ہے۔‘‘ انھوں نے ایک دبلی پتلی اور لمبی سی گوری بچی سے نگہت کا تعارف کروایا۔ سلمیٰ نے سفید اسکرٹ پہن رکھا تھا۔ بال انگریزوں کی طرح کٹے ہوئے تھے۔ اور صورت سے بالکل انگریزہی لگتی تھی۔
’’یہ جونیر کیمرج میں پڑھتی ہے۔ چودہ سال کی ہے۔‘‘ پھر انھوں نے بیٹے سے متعارف کروایا۔‘‘ یہ میرا اکلوتا بیٹا ہے انوار۔ سیونتھ میں ہے اور پھر ایک چھوٹی سی بچی کا ہاتھ پکڑ کر بولے۔
’’اور یہ میری سب سے چھوٹی بٹیا نجمی ہے۔ فورتھ میں۔ بہت بھولی بھالی اور سادہ طبیعت۔ البتہ یہ انوار میاں تمہیں بہت دق کریں گے۔‘‘ وہ ہنس کر بولے۔
نگہت نے باری باری ان تینوں کو دیکھا۔ تینوں نے باپ کی طرف۔ گویا پوچھتے ہوں۔ ’’یہ کون ہے۔‘‘
اسلم صاحب بچوں سے کہہ رہے تھے۔ ’’دیکھو بچو! اب یہ تمہارے ساتھ ہی رہا کریں گی ان۔۔۔‘‘
ابھی اسلم صاحب کی بات منہ میں ہی تھی کہ انور پھٹ سے بول اٹھا۔
’’اچھا تو آپ نے ہمارے لئے جس گورنس کا اشتہار دیا تھا یہی ہیں وہ۔‘‘
’’اسلم صاحب نے اسے بری طرح گھڑکا۔ ایسی بدتمیزی کی بات نہیں کہا کرتے۔ یہ آنٹی ہیں تمہاری۔‘‘
نگہت نے ذرا سا مسکرا کر نجمی کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ نجمی نے اسے بھولپن سے دیکھا اور پھر شرما گئی۔
جب وہ چاروں کمرے سے باہر نکل رہے تھے تو اسلم صاحب نے نگہت سے کہا۔
’’نگہت آج سے یہ تینوں تمہاری نگرانی میں ہیں۔ تم ان سے جیسا چاہو ویسا سلوک کر سکتی ہو۔ یہ تمہارے ہی بچے ہیں!‘‘
’’یہ تمہارے ہی بچے ہیں۔‘‘
’’یہ تمہارے ہی بچے ہیں۔‘‘
’’یہ تمہارے ہی بچے ہیں۔‘‘
’’یہ تمہارے۔۔۔‘‘
نگہت نے سر گھما کر اسلم صاحب کو دیکھا جو بالکل بے تعلقی سے سر جھکائے اپنے کاغذات میں الجھ گئے تھے۔
نگہت نے الماری کھول کر اندر نظر ڈالی تو کپڑوں کا ایک انبار تھا۔ مگر بےحد بےترتیب۔ شلواریں، غرارے، اسکرٹ، کانونٹ یونی فارم۔ ساڑیاں۔ سب ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو رہے تھے اور زیورات کا بکس الک کھلا پڑا تھا۔ اس نے بری الجھن سے سر جھٹکا اور سلمیٰ سے بولی۔
’’سلمیٰ یہ کپڑے کس نے بےترتیب کئے ہیں۔‘‘
’’آیا نے۔‘‘ سلمیٰ بالوں میں کنگھا پھیرتی ہوئی بولی۔
’’عجیب واہیات آیا ہے۔‘‘
سلمیٰ اسٹول پر سے اٹھ کر نگہت کے قریب آئی اور بولی۔ ’’آنتی اسی لئے تو ڈیڈی نے ایک گورنس کی ضرورت محسوس کی ابھی تو آپ گھر کے دوسرے کمروں میں جا کر دیکھئے تب پتہ چلےگا کہ کس طرح افرا تفری مچی ہے۔
نگہت نے ذرا ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’اور تمہاری ممی کیا کرتی رہتی ہیں پھر؟‘‘
’’سلمیٰ تھوڑی دیر تو بالکل چپ رہی پھر بولی۔ ’’ممی۔ ممی کو مرے تو سال سے بھی زیادہ ہو گیا۔
’’اوہ۔‘‘ وہ شرمندگی سے بولی۔ ’’اف کتنی بڑی ٹریجدی، تھوری دیر کی خاموشی کے بعد وہ بولی۔ تبھی ڈیڈی اس قدر خاموش اور بے زار بے زار سے رہتے ہیں نا!‘‘
سلمیٰ نے گویا الفاظ ڈھونڈنے کی کوشش کی اور پھر بڑی صاف دلی سے بولی۔
’’نہیں یہ بات تو نہیں ہے۔ دراصل ممی اور ڈیڈی کی کبھی بنی ہی نہیں۔‘‘
’’ہائے۔ وہ کیوں۔‘‘ نگہت بے تابی سے پوچھ بیٹھی۔
’’بس یونہی ممی ذرا تیز مزاج تھیں نا۔ اسی لئے۔ اور وہ بھی گھر کے کام کاج میں زیادہ دخل نہ دیتی تھیں۔ سار اکام نوکر ہی سنبھالے رہتے تھے۔ یہ ضرور ہے کہ گھر کی مالکہ کی موجودگی کے احساس کو وہ کبھی اپنے دل سے نہ ہٹا سکتے اور یوں زیادہ مستعد رہتے مگر ادھر جب سے ان کی ڈیتھ ہوئی ہے۔ یہ سب لوگ بالکل نکمے ہو گئے ہیں۔
مائیں غیرذمہ دار ہوں تو بیٹیا ں آپ ہی آپ ذمہ دار اور سمجھدار ہو جاتی ہیں۔ یوں تو ایک لڑکی کے لئے چودہ سال کی عمر ایسی کم نہیں ہوتی، تب بھی یہ سلمی کتنی سمجھدار ہے۔
’’تم انھیں ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتیں۔‘‘ وہ سوچتے سوچتے بول پڑی۔‘‘ ’’آپ سے ایک بات بتاؤں آنٹی۔‘‘ وہ بڑے سیدھے لہجے میں بولی۔ ’’ممی اس قدر تیز مزاج تھیں، دن بھر اس قدر الجھی رہتی تھیں کہ اس تیزی تندی سے مجھے خود بخود چڑ سی ہو گئی۔ اب کوئی کچھ بھی کرے مجھے زبان ہلانا بار ہوتا ہے۔ ویسے اپنے طور پر میں خود ہی اپنا کام کر لیتے کی کوشش کر لیتی ہوں مگر آنٹی آپ جانیں ماحول کا بھی تو ہاتھ ہوتا ہے؟‘‘ نگہت اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی اور وہ کہے جا رہی تھی۔ ’’ہمارے یہاں تو بچپن ہی سے ایسا ماحول ہے کہ جو کریں نوکر کریں۔ پھر بھی میری یہ ذمہ داری اور سگھڑاپے کو یہ انوار گدھا الٹ پلٹ کر کے رکھ دیتا ہے اور پھریہ آیا تو سب سے بڑھ کر ہے اگر کبھی یہ کہوں کہ نیلی اسکرٹ نکال لا، تو جب تک ساری الماری کو تہ و بالا نہ کر ڈالے تب تک اسے اسکرٹ نہیں مل سکتی۔‘‘
نگہت نے کچھ نہ کہا۔ یہ بچی ماں کی محبت کی ٹوٹی ہوئی۔ کس قدر عقل مند۔ سمجھدار اور ذمہ دار تھی۔ اس نے سلمیٰ کے دبلے پتلے اور قدرے لمبے جسم کو دیکھا اور بولی، ’’اب تو آنٹی آ گئی ہیں۔‘‘ اور مسکرانے لگی۔ نگہت بھی مسکرا دی اور پھر سے الماری پر جت گئی۔
’’آج کیا پہنوگی۔‘‘ نگہت نے مڑ کر پوچھا۔
’’آج تو سٹر ڈے ہے۔ یونی فارم کی قید نہیں۔ ساڑی باندھ لوں گی۔‘‘
نگہت نے پنک کلر کی ساڑی اور ویسا بلاوز نکال کر میز پر رکھا اور پیچھے کھڑی ہو کر سلمیٰ کے فراک کے ہک کھولنے لگی۔
’’کیا کر رہی ہیں آپ۔‘‘ سلمیٰ ایک دم مڑ کر بولی۔
’’نگہت حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔‘‘ کپڑے نہ پہنوگی۔
’’ہائے مجھے شرم لگتی ہے۔ میں آپ ہی بدل لوں گی۔‘‘ اس نے گلابی ہو کر کہا۔
نگہت نے غور سے سلمیٰ کو دیکھا۔ اس کے گلابی پڑتے ہوئے گالوں کو اس کے سراپے کو۔ اور پھر اس نے سوچا کہ عورت بیدار ہو رہی ہے۔
اس نے پھر ایک لفظ بھی نہ کہا اور ذرا ذرا مسکراتی ہوئی کمرے سے نکل آئی۔
تینوں بھائی بہنوں کے کمرے ایک ساتھ لگے ہوئے تھے۔ کوٹھی اس قدر بڑی اور کشادہ تھی کہ اگر بیک وقت سو آدمی بھی اس میں آ کر رہ جاتے تو کسی قسم کی اڑچن یا شور شرابہ نہ ہوتا۔ نگہت حیرت سے ادھر ادھر دیکھتی انوار کے کمرے میں داخل ہو گئی۔ انوار کا کمرہ بھی سلمیٰ کے کمرے سے مختلف نہ تھا۔ وہی بےترتیبی وہی افراتفری اور یہاں تو ڈھیر سارا الم غلم بھی بھرا پڑا تھا۔ کرکٹ، بیٹ، وکٹ پنگ پانگ کی گیندیں۔ بیڈ منٹن نیٹ، ہاکی، فٹ بال، نگہت نے گھبرا کر سارے اٹمبر کو دیکھا، پھر خود ہی ہنس پڑی۔
اس نے جھک جھٹک کر ایک ایک چیز اٹھانی شروع کر دی۔ انوار بڑی دیر سے جوتوں کے بند باندھتا بیٹھا تھا، نگہت کی طرف اس کی پیٹھ تھی۔ اس نے نگہت کی آمد کو محسوس ہی نہ کیا تھا پٹکنے، جھٹکنے کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ مڑا، اور وہیں سے بیٹھے بیٹھے شرارت سے چیخ کر بولا۔
’’ارے مس نگہت ایسا غضب بھی نہ کیجئے۔‘‘
ابھی آگے جانے وہ کیا کہتا کہ ہلکی سی، رپ، رپ کی آواز کے ساتھ اسلم صاحب اس کے کمرے میں آ گئے۔ اور بغیر نگہت کا نوٹس لئے وہ تیزی سے بولے۔
’’مس نگہت نہیں۔ آنٹی۔‘‘ اور جی آئے تھے ویسے ہی چلے گئے نگہت نے جلدی سے ان کے پیچھے پیچھے باہر جا کر دیکھا تو باغ کو ہوتے ہوئے اپنے کمرے کو جا رہے تھے۔ نگہت اندر آئی تو انوار سراسیمہ سا بیٹھا تھا۔
’’بھول ہو گئی۔‘‘ وہ ندامت سے بولا۔
’’کوئی بات نہیں۔ آپ لوگ تو میرے آقا ہیں۔‘‘
انوار نے اس کے لہجے کی آزردگی کو بھانپ لیا اور اٹھ کر اس کے قریب آ کر بولا۔
’’آنٹی آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں نا۔‘‘
نگہت نے اس کے دونوں ہاتھ اٹھا کر اپنے گلے میں ڈال لئے۔ اور وہ اپنی بانہوں کے سہارے اس کی گردن سے جھول گیا۔
