کئی دن کی خاموشی کے بعد ہچکیوں نے میرے گلے میں پھر ڈیرا ڈال لیا تھا۔ پیٹ دکھنے لگا تھا۔ سینے پر بھاری پن محسوس ہونے لگا تھا۔ خشک ہوتے گلے کی رگوں کو پانی کے گھونٹ اتار کر میں بار بار تر کرتی۔ شروع شروع میں تو اس طرف میری توجہ ہی نہیں گئی کیونکہ دس پانچ ہچکیاں آتی تھیں اور رک جاتی تھیں۔ لیکن جیسے جیسے ہچکیاں بڑھنے لگیں تب خود بہ خود یہ احساس بھی پیدا ہونے لگا کہ ہچکیوں کا یہ سلسلہ تو کئی روز سے بھی کئی روز پرانا ہو گیا ہے۔ ایسا سوچتے ہی بچپن سے جڑی بہت سی باتیں اور وارداتیں میرے دماغ میں گھومنے لگیں۔ ابا کا خیال تھا جسم میں پانی کی کمی سے ہچکیاں آتی ہیں جب بھی ہچکیاں ستائیں ایک ایک گھونٹ ٹھہر ٹھہر کر پانی پی لینا چاہیے۔ امی کہتی تھیں ہچکیاں آنے سے جسم بڑھتا ہے۔ یہ بات تو چھوٹے بچوں کے لیے ہے پندرہ برس کی گھوڑی کے لیے نہیں۔ ریاض بھائی مجھے چڑانے کی غرض سے کہتے۔ لیکن تنویر کا خیال بالکل مختلف تھا۔ وہ کہتی کوئی دل سے یاد کرتا ہے تب ہچکیاں آتی ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ یاد کرنے والے کا نام لیا جائے تو فوراً ہچکیاں تھم جاتی ہیں۔
تنویر میری بچپن کی سہلیلی تھی۔ اس کے اور میرے گھر کے درمیان بس ایک دیوار کا فرق تھا اور اس میں بھی ایک کھڑکی لگی تھی جس نے اس فرق کو بھی ختم کر دیا تھا۔ دونوں گھروں کے متصل ایک امام باڑہ۔ محرم شروع ہونے سے پہلے وہاں خوب دھلائی صفائی ہوتی۔ عَلم اور تعزیہ سجتے مجلسیں ہوتیں سکوریوں میں جمی دال اور تنوری روٹیاں بٹتیں تو ہم دونوں ساتھ ہی ہوتے۔ یہ امام باڑہ اس کے اجداد کا تھا۔ وہ شیعہ تھی اور میں سنی ایسا وہ کہتی۔ مجھے اس کا فرق معلوم نہیں تھا۔ تنویر نے مجھے مجلس اور مرثیہ پڑھنا خوب سکھا دیا تھا۔ یہ امام باڑہ ہی ہم دونوں کی دوستی اور محبت کا مرکز تھا۔ جب میں پانچ برس کی تھی وہ سات کی میں سات کی ہوئی تو وہ نو کی جب میں نو سال کی ہوئی تو وہ گیارہ کی، یہاں تک تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا لیکن جب میں گیارہ کی ہوئی اور وہ تیرہ کی تو اسے سب ٹوکنے لگے ’’اتنی بڑی ہو گئی؟‘‘ گنے کی پور کی طرح رات بھر میں بڑھ جاتی ہے؟ پھر وہ دوپٹہ اوڑھنے لگی اور ہر وقت دوپٹہ ہی سنبھالنے لگی۔ میں کھیلتے کھیلتے اس کے دوپٹہ سے الجھ جاتی تھی۔ کھیل میں کتنا پریشان کرتا تھا وہ دوپٹہ۔ پھر وہ مجھے دادی اماں کی طرح سمجھاتی تو ابھی چھوٹی ہے۔ تھوڑے دنوں میں تو بھی بڑی ہوجائے گی تب تجھے بھی دوپٹہ اوڑھنا پڑےگا۔‘‘