نجمی سب سے خاموش، بھولی اور الگ تھلگ رہنے والی بچی تھی۔ جب نگہت نے اس کے کپڑے بدلوانے اور کنگھی کر کے اونچی سی پونی ٹیل باندھدی تو وہ مارے خوشی کے اس سے لپٹ پڑی۔
’’آنتی آپ کتنی پیار ی ہیں۔ سوسویٹ۔‘‘
تینوں تیار ہو گئے تو وہ ان کے ساتھ باہر پورچ میں نکل آئی۔ شوفر نے گاڑی (لمبی سی گاڑی۔ ایسی انہونی تمنا جس کا خواب بھی نگہت کے بس کا روگ نہیں تھا، پورٹیکو میں لاکر کھڑی کر دی اور وہ تینوں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر ان کے ساتھ کا نونٹ چل دی انوار کو دوسرے کا نونٹ میں چھوڑا۔ اور دونوں لڑکیوں کو الگ الگ کا نونٹ میں چھوڑ کر پھر وہ گاڑی میں آ بیٹھی۔ اب گاڑی میں کوئی نہ تھا۔ آگے شوفر پیچھے وہ، اس نے شیشے گرا کر دروازے سے کہنی ٹکا دی۔ بڑی معصوم نگاہوں سے وہ دروازے کو دیکھنے لگی۔ گاڑی بالکل نئی تھی اور خوب تیز اڑی جا رہی تھی۔ ابھی کسی چیز پر اس کی نگاہ ٹکتی بھی نہ تھی کہ گاڑی آگے نکل جاتی۔ اسے یہ سب کچھ اتنا اچھا لگ رہا تھا۔ مگر یہ ننھا سا وسوسہ اس کے دل کو کچوکے دئے جا رہا تھا کہ کہیں اس سے یہ جنت چھن تو نہ جائےگی؟
موٹریور ٹیکو میں آ کر ٹھرئی تو اسے پتہ بھی نہ چلا کہ کوٹھی آ گئی ہے۔
شوفر نے پٹ کھول کر کہا۔
’’اترئیے میم صاحب۔‘‘ وہ بری طرح چونکی اور ساڑی کا پلو سنبھالتی ہوئی نیچے اتر آئی۔
بچوں کو کانونٹ چھوڑ آنے کے بعد وہ پھر سے ان کے کمروں میں پہنچ گئی۔ ہر ہر چیز ٹھاؤں ٹھکاؤں پر رکھی نوکر کو بلوا کر گرد صاف کرائی۔ میزیں، کرسیاں جھاڑن سے صاف کروائیں۔ میلے کچیلے کپڑے دھوبی کو دلوائے۔ صاف کپڑے ترتیب سے جمائے۔ اسے کام کرتے ذرا بھی تکان محسوس نہ ہو رہی تھی۔ بلکہ اس کا جی یہ چاہ رہا تھا کہ کام اور بڑھتا ہی جائے اور وہ مصروف ہی رہے۔ عمر بھر۔ ہر لمحہ۔ ہر وقت۔
کمرے صاف ہو گئے تو وہ پھر بیکار ہو گئی۔ بیکاری بھی کس قدر خوشگوار تھی، وہ اٹھی اور کوٹھی دیکھنے کی خاطر ادھر ادھر گھومنے لگی۔
نگہت نے اپنی زندگی میں فلمیں بہت کم دیکھی تھیں۔ مگر جو کچھ بھی دیکھتی تھیں ان کی، شان و شوکت اسلم صاحب کی کوٹھی سے بڑھ کر ہر گز نہ تھی۔ آخر اسلم صاحب کرتے کیا ہیں کہ اس قدر امیر ہیں اور بڑی بات یہ ہے کہ امیر ہونے کے باوجود، غرور اکڑ نام کو نہیں۔ کس قدر میٹھے سبھاؤ میں بات کرتے ہیں۔ چلتے چلتے نگہت رکی۔ اس لمحہ وہ باغ میں سے گزر رہی تھی کہ ناگہاں اس کی نظر گلاب کے ایک گملے پر جا پڑی گملا اس قدر گندا ہو رہا تھا۔ اف پتیاں ااس میں ٹوٹ گری تھیں اور کچرا پھولوں کی خوبصورتی کے لئے داغ ثابت ہو رہا تھا۔ یہ پھول تو یقیناًبدیسی ہو سکتے ہیں۔ گہرے زرد اور اس قدر بڑے بڑے کہ اگر میں اپنی دونوں ہتھیلیاں جوڑوں تو بھی ان میں ایک پھول نہ سما سکے۔
وہ پتیاں چنتی ہی بیٹھی تھی کہ ادھر سے اسلم صاحب کسی کام سے آنکلے۔ وہ رک گئے ان کے چہرے سے ترشی مترشح تھی۔
’’نگہت۔‘‘ وہ تیزی سے کہہ کر رک گئے۔
’’جی۔‘‘ وہ گھبرا کر پلٹی اور ہاتھ بھٹکتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’یہاں کیا کر رہی ہو تم۔‘‘
’’جی کچھ بھی تو نہیں۔‘‘
اسلم صاحب نے کچھ نہ کہا۔ بس اتنا کہہ کر چلے گئے۔
تمہیں بچوں کے کام کے لئے رکھا۔ نوکر نہیں بنایا ہے کہ گھر بھر کو سمیٹتی پھرو۔
نگہت ان کے، نگاہوں سے اوجھل ہوئے تک یونہی کھڑی رہی۔ پھر ہنستی ہوئی گملے پر جھک گئی۔ ایک دو گھنٹے میں اس نے تمام گملے صاف کر دئیے۔ جاتے جاتے مالی کو تھوڑی سی تنبیہ کرتی گئی کہ سرکار نے اتنے پیار ے پیارے قیمتی پھول یوں برباد کرنے کے لئے تو نہ منگوائے ہوں گے۔
اب ایک بج رہا تھا۔ وہ بالک بیکار تھی۔ بچوں کے آنے کا وقت قریب ہو رہا تھا۔ وہ ڈائینگ ہال میں جا پہنچی۔ صبح تو ناشتے کے وقت بچوں نے اسے کچھ کرنے کی مہلت ہی نہ دی تھی۔ ٹوسٹ اور مکھن کھا کر یونہی اٹھ کھڑے ہوئے تھے او راسلم صاحب، ان کی تو اس نے کچھ خبر ہی نہ لی تھی۔ جانے کیا کھایا ہوگا۔ ہیرا یہ بتا رہا تھا کہ صاحب بیڈٹی لینے کے بعد بالکل ہلکا ناشتہ کرتے ہیں۔ وہ اس خیال کے آتے ہی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسلم صاحب کے کمرے میں جا پہنچی۔ یہ ان کا لونگ روم تھا۔ باہر والا کمرہ جہاں انھوں نے نگہت کو پہلی بار وزٹ کیا تھا ان کے آفس کا بھی کام دیتا تھا اور ملنے جلنے والے وہیں آ کر ملتے جلتے تھے۔ وہ کمرے میں پہنچی تو اسے دیہ دیکھ کر ذرا بھی حیرت نہ ہوئی کہ ان کا اپنا کمرہ بھی بچوں کے کمروں کا کاربن تھا۔ اسے حیرت ہوئی کہ اتنے ڈھیر سارے نوکر کس کام کے ہیں۔ جب کہ ہر ہر چیز سلیقہ طلب ہے۔ امی سچ ہی تو کہتی ہیں کہ گھرکی مالکن کے بغیر گھر گھر نہیں کا نجی ہاؤس ہو جاتا ہے۔
اس نے وہ ہی کاروائی شروع کر دی۔ واہ یہ کوٹ تو دیکھو۔ بجائے ہنگر کے یونہی شولڈر کے سہارے کیل سے لٹک رہا ہے۔ اف کتنی شکنیں پڑ گئی ہیں۔ اس نے کوٹ اٹھا کر الٹ پلٹ کر دیکھا اور زور سے جھٹکا۔ ایک تصویر نکل کر نیچے گر پڑی۔ نگہت نے جلدی سے تصویر اٹھا لی۔ اب وہ دونوں ہاتھوں میں تصویر تھامے بڑے غور سے دیکھ رہی تھی۔ ہو بہو سلمیٰ۔ اونہوں۔ اس نے پھر سے تصویر دیکھنی شروع کی۔
اب اس نے دیکھے کہ تصویر کے نقوش بالک اسلم ایسے ہیں۔ آنکھیں، ناک، بال مسکراہٹ کا انداز۔ اس نے سرکو زور سے جھٹکا دیا۔ یہ ہر بار آنکھوں کے آگے اسلم صاحب کیوں ابھر رہے ہیں۔ میں ان کی مسز کی تصویر میں بھی انہی کے نقوش تلاش کر رہی ہوں۔ پش۔
اس نے ہر قسم کے خیالات کو جھٹک کر پھر سے تصویر دیکھنی شروع کی۔ یہ تصویر کسی کی بھی ہو سلمیٰ سے حد درجہ مشابہت رکھتی تھی۔ یقیناً یہ مسز اسلم رہی ہوں گی۔ اس نے بری احتیاط سے تصویر پلو سے صاف کی اور اسے یونہی کوٹ کی جیب میں رکھ دیا۔ ابھی وہ کوٹ ہینگر سے لگا ہی رہی تھی کہ کسی کام سے اسلم صاحب اندر چلے آئے وہ بری طرح سراسیمہ ہو گئی۔ اسلم صاحب بھی کچھ پریشان سے ہو گئے اس کے ہاتھ میں کوٹ دیکھ کر مسکرا دئیے۔ اور اس کے بہت قریب آکر بولے۔
’’مگر میں تو بچہ نہیں ہوں نگہت۔‘‘
نگہت نے اپنا پورا چہر اٹھا کر پوری ہمت کے ساتھ ان کے چہرے کو دیکھا اور بولی۔
’’مرد تو فطرتاً بچہ ہی ہوتا ہے۔‘‘
’’اسے بھی دیکھ بھال کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی ایک بچے کو۔ آپ نے کبھی اپنے کمرے اور اپنے بچوں کے کمروں میں کوئی فرق بھی محسوس کی ہے؟‘‘ وہ صاف دلی سے ہنس رہی تھی۔ اسلم صاحب ذرا جھینپ کر بولے۔
’’ہاں۔ اف۔ وہ تو ہے مگر نوکر جو ہیں۔‘‘
نگہت جھلا گئی۔ جسے دیکھو وہی نوکر نوکر کی رٹ لگائے ہے۔ الجھ کر بولی۔ ’’حد ہے۔ بھلا نوکر بھی کوئی کام گت سے کرتے ہیں۔‘‘ پھر اس نے صبح سے لے کر اب تک کے کاموں کی ساری رپورٹ دے ڈالی۔ آخر میں وہ بولی۔
’’مجھے تو اب بھی یقین نہیں آرہا ہے کہ مے ھآ واقعی ایک ایسی نوکری مل گئی ہے کہ میں رانی جیسی ہو گئی ہوں۔ بھلا دو سو روپے اس زمانے میں کم ہوتے ہیں۔ کئی جگہ درخواستیں دے دے کر ہار گئی تھی۔ اب تک مجھے اپنے نصیب پر، اپنی اس زندگی پر یقین نہیں آ رہا ہے۔‘‘ اس نے کھلی کھلی آنکھوں سے اسلم صاحب کو دیکھا اور لجاجت سے بولی۔
’’دیکھئے آپ مجھے کسی کام سے نہ روکا کریں، ورنہ میں احساس ندامت سے گھٹ کر مرجاؤں گی۔‘‘
’’تم عجیب و غریب قسم کی لڑکی ہو نگہت۔‘‘ وہ تنک کر بولے۔‘‘ میں تمہیں اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا۔
تم نوکروں سے کام ضرور لے سکتی ہو مگر خود نوکر بن کر نہیں رہ سکتیں۔!
’’تم نوکر بن کر نہیں رہ سکتیں۔‘‘
’’تم نوکر بن کر نہیں۔۔۔‘‘
’’تم۔ تم۔۔۔‘‘
اسلم صاحب غصہ ہو کر چلے گئے تھے اور وہ خوشی اور غم کے ملے جلے احساسات تلے دب کر اتنی بے بس ہو گئی تھی کہ اپنا وزن آپ سنبھال بھی نہ سکی اور دھم سے صوفے پر گر پڑی۔
دوپہر کو کھانے پر ایک عجیب و غریب حادثے نے جنم لیا۔ اسلم صاحب نے آج تک کھانے کی میز پر کسی کو نہ بلایا تھا۔ بس تینوں بچے اور وہ خود۔ آج جب میز لگ گئی تو انھوں نے بیرے سے کہا۔
’’جا کر میم صاحب کو بلا لاؤ۔‘‘
بیرے نے پہلے تو حیرت سے انھیں دیکھا اور پھر چل دیا۔ نگہت ڈری ڈری آئی اور ان کے بازو آکر کھڑی ہو گئی۔
’’آپ نے مجھے بلایا؟‘‘
’’کیوں کھانا کھانے کا ارادہ نہیں ہے۔‘‘ وہ سنجیدگی سے بولے۔
ان کی اتنی بھرپور سنجیدگی سے نگہت خواہ مخواہ ڈرسی گئی۔ جانے کیوں ایک شکایت اس کے ہونٹوں سے پھسل پڑی۔
’’پھر ناشتے پر بھی بلایا ہوتا مجھے۔‘‘
اسلم صاحب نے کچھ حیرت سے کچھ محبت سے اس کی طرف دیکھا اور پھر ہنس کر بولے۔ ’’آج میں نے ناشتہ کیا ہی نہیں۔‘‘
نگہت اس بری طرح شرمندہ ہوئی کہ اس کی ناک پر مارے ندامت کے پسینہ آ گیا۔ اس کے پیر کانپنے لگے۔ اسی دم سلمیٰ نے اپنے بازو کی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’آنٹی آپ یہاں آ جائیے۔‘‘
انور شرارت سے بولا۔ ’’آنٹی گیسٹ آف آنر ہیں اس لئے ان کو ٹیبل ہیڈ پر جگہ ملتی چاہئیے۔‘‘
اتنے میں نجیے اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور کہہ رہی تھی۔
’’آنٹی سچ آپ یہاں بیٹھ جائیے۔ پلیز۔‘‘
نگہت کچھ نہ بول سکی اور جاکر سرے پر بیٹھ گئی۔
اس کے سیدھے ہاتھ پر سلمیٰ تھی اور بائیں ہاتھ پر اسلم صاحب کی چئر۔ نوالے اس کے حلق میں پھنستے رہے۔ وہ کوشش کر کے نوالہ نگل بھی لیتی تو حلق میں، کوئی چیز پھنسی پھنسی محسوس ہوتی۔
اسے حلق میں کوئی چیز پھنسی محسوس ہو رہی تھی۔
اسی دم شانو آکر بولی۔
’’آنٹی میں نے ڈاکٹر صاحب کو فون کر دیا ہے۔‘‘
بیٹی کی آواز پر اسلم صاحب نے ذرا سی آنکھیں کھولیں تو سامنے نگہت کو بیٹھا پایا۔
’’اب آپ کی طبیعت کیسی ہے۔‘‘ نگہت نے بےتابی سے پوچھا۔
’’اچھا ہی ہوں۔ وہ ذرا اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے بولے۔
’’کیا میں سو گیا تھا؟ مجھے اتنا تو یاد ہے کہ تم کمرے میں داخل ہو رہی تھیں، اس کے بعد آنکھ لگ گئی شائد۔‘‘
نگہت جانتی تھی کہ اسلم صاحب یہ بالکل پسند نہیں کرتے کہ وہ ان کی ذرا بھی دیکھ بھال کرے۔ ایک طرف ان کے غصے کا خیال اور ایک طرف خود اپنے دل کا خیال۔ اس کا دل عجب کشمکش میں گرفتار تھا۔ وہ اپنے محسن کا خیال کیسے نہ کرے جس نے اسے زندگی اور زندگی کی ہر نعمت بخش دی تھی۔ وہ زیادہ سے زیادہ ڈانٹ ہی دیں گے نا؟ اپنے محسن کی ایک آدھ بات سن لینا ایسا کیا برا ہے۔
وہ دھیرے سے اٹھ کر ان کے پلنگ تک پہنچ گئی اور سرہانے بیٹھ کر سر دبانے لگی۔
اسلم صاحب نے ناگواری سے اسے دیکھا۔ مگر پھر درد کی شدت کے سامنے بے بس ہو کر آنکھیں موند لیں۔ اس کی آنکھیں آپ ہی آپ بھر آئیں۔ آنسو چھلکنے کو بےقرار ہو رہے تھے۔
وہ کھانا کھا کر میز پر سے اٹھی تو اس کی آنکھیں بھری ہوئی تھیں، وہ کیسے احسانوں کو بھولےگی۔ اسے ایک غم یہ گھیرنے لگا کر احسانوں کے بوجھ تلے وہ دب کر دم ہی نہ چھوڑ دے۔
بہت سارے دن گزر گئے۔
جب پہلی تاریخ آئی تو اسلم صاحب نے دو نوٹ اس کی ہتھیلی میں ٹھونس دئیے۔ نگہت نے تعجب سے انھیں دیکھا۔
’’آپ نے کہا تھا کپڑوں کے پیسے تنخواہ پر کاٹ لیں گے۔‘‘
’’ہاں کہا تو تھا۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’یہ تو نہیں کہا تھا کہ پہلی تنخواہ پر کاٹ لیں گے۔ ابھی تو عمر پڑی ہے۔‘‘
’’یہاں آکر تو اس کی زبان ہی جیسے کسی نے چھین لی تھی۔ کوئی بات ہی نہ سوجھتی۔ آج بھی وہ خاموش رہ گئی۔ اس کی امی کتنی خوشی ہوئی تھیں۔ اس نے اسلم صاحب کی کس قدر تعریفیں کر ڈالیں ان کی زندگی سے متعلق ہر ہر چھوٹی بڑی بات امی کو سنا ڈالی۔‘‘ اک دم امی چونک کر بولیں۔
’’ان کی بیوی مر چکی ہیں؟‘‘
’’جی ہاں۔ پھر؟‘‘ وہ حیرت سے پوچھ رہی تھی۔ اس میں بھلا ایسی کون چونک جانے ایسی بات تھی۔
بڑی دیر تک امی خاموش ہی رہیں۔ پھر بولیں۔
’’زمانہ برا ہے بیٹی۔ ہر انسان کے ساتھ شیطان لگا ہوا ہے۔‘‘
وہ اتنی نادان تو نہیں تھی۔ امی کی بات اس کے دل میں جا کر چھل گئی۔ بھلا اس قدر دیوتا صفت آدمی اور اس کے تعلق سے ایسی رکیک بات سوچی جائے؟
مارے غم اور غصے کے اس نے امی سے کچھ بھی نہ کہا۔ مہینے کے مہینے تنخواہ دینے، ایک دن کی چھٹی کی بات طے کی گئی تھی۔ آج پہلے ہی مہینے امی نے کیسی عجیب بات سنا ڈالی۔ اگر وہ ایسے ویسے آدمی ہوتے تو ایک مہینہ تو خیر لمبی مدت ہے۔ ایک دن میں ہی شیطانی حرکت کر سکتے تھے۔ مگر امی کو کون سمجھائے دن بھر اپنے چھوٹے سے بےرنگ کمرے میں اکیلی پڑی رہی۔
دوسرے دن بھی وہ یونہی پڑی رہی۔ شام کو جب گلی میں سناٹا چھا رہا تھا۔ موٹر کے تیز ہارن کی آواز گونجی اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ یہ آواز نگہت کی جانی پہچانی تھی۔ اسلم صاحب کا دھیمے دھیمے انداز سے دروازہ پیٹنا۔ کئی بار جب وہ دروازہ بند کئے لیٹی رہتی تو بجائے نوکروں یا بچوں کو خود اسلم صاحب اسے کھانا کھانے کے لئے بلاتے ایسے میں آکر وہ ہلکے ہاتھ سے دستک دیتے وہ سمجھ جاتی۔ اس نے دروازہ کھولا اور اسلم صاحب بغیر کسی تکلف کے اندر چلے آئے۔ اس نے اتنی صاف دلی سے نہ آنے کی وجہ تبادی۔ اس کا سارا غصہ اپنی امی پر تھا۔ اسلم صاحب کس قدر دیوتا صفت آدمی تھے۔ ذرا تو نہ چڑے۔ بلکہ الٹا اس کی امی کی ہاں میں ہاں ملانے لگے کہ آپ ٹھیک سوچتی ہیں، زمانہ ہی ایسا ہے۔‘‘
پھر انھوں نے دبی زبان سے یہ کہا کہ آکر وہ خود بھی کیوں نہیں نگہت کے ساتھ رہنے آ جاتیں۔ وہ تھیں سید صاحب کی بیوی۔ ان کی غیرت کہاں برادشت کر پاتی۔ ویسے وہ اسلم صاحب کے اخلاق سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ پھر کبھی تو ان کے بارے میں کچھ نہ کہا۔
وہ کار میں بیٹھ کر ان کے ساتھ کوٹھی چلی آئی اور دن پھر اسی انداز سے بہار بن کر گزرنے لگے۔
ایک دن اسلم صاحب یہ دیکھ کر حرکان رہ گئے کہ نگہت تینوں بچوں کو بڑے عجیب انداز سے سمجھا رہی تھی۔
’’بچو! تمہیں معلوم ہے ڈیڈی اتنے امیر کیوں ہیں؟‘‘