اوہ ہوں۔ میں اوڑھنے والی نہیں۔ دیکھ لینا۔
خالہ جان ماریں گی تو تیرے اچھے بھی اوڑھیں گے۔ خالہ جان وہ میری امی کو کہتی تھی۔ بھئی اس میں مارنے کی کیا بات ہے؟ میں سوچتی ہی رہ جاتی اور پھر جب میں تیرہ کی ہوئی اور وہ پندرہ کی تو میں شرم کے مارے خود بہ خود دوپٹنہ اوڑھنے لگی۔ بڑے ہونے کا وہ خوب فائدہ اٹھاتی۔ اپنی بات کو درست ثابت کرنے کا ہنر اسے خوب آتا تھا۔ جب کبھی کھیلتے میں جھگڑا ہو جاتا یا میں اس کی کوئی بات نہ مانتی وہ تین لفظ دعا بددعا یا گالی کی طرح ادا کرتی اور سکون سے ہوجاتی۔ ان تین لفظوں کا ہجا املا یا مطلب کبھی میری سمجھ میں نہیں آیا۔ یہ تین لفظ تھے ’’حطّی‘‘ کلمن، سعفص‘‘۔
ایک مرتبہ وہ اور میں گٹے کھیل رہے تھے۔ کھیلتے کھیلتے مجھے ہچکیاں آنے لگیں۔ کھیل چھوڑ کر جلدی سے وہ میرا ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گئی اور بولی ’’نام لے جلدی سے، کسی نے تجھے یاد کیا ہے۔‘‘ ’’اری کمبخت نام لے نہ جلدی سے‘‘ اس نے میری پیٹھ پر ایک دھپ لگائی لیکن کس کا؟ میں بولی۔ تو اس نے اپنا سر پکڑ لیا۔ ارے بابا کسی کا بھی۔ جو تجھے یاد کرتا ہو۔ وہ غصہ سے بولی۔
مجھے کیا معلوم کون یاد کر رہا ہے۔ کس گدھی سے پالا پڑا ہے۔ وہ بڑبڑاتی۔ میں نے ایک ایک کرکے ساری سہیلوں کے نام لے ڈالے۔ لیکن ہچکیاں نہ رکیں۔ اس نے تب بھی اپنے مفروضے کو غلط نہ مانا بلکہ مجھے ہی قصوروار ٹھہرانے لگی۔ تو پاگل ہے۔ تجھے پتہ ہی نہیں کون تجھے یاد کر سکتا ہے۔ تونے اس کا نام ہی نہیں لیا۔ وہ خود بھی میرے ساتھ نام لینے لگتی۔ تب تک تو ہچکیاں ویسے ہی تھم جاتیں اور اس کی جیت ہو جاتی۔ مگر یہ سب باتیں تو پرانی ہوکر بہت پیچھے چھوٹ گئی ہیں اور وقت بہت آگے نکل گیا ہے۔ افسوس یہ تھا کہ تنویر بھی بہت پیچھے چھوٹ گئی۔ اسے ایسی نظر لگی کہ وہ سولہ برس سے آگے ہی نہیں بڑھی۔ کتنی لمبی ہو گئی تھی وہ بیماری میں اس کے پیر پلنگ سے باہر نکلے رہتے۔ میں دن بھر میں کئی چکر اس کے پاس لگاتی، بیٹھتی اور واپس آ جاتی۔ چین ہی نہیں پڑتا تھا۔ اسے لیٹے دیکھ کر میرا دل گھبرانے لگتا۔ میں امی سے پوچھتی تنویر کو کیا ہوا ہے؟