بچوں نے کوئی معقول جواب نہیں دیا تو وہ بولی۔ تمہارے ڈیڈی کبھی اللہ کو نہیں بھولتے نا۔ اس لئے۔ بھلا بتاؤ تو تم میں سے کسی نے کبھی ڈیڈی کی طرح نماز پڑھی ہے۔ یا خدا کا شکر ادا کیا ہے؟‘‘
بچے شرمندگی سے سر ہلانے لگے، تو وہ بولی۔ آخر تمہیں اور کسی سے نہیں تو ڈیڈی سے ہی کچھ سیکھنا چاہیئے۔ تہدیدی انداز میں انگلی اٹھا کر بولی، آج تک میں نے کسی کو مارا نہیں ہے لیکن اگر کسی نے نماز قضا کی تو اسے بید سے ماروں گی۔‘‘
بچے یہ محبت بھری دھونس سن کر ہنسنے لگے۔ ساتھ ہی نگہت بھی ہنسنے لگی۔
اور پھر انھوں نے دیکھا کہ ان کے کمرے سے ملا ہوا ان کا اپنا نماز کا کمرہ تھا وہاں اب دن میں دو تین بار بچے نماز ادا کرتے دکھائی دیتے۔ نگہت خوشبودار اگربتیاں سلگا کر اگر دان میں رکھ دیتی اور کمرہ عجیب مقدس خوشبو سے مہکتا رہتا۔
اسلم صاحب بڑی خوشی سے یہ سب کچھ دیکھا کرتے اور سوچتے کہ انھوں نے نگہت کو رکھ کر کتنا اچھا کام کیا ہے۔ نگہت جو بہت اچھی اور بہت شریف لڑکی تھی۔ جو بڑے معصوم انداز سے انھیں دیکھا کرتی تھی۔ اور خدا کے سامنے اپنے گناہوں کا بالکل بچوں کے سے انداز میں اعتراف کرتی۔
اس دن کام سے بور ہو کر وہ روالونگ چیئر پر آدھے لیٹے آدھے بیٹھے کوئی ناول دیکھ رہے تھے۔ یونہی پڑھتے پڑھتے انھوں نے کرسی گھمائی تو ان کی نگاہیں سامنے اٹھ گئیں۔ نگہت خوشبودار دھوئیں میں گھری بڑی عاجزی سے کہہ رہی تھی۔
’’خداوندعالم۔۔۔ میں اپنا یہ گناہ کبھی نہ بھولوں گی۔ آج میری وجہ سے کسی معصوم کے آنسو بہے ہیں۔ تو مجھے معاف کر دیگانا؟‘‘
شاید اس نے نجمی کو ڈانٹا ہوگا اور وہ ضرور روئی ہوگی۔ تبھی تو۔
اسلم صاحب کو سچ مچ ہنسی آ گئی جب وہ کمرے سے نکل کر جانے لگی تو انھوں نے اسے بلا کر پوچھا۔
’’تم خدا سے باتیں بھی کرتی ہو؟‘‘
وہ معصوم لہجے میں بولی۔ ’’جب کبھی میں اپنے دل پر بوجھ سا محسوس کرتی ہوں۔ خدا کے سامنے سر جھکا کر سب کچھ کہہ ڈالتی ہوں۔ میرے دل کو بڑا سکون مل جاتا ہے۔‘‘
وہ ہنسنے لگے۔ کس نے سکھایا تمہیں اس طرح بوجھ ہلکا کرنا۔ وہ آنکھ جھپکا کر بولی۔
’’کسی نے بھی نہیں۔ دراصل مجے س یوں لگتا ہے کہ خدا اس طرح ہماری بات سن لیتا ہے۔‘‘
اور پھر کیا ہوتا ہے؟
وہ کچھ دیر یونہی ساڑی کا پلو انگلی پر لیٹتی رہی پھر بولی۔
اگر ایسا نہ کروں تو شائد دل پھٹ کر رہ جائے۔‘‘ اس نے ایک اچٹتی نگاہ سے دیکھا اور کمرے سے باہر چلی گئی۔
اب نگہت کوٹھی کے ماحول سے، اس گھر کے باسیوں سے، ان کے عادات و اطوار سے اس قدر واقف ہو چکی تھی کہ گھر کی فردبن کر رہ گئی تھی۔ اسے ہر ہر بات معلوم ہو چکی تھی۔ ہر پروگرام اسی کی مرضی سے بنتا۔ اب خود وہ محسوس کرنے لگی تھی کہ اس گھر کا سب سے اہم فرد وہی ہے۔ ایک دن اس بات پر اس نے اپنے آپ میں بہت دیر تک حیرت کی کہ آخر اس کے بغیر اب تک کوٹھی والے زندہ کیسے تھے۔
مان باپ کو اپنی پہلی اولاد سے بے پناہ محبت ہوتی ہے۔ اسلم صاحب بھی سلمیٰ کے دیوانے تھے۔ یوں وہ ایک سنجیدہ مزاج رکھتے تھے مگر ان کے چہرے پر ہنسی اسی وقت آتی تھی جب وہ بچوں کے ساتھ یا سلمیٰ کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔ (یا پھر آ جا کے ان کی مسکراہٹ کا رار نگہت تھی)
ادھر نگہت کی مسلسل دیکھ ریکھ نے بچوں کو بدل کر رکھ یا تھا۔ سلمیٰ جو ایک اونچی سی دبلی پتلی لڑکی تھی اب ایک دم ایک تندرست جوان لڑکی میں تبدیل ہو چکی تھی۔ غیرمحسوس طریقے پر وہ اتنی بڑی ہو گئی تھی کہ ایک بار دل ہی دل میں اسلم صاحب نے یہاں تک سوچ لیا کہ اب اس کی شادی کر دینی چاہئے۔
اسلم صاحب نے جب نگہت کے سامنے یہ سوال ڈالا تو نگہت پہلے تو خوب زور سے ہنسی۔ پھر اک دم سنجیدہ ہو گئی۔ سلمیٰ کی عمر صرف پندرہ سال کی تھی۔ جب کہ وہ خود اکیسویں میں تھی۔ کیا اسے خود بھی ایک ساتھی کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلم صاحب نے اس سے ہنس دینے کے بارے میں پوچھا تو وہ بولی۔
’’ابھی سے۔ اتنی چھوٹی تو ہے سلمیٰ۔‘‘
’’لڑکیاں کبھی چھوٹی نہیں رہتیں۔ میں تو آج کل اس مسئلے پر شدت سے غور کر رہا ہوں۔‘‘
نگہت چپ رہ گئی۔ سلمیٰ جلدی جلدی قدم اٹھاتے اٹھاتے اب نگہت کے بازو ضرور آ کھڑی ہوئی تھی۔ مگر عمر تو نگہت ہی کی زیادہ تھی نا۔ پھر اسے امی کا کہنا یاد آیا کہ بیٹولں کو زیادہ دن بٹھانا نہیں چاہئے۔ پھر اسے اپنے منگیتر کا خیال آیا۔ (جسے پہلے وہ اس قدر چاہتی تھی) پھر اک دم امی کا رویہ یاد آ گیا۔ پتہ نہیں اس دن کیسے اس کی شادی کا ذکر چل نکلا تو وہ اس کی کسی سہیلی کے سامنے کہہ اٹھی تھیں، ابھی جلدی کیا ہے۔ ’’نگہت کو کس قدر حیرت ہوئی تھی؟ پھر اس کی سمجھ میں سب کچھ آ گیا۔ آخر امی نے بھی اپنی عمر میں آنسو ہی رولے ہیں۔ اب کہیں عمر کے اس دور میں آکر انہیں عیش میسر ہوا ہے۔ تو وہ یہ نہیں چاہتیں کہ گھر آئی لچھمی یوں چلی جائے۔ نگہت جائے گی تو اس کی دولت بھی چلی جائےگی اور داماد کے یہاں رہنا انہیں کب قبول تھا۔ (وہ سید صاحب کی بیوی تھیں) اس دن نگہت اتنی اداس رہی۔ اس کا دل کسی کام میں نہ لگا۔ یونہی دل بہلانے کو وہ گڑیا بنانے بیٹھ گئی جس کے لئے ایک مدت سے نجمی اصرار کر رہی تھی۔
’’ہائے اللہ آپ کس قدر خوبصورت گڑیا بنا لیتی ہیں۔‘‘
سلمیٰ بیٹھی نٹنگ کر رہی تھی وہیں سر سر اٹھا کر بولی۔
’’آنٹی کون ساکام برا کرتی ہیں۔‘‘
نجمی ہنس کر بولی۔ آنٹی اپنے بچوں کو تو خوب گڑیا بنا کر دیں گی۔ ناں؟‘‘
گڑیا نگہت کے ہاتھ سے چھوٹ کر گری۔ مگر اس نے پھر سنبھال لی اور بے دلی سے ہنس دی۔ نجمی سوال پر سوال کئے جا رہی تھی۔
’’کیوں آنٹی آپ شادی نہ کریں گی۔‘‘
نگہت چپ رہی۔
’’ارے ہاں آنٹی۔ سلمیٰ ہنس کر بولی۔‘‘ اس دن کون صاحب تھے وہ۔ جو آپ سے ملنے آئے تھے۔‘‘
’’میر ے فیانس تھے۔‘‘ وہ ٹانگے لگاتے ہوئے بولی۔
’’بےحد اسمارٹ ہیں۔ مجے تو بہت پسند آئے بھئی انکل۔‘‘
ابھی ابھی تک کی بات تھی کہ کوئی سلمان کی تعریف کرتا تو نگہت اسے اپنی خود کی تعریف سمجھ کر جھوم جایا کرتی۔ مگر آج یہی بات سلمیٰ کے منہ سے سن کر اسے ذرا بھی خوشی نہ ملی۔ یونہی بے دلی سے وہ گڑیا مکمل کرتی رہی۔ ( اسے یہ سوچ کر بےحد خوشی ہوئی اور سکون ملا کہ امی اس کی شادی کے بارے میں ابھی بالکل تیار نہیں ہیں)
’’وہ آپ کو اس قدر چاہتے ہیں آنٹی۔‘‘ سلمیٰ اس سے دوستوں کا سا رویہ رکھتی تھی اور مذاق بھی کرتی تھی۔‘‘ اس دن آپ کسی کام سے اٹھ کر اندر آئیں تو کہنے لگے۔‘‘ میری نگہت جیسا کوئی تو ہولے۔ ہائے اتنے جولی فیلو ہیں۔ سدا ہنستے ہی رہتے ہیں اور ’’سنئے انٹی‘‘ سلمیٰ نے اسے خوشخبری سنائی چاہی۔ ’’وہ بیچارے آج کل کام نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہیں نا تو ڈیڈی انھیں اپنی فرم میں کوئی کام دینے کا سوچ رہے ہیں۔‘‘
سلمیٰ نے مسکرا کر آنٹی کو دیکھا۔ مگر آنٹی بیٹھی گڑیا کی آنکھیں بناتی رہی۔
اس دن اسلم صاحب اپنے کمرے میں لیٹے ہوئے تھے کہ نماز کے کمرے سے خوشبودار دھویں میں لپٹی ایک بھرائی ہوئی آواز سنائی دی۔
’’تو میری مسکراہٹوں کا امین ہے۔‘‘
نگہت کی آنکھوں سے آنسو گرے اور اسلم کی پیشانی پر ٹپک پڑے۔ انھوں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ نگہت اب تک ان کا سر دباتی بیٹھی تھی۔
’’تو مجھے رلا کیوں رہا ہے خداوند۔ تو میری مسکراہٹوں کا امین ہے۔ ایک چھوٹی سی دعا تجھ سے مانگی تھی کیا وہ بھی قبول نہ ہوگی؟ دل ہی دل میں نگہت دعائیں مانگ رہی تھی۔ اسلم صاحب بڑی دیر سے اس سے پوچھ رہے تھے۔
’’تم کیوں رو رہی ہو نگہت۔‘‘
نگہت بوکھلا کر بولی۔ ’’آپ کے لئے۔ آپ جلدی سے اچھے ہو جائیے۔ گھر کتنا سنسان دکھائی دینے لگا۔
اسلم صاحب مسکرائے۔ ’’گھر تو اس لئے سنسان ہے کہ سلمیٰ اپنی بچی کو لے کر چلی گئی ہے۔‘‘
’’سلمیٰ کی بچی کی وجہ تو گڑ بڑ تھی ہی، مگر آپ ادھر پلنگ سے جو لگ گئے ہیں۔‘‘ نگہت آنسو روک کر بولی۔
’’عمر بھی کہاں تک ساتھ دے آخر۔‘‘ وہ بے بسی سے بولے۔
’’عمر؟ آپ کی عمر؟‘‘ نگہت حیرت سے بولی۔ ’’میرے خیال سے آپ کسی طرح چالیس پینتالیس سے زیادہ نہیں۔‘‘
انھوں نے اپنا سر ہلایا۔ ’’ادھر دیکھو۔ یہ چمکتا ہوا سفید بالوں سے بھرا سر دیکھو۔ یہاں غم اور عمر نے ساتھ ساتھ نشان چھوڑے ہیں۔‘‘
’’غم؟‘‘ نگہت کی حیرت دو چند ہو گئی۔ آپ کو کون ایسے غم ہیں۔ خدا نے اتنی، آسائشیں دے رکھی ہیں۔ عزت، شہرت، اولاد، دولت سبھی کچھ تو دیا ہے۔ یہ بھی کیا کم بات ہے کہ اپنی اولاد کی شادیاں بھی آپ اپنے ہاتھوں کر رہے ہیں۔ سلمیٰ اپنے گھر ہے اور بہت خوش ہے آپ کو کون سے غم ہیں۔
اسلم صاحب ریکارڈ کی طرح بجتے چلے گئے۔
نگہت تم ان باتوں کو سمجھنے کے لئے بہت چھوٹی ہو۔ ایک مرد اپنی زندگی میں صرف دولت، عزت، اور شہر ت کا ہی خا خواہش مند نہیں رہتا اسے سب سے پہلے عورت کا پیار چاہئے شادی میری بھی ہوئی۔ ازدواجی زندگی میں نے بھی گزاری۔ مگر وہ زندگی کہاں ملی کہ جسے پاکر خوش ہو سکتا۔ شاہینہ نے کبھی مجھے وہ مسرت دینے کی کوشش ہی نہیں کی۔ جو ایک مرد اپنی بیوی سے چاہتا ہے۔ پھر بھی میں سوچ کر خوش تھا کہ اچھی خاصی زندگی ہے۔ بیوی ہے، بچے ہیں۔ کہ بیوی بھی چھوڑ گئی۔ بچوں کا کیا ہے۔ سلمیٰ کی شادی ہو گئی۔ انوار لندن جانے کی دھن میں ہے اور رہی شانو تو کسی دن وہ بھی اپنے گھر کی ہو جائےگی۔‘‘
نگہت نے کچھ بھی جواب نہ دیا۔ آنسوؤں نے اس کا گلا دبوچ رکھا تھا۔ ابھی وہ کچھ کہنے کے لئے منہ کھول ہی رہی تھی کہ جوتوں کی رپ رپ ہوئی اور ساتھ ہی افضل صاحب کمرے میں چلے آئے۔ اسلم صاحب نے ذرا سا سر اٹھا کر انھیں دیکھا اور نحیف آواز سے بیٹھنے کو کہا۔
جانے اس ایک لمحہ میں کیا بات ہوئی۔ کہ اسلم صاحب کے چہرے کا رنگ اڑسا گیا اور انھوں نے ناگواری سے آنکھیں بند کر لیں۔
دو تین دن اس قدر خاموشی سے گزرے کہ کئی بار نگہت نے یہ محسوس کیا کہ جیسے وہ کوٹھی نہ ہو قبرستان ہو اور چوتے ی دن اسلم صاحب نے اچانک نگہت سے کہا۔
’’اب میں سمجھتا ہوں کہ اس گھر کو تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ بہتر ہوگا اگر تم سروس چھوڑ دو۔‘‘
اگر کوئی نگہت کے جسم سے بجلی کا تار لگا دیتا۔ تب بھی وہ اس بری طرح نہ چونکتی جتنا کہ اس جملے سے چونکی۔
’’جی۔‘‘ وہ گھٹے گھٹے لہجے میں بس اتنا بول سکی‘‘
’’ہاں۔ اب تم سروس چھوڑ دو۔‘‘
مگر کیوں؟ وہ ڈھٹائی سے پوچھ رہی تھی۔
کہہ جو دیا۔ تمہاری ضرورت نہیں۔‘‘
اس نے ڈھٹائی سے کہا۔ مگر مجھے تو آپ کی ضرورت ہے۔‘‘
اسلم صاحب نے چونک کر اسے دیکھا تو اس نے بات پلٹ دی۔ گھر کو ہو نہ ہو، آپ کو میری ضررت ہے۔ ابھی آپ کے گھٹنے کا زخم بھر ا نہیں ہے۔‘‘
گھٹنے کا زخم؟‘‘
’’ہاں اور جب تک آپ صحت مند نہیں ہو جاتے میں یہاں سے قدم بھی نہ اٹھاؤں گی چاہے آپ دھکے دے کر ہی کیوں نہ نکالنے کی کوشش کریں۔‘‘
اسلم صاحب سر سے پیر تک ایک کمزور خزاں رسیدہ پتے کی طرح لرز لرز کر رہ گئے یہ نگہت کیوں اس قدر ڈھیٹ ہے۔ کیوں اس قدر مخلص ہے۔ انھیں تو آج تک کسی نے اتنی محبت سے اتنی ضد سے مجبور نہ کیا تھا۔ یہ کیسی پاگل لڑکی ہے۔
’’مجھے معلوم ہے آپ مجھے کیوں نکال دینا چاہتے ہیں۔‘‘ وہ سر جھکا کر بولی۔
’’کیوں بھلا؟‘‘ اسلم صاحب نے توہ لینی چاہی۔
’’دراصل میں کام کچھ نہیں کرتی اور مفت میں دو سو روپے لے لیتی ہوں۔‘‘
’’ٹھیک۔ بالکل ٹھیک۔ اسلم صاحب جل کر بولے۔ کتنی سچی بات کہی کہ جی خوش ہو گیا۔ وہ نگہت کو گھور کر بولے۔‘‘ اب تم دنیا والوں کی آنکھوں میں کھلنے لگی ہو۔ افضل صاحب تمہیں میری۔۔۔ آگے اسلم صاحب کچھ نہ کہہ سکے، ان کی زبان گنگ سی ہو گئی۔
’’جی۔‘‘ نگہت آنکھیں پھیلا کر بولی۔
وہ دھیرے دھیرے بول گئے۔ ’’وہ تمہیں میری بیوی سمجھتے ہیں۔‘‘
نگہت بالکل نہ چونکہ۔ گویا یہ بات خود بھی مدت سے اس کے دل میں رہی ہو۔ جیسے۔ اس میں اتنی پریشانی اور غم اٹھانے کی کیا بات ہے۔ اگر انھوں نے، یاساری دنیا نے ہی، ایسا سمجھ بھی لیا تو کیا برا کیا۔ کیا میں آپ کی بیوی نہیں سج سکتی۔ کیا میں اس قابل نہیں۔
کہنے والے اور سمجھنے والے کچھ بھی کہتے اور سمجھتے رہیں۔ اس سے ہمارا کیا بنتا اور بگڑتا ہے۔‘‘ وہ سان سے بولی۔
اسلم صاحب پھر گئے۔ ’’کچھ بگڑتا ہی نہیں؟؟ تمہاری کوئی عزت ہے یا نہیں۔ میں بڑاآدمی اور پھر بوڑھا آدمی۔ کوئی میری طرف انگلی اٹھائے بھی تو کچھ نہ بگڑےگا۔ مگر تم ایک لڑکی ہو۔ تمہیں اپنی زندگی شروع کرنی ہے۔ ابھی تمہاری شادی ہونی ہے۔ تمہیں دوسرے کے گھر جانا ہے۔ اس سے تمہارے جیون پر کتنا برا اثر پڑےگا اور پھرسلمان سنےگا تو کیا سوچےگا۔‘‘
نگہت کو جیسے کسی نے آسمان سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسلم صاحب کو دیکھنے لگی۔ اس انسان میں فرشتوں کی سی پاکی آئی کہاں سے۔ یہ انسان ہے یا کوئی آسمانی مخلوق۔ وہ کتنی ہی دیر تک آنکھیں کھولے انہیں دیکھتی رہی۔ بڑی دیر بعد جیسے اسے ہوش آیا تو وہ جاتے جاتے بولی۔
’’مجھے دنیا کی کوئی پروا نہیں۔ مجھے اپنے محسن سے بڑھ کر کوئی بھی عزیز نہیں۔‘‘