ٹائیفائڈ۔ امی جواب دیتیں۔ لیکن ٹائیفائڈ کا وہ بخار بہت لمبا ہوتا گیا۔ شروع شروع میں تھوڑا بولتی تھی پھر دھیرے دھیرے بولنا بہت کم ہو گیا۔ جب اس کی آنکھیں اندر دھنسنے لگیں سینہ سپاٹ ہونے لگا اور اس کی مسکراہٹ مایوسی میں بدلنے لگی تب میرا دل ڈوبنے لگا۔ آہستہ آہستہ وہ بالکل خاموش ہو گئی۔ ایک دن فجر کے وقت اس کے گھر سے رونے پیٹنے کی آوازیں میرے کانوں میں پڑیں تو میں سوتے سوتے اٹھ بیٹھی اور گھبراکر کھڑکی عبور کرتی ہوئی بے تحاشہ اس کے گھر کی طرف بھاگی ملگجے اندھیرے میں کھڑکی کی چوکھٹ سے میرا سر بہت زور سے ٹکرایا۔ لیکن اس کے پاس پہنچنے کی تڑپ میں ایک لمحہ بھی میں نے ضائع نہیں کیا۔ میں اس کے پاس پہنچی تو دیکھا وہ سر سے پیر تک سفید چادر سے ڈھکی ہے اور گھر والے رو رہے ہیں۔ امی پہلے سے ہی وہاں موجود تھیں۔ مجھے یقین ہی نہیں آیا تنویر مر گئی۔ جب گلی سے اس کا جنازہ نکلا تو مجھے لگا یہ محرم کا تعزیہ نکل رہا ہے اور تنویر اور میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں۔ اچانک ریاض بھائی نے ہاتھ پکڑ کر مجھے پیچھے گھسیٹ لیا۔ میں ایک طرف ہو گئی اور نظروں سے اوجھل ہو جانے تک اس کا جنازہ دیکھتی رہی۔ گھر میں داخل ہوئی تو ایسا لگا میری گڑیوں کے سارے گھر ڈھے گئے ہیں اور سب گڑیاں اس میں دب کر مرگئی ہیں۔ میرا گڈہ راجہ تنویر کی سونی کو بیاہ کر لایا تھا۔ دو برس میں ان کے دو بچے بھی ہو گئے تھے۔ میں چیخ چیخ کر رونے لگی۔ تنوتنو پھر تو دن کاٹنے مشکل ہو گئے تھے۔ مہینوں میں اکیلے خاموشی بیٹھتی رہتی تھی۔ دوپہر کی سنسناتی لوئیں میرے وجود کو تپا دیتیں۔ امی مجھے چمکار کر اندر لے جاتیں۔ اور اپنے پاس لٹا لیتیں۔ تب تنویر کی مرثیہ پڑھتی آواز میری سماعتوں میں اور اداسی بھر دیتی۔ میں چپکے چپکے سسکیاں بھرتی رہتی۔ کئی محرم آئے اور چلے گئے لیکن تنویر کو میں کبھی نہیں بھولی۔ اس کی جدائی اکثر میری آنکھیں نم کردیتی۔ زندگی کے جانے انجانے راستوں پر وہ مجھے بارہا یاد آتی۔ اپنی شادی کے وقت اس کی کمی کا احساس ہر لمحہ میرے ساتھ تھا۔
ہچکیوں سے اس کی وابستگی مجھے ہمیشہ اس کی یاد دلاتی۔ پچھلے کئی دن سے تو میں وہی کررہی تھی جو تنویر کرتی تھی۔ ہچکیاں شروع ہوتے ہی میری زبان پر دوست احباب اور خاندان بھر کے نام آنے لگتے لیکن یہ ہچکیاں نہ رکنا تھیں نہ رکیں۔
کئی روز کی خامشی کے بعد یہ سلسلہ پھر شروع ہوا تھا۔ اس وقت میں روٹی پکا رہی تھی۔ گھونٹ گھونٹ پانی پی کر میں پورا گلاس خالی کرچکی تھی لیکن ہچکیوں کی رفتار میں کوئی فرق نہ آیا۔ میں جھنجھلا پڑی تنّو بتاتی کیوں نہیں۔ مجھے کون یادکررہا ہے؟؟ بےساختگی میں آیا میری زبان پر تنویر کا نام میری رگوں میں سنسناہٹ کے ساتھ دوڑنے لگا۔ باوجود انتظار کے مجھے اگلی ہچکی نہیں آئی۔ تنو کیا واقعی تو مجھے یاد کر سکتی ہے۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ نانی سچ کہتی تھیں مرنے کے بعد روحوں کا رشتہ محبت کرنے والوں سے برقرار رہتا ہے۔ تنو پھر تو تو یہ بھی جانتی ہوگی کہ میں تجھے بالکل نہیں بھولی۔ میں تجھے کتنا... یاد کرتی ہوں۔
تنو کے ساتھ گزرا تمام وقت مجھے یاد آنے لگا۔ اس کی زندگی کے آخری ایام اور یادوں کا سفر تمام اداسیوں کے ساتھ میرے اندر مسلسل جاری تھا۔
محرم کا مہینہ تھا میں اور تنویر امام باڑے کی جالیوں سے لگے کھڑے تھے۔ تنویر نے دعا کے لیے دونوں ہاتھ اٹھائے پھر خود ہی اس نے میرے بھی دونوں ہاتھوں کو دعا کی صورت میں بنا کر اوپر اٹھا دیا۔ کچھ دیر کے بعد اس نے دونوں ہاتھ منہ پر پھیرے اور مجھ سے بولی کیا مانگا تونے؟
میں نے؟ کچھ بھی نہیں؟
کچھ بھی نہیں؟ پاگل حطی، کلمن، سعفص جھلی کی جھلی ہی رہےگی تو۔ اس نے ہمیشہ کی طرح میرے سر پر چپت لگائی۔
تونے کیا مانگا؟
کیوں بتاؤں تجھے میں؟
بتانا؟؟
نہیں بتاتی۔
بتانا؟ میں پیچھے پڑ گئی۔
بےفکر رہ! میں نے تیرے لیے بھی مانگ لیا ہے۔
میرے لیے؟
ہاں تیرے لیے!!
لیکن کیا؟؟
وہ میرے کان کے پاس اپنا منہ کرکے دونوں ہتھیلیوں کا گھیرا بنا کر پھسپھسائی۔
’’میں نے مانا ہے ہم دونوں میں سے جس کی شادی پہلے ہوگی امام باڑے میں چاندی کا علم چڑھائےگی۔‘‘
ہاہا— ئے— تونے یہ مانگا! تجھے شادی کی بڑی جلدی ہے؟
چپ— ہر بات میں ہاء ہاء — کرتی ہے۔
پھر تو تو ہی چڑھائےگی... کیونکہ تیری شادی مجھ سے پہلے ہوگی... تو بڑی ہے نا مجھ سے۔
اس بات پر وہ شرماکر، خوشی سے، خفیف سا مسکرائی تھی۔ مجھے معلوم تھا اس کے چچازاد بھائی سے اس کا رشتہ چل رہا ہے.... لیکن... اس کا یہ ارمان... آہ۔... روتے روتے۔میرا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا... وہ محرم تنّو کا آخری محرم بن گیا۔ میری تنو مجھے معاف کر دے۔ معاف کر دے مجھے۔
دوسرے روز محرم کی دسویں تاریخ تھی۔ چاندی کا علم چڑھا کر امام باڑے سے باہر نکل رہی تھی۔ یادوں کی یلغار نے میرے وجود کو تڑپا دیا۔ رو رو کر میری ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ یکایک مجھے تنویر کی آواز آئی۔ چپ ’حطّی، کلمن، سعفص‘ میں نے ادھر ادھر دیکھا کوئی نہیں تھا! ہاں چند لمحے رک کر جب میں آگے بڑھی تو محسوس ہوا تنویر میرے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.