رات کو سب سو گئے۔ مگر نگہت کے کمرے کی لائٹ دیر تک جلتی رہی۔ اسلم صاحب کے زخم میں آج رہ رہ کر ٹیس اٹھ رہی تھی۔ اس قدر اچانک وہ گر گئے تھے کہ وزن ہی نہ سنبھال سکے اور ٹیک سے نیچے لڑھک پڑے۔ اس دن موسم بے حد خوشگوار تھا۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی کے بعد سنہری دھوپ نکل آئی تھی۔ ایسے میں بچوں نے نگہت سے پکنک کا کہا تو اس نے اسلم صاحب کو بھی گھسیٹ لیا۔ کمپنی گارڈن سے لگ کر ایک ٹیک تھا۔ جو کافی اونچا تھا۔ چوٹی پر پیلے نیلے جنگلی پھولوں کے پودے تھے اور دھوپ میں چمکتی ہوئی سبز گھانس۔ وہ سب پھولوں کی تلاش میں اوپر جا رہے تھے اور پھر جانے کیسے ان کا پاؤں پھسلا اور لڑھکتے ہی چلے گئے۔ جب انھیں موٹر میں لاد کر گھر لایا گیا تو تکلیف کی شدت سے تب تک ان کا پاؤں اچھا خاصا سوجھ چکا تھا۔ کنپٹی کے پاس ایک ہلکی سی چوٹ آئی تھی۔ جس سے ان کا سر دھمک رہا تھا۔ نگہت اپنے آپ کو بھول بیٹھی تھی۔ اسلم صاحب نے اسے کبھی اجازت نہ دی تھی کہ وہ ان کا کوئی کام کرے۔ پہلے تو نگہت ہاتھ مل مل کے بےبسی سے باہر کھڑی رہی۔ پھر اس سے صبر نہ ہو سکا۔ تو نجمی سے کہہ کر ڈاکٹر کو فون کروا دیا اور خود بےتابی کے ساتھ ان کے سرہانے جا بیٹھی۔ وہی لمحہ ایک ایسا لمحہ تھا جب ان کے سرہانے بیٹھ کر اس نے اپنی زندگی کے ہر ہر دن کے بارے میں سوچا تھا۔ اشتہار سے لے کر آج تک کی زندگی۔ اس کا آنا۔ رہ جانا، سب میں گھل مل جانا۔ گھر کی ایک اہم ہستی بن کر رہ جانا۔ پھر سلمیٰ کی شادی اپنا کنوارپن۔ سلمان کی محبت۔ اسے سب کچھ یاد آیا۔ وہ ذہن کی آنکھوں سے ہر منتظر کو گزرتا دیکھتی رہی اور پھر وہ لمحہ کہ اسلم صاحب نے گھر چھوڑ دینے کو کہا۔
بھلا وہ اس گھر کو چھوڑ سکتی تھی؟
پھول کبھی ڈال سے جدا ہوا ہے؟؟ ہوتا کیوں نہیں۔ ضرور ہوتا ہے مگر پھر مر بھی تو جاتا ہے نا؟
نگہت کے دل میں گویا بےغیرتی نے گھر کر لیا تھا۔ وہ دن رات اس تند ہی سے اسلم صاحب کی خدمت کر رہی تھی کہ ساری دنیا کو بھول کر رہ گئی تھی۔ اس نے اسلم صاحب کی اس قدر بےلوث خدمت کی۔ ان کو اتنا سکھ دیا، ان کے لئے اتنی جاگی کہ خود اپنی صحت برباد کر ڈالی۔ اور ایک دن اسلم صاحب نے اسی خوشبودار دھویں میں لپٹی وہ بھرائی ہوئی دعا سنی۔ ’’میرے مالک تو میری عمر بھی انہی کو دیدے۔‘‘
میں یہ سمجھتی ہوں کہ عورت صرف محبت سے عبارت ہے۔ میں عورت ہوں میرا وجود بھی محبت ہی محبت ہے۔ میں کیسے اپنے منہ سے اقرار کروں، مگر محبت بھی کہیں چھپائے چھپ سکی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں اگر صحیح معنوں میں کسی کو چاہا ہے تو صرف اسلم صاحب کو۔ مگر میرے سینے میں یہ خلش کانٹا بن کر کھٹکتی ہے کہ میں ان کا دل کیوں نہ جیت سکی۔ مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے، جب ٹوٹے ہوئے پلنگ کی پٹی پر بیٹھ کر میں نے اسلم صاحب کو ایک خط لکھا تھا۔ میں نے کوئی چاپلوسی نہیں کی تھی، کوئی خوشامد نہیں کی تھی، مگر ہوایوں کہ جب میرا خط ان تک پہنچا تو اوروں کے خط بھول گئے اور مجھے اپنے بچوں کو لئے رکھ لیا۔
محبت کا دیوتا کیوپڈ، سنا ہے اندھا ہوتا ہے۔ جانے کیا بات تھی، جب میں نے اسلم صاحب کو پہلی بار دیکھا۔ تبھی میں نے محسوس کیا کہ میں کچھ کھو رہی ہوں۔ کچھ پار ہی ہوں۔ میں نے کیا کھویا تھا۔ شاید اپنا دل۔ مگر کیا پایا۔ آج تک نہ سمجھ سکی۔ شائد محبت پائی۔ مگر یہ تو میرا وہم ہے۔ میں نے صرف کھویا، پایا کچھ نہیں۔ وہ دن لمحے مجھے آج تک نہیں بھولتا۔ جب پہلی بار میں مجبور سی ہو کر اسلم صاحب کے گلے لگ گئی تھی۔ اس لمحے میں نے یوں محسوس کیا تھا کہ میں آسمان کے محفوظ سائے تلے آ گئی ہوں۔ اب مجھ کوئی ڈر نہیں۔ کوئی فکر نہیں۔ سچ مچ اسلم صاحب میرے لئے آسمان تھے۔ وہ میرے سر پر آسمان بن کر تن گئے اور میں سب کچھ بھول گئی۔
سب کچھ بھول گئی اور یہ بھول گئی کہ وہ ایسی چیز نہیں تھے کہ جسے میں پا سکتی۔ میں بیس سال کی ایک لڑکی۔ جس نے دنیا میں صرف غم ہی غم دیکھے تھے۔ خوشیوں کے گہوراے میں جھولنے لگی، مجھے ان کے سفید بال، ان کے قدرے جھکے جھکے اعصاب، ان کا دھیما، دھیما انداز تکلم۔ ان کی چال ڈھال ہر ہر چیز سے کس قدر گہری محبت تھی؟ (تھی؟ میں صیغہ ماضی میں کیوں استعمال کر رہی ہوں؟)
میں تو پہلے لمحے ہی بھانپ گئی تھی کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہو کر رہےگا۔ کتنے پیار سے انھوں نے مجھے ساڑیاں لا کر دی تھیں۔ وہ محض ایک بات تھی اور اب مجھے ایک ساتھ کتنی باتیں یاد آتی ہیں آ رہی ہیں۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ تنخواہ کپڑوں کے پیسے کاٹ لیں گے۔ مگر کبھی وہ لمحہ نہ آیا۔ جب وہ اپنا وعدہ پورا کرتے۔ یوں ان کا وعدہ سے پھر جانا کتنا بھلا لگتا تھا مجھے؟
میں آج تک نہ جان پائی کہ ان کی فطرت میں یہ نیکی کہاں سے امڈ پڑی تھی۔ پہلی بار جب میں نے ان کی کوٹھی میں قدم دھرا وہ دن اور آج کا دن، کبھی مجھے ان شکایت کا موقع نہ ملا۔ کبھی کبھی میرا جی چاہتا کہ وہ مجھے کسی بات پر ڈانٹ دیں۔ یہ نہیں تو مجھے ہی ان کی کوئی بات بری لگنے لگے۔ کہ میں انہیں چھیڑ سکوں (شاید اسی طرح محبت کا سویا دیوتا جاگ پڑتا!) مگر وہ تو برف کی چٹان تھے۔ کبھی میں نے اس بات پر لڑنا بھی چاہا، کہ آخر آپ مجھے دو سو روپے کاہے کے دیتے ہیں۔ کچھ کام دھام میں نہیں کرتی۔ موٹر میں گھومتی ہوں۔ نت نئے کپڑے اور زیورات پہنتی ہوں اور پھر بھی تنخواہ جوں کی توں برقرار۔ بچوں کا بے حد کم کام میرے ذمہ تھا (میں تو جیسے اس گھر میں رانی بنکر ہی آ گئی تھی) سلمیٰ سب سے بڑی تھی اور وہ بہت کم میری مدد لیا کرتی تھی۔ پہلے ہی دن میں نے اس کا کام کرنا چاہا تو اس نے شر ماکر منہ پھر لیا۔ لڑکیاں جب بڑی ہو جاتی ہیں تو اپنی تنہائیوں کا کسی کو بھی ساتھی نہیں بنانا چاہتیں اور پھر بعد میں تو اس کی شادی ہو گئی۔ رہے انوار نجمی (نجمی جسے اسلم صاحب اپنی مرحوم بیوی کے نام پر اکثر شانو کہہ کر پکار لیا کرتے تھے) ان کا کام ہی کیا تھا۔ بس نگرانی۔ نوکر تو خود ہی ڈھیر سارے موجود تھے، اور پھر اسلم صاحب جو اتنی بڑی تجارتی فرم کے مالک تھے، وہ بھلا مجھے کسی کام کو ہاتھ لگانے دیتے؟ وہ تو چاہتے تھے کہ میں پھول تک نہ توڑوں (مگر ہائے انھوں نے میرا پھول جیسا دل توڑ دیا۔)
بیماری میں انسان ایسی تنہائی اور ویرانی محسوس کرتا ہے کہ سارے کفر ٹوٹنے لگتے ہیں جب وہ ٹیک پر سے گرے تھے اور درد سے بےحال تھے۔ اس لمحے میں نے ان کے سارے حکم بھلا دیئے اور ان کی تیمارداری میں جٹ گئی۔ وہ مجھے بار بار منع کرتے۔ مجھے گھور بھی لیتے۔ مگر کبھی وہ نگاہ نہ پھینکی کہ جسے میں محبت کا نام دے سکوں۔ اندھیرے اجالے کتنے ہی ایسے موقعے آئے ہوں گے مگر انھوں نے کبھی میرا ہاتھ پکڑ کر اسے چومنے تک، کی بھی کوشش نہ کی، یہ جان کر میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ کہ میں اتنے سال ان کے ساتھ رہ کر بھی ان کی محبت حاصل نہ کر سکی۔
کیا میں اتنی بری تھی؟
میرے لانبے لانبے بال ہیں۔ مدھ ماتی آنکھیں ہیں۔ اونچا سا ڈولتا ہوا قد ہے۔ سانولی رنگت ایسی روشنی لئے ہے جیسے برسات کی شام کو بادل برس چکنے پر سورج نکل آئے۔ غریبی کے دنوں کی بات نہیں کر رہی ہوں۔ میں تو ان دنوں کی بات سنا رہی ہوں، جب محبت کا تیر کھا کر میرے نینوں کے چراغ، ستاروں سے بڑھ کر روشن ہو گئے تھے کی ان چراغوں میں اتنی روشنی بھی نہ تھی کہ کسی کو اپنی طرف کھینچ سکتے۔ میں نے یہی سنا ہے کہ اندھیری راتوں میں بھٹکے والے سدا روشنی کی طرف لپکتے ہیں۔ پھر۔ پھر۔
وہ مجھے نیلی گاڑی کے فرنٹ سیٹ پر اپنے بازو بٹھا کر شاپنگ کو لے جاتے ہیں۔ پکچر دیکھنے لے جاتے ہیں۔ سب لوگ ہم دونوں کو دیکھتے تو مجھے کبھی یہ غم نہ ستاتا کہ میرے جوان اور تنے ہوئے اعضاء کے مقابلے ان کا جسم قدرے جھکا جھکا سا دکھائی دیتا ہے۔ میرے سیاہ لچھے دار باتوں کے مقابل ان کے بال چاندی کے تاروں کی طرح چمکتے ہیں۔ یہ ایسی غم کی بات بھی کہاں تھی، اندھیرے اجالے سدا ہی ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں۔ جب شانپگ کر چکنے کے بعد وہ مجھ سے کہا کرتے۔
’’نگہت ذرا بل تو پے کر دینا۔‘‘
اس لمحے مجھ میں ایک بیوی کی سی فرمانبرداری آ جانی تھی اور جب کبھی پکچر دیکھنے ہوئے وہ مجھ سے کسی سین کے بارے مین رائے پوچھتے تو میں خود ہی مغرور ہو جاتی۔ لیکن میری خوشیاں اور میرا غرور کس قدر چھوٹا تھا!؟
اور پھر اس دن میری خوشیوں کی آخری کرن بھی دم توڑ گئی۔ اس دن اسلم صاحب۔ کی رشتے کی کوئی بہن ان سے ملنے آئی ہوئی تھیں۔ وہ لوگ بیٹھے ڈرائینگ روم میں باتیں کرتے رہے اور میں ادھر سلمیٰ کی بچی کو بہلاتی رہی۔ کسی کام سے اٹھ کر میں ادھر گئی تو میرے کانوں نے مدھم سی بھن بھناہٹ سنی، میرے قدم یوں ہی رک گئے۔ آپا کہہ رہی تھیں۔
’’اسلم میاں مجھے تو وہ لڑکی بہت پسند آئی ہے جو تمہارے بچوں کا کام کرتی ہے۔‘‘
’’جی ہاں بہت اچھی لڑکی ہے۔‘‘ وہ سیدھے اور مدھم لہجے میں بولے۔
’’پھر یہ تو بہت اچھا ہے کہ تمہیں بھی پسند ہے۔‘‘
’’جی۔‘‘ وہ ذرا چونک پڑے۔
’’میں یہ کہہ رہی تھی کہ تم اسے ہمیشہ کے لئے ہی اپنے ہاں رکھ لیتے تو۔‘‘
وہ جیسے اچھل کر بولے۔ ’’آپ کا مطلب۔ اس سے شادی کر لوں۔‘‘
’’اور کیا کہہ رہی ہوں۔‘‘ وہ ذرا ہنس کر بولیں۔
تھوڑی دیر بڑی عجیب خاموشی رہی، پھر بولے۔ ’’مگر مجھے اس سے محبت نہیں ہے۔‘‘
میں وہیں کھڑی کھڑی کئی بارجی اور کئی بار مری۔ وہ کہہ رہے تھے۔
’’اس کی عمر کا فرق بھی آپ نے دیکھا ہے آپا اور پھر آپا اس کی خود شادی ہونے والی ہے۔ اس کا منگیتر سلمان، میری ہی فرم میں کام کرتا ہے۔ بڑا اچھا لڑکا ہے، اسے بےپنا ہ چاہتا ہے۔
’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘ آپا بولیں۔ ’’سوال لڑکی کی پسند کا بھی ہوتا ہے۔‘‘
وہ بولے۔ ’’آپا آسمان پر ایک ساتھ چاند سورج نہیں جگما سکتے۔ یا تو چاند چمک لے یا سورج ہی۔
’’تو سورج ہی چمک جائے۔‘‘ آپا ہنس کر بولیں۔
وہ بپھر گئے۔ ’’یہ تو میں نے بات جیسی بات کہی آپا۔ آپ خواہ مخواہ کسی کو میرے سر لادنے کی کوشش کیوں کر رہی ہیں۔‘‘
اور تب میں نے جانا کہ دنیا میں خوشی کے لمحے کس قدر کم ہوتے ہیں، مجھے برسات کی وہ شامیں بہت پسند ہیں جب ہلکی ہلکی پھوار آسمان سے گرتی ہے، اور چہرہ بھیگ جاتا ہے۔ اور پھریوں ہوا کہ میری آنکھیں خود برسات برسانے لگیں اور چہرہ سدا بھیگا بھیگا رہنے لگا۔
اس دن جب انھوں نے افضل صاحب کی کسی رکیک حرکت پر چڑ کر کہا تھا کہ وہمارے تعلقات کو غلط رنگ میں دیکھنے لگے ہیں۔ تب میں کس قدر خوش ہوئی تھی۔ میں سمجھ رہی تھی کہ اس طرح وہ خود کو اور مجھے دنیا والوں کی چھبتی ہوئی نگاہوں سے بچانے کے لئے کوئی ایسا راستہ اختیار کر لیں گے جہاں کوئی اونچ نیچ نہ ہو۔‘‘ شاید۔ شاید ایک ہو جائیں۔ ’’میں نے ڈرتے۔ ڈرتے سوچا تھا۔ مگر۔ مگر!؟
میں نے یہ بھی تو سوچا تھا کہ چونکہ انھوں نے بیوی کی محبت دیکھی ہی نہیں ہے۔ تو شاید اس طرح وہ میری خدمت گزاری اور بے پناہ پیار کو دیکھ کر میری طرف جھک جائیں گے۔ مگر وہ تو یوں ہی آسمان بنے میرے سر پر تنے رہے بھلا آسمان بھی کہیں زمین پر جھکا ہے؟ نہ آسمان زمین تک آسکا ہے۔ نہ زمین کبھی اتنی اونچی ہو سکتی ہے کہ بڑھ کر آسمان کو چھولے۔
مجھے آج نہ کل، کبھی نہ کبھی سلمان کا ہونا ہی ہے۔ مگر کلیجے میں ایک پھانسی سی اٹکی ہوئی رہتی ہے۔ میں کیوں ان کی محبت حاصل نہ کر سکی۔ انھوں نے مجھ سے شادی نہ کی، نہ کرتے۔ مگر کبھی اتنا تو کہہ دیتے۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔
’’میں نکہت سے محبت کرتا ہوں۔‘‘
ادھر جب سے سلمیٰ کی شادی ہوئی تھی کوٹھی کی رونق اک دم کم ہو گئی تھی اور پھر جب سلمیٰ کی بچی ہوئی اور وہ بچی کو لے کر بار بار آنے اور جانے لگی تو بےرونقی میں اور اضافہ ہو گیا سلمیٰ اسلم صاحب کی بےحد لاڈلی تھی۔ وہ دن بھر اپنے کاموں میں مشغول رہتے۔ مگر کبھی بات کرتے تو بچوں سے اور کھیلتے تو بس سلمیٰ کے ساتھ۔ بیڈمینٹن ان کا پسندیدہ گیم تھا۔ سلمیٰ کی شادی، ہو ئی تھی تو وہ کھیل کود بھی ختم تھے۔ انوار نے پر موشن حاصل کر سیرئک کیمرج پاس کر لیا تھا اور اب لندن اڑنے کی دھن میں تھا۔
کوٹھی میں رونق اور زندگی تھی تو نکہت کے دم سے۔
اس نے یہاں ہر کام میں اس قدر پابندی پیدا کر دی تھی۔ ساروں کی زندگی کو اس طرح اپنے بس میں کر لیا تھا کہ ہر جگہ وہ ہی وہ براج رہی تھی، اسلم صاحب کس قدر خوش اور مطمئن تھے بچے صاف ستھرے رہتے۔ کمرے ترتیب سے سجے رہتے اور بڑی بات یہ کہ اب بچے نماز بھی پابندی سے ادا کرتے۔ یہ بڑی بات تھی کہ وہ سب اب اس قدر ذمہ دار ہو گئے تھے۔
پھر ایک دن وہ سب بمبئی میں تھے۔ انوار لندن جا رہا ہے۔ اسلم صاحب نے نکہت کو بمبئی کا چپہ چپہ گھما دیا۔ تاج محل میں ایک بار ڈنر کھلا دیا۔ ڈانس پارٹیوں میں لے گئے سمندر کے کنارے لے گئے۔ بوٹنگ کے لئے لے گئے۔ جو ہوپر اسے تیرنے کے لئے کہا۔
اگر اس نے کسی چیز کی تعریف کردی اور چیز جھٹ اس کے لئے خرید لی۔
اب تو تمہاری شادی ہو جائےگی۔ کون جانے پھر گھومنے پھرنے کا موقع ملے نہ ملے۔
وہ دکھا ہوا دل لئے، ہنس کر ان کی باتیں مانتی رہی۔ آنکھ میں آنسو چھپائے وہ لبوں پر مسکراہٹ پیدا کرتی رہی۔
حیدر آباد واپس پہنچ کر اس کا دل سدا کھڑا اکھڑا سا رہنے لگا۔ انوار اس کا بہترین دوست تھا۔ یوں ان کی عمروں میں خاصا فرق تھا۔ مگر نکہت اس کی موجودگی میں سدا ہنستی رہتی۔ (لاکھ وہ ہنسی جھوٹی ہی سہی) انوار اپنے ساتھ اس کی مسکراہٹیں بھی لیتا گیا۔ اسلم صاحب شاید اس کی اداسی بھانپ رہے تھے۔ ایک دن اسے ذرا غور سے دیکھ کر بولے۔
’’تم آج کل کچھ غمگین نظر آتی ہو۔ کیا بات ہے؟‘‘
اس وقت وہ شانو کو انگلش پڑھاتی بیٹھی تھی، کوئی فیری ٹیبل تھی۔
’’تب پری ہاتھ جوڑ کر بولی کہ تم سمجھے ہی نہیں۔ شاہزادے میں تو تم سے دل ہی دل میں پریم کرتی آرہی ہوں۔‘‘
جواب میں نکہت نے شانو کو سمجھا سمجھا کر پڑھانا شروع کر دیا۔
تو تم سمجھیں شانو بیٹا کہ پری دراصل شہزادے۔۔۔
ہی ہی کھی کھی۔۔۔ شانو منہ پر ہاتھ رکھ کر زور سے ہنسی۔‘‘ مگر اتی اچھی پری کو ایسے بوڑھے شہزادے سے محبت کیسے ہو گئی آنٹی۔‘‘
’’شہزادہ تھا تو بوڑھا مگر بہت نرم دل تھا شانو۔ اگر۔۔۔
اسلم صاحب نے شانو کے ہاتھ سے کتاب لی اور دھیرے سے میز پر رکھ کر بولے۔
’’آج سلمان کہہ رہا تھا کہ اس کی اماں بہت جلدی گھر میں بہو چاہتی ہیں۔‘‘ وہ ہلکے ہلکے مسکرا رہے تھے۔
نکہت کچھ بولی۔ سر جھکائے یوں بیٹھی رہی، جیسے پتھر کی مورتی ہو۔
’’نکہت۔‘‘ وہ ذرا زور سے بولے۔ ’’سلمان تمہیں بےحد چاہتا ہے۔ بری طرح پیار کرتا ہے۔ تمہیں کسی کی محبت کی قدر کرنی چاہئے۔ میں نے بھی زمانہ دیکھا ہے نگاہوں کے مزاج پہچانتا ہوں۔
تمہیں۔۔۔ نکہت نے چونک کر سر اٹھایا۔ وہ کہہ رہے تھے۔
’’تمہیں گلاب اور دھتورے میں تمیز کرنی چاہئے۔
’’کانونٹ میں چھٹیاں ہو گئی تھیں۔ شانو سلمیٰ کی بچی پنکی پر جان دیتی تھی۔ اب پڑھائی کا بار تو تھا نہیں۔ سلمیٰ جانے لگی، تو شانو کو بھی اپنے ساتھ لیتی گئی۔
کوٹھی میں اب ویرانیوں کا راج تھا۔
ایک دن اسلم صاحب نے نکہت کے کمرے پر وہی ہلکی سی مخصوص دستک دی۔ اور نکہت نے دروازہ کھولا تو دو چار بڑے بڑے پیکیٹ سنبھالے وہ اندر چلے آئے۔
’’نکہت۔ آج میں تمہاری امی کے پاس گیا تھا۔ ہم نے شادی کی تاریخ طے کر لی ہے اور دیکھو یہ کچھ کپڑے ہیں۔ زیورات کا آرڈر میں نے آج ہی دیا ہے۔ آٹھ دس دنوں میں بن کر آ جائیں گے۔ پھر ضرروری کپڑا بھی بعد کو خریدا لیا جائےگا۔ نکہت نے بے بسی سے سر اٹھا کر انھیں دیکھا تو وہ مسکرا کر بولے۔
ؔ
’’ارے بھائی مجھے معلوم ہے کہ تمہاری سید صاحب کی بیوی ہیں میں نے ان سے بہت منتوں کے بعد یہ وعدہ لیا ہے کہ نگہت کی شادی میں ہی کروں گا کیوں کہ اس کے مجھ پر اتنے احسان ہیں کہ شمار ہی نہ کئے جا سکیں گے۔ یہ میری ننھی خوشی ہے جس کا پورا کرنا آپ کے بس میں ہے۔
نکہت جیسے آپ ہی آپ بول پڑی۔
’’کاش آپ بھی کسی کی ننھی سی خوشی پوری کر دیتے۔‘‘
مگر تب تک اسلم صاحب جا چکے تھے۔
اس کے چند دنوں بعد کی بات ہے کہ اسلم صاحب اسی ریوالونگ چئیر میں بیٹھے کوئی کتاب دیکھ رہے تھے کہ دھویں میں لپٹی تھرتھراتی دعا ان کے کانوں سے ٹکرائی۔
کیا واقعی تو جو کچھ کرتا ہے اچھا کرتا ہے۔ اب تو دعاؤں سے بھی ہاتھ اٹھا لیا ہے خدا وند!‘‘
یہ شائد زندگی کا خاتمہ تھا کیوں کہ اس دن کے بعد پھر کبھی نکہت نہ مسکرا سکی۔ البتہ اسلم صاحب سدا مسکراتے رہتے۔ انھوں نے بڑی منتوں سماجتوں کے بعد سید صاحب کی بیوی کو صرف چند دنوں کے لئے کوٹھی بلوا لیا تھا۔ شادی کے ہنگامے عروج پر تھے۔ ادھر ادھر کے بلائے اور بن بلائے مہمانوں سے کوٹھی اٹی پڑی تھی اور یوں بھی بڑی جگہ کوئی ہنگامہ ہونا ٹھہرتا ہے تو آس پاس والے تو یوں کھینچ آتے ہیں جیسے گڑ پر مکھیاں۔
جب زور دار بینڈ بجا اور بچوں نے شور مچایا کہ برات آ گئی۔ برات آ گئی۔ نگہت کا دل اتنی زور سے دھڑکا کہ اس کا پورا جسم لرز اٹھا۔ اس گھڑی کی تو بہت دنوں سے منتظر تھی یہ جو سب کچھ تھا۔ خواب تھا، جھوٹ تھا، ایک سراب تھا اور وہ جو خوابوں کا شہزادہ تھا بجائے تاج کے جس کے سر پر سفید بالوں کا سورج جگمگاتا تھا۔ اب اس کیلئے محض ایک خیال ہے۔ اسے ہنسی آ گئی۔
اسلم صاحب نے پھولوں میں لپٹے ہوئے سلمان کو دیکھا۔ وہ اس قدر خوش تھا کہ اس کا چہرہ چاند بن کر چمک رہاتھا۔ بعض لوگ اس قدر خلوص سے کوئی دعا مانگتے ہیں کہ اللہ میاں کو قبول کرتے ہی بن پڑتی ہے۔ تو آج وہ اس کی ہے۔ (بالآخر تم نے اسے جیت ہی لیا مسٹر سلمان ایم ایس سی۔ نا؟)
نکہت آج میں بہت خوش ہوں کہ سلمان جو تمہیں بہت چاہتا تھا، آج تمہارا ہے اور تم اس کی ہو۔ بہت خوبصورت جوڑا ہے تم دونوں کا۔ دیکھو جس طرح تم نے کوٹھی کے ہر ہر فرد کا دل جیت لیا ہے اسی طرح اپنی سسرال میں بھی کرنا۔ یہاں کا تو خیر چپہ چپہ تمہیں یاد کرےگا۔‘‘
تو یہ آپ کہہ رہے ہیں اسلم صاحب کہ یہاں کا چپہ چپہ مجھے یاد کرےگا۔ کیا سچ؟ اور کیا چپے چپے میں آپ خود شامل نہیں ہو جاتے؟
یہ کوٹھی ہے یا قبرستان؟
ہر چیز ساکن تھی۔ پرسکون۔ جیسے ہر روز طوفان کے بعد سمندر کی سطح چپ چاپ ہو جاتی ہے۔ وہ باجوں کی ڈھماڈھم۔ باراتیوں کی دھوم دھام۔ بچوں کا شور شرابہ سب کچھ ختم تھا اور اب وہ کمر ہجہاں سالوں سے ایک جنت آباد تھی اب خاموش آوازوں سے پوچھ رہا تھا۔ ’’وہ کہاں گئی۔ وہ کہاں چلی گئی۔
اور خوشبودار دھواں بل کھاتا یونہی کمرے میں آوارہ آوارہ سا پھر رہ اتھا۔ اب کوئی دعا کانوں میں رس نہیں گھولتی تھی۔ اور یہ کم بخت دل کا بوجھ۔
جب کبھی میں اپنے دل پر بوجھ سا محسوس کرتی ہوں، خدا کے سامنے سب کچھ کہہ ڈالتی ہوں۔ اگر ایسا نہ کرون تو شاید میرا دل پھٹ جائے۔
خداوندا میرا دل پھٹ کر رہ جائےگا۔ مگر یہ تو اچھا ہی ہوا ناکہ میں نے سلمان کا دل نہ توڑا۔ کتنی اچھی جوڑی ہے۔ بھلا پرانے گیرج میں کہیں نئی گاڑی اچھی لگتی ہے مسٹر اسلم؟
انھوں نے اپنا دل زور سے پکڑ لیا۔ خوشبودار دھواں کمرے میں چکر لگا رہا تھا۔ وہ بے تابی سے اٹھے اور کمرے میں جاکر سجدے میں گر پڑے۔ تھرتھراتی دعا ان کے لبوں پر مچل اٹھی۔
’’میں۔ نکہت سے محبت کرتا ہوں خداوندا۔ میں نکہت سے محبت کرتا ہوں۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